Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 80

سورة الأنعام

وَ حَآجَّہٗ قَوۡمُہٗ ؕ قَالَ اَتُحَآجُّوۡٓنِّیۡ فِی اللّٰہِ وَ قَدۡ ہَدٰىنِ ؕ وَ لَاۤ اَخَافُ مَا تُشۡرِکُوۡنَ بِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ رَبِّیۡ شَیۡئًا ؕ وَسِعَ رَبِّیۡ کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمًا ؕ اَفَلَا تَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿۸۰﴾

And his people argued with him. He said, "Do you argue with me concerning Allah while He has guided me? And I fear not what you associate with Him [and will not be harmed] unless my Lord should will something. My Lord encompasses all things in knowledge; then will you not remember?

اور ان سے ان کی قوم نے حجت کرنا شروع کیا آپ نے فرمایا کیا تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ اس نے مجھے طریقہ بتلا دیا ہے اور میں ان چیزوں سے جن کو تم اللہ تعالٰی کے ساتھ شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا ہاں اگر میرا پروردگار ہی کوئی امر چاہے میرا پروردگار ہرچیز کو اپنے علم میں گھیرے ہوئے ہے ، کیا تم پھر بھی خیال نہیں کرتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; وَحَأجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ ... His people disputed with him. He said: Allah states that His Khalil, Prophet Ibrahim, said when his people mentioned various doubts and disputed with him about the Tawhid that he called to: ... أَتُحَاجُّونِّي فِي اللّهِ وَقَدْ هَدَانِ ... Do you dispute with me about Allah while He has guided me. The Ayah means, do you argue with me about Allah, other than Whom there is no god worthy of worship, while He has guided me to the Truth and made me aware of it! Therefore, how can I ever consider your misguided statements and false doubts! Ibrahim said next, ... وَلاَ أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلاَّ أَن يَشَاء رَبِّي شَيْيًا ... and I fear not those whom you associate with Allah in worship. (Nothing can happen to me) except when my Lord wills something. Ibrahim said, among the proofs to the falsehood of your creed, is that these false gods that you worship do not bring about any effect, and I do not fear them or care about them. Therefore, if these gods are able to cause harm, then use them against me and do not give me respite. Ibrahim's statement, إِلاَّ أَن يَشَاء رَبِّي شَيْيًا (except when my Lord wills something), means, only Allah causes benefit or harm. ... وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ... My Lord comprehends in His knowledge all things. meaning, Allah's knowledge encompasses all things and nothing escapes His complete observation. ... أَفَلَ تَتَذَكَّرُونَ Will you not then remember! what I explained to you, considering your idols as false gods and refraining from worshipping them. This reasoning from Prophet Ibrahim is similar to the argument that Prophet Hud used against his people, `Ad. Allah mentioned this incident in His Book, when He said, قَالُواْ يَهُودُ مَا جِيْتَنَا بِبَيِّنَةٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِى ءالِهَتِنَا عَن قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُوْمِنِينَ إِن نَّقُولُ إِلاَّ اعْتَرَاكَ بَعْضُ ءَالِهَتِنَا بِسُوءٍ قَالَ إِنِّى أُشْهِدُ اللَّهِ وَاشْهَدُواْ أَنِّى بَرِىءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ مِن دُونِهِ فَكِيدُونِى جَمِيعًا ثُمَّ لاَ تُنظِرُونِ إِنِّى تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّى وَرَبِّكُمْ مَّا مِن دَابَّةٍ إِلاَّ هُوَ ءاخِذٌ بِنَاصِيَتِهَأ إِنَّ رَبِّى عَلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ They said: "O Hud! No evidence have you brought us, and we shall not leave our gods for your (mere) saying! And we are not believers in you. All that we say is that some of our gods have seized you with evil." He said: "I call Allah to witness - and bear you witness - that I am free from that which you ascribe as partners in worship with Him (Allah). So plot against me, all of you, and give me no respite. I put my trust in Allah, my Lord and your Lord! There is not a moving creature but He has grasp of its forelock. Verily, my Lord is on the straight path (the truth)." (11:53-56) Ibrahim's statement,

