Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 91

سورة الأنعام

وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖۤ اِذۡ قَالُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ قُلۡ مَنۡ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ الَّذِیۡ جَآءَ بِہٖ مُوۡسٰی نُوۡرًا وَّ ہُدًی لِّلنَّاسِ تَجۡعَلُوۡنَہٗ قَرَاطِیۡسَ تُبۡدُوۡنَہَا وَ تُخۡفُوۡنَ کَثِیۡرًا ۚ وَ عُلِّمۡتُمۡ مَّا لَمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اَنۡتُمۡ وَ لَاۤ اٰبَآؤُکُمۡ ؕ قُلِ اللّٰہُ ۙ ثُمَّ ذَرۡہُمۡ فِیۡ خَوۡضِہِمۡ یَلۡعَبُوۡنَ ﴿۹۱﴾

And they did not appraise Allah with true appraisal when they said, " Allah did not reveal to a human being anything." Say, "Who revealed the Scripture that Moses brought as light and guidance to the people? You [Jews] make it into pages, disclosing [some of] it and concealing much. And you were taught that which you knew not - neither you nor your fathers." Say, " Allah [revealed it]." Then leave them in their [empty] discourse, amusing themselves.

اور ان لوگوں نے اللہ کی جیسی قدر کرنا واجب تھی ویسی قدر نہ کی جب کہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی آپ یہ کہئے کہ وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ لائے تھے جس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ نور ہے اور لوگوں کے لئے وہ ہدایت ہے جس کو تم نے ان متفرق اوراق میں رکھ چھوڑا ہے جن کو ظاہر کرتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو اور تم کو بہت سی ایسی باتیں بتائی گئی ہیں جن کو تم نہ جانتے تھے اور نہ تمہارے بڑے ۔ ۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ نے نازل فرمایا ہے پھر ان کو ان کے خرافات میں کھیلتے رہنے دیجئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Messenger is but a Human to Whom the Book was Revealed by Inspiration Allah says; وَمَا قَدَرُواْ اللّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُواْ ... They did not estimate Allah with an estimation due to Him when they said: Allah says that those who rejected His Messengers did not give Allah due consideration. Ibn Abbas, Mujahid and Abdullah bin Kathir said that; this Ayah was revealed about the Quraysh. It was also said that it was revealed about some Jews. ... مَا أَنزَلَ اللّهُ عَلَى بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ ... (They said): "Nothing did Allah send down to any human being (by inspiration)." Allah also, said, أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَأ إِلَى رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ Is it a wonder for mankind that We have inspired to a man from among themselves (saying): "Warn mankind." (10:2) and, وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُوْمِنُواْ إِذْ جَأءَهُمُ الْهُدَى إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَّسُولاً قُل لَوْ كَانَ فِى الاٌّرْضِ مَلَـيِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَيِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَأءِ مَلَكًا رَّسُولاً And nothing prevented men from believing when the guidance came to them, except that they said: "Has Allah sent a man as Messenger!" Say: "If there were on the earth, angels walking about in peace and security, We should certainly have sent down for them from the heaven an angel as a Messenger." (17:94-95) Allah said here, وَمَا قَدَرُواْ اللّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُواْ مَا أَنزَلَ اللّهُ عَلَى بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ They did not estimate Allah with an estimation due to Him when they said: "Nothing did Allah send down to any human being (by inspiration)." Allah answered them, ... قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاء بِهِ مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ ... Say : "Who then sent down the Book which Musa brought, a light and a guidance to mankind!" meaning, say, O Muhammad, to those who deny the concept that Allah sent down Books by revelation, answering them specifically, مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاء بِهِ مُوسَى (Who then sent down the Book which Musa brought) in reference to the Tawrah that you and all others know that Allah sent down to Musa, son of Imran. Allah sent the Tawrah as a light and a guidance for people, so that it could shed light on the answers to various disputes, and to guide away from the darkness of doubts. Allah's statement, ... تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ... which you have made into (separate) paper sheets, disclosing (some of it) and concealing (much). means, you made the Tawrah into separate sheets which you copied from the original and altered, changed and distorted as you wished. You then said, "this is from Allah," meaning it is in the revealed Book of Allah, when in fact, it is not from Allah. This is why Allah said here, تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا (which you have made into (separate) paper sheets, disclosing (some of it) and concealing (much)). Allah said; ... وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُواْ أَنتُمْ وَلاَ ابَاوُكُمْ ... And you were taught that which neither you nor your fathers knew. meaning, Who sent down the Qur'an in which Allah taught you the news of those who were before you and the news of what will come after, that neither you nor your fathers had knowledge of. Allah's statement, ... قُلِ اللّهُ ... Say: "Allah." Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, "Meaning, `Say, Allah sent it down."' Allah said, ... ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ Then leave them to play in their vain discussions. leave them to play in ignorance and misguidance until the true news comes to them from Allah. Then, they will know whether the good end is theirs or for the fearful servants of Allah. Allah said,

تمام رسول انسان ہی ہیں اللہ کے رسولوں کے جھٹلانے والے دراصل اللہ کی عظمت کے ماننے والے نہیں ۔ عبداللہ بن کثیر کہتے ہیں کفار قریش کے حق میں یہ آیت اتری ہے اور قول ہے کہ یہود کی ایک جماعت کے حق میں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فخاص یہودی کے حق میں اور یہ بھی ہے کہ مالک بن صیف کے بارے میں کہا گیا ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ پہلا قول حق اس لئے ہے کہ آیت مکیہ ہے اور اس لئے بھی کہ یہودی آسمان سے کتاب اترنے کے بالکل منکر نہ تھے ، ہاں البتہ قریشی اور عام عرب حضور کی رسالت کے قائیل نہ تھے اور کہتے تھے کہ انسان اللہ کا رسول نہیں ہو سکتا جیسے قران ان کا تعجب نقل کرتا ہے آیت ( اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ) 10 ۔ یونس:2 ) یعنی کیا لوگوں کو اس بات پر اچنبھا ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص کی طرف وحی نزول فرمائی کہ وہ لوگوں کو ہوشیار کر دے اور آیت میں ہے آیت ( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا ) 17 ۔ الاسراء:94 ) لوگوں کے اس خیال نے ہی کہ کیا اللہ نے انسان کو اپنا رسول بنا لیا انہیں ایمان سے روک دیا ہے ، سنو اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے تو ہم بھی آسمان سے کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے ۔ یہاں بھی کفار کا یہی اعتراض بیان کر کے فرماتا ہے کہ انہیں جواب دو کہ تم جو بالکل انکار کرتے ہو کہ کسی انسان پر اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا یہ تمہاری کیسی کھلی غلطی ہے ؟ بھلا بتلاؤ موسیٰ پر تورات کس نے اتاری تھی جو سراسر نور و ہدایت تھی الغرض تورات کے تم سب قائل ہو جو مشکل مسائل آسان کرنے والی ، کفر کے اندھیروں کو جھانٹنے ، شبہ کو ہٹانے اور راہ راست دکھانے والی ہے ، تم نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر رکھے ہیں صحیح اور اصلی کتاب میں سے بہت سا حصہ چھپا رکھا ہے کچھ اس میں سے لکھ لاتے ہو اور پھر اسے بھی تحریف کر کے لوگوں کو بتا رہے ہو ، اپنی باتوں اپنے خیالات کو اللہ کی کتاب کی طرف منسوب کرتے ہو ، قرآن تو وہ ہے جو تمہارے سامنے وہ علوم پیش کرتا ہے جن سے تم اور تمہارے اگلے اور تمہارے بڑے سب محروم تھے ، پجھلی سچی خبریں اس میں موجود ، آنے والے واقعات کی صحیح خبریں اس میں موجود ہیں جو آج تک دنیا کے علم میں نہیں آئی تھیں کہتے ہیں اس سے مراد مشرکین عرب ہیں اور بعض کہتے ہیں اس سے مراد مسلمان ہیں ۔ پھر حکم دیتا ہے کہ یہ لوگ تو اس کا جواب کیا دیں گے کہ تورات کس نے اتاری؟ تو خود کہدے کہ اللہ نے اتاری ہے پھر انہیں ان کی جھالت و ضلالت میں ہی کھیلتا ہوا چھوڑ دے یہاں تک کہ انہیں موت آئے اور یقین کی آنکھوں سے خود ہی دیکھ لیں کہ اس جہان میں یہ اچھے رہتے ہیں یا مسلمان متقی ؟ یہ کتاب یعنی قران کریم ہمارا اتارا ہوا ہے ، یہ بابرکت ہے یہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے ہم نے اسے تیری طرف اس لئے نازل فرمایا کہ تو اہل مکہ کو ، اس کے پاس والوں کو یعنی عرب کے قبائل اور عجمیوں کو ہوشیار کر دے اور ڈراوا دے دے ۔ من حولھا سے مراد ساری دنیا ہے اور آیت میں ہے ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) 7 ۔ الاعراف:158 ) یعنی اے دنیا جہان کے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں اور آیت میں ہے ( ۣوَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ ) 6 ۔ الانعام:19 ) تاکہ میں تمہیں بھی اور جسے یہ پہنچے اسے ڈرا دوں اور قرآن سنا کر عذابوں سے خبردار کر دوں اور فرمان ہے آیت ( وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ۚ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) 11 ۔ ہود:17 ) جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور آیت میں فرمایا گیا آیت ( تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا ) 25 ۔ الفرقان:1 ) یعنی اللہ برکتوں والا ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان والوں کو آگاہ کر دے اور آیت میں ارشاد ہے آیت ( وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ ) 3 ۔ آل عمران:20 ) یعنی اہل کتاب سے اور ان پڑھوں سے بس سے کہہ دو کہ کیا تم اسلام قبول کرتے ہو؟ اگر قبول کرلیں تو راہ راست پر ہیں اور اگر منہ موڑ لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اللہ اپنے بندے کو خوب دیکھ رہا ہے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ان کو بیان فرماتے ہوئے ایک یہ بیان فرمایا کہ ہر نبی صرف ایک قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا لیکن میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں اسی لئے یہاں بھی ارشاد ہوا کہ قیامت کے معتقد تو اسے مانتے ہیں جانتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے اور وہ نمازیں بھی صحیح وقتوں پر برابر پڑھا کرتے ہیں اللہ کے اس فرض کے قیام میں اور اس کی حفاظت میں سستی اور کاہلی نہیں کرتے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91۔ 1 قَدَر کے معنی اندازہ کرنے کے ہیں اور یہ کسی چیز کی اصل حقیقت جاننے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ مشرکین مکہ رسل اور انزال کتب کا انکار کرتے ہیں، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ انھیں اللہ کی صحیح معرفت ہی حاصل نہیں ورنہ وہ ان چیزوں کا انکار نہ کرتے، علاوہ ازیں اسی عدم معرفت الٰہی کی وجہ سے وہ نبوت و رسالت کی معرفت سے بھی قاصر رہے کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کا کلام کس طرح نازل ہوسکتا ہے ؟ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اَكَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ ) 10 ۔ یونس :2) کیا یہ بات لوگوں کے لیے باعث تعجب ہے کہ ہم نے ان ہی میں سے ایک آدمی پر وحی نازل کر کے اسے لوگوں کو ڈرانے پر مامور کردیا ہے ؟ دوسرے مقام پر فرمایا (وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا) 17 ۔ الاسراء :94) ہدایت آجانے کے بعد لوگ اسے قبول کرنے سے اس لیے رک گئے کہ انہوں نے کہا کہ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا ہے ؟ اس کی کچھ تفصیل اس سے قبل آیت نمبر 8 کے حاشیے میں بھی گزر چکی ہے آیت زیر وضاحت میں بھی انہوں نے اپنے اس خیال کی بنیاد پر اس بات کی نفی کی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی کتاب نازل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ ہی بات ہے تو ان سے پوچھو ! موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات کس نے نازل کی تھی (جس کو یہ مانتے ہیں) 91۔ 2 آیت کی مذکورہ تفسیر کے مطابق اب یہود سے خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم اس کتاب کو متفرق اوراق میں رکھتے ہو جن میں سے جس کو چاہتے ہو ظاہر کردیتے ہو اور جنکو چاہتے ہو چھپالیتے ہو۔ جیسے رجم کا مسئلہ یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کا مسئلہ ہے۔ حافظ ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری وغیرہ نے دلیل یہ دی ہے کہ یہ مکی آیت ہے، اس میں یہود سے خطاب کس طرح ہوسکتا ہے ؟ اور بعض مفسرین نے پوری آیت کو ہی یہود سے متعلق قرار دیا ہے اور اس میں سرے سے نبوت و رسالت کا جو انکار ہے اسے یہود کی ہٹ دھرمی، ضد اور عناد پر مبنی قول قرار دیا ہے۔ گویا اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی تین رائے ہیں۔ ایک پوری آیت کو یہود سے، دوسرے پوری آیت کو مشرکین سے اور تیسرے آیت کی ابتدائی حصے کو مشرکین سے متعلق اور یہود سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ واللّٰہ اَعْلَمُ 91۔ 3 یہود سے متعلقْ ماننے کی صورت میں اس کی تفسیر ہوگی کہ تورات کے ذریعے سے تمہیں بتائی گئیں، بصورت دیگر قرآن کے ذریعے سے۔ 91۔ 4 یہ مَنْ اَ نُزَ لَ (کس نے اتارا) کا جواب ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٣] قرآن کا نزول بشر پر ؟ یہ خطاب یہود کو ہے جنہوں نے رسول دشمنی، بغض وعناد کی بنا پر ایک ایسی حقیقت کا انکار کردیا جو ان کے اپنے ہاں بھی مسلم تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی کتاب نازل نہیں فرمائی۔ اس اعتراض کے اللہ تعالیٰ نے دو طرح سے جواب دیئے ایک یہ کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی پوری معرفت ہی نہیں کیونکہ نہ تو اللہ خود لوگوں سے کلام کرتا ہے اور نہ ہی اس کام کے لیے انسانوں کے لیے کوئی فرشتہ بھیجتا ہے۔ اس کی ممکنہ صورت یہی ہے کہ اللہ اپنا کلام فرشتوں کے ذریعہ صرف نبی پر نازل فرمائے۔ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ تو تم تسلیم کرتے ہو کہ موسیٰ (علیہ السلام) بشر تھے، آدم کی اولاد سے تھے اور ان کے ماں باپ بھی موجود تھے تو ان پر جو کتاب اتاری گئی تھی وہ کس نے اتاری تھی ؟ اگر یہ کتاب اللہ نے نہیں اتاری تھی تو پھر تم اسے اتنا سنبھال سنبھال کر کیوں رکھتے ہو ؟ اور اس کتاب میں جو ہدایت کی باتیں اور علم کی روشنی ہے کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور ایسی باتیں بتاسکتا ہے ؟ جو ہدایت کی باتیں اس کتاب میں موجود ہیں انہیں نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے آباؤ اجداد۔ پھر ایسی کتاب اللہ کے سوا کوئی اتار سکتا تھا ؟ تمہارا اس کتاب کا کچھ حصہ لوگوں کو بتانا اور اپنی خواہشات کے مطابق کچھ حصہ کو چھپانا یہ سب کچھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ کتاب منزل من اللہ ہے اور تمہارے لیے حجت ہے ورنہ اگر یہ کسی انسان کی تصنیف ہوتی تو تمہیں ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ خ بشر اور رسول کی بحثیں فضول ہیں ! یہ ایسے سوال تھے جن کا جواب نہ دینے میں ہی یہود نے اپنی عافیت سمجھی۔ کیونکہ اس کا جواب ان کے خلاف پڑتا تھا لہذا اللہ نے خود ہی اس کا جواب بتادیا کہ ان سے کہہ دیجئے کہ تورات تو اتارنے والا اللہ ہی ہے اور اس نے اسے ایک بشر ہی پر نازل کیا تھا۔ وہی فضول قسم کی بحثیں، مثلاً چونکہ فلاں بشر ہے اس لیے وہ نبی نہیں ہوسکتا یا چونکہ فلاں نبی ہے اس لیے بشر نہیں ہوسکتا۔ تو انہیں ان بحثوں میں ہی الجھا رہنے دیجئے۔ ایسے لوگ ہدایت کے طالب نہیں ہوتے۔ [٩٣۔ الف ] دور نبوی میں تورات کی صورت :۔ اس آیت کے اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے زمانہ میں جو تورات یہود کے پاس تھی وہ مجلد کتاب کی صورت میں نہیں تھی بلکہ الگ الگ اوراق کی صورت میں تھی اور یہود کے لیے ایسی صورت میں بددیانتی کرنا نسبتاً بہت آسان تھا وہ جن آیات کو چھپانا چاہتے وہ ورق ہی غائب کردیتے تھے اور جو کچھ اس کتاب میں تحریف کرنا اور من ما فی تاویل یا شرح کرنا مقصود ہوتی تو الگ نیا ورق لکھ کر اس میں شامل کردیتے تھے۔ رجم کی آیت یا رسول اللہ سے متعلقہ آیات کو وہ اسی طرح چھپا جاتے تھے کہ ایسے اوراق درمیان سے نکال کر انہیں غائب کردیتے تھے اور اس بات کی یعنی تورات کے الگ الگ اوراق پر لکھا ہونے کی تائید اس حدیث سے ہوجاتی ہے کہ ایک دفعہ سیدنا عمر کو ایسے چند اوراق مل گئے جنہیں انہوں نے رسول اللہ کے سامنے پڑھنا شروع کردیا۔ جس سے آپ کے چہرہ پر ناراضگی کے آثار نمودار ہوگئے اور یہ حدیث اپنے مناسب مقام پر گزر چکی ہے۔ دوسری بات جو اس آیت سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ تورات کی کئی آیات ایسی بھی تھیں جن کا صحیح مطلب علمائے یہود کو اس وقت معلوم ہوا جب قرآن کی تعلیم عام ہوئی۔ اس سے پہلے نہ علمائے ہود کو ان آیات کے مفہوم کا علم تھا اور نہ ان کے آباؤ اجداد کو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖٓ ۔۔ : یہ خطاب یہود کو ہے، جنھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی اور بغض و عناد کی بنا پر ایسی حقیقت کا انکار کردیا جسے وہ خود بھی مانتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی کتاب نازل نہیں فرمائی۔ اس آیت میں ان کے اعتراض کا دو طرح سے جواب دیا گیا، ایک یہ کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر اور اسے پہچاننے کا جو حق تھا اس کے مطابق انھوں نے اسے پہچانا ہی نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نہ خود لوگوں سے کلام کرتا ہے اور نہ اس کام کے لیے کوئی فرشتہ بھیجتا ہے۔ اس کی ممکن صورت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام فرشتوں کے ذریعے سے صرف نبی پر نازل فرمائے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ تو تم بھی مانتے ہو کہ موسیٰ (علیہ السلام) بشر تھے، آدم کی اولاد سے تھے، ان کے ماں باپ بھی تھے، تو ان پر جو کتاب اتاری گئی تھی وہ کس نے اتاری تھی ؟ اگر یہ کتاب اللہ تعالیٰ نے نہیں اتاری تھی تو پھر تم اسے اتنا سنبھال سنبھال کر کیوں رکھتے ہو ؟ اور اس کتاب میں جو ہدایت کی باتیں اور علم کی روشنی ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور ایسی باتیں بتاسکتا ہے ؟ جو ہدایت کی باتیں اس کتاب میں موجود ہیں، انھیں نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے آباء و اجداد، پھر تمہارا اس کتاب کا کچھ حصہ لوگوں کو بتانا اور اپنی خواہشات کے مطابق کچھ حصہ چھپانا، یہ سب کچھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور تمہارے لیے حجت ہے، ورنہ اگر یہ کسی انسان کی تصنیف ہوتی تو تمہیں ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کہہ دیجیے کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ علوم اور معارف اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی ملے ہیں۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو پھر رسولوں پر بالعموم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بالخصوص وحی کے نازل ہونے کا انکار تم کیسے کرسکتے ہو ؟ یہ سارا خطاب کفار مکہ کو بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے نبی ہونے کو وہ بھی مانتے تھے۔ ” قَرَاطِيْسَ “ یہ ” قِرْطَاسٌ“ کی جمع ہے، یعنی ورق، کاغذ، یعنی یہودی تورات کو ایک کتاب کی طرح جمع کرنے کے بجائے الگ الگ ورقوں کی صورت میں رکھتے تھے اور اپنے مطلب کا ورق نکال کر دکھا دیتے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The second verse (91) has been revealed in answer to those who had the audacity to say that Allah Ta` ala has just not revealed any book to any human being. According to them, this whole proposition of books and messengers was all wrong. If, those who said that are the idolaters of Makkah, as mentioned by Ibn Kathir, then, the matter is obvious, for they did not believe in any book and prophet. And if they were Jews, as held by other commentators - and the contextual elements of the verse obviously support this view - then, their saying so was an outcome of their anger and ir¬ritation, something contrary to the dictates of their own religion. According to a narration of Imam al-Baghawi, this was the reason why the Jews too were displeased with the person who had made this un¬fortunate remark, and it was because of this erroneous conduct of his that he was removed from his office of religious authority. In this verse, Allah Ta` ala has said to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that peo¬ple who made this absurd remark did not recognize the Most True Al¬lah as was His right to be recognized. Had they done that, this auda¬cious remark would have never escaped their lips. Then, Allah Ta` ala tells the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to ask the people who deny Scrip¬tures absolutely: If that is what you think - that Allah Ta` ala did not reveal any book to any human being - then, you better have an answer as to who revealed the Torah, in which you too believe, and because of which you sit in judgment over your people. Along with it, they were also told: You are such connoisseurs of crooked ways that you would treat your own book, the Torah, which you believe in as being Holy Scripture, in a way that you got it conveniently written on separate sheets, rather than having it in a formally bound book, so that you can take out any sheet from it as and when you want it, and by doing so you would have the option of denying what it enjoined. An example of this are the verses of the Torah which described the signs and attributes of the Messenger of Allah which you have excluded. The last sentence of the verse: تَجْعَلُونَهُ قَرَ‌اطِيسَ (which you kept in sheets) means exactly this. The word: قَرَ‌اطِيسَ (qaratis) is the plural of: قِرطَاس (qirtas) which means sheet or paper. After that, addressing the same people, it has been said: وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ that is, you were taught (through the Qur an) what you or your forefathers did not know (earlier, either through the Torah or the Injil). At the end of verse (91), it was said: قُلِ اللَّـهُ ۖ ثُمَّ ذَرْ‌هُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ (Say, |"Allah.|" Then leave them playing with what they are indulged in). In other words, the sense is: As for the question - if Allah just did not send any book, who sent the Torah? - it was something they would not know how to answer, so, you go ahead and tell them that it was re¬vealed by none but Allah. Now that the argument against them stands concluded, your mission as far as they are concerned is over. So, let them be lost in the game they are playing.

