Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 84

سورة الأنعام

وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ ؕ کُلًّا ہَدَیۡنَا ۚ وَ نُوۡحًا ہَدَیۡنَا مِنۡ قَبۡلُ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ وَ اَیُّوۡبَ وَ یُوۡسُفَ وَ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿ۙ۸۴﴾

And We gave to Abraham, Isaac and Jacob - all [of them] We guided. And Noah, We guided before; and among his descendants, David and Solomon and Job and Joseph and Moses and Aaron. Thus do We reward the doers of good.

اور ہم نے ان کو اسحاق دیا اور یعقوب ہر ایک کو ہم نے ہدایت کی اور پہلے زمانے میں ہم نے نوح کو ہدایت کی اور ان کی اولاد میں سے داؤد کو اور سلیمان کو اور ایوب کو اور یوسف کو اور موسیٰ کو اور ہارون کو اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ibrahim Receives the News of Ishaq and Ya`qub During His Old Age Allah states that after Ibrahim became old and he, and his wife, Sarah, lost hope of having children, He gave them Ishaq. The angels came to Ibrahim on their way to the people of Prophet Lut (to destroy them) and they delivered the good news of a child to Ibrahim and his wife. Ibrahim's wife was amazed at the news, قَالَتْ يوَيْلَتَا ءَأَلِدُ وَأَنَاْ عَجُوزٌ وَهَـذَا بَعْلِى شَيْخًا إِنَّ هَـذَا لَشَىْءٌ عَجِيبٌ قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَـتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ She said (in astonishment): "Woe unto me! Shall I bear a child while I am an old woman, and here is my husband, an old man! Verily! This is a strange thing!" They said: "Do you wonder at the decree of Allah The mercy of Allah and His blessings be on you, O the family (of Ibrahim). Surely, He (Allah) is All-Praiseworthy, All-Glorious." (11:72-73) The angels also gave them the good news that Ishaq will be a Prophet and that he will have offspring of his own. In another Ayah, Allah said; وَبَشَّرْنَـهُ بِإِسْحَـقَ نَبِيّاً مِّنَ الصَّـلِحِينَ And We gave him the good news of Ishaq a Prophet from the righteous.(37:112), which perfects this good news and completes the favor. Allah said, بِإِسْحَـقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَـقَ يَعْقُوبَ (of Ishaq, and after him, of Ya`qub... (11:71), meaning, this child will have another child in your lifetime, so that your eyes are comforted by him, just as your eyes will be comforted by his father. Certainly, one becomes jubilant and joyous when he becomes a grandfather, because this means that his offspring will continue to exist. It was also expected that if an elderly couple had children, due to the child's weakness, he would have no offspring. This is why Allah delivered the good news of Ishaq and of his son Yaqub, whose name literally means `multiplying and having offspring'. This was a reward for Ibrahim who left his people and migrated from their land so that he could worship Allah alone. Allah compensated Ibrahim with better than his people and tribe when He gave him righteous children of his own, who would follow his religion, so that his eyes would be comforted by them. In another Ayah, Allah said; فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَـقَ وَيَعْقُوبَ وَكُلًّ جَعَلْنَا نَبِيّاً So when he turned away from them and from those whom they worshipped besides Allah, We gave him Ishaq and Yaqub, and each one of them We made a Prophet. (19:49) Allah said here, وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ كُلًّ هَدَيْنَا ... And We bestowed upon him Ishaq and Yaqub, each of them We guided, Allah said; ... وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ ... and before him, We guided Nuh..., meaning, We guided Nuh before and gave him righteous offspring, just as We guided Ibrahim and gave him righteous children. Qualities of Nuh and Ibrahim Each of these two Prophets had special qualities. When Allah caused the people of the earth to drown, except those who believed in Nuh and accompanied him in the ark, Allah made the offspring of Nuh the dwellers of the earth thereafter. Ever since that occurred, the people of the earth were and still are the descendants of Nuh. As for Ibrahim, Allah did not send a Prophet after him but from his descendants. Allah said in other Ayat, وَجَعَلْنَا فِى ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَـبَ And We ordained among his (Ibrahim's) offspring Prophethood and the Book. (29:27) وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحاً وَإِبْرَهِيمَ وَجَعَلْنَا فِى ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَـبَ And indeed, We sent Nuh and Ibrahim, and placed in their offspring Prophethood and the Book. (57:26) and, أُولَـيِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّيْنَ مِن ذُرِّيَّةِ ءادَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَهِيمَ وَإِسْرَءِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَأ إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ ءايَـتُ الرَّحْمَـنِ خَرُّواْ سُجَّداً وَبُكِيّاً Those were they unto whom Allah bestowed His grace from among the Prophets, of the offspring of Adam, and of those whom We carried (in the ship) with Nuh, and of the offspring of Ibrahim and Israil and from among those whom We guided and chose. When the verses of the Most Beneficent (Allah) were recited unto them, they fell down prostrating and weeping. (19:58) Allah said in this honorable Ayah here, ... وَمِن ذُرِّيَّتِهِ ... and among his progeny... meaning, We guided from among his offspring, ... دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ ... Dawud, Suleiman..., from the offspring of Nuh, according to Ibn Jarir. It is also possible that the Ayah refers to Ibrahim since it is about him that the blessings were originally mentioned here, although Lut is not from his offspring, for he was Ibrahim's nephew, the son of his brother Maran, the son of Azar. It is possible to say that Lut was mentioned in Ibrahim's offspring as a generalization. As Allah said, أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِى قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَـهَكَ وَإِلَـهَ ابَأيِكَ إِبْرَهِيمَ وَإِسْمَـعِيلَ وَإِسْحَـقَ إِلَـهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ Or were you witnesses when death approached Yaqub When he said unto his sons, "What will you worship after me!" They said, "We shall worship your God, and the God of your fathers, Ibrahim, Ismail, Ishaq, One God, and to Him we submit." (2:133) Here, Ismail was mentioned among the ascendants of Yaqub, although he was Yaqub's uncle. Similarly Allah said, فَسَجَدَ الْمَلَـيِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى أَن يَكُونَ مَعَ السَّـجِدِينَ So the angels prostrated themselves, all of them together. Except Iblis -- he refused to be among those to prostrate. (15:30-31) Allah included Iblis in His order to the angels to prostrate, and chastised him for his opposition, all because he was similar to them in that (order), so he was considered among them in general, although he was a Jinn. Iblis was created from fire while the angels were created from light. Allah says; ... وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ

خلیل الرحمن کو بشارت اولاد اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ خلیل الرحمن کو اس نے ان کے بڑھاپے کے وقت بیٹا عطا فرمایا جن کا نام اسحق ہے اس وقت آپ بھی اولاد سے مایوس ہو چکے تھے اور آپ کی بیوی صاحبہ حضرت سارہ بھی مایوس ہو چکی تھیں جو فرشتے بشارت سنانے آتے ہیں وہ قوم لوط کی ہلاکت کیلئے جا رہے تھے ۔ ان سے بشارت سن کر مائی صاحبہ سخت متعجب ہو کر کہتی ہیں میں بڑھیا کھوسٹ ہو چکی میرے خاوند عمر سے اتر چکے ہمارے ہاں بچہ ہونا تعجب کی بات ہے ۔ فرشتوں نے جواب دیا اللہ کی قدرت میں ایسے تعجبات عام ہوتے ہیں ۔ اے نبی کے گھرانے والو تم پر رب کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں اللہ بڑی تعریفوں والا اور بڑی بزرگیوں والا ہے اتنا ہی نہیں کہ تمہارے ہاں بچہ ہو گا بلکہ وہ نبی زادہ خود بھی نبی ہو گا اور اس سے تمہاری نسل پھیلے گی اور باقی رہے گی ، قرآن کی اور آیت میں بشارت کے الفاظ میں نبیا کا لفظ بھی ہے پھر لطف یہ ہے کہ اولاد کی اولاد بھی تم دیکھ لو گے اسحاق کے گھر یعقوب پیدا ہوں گے اور تمہیں خوشی پر خوشی ہو گی اور پھر پوتے کا نام یعقوب رکھنا جو عقب سے مشتق ہے خوشخبری ہے اس امر کی کہ یہ نسل جاری رہے گی ۔ فی الواقع خلیل اللہ علیہ السلام اس بشارت کے قابل بھی تھے قوم کو چھوڑ ان سے منہ موڑا شہر کو چھوڑا ہجرت کی ، اللہ نے دنیا میں بھی انعام دیئے ، اتنی نسل پھیلائی جو آج تک دنیا میں آباد ہے ۔ فرمان الہی ہے کہ جب ابراہیم نے اپنی قوم کو اور ان کے معبودوں کو چھوڑا تو ہم نے انہیں اسحاق و یعقوب بخشا اور دونوں کو نبی بنایا ، یہاں فرمایا ان سب کو ہم نے ہدایت دی تھی اور ان کی بھی نیک اولاد دنیا میں باقی رہی ، طوفان نوح میں کفار سب غرق ہو گئے پھر حضرت نوح کی نسل پھیلی انبیاء انہی کی نسل میں سے ہوتے رہے ، حضرت ابراہیم کے بعد تو نبوت انہی کے گھرانے میں رہی جیسے فرمان ہے آیت ( وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَيْنٰهُ اَجْرَهٗ فِي الدُّنْيَا ) 29 ۔ العنکبوت:27 ) ہم نے ان ہی کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی اور آیت میں ہے آیت ( وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰهِيْمَ وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّـتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ ۚ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ) 57 ۔ الحدید:26 ) یعنی ہم نے نوح اور ابراہیم کو رسول بنا کر پھر ان ہی دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب کر دی اور آیت میں ہے یہ ہیں جن پر انعام الہی ہوا ۔ نبیوں میں سے آدم کو اولاد میں سے اور جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں لے لیا تھا اور ابراہیم اور اسرائیل کی اولاد میں سے اور جنہیں ہم نے ہدایت کی تھی اور پسند کر لیا تھا ان پر جب رحمان کی آیتیں پڑھی جاتی تھیں تو روتے گڑگڑاتے سجدے میں گر پڑتے تھے پھر فرمایا ہم نے اس کی اولاد میں سے داؤد و سلیمان کو ہدایت کی ، اس میں اگر ضمیر کا مرجع نوح کو کیا جائے تو ٹھیک ہے اس لئے کہ ضمیر سے پہلے سب سے قریب نام یہی ہے ۔ امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں اور ہے بھی یہ بالکل ظاہر جس میں کوئی اشکال نہیں ہاں اسے حضرت ابراہیم کی طرف لوٹانا بھی ہے تو اچھا اس لئے کہ کالم انہی کے بارے میں ہے قصہ انہی کا بیان ہو رہا ہے لیکن بعد کے ناموں میں سے لوط کا نام اولاد آدم میں ہونا ذرا مشکل ہے اس لئے کہ حضرت لوط خلیل اللہ کی اولاد میں نہیں بلکہ ان کے والد کا نام ماران ہے وہ آزر کے لڑکے تھے تو وہ آپ کے بھتیجے ہوئے ہاں اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ باعتبار غلبے کے انہیں بھی اولاد میں شامل کر لیا گیا جیسے کہ آیت ( اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاۗءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِيْ ) 2 ۔ البقرۃ:133 ) میں حضرت اسمعیل کو جو اولاد یعقوب کے چچا تھا باپوں میں شمار کر لیا گیا ہے ، ہاں یہ بھی خیال رہے کہ حضرت عیسیٰ کو اولاد ابراہیم یا اولاد نوح میں گننا اس بنا پر ہے کہ لڑکیوں کی اولاد یعنی نواسے بھی اولاد میں داخل ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہوئے تھے ، روایت میں ہے حجاج نے حضرت یحییٰ بن یعمر کے پاس آدمی بھیجا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تو حسن حسین کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں گنتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ قرآن سے ثابت ہے لیکن میں تو پورے قرآن میں کسی جگہ یہ نہیں پاتا ، آپ نے جواب دیا کیا تونے سورۃ انعام میں آیت ( وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَهٰرُوْنَ ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ ) 6 ۔ الانعام:84 ) نہیں پڑھا اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھا ہے کہا پھر دیکھو اس میں حضرت عیسیٰ کا نام ہے اور ان کا کوئی باپ تھا ہی نہیں تو معلوم ہوا کہ لڑکی کی اولاد بھی اولاد ہی ہے حجاج نے کہا بیشک آپ سچے ہیں اسی لئے مسئلہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی ذریت کے لئے وصیت کرے یا وقف کرے یا ہبہ کرے تو لڑکیوں کی اولاد بھی اس میں داخل ہے ہاں اگر اس نے اپنے لڑکوں کو دیا ہے یا ان پر وقف کیا ہے تو اس کے اپنے صلبی لڑکے اور لڑکوں کے لڑکے اس میں شامل ہوں گے اس کی دلیل عربی شاعر کا یہ شعر سنئے ۔ بنو نا بنوا ابنا ئنا و بنا تنا بنو ھن ابناء الرجال الا جانب یعنی ہمارے لڑکوں کے لڑکے تو ہمارے لڑکے ہیں اور ہماری لڑکیوں کے لڑکے اجنبیوں کے لڑکے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کے لڑکے بھی ان میں داخل ہیں کیونکہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنمہا کی نسبت فرمایا میرا یہ لڑکا سید ہے اور ان شاء اللہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں اللہ تعالیٰ صلح کرا دے گا ، پس نواسے کو اپنا لڑکا کہنے سے لڑکیوں کی اولاد کا بھی اپنی اولاد میں داخل ہونا ثابت ہوا اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ مجاز ہے ، اس کے بعد فرمایا ان کے باپ دادے ان کی اولادیں ان کے بھائی الغرض اصول و فروع اور اہل طبقہ کا ذکر آ گیا کہ ہدایت اور پسندیدگی ان سب کو گھیرے ہوئے ہے ، یہ اللہ کی سچی اور سیدھی راہ پر لگا دیئے گئے ہیں ۔ یہ جو کچھ انہیں حاصل ہوا یہ اللہ کی مہربانی اس کی توفیق اور اس کی ہدایت سے ہے ۔ پھر شرک کا کامل برائی لوگوں کے ذہن میں آ جائے اس لئے فرمایا کہ اگر بالفرض نبیوں کا یہ گروہ بھی شرک کر بیٹھے تو ان کی بھی تمام تر نیکیاں ضائع ہو جائیں جیسے ارشاد ہے آیت ( وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) 39 ۔ الزمر:65 ) تجھ پر اور تجھ سے پہلے کے ایک ایک نبی پر یہ وحی بھیج دی گئی کہ اگر تو نے شرک کیا تو تیرے اعمال اکارت ہو جائیں گے یہ یاد رہے کہ یہ شرط ہے اور شرط کا واقع ہونا ہی ضروری نہیں جیسے فرمان ہے آیت ( قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ ) 43 ۔ الزخرف:81 ) یعنی اگر اللہ کی اولاد ہو تو میں تو سب سے پہلے ماننے والا بن جاؤں اور جیسے اور آیت میں ہے آیت ( لَـوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّآ ڰ اِنْ كُنَّا فٰعِلِيْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:17 ) یعنی اگر کھیل تماشا بنانا ہی چاہتے ہو تو اپنے پاس سے ہی بنا لیتے اور فرمان ہے آیت ( لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۙ سُبْحٰنَهٗ ) 39 ۔ الزمر:4 ) اگر اللہ تعالیٰ اولاد کا ہی ارادہ کرتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا لیکن وہ اس سے پاک ہے اور وہ یکتا اور غالب ہے ، پھر فرمایا بندوں پر رحمت نازل فرمانے کیلئے ہم نے انہیں کتاب حکمت اور نبوت عطا فرمائی پس اگر یہ لوگ یعنی اہل مکہ اس کے ساتھ یعنی نبوت کے ساتھ یا کتاب و حکمت و نبوت کے ساتھ کفر کریں یہ اگر ان نعمتوں کا انکار کریں خواہ قریش ہوں خواہ اہل کتاب ہوں خواہ کوئی اور عربی یا عجمی ہوں تو کوئی حرج نہیں ۔ ہم نے ایک قوم ایسی بھی تیار کر رکھی ہے جو اس کے ساتھ کبھی کفر نہ کرے گی ۔ یعنی مہاجرین انصار اور ان کی تابعداری کرنے والے ان کے بعد آنے والے یہ لوگ نہ کسی امر کا انکار کریں گے نہ تحریف یا ردوبدل کریں گے بلکہ ایمان کامل لے آئیں گے ہر ہر حرف کو مانیں گے محکم متشابہ سب کا اقرار کریں گے سب پر عقیدہ رکھیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل و کرم سے ان ہی باایمان لوگوں میں کر دے ، پھر اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کر کے فرماتا ہے جن انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر ہوا اور جو مجمل طور پر ان کے بڑوں چھوٹوں اور لواحقین میں سے مذکور ہوئے یہی سب اہل ہدایت ہیں تو اپنے نبی آخر الزمان ہی کی اقتدا اور اتباع کرو اور جب یہ حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے تو ظاہر ہے کہ آپ کی امت بطور اولی اس میں داخل ہے صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں حدیث لائے ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے آپ کے شاگرد رشید حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ نے سوال کیا کہ کیا سورۃ ص میں سجدہ ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ہے پھر آپ نے یہ یہ آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی تابعداری کا حکم ہوا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اے نبی ان میں اعلان کر دو کہ یہ میں تو قرآن پہنچانے کا کوئی معاوضہ یا بدلہ یا اجرت تم سے نہیں چاہتا ۔ یہ تو صرف دنیا کیلئے نصیحت ہے کہ وہ اندھے پن کو چھوڑ کر آنکھوں کا نور حاصل کرلیں اور برائی سے کٹ کر بھلائی پا لیں اور کفر سے نکل کر ایمان میں آ جائیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