مشرکین کا توحید سے فرار ابراہیم علیہ السلام کی سچی توحید کے دلائل سن کر پھر بھی مشرکین آپ سے بحث جاری رکھتے ہیں تو آپ ان سے فرماتے ہیں تعجب ہے کہ تم مجھ سے اللہ جل جلالہ کے بارے میں جھگڑا کر رہے ہو؟ حالانکہ وہ یکتا اور لا شریک ہے اس نے مجھے راہ دکھا دی ہے اور دلیل عطا فرمائی ہے میں یقینا جانتا ہوں کہ تمہارے یہ سب معبود محض بےبس اور بےطاقت ہیں ، میں نہ تو تمہاری فضول اور باطل باتوں میں آؤں گا نہ تمہاری دھمکیاں سچی جانوں گا ، جاؤ تم سے اور تمہارے باطل معبودوں سے جو ہو سکے کر لو ۔ ہرگز ہرگز کمی نہ کرو بلکہ جلدی کر گزرو اگر تمہارے اور ان کے قبضے میں میرا کوئی نقصان ہے تو جاؤ پہنچا دو ۔ میرے رب کی منشا بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ضرر نفع سب اسی کی طرف سے ہے تمام جیزیں اسی کے علم میں ہیں اس پر چھوٹی سے جھوتی چیز بھی پوشیدہ نہیں ۔ افسوس اتنی دلیلیں سن کر بھی تمہارے دل نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔ حضور ہود علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کے سامنے یہی دلیل پیش کی تھی ۔ قرآن میں موجود ہے کہ ان کی قوم نے ان سے کہا اے ہود تم کوئی دلیل تو لائے نہیں ہو اور صرف تمہارے قول سے ہم اپنے معبودوں سے دست بردار نہیں ہو سکتے نہ ہم تجھ پر ایمان لائیں گے ۔ ہمارا اپنا خیال تو یہ ہے کہ ہمارے معبودوں نے تجھے کچھ کر دیا ہے ۔ آپ نے جواب دیا کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ تم جن کو بھی اللہ کا شریک ٹھہرا رہے ہو ، میں سب سے بیزار ہوں ۔ جاؤ تم سب مل کر جو کچھ مکر میرے ساتھ کرنا چاہتے ہو وہ کر لو اور مجھے مہلت بھی نہ دو ، میں نے تو اس رب پر توکل کر لیا ہے جو تمہارا میرا سب کا پالنہار ہے ۔ تمام جانداروں کی پیشانیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں ۔ سمجھو اور سوچو تو سہی کہ میں تمہارے ان باطل معبودوں سے کیوں ڈراؤں گا ؟ جبکہ تم اس اکیلے اللہ وحدہ لا شریک سے نہیں ڈرتے اور کھلم کھلا اس کی ذات کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہو ۔ تم ہی بتلاؤ کہ ہم تم میں سے امن کا زیادہ حقدار کون ہے؟ دلیل میں اعلی کون ہے؟ یہ آیت مثل آیت ( اَمْ لَهُمْ شُرَكَاۗءُ ڔ فَلْيَاْتُوْا بِشُرَكَاۗىِٕهِمْ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ ) 68 ۔ القلم:41 ) اور آیت ( اِنْ هِىَ اِلَّآ اَسْمَاۗءٌ سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ) 53 ۔ النجم:23 ) کے ہے مطلب یہ ہے کہ اس کا بندہ جو خیرو شر ، کا نفع و ضر کا مالک ہے امن والا ہوگا یا اس کا بندہ جو محض بےبس اور بےقدرت ہے قیامت کے دن کے عذابوں سے امن میں رہے گا پھر جناب باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور خلوص کے ساتھ دینداری کریں رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں امن و امان اور راہ راست والے یہی لوگ ہیں جب یہ آیت اتری تو صحابہ ظلم کا لفط سن کر چونک اٹھے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ہم میں سے ایسا کون ہے جس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو؟ اس پر آیت ( اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ) 31 ۔ لقمان:13 ) نازل ہوئی یعنی یہاں مراد ظلم سے شرک ہے ( بخاری شریف ) اور روایت میں ہے کہ حضور نے ان کے اس سوال پر فرمایا کیا تم نے اللہ کے نیک بندے کا یہ قول نہیں سنا کہ اے میرے پیارے بچے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا شرک بڑا بھاری ظلم ہے ۔ پس مراد یہاں ظلم سے شرک ہے اور روایت میں ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم جو سمجھ رہے ہو وہ مقصد نہیں اور حدیث میں آپ کا خود لظلم کی تفسیر بشرک سے کرنا مروی ہے ۔ بہت سے صحابیوں سے بہت سی سندوں کے ساتھ بہت سی کتابوں میں یہ حدیث مروی ہے ۔ ایک روایت میں حضور کا فرمان ہے کہ مجھ سے کہا گیا کہ تو ان ہی لوگوں میں سے ہے ۔ مسند احمد میں زاذان اور جریر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اے باپ کیا آپ آزر بت کو معبود مانتے ہیں؟ لیکن یہ دور کی بات ہے خلاف لغت ہے کیونکہ حرف استفہام کے بعد والا اپنے سے پہلے والے میں عامل نہیں ہوتا اس لئے کہ اس کے لئے ابتداء کلام کا حق ہے ، عربی کا یہ تو مشہور قاعدہ ہے ، الغرض حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اپنے باپ کو وعظ سنا رہے ہیں اور انہیں بت پرستی سے روک رہے ہیں لیکن وہ باز نہ آئے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ تو نہایت بری بات ہے کہ تم ایک بت کے سامنے الحاج اور عاجزی کرو ۔ جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے یقینا اس مسلک کے لوگ سب کے سب بہکے ہوئے اور راہ بھٹکے ہوئے ہیں اور آیت میں ہے کہ صدیق نبی ابراہیم خلیل نے اپنے والد سے فرمایا ابا آپ ان کی پرستش کیوں کرتے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں نہ کچھ فائدہ پہنچائیں ، ابا میں آپ کو وہ کھری بات سناتا ہوں جو اب تک آپ کے علم میں نہیں آئی تھی ، آپ میری بات مان لیجئے میں آپ کو صحیح راہ کی رہنمائی کروں گا ، ابا شیطان کی عبادت سے ہٹ جائیے ، وہ تو رحمان کا نافرمان ہے ، ابا مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو آپ پر اللہ کا کوئی عذاب آ جائے اور آپ شیطان کے رفیق کار بن جائیں ۔ باپ نے جواب دیا کہ ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے ناراض ہے؟ سن اگر تو اس سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا ، پس اب تو مجھ سے الگ ہو جا ۔ آپ نے فرمایا اچھا میرا سلام لو میں تو اب بھی اپنے پروردگار سے تمہاری معافی کی درخواست کروں گا وہ مجھ پر بہت مہربان ہے ، میں تم سب کو اور تمہارے ان معبودوں کو جو اللہ کے سوا ہیں چھوڑتا ہوں اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوتا ہوں ناممکن ہے کہ میں اس کی عبادت بھی کروں اور پھر بےنصیب اور خالی ہاتھ رہوں چنانچہ حسب وعدہ خلیل اللہ اپنے والد کی زندگی تک استغفار کرتے رہے لیکن جبکہ مرتے ہوئے بھی وہ شرک سے باز نہ آئے تو آپ نے استغفار بند کر دیا اور بیزار ہو گئے ، چنانچہ قرآن کریم میں ہے حضرت ابراہیم کا اپنے باپ کے لئے استغفار کرنا ایک وعدے کی بنا پر تھا جب آپ پر یہ کھل گیا کہ وہ دشمن اللہ ہے تو آپ اس سے بیزار اور بری ہو گئے ، ابراہیم بڑے ہی اللہ سے ڈرنے والے نرم دل حلیم الطبع تھے ، حدیث صحیح میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملاقات کریں گے آزر آپ کو دیکھ کر کہے گا بیٹا آج میں تیری کسی بات کی مخالفت نہ کروں گا ، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ اے اللہ تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ قیامت کے دن تو مجھے رسوانہ کرے گا اس سے زیادہ سوائی کیا ہو گی کہ میرا باپ رحمت سے دور کر دیا جائے ، آپ سے فرمایا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے کی طرف دیکھو ، دیکھیں گے کہ ایک بجو کیچڑ میں لتھڑا کھڑا ہے اس کے پاؤں پکڑے جائیں گے اور آگ میں ڈال دیا جائے گا ، مخلوق کو دیکھ کر خالق کی وحدانیت سمجھ میں آ جائے اس لئے ہم نے ابراہیم کو آسمان و زمین کی مخلوق دکھا دی جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ ۙ وَّاَنْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ ) 7 ۔ الاعراف:185 ) اور جگہ ہے آیت ( اَفَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۭاِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ ) 34 ۔ سبأ:9 ) یعنی لوگوں کو آسمان و زمین کی مخلوق پر عبرت کی نظریں ڈالنی چاہئیں انہیں اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھنا چاہیے اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں اگر چاہیں آسمان کا ٹکڑا ان پر گرا دیں رغبت و رجو والے بندوں کیلئے اس میں نشانیاں ہیں ۔ مجاہد وغیرہ سے منقول ہے کہ آسمان حضرت ابراہیم کے سامنے کھول دیئے گئے عرش تک آپ کی نظریں پہنچیں ۔ حجاب اٹھا دیئے گئے اور آپ نے سب کچھ دیکھا ، بندوں کو گناہوں میں دیکھ کر ان کے لئے بد دعا کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھ سے زیادہ میں ان پر رحیم ہوں بہت ممکن ہے کہ یہ توبہ کرلیں اور بد اعمالیوں سے ہٹ جائیں ۔ پس یہ دکھلاناموقوف کر دیا گیا ممکن ہے یہ کشف کے طور پر ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد معلوم کرانا اور حقائق سے متعارف کرا دینا ہو ۔ چنانچہ مسند احمد اور ترمذی کی ایک حدیث میں حضور کے خواب کا ذکر ہے کہ میرے پاس میرا رب بہت اچھی صورت میں آیا اور مجھ سے دریافت فرمایا کہ اونچی جماعت کے فرشتے اس وقت کس بارے میں گفتگو کر رہے ہیں؟ میں نے اپنی لا علمی ظاہر کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی میری دونوں بازوؤں کے درمیان رکھ دی یہاں تک کہ اس کی پوریوں رب کی بات صادق آ گئی ہے ان کے پاس چاہے تم تمام نشانیاں لے آؤ پھر بھی انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا یہاں تک کہ وہ اپنی آنکھوں سے عذاب دیکھ لیں ۔ پس رب کی حکمت اور اس کے علم میں کوئی شبہ نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

80۔ 1 جب قوم نے توحید کا یہ وعظ سنا جس میں ان کے خود ساختہ معبودوں کی تردید بھی تھی تو انہوں نے بھی اپنے دلائل دینے شروع کیے جس سے معلوم ہوا کہ مشرکین نے بھی اپنے شرک کے لیے کچھ نہ کچھ دلائل تراش رکھے تھے جس کا مشاہدہ آج بھی کیا جاسکتا ہے جتنے بھی مشرکانہ عقائد رکھنے والے گروہ ہیں سب نے اپنے اپنے عوام کو مطمئن کرنے اور رکھنے کے لیے ایسے سہارے تلاش کر رکھے ہیں جن کو وہ دلائل سمجھتے ہیں یا جن سے کم از کم دام تزویر میں پھنسے ہوئے عوام کو جال میں پھنسائے رکھا جاسکتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٣] نجوم پرست کی مخالفت :۔ اس قوم کے ہر ایک فرد کی رگ رگ میں یہ بات رچی ہوئی تھی کہ انسانی زندگی پر سیاروں کے اثرات انفرادی طور پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور اجتماعی طور پر بھی۔ پھر انہیں سیاروں کی ارواح کے خیالی مجسمے مندروں میں نصب کر کے ان کی پرستش کی جاتی تھی، انہیں نفع و نقصان کا مالک سمجھنے کی وجہ سے ان کے آگے نذریں اور قربانیاں پیش کر کے انہیں خوش رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اور اسی نظام سے ان کی سر سے پاؤں تک کی زندگی وابستہ ہوچکی تھی، ان کے سامنے سیدنا ابراہیم کا ان تمام بتوں اور مجسموں سے بےزاری کا اظہار کرنا اور پوری قوم کو گمراہ قرار دینا بھڑوں کے چھتہ کو چھیڑنے کے مترادف تھا۔ لہذا پوری قوم کی آپ سے بحث وجدال اور مخالفت شروع ہوگئی۔ سیدنا ابراہیم نے انہیں برملا کہہ دیا کہ جن جن معبودوں کو تم اللہ کے اختیار و تصرف میں شریک سمجھ رہے ہو، میں ان سے کسی ایک کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ میں اپنی زندگی اور موت، صحت اور تندرستی، خوشحالی اور تنگدستی کا مالک صرف ایک اللہ کو سمجھتا ہوں۔ اور اس کے اختیارات میں کسی کو رتی بھر شریک نہیں سمجھتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَحَاۗجَّهٗ قَوْمُهٗ ۔۔ : قوم کے ساتھ یہ مناظرہ ہوا تو ان کی قوم نے اپنے عقیدے کے صحیح ہونے کے بہت سے دلائل پیش کیے، مثلاً انھوں نے ایک دلیل یہ پیش کی : ( اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّةٍ ) [ الزخرف : ٢٢ ] ” بیشک ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقے پر پایا ہے۔ “ نیز ابراہیم (علیہ السلام) کو دھمکی دی کہ یہ بت تمہیں آفات اور مصیبتوں میں مبتلا کردیں گے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ فرما کر ” ّٰوَقَدْ هَدٰىنِ ۭ“ (اللہ نے مجھے سیدھا راستہ بتادیا ہے) ان کی پہلی دلیل کا جواب دیا کہ یقینی دلیل کے مقابلے میں تمہارے باپ دادا کا دین بےمعنی ہے اور ان کی دھمکی کے جواب میں فرمایا کہ پروردگار کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچنی ہو تو پہنچ سکتی ہے مگر یہ تمہارے بت اور جھوٹے پروردگار میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (رازی) وَسِعَ رَبِّيْ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۭ: ہر چیز کی حقیقت و اصلیت کا علم میرے رب کو ہے، اس لیے وہی بتاسکتا ہے کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ہے، جب اس نے مجھے ہدایت کا علم عطا