Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 88

سورة الأنعام

ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ؕ وَ لَوۡ اَشۡرَکُوۡا لَحَبِطَ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۸﴾

That is the guidance of Allah by which He guides whomever He wills of His servants. But if they had associated others with Allah , then worthless for them would be whatever they were doing.

اللہ کی ہدایت ہی ہے جس کے ذریعہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کی ہدایت کرتا ہے اور اگر فرضاً یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہوجاتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ هُدَى اللّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ ... This is the guidance of Allah with which He guides whomsoever He wills of His servants. meaning, this occurred to them by Allah's leave and because He directed them to guidance. Allah said; ... وَلَوْ أَشْرَكُواْ لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ But if they had joined in worship others with Allah, all that they used to do would have been of no benefit to them. This magnifies the serious danger of Shirk and the gravity of committing it. In another Ayah, Allah said; وَلَقَدْ أُوْحِىَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَيِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ And indeed it has been revealed to you, as it was to those (Allah's Messengers) before you: "If you join others in worship with Allah, surely your deeds will be in vain." (39:65) `If' here does not mean that this would ever occur, as is similar in Allah's statement; قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَـنِ وَلَدٌ فَأَنَاْ أَوَّلُ الْعَـبِدِينَ Say: "If the Most Beneficent had a son, then I am the first of Allah's worshippers." (43:81) and, لَوْ أَرَدْنَأ أَن نَّتَّخِذَ لَهْواً لاَّتَّخَذْنَـهُ مِن لَّدُنَّأ إِن كُنَّا فَـعِلِينَ If We intended to take a pastime (a wife or a son, etc.) We could surely have taken it from Us, if We were going to do (that). (21:17) and, لَّوْ أَرَادَ اللَّهُ أَن يَتَّخِذَ وَلَداً لاَّصْطَفَى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَأءُ سُبْحَـنَهُ هُوَ اللَّهُ الْوَحِدُ الْقَهَّارُ If Allah willed to take a son, He could have chosen whom He pleased out of those whom He created. But glory be to Him! He is Allah, the One, the Compelling. (39:4) Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

88۔ 1 اٹھارہ انبیاء کے اسمائے گرامی ذکر کر کے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے، اگر یہ حضرات بھی شرک کا ارتکاب کرلیتے تو ان کے سارے اعمال برباد ہوجاتے۔ جس طرح دوسرے مقام پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' اے پیغمبر ! اگر تو نے بھی شرک کیا تو تیرے سارے عمل برباد ہوجائیں گے، حالانکہ پیغمبروں سے شرک کا صدور ممکن نہیں۔ مقصد امتوں کو شرک کی خطرناک اور ہلاکت خیزی سے آگاہ کرنا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ ۔۔ : اٹھارہ پیغمبروں کا نام لے کر، ان کے ساتھ ان کے آباء، اولاد اور اخوان کا ذکر کر کے فرمایا کہ اگر بفرض محال نبی یا اس کے قرابت دار بھی شرک کر بیٹھتے تو ان کا کیا کرایا سب ضائع ہوجاتا۔ کیونکہ شرک کے ساتھ کوئی بڑے سے بڑا عمل بھی قبول نہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا : ( لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ ) [ الزمر : ٦٥ ] ” اگر آپ نے شرک کیا تو آپ کا بھی تمام عمل ضائع ہوجائے گا۔ “ پیغمبر سے شرک ہونا تو ممکن نہیں، یہ سب کچھ امتیوں کو سنایا جا رہا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ ہُدَى اللہِ يَہْدِيْ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۝ ٠ۭ وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ٨٨ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ حبط وحَبْط العمل علی أضرب : أحدها : أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] والثاني : أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي : «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» . والثالث : أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان . وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات . ( ح ب ط ) الحبط حبط عمل کی تین صورتیں ہیں ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔ ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٨) یہ صراط مستقیم دراصل اللہ کا دین ہے جو اس کا اہل ہوتا ہے، اس کو وہ عطا کرتا ہے اور اگر بالفرض یہ حضرات انبیاء اللہ کے ساتھ شرک کرتے تو ان کی تمام فرمانبرداری برباد ہوجاتی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٨ (ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖط وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) ۔ یہ انداز ہمیں سمجھانے کی غرض سے اختیار کیا گیا ہے کہ شرک کتنی بری شے ہے۔ ورنہ اس کا کوئی امکان نہیں تھا کہ ایسے اعلیٰ مراتب پر فائز اللہ کے عظیم الشان انبیاء و رسل شرک میں مبتلا ہوتے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرک ناقابل معافی جرم ہے ‘ جس کے بارے میں سورة النساء میں دو مرتبہ یہ الفاظ آ چکے ہیں : (اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ج) (آیت ٤٨ و ١١٦)