دوسری آیت ان لوگوں کے جواب میں آئی ہے جنہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی بشر پر کوئی کتاب نازل ہی نہیں فرمائی۔ یہ کتابوں اور رسولوں کا قضیہ سرے سے غلط ہے۔ اس کے کہنے والے اگر مکہ کے بت پرست ہیں جیسا کہ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے فرمایا تو معاملہ ظاہر ہے کہ وہ کسی کتاب اور نبی کے قائل نہ تھے، اور اگر یہود ہیں جیسا کہ دوسرے مفسرین نے اختیار فرمایا اور آیت کا سلسلہ کلام بظاہر اس کی تائید میں ہے تو پھر ان کا ایسا کہنا محض غصہ اور جھنجھلاہٹ کا نتیجہ تھا، جو خود ان کے بھی مذہب کے خلاف تھا، امام بغوی رحمة اللہ علیہ کی ایک روایت میں ہے کہ اسی لئے یہود بھی اس شخص سے ناراض ہوگئے جس نے یہ بات کہی تھی، اور اسی غلطی کی وجہ سے اس کو مذہبی پیشوائی کے عہدہ سے ہٹا دیا تھا۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ جن لوگوں نے یہ بیہودہ کلمہ کہا انہوں نے حق تعالیٰ کو پہچاننے کی طرح نہیں پہچانا، ورنہ یہ گستاخانہ کلمہ ان کے منہ سے نہ نکلتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے جو مطلق آسمانی کتابوں کا انکار کرتے ہیں یہ کہہ دیجئے کہ اگر بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی کتاب نہیں بھیجی، تو یہ بتلاؤ کہ یہ تورات جس کو تم بھی مانتے ہو اور اسی کی وجہ سے قوم کے چودھری بنے بیٹھے ہو یہ کس نے نازل کی ہے، اور ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ تم وہ ٹیڑھے چلنے والے ہو کہ جس کتاب تورات کو تم آسمانی کتاب کہتے اور مانتے ہو اس کے ساتھ بھی تمہارا یہ معاملہ ہے کہ تم نے اس کو بندھی ہوئی کتاب کے بجائے متفرق اوراق میں لکھ چھوڑا ہے، تاکہ جب تمہارا جی چاہیے کسی ورق کو درمیان سے نکال دو ، اور اس کے مضمرات سے انکار کردو، جیسے تورات کی وہ آیات جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی علامات اور صفات کے متعلق تھیں ان کو تم نے نکال دیا ہے، آیت کے آخری جملہ تَجْعَلُوْنَهٗ قَرَاطِيْسَ کا یہی مطلب ہے، قراطیس، قرطاس کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ورق، کاغذ۔ اس کے بعد انہی لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَاۗؤ ُ كُمْ یعنی قرآن کے ذریعہ تمہیں تورات و انجیل سے زائد بھی وہ علم دیا گیا ہے جس کی نہ تمہیں اس سے پہلے خبر تھی، نہ تمہارے باپ داداوں کو۔ آخر آیت میں فرمایا : قُلِ اللّٰهُ ۙ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِيْ خَوْضِهِمْ يَلْعَبُوْنَ یعنی اس سوال کا جواب کہ جب اللہ نے کوئی کتاب ہی نہیں بھیجی تو تورات کس نے نازل کی وہ تو کیا دیں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی نازل فرمائی ہے، اور جب ان پر حجت تمام ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام ختم ہوگیا، اب وہ جس لہو ولعب میں کھوئے ہیں، ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ عَلٰي بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ۝ ٠ۭ قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَاۗءَ بِہٖ مُوْسٰي نُوْرًا وَّہُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِيْسَ تُبْدُوْنَہَا وَتُخْفُوْنَ كَثِيْرًا۝ ٠ۚ وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَاۗؤُكُمْ۝ ٠ۭ قُلِ اللہُ۝ ٠ۙ ثُمَّ ذَرْہُمْ فِيْ خَوْضِہِمْ يَلْعَبُوْنَ۝ ٩١ قدر تَقْدِيرُ اللہ علی وجهين : أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] . والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا بشر وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] ، ( ب ش ر ) البشر اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص/ 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ نور ( روشنی) النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] ( ن و ر ) النور ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ قرطس القِرْطَاسُ : ما يكتب فيه . قال اللہ تعالی: وَلَوْ نَزَّلْنا عَلَيْكَ كِتاباً فِي قِرْطاسٍ [ الأنعام/ 7] ، قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتابَ الَّذِي جاءَ بِهِ مُوسی نُوراً وَهُدىً لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَراطِيسَ [ الأنعام/ 91] . ( ق ر ط س ) القرطاس ۔ ہر وہ چیز جس پر لکھا جائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ نَزَّلْنا عَلَيْكَ كِتاباً فِي قِرْطاسٍ [ الأنعام/ 7] اور اگر ہم تم پر کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب نازل کرتے قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتابَ الَّذِي جاءَ بِهِ مُوسی نُوراً وَهُدىً لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَراطِيسَ [ الأنعام/ 91] کہو کہ جو کتاب موسیٰ لیکر آئے تھے اسے کسی نے نازل کیا تھا جو لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی اور جسے تم نے علیحہ ہ علیحہ ہ اوراق ( میں نقل ) کر رکھا ہے ۔ بدا بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] ( ب د و ) بدا ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ خفی خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] ، ( خ ف ی ) خفی ( س ) خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ علم ( تعلیم) اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ خوض الخَوْضُ : هو الشّروع في الماء والمرور فيه، ويستعار في الأمور، وأكثر ما ورد في القرآن ورد فيما يذمّ الشروع فيه، نحو قوله تعالی: وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ [ التوبة/ 65] ، وقوله : وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة/ 69] ، ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ [ الأنعام/ 91] ، وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام/ 68] ، وتقول : أَخَضْتُ دابّتي في الماء، وتخاوضوا في الحدیث : تفاوضوا . ( خ و ض ) الخوض ( ن ) کے معنی پانی میں اترنے اور اس کے اندر چلے جانے کے ہیں بطور استعارہ کسی کام میں مشغول رہنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں اس کا زیادہ تر استعمال فضول کاموں میں لگے رہنا ہر ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ [ التوبة/ 65] اور اگر تم ان سے ( اس بارے میں ) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم عورتوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے ۔ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة/ 69] اور جس طرح وہ باطل میں ٖڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے ۔ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ [ الأنعام/ 91] پھر ان کو چھوڑ دو کہ اپنی بیہودہ بکواس میں کھیلتے رہیں ۔ وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام/ 68] اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہیں تو ان سے الگ ہوجاؤ ۔ یہاں تک کہ اور باتوں میں مشغول ہوجائیں ۔ کہا جاتا ہے : ۔ میں نے اپنی سواری کو پانی میں ڈال دیا ۔ باہم باتوں میں مشغول ہوگئے ۔ لعب أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] ، ( ل ع ب ) اللعب ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩١) ان منکر لوگوں نے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی قدر پہچاننا واجب تھی دیسی قدر نہ پہچانی اور کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام میں سے کسی پر کوئی کتاب نازل نہیں کی، یہ آیت مالک بن صیف یہودی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی کتاب نازل نہیں کی۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مالک سے فرمائیے یہ تو بتا کہ وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ (علیہ السلام) لائے تھے جو خود بھی نور اور روشنی ہے اور لوگوں کی ہدایت کا سبب ہے جس کو تم نے اپنی اغراض کے تحت مختلف اوراق میں لکھ چھوڑا ہے، ان میں سے بہت سی باتوں کو جن میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت نہیں ہے، ظاہر کرتے ہو اور بہت سی ان باتوں کو جن میں آپ کی نعت وصفت ہے چھپاتے ہو۔ اور کتاب میں بہت سی ایسی باتوں کی تعلیم دی گئی، مثلا احکام وحدود حلال و حرام اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف وصفت جن کی اس سے پہلے تمہیں اور تمہارے بڑوں کو کچھ بھی خبر نہیں تھی، سو اگر یہ آپ کو جواب میں کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ آپ ان سے فرما دیجیے کہ یہ کتاب حق بھی اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے اور اس کے بعد ان کو ان کے بیہودہ مشغلہ تکذیب وگمراہی میں لگا رہنے دیجیے۔ شان نزول : (آیت) ” وما قدرو اللہ “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے سعید بن جبیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ مالک بن صیف نام ایک یہودی نے آکر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مخاصمہ کرنا شروع کردیا، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا کہ میں تجھے اس ذات کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں جس نے توریت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی ہے کیا تو نے توریت میں یہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ موٹی آدمی سے بغض فرماتے ہیں اور وہ خود موٹا تھا یہ سن کر غصہ میں آگیا اور کہنے لگا اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی تو اس سے اس کے ساتھیوں نے کہا کہ تیرا منہ کالا ہو۔ (یعنی تو رسوا ہو) اس کا مطلب ہے کہ نہ حضرت موسیٰ پر کوئی کتاب نازل ہوئی، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ان منکروں نے اللہ تعالیٰ کی جیسی قدر پہچاننا واجب تھی ویسی قدر نہیں پہچانی، یہ روایت مرسل ہے۔ اور ابن جریر (رح) نے اسی طرح عکرمہ (رض) سے روایت نقل کی ہے اور دوسری حدیث سورة نساء میں گزر چکی ہے۔ اور ابن جریر (رح) نے ابن ابی طلحہ (رض) کے طریق سے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ یہودی کہنے لگے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے آسمان سے کوئی کتاب نازل نہیں کی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب اس ردّو قدح کا ذکر ہونے جا رہا ہے جو مکہ کے لوگ یہودیوں کے سکھانے پڑھانے پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کر رہے تھے۔ اب تک اس سورة میں جو گفتگو ہوئی ہے وہ خالص مکہ کے مشرکین کی طرف سے تھی اور انہی کے ساتھ سارا مکالمہ اور مناظرہ تھا۔ لیکن جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ یہ دونوں سورتیں (سورۃ الانعام اور سورة الاعراف) مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئیں۔ اس وقت تک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور نبوت کے دعوے کا چرچا مدینہ منورہ میں بھی پہنچ چکا تھا اور اہل کتاب (یہود) نے خطرے کو بھانپ کر وہیں بیٹھے بیٹھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازشیں اور ریشہ دوانیاں شروع کردی تھیں۔ وہ ضد اور ہٹ دھرمی میں یہاں تک کہہ بیٹھے تھے کہ ان مسلمانوں سے تو یہ مشرک بہتر ہیں جو بتوں کو پوجتے ہیں ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح کی ایک بات وہ ہے جو یہاں کہی جا رہی ہے ۔ آیت ٩١ (وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْءٍ ط) وحی الٰہی کے بارے میں یہ صاف انکار denial) (categorical ان لوگوں کا تھا جو خود کو الہامی کتاب کے وارث سمجھتے تھے۔ اہل مکہ تو چونکہ آسمانی کتابوں سے واقف ہی نہیں تھے اس لیے انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور وحی کا ذکر یہود سے کیا اور ان سے رائے پوچھی۔ اس پر یہودیوں کا جواب یہ تھا کہ یہ سب خیال اور وہم ہے ‘ اللہ نے کسی انسان پر کبھی کوئی چیز اتاری ہی نہیں۔ اب اہل مکہ نے یہودیوں کے پڑھانے پر قرآن مجید پر جب یہ اعتراض کیا تو اس کے جواب میں مشرکین مکہ سے خطاب نہیں کیا گیا ‘ بلکہ برا ہِ راست یہود کو مخاطب کیا گیا جن کی طرف سے یہ اعتراض آیا تھا ‘ اور ان سے پوچھا گیا کہ اگر اللہ نے کسی انسان پر کبھی کچھ نازل ہی نہیں کیا تو : (قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَآءَ بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّہُدًی لِّلنَّاسِ ) تو کیا تورات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے من گھڑت تھی ؟ کیا انہوں نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھ لیا تھا ؟ (تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَہَا وَتُخْفُوْنَ کَثِیْرًا ج) یہود اپنی الہامی کتاب کے ساتھ جو سلوک کرتے رہے تھے وہ بھی انہیں جتلا دیا۔ یہودی علماء نے تورات کے احکام کو نہ صرف پسند اور ناپسند کے خانوں میں تقسیم کردیا تھا بلکہ اپنی من مانی فتویٰ فروشیوں کے لیے اس کو اس طرح چھپا کر رکھا تھا کہ عام لوگوں کی دسترس اس تک ناممکن ہو کر رہ گئی تھی۔ (وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلاآ اٰبَآؤُکُمْ ط) (قُلِ اللّٰہُلا) یعنی پھر خود ہی جواب دیجیے کہ تمہاری اپنی الہامی کتابیں تورات اور انجیل بھی اللہ ہی کی طرف سے نازل شدہ ہیں اور اب یہ قرآن بھی اللہ ہی نے نازل فرمایا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

59. In the light of the foregoing discussion and commentary, it is quite evident that this statement comes from the Jews. Since the Prophet (peace be on him) had asserted that he was a Prophet and that a Book had been revealed to him, the unbelieving Quraysh and other polytheists of Arabia naturally used to approach the Jews and the Christians - who believed in the Prophets and in the Scriptures - and tried to solicit a candid answer from them as to whether God's words had indeed been revealed to Muhammad (peace be on him). Whatever answer they gave was then disseminated on all sides by the active opponents of the Prophet (peace be on him) in order to create revulsion against Islam. This is the reason for mentioning, and then refuting, this statement by the Jews, which had been used by the opposition as an argument against Islam. One might wonder how a Jew, who believes in the Torah as a revealed Book of God, could say that God had revealed nothing to anyone. At times blind obstinacy and bigotry cause people to resort to arguments which strike at the roots of their own belief. These people were bent upon denying the prophethood of Muhammad (peace be on him), and this fanaticism had come to dominate them so much that they went so far as to deny the very institution of prophethood. To say that peopte have not formed any proper estimate of God means that they have erred grossly in assessing His wisdom and power. Whoever says that God did not reveal knowledge of Reality and the code for man's guidance has fallen into one of two errors. Either he considers it impossible for man to become the recipient of God's revelation, and this constitutes a gross misjudgement of God's power, or he thinks that even though God has equipped man with intelligence and with the power to act as he chooses, He has nevertheless made no arrangement for his guidance, but has left him in this world altogether unguided and thus conferred upon him the right to behave in any way he likes. This is obviously a misjudgement of God's wisdom. 