فرما دیا ہے تو پھر ہدایت کوئی اور چیز کیسے ہوسکتی ہے، تو کیا تم اتنا بھی نہیں سوچتے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَحَاۗجَّہٗ قَوْمُہٗ۝ ٠ۭ قَالَ اَتُحَاۗجُّوْۗنِّىْ فِي اللہِ وَقَدْ ہَدٰىنِ۝ ٠ۭ وَلَآ اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِہٖٓ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ رَبِّيْ شَـيْــــًٔـا۝ ٠ۭ وَسِعَ رَبِّيْ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا۝ ٠ۭ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ۝ ٨٠ حاجَّة والمُحاجَّة : أن يطلب کلّ واحد أن يردّ الآخر عن حجّته ومحجّته، قال تعالی: وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام/ 80] ، فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران/ 61] ، وقال تعالی: لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 65] ، وقال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران/ 66] ، وقال تعالی: وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر/ 47] ، وسمّي سبر الجراحة حجّا، قال الشاعر : يحجّ مأمومة في قعرها لجف الحاجۃ ۔ اس جھگڑے کو کہتے ہیں جس میں ہر ایک دوسرے کو اس کی دلیل اور مقصد سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام/ 80] اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے خدا کے بارے میں ( کیا بحث کرتے ہو ۔ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران/ 61] پھر اگر یہ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چکی ہے ۔ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 65] تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران/ 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تم کو کچھ بھی علم نہیں ۔ وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر/ 47] اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے ۔ اور حج کے معنی زخم کی گہرائی ناپنا بھی آتے ہیں شاعر نے کہا ہے ع ( بسیط) یحج مامومۃ فی قھرھا لجف وہ سر کے زخم کو سلائی سے ناپتا ہے جس کا قعر نہایت وسیع ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ وسع السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] ( و س ع ) اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] میری زمین فراخ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٠) ان کی قوم نے ان سے فضول حجت کرنا شروع کی اور ان معبودان باطل سے ڈرایا تاکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دین الہی کو چھوڑدیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم اپنے بتوں کی وجہ سے توحید خداوندی میں مجھ سے باطل حجت کرتے ہو اور مجھے ان بتوں سے ڈراتے ہو کہ میں اللہ کے دین کو چھوڑ دوں ؟ حالانکہ میرے پروردگار نے مجھے صحیح راستہ دکھا دیا ہے۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ میرے دل سے اپنی معرفت نکال لے، تب تو میں تمہارے ان بتوں سے ڈروں، میرا پروردگار اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ تم حق پر نہیں ہو کیا اتنا کچھ کلام حق سننے کے بعد بھی نصیحت نہیں حاصل کرتے ؟

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٠ (وَحَآجَّہٗ قَوْمُہٗ ط) ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے آپ ( علیہ السلام) سے حجت بازی شروع کردی کہ یہ تم نے کیا کہہ دیا ہے ‘ تمام دیوی دیوتاؤں کی نفی کردی ‘ سارے ستاروں اور چاند سورج کی ربوہیت سے انکار کردیا ! اب ان دیوی دیوتاؤں اور ستاروں کی نحوست تم پر پڑے گی۔ اب تم انجام کے لیے تیار ہوجاؤ ‘ تمہاری شامت آنے ہی والی ہے۔ (قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰہِ وَقَدْ ہَدٰنِط وَلَآ اَخَافُ مَا تُشْرِکُوْنَ بِہٖٓ اِلَّآ اَنْ یَّشَآءَ رَبِّیْ شَیْءًا ط) ۔ ہاں اگر اللہ چاہے کہ مجھے کوئی تکلیف پہنچے ‘ کوئی آزمائش آجائے تو ٹھیک ہے ‘ کیونکہ وہ میرا خالق اور میرا رب ہے ‘ لیکن اس کے علاوہ مجھے کسی کا کوئی خوف نہیں ‘ نہ تمہاری کسی دیوی کا ‘ نہ کسی دیوتا کا ‘ نہ کسی ستارے کی نحوست کا اور نہ کسی اور کا۔ (وَسِعَ رَبِّیْ کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًاط اَفَلاَ تَتَذَکَّرُوْنَ ) میرے رب کا علم ہر شے کو محیط ہے۔ تو کیا تم لوگ سوچتے نہیں ہو ‘ عقل سے کام نہیں لیتے ہو ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

54. The word used here is tadhakkur which conveys the sense that somebody who had been either heedless or negligent of something suddenly wakes up to its true meaning. The purpose of Abraham's statement was to recall them to their senses by reminding them that their true Lord was not uninformed about their deeds, for His knowledge encompasses everything.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :54 اصل میں لفظ تَذَکُّر استعمال ہوا ہے جس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص جو غفلت اور بھلاوے میں پڑا ہوا ہو وہ چونک کر اس چیز کو یاد کر لے جس سے وہ غافل تھا ۔ اسی لیے ہم نے اَفَلَا تَتَذَکَّرُوْنَ کا یہ ترجمہ کیا ہے ۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ تم جو کچھ کر رہے ہو ، تمہارا اصلی و حقیقی رب اس سے بے خبر نہیں ہے ، اس کا علم ساری چیزوں پر وسیع ہے ، پھر کیا اس حقیقت سے واقف ہو کر بھی تمھیں ہوش نہ آئے گا ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

