Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 89

سورة الأنعام

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحُکۡمَ وَ النُّبُوَّۃَ ۚ فَاِنۡ یَّکۡفُرۡ بِہَا ہٰۤؤُلَآءِ فَقَدۡ وَکَّلۡنَا بِہَا قَوۡمًا لَّیۡسُوۡا بِہَا بِکٰفِرِیۡنَ ﴿۸۹﴾

Those are the ones to whom We gave the Scripture and authority and prophethood. But if the disbelievers deny it, then We have entrusted it to a people who are not therein disbelievers.

یہ لوگ ایسے تھے کہ ہم نے ان کو کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی تھی سو اگر یہ لوگ نبوت کا انکار کریں تو ہم نے اس کے لئے ایسے بہت سے لوگ مقرر کر دیئے ہیں جو اس کے منکر نہیں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أُوْلَـيِكَ الَّذِينَ اتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ... They are those whom We gave the Book, Al-Hukm, and Prophethood. We bestowed these bounties on them, as a mercy for the servants, and out of our kindness for creation. ... فَإِن يَكْفُرْ بِهَا ... But if they disbelieve therein..., in the Prophethood, or the three things; the Book, the Hukm and the Prophethood, ... هَـوُلاء ... They..., According to Ibn Abbas, Sa`id bin Al-Musayyib, Ad-Dahhak, Qatadah, As-Suddi, and others, refers to the people of Makkah. ... فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُواْ بِهَا بِكَافِرِينَ then, indeed We have entrusted it to a people who are not disbelievers therein. This Ayah means, if the Quraysh and the rest of the people of the earth - Arabs and non-Arabs, illiterate and the People of the Scripture - disbelieve in these bounties, then We have entrusted them to another people, the Muhajirun and Ansar, and those who follow their lead until the Day of Resurrection, لَّيْسُواْ بِهَا بِكَافِرِينَ (who are not disbelievers therein). They will not deny any of these favors, not even one letter. Rather, they will believe in them totally, even the parts that are not so clear to some of them. We ask Allah to make us among them by His favor, generosity and kindness. Addressing His servant and Messenger, Muhammad, Allah said;

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

89۔ 1 اس سے مراد رسول اللہ کے مخالفیں، مشرکین اور کفار ہیں۔ 98۔ 2 اس سے مراد مہاجرین و انصار اور قیامت تک آنے والے ایماندار ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٩] انبیاء کو تین خبریں عطا کی جاتی ہیں :۔ مذکورہ انبیاء کو تین چیزیں عطا کرنے کا ذکر فرمایا گیا ہے ایک کتاب یعنی منزل من اللہ ہدایت نامہ دوسرے حکم سے مراد اللہ کی کتاب کا صحیح فہم، ان پر عمل کرنے کا طریق کار اور اس ہدایت کو عملی زندگی پر منطبق کرنے کی صورتیں اور مختلف نزاعات اور مقدمات میں صحیح قوت فیصلہ کی استعداد اور نبوت سے مراد اس ہدایت الٰہی کے مطابق لوگوں کی رہنمائی ہے۔ [٩٠] اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو نہ لائیں۔ ان کی جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایسے بندے پیدا کردیئے ہیں جو ہماری نعمتوں کے قدردان ہیں۔ حق کو تسلیم کرتے ہیں اور کسی ہدایت کی بات سے منہ نہیں موڑتے۔ ایسے ہی لوگ انبیاء کے حقیقی متبعین اور ان کے جانشین ہوتے ہیں۔ جیسے رسول اللہ کے متبعین مہاجرین و انصار کی یہی صفات تھیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِنْ يَّكْفُرْ بِهَا هٰٓؤُلَاۗءِ ۔۔ : یعنی اگر یہ لوگ اس کتاب، حکم اور نبوت کو نہ مانیں ( اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو نہ ماننے والے کفار اور مشرکین ہیں) تو ہم نے ان (کتاب اور نبوت) کے لیے ایسے لوگ مقرر کیے ہیں ( اس سے مراد مہاجرین انصار اور قیامت تک آنے والے ایمان دار ہیں) جو ان نعمتوں کا انکار نہیں کرتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The subject continues through the eighth verse (89) at the end of which it has been said to comfort the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ; فَإِن يَكْفُرْ‌ بِهَا هَـٰؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَافِرِ‌ينَ (So, if these people disbelieve it, then, We have deputed for it a people who do not disbelieve in it). In other words, it means: If some of your addressees do not listen to you and are, despite having been told about the teachings of all past prophets, bent upon nothing short of denial, then, you do not have to worry - because We have appointed a great people who would say yes to your call, follow your word and make the mission their own, and who would never stoop to the level of disbelief and denial. Included here are all Muhajerin and Ansar present during the blessed age of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and also all Muslims who keep coming upto the end of time until comes the Qiyamah. And this verse is a fond asset for all such people, as Allah Ta` ala has named them on an occasion which calls for praise by Him: اَللَّھُمَّ اجعَلنَا مِنھُم وَاحشُرنَا فی زُمرَتِھِم 0 Allah, make us one of them and raise us in their company.