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

56. Had those people also ascribed partners to God like the people of Arabia, they would not have achieved the positions they had attained.Some might perhaps have earned places in the rogues' gallery of history as either ruthless conquerors or monuments to greed. But had they not shunned polytheism and adhered to their exclusive and unadulterated devotion to God, they would certainly neither have had the honour of becoming the source of light and guidance to others nor of assuming the leadership of the pious and the God-fearing.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :56 یعنی جس شرک میں تم لوگ مبتلا ہو اگر کہیں وہ بھی اسی میں مبتلا ہوئے ہوتے تو یہ مرتبے ہرگز نہ پا سکتے تھے ۔ ممکن تھا کہ کوئی شخص کامیاب ڈاکہ زنی کر کےفاتح کی حیثیت سے دنیا میں شہرت پا لیتا ، یا زر پرستی میں کمال پیدا کر کے قارون کا سا نام پیدا کر لیتا ، یا کسی اور صورت سے دنیا کے بدکاروں میں نامور بدکار بن جاتا ۔ لیکن یہ امام ہدایت اور امام المتقین ہونے کا شرف اور یہ دنیا بھر کے لیے خیر و صلاح کا سرچشمہ ہونے کا مقام تو کوئی بھی نہ پاسکتا اگر شرک سے مجتنب اور خالص خدا پرستی کی راہ پر ثابت قدم نہ ہوتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:88) حبط عن۔ الحبط (حسب یحسب) کے معنی کسی کام کے ضائع ہوجانے اور اکارت ہونے کے ہیں۔ آیۃ ہذا۔ اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو جو عمل وہ کرتے تھے سب ضائع ہوجاتے۔ ارشاد ہے لیحبطن عملک (39:65) تو یقینا تمہارے عمل برباد ہوجائیں ۔ حبط عنہ ای ذھب عنہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی بفرض محال اگر نبی ہو کر بھی شرک کر بیٹھے تو ان کا کیا کرایا سب اکارت ہوتا کیونکہ شرک کے ساتھ کوئی بڑے سے بڑا عمل بھی عمل قبول نہیں ہوتا۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