29: سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حجت کرتے ہوئے ان کی قوم نے دو باتیں کہیں۔ ایک یہ کہ ہم برسوں سے اپنے باپ داداوں کو ان بتوں اور ستاروں کی پوجا کرتے دیکھ رہے تھے۔ ان سب کو گمراہ سمجھنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کا جواب پہلے جملے میں یہ دیا ہے کہ ان باپ داداوں کے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی وحی نہیں آئی تھی اور مذکورہ بالا عقلی دلائل کے علاوہ میرے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی ہے۔ لہٰذا اللہ کی دی ہوئی ہدایت کے بعد میں شرک کو کیسے درست تسلیم کرسکتا ہوں؟ دوسری بات ان کی قوم نے یہ کہی ہوگی کہ اگر تم نے ہمارے بتوں اور ستاروں کی خدائی سے انکار کیا تو وہ تمہیں تباہ کرڈالیں گے۔ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ میں ان بے بنیاد دیوتاوں سے نہیں ڈرتا بلکہ ڈرنا تمہیں چاہئے کہ تم اﷲ تعالیٰ کے ساتھ بے بنیاد دیوتاوں کو اس کی خدائی میں شریک مان رہے ہو۔ نقصان اگر پہنچا سکتا ہے تو وہ صرف اﷲ تعالیٰ ہے، کوئی اور نہیں۔ اور جو لوگ اس کی توحید پر ایمان لاتے ہیں، انہیں اﷲ تعالیٰ نے امن اور چین عطا فرمایا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(80 ۔ 81) ۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور پانی قوم کے روبرو ستارہ پرستی اور بت پرستی کی مذمت کی تو ان لوگوں کو یہ بات بری لگی اور ان لوگوں نے اس بات پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جھگڑنا شروع کیا کیونکہ ان ستارہ پرست بت پرستوں کا یہ اعتقاد ہے کہ جس طرح انسان میں جسم اور روح دو چیزیں ہیں اسی طرح زحل مشتریٰ مریخ عطارد ‘ زہرہٗ سورج ‘ چاند میں بھی روح اور جسم دوچیزیں ہیں تمام دنیا کا انتظام ان ہی روحوں کی تدبیر سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق چلتا ہے لیکن ہم لوگوں کی رسائی ان روحوں تک نہیں ہے اس لیے ان ستاروں کی مورتیں بنا کر ان روحوں سے مدد لینے کے لیے ان مورتوں کی ہم تعظیم اور پوجا کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان لوگوں کے ان اعتقاد کو یوں غلط ٹھہرایا کہ جس نے آسمان اور زمین سب کچھ پیدا کیا ہے تمام دنیا کا انتظام بھی اسی کے اختیار میں ہے ستاروں کی روحوں کو آسمان پر اتنا اختیار نہیں کہ وہ ستاروں کو روز کے طلوع غروب کے تغیر سے بچالیویں تو پھر ان روحوں سے تمام دنیا کا انتظام کیونکر متعلق ہوسکتا ہے اور وہ روحیں زمین پر ستارہ پرستوں کی کیا مدد کرسکتی ہیں اس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان لوگوں نے یہ سمجھایا کہ باپ دادا کے دین کو چھوڑنا اچھا نہیں اور حضرت ابراہیم کو ان لوگوں نے اس فہمایش میں یوں ڈرایا کہ تم جو ہمارے ٹھاکروں کی مذمت کرتے ہو تو کیا عجب ہے کہ اس کے بدلہ میں ہمارا کوئی ٹھاکر تم کو کچھ صدمہ پہنچا دیوے۔ ان لوگوں کی ان باتوں کا جواب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دیا جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے حاصل اس جواب کا یہ ہے کہ اے لوگو اللہ تعالیٰ نے غیب سے مجھ کو جن باتوں کی ہدایت کی ہے ان کے چھوڑ دینے میں تم لوگ مجھ سے جھگڑتے اور اپنے ٹھاکروں سے مجھ کو ڈراتے ہو تو میں تمہارے ٹھاکروں سے کچھ نہیں ڈرتا کیونکہ مجھے خوب معلوم ہے کہ جب تک میرا اللہ مجھ کو کوئی نقصان پہنچانا نہ چاہے اس وقت تک تمہارے ٹھاکر میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور اگر تم لوگ ذرادھیان کرو تو تمہاری سمجھ میں یہ بات خود آسکتی ہے کر جس اللہ نے اپنے علم اور ارادہ کے موافق یہ سارا جہان پیدا کیا اس کا علم کیسا وسیع ہے پھر اس اللہ نے اپنے علم غیب کے موافق جو باتیں میرے دل میں ڈالی ہیں وہ اچھی یا تمہاری بےٹھکانی باتیں اچھی ہیں کہ سارے جہان کے پیدا کرنے والے کو چھوڑ کر پتھر کی مورتوں کو تم نے اپنا معبود بنایا ہے غرض میں تو ان پتھر کی مورتوں سے کیوں ڈرنے لگا اصل ڈر تو تم کو چاہئے کہ تم اللہ کی تعظیم میں دوسروں کو شریک کرتے ہو کہ تم کو معلوم نہیں کہ نوح (علیہ السلام) سے لے کر اب تک اللہ کی تعظیم کرنے والے لوگ عذاب آسمانی سے کس طرح امن وامان میں رہے اور اللہ کی تعظیم میں فرق ڈالنے والوں کی آخر کار درگت ہوئی اور وقت پڑے پر ان کے بتوں نے کچھ بھی ان کی مدد نہ کی۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابومو سے اشعری (رح) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہدایت آسمانی کی مثال مینہ کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی فرمائی ١ ؎ ہے۔ یہ حدیث ان آیتوں کی گویا تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کنعانی قوم کے لوگ بری زمین کی طرح علم الٰہی میں ٹھہر چکے تھے اس لیے ان کے دل پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس نصیحت کا کچھ اثر نہیں ہوا بلکہ ان کے حق میں یہ نصیحت ایسی ہی رائیگاں گئی جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے :۔ ١ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ١١٠٧ باب قول اللہ وجوہ یومئذ نافرۃ الی ربھا ناظرۃ :