84۔ 1 یعنی بڑھاپے میں، جب کہ وہ اولاد سے ناامید ہوگئے تھے، جیسا کہ سورة ہود آیت 72، 73 میں ہے پھر بیٹے کے ساتھ ایسے پوتے کی بھی بشارت دی جو یعقوب (علیہ السلام) ہوگا، جس کے معنی یہ مفہوم شامل ہے کہ اس کے بعد ان کی اولاد کا سلسلہ چلے گا، اس لئے یہ عقب (پیچھے سے) مشتق ہے۔ 84۔ 2 ذریتہ میں ضمیر کا مرجع بعض مفسرین نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو اور بعض نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس لیے کہ ساری گفتگو انہی کے ضمن میں ہو رہی ہے لیکن اس صورت میں یہ اشکال پیش آتا ہے کہ پھر لوط (علیہ السلام) کا ذکر اس فہرست میں نہیں آنا چاہیے تھا کیونکہ وہ ذریت ابراہیم (علیہ السلام) میں سے نہیں ہیں وہ ان کے بھائی ہاران بن آزر کے بیٹے یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) لوط (علیہ السلام) کے باپ نہیں چچا ہیں لیکن بطور تغلیب انھیں بھی ذریت ابراہیم (علیہ السلام) میں شمار کرلیا گیا ہے اس کی ایک اور مثال قرآن مجید میں ہے جہاں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو اولاد یعقوب (علیہ السلام) کے آباء میں شمار کیا گیا ہے جب کہ وہ ان کے چچا تھے دیکھیے سورة بقرہ آیت 133

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كُلًّا هَدَيْنَا ۚ: یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کی راہ پر لگایا اور نبوت عطا کی۔ دیکھیے سورة مریم (٤٩) ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ “ ْ ذُرِّيَّتِهٖ میں موجود ضمیر سے مراد نوح (علیہ السلام) بھی ہوسکتے ہیں، اس لیے کہ مذکور نبیوں میں سب سے قریب نوح (علیہ السلام) ہی ہیں، امام ابن جریر (رض) نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ یہ ضمیر ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے اور کلام کے سیاق کے پیش نظر اس کو ترجیح دی جاسکتی ہے، مگر اس کے تحت مذکور انبیاء میں سے لوط (علیہ السلام) کے ذکر سے اشکال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے نہیں تھے، بلکہ ان کے بھتیجے تھے، مگر ہوسکتا ہے کہ بھتیجے کو بھی اولاد میں شمار کرلیا ہو، جیسا کہ سورة بقرہ (١٣٣) میں اسماعیل (علیہ السلام) کو یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کے آباء میں ذکر کیا ہے۔ (ابن کثیر) عیسیٰ (علیہ السلام) کو نوح (علیہ السلام) اور دوسرے قول کے مطابق ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے شمار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بیٹیوں کی اولاد بھی آدمی کی اولاد میں سے شمار ہوتی ہے، کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی نسبت صرف ماں کی طرف سے ہے، ان کا باپ نہیں تھا۔ (ابن کثیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the six verses (84-89) appearing after that, there is a list of seventeen blessed prophets, some of whom are the forefathers of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) while most are his progeny, with some being his broth¬ers or nephews. On the one hand, described in these verses is their be¬ing Divinely guided, righteous in conduct and firm on the straight path, along with the fact that Allah Ta` ala has chosen and blessed has been stressed them to serve His religion. On the other hand, it has been stressed that, in return for the sacrifice of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) who had disassociated himself from his father, community and country in the way of Allah, was it not that, much before the reward of eternal bliss in the Hereafter, Allah Ta` ala bestowed on him right here in this world too a community better than his own, a country better than his own - and blessed him with the supreme distinction that all prophets and messengers sent into the world after him upto the end of time were from among his progeny? A branch that originated from Sayyidna Ishaq (علیہ السلام) had prophets who appeared among the Bani 1sra&il. The other branch which originated from Sayyidna 1sma&il (علیہ السلام) saw the coming of the foremost and the Last among prophets, Sayyidna Muhammad al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) from among them. They all were the progeny of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) . This phenomena also punishment tells us that, though honour and salvation or disgrace and punishment really depend on one&s personal deeds, but having a prophet or man of Allah (waliy) among forefathers, or having observing ` Alims of Din and men and women of righteous conduct among children, is also a great bless¬ing as this too brings its benefits. Out of these seventeen prophets (علیہم السلام) identified in the cited verses Sayyidna Nuh (علیہ السلام) is the patriarch of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) . The rest have been called their progeny: وَمِن ذُرِّ‌يَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ (and, of his progeny, to Dawud and Sulayman ...). This poses two difficulties. The first could be about Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) who, because of his father-less birth, is a progeny of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) from the daughter&s side, that is, not a paternal grandson, instead, is a grandson from the maternal side. If so, how would calling him his progeny would be correct? Most learned Muslim scholars and jurists have answered it by saying that progeny is inclusive of both paternal and maternal grandsons. It is from here that they prove that Sayyidna Hasan and Sayyidna Hussain (رض) stand included under the progeny of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The second difficulty posed here relates to Sayyidna Lut (علیہ السلام) for he is not from among his children, but is a nephew. The answer is clear. In customary usage, referring nephew as son is very common. By mentioning the blessings of Allah on Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) in these verses, two things have been made very clear. Firstly, there is the law for anyone who sacrifices whatever he holds dear in the way of Allah, on him or her Allah bestows right here in this mortal world what is better than what he or she has surrendered in the way of Allah. Secondly, the purpose is to make the disbelievers of Makkah hear this background of things in their situation so that they may be guided right. This amounts to telling them: You do not listen to what Our prophet, Muhammad al-Mustafa is telling you. If that is so, consider these you too revere as great. So, Ibrahim and his whole progeny have all been saying the same thing - that Allah is the only object worthy of worship. Associating anyone else with Him in ` Ibadah, or suggesting that someone else is a sharer in His exclusive attributes is what disbelief and straying is. This proves that they are, even in terms of what they themselves accept as established truth, subject to censure.