آٹھویں آیت میں یہی مضمون ارشاد فرمایا گیا اور اس کے آخر میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لئے ارشاد فرمایا کہ : فَاِنْ يَّكْفُرْ بِهَا هٰٓؤ ُ لَاۗءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا، یعنی اگر آپ کے کچھ مخاطب آپ کی بات نہیں مانتے اور تمام انبیاء سابقین کی ہدایات پیش کردینے کے باوجود وہ انکار ہی پر تلے ہوئے ہیں تو آپ غم نہ کریں، کیونکہ ہم نے آپ کی دعوت و ہدایت کو ماننے اور اپنانے کے لئے ایک بڑی قوم کو مقدر کر رکھا ہے، وہ کفر و انکار کے پاس نہ جائیں گے، اس میں عہد مبارک کے موجودین مہاجرین و انصار بھی داخل ہیں، اور قیامت تک آنے والے مسلمان بھی، اور یہ آیت ان سب لوگوں کے لئے مایہ فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مقام مدح میں ذکر فرمایا ہے، اللہم اجعلنا منھم واحشرنا فی زمرتھم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اٰتَيْنٰہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ۝ ٠ۚ فَاِنْ يَّكْفُرْ بِہَا ہٰٓؤُلَاۗءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِہَا قَوْمًا لَّيْسُوْا بِہَا بِكٰفِرِيْنَ۝ ٨٩ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو حِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہزا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ها هَا للتنبيه في قولهم : هذا وهذه، وقد ركّب مع ذا وذه وأولاء حتی صار معها بمنزلة حرف منها، و (ها) في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ [ آل عمران/ 66] استفهام، قال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران/ 66] ، ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] ، هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء/ 109] ، ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة/ 85] ، لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء/ 143] . و «هَا» كلمة في معنی الأخذ، وهو نقیض : هات . أي : أعط، يقال : هَاؤُمُ ، وهَاؤُمَا، وهَاؤُمُوا، وفيه لغة أخری: هَاءِ ، وهَاءَا، وهَاءُوا، وهَائِي، وهَأْنَ ، نحو : خَفْنَ وقیل : هَاكَ ، ثمّ يثنّى الکاف ويجمع ويؤنّث قال تعالی: هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة/ 19] وقیل : هذه أسماء الأفعال، يقال : هَاءَ يَهَاءُ نحو : خاف يخاف، وقیل : هَاءَى يُهَائِي، مثل : نادی ينادي، وقیل : إِهَاءُ نحو : إخالُ. هُوَ : كناية عن اسم مذكّر، والأصل : الهاء، والواو زائدة صلة للضمیر، وتقوية له، لأنها الهاء التي في : ضربته، ومنهم من يقول : هُوَّ مثقّل، ومن العرب من يخفّف ويسكّن، فيقال : هُو . ( ھا ) ھا ۔ یہ حرف تنبیہ ہے اور ذا ذہ اولاٰ اسم اشارہ کے شروع میں آتا ہے اور اس کے لئے بمنزلہ جز سمجھنا جاتا ہے مگر ھا انتم میں حرف ھا استہفام کے لئے ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران/ 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا ۔ ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] دیکھو تم ایسے صاف دل لوگ ہو کہ ان لوگوں سے ودستی رکھتے ہو ۔ هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء/ 109] بھلا تم لوگ ان کی طرف سے بحث کرلیتے ہو ۔ ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة/ 85] پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کردیتے ہو ۔ لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء/ 143] نہ ان کی طرف ( ہوتے ہو ) نہ ان کی طرف ۔ ھاءم ـ اسم فعل بمعنی خذ بھی آتا ہے اور ھات ( لام ) کی ضد ہے اور اس کی گردان یون ہے ۔ ھاؤم ھاؤم ۔ ھاؤموا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة/ 19] لیجئے اعمالنامہ پڑھئے اور اس میں ایک لغت بغیر میم کے بھی ہے ۔ جیسے : ۔ ھا ، ھا ، ھاؤا ھائی ھان کے بروزن خفن اور بعض اس کے آخر میں ک ضمیر کا اضافہ کر کے تنبیہ جمع اور تذکرو تانیث کے لئے ضمیر میں تبدیل کرتے ہیں جیسے ھاک ھاکما الخ اور بعض اسم فعل بنا کر اسے کھاؤ یھاء بروزن خاف یخاف کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک ھائی یھائی مثل نادٰی ینادی ہے اور بقول بعض متکلم مضارع کا صیغہ اھاء بروزن اخال آتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٩) جن انبیاء کرام (علیہم السلام) کا ہم نے ذکر کیا ہے یہ ایسے تھے کہ بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) آسمان سے ان پر کتاب نازل کی اور علم وفہم اور نبوت عطا کی اس کے باوجود بھی یہ اہل مکہ اگر آپ کے دین اور نبوت کا انکار کریں تو ہم نے مدینہ منورہ میں ایسے لوگ مقرر کردیے ہیں جن کو انبیاء کرام (علیہم السلام) کے دین اور ان کے راستہ کی توفیق عطا فرمائی ہے اور وہ اس کے منکر نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَاِنْ یَّکْفُرْ بِہَا ہٰٓؤُلَآءِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِہَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِہَا بِکٰفِرِیْنَ k مقام عبرت ہے ! محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا رسول ‘ مبلغ ‘ داعی ‘ مربی ‘ مزکی اور معلّم پچھلے بارہ سال سے دن رات محنت کر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں اب تک صرف ڈیڑھ ‘ پونے دو سو افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ اس پس منظر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ مکہ کے یہ لوگ اگر اس دعوت کی ناقدری کر رہے ہیں ‘ اس قرآن کی ناشکری کر رہے ہیں ‘ اس کا انکار کر رہے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دس بارہ سال کی محنت کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دل شکستہ نہ ہوں ‘ عنقریب ایک دوسری قوم بڑے ذوق وشوق سے اس دعوت پر لبیک کہنے جا رہی ہے۔ اس خوش قسمت قوم سے مراد انصار مدینہ ہیں۔ اور واقعی اس سلسلے میں اہل مکہ پیچھے رہ گئے اور اہل مدینہ بازی لے گئے۔ بقول شاعر : گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا ! دُنیا کے حالات و اسباب کو دیکھتے ہوئے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ دین کے کام میں کیسے کیسے اسباب پیدا فرماتے ہیں اور کہاں کہاں سے کس کس طرح کے لوگوں کے دلوں کو پھیر کر ہدایت کی توفیق دے دیتے ہیں۔ مجھے اپنی دعوت رجوع الی القرآن کے بارے میں بھی اطمینان ہے کہ پاکستان میں اس کو خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملی تو کیا ہوا ‘ یہ دعوت مختلف ذرائع سے پوری دنیا میں پھیل رہی ہے ‘ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ قرآن کی یہ انقلابی دعوت کس جگہ زمین کے اندر جڑ پکڑ لے اور ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرلے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