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:80) حاجہ۔ محاجۃ (مفاعلۃ) سے باہم حجت کرنا۔ دلیل بازی کرنا ۔ الحجۃ اس دلیل کو کہتے ہیں جو صحیح مقصد کی وضاحت کرے۔ اور دو متناقض امور میں سے ایک کی صحت کی مقتضی ہو۔ حاج اس نے حجت بازی کی۔ اس نے جھگڑا کیا۔ ھدان۔ اصل میں ھدانی ہے اس نے مجھے ہدایت دی۔ مجھے ہدایت یافتہ کیا۔ ھدایۃ سے (باب ضرب) الا ان یشاء ربی شیئا۔ اللہ میرا رب ہے کوئی تکلیف مجھے پہنچانا چاہے تو۔ (ورنہ میں ان سے نہیں ڈرتا۔ جن کو تم رب کا شریک ٹھہراتے ہو) ۔ افلا تتذکرون۔ مضارع منفی جمع مذکر حاضر۔ ہمزہ استفہامیہ۔ کیا تم نصیحت نہیں پکڑو گے۔ تم نصیحت کیوں نہیں پکڑتے (باب تفعل) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 قوم کے ساتھ یہ مناظرہ ہوا تو ان کی قوم نے عقیدہ کی صحت پر بہت سے دلائل پیش کئے مثلا انہوں نے ( انا وجد نا ابائ علی امتہ) کی دلیل پیش کی نیز حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) دھمکی دی کہ بت تمہیں آفات وبلیات میں مبتلا کردیں گے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) و قد ھدان سے پہلی لیل کا جواب دیا کہ دلیل یقینی کے مقابلے میں تمہارا دین آبا نے معنی ہے اور انکی دھمکی کے جواب میں فرمایا کہ پروردگار کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اور بات ہے مگر یہ تمہارے بت اور جھوٹے پروردگار میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (رازی)2 کہ یہ بےجان بت کچھ حقیقت نہیں رکھتے، (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 80 تا 83 : حاج (جھگڑا کیا) اتحآ جونی (کیا تم مجھ سے جھگڑتے ہو) ھدن (اس نے مجھے ہدایت دی۔ (یہاں ” ی “ گر گئی) کیف اخاف (میں کیوں ڈروں) ‘ لم ینزل (نازل نہیں کی گئی) سلطان ( دلیل۔ وجہ ۔ سبب) ای الفریقین (دونوں جماعتوں میں سے کونسی ؟ ) احق ( زیادہ حق دار ہے) ‘ لم یلبسوا ( انہوں نے نہیں ملایا) نرفع ( ہم بلند کرتے ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 80 تا 83 : ہر نظام کسی عقیدے پر قائم ہوتا ہے۔ اگر وہ عقیدہ ہی ہل جائے تو ویں سمجھ لیا جائے کہ کسی عمارت کے نیچے سے بنیادی پتھر کھینچ لیا گیا۔ نمرودی نظام میں بہت سے مصنوعی معبود تھے جن میں سب سے زیادہ اہمیت خود باشاہ وقت نمرود کی تھی۔ (یہ بادشاہ کا نام نہیں ہے بلکہ فرعون کی طرح کا لقب ہے) معبودیت کا عقیدہ اگر مسمار ہوجائے تو اس کے اقتدارکا محل مٹی کے گھر وندے کی طرح زمین پر آرہتا ہے۔ نمرود کو معبود کے مقام پر رکھنے سے ہزاوں ہزاروزیروں ‘ افسروں ‘ پنڈتوں ‘ پروہتوں اور دوسرے عقیدہ فروشوں کا مالی اور مادی مفاد وابستہ تھا۔ پھر ان کے پیچھے جاہل ‘ احمق روایت پر ست عوام جوق درجوق تھے جو لگی بندھی لکیر کے فقیر نسلاً بعد نسل چلے آرہے تھے۔ وہ سب کے سب کس طرح ٹھنڈے پیٹوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عقیدہ توحید کو برداشت کرلیتے۔ اسلام زندگی کے ہر موڑ پر اپنے اوامر ونواہی لے کر آتا ہے جو وقت کے نمرودوں کے اوامرونواہی سے ٹکراتا ہے ۔ اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کوئی ایسا فکر و عقیدہ لے کر آتے جس میں صرف پوجاپاٹ کی رسومات ہوتیں لیکن اوامر ونواہی نہ ہوتے ‘ جس کی ساری دلچسپی اندرون کلیساو بت خانہ سے ہوتی ‘ قومی اور بین الاقوامی ‘ سیاسی ‘ جنگی ‘ مالی ‘ تجارتی مسائل سے نہ ہوتی تو اہل نمرود کوئی ہنگامہ کھڑا نہ کرتے۔ لیکن وہ تو ایسا دین لے آئے تھے جس میں ساری زندگی کو اللہ کے لئے وقف کردینے کی بات تھی جس میں مصلحتوں پر سمجھوتے نہیں ہوتے۔ اس لئے اگر نمرود والے اٹھ کھڑے نہ ہوتے تو کیا کرتے۔ اسلام کی تبلیغ اور وہ بھی ایک پیغمبر کی قیادت میں مختلف تحر کی منزلوں سے گذرتی ہے۔ آیت نمبر 80 میں پہلی منزل کا ذکر ہے۔ یہ منزل افہام و تفہیم ‘ دلائل و مباحث ‘ مناظرہ اور مکالہ کی منزل تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو انداز ہ تھا کہ حکومت اور سوسائٹی اپنے مفاد کے لئے میری تحریک کے خلاف شمشیر وسنان لے کر اٹھ کھڑی ہوگی۔ (جو آتش نمرود کے معاملے میں صحیح ثابت ہوا) ۔ اسی لئے آپ نے فرمایا ” جائو۔ میں تمہارے بنائے ہوئے معبودوں سے نہیں ڈرتا۔ جھ پر کوئی تکلیف نہیں آسکتی البتہ اگر میرا رب چاہے تو اور بات ہے۔ جو کچھ بھی ہونا ہے وہ پہلے ہی سے میرے رب کے علم اور ارادے میں ہے “۔ آپ نے اللہ پر مکمل اعتماد کیا چناچہ اپنے سکون قلبی کا اظہار جس طرح کیا اس میں دعوت اور منطق پوری شان سے جلوہ گر ہے ۔ فرمایا۔ ” آخر میں تمہارے من گھڑت معبودوں سے کیوں ڈروں ؟ ۔ جب کہ تم اللہ کی شان میں شرک کرنے سے نہیں ڈرتے جس کی تمہارے پاس کوئی سند اور دلیل نہیں ہے۔ ایمان جس کی آخری منزل تقویٰ ہے صرف اللہ ہی سے تمام امیدیں وابستہ کرلینے اور صرف اللہ ہی سے خوف کھانے کا نام ہے۔ جنت کی امید اور جہنم کا خوف۔ جیسے جیسے ایمان ترقی کرتا جائے گا ‘ سکون قلبی بھی ترقی کرتا جائے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سکون قلبی کا دائمی نسخہ بتادیا ہے ” اطمینان قلب ! وہ تو ان ہی کے لئے ہے جو راہ حق پر ہیں ‘ جنہوں نے ایمان پا لیا اور جنہوں نے اپنے ایمان میں شرک کی ملاوٹ نہیں کی۔ ۔ آپ نے فریق مخالف کو للکار ا ابھی۔ ” بتائو ہم دونوں فریقوں میں کس کو اطمینان قلب کا زیادہ حق پہنچتا ہے۔ تمہارے دل اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ صرف اہل ایمان ہی ہیں۔ آیت نمبر 82 میں لفظ ظلم آیا ہے ‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کے پوچھنے پر ارشاد فرمایا کہ یہاں پر ‘ ظلم ‘ سے مراد شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے متعلق فرمایا کہ ” یہ تھی ہماری مضبوط دلیل جو ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کی قوم کے مقابلے میں سکھائی تھی۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کردیتے ہیں۔ رہتی دنیا تک اس طریقہ تبلیغ کو ‘ اس سنت ابراہیمی کو ‘ ہر مبلغ کے لئے قرآن کریم نے اپنے صفحات میں درج کردیا ہے۔ وہ کون سا مبلغ جو اطمینان قلب سے مسلح ہے۔ جو بادشاہ وقت کے خلاف اللہ کا پیغام لے کر اٹھتا ہے ‘ جو آنے والے خطرات کا صحیح اندازہ کرتا ہے اور پھر بھی ڈنکے کی چوٹ کہتا ہے کہ ” جائو میں تمہارے بنائے ہوئے معبودوں سے نہیں ڈرتا۔ جب تک میرا پروردگار نہ چاہے اس وقت تک مجھ پر کوئی تکلیف نہیں آسکتی۔ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ پہلے ہی سے میرے رب کے حکم و ارادہ میں ہے “۔ یقینا وہ مبلغ نہیں ہے جو پیغام حق سے زیادہ اپنی ناک کو عزیز رکھتا ہے۔ جو صرف بےضرر اور بےخطر باتیں پیش کرتا ہے کہ شیخ بھی خوش رہے شیطان بھی بیزار نہ ہو ‘ جس کی راہ میں نمرود ‘ ابوجہل اور ابو لہب نہیں آتے ‘ جو قرآن پڑھتا ہے اور مثالوں سے کوئی عملی سبق نہیں لیتا۔ اگر تبلیغ حق اور جہاد سے بچ کر جنت کا کوئی اور راستہ ہوتا تو تمام پیغمبر اور ان کے ماننے والے وہی راستہ اختیار کرتے ۔ اپنی جان جو کھوں میں ڈالنا کیا ضروری تھا۔ مگر پھر اللہ کے ہاں رتبے کیسے بلندہوتے۔ آگے کی آیات ان ہی باتوں کی وضاحت کرتی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ غرض قدرت وعلم دونوں اسی کے ساتھ مختص ہیں اور تمہارے الہہ کو نہ قدرت ہے نہ علم ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٨٠ تا ٨١۔ جب انسان کی فطرت راہ سلامتی سے ہٹ جاتی ہے تو وہ گمراہ ہو کر غلط راستوں پر پڑجاتی ہے ۔ وہ ان راستوں پر بہت دور نکل جاتی ہے ۔ اب زاویہ کشادہ ہوتا چلا جاتا ہے اور اس کے بازو ایک دوسرے سے دور ہوتے جاتے ہیں ۔ جس نقطے سے یہ فطرت راہ مستقیم سے ہٹ جاتی ہے وہ دور رہ جاتا ہے ۔ خود انسان اس راہ سے اتنا دور نکل جاتا ہے کہ اس کے لئے لوٹنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس قوم کو دیکھو ‘ یہ بتوں ‘ ستاروں اور سیاروں کی پرستش کررہے ہیں لیکن وہ اس تبدیلی اور تغیر کو محسوس کرنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی میں نمودار ہوئی ۔ اگر وہ معمولی غور وفکر بھی کرتے تو وہ اسے محسوس کرنے لگتے ۔ اس کے بجائے انہوں نے الٹا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے مجادلہ شروع کردیا اور احتجاج شروع کردیا ‘ حالانکہ وہ خود نہایت ہی بودے تصورات کے حامل تھے اور واضح طور پر گمراہ تھے ۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پکے مومن تھے ‘ اپنے دل و دماغ میں اور پوری کائنات میں اللہ کو پا رہے ہیں اور وہ پورے قلبی اطمینان کے ساتھ ان کو جواب دیتے ہیں۔ (آیت) ” وَحَآجَّہُ قَوْمُہُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّیْ فِیْ اللّہِ وَقَدْ ہَدَانِ (٦ : ٨٠) ” تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو ‘ میں نے تو محسوس کیا ہے کہ وہ ہاتھ پکڑ کر مجھے راہ راست پر لا رہا ہے ‘ ‘ میری چشم بصیرت کھول رہا ہے ‘ وہ اپنی طرف مجھے بلا رہا ہے ۔ مجھے اپنی معرفت نصیب کر کے اپنا مقرب بنا رہا ہے ۔ جب اس نے میرے ہاتھ پکڑ کر مجھے ہدایت دی تو وہ موجود ہے ‘ یہ میرے لئے نفسیاتی اور وجدانی دلیل ہے ۔ میں اپنے ضمیر میں اسے پاتا ہوں ‘ میں اپنے فہم کے مطابق اس کے بارے میں سوچتا ہوں اور میں اپنے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات میں اسے دیکھتا ہوں ۔ ایک بات جو میری نفسیات اور میری ضمیر و شعور میں موجود ہے کیا اس کے بارے میں تم مجھ سے الجھتے ہو ؟ میں نے کب تم سے دلیل طلب کی ہے ؟ اس نے خود مجھے اپنی طرف راہنمائی دی ہے اور یہی میری دلیل ہے ۔ (آیت) ” وَلاَ أَخَافُ مَا تُشْرِکُونَ بِہِ “ (٦ : ٨٠) ” اور میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے نہیں ڈرتا۔ “ وہ شخص جس نے اللہ کو پالیا ہو ‘ ہو شریکوں سے کیسے ڈرسکتا ہے ۔ وہ کس سے ڈرے اور کیوں ڈرے ؟ اللہ کے سوا تمام قوتیں ہیچ ہیں اور اللہ کی بادشاہت کے سوا تمام بادشاہتیں اس قابل ہی نہیں کہ ان سے خوف کھایا جائے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے پختہ ایمان اور اللہ کے مطیع فرمان ہونے کے باوجود کسی بات کو ماسوائے مشیت الہی دو ٹوک انداز میں نہ کہتے تھے ۔ وہ ہر معاملے میں الا ماشاء اللہ کہتے تھے اور ہر بات کو اللہ کے علم کی طرف لوٹاتے تھے ۔ (آیت) ” إِلاَّ أَن یَشَاء َ رَبِّیْ شَیْْئاً وَسِعَ رَبِّیْ کُلَّ شَیْْء ٍ عِلْماً (٦ : ٨٠) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جانب سے حمایت ورعایت کو اللہ کی مشیت پر چھوڑتے ہیں اور اعلان فرماتے ہیں کہ وہ مشرکین کے الہوں سے ذرہ بھر خوف نہیں کھاتے کیونکہ ان کا تکیہ اللہ کی حفاظت وحمایت پر ہے ۔ انہیں پورا یقین ہے کہ انہیں اس وقت تک کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی جب تک اللہ نہ چاہے اور اللہ علیم ہے اور اس کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے ۔ (آیت) ” وَکَیْْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَکْتُمْ وَلاَ تَخَافُونَ أَنَّکُمْ أَشْرَکْتُم بِاللّہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ عَلَیْْکُمْ سُلْطَاناً فَأَیُّ الْفَرِیْقَیْْنِ أَحَقُّ بِالأَمْنِ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ (81) ٍ ” اور آخر میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے کیسے ڈرو جبکہ تم اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو خدائی میں شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کے لئے اس نے تم پر کوئی سند نازل نہیں کی ؟ ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بےخوفی اور اطمینان کا مستحق ہے بتاؤ اگر تم علم رکھتے ہو۔ “ یہ اس شخص کا استدلال ہے جس نے اس دنیا کے حقائق کا ادراک کرلیا ہے ۔ اگر کوئی ڈرتا ہے تو ڈرے ‘ ابراہیم نہیں ڈرتا ‘ کیونکہ ابراہیم تو وہ مومن ہے جس نے اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دے دیا ہے اور اپنے راستے پر چل رہا ہے ۔ پھر وہ موجودہ عاجز و لاچار الہوں سے کیوں ڈرے ‘ چاہے وہ کسی بھی قسم کے ہوں ؟ اس لئے کہ الہ قہار وجبار حکمرانوں کی شکل میں سامنے آتے ہیں جن کی گرفت بظاہر بہت ہی سخت ہوتی ہے ۔ لیکن اللہ کی قدرت کے سامنے ان کی کچھ حیثیت نہیں ہوتی ۔ وہاں یہ بھی عاجز ہوتے ہیں اس لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جیسے موحد ایسے ضعیف اور جھوٹے خداؤں سے کس طرح ڈر سکتے ہیں حالانکہ ڈرنا مشرکیں کو چاہئے کہ انہوں نے بغیر ثبوت وبرہان کے اللہ کے ساتھ ان ضعیف خداؤں کو شریک بنا لیا ہے اور یہ اس قدر ضعیف ہیں کہ ان کے اندر کوئی قوت نہیں ہے ۔ یہ نہایت ہی اہم سوال ہے کہ ہم دونوں فریقوں میں سے کون سا فریق زیادہ مامون اور بےخوف ہے ؟ اللہ پر ایمان رکھنے والا یا ان ضعیف بتوں کو الہ ماننے والا جن کو وہ اللہ جل شانہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہے اور آنکھوں سے دیکھ بھی رہے ہیں کہ ان کو کوئی اقتدار اور قوت حاصل نہیں ہے ۔ افسوس ہے کہ ان کے پاس فہم وادراک کی کوئی بصیرت نہیں ہے اس سوال کے جواب میں وحی آتی ہے اور اس قضیے کا فیصلہ یوں ہوتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قوم کی حجت بازی کا جواب : باوجود یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ستارہ پرستوں کو دلیل سے عاجز کردیا۔ اور بتادیا کہ جس کے قبضہ قدرت میں ان چھوٹے بڑے ستاروں کا تصرف ہے جس کے حکم سے یہ طلوع غروب ہوتے ہیں صرف وہی عبادت اور پرستش کے لائق ہے اور کسی بھی مخلوق کی عبادت کرنا یہ خالق ومالک کے ساتھ شرک کرنا ہے جو عقلی طور پر بھی بد ترین چیز ہے، اور اپنے بارے میں موحد ہونے اور شرک سے بیزار ہونے کا اعلان فرما دیا تب بھی ان کی قوم نے حجت بازی جاری رکھی۔ وہ کہنے لگے کہ تم کیسے کہتے ہو یہ چیزیں عبادت کے لائق نہیں۔ ہم تو اپنے باپ دادوں کو ان کی عبادت کرتے ہوئے دیکھتے آئے ہیں، تم ہم سے ہمارا دین چھڑوانا چاہتے ہو۔ حالانکہ تم کو بھی ہمارے دین میں آجانا چاہیے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا (اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰہِ وَ قَدْ ھَدٰینِ ) (کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو حالانکہ اس نے مجھے ہدایت دی) جب مجھے ہدایت مل گئی جس کو میں پوری طرح بصیرت سے ہدایت سمجھتا ہوں تو اب معبود حقیقی کو کیسے چھوڑ دوں اسی نے مجھے ہدایت دی ہے اور اسی سے میں ہر طرح کی خیر کی امید رکھتا ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے معبود سے ڈرایا ہوگا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے واضح طور پر فرما دیا کہ (وَ لَآ اَخَافُ مَا تُشْرِکُوْنَ بِہٖٓ) (کہ جن چیزوں سے مجھ کو ڈراتے ہو میں ان سے نہیں ڈرتا) یہ تو خود بےجان ہیں۔ نفع و ضرر کے مالک نہیں۔ مزید فرمایا (اِلَّآ اَنْ یَّشَآءَ رَبِّیْ شَیْءًا) (تمہارے یہ معبود ان باطلہ تو کچھ بھی ضرر اور نقصان نہیں پہنچا سکتے ہاں میرا رب ہی اگر چاہے تو ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی نقصان یا تکلیف پہنچ جائے۔ میرے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ (اَفَلَا تَتَذَکَّرُوْنَ ) (کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے) دلیل سے عاجز ہوجانے کے بعد اور یہ جاننے کے بعد کہ تمہارے معبود ان باطلہ کچھ نفع اور ضرر نہیں پہنچا سکتے شرک پر اڑے ہوئے ہو تمہاری سمجھ میں آجانا چاہئے اور تمہیں نصیحت قبول کرنی چاہیے۔ قال صاحب الروح ج ٧ ص ٢٠٥ ای اتعر ضون بعد ما او ضحتہ لکم عن التامل فی ان اٰلھتکم بمعزل عن القدرۃ علی شی ما من النفع اور الضرر فلا تتذکرون انھا غیر قادرۃ عَلیٰ اضراری۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

85 جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی طرف سے مامور ہو کر شرک کی مذمت کی تو ان کی مشرک قوم ان سے جدال و مخاصمت پر اتر آئی تو انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اللہ کی توحید کے بارے میں مجھ سے جھگڑا کرتے ہو۔ حالانکہ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے دلائل ثلثہ یعنی عقلی، نقلی توحید کی سیدھی راہ دکھائی ہے فِی اللہِ یہاں مضاف محذوف ہے۔ ای فی توحیدہ وقد ھدانی الی التوحید (مدارک ج 2 ص 16) ای بالدائل الثلاثۃ۔ 86 یہ سوال مقدر کا جواب ہے مشرکین نے دوران مخاصمت یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے معبودوں کی مخالفت چھوڑ دو ورنہ وہ تمہیں نقصان پہنچائیں گے تو اس کا جواب دیا کہ جن کو تم کارساز اور متصرف سمجھ کر اللہ کی عبادت اور پکار میں شریک کرتے ہو وہ بالکل بےبس ہیں میں ان سے ہرگز نہیں ڈرتا۔ ہاں اگر مجھے کوئی نقصان پہنچ بھی گیا تو میں سمجھوں گا کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ میرے رب کا علم ہر چیز پر حاوی اور ہر شئ کو محیط ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

80 اور ان دلائل واضحہ اور براہین قاطعہ کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کج بحثی اور بےہودہ حجت بازی اور جھگڑنا شروع کردیا یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے بتوں سے ڈرایا اور خوف دلایا اور باپ دادا کا نام لے کر اپنے طریقہ کو درست بتایا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی ذات وصفات کے بارے میں تم مجھ سے کج بحثی اور جھگڑا کرتے ہو اور مناظرہ سے شکست کھا کر اب مکابرہ اور مجادلہ پر اتر آئے ہو حالانکہ اس اللہ تعالیٰ نے مجھ کو صحیح طریقہ بتادیا ہے اور میری صحیح رہنمائی فرمائی ہے اور میں ان چیزوں کے ضرر سے بالکل نہیں ڈرتا جن کو تم اللہ کا شریک قرار دیتے ہو خواہ وہ بت ہوں یا ستارے میرا یہ کچھ نہیں بگاڑ سکتے مگر ہاں میرا پروردگار اگر کچھ چاہے اور مجھ کو کوی صدمہ پہنچانا چاہیتو وہ پہونچا سکتا ہے اور میرے رب کی وسعت علم نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے تو کیا تم لوگ کچھ سوچتے سمجھتے نہیں یعنی جس طرح وہ قادر مطلق نفع اور ضرر کا مالک ہے اسی طرح اس کے علم نے بھی ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے تمہارے معبود نہ قدرت رکھتے ہیں نہ علم اتنی بات بھی خیال نہیں کرتے کہ ڈرنے اور خوف کھانے کے لائق کون ہے۔