اس کے بعد کی چھ آیتوں میں سترہ انبیاء (علیہم السلام) کی فہرست شمار کی گئی ہے جن میں سے بعض حضرات ابراہیم (علیہ السلام) کے آباء و اجداد ہیں، اور اکثر ان کی اولاد ہیں، اور بعض ان کے بھائی بھتیجے ہیں، ان آیتوں میں ایک طرف تو ان حضرات کا ہدایت پر ہونا، صالحین ہونا، صراط مستقیم پر ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔ اور یہ بتلایا گیا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے ہی اپنے دین کی خدمت کے لئے منتخب اور قبول فرما لیا ہے، اور دوسری طرف یہ جتلایا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی راہ میں اپنے باپ اور برادری اور وطن کو چھوڑ دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے آخرت کے درجات عالیہ اور دائمی اور بےمثال راحتوں سے پہلے دنیا میں بھی ان کو اپنی برادری سے بہتر برادری اور وطن سے بہتر وطن عطا فرمایا، اور یہ شرف عظیم عطا فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد قیامت تک جتنے انبیاء و رسل مبعوث فرمائے گئے وہ سب ان کی اولاد میں ہیں، ایک شاخ جو حضرت اسحاق (علیہ السلام) سے چلی اس میں سید الاولین و الآخرین نبی الانبیاء خاتم النبین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوئے، اور یہ سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریّت ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگرچہ عزت و ذلت اور نجات و عذاب کا اصل مدار انسان کے اپنے ذاتی اعمال پر ہے، لیکن آباء و اجداد میں کسی نبی، ولی کا ہونا یا اولاد میں علماء صلحاء کا ہونا بھی ایک بڑی نعمت ہے، اور اس سے بھی انسان کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ان سترہ انبیاء (علیہم السلام) میں جن کی فہرست آیات مذکورہ میں دی گئی ہے ایک حضرت نوح (علیہ السلام) تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جد امجد ہیں، باقی سب کو ان کی ذریت فرمایا ہے۔ (آیت) ومن ذریتہ داود و سلیمٰن الآیة، اس میں ایک اشکال تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ہوسکتا ہے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دختری اولاد میں سے ہیں، یعنی پوتے نہیں بلکہ نواسے ہیں، تو ان کو ذریت کہنا کیسے صحیح ہوگا ؟ اس کا جواب عامہ علماء و فقہاء نے یہ دیا ہے کہ لفظ ذریت پوتوں اور نواسوں دونوں کو شامل ہے، اور اسی سے استدلال کیا ہے کہ حضرات حسنین (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذریت میں داخل ہیں۔ دوسرا اشکال حضرت لوط (علیہ السلام) کے متعلق ہے کہ وہ اولاد میں نہیں بلکہ بھتیجے ہیں، لیکن اس کا جواب بھی واضح ہے کہ عرب میں چچا کو باپ اور بھتیجے کو بیٹا کہنا بہت ہی متعارف ہے۔ آیات مذکورہ میں حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰة والسلام پر انعامات الٓہیہ بیان فرما کر ایک طرف تو یہ قانون قدرت بتلا دیا گیا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی محبوب چیزوں کو قربان کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں بھی اس سے بہتر چیزیں عطا فرما دیتے ہیں، دوسری طرف مشرکین مکہ کو یہ حالات سنا کر اس طرف ہدایت کرنا مقصود ہے کہ تم لوگ محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات نہیں مانتے تو دیکھو جن کو تم بھی سب بڑا مانتے ہو یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کا پورا خاندان وہ سب یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ قابل عبادت صرف ایک ذات حق تعالیٰ ہے، اس کے ساتھ کسی کو عبادت میں شریک کرنا یا اس کی مخصوص صفات کا ساجھی بتلانا کفر و گمراہی ہے، تم لوگ خود اپنے مسلمات کی رو سے بھی ملزم ہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ۝ ٠ۭ كُلًّا ہَدَيْنَا۝ ٠ۚ وَنُوْحًا ہَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَہٰرُوْنَ۝ ٠ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ٨٤ۙ وهب الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی: وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ( و ہ ب ) وھبتہ ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ ذر الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] ( ذ ر ر) الذریۃ ۔ نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] اور میری اولاد میں سے بھی داود داود اسم أعجميّ. ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے ) موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . هرن هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب . جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٤۔ ٨٥۔ ٨٦) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ہم نے لڑکا اور پوتا دیا اور ابراہیم (علیہ السلام) واسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کو نبوت واسلام کے ساتھ اعزاز عطا کیا اور ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے نوح (علیہ السلام) کو بھی نبوت واسلام کے ذریعے اعزاز عطا کیا اور ان کی اولاد میں سے بھی یا یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے بھی اخیر تک اور داؤد (علیہ السلام) سلیمان (علیہ السلام) یوسف (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) ہارون (علیہ السلام) سب کو ہم نے نبوت واسلام عطا کیا، اسی طرح قول وفعل کے ساتھ ہم محسنین یا یہ کہ موحدین کو بدلا دیتے ہیں اور زکریا (علیہ السلام) یحییٰ (علیہ السلام) عیسیٰ (علیہ السلام) الیاس (علیہ السلام) سب ہی کو نبوت واسلام کی دولت عطا کی اور یہ سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے تھے اور سب ہی رسول تھے۔ اور ان انبیاء کرام میں سے ہر ایک کو ہم نے تمام جہان والوں پر خواہ مسلمان ہوں یا کافر، نبوت واسلام کے ذریعے فضیلت عطا کی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٤ (وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَط کُلاًّ ہَدَیْنَاج وَنُوْحًا ہَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَہٰرُوْنَط وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ) یعنی یہ لوگ ایمان کی اس بلند ترین منزل پر فائز تھے جس کے بارے میں ہم سورة المائدۃ میں پڑھ آئے ہیں : (ثُمَّ اتَّقَوْا وَاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْاط واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:84) ذریۃ ذر سے ۔ نسل۔ اولاد۔ ذرۃ ذرہ بھر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعن حضر ابراہیم ( علیہ السلام) ہی کو را پر لگایا اور نبوت عطاکی، ( دیکھئے سورة مریم آیت 49 (ف 9 ضمیر کا مرجع حضرت نوح ( علیہ السلام) ہیں اسلیے کہ وہ مذکورین سے اقراب ہیں۔ ابن جریر (رح) نے اسی کو اختیار کیا ہے، گویہ ضمیر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے اور سیاق کلام کے پیش نظر بعض نے اسی کو ترجیح دی ہے لیکن اس کے تحت مذکورین میں حضرت لو ط ( علیہ السلام) کی ذریت میں سے نہ تھے مگر ہوسکتا ہے کہ تغلیبا ان کو ذریت قرار دے دیا ہو ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 10 ۔ آیات 84 ۔ تا۔ 91 ۔ اسرار و معارف : کمال انبیاء (علیہم السلام) : ایک بہت بڑے مسئلے کو عام فہم زبان میں ایسے مضبوط دلائل کے ساتھ بیان کردینا بھی انعامات باری کی بہت بڑی دلیل ہے اللہ کریم اپنے احسانات میں شمار فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ قوم کو اس طرح لاجواب کردینے وال ازور خطابت ابراہیم (علیہ السلام) کو ہم نے عطا فرمایا تھا اور انبیاء کا کمال یہی ہوتا ہے کہ بہ تمشکل بات نہایت آسان الفاظ میں اور دلیل کے ساتھ ارشاد فرما دیتے ہیں ورنہ یوں تو فلاسفہ بڑی بڑی بحثیں لکھتے اور بیان کرتے ہیں مگر نہ آج تک کسی بات کا حتمی جواب دے سکے اور نہ عام آدمی ان کی بات کو سمجھ سکا یہ فرق اہل اللہ اور پیشہ ور مقررین میں صاف نظر آتا ہے اہل اللہ کی بات عام فہم ، دل میں اترنے والی ہوتی ہے اس لیے اکثر لوگوں کی عملی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کا سبب بنتی ہے جبکہ دوسرے مقررین یا مصنفین خوبصورت جملوں ، جچے تلے الفاظ ور انداز بیان سے لوگوں کو واہ واہ کہنے پہ مجبور سا کردیتے ہیں مگر نہ عام آدمی بات سمجھ پاتا ہے نہ کوئی مثبت تبدیلی رونما ہوتی ہے نیز یہ کسی انسان کا ذاتی کمال نہیں بلکہ یہ کمال انبیاء کو عطا ہوتا ہے پھر ان کے متبعین کو جس قدر نصیب ہو ان کی اطاعت کے نفیل ہی نصیب ہوتا ہے یہ اللہ کریم کی پسند کہ کس کو کیا عطا فرماتے ہیں فرمایا ہم جس کا چاہیں درجہ بڑھا دیں یعنی اسے کمال عطا فرما دیں اور جس قدر چاہیں عطا کردیں کہ اللہ کریم دانا تر ہے اور خوب جاننے والا ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ کس کو کیا انعام دیا جائے۔ اللہ کی راہ پر دی ہوئی قربانی ضائع نہیں جاتی : ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے لیے گھر وطن رشتہ دار قربان کردئیے تو اللہ نے انہیں بہتر گھر بہتر وطن اور بہترین رشتہ دار عطا فرمائے انہیں اولاد میں اسحاق (علیہ السلام) اور ان کو یعقوب (علیہ السلام) عطا فرمائے جو سب نبوت سے سرفراز فرمائے گئے ایسے ہی ان کے اجداد میں نوح (علیہ السلام) تھے جو اللہ کریم کے نبی تھے اگرچہ ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اور اسی نسبت سے نفع و نقصان اٹھاتا ہے مگر ہدایت اور نور ایمان نصیب ہو تو اہل اللہ کی اولاد میں سے ہونا یا اپنی اولاد میں سے کسی کو اس نعمت کا نصیب ہونا بھی بہت برکات کا سبب بنتا ہے اسی لیے یہاں ابراہیم (علیہ السلام) کے جد امجد اور ان کی اولاد اور بھتیجوں کی نبوت کا تذکرہ فرمایا گیا کہ ان کی ذریت میں حضرت داود ، حضرت سلیمان حضرت یوسف اور حضرت ہارون (علیہم السلام) سب اللہ کے برگزیدہ نبی تھے ارشاد ہوتا ہے کہ خلوص کے ساتھ نیکی کرنے والوں کو ہمیشہ ایسے ہی نوازا جاتا ہے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی قربانیاں بھی مثالی تھیں تو ان کو انعامات بھی مثالی عطا فرمائے گئے حضرت زکریا ان کے فرزند حضرت یحییٰ اور عیسیٰ و الیاس (علیہم السلام) سب ہی اللہ کے مقرب بندے اور عظمت نبوت سے سرفراز تھے یہ ایک شاخ تھی جو بنی اسرائیل میں نبوت کی امین رہی اور سب سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں تھے حضرت یسع یونس اور لوط (علیہم السلام) وار دوسری طرف سیدنا اسمعیل (علیہ السلام) بھی اللہ کے نبی تھے جن کی اولاد میں آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت تمام ہوئی اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد ہمیشہ کے لیے نور نبوت انہی کے خاندان میں رہا اور ان حضرات کے خاندانوں میں سے ہی لوگ چنے جاتے رہے بعض کے اجداد میں سے اور کبھی اولاد بھائیوں میں اللہ کے انعامات تقسیم ہوتے رہے ذات باری کا انتخاب یہ ہوتا ہے کہ جسے پسند فرمایا جائے اسے سیدھے راستے کا علم بھی عطا فرمایا جاتا ہے اور توفیق عمل بھی۔ ان آیات میں سترہ انبیاء کا ذکر فرمایا گیا اور ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ ان کے رشتہ داروں میں بھی بہت سے حضرات انعامات الہی سے سرفراز ہوئے جن میں نوح (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اجداد میں باقی سب ذریت یعنی اولاد تھی حتی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی شمار فرمایا حالانکہ ان کی صرف والدہ تھیں اور اس طرح نواسے بنتے تھے یہاں علما نے استدلال فرمایا ہے کہ حضرت علی کی وہ اولاد جو حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تھی یا علی بن العاص جو حضرت زینب بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے تھے یہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذریت ہیں یاد رہے یہ وہی علی ابن العاص ہیں جنہیں فتح مکہ کے روز آپ نے اٹھا کر بیت اللہ شریف میں داخل فرم اکر حکم دیا تھا بتوں کو باہر پھینک دیں یعنی پوتے ہوں نواسے سب ذریت کہلائیں گے۔ ذریت : یہ سب ارشاد فرما کر شرک کی قباحت واضح فرما دی کہ اگر اللہ کے یہ برگزیدہ اور منتخب بندے بھی (معاذ اللہ) شرک کرتے تو ان کی تمام نیکیاں اور ساری عظمتیں خاک میں مل جاتیں اور کچھ بھی ان کے کام نہ آتا نہ صرف یہ اعلی مقام چھن جاتے بلکہ جو نیک اعمال یہ کرچکے تھے وہ بھی رد کردئیے جاتے نبی سے گناہ محال ہے اس لیے کہ نبی معصوم ہتا ہے مگر یہاں شرک کی شدت قباحت واضح کرنے کے لیے فرض محال ارشاد ہوا کہ اگر اتنی بڑی ہستیوں سے ایسا ظلم سرزد ہو تو وہ خدانخواستہ تباہ ہوجائیں چہ جائیکہ عام آدمی شرک میں بھی مبتلا ہو اور امید کرم بھی رکھے یاد رہے شرک صرف بتوں کے روبرو سجدہ ریز ہونے کا نام نہیں اصل شرک جو یہاں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے واضح فرما دی وہ یہ ہے کہ کسی کو نفع رساں سمجھ کر اللہ کے مقابلے میں اس کی اطاعت کی جائے یا کسی کے خوف سے اللہ کے مقابلے میں اس کی بات مانی جائے تو یہ شرک ہوگا اور ایسا کرنے والا مشرک خواہ زبان سے کلمہ بھی ادا کرتا رہے یہ اللہ کریم کی عطا ہے کہ اپنے کہ اپنے اطاعت شعاروں کو منزل کی راہ دکھا دیتا ہے اور اللہ کے انعامات ایسے ہی بندوں پہ رہتے ہیں جو ہر طرح کے نفع کی امید بھی اسی سے رکھتے ہیں اور نقصان کا اندیشہ بھی۔ اس کی ذات یا صفات میں کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ مدح صحابہ : مذکورہ بالا ہستیاں وہ تھیں جنہیں ہم نے نبوت ، کتاب اور پوری زندگی کے لیے بہترین راہ عمل عطا فرمائی لہذا ایک نہیں لاکھ سے زیادہ نبی مبعوث ہوئے آپ کوئی انوکھے یا نرالے مبعوث نہیں ہوئے کہ یہ بدبخت آپ کی نبوت کا انکار کرتے ہیں پہلے نظیر موجود ہے کہ اللہ کی طرف سے انبیاء مبعوث کیے جاتے ہیں اس کے باوجود اے میرے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر یہ نہ بھی مانیں تو ہم نے ایسی خوش نصیب قوم بھی مقدر کردی ہے جو آپ کی تصدیق دل و جان سے کریں گے اور کبھی کفر و انکار کی راہ کے پاس بھی نہ پھٹکیں گے مراد مہاجرین و انصار صحابہ کرام اور علماء کے مطابق قیامت تک آنے والے مسلمان بھی اس اعزاز میں شامل ہیں اور یہ سب کے لیے سرمایہ افتخار ہے کہ اللہ کریم نے ان کی تعریف فرمائی ہے رب جلیل ہم سب کو یہ سعادت ہمیشہ کے لیے نصیب فرمائے۔ آمین۔ دین بطور پیشہ : ارشاد ہو ا کہ یہ سب لوگ اللہ کریم کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے لہذا آپ بھی ان کی راہ ہی اپنائیے یعنی جس طرح ان سب حضرات نے مخلوق کی طرف سے ہر ایذا پر صبر کیا اور ہر حال میں اللہ ہی کی اطاعت کی یہی راستہ آپ کا بھی ہے یہاں علما نے بحث کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی شریعت نازل ہوئی تھی تو پہلوں کی اقتدا کرنے کا حکم کیوں اور پھر اس کے مختلف جواب ارشاد فرمائے ہیں کہ یہ اتباع عقائد توحید رسالت آخرت وغیرہ میں ہے ہر حکم میں نہیں یا جب تک کسی بات کا حکم نازل نہ ہو پہلوں کا اتباع کیا جائے مگر اس کا آسان مفہوم یہی ہے جو عرض کردیا گیا ہے کہ ایک تو کفار کو جواب مل گیا کہ محض باپ دادوں کے پیچھے چلنا مقصود نہیں بلکہ ان کا ہدایت پہ ہونا شرط ہے ہاں وہ ہدایت پر ہوں تو ضرور ان کی راہ اختیار کی جائے گی اور دوسرے یہ کہ جس طرح انہوں نے اللہ کی اطاعت کو ہر شے پہ مقدم رکھا آپ بھی یہی راہ اختیار فرمائیں اور لوگوں سے کہہ دیں کہ میں تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا کہ یہ اللہ کا کام ہے اور جس کا کام کیا جائے اجرت وہ دیا کرتا ہے لہذا کسی بھی نبی نے دین کی تبلیغ کو بطور پیشہ اختیار نہیں فرمایا بلکہ ساری ساری زندگی صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچاتے رہے یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے دین پہنچانے کو ذریعہ معاش بنا لیا ہے ان سے الفاظ تو دوسروں تک ضرور پہنچ پاتے ہیں مگر کسی کو ہدایت نصیب ہونا مشکل ہے بلکہ انہیں خود نصیب نہیں تو ان سے کسی کو کیا ملے گی ہاں اللہ کے لیے کام کرتا چلا جائے تو از خود اگر کوئی اس کی خدمت کرے تو حرج نہیں بلکہ مسلمانوں کو چاہئے ایسے حضرات کی خدمت کریں جو اپنا بیشتر وقت دین کی خدمت میں صرف کرتے ہیں مگر خود ان کو ایسی باتوں سے بےنیاز رہ کر کام کرنا چاہئے یہی انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا طریق ہے اور یہ کلام تو سارے جہانوں کے لیے باعث ہدایت ہے اور زندگی کے ہر سوال کا ایسا جواب جس سے زندگی بھی خوش گوار ہوجائے اور اللہ کریم کی خوشنودی بھی نصیب ہو۔ آخرت بھی سدھر جائے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 84 تا 88 : وھبنا (ہم نے عطا کیا) نجری (ہم بدلہ دیتے ہیں) فضلنا ( ہم نے بڑائی دی) اجتبیان ( ہم نے منتخب کرلیا۔ چن لیا) حبط ( ضائع ہوگیا) تشریح : آیت نمبر 84 تا 88 : حضرت ابراہیم ؐ نے اللہ کے بھروسے دل کے اطمینان سے مسلح ہو کر شرک کی طاقتوں کے خلاف توحید کا پرچم لے کر جس محنت ‘ قربانی اور بےخوفی کا مظاہرہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے دوسرے انعامات کے علاوہ انہیں پیغمبروں کا جدا مجد بنادیا۔ یہاں پر جن سترہ پیغمبروں کے نا لئے گئے ہیں ان میں ایک حضرت نوح (علیہ السلام) خود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جد امجد تھے۔ پیغمبر ہونا ‘ پیغمبر کا باپ دادا وغیرہ ہونا ‘ پیغمبر کا بیٹا (بیٹی) پوتا (پوتی) نواسا ( نواسی) ‘ بھانجا ( بھانجی) بھتیجا (بھتیجی) بھائی (بہن) وغیرہ ہونا بڑی نعمت ہے بشر طی کہ وہ خودراہ ہدایت پر ہوں۔ اسی لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتنی تعظیم اور تکریم ہر قوم میں پائی جاتی ہے خواہ وہ یہودی ہوں ‘ عیسائی ہوں یا مسلمان ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرمادیا کہ عام انسان تو الگ رہے گار کہیں پیغمبروں میں سے (نعوذ باللہ) کسی نے ذرہ برابر بھی شرک کیا ہوتا تو ان کے نیک کاموں کا اجر ملیا میٹ ہوجاتا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ مشرک ہزار نیک کام بھی کرے اسے اجر نہیں ملے گا ہاں مشرک کے برے کاموں کی سزا اس کو ضرور مل کر رہے گی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نہ صرف دلائل کے اعتبار سے برتری عنایت فرمائی تھی بلکہ رہتی دنیا تک امامت کے منصب سے سرفراز کرتے ہوئے انبیاء کی صورت میں نیک اولاد عنایت فرمائی جنھوں نے ان کے مشن کو جاری وساری رکھا تاآنکہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دین حنیف کا پھر یرا پوری دنیا میں سربلند فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تن تنہا اپنے باپ، قوم اور حاکم و قت کے سامنے ڈٹے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف دلائل کے اعتبار سے انھیں اپنی قوم پر برتری عنایت فرمائی بلکہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ پوری دنیا کی امامت سے سرفراز کیا گیا اور ان کی دعوت کو چار سو پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی اولاد اور وارث نصیب فرمائے کہ جن میں اولوالعزم انبیاء عظیم الشان خلفاء پیدا ہوئے۔ ان میں ایسی شخصیات بھی تھیں جو بیک وقت منصب خلافت و نبوت پر فائز ہوئیں اور انھوں نے توحید کی دعوت کو دنیا میں عام کیا۔ یہاں ان انبیاء کا نام بنام ذکر کیا گیا ہے جو انفرادی اوصاف کے اعتبار سے باقی انبیاء سے برتر تھے۔ جس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے جو اوصاف ان شخصیات میں پائے جاتے تھے وہ سب کے سب نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات میں ودیعت کردیے گئے ہیں۔ ان انبیاء (علیہ السلام) کو ایک دوسرے کے باپ، اولاد اور بھائی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ان کو اپنے کام کے لیے منتخب فرما کر صراط مستقیم کی ہدایت سے نوازا تھا۔ اس بات کی وضاحت بھی کردی گئی کہ ہدایت وہی ہوتی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے اور وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے ہدایت کی دولت سے مالا مال فرماتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٨٤ تا ٩٠۔ (آیت) ” وَمِنْ آبَائِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ وَإِخْوَانِہِمْ “۔ (٦ : ٨٧) ” اور ان کے آباء ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے ۔ “ اور اس قافلہ ایمان پر جو تبصرے کئے گئے ہیں ۔ (آیت) ” وَکَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ (84) ” اور ہم نیک کام کرنے والوں کو اسی طرح جزاء دیتے ہیں ۔ (آیت) ” وَکُلاًّ فضَّلْنَا عَلَی الْعَالَمِیْنَ (٦ : ٨٦) ” اور ان سب کو ہم نے تمام جہان والوں پر فضیلت دی ۔ “ اور (آیت) ” وَإِخْوَانِہِمْ وَاجْتَبَیْْنَاہُمْ وَہَدَیْْنَاہُمْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (87) ” اور ہم نے انہیں منتخب کیا اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت کی ۔ “ ان تمام تبصروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قافلہ رسل کس قدر قابل قدر اور کس قدر منتخب لوگوں پر مشتمل تھا اور یہ کہ یہ صحیح راہ کی طرف ہدایت یافتہ تھا ۔ اس گروہ کو اس انداز میں پیش کرنا اور اس کو اس شکل و صورت میں اجاگر کرنا دراصل ایک اہم بات کہنے کے لئے تمہید کے طور پر تھا ۔ بات یہ تھی : (آیت) ” ذَلِکَ ہُدَی اللّہِ یَہْدِیْ بِہِ مَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَلَوْ أَشْرَکُواْ لَحَبِطَ عَنْہُم مَّا کَانُواْ یَعْمَلُونَ (88) ” یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ساتھ وہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے ۔ “ لیکن اگر کہیں ان لوگوں نے شرک کیا ہوتا تو ان کا سب کیا کرایا غارت ہوجاتا “۔ یہ فیصلہ ہے اس امر کا کہ اس کرہ ارض پر ہدایت کے سرچشمے کون سے ہیں ؟ تو انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کی وہ تعلیمات ہیں جو رسولوں کے ذریعے بھیجی گئیں اور ان ہدایات الہیہ میں سے جو ہدایات یقینی طور پر ثابت اور محفوظ ہیں وہ اسی منبع اور سرچشمہ قرآن میں ہیں جس کے بارے میں اللہ کا فیصلہ ہے کہ یہی اس کی ہدایت ہے ۔ اور یہ کہ یہ ہدایت اپنے مختار بندوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ہی بھیجتا ہے ۔ اگر یہ مختار بندے بھی اس راہ کو چھوڑ دیں اور ہدایت کے اس سرچشمے کو ترک کردیں جس سے وہ ہدایات لیتے ہیں اور نظریات و اعمال اور عقیدہ و عبادت میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کردیں تو ان کا انجام بھی یہ ہوگا کہ ان کے تمام اعمال اکارت جائیں گے ‘ ضائع ہوجائیں گے اور وہ اس طرح ہلاک ہوجائیں گے جس طرح کوئی جانور زہریلی گھاس کھا کر پھول جاتا ہے اور اس کی موت واقعہ ہوجاتی ہے ۔ ” حبط “ کے لغوی معنی یہی ہیں ۔ (آیت) ” أُوْلَـئِکَ الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ فَإِن یَکْفُرْ بِہَا ہَـؤُلاء فَقَدْ وَکَّلْنَا بِہَا قَوْماً لَّیْْسُواْ بِہَا بِکَافِرِیْنَ (89) ” یہ وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی تھی ۔ اب اگر یہ لوگ اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو (پرواہ نہیں) ہم نے کچھ اور لوگوں کو یہ نعمت سونپ دی ہے جو اس سے منکر نہیں ہیں ۔ “ یہ دوسرا نتیجہ ہے پہلی تنقیح میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مصدر ہدایت اللہ ہے ۔ اللہ کی ہدایت وہ ہے جو رسولوں کے ذریعے سے انسانوں تک پہنچی ہو ۔ دوسری میں یہ کہا گیا کہ جن رسولوں کا ذکر کیا گیا اور جن کی طرف مجمل اشارہ کیا گیا یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے کتاب ‘ حکمت ‘ حکومت اور نبوت عطا کی ۔ اس آیت ” حکم “ اپنے دونوں مفاہیم میں استعمال ہوا ہے ۔ بمعنی حکومت بھی استعمال ہوتا ہے اور حکم بمعنی مملکت سلطلنت اور اقتدار بھی استعمال ہوتا ہے اور اس آیت میں دونوں معنی مراد ہو سکتے ہیں ۔ ان رسولوں میں سے بعض پر تو کتاب نازل کی گئی مثلا تورات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ‘ زبور ‘ حضرت داؤد (علیہ السلام) پر ‘ انجیل حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اور بعض کو اقتدار دیا گیا ۔ مثلا داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کو اور ہر ایک کو اس معنی میں اقتدار اعلی دیا گیا کہ اس کے پاس جو ہدایت ہے وہ اللہ کی جانب سے ہے اور جو دین وہ لے کر آئے ہیں لوگوں پر اسی کی حکمرانی ہوگی ۔ اللہ نے جو رسول بھی بھیجے ہیں وہ اس لئے بھیجے ہیں کہ ان کی اطاعت کی جائے اور اللہ نے جو کتاب بھی بھیجی ہے وہ اس لئے بھیجی ہے کہ لوگوں کے درمیان اس کتاب کے مطابق فیصلے کئے جائیں جیسا کہ دوسری آیات میں آتا ہے کہ تمام نبیوں کو حکم اور نبوت دیا گیا ۔ اللہ نے اپنا دین ان ہی کے حوالے کیا تاکہ وہ لوگوں تک اسے پہنچائیں ۔ خود اس دین پر قائم رہیں ایمان لائیں اور اس کی حفاظت کریں ۔ اگر مشرکین عرب اللہ کی کتاب ‘ اس کی حکومت اور نبوت کا انکار کردیں تو اللہ کا دین انکا محتاج نہیں ۔ اللہ کے نبی اور ان کے ساتھی اس دین کے لئے کافی ہیں ۔ یہ دین ایک پرانی حقیقت ہے اور اس درخت کی جڑیں دور تک تاریخ کے اندر پھیلی ہوئی ہیں ۔ رسولوں کی کڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ‘ ایک کے بعد دوسرا آیا ہے اور وہی دعوت لے کر آیا ہے ۔ جس کی قسمت میں اللہ نے ہدایت یافتہ ہونا لکھ دیا تھا اس نے ان سے ہدایت لی کیونکہ یہ اللہ ہی جانتا تھا کہ کون ہدایت کا مستحق ہے۔ یہ وہ تبصرہ ہے جس کے ذریعے مومنوں کے دلوں کو یقین و اطمینان کے ساتھ بھر دیا جاتا ہے ‘ ہر دور کا گروہ مومن ان ہدایات سے اطمینان حاصل کرسکتا ہے ۔ چاہے تعداد میں وہ کم ہو یا زیادہ ہو ‘ کیونکہ یہ اللہ ہی جانتا تھا کہ کون ہدایت کا مستحق ہے ۔ یہ وہ تبصرہ ہے جس کے ذریعے مومنوں کے دلوں کو یقین و اطمینان کے ساتھ بھردیا جاتا ہے ‘ ہر دور کا گروہ مومن ان ہدایات سے اطمینان حاصل کرسکتا ہے ۔ چاہے تعداد میں وہ کم ہو یا زیادہ ہو ‘ کیونکہ تحریک اسلامی کے ساتھی چاہے کم ہوں اکیلے نہیں ہوتے ۔ پوری تاریخی اسلامی ان کی پشت پر ہے ۔ یہ ایک ایسا پودا ہے جس کی جڑیں زمین کے اندر دور تک گئی ہوئی ہیں اور اس کی شاخیں فضا میں دور تک بلند ہیں ۔ یہ تحریک ایک عظیم تاریخی تحریک اسلامی کی ایک کڑی ہے جس کا آخری سرا اللہ تک پہنچا ہوا ہے ۔ ایک منفرد مومن ‘ اس کرہ ارض پر جہاں بھی ہو ‘ جس قوم میں بھی ہو ‘ وہ نہایت ہی طاقتور ہے اور ایک عظیم الشان حقیقت ہے ۔ وہ اس عظیم درخت کی ایک شاخ ہے جس کی جڑیں دور تک ہیں اور انسانی فطرت کی زمین کے اندر گہرائی تک چلی گئی ہیں ۔ انسانیت کے اندر دور تک پھیلی ہوئی ہیں ‘ انسانی تاریخ کے اندر گہرائی تک گئی ہوئی ہیں اور وہ واحد مومن فرد بھی قافلہ اہل ایمان کا ایک حصہ ہے اور اس کی تاریخ زمانوں تک پھیلی ہوئی ہے ۔ (آیت) ” أُوْلَـئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّہُ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ قُل لاَّ أَسْأَلُکُمْ عَلَیْْہِ أَجْراً إِنْ ہُوَ إِلاَّ ذِکْرَی لِلْعَالَمِیْنَ (90) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے ‘ انہی کے راستہ پر تم چلو اور کہہ دو کہ میں (اس تبلیغ وہدایت کے) کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ‘ یہ تو ایک عام نصیحت ہے تمام دنیا والوں کے لئے تمام دنیا والوں کے لئے۔ “ یہ ایک تیسری قرار داد ہے ۔ یہ قافلہ رسل جو اہل ایمان کی جماعت کے قائد ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے راہ ہدایت دکھائی ۔ انکے پاس اللہ کی جانب سے جو ہدایات آتی رہیں وہ نبی آخر الزمان کے لئے بھی مشعل راہ ہیں ۔ ان افراد کے لئے بھی مشعل راہ ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے ہیں ۔ لہذا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہی ہدایات پر چلیں گے اور اپنی زندگی کے تمام امور میں فیصلے انہی ہدایات سے لیں گے ۔ انہی ہدایات کی طرف پوری انسانیت کو دعوت دیں گے اور آپ امت دعوت کے سامنے یوں گویا ہوں گے ۔ (آیت) ” قل لا اسئلکم علیہ اجرا “۔ (٦ : ٩٠) ” میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتا “۔ (آیت) ” ھو الا ذکری للعلمین “۔ (٦ : ٩٠) ” یہ تو تمام جہان والوں کے لئے صرف ایک نصیحت ہے “۔ یہ نصیحت تمام لوگوں کے لئے ہے یہ کسی ایک نسل ایک قوم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور نہ قریب وبعید کے ساتھ مخصوص ہے ۔ یہ تو پوری انسانیت کے لئے ایک یاد دہانی ہے اس لئے وہ اس پر کسی اجر کا تقاضا نہیں کر رہے ۔ رسول کا اجر تو اللہ پر ہے ۔ اب آگے یہ مضمون آتا ہے کہ جو لوگ سرے سے نبوت اور رسالت کے منکر ہیں ان کا موقف درست نہیں ہے ۔ ان کی غلطی یہ ہے کہ وہ مقام الوہیت کا صحیح اندازہ نہیں کرسکے ۔ نہ اللہ کی حکمت ‘ اس کی رحمت اور اس کے انصاف کے بارے میں ان کا تصور درست ہے ۔ لہذا یہ بات جان لو کہ آخری نبوت بھی سابقہ نبوتوں اور رسالتوں کے طریق پر ہے اور یہ کتاب بھی تمام کتب سابقہ کی تصدیق وتائید کر رہی ہے ۔ تمام انبیائے سابق کی تعلیمات بھی اسی کتاب کے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ذکر کے بعد ان کے بیٹے اسحاق اور ان کے بیٹے یعقوب ( علیہ السلام) کا ذکر فرمایا اور فرمایا (کُلًّا ھَدَیْنَا) کہ ہم نے ان سب کو ہدایت دی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خود اپنی اولاد کو تعلیم دی۔ ان حضرات نے اس کو اپنایا اور باقی رکھا اور اپنی اولاد کو بھی اسی کی وصیت کی۔ پھر فرمایا (وَ نُوْحًا ھَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ ) اور اس سے پہلے ہم نے نوح کو ہدایت دی، حضرت نوح (علیہ السلام) کو آدم ثانی کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے زمانہ کے طوفان میں ہلاک ہونے کے بعد زمین پر جو دو بارہ آبادی ہوئی وہ ان کی اولاد سے پھیلی، روح المعانی ج ٧ ص ٢١١ بحوالہ معجم طبرانی حضرت ابوذر (رض) کا بیان نقل کیا ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ انبیاء کرام میں سب سے پہلے کون تھے ؟ تو فرمایا نوح (علیہ السلام) تھے ان کے اور آدم (علیہ السلام) کے درمیان دس قرن کا فاصلہ تھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو جو سب سے پہلا نبی بتایا تو یہ اولیت اضافیہ پر محمول ہے کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے نبی ہونے کی تصریح حدیث میں موجود ہے۔ (مشکوٰۃ ص ٥١٣) حضرت نوح (علیہ السلام) کا نام جو نوح مشہور ہے اس کو بعض حضرات نے عجمی یعنی غیر عربی بتایا ہے۔ علامہ کرمانی نے فرمایا ہے کہ یہ لفظ سریانی زبان کا ہے اس میں اس کا معانی ساکن کا ہے لیکن حاکم نے مستدرک میں فرمایا کہ ان کا نام عبدالغفار تھا اور ان کا نام نوح اس لیے مشہور ہوا کہ وہ خوف و خشیت کی وجہ سے اپنے نفس کے بارے میں زیادہ رونے والے تھے۔ اگر نوح لفظ عجمی ہو تو اس لیے غیر منصرف نہ ہوا کہ متحرک الاوسط نہیں ہے۔ پھر فرمایا (وَ مِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ ) اور ابراہیم کی ذریت سے ہم نے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو طریق حق کی ہدایت کی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) وہی ہیں جنہوں نے جالوت کو قتل کیا تھا اور اللہ نے ان کو نبوت اور حکومت عطا فرمائی تھی، ان کے بعد ان کے بیٹے سلیمان (علیہ السلام) بادشاہ ہوئے اور نبی بھی۔ انہوں نے بیت المقدس کی تعمیر کی تھی، اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کے بارے میں ابن جریر نے کہا تھا کہ وہ ابن موص بن روم بن عیص بن اسحاق تھے۔ اس اعتبار سے حضرت اسحاق (علیہ السلام) ان کے جدرابع ہوئے۔ مورخ ابن عسا کر سے منقول ہے کہ ان کی والدہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیٹی تھی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) تو مشہور ہی ہیں۔ وہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے پوتے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پڑپوتے تھے۔ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ الکریم ابن الکریم ابن الکریم ابن الکریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔ (رواہ البخاری ج ١ ص ٤٩٧) پھر حضرت موسیٰ و ہارون ( علیہ السلام) کا ذکر فرمایا ان دونوں کا تذکرہ قرآن مجید میں بار بار آیا ہے۔ ہارون (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی تھے اس کی تصریح قرآن مجید میں موجود ہے۔ (ھارُوْنَ اَخِی اشْدُوْبِہٖٓ اَذْرِیْ ) لیکن حقیقی بھائی تھے یا ماں شریک اس میں دونوں قول ہیں۔ موسیٰ اور ہارون دونوں غیر عربی لفظ ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ ان کو بچپن میں درختوں کے درمیان ڈال دیا گیا تھا جہاں پر پانی بھی تھا۔ قبطی زبان میں پانی کو مُوْ اور درخت کو شأ کہا جاتا ہے اس لیے ان کو مُوْشیٰ کہا جانے لگا پھر عربی میں ش، س سے بدل گیا چونکہ الف مقصورہ کی صورت میں لکھا اور پڑھا جاتا ہے اس لیے اس پر اعراب ظاہر نہیں ہوتا۔ قانون نحوی کے اعتبار سے غیر منصرف ہونا چاہیے۔ لفظ ہارون کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ عبرانی زبان میں اس کا معنی مُحِبٌّ کا ہے یعنی جو سب کو محبوب ہو۔ اس کے بعد فرمایا (وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ) ( اور اسی طرح ہم اچھے کام کرنے والوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں) ۔ یعنی جیسے ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اور ان کے بعد والے حضرات کو نوازا اور ان کے اعمال پر ان کو اچھا بدلہ عطا کیا ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں اور ہماری یہی عادت ہے۔ (روح المعانی بزیادۃ)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

90 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد اجمالی طور پر تمام انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر فرمایا ستر پیغمبروں کا ذکر نام لے کر اور باقیوں کا اشارے سے انبیاء (علیہم السلام) کے ذکر میں بھی نہایت ہی عمدہ ترتیب ملحوظ رکھی گئی۔ پہلے چاروں یعنی حضرت ابراہیم، اسحاق یعقوب اور نوح (علیہم السلام) اصول انبیاء میں پھر داود اور سلیمان (علیہما السلام) بہت بڑے بادشاہ تھے، حضرت ایوب اور یوسف (علیہما السلام) کو زندگی میں بڑی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا، موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو بڑے بڑے معجزے عطا کیے گئے۔ زکریا، یحیی، عیسیٰ اور الیاس (علیہم السلام) بہت بڑے عابد و زاہد تھے اور اسمعیل، الیسع، یونس اور لوط (علیہم السلام) کے ادیان کی زیادہ شہرت نہیں ہوئی اور نہ ان کے اتباع تھے (من البحر ج 4 ص 173) ۔ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ کی ضمیر کو اگر ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف راجع کیا جائے تو لوط (علیہ السلام) تو برادر زادہ ہونے کی وجہ سے ان کی ذریت میں شامل ہوجائیں گے لیکن یونس (علیہ السلام) اس میں شامل نہیں ہوسکتے اس لیے ضمیر کا مرجع نوح (علیہ السلام) کو بنانا ہی صحیح ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

84 اور ہم نے ابراہیم کو بیٹا اسحاق (علیہ السلام) نامی اور پوتا یعقوب (علیہ السلام) نامی عطا فرمائے اور ان دونوں میں سے ہر ایک کو ہدایت اور توفیق ہدایت عطا کی اور ہم نے اس سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کو بھی ہدایت سے سرفراز فرمایا تھا اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے دائود (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) اور ایوب (علیہ السلام) اور یوسف (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو بھی ہدایت سے نوازا تھا اور جس طرح ہم نے ان لوگوں پر اپنی نواز فرمائی تھی ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو اپنے صلہ سے نوازا کرتے ہیں اور نکو کاروں کو صلہ دیا کرتے ہیں۔