57. Here the Prophets are mentioned as having been endowed with three things: first, the revealed guidance embodied in the Book; second, hukm, i.e. the correct understanding of the revealed guidance, the ability to apply its principles to the practical affairs of life, the God-given capacity to arrive at right opinions regarding human problems; and third, prophethood, the office by virtue of which they are enabled to lead human beings in the light of the guidance vouchsafed to them. 58. God does not care if the unbelievers and polytheists choose to reject the guidance which has come down from Him, for He had already raised a sizeable group of men of faith to truly appreciate its worth.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :57 یہاں انبیاء علیہم السلام کو تین چیزیں عطا کیے جانے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک کتاب یعنی اللہ کا ہدایت نامہ دوسرے حکم یعنی اس ہدایت نامہ کا صحیح فہم ، اور اس کے اصولوں کو معاملات زندگی پر منطبق کرنے کی صلاحیت اور مسائل حیات میں فیصلہ کن رائے قائم کرنے کی خداداد قابلیت ۔ تیسرے نبوت ، یعنی یہ منصب کہ وہ اس ہدایت نامہ کے مطابق خلق اللہ کی رہنمائی کریں ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :58 مطلب یہ ہے کہ اگر یہ کافر و مشرک لوگ اللہ کی اس ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں تو کردیں ، ہم نے اہل ایمان کا ایک ایسا گروہ پیدا کر دیا ہے جو اس نعمت کی قدر کرنے والا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

31: مشرکین عرب نبوت و رسالت ہی کے منکر تھے۔ ان کے جواب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد میں جو پیغمبر گذرے ہیں ان کا حوالہ دیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو تو عرب کے بت پرست بھی مانتے تھے ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ پیغمبر ہو سکتے ہیں اور ان کی اولاد میں نبوت کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے تو یہ کہنا کیسے درست ہوسکتا ہے کہ نبوت کوئی چیز نہیں ہے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول بنا کر بھیجنے میں آخر کونسی اشکال کی بات ہے جبکہ آپ کی نبوت کے دلائل روز روشن کی طرح واضح ہوچکے ہیں۔ 32: اس سے صحابہ کرام کی طرف اشارہ ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:89) بھا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث۔ الکتب۔ والحکم۔ والنبوۃ کی طرف راجع ہے۔ یا اس کا مرجع آیات قرآنی ہیں جو دلائل التوحید والنبوۃ کے متعلق ہیں۔ ھؤلائ۔ یعنی اہل مکہ۔ وکلنا بھا۔ وکلنا۔ ماضی معروف جمع متکلم۔ توکیل (تفعل) مصدر۔ ہم نے مقرر کردیا ہے۔ قوما۔ گروہ۔ جماعت۔ بلا تخصیص نسل و وطن (اس صورت میں جب کہ ایسی قوم بلاواسطہ مخاطب نہ ہو) ایک نسب اور وطن سے تعلق رکھنے والی جماعت (جہاں پیغمبروں نے ان کو خطاب کیا ہو جیسے یا قوم یا اذقال لقومہ) ۔ یہاں اس آیۃ میں قوم سے مراد اصحاب النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام ۔ انصار۔ مہاجرین۔ تابعین ۔ تبع تابعین۔ عربی، عجمی سب مراد ہیں جو اہل ایمان تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی کتاب شریعت اور نبوت کو اور یہ بھی ترجمہ ہوسکتا ہے کہ اگر اس یعنی نبوت کو نہ مانیں ( ابن کثیر)2 یعنی اہل مدینہ اور انصار اس کی یہ تفسیر حضرت ابن عباس سے منقول ہے (شوکانی) یا مہاجرین اور انصار اور قیامت تک جتنے بھی ان کے اتباع ہوں گے یعنی وہ ان نعمتوں کا انکار نہیں کرتے بلکہ پوری کتاب پر ایمان لاتے ہیں۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 89 تا 90 : وکلنا (ہم نے سپرد کردیا) ‘ اقتدہ ( تو اس کی پیروی کر) لا اسئل ( میں سوال نہیں کرتا۔ میں نہیں مانگتا) ‘ اجر ( اجرت بدلہ۔ معاوضہ) ۔ تشریح : آیت نمبر 89 تا 90 : یہاں انبیاء (علیہ السلام) کو جو نعمتیں عطا کی گئی تھیں ان میں کتاب ‘ حکم اور نبوت کا نام ‘ خاص طور پر لیا گیا ہے۔ کتاب یعنی اللہ تعالیٰ کا ہدایت نامہ ‘ لکھا لکھایا ‘ تاکہ نسلاً بعد نسل تلاوت اور تعمیل ہوتی رہے۔ دوسرے حکم یعنی اس ہدایت نامہ کا صحیح فہم اور اس صحیح فہم کو انفرادی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح پر عمل درآمد کرنے اور کرانے کی صلاحیت تفصیلات میں قوت فیصلہ ‘ تیسرے نبوت یعنی اللہ کی طرف سے منصب قیادت تحریک۔ فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو بھی کتاب ‘ حکم اور نبوت سے سر فراز کیا گیا ہے۔ آپ بھی ان ہی کے طریقے پر چلئے۔ جنہیں ہم نے تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی تھی۔ اگر یہ کفارو مشرکین قیغام حق کو نہیں مانتے تو صاف صاف کہہ دیجئے کہ میں تم سے کوئی حق خدمت نہیں مانگتا نہ میں تمہیں راہ راست پر زبردستی لانے کا ذمہ دار بنایا گیا ہوں۔ میں تو قرآن مجید پیش کررہا ہوں۔ جو کھلی ہوئی کتاب ہے جسے ہر شخص پڑھ سکتا ہے اب جس کا جی چاہے مانے اور جس کا جی نہ چاہے وہ نہ مانے۔ آیت 90 آجانے کے بعد حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان معاملات میں جس پر وحی نہیں آئی تھی۔ گذشتہ پیغمبروں ہی کے نقش قدم کی پیروی کرتے تھے۔ یہ بات واضح رہے کہ شریعت میں عقائد اور بنیادی احکامات میں کوئی فرق نہیں۔ ہاں مسائل حیات کی بابت جزئیات میں کہیں کہیں اپنے اپنے زمان و مکان کے مطابق فرق ضرور ہے مگر اس سے نفس پیغام پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابراہیم (علیہ السلام) اور انکے بعد آ نے والے انبیاء کی دعوت کو پھیلانے اور اس پر قائم رہنے کا حکم۔ عظیم الشان اٹھارہ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ان کی پاک باز اولاد کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا کہ وہ سب کے سب مواحد، ہدایت یافتہ اور شرک سے سخت اجتناب کرنے والے تھے اگر وہ شرک کا ارتکاب کرتے تو ان کے تمام اعمال ضائع کردیے جاتے۔ شرک سے بچنے کی ہمت اور توحید کی سمجھ انھیں اس لیے نصیب ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کتاب، حکمت اور نبوت سے سرفراز فرمایا تھا۔ جس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس قوم کو کتاب و حکمت اور نبوت کی تعلیم سے آگاہ کرے اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ شرک سے اجتناب کرے اور اللہ کی توحید کا پر چار کرنے والی ہو۔ الحکم سے مراد وہ قوت ہے جس کے ذریعے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ تکمیل پاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس قوم کو اپنی کتاب اور نبوت کی روشنی عطا فرمائے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ حکماً شرک کا قلع قمع اور توحید کا نفاذ کرے۔ یہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے ساتھ خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ اگر آپ کے مخاطبین کفر و شرک کا رویہ اپنائے رکھیں تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے آپ کے مقدر میں ایسے ساتھی رکھ دیے ہیں جو اللہ کی کتاب کا انکار نہیں کرتے۔ دین اور آپ کی ذات پر تن، من دھن قربان کرنے والے ہیں۔ لہٰذا آپ کو پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی اقتدا کرنی چاہیے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ افراد تھے۔ اقتدا سے مراد انبیاء کا اسوۂ مبارکہ ہے جو وہ مخالفین کے مقابلہ میں اختیار کیا کرتے تھے۔ اقتدا میں دوسرا اشارہ یہ ہے تمام انبیا کی دعوت کے بنیادی اصول ایک ہی رہے ہیں۔ جس میں سرفہرست توحید کا اقرار، پرچار اور شرک سے نفرت کا اظہار ہے۔ جس طرح پہلے انبیاء دعوت کے بدلے کوئی اجرت نہیں لیتے تھے۔ آپ بھی ان کی اقتدا میں اعلان کرتے جائیں کہ اے لوگو ! میں اس دعوت کے بدلے تم سے کسی مفاد اور اجرت کا مطالبہ نہیں کرتا۔ میرا کام تو نصیحت کرنا ہے اور یہ قرآن مجید پورے عالم کے لیے ذکر اور نصیحت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ نَبِیٌّ إِلَّا أُعْطِیَ مَا مِثْلہُ آمَنَ عَلَیْہِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا کَانَ الَّذِی أُوتِیتُ وَحْیًا أَوْحَاہ اللَّہُ إِلَیَّ فَأَرْجُو أَنْ أَکُونَ أَکْثَرَہُمْ تَابِعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) [ رواہ البخاری : کتاب فضائل القران، باب کیف نزل الوحی ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انبیاء کرام میں سے ہر نبی کو ایسی چیزیں دی گئی ہیں جس پر لوگ ایمان لے آئیں مجھے وحی عنایت کی گئی اس میں اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا میں امید کرتا ہوں قیامت کے دن میری پیروی کرنے والے سب سے زیادہ ہوں گئے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہ السلام) کو خصوصی حکمت سے نوازا۔ ٢۔ لوگوں کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ کی ہی پیروی کرنی چاہیے۔ ٣۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) دعوت دین کے بدلے کسی سے معاوضہ طلب نہیں کرتے تھے۔ ٤۔ قرآن مجید تمام جہانوں کے لیے نصیحت ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) کسی سے اجرت نہیں لیتے تھے : ١۔ (حضرت نوح (علیہ السلام) نہیں میں سوال کرتا کسی سے اجر کا۔ میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء : ١٠٩) ٢۔ (حضرت ھود علیہ السلام) نہیں میں سوال کرتا کسی سے اجر کا میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء : ١٢٧) ٣۔ (حضرت صالح (علیہ السلام) نہیں میں سوال کرتا کسی سے اجر کا میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء : ١٤١ تا ١٤٥) ٤۔ (حضرت لوط (علیہ السلام) نہیں میں سوال کرتا کسی سے اجر کا میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء : ١٦٤) ٥۔ (حضرت شعیب (علیہ السلام) نہیں میں سوال کرتا کسی سے اجر کا میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء : ١٨٠) ٦۔ نہیں ہے میرا اجر مگر اللہ پر اور وہی ہر چیز پر گواہ ہے۔ (السباء : ٤٧) ٨۔ (حضرت ھود علیہ السلام) نہیں ہے میرا اجر مگر اللہ پر جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ (ھود : ٥١) ٩۔ (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) کہہ دیجیے میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتانہ ہی میں متکلف ہوں۔ (صٓ: ٨٦ )