یہاں ہدایت سے پہلی مراد اللہ کی توحید ہے کیونکہ اس عقیدے کے بغیر کوئی عبادت بھی قابل قبول نہیں ہوتی۔ عقیدۂ توحید کی ضد شرک ہے جو ہر برائی کا منبع، عظیم گناہ اور انتہا درجے کا ظلم ہے اس لیے یہاں اٹھارہ عظیم المرتبت ہستیوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر یہ ہستیاں بھی شرک کا ارتکاب کرتیں تو ان کی زندگی بھر کی عبادت و ریاضت ضائع کردی جاتی۔ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ (رض) عَنْ أَبِیہٖ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَلَا أُنَبِّءُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَاءِرِ ثَلَاثًا قَالُوا بَلٰی یَا رَسُول اللّٰہِ قَالَ اَلْإِشْرَاک باللَّہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ وَجَلَسَ وَکَانَ مُتَّکِءًا فَقَالَ أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ قَالَ فَمَا زَالَ یُکَرِّرُہَا حَتَّی قُلْنَا لَیْتَہُ سَکَت) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات، باب ما قیل فی شہادات الزور ] ” عبدالرحمن بن ابی بکرہ (رض) اپنے والد سے بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا میں تم کو بڑے گناہ کی خبر نہ دوں آپ نے ان الفاظ کو تین مرتبہ دہرایا صحابہ کرام (رض) نے عرض کی کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور پھر آپ ٹیک چھوڑ کر بیٹھ گئے۔ فرمایا اور جھوٹی بات کہنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کو دہراتے رہے یہاں تک ہم نے سوچا کاش ! آپ خاموش ہوجائیں۔ “ (عن ابْن عَبَّاسٍ (رض) یَقُولُ لَمَّا بَعَثَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَی نَحْوِ أَہْلِ الْیَمَنِ قَالَ لَہُ إِنَّکَ تَقْدَمُ عَلَی قَوْمٍ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ فَلْیَکُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوہُمْ إِلَی أَنْ یُوَحِّدُوا اللّٰہَ تَعَالَی فَإِذَا عَرَفُوا ذَلِکَ فَأَخْبِرْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْہِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِی یَوْمِہِمْ وَلَیْلَتِہِمْ فَإِذَا صَلَّوْا فَأَخْبِرْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْہِمْ زَکَاۃً فِی أَمْوَالِہِمْ تُؤْخَذُ مِنْ غَنِیِّہِمْ فَتُرَدُّ عَلَی فَقِیرِہِمْ فَإِذَا أَقَرُّوا بِذٰلِکَ فَخُذْ مِنْہُمْ وَتَوَقَّ کَرَاءِمَ أَمْوَال النَّاسِ )[ رواہ البخاری : کتاب التوحید،] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ بن جبل (رض) کو اہل یمن کی طرف بھیجا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اہل کتاب کی طرف جا رہے ہو سب سے پہلے تم جس بات کی انہیں دعوت دو وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک جانیں جب وہ اس کی توحید کے قائل ہوجائیں تو انہیں بتانا۔ اللہ نے ان پر پانچ نمازیں دن اور رات میں فرض کی ہیں۔ جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو ان کو بتانا اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں سے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے۔ جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر ان کے غرباکو دی جائے۔ جب وہ اس بات کا اقرار کرلیں تو ان سے زکوٰۃ وصول کرنا اور ان کے بہترین مال سے بچنا۔ “ نواسے بھی آدمی کی اولاد ہوتے ہیں : (عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حُسَیْنٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْ حُسَیْنٍ أَحَبَّ اللَّہُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنًا حُسَیْنٌ سِبْطٌ مِنْ الْأَسْبَاطِ )[ رواہ الترمذی : کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین ] ” یعلی بن مرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرے گا جو حسین سے محبت کرے گا حسین میری اولاد سے ہے۔ “ انبیاء ( علیہ السلام) ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں : (عن ابی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ أَنَا أَوْلَی النَّاس بابْنِ مَرْیَمَ وَالْأَنْبِیَاءُ أَوْلَادُ عَلَّاتٍ لَیْسَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ نَبِیٌّ)[ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء،] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا لوگو ! میں ابن مریم کے زیادہ قریب ہوں اور تمام انبیاء ( علیہ السلام) علاتی بھائی ہیں میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔ “ مسائل ١۔ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) ایک دوسرے کے بھائی یعنی ایک ہی خاندان نبوت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو تمام انسانوں سے ممتاز فرمایا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو خصوصی ہدایت سے نوازا۔ ٤۔ اگر انبیاء (علیہ السلام) میں سے کوئی بھی شرک کرتا تو اس کے تمام اعمال ضائع ہوجاتے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ) یہ صراط مستقیم کی ہدایت اللہ کی ہدایت ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس کی ہدایت فرما دے، اس میں یہ بتایا کہ ہدایت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے کسی کو زعم نہیں ہونا چاہئے کہ میں صاحب ہدایت ہوں۔ حضرات انبیاء ہوں یا اولیاء سب اللہ تعالیٰ ہی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں سب کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے اور صراط مستقیم پر باقی رکھا۔ پھر فرمایا (وَ لَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) (اور اگر یہ لوگ شرک کرتے تو جو عمل کیا کرتے تھے وہ سب ثواب کے اعتبار سے باطل ہوجاتے) کیونکہ شرک اور کفر تمام اعمال کو باطل کردیتا ہے۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) سے شرک اور کفر کا صدور نہیں ہوسکتا۔ بلکہ ان سے گناہ بھی سرزد نہیں ہوتے کیونکہ وہ معصوم ہیں، بطور فرض یہ بات فرمائی اور اس سے دوسروں کو سبق مل گیا کہ جب انبیاء کرام (علیہ السلام) کا یہ حال ہے تو دوسرا کوئی شخص جو مشرک ہوگا اس کے اعمال صالحہ (جو بظاہر دیکھنے میں اعمال صالحہ ہیں) کا ثواب کیسے مل سکتا ہے۔ کافر اور مشرک کے اعمال باطل ہیں اور اگر کسی نے اسلام کے زمانہ میں اعمال کیے اور پھر مرتد ہوگیا تھا اس کے اعمال بھی باطل ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

92 ذٰلِکَ ھَدَیْنٰہُمْ سے مفہوم مصدر کی طرف اشارہ ہے ای الھدی الی الطریق المستقیم ھو ھدی اللہ (بحر ج 4 ص 175، روح ج 7 ص 215) وَ لَوْ اَشْرَکُوْا الخ اس کی ضمیر سے تمام انبیاء (علیہم السلام) مراد ہیں جن کا پہلے صراحۃً یا کنایۃً ذکر ہوچکا ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) کا شرک کرنا اگرچہ محال ہے لیکن اگر بالفرض وہ بھی شرک کر گذرتے تو ان کے بھی تمام اعمال ضائع ہوجاتے اس تعبیر کے شرک کی انتہائی شناعت و قباحت کا ذکر کرنا مقصود ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

88 یہ ہدایت و رہنمائی اللہ تعالیٰ کی ہدایت و رہنمائی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے ہدایت عطا فرماتا ہے اور جس کی چاہتا ہے اس کی ہدایت کے ساتھ رہنمائی فرماتا ہے اور اگر یہ انبیاء باوجود اپنی علوشان اور مراتب علیا کے خدانخواستہ بالفرض شرک کرتے اور مشرکانہ رویہ اختیار کرتے تو ان کے وہ تمام اعمال صالحہ اور پسندیدہ نیست و نابود ہوجاتے جو یہ کیا کرتے تھے یعنی اگر نیک لوگ بھی شرک کے مرتکب ہوں تو ان کی سب نیکیاں برباد اور اکارت ہوجائیں۔