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحُکْمَ وَ النُّبَوَّۃَ ) (یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب دی اور حکم دیا اور نبوت عطا کی) اس میں جو لفظ کتاب ہے اس سے جنس مراد ہے جس جس نبی کو جو کتاب ملی عموم جنس میں ان سب کا ذکر آگیا۔ اور الحکم جو فرمایا اس سے حکمت یعنی حقائق الاشیاء کی معرفت مراد ہے اور لوگوں کے درمیان صحیح صحیح فیصلے کرنا بھی مراد لے سکتے ہیں کیونکہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی امتوں کے درمیان فیصلے بھی فرماتے تھے۔ ان حضرات کو نبوت سے سر فراز فرمایا۔ لفظ نبوت وارد ہوا ہے لفظ رسالت نہیں ہے نبی تو ہر پیغمبر ہے لیکن رسول اللہ کے بارے میں علماء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ وہ ہے جسے نئی شریعت اور نئی کتاب دی گئی ہو۔ لفظ نبوۃ لا کر سب کو مضمون بالا میں شرک فرما لیا۔ پھر فرمایا (فَاِنْ یَّکْفُرْبِھَا ھآؤُلَآءِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِھَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِھَا بِکٰفِرِیْنَ ) سو اگر یہ لوگ یعنی اہل مکہ اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ ان حضرات کی نبوت کا انکار کریں (جس میں سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کا انکار بھی ہے کیونکہ ان حضرات کی نبوت کی خبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور قرآن مجید نے دی ہے) سو ہم نے اس کے لیے ایسے لوگوں کو مقرر کردیا جو اس کے منکر نہیں۔ یعنی انبیاء سابقین ( علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان لانے والے اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آخری کتاب قرآن مجید پر ایمان لانے والے کو کثیر تعداد میں ہم نے مقرر کردیا ہے۔ ایمان لانے والے کثیر تعداد میں ہیں۔ حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اس سے صحابہ کرام (رض) مراد ہیں۔ (قَوْمً لَّیْسُوْابِھَا بِکٰفِرِیْنَ ) کی تفسیر میں دیگر اقوال بھی ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں جتنے بھی اہل ایمان ہیں وہ سب مراد ہیں اس قول میں جامعیت ہے جس میں اولین اور آخرین تمام اہل ایمان شامل ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

93 ان کو ہم نے کتاب، حکمت اور نبوت عطا فرمائی یعنی رسولوں پر کتابیں اور صحیفے نازل کیے اور ہر صاحب کتاب کے بعد آنے والے نبی پر پہلی کتاب کا اتباع لازم قرار دیا یہاں تک کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلسلہ نبوت منقطع ہوگیا۔ فَاِنْ یَّکْفُرْ بِھَا الخ کی ضمیر سے آیات یا نبوت مراد ہے اور لیسوا اسم اشارہ سے اہل مکہ اور قوْماً سے صحابہ کرام (رض) مراد ہیں یعنی اگر مشرکین مکہ آیات توحید کو یا نبوت کو نہیں مانتے تو مانیں ہم ایک قوم کو آیات توحید اور نبوت انبیاء پر ایمان لانے کے لیے مقرر کرچکے ہیں اور وہ ایسے راسخ الایمان اور دائم الیقین ہیں کہ کسی بھی وقت ان کے ایمان میں ذرا بھر بھی فرق نہیں آسکتا لَیْسُوْا بِھَا بِکٰفِرِیْن ای فی وقت من الاوقات بل مستمرون علی الایمان بھا۔ قال ابن عباس و مجاھد ھم الانصار واھل المدینۃ وقیل اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مطلقاً روح ص 216 ج 7، ابو السعود ص 136 ج 4) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

89 یہی وہ حضرات ہیں جن کو ہم نے کتاب آسمانی اور حکمت اور نبوت عطا فرمائی تھی یعنی یہی وہ چیزیں ہیں جو تم کو بھی عطا ہوئی ہیں کچھ نئی باتیں نہیں ہیں پھر اگر یہ لوگ جنہوں نے کافرانہ روش اختیار کر رکھی ہے ان چیزوں پر ایمان لانے کو نہیں مانتے اور ان کے ماننے سے انکار کرتے ہیں تو ہم نے ایسے بہت لوگ مقرر کردیئے ہیں جو ان چیزوں کے منکر نہیں ہیں بلکہ ان پر ایمان رکھتے ہیں یعنی انصار و مہاجرین ایسے لوگ ہیں جو قرآن کریم اور آپ کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اگر یہ منکر انکار کر رہے ہیں تو ان کی پروا نہ کیجیے انصار و مہاجرین ان چیزوں کے منکر نہیں ہیں۔