60. The revelation of the Torah to Moses (peace be on him) is adduced by way of evidence since the Jews, to whom this response is addressed, believed that it had been revealed. It is obvious that their recognition of the Torah as the Book revealed to Moses negated their standpoint that God had never revealed anything to any human being. Their belief in the Torah at least proved that revelation to man is possible, and had actually taken place.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :59 پچھلے سلسلہ بیان اور بعد کی جوابی تقریر سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہ قول یہودیوں کا تھا ۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ یہ تھا کہ میں نبی ہوں اور مجھ پر کتاب نازل ہوئی ہے ، اس لیے قدرتی طور پر کفار قریش اور دوسرے مشرکین عرب اس دعوے کی تحقیق کے لیے یہود و نصاریٰ کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان سے پوچھتے تھے کہ تم بھی اہل کتاب ہو ، پیغمبروں کو مانتے ہو ، بتاؤ کیا واقعی اس شخص پر اللہ کا کلام نازل ہوا ہے؟ پھر جو کچھ جواب وہ دیتے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سرگرم مخالفین جگہ جگہ بیان کرکے لوگوں کو برگشتہ کرتے پھرتے تھے ۔ اسی لیے یہاں یہودیوں کے اس قول کو ، جسے مخلافین اسلام نے حجت بنا رکھا تھا ، نقل کر کے اس کا جواب دیا جا رہا ہے ۔ شُبہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک یہودی جو خود توراۃ کو خدا کی طرف سے نازل شدہ کتاب مانتا ہے ، یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ خدا نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ۔ لیکن یہ شبہ صحیح نہیں ہے ، اس لیے کہ ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر بسا اوقات آدمی کسی دوسرے کی سچی باتوں کو رد کرنے کے لیے ایسی باتیں بھی کہہ جاتا ہے جن سے خود اس کی اپنی مسلمہ صداقتوں پر بھی زد پڑ جاتی ہے ۔ یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو رد کرنے پر تلے ہوئے تھے اور اپنی مخالفت کے جوش میں اس قدر اندھے ہو جاتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تردید کرتے کرتے خود رسالت ہی کی تردید کر گزرتے تھے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ لوگوں نے اللہ کا بہت غلط اندازہ لگایا جب یہ کہا ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کی حکمت اور اس کی قدرت کا اندازہ کرنے میں غلطی کی ہے ۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ خدا نے کسی بشر پر علم حق اور ہدایت نامہ زندگی نازل نہیں کیا ہے وہ یا تو بشر پر نزول وحی کو ناممکن سمجھتا ہے اور یہ خدا کی قدرت کا غلط اندازہ ہے ، یا پھر وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا نے انسان کو ذہانت کے ہتھیار اور تصرف کے اختیارات تو دے دیے مگر اس کی صحیح رہنمائی کا کوئی انتظام نہ کیا ، بلکہ اسے دنیا میں اندھا دھند کام کرنے کے لیے یونہی چھوڑ دیا ، اور یہ خدا کی حکمت کا غلط اندازہ ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :60 یہ جواب چونکہ یہودیوں کو دیا جارہا ہے اس لیے موسیٰ علیہ السلام پر توراۃ کے نزول کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، کیونکہ وہ خود اس کے قائل تھے ۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ تسلیم کرنا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توراۃ نازل ہوئی تھی ، ان کے اس قول کی آپ سے آپ تردید کردیتا ہے کہ خدا نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ۔ نیز اس سے کم از کم اتنی بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ بشر پر خدا کا کلام نازل ہو سکتا ہے اور ہو چکا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

33: یہاں سے بعض یہودیوں کی تردید مقصود ہے۔ آنحضرتﷺ کی مخالفت کرتے ہوئے ایک مرتبہ ان کے ایک سردار مالک بن صیف نے غصے میں آکر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اللہ نے کسی اِنسان پر کچھ نازل نہیں کیا۔ 34: یعنی پوری کتاب کو ظاہر کرنے کے بجائے تم نے اسے حصوں میں بانٹ رکھا ہے۔ جو حصے تمہارے مطلب کے مطابق ہوتے ہیں اُن کو تو عام لوگوں کے سامنے ظاہر کردیتے ہو، مگر جو حصے تمہارے مفادات کے خلاف ہوتے ہیں، انہیں چھپا لیتے ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(91 ۔ 92) ۔ اس آیت کی شان نزول میں علمائے مفسرین کا بڑا اختلاف ہے بعضے مفسرین کا یہ قول ہے کہ یہ آیت مشرکین مکہ کے حق میں اتری ہے کیونکہ وہ کسی بشر کی نبوت کے اور کسی بشر پر کلام الٰہی کے اترنے کے قائل نہیں تھے اور کہتے تھے کہ اللہ کو نبی بھیجنا ہوتا تو آسمان سے کوئی فرشتہ آکر ہم کو اللہ کے احکام پہنچا جاتا لیکن اس شان نزول پر امام فخر الدین رازی اور اور مفسرین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اگر یہ آیت مشرکین مکہ کی شان میں نازل ہوتی تو ان کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی نبوت بطور الزام کے اس آیت میں کیوں ذکر کی جاتی اس لیے کہ مشرکین مکہ تو حضرت موسیٰ کو اور کسی نبی کو نہیں مانتے اور بعضے مفسرین نے کہا ہے کہ یہود کے حق میں یہ آیت اتری ہے ان مفسرین پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ ساری سورة انعام مکی ہے اور یہود کا جھگڑا مدینہ میں آنحضرت کے آنے کے بعد شروع ہوا ہے پھر مکی آیت یہود کے حق میں کیونکر نازل ہوسکتی ہے رفع اس اختلاف کا یہ ہے کہ یہود اور مشرکین مکہ کی حالت مل کر ایک مجموعی حالت پیدا ہوئی تھی جس پر یہ آیت اتری ہے مشرکین مکہ کی حالت تو یہ تھی کہ ہجرت سے پہلے انہوں نے یہود کو اہل کتاب جان کر ان سے آنحضرت کا حال پوچھا تھا انہوں نے دنیا کے لالچ سے یہ کہہ دیا کہ اس دین جدید سے تمہارا قدیم دین اچھا ہے اس سے مشرکین مکہ کا انکار زیادہ بڑھ گیا اور یہود کی حالت یہ تھی کہ مالک بن صیف یہودی نے آنحضرت سے بحث کرتے وقت ایک روز کل انبیاء کی نبوت کا انکار کردیا تھا اس لیے اس حالت مجموعی پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت میں دونوں فرقوں کو قائل کیا گیا ہے مشرکین مکہ کو تو یوں قائل کیا گیا ہے کہ جن یہود کے بھروسہ پر تمہارا انکار نبوت کے قبول کرنے میں بڑھا ہے وہ تو حضرت موسیٰ کو نبی کہتے ہیں اور حضرت موسیٰ بشر تھے پھر تم کہاں سے کہتے ہو کہ کوئی بشر نبی نہیں ہوسکتا اور مالک بن صیف یہودی نے باوجود یہودی ہونے کے غصہ میں سب انبیاء کا جو انکار کردیا تھا حضرت موسیٰ کی نبوت سے اس کا قائل کرنا تو ایک ظاہر بات ہے ابن جریر ابن ابی حاتم معالم التنزیل ان تینوں تفسیروں کی روایات ١ ؎ کو جمع کیا جاوے تو اس حالت مجموعی کے شان نزول ہونے کی پوری تصدیق نکل آتی ہے اور یہ سب اختلاف شان نزول کا رفع ہوجاتا ہے۔ حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے یہ جان لیا ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے کے بعد اس قدر مخلوق دوزخیوں کے سے کام کر کے دوزخ میں جاوے گی اور اس قدر مخلوق جنتیوں کے سے کام کر کے جنت میں جاوے گی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے انصاف سے لوگوں کے دوزخ اور جنت میں جانیکا مدار اپنے اس علم ازلی پر نہیں رکھا بلکہ ہر ایک کا عذر پورا ہوجانے کے لیے دنیا کے پیدا کرنے کے بعد لوگوں کی ہدایت کے واسطے انبیاء بھیجے کتابیں نازل فرمائیں باوجود اس کے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی کتاب آسمانی نازل نہیں کی وہ بڑے ناشکر میں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی کچھ قدر نہیں کیا پھر فرمایا کہ ان یہود نے کتاب آسمانی کی ایک یہ بھی ناقدری کی کہ اصل پوری کتاب کو چھپا کر کچھ الگ ورقوں پر تورات کی جابجا سے نقل کرلیا ہے اور ان ورقوں میں جب چاہتے ہیں اپنی مرضی کے موافق تغیر تبدل کرلیتے ہیں پھر فرمایا کہ قرآن میں بعض وہ باتیں ان کو بتلائی گئیں ہیں کہ اب تک اہل کتاب مشرکوں اور ان کے بڑوں کو معلوم نہ تھیں مگر قرآن کو کتاب آسمانی نہ ماننے کے سبب سے یہ لوگ ان باتوں کے جاننے سے محروم رہے پھر فرمایا کہ جب ان لوگوں سے پوچھا جاوے گا کہ موسیٰ پر تورات کس نے نازل کی تو اس کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ نے نازل کی پھر باوجود اس کے جو یہ بکواس ہے کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی کتاب آسمانی نازل نہیں فرمائی تو ایسے ہٹ دھرمی کرنے والوں کو بچوں کی طرح کھیل میں لگے رہنے دو وقت مقررہ آنے پر ان سے بھگت لیا جاویگا اب آگے فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ پر تورات نازل فرمائی اسی طرح اے نبی آخر الزمان تم پر اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرمایا ہے جس سے قیامت تک لوگ نفع اٹھا دینگے اور وہ قرآن ایسا ہے کہ توحید الٰہی نیکوں کی جزا بدوں کی سزا کے بیان کرنے میں پچھلی کتابوں کی صداقت کرتا ہے اے نبی آخر الزمان یہ قرآن اللہ تعالیٰ نے تم پر اس لیے نازل فرمایا ہے کہ تم مکہ اور نواح مکہ کے رہنے والے بےراہ لوگوں کو عذاب الٰہی سے ذرا کر نیک راستہ پر لاؤ۔ جو لوگ مرنے کے بعد پھر جینے اور سزاو جزا کے منکر ہیں ان کا حال تو اوپر گذر چکا کہ وہ کسی بشر پر کتاب آسمانی کے نازل ہونے کو نہیں مانتے ہاں جو لوگ دنیا کے انتظام کا نتیجہ وہی ہے جس کی خبر اللہ کے رسول نے دی ہے کہ دنیا کے تمام نیک وبد کا ایک دن بدلہ ملنے والا ہے وہ اس قرآن کی نصیحتوں کا یقین کریں گے اور نماز کا جو ان کو حکم ہوا ہے اس کے پورے پابند رہیں گے۔ مکہ کے قیام تک فقط نماز فرض تھی اس لیے اس مکی سورة میں فقط نماز کا ذکر فرمایا سلف میں سے جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ اس مکی سورة میں یہ آیت مدنی ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ شریعت میں نماز ایک بڑی چیز ہے اس لیے یہاں فقط نماز کا ذکر فرمایا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن ایک ایسا معجزہ مجھ کو دیا ہے جس کے سبب سے میری امت کی تعداد قیامت کے دن اور امتوں سے بڑھ جاوے ٢ ؎ گی۔ یہ دونوں حدیثیں ان دونوں آیتوں تفسیر ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش میں جو لوگ بری زمین کی طرح ازلی بد تھے ان کے دل پر قرآن کی نصیحت کا کچھ اثر نہ ہوا بلکہ وہ یہی کہتے کہتے بدر کی لڑائی میں مارے گی کہ یہ قرآن کلام الٰہی نہیں ہے کیونکہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی کتاب آسمانی نازل نہیں فرمائی ہاں جو لوگ اچھی زمین کی طرح ازلی نیک تھے ان کے دل پر قرآن کے نازل ہونے کے زمانہ میں بھی اثر ہوا اور قیامت تک اثر ہو کر اس قدرت لوگ تابع اسلام ہوں گے کہ جس کے سبب سے قیامت کے دن نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کی تعداد اور امتوں سے بڑھ جاوے گی اسی واسطے ان آیتوں میں قرآن کو برکت کی کتاب فرمایا کیونکہ برکت کی چیز وہ ہے جو ہمیشہ بڑھتی رہے اور یہی بات قرآن کی نصیحت میں اس صحیح حدیث سے پائی جاتی ہے :۔ ١ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ٧٤٤ باب کیف نزل الوحی و صحیح مسلم ج ١ ص ٨٦ باب و جوب الایمان برسالۃ نبینا الخ ٢ ؎ تفصیلی روایات کے لیے دیکھئے تفسیر ابن جریرج ٧ ص ١٦٢۔ ١٦٣ و تفسیر معالم ج ٣ ص ٣٥٧۔ ٣٥٨۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:91) ما قدروا۔ ماضی منفی معروف۔ صیغہ جمع مذکر غائب۔ انہوں نے تعظیم نہیں کی۔ انہوں نے نہیں پہچانا۔ تجعلونہ قراطیس۔ جن کو تم نے متفرق اور مختلف کاغذوں میں لکھ رکھا ہے (تاکہ اپنے مطلب کے اوراق مختلف مواقع پر پیش کئے جاسکیں جیسا کہ ان کے اپنے مفاد میں مناسب ہو) ۔ قراطیس۔ القرطاس ہر وہ چیز جس پر لکھا جائے۔ کاغذ وغیرہ۔ قل اللہ۔ جواب ہے قل من انزل الکتاب الذی جاء بہ موسیٰ کا۔ قل اللہ کو اگر جملہ اسمیہ لیا جائے تو تقدیر ہوگی قل ھو اللہ۔ اور جملہ فعلیہ کے اعتبار سے اس کی تقدیر ہوگی۔ قل انزلہ اللہ۔ خوضہم۔ ان کی بیہودہ گوئی۔ باتیں بنانا۔ گھسنا۔ خاض یخوض کا مصدر ہے خوض کے معنی پانی میں گھسنے کے ہیں بطور استفادہ سب کاموں میں گھسنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 حضرت ابن عباس اور بعض دیگر تابیعن نے کہا ہے کہ اس سے قریش مراد ہیں جو کہ رسالت کے منکر تھے۔ (ابن کثیر) بعض نے گزشتہ سلسلئہ کلام اور بعد کی جوابی تقریر کو قرینیہ بناکرلکھا ہے کہ یہ علمائے یہود کا دعویٰ تھا جسے کفار قریش دلیل بناکر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت سے انکار کیا کرتے تھے یہودی پڑھے لکھے تھے اور ان کے پاس گزشتہ انبیا کا علم بھی تھا اس لیے کفار قریش نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے اکثر ان کی طرف رجوع کیا کرتے تھے معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایسے ہی موقع پر انہوں نے یہ بات کفار قریش سے بطور جواب کہی اور ضد اروہٹ دھرمی میں اندھے ہوکریہ بھی بھول گئے کہ اس کی زد کا براہ راست ان سے خطاب کر کے جواب دیا ہے (ملخص المنار) مگر ابن جریر نے پہلے قول کو پسند کیا ہے اور حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے، ولاول اضح باقی رہا قل من انزل الکتاب الذی۔۔ الخ تو یہ بھی قریش پر الزام ہے کیونکہ وہ موسیٰ ( علیہ السلام) کی رسالت کے قائل تھے اور پھر صمنا یہود سے خطاب ہے۔ ( ابن کثیر)7 یعنی تم نے توارۃ کے الگ الگ حصے بنا رکھے ہیں جو حصہ تمہارے مطلب کا ہے اسے تو ظاہر کرتے ہو اور جو حصہ تمہارے خود ساختہ عقائد اور من مانی کاروائیوں کے خلاف پڑتا ہے جسے رجم کا مسئلہ اور انبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق آیات) اسے چھپاتے ہو،8 یعنی بہت سے احکام اور قصے اور بہت سے شریعت کے مسئلے اور حکمت کی باتیں جن کا توراۃ میں ذکر نہیں تھا۔ (کذافی الوحیدی) یا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ توراۃ کے ذریعے تمہیں وہ کچھ سکھا یا گیا جس کا تمہیں اور تمہارے باپ دادا کو کوئی علم نہ تھا اس صورت میں یہ تورات کی تیسری صفت ہوگی (کبیر)9 اس کے یہی معنی حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہیں۔ ( ابن کثیر)10 یعنی پڑے بک بک کرتے رہیں اور بچوں کی طرح اپنے کفریت سے کھیلتے رہیں۔ (وحیدی) عنقریب مرنے کے بعد ان پر ساری حقیقت کھل جائے گی، ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 91 : 92 : ماقدرو (انہوں نے قدر نہ کی) حق قدرہ (جیسا کہ اس کی قدر کرنے حق تھا) بشر (انسان) قراطیس (قرطاس) ۔ پرزے پرزے۔ (علمتم (تمہیں سکھایا گیا) خوض (بےہودہ مشغلہ) یلعبون (وہ کھیلتے ہیں) ام القری (بستیوں کی ماں (شہر مکہ مکرمہ) حول (اردگرد۔ آس پاس) یحافظون (وہ حفاظت کرتے ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 91 تا 92 : جیسا کہ آج کل بھی بہت سے مستشرقین ‘ خودساختہ محققین اور عاقلین یہ کہتے ہوئے نہیں جھجکتے کہ قرآن خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصنیف ہے (نعوذ باللہ) اسی طرح ان دنوں بھی کسی یہودی نے اٹھ کر پکار دیا کہ اللہ کسی بشر پر اپنا کلام نازل نہیں کرتا۔ دوسرے الفاظ میں یہ قرآن خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصنیف ہے۔ جسے وہ اللہ کے نام سے مشہور کررہے ہیں۔ (ثم نعوذ باللہ) ۔ اس کا جواب آیت 91 میں دیا گیا ہے۔ جس نے یہ کہا اس نے نہیں پہچانا کہ یہ کائنات اپنے تمام سازو سامان کے ساتھ ‘ اس میں یہ زمین اور اس زمین پر یہ اشرف المخلوقات یعنی انسان۔ یہ سب چیزیں کس لئے پیدا کی گئی ہیں۔ اس نے نہیں پہچانا کہ اس دنیا میں انسان کی ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ ان ذمہ داریوں کو انجام دینے کے لئے اسے ایک ہدایت نامہ اور ایک تفسیر و تشریح کرنے والے یعنی صاحب قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ضرورت پڑے گی۔ اس نے نہیں جانا کہ جس الہل نے اتنی بڑی خلقت بنائی اور چلائی ‘ جس نے انسان کو خلافت الہیہ کا عظیم ترین فریضہ سپرد کیا ‘ وہ لازماً ہدایت نامہ اور ہدایت کار بھیج کر رہے گا اور انہیں گمراہی میں حیران و سرگرداں بھٹکنے کے لئے نہیں چھوڑ دے گا۔ اس ہدایت کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے وحی بردار فرشتہ اور وحی بردار نبی کی ضرورت ہوگی۔ جس اللہ نے تمام مادی ضروریات اک اک کر کے فراہم کردی ہیں ‘ آخرکیوں وہ ذہنی ‘ دماغی اور روحانی ضروریات فراہم نہ کرے گا۔ جس شخ صنے اتنا بڑا جھوٹ بکا اس نے نہ صرف ہمارے رسول کی توہین کی بلکہ خود خالق کائنات کی بھی توہین کی۔ اس نے اللہ کی قدرت کو نہیں مانا کہ وہ بشر پر اپنا کلام نازل کرسکتا ہے ‘ اس نے فرشتے کو نہیں مانا کہ وہ وحی الٰہی پہنچا سکتا ہے۔ اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں مانا کہ وہ وحی الٰہی وصول کرسکتا ہے ‘ اس نے کار نبوت کو نہیں مانا کہ وہ اس کی تبلیغ کرسکتا ہے۔ اس نے اللہ پر الزام لگایا کہ اس نے جھوٹے نبی کو بھجا اور حضور پر نور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام لگایا کہ وہ اپنی تصنیف کو اللہ کی تصنیف بتا کر پیش کررہے ہیں (ثم نعوذ باللہ) ۔ وہ اللہ کا بھی منکر ہے ‘ قرآن کا بھی منکر ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی منکر ہے اور فرشتے کا بھی منکر ہے۔ اس آیت میں اس بات کو واضح طور سے فرمادیا گیا کہ یہودی ہو کر یہ تو مانتے ہیں کہ ان کے نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایک کتاب توریت نازل ہوئی تھی جو دل کے لئے روشنی تھی اور ہاتھ پاؤں کے لئے رہنمائی۔ فرمایا جارہا ہے کہ آج بھی یہودیوں کے پیشواؤں کے پاس توریت موجود ہے جس کے اوراق انہوں نے الگ الگ کر رکھے ہیں تاکہ عوام کو صرف وہ اوراق دکھا سکیں جن سے ان کی پیشوائی کا کاروبار مجروح نہ ہوتا ہو ‘ اور وہ سارے اوراق چھپالیں جو ان کے مفاد کی پرورش نہیں کرتے۔ یہ تمہارے پیشوا نسلاً بعد نسل توریت کو سنبھال کر کیوں رکھے ہوئے ہیں کو جن کہ یہ کتاب وہ علم دیتی ہے جو کسی اور ذریعہ سے انہیں حاصل نہیں ہو سکتا تھا اور جس کی بدولت وہ عالم اور فاضل بنے ہوئے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی گئی ہے کہ ان بنی اسرائیل سے پوچھئے کہ تمہارے نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر توریت اتری تھی یا نہیں۔ وہ ضرور کہیں گے کہ ہاں۔ پوچھئے کہ وہ کار نبوت انجام دیتے تھے یا نہیں ؟ وہ ضرور کہیں گے کہ ہاں۔ پھر کہیئے کہ اسی طرح قرآن ہے جو مجھ پر نازل ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نبی بھی تھے اور بشر بھی۔ اسی طرح میں نبی بھی ہوں اور بشر بھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی گئی ہے کہ یہ جواب دے کر آپ بحث میں مت الجھئے۔ ظاہر ہے کہ جو ضدی اور ہٹ دھرم ہیں وہ اپنی انا کی خاطر کچھ نہ کچھ دماغ تراشی ضرور دکھائیں گے۔ فرمایا جارہا ہے کہ آپ انہیں اپنا شوق پورا کرنے دیجئے۔ یہ بات کچھ ان ہی دنوں محدود نہ تھی۔ آج بھی چین ‘ روس ‘ امریکہ ‘ کے سائنسدان اور مفکرین انکار نبوت پر بلکہ انکار الہٰیت پر اپنا ذہنی شوق پورا کر رہے ہیں۔ مغربی سائنس انکار کا ہم معنی بن کر رہ گئی ہے۔ گذشتہ دنوں پاکستان کے ایک چوٹی کے سائنسدان کا مضمون اخبار میں چھپا تھا کہ فرشتہ کوئی چیز ہیں ہے۔ میں فرشتہ کو نہیں مانتا جب اس سے پوچھا گیا کہ تمہارے آں جہانی بات کی روح کو ن لے گیا تو وہ چوٹی کا سائنسدان اس کا جواب نہ دے سکا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل کے لئے زبور ‘ توریت اور انجیل تھیں۔ اب آپ اس قرآن کو تمام دنیا میں پھیلایئے مگر شروع کیجئے مکہ مکرمہ سے ۔ یہ قرآن اگلے آسمانی صحفیوں کی بھی تصدیق کرتا ہے چناچہ کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ جس کتاب کو چاہا مانا اور جس کو چاہا نہ مانا۔ جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ اور ایمان کا ثبوت یہ ہے کہ وہ نماز کے پابند ہیں۔ اس بات کے ثبوت میں کہ بشر کو نبی بنا کر اس پر کلام الٰہی نازل ہوا ہے ‘ چار شہادتیں پیش کی گئی ہیں۔ پہلی توریت کی مثال جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی جنہیں تمام بنی اسرائیل والے مانتے ہیں۔ دوسرے توریت اور قرآن ایک ہی سلسلے کی دوکڑیاں ہیں۔ اصل الاصول اور مبادیات میں کوئی فرق نہیں پھر کیا وجہ ہے کہ توریت کو مانا جائے اور قرآن کو نہ مانا جائے۔ تیسرے یہ کہ یہ کتاب بڑی خیرو برکت والی ہے یہ اہل تقویٰ کے لئے سراسر ہدایت ہے۔ چوتھے اس کتاب کا مقصد بھی وہی ہے جو دوسری آسمانی کتابوں کا رہا ہے۔ یعنی لوگوں کو آخرت سمجھانا ‘ چونکانا اور ہوشیار کرنا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یہ کہنا ناقدر شناسی اس لیے ہے کہ اس سے مسئلہ نبوت کا انکار لازم آتا ہے اور نبوت کا منکر اللہ کی تکذیب کرتا ہے اور تصدیق حق واجب ہے پس اس میں قدرشناسی واجب اخلال ہوا۔ 3۔ تجعلونہ قراطیس سے ظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر مضمون کے اوراق جدا کر رکھے تھے اور بعض کا ایسا کرلینا تعجب نہیں اور اگر قراطیس سے مراد فی القراطیس مجازا لیا جائے تو معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ اپنے ذہن میں تورات کے مختلف حصے تجویز کر رکھے تھے جن میں بعض مضامین کو مثل نعت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح چھپاتے تھے کہ اس کی اور اور تاویلیں کردیتے تھے۔ 1۔ مطلب یہ کہ جس تورات کی یہ حالت ہے کہ اس کو اولا تو تم مانتے ہو دوسرے بوجہ نور وہدی ہونے کے ماننے کے قابل بھی ہے تیسرے ہر وقت تمہارے استعمال میں ہے گو وہ استعمال شرمناک ہے لیکن اس کی وجہ سے گنجائش انکار کی تو نہیں رہی چوتھے تمہارے حق میں وہ بڑی نعمت اور منت کی چیز ہے اسی کی بدولت عالم بنے بیٹھے ہو اس حثییت سے بھی اس میں گنجائش انکار نہیں یہ بتاو کہ اس کو کس نے نازل کیا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : توحید سے انحراف، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت کا انکار کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی ناقدری کرنے کے مترادف ہے۔ انسان جب اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار یا اس کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک بناتا ہے تو پھر وہ بڑے بڑے حقائق ٹھکراتا چلا جاتا ہے۔ نزول قرآن کے وقت اور آج بھی کفار اور مشرکوں کی یہی حالت ہے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا یہ کہہ کر انکار کرتے ہیں کہ آپ بشر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر اپنی کتاب نازل نہیں کی۔ مکہ کے لوگ اکثر جاہل تھے وہ اپنی جہالت کی بنا پر کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو بشر کے بجائے کسی فرشتہ کو نبی بنانا چاہیے تھا۔ ان کے مقابلہ میں یہودی عصبیت میں آکر یہ بات کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کسی شخص کو رسول منتخب نہیں کیا۔ بس موسیٰ (علیہ السلام) ہی آخری رسول اور نبی ہیں۔ اسی بنا پر انھوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت کی اور اسی وجہ سے وہ نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے ہیں بشر پر نبوت نازل نہیں کی۔ یہ سوچنا اور کہنا اللہ تعالیٰ کی ناقدری کرنے کے مترادف ہے۔ اس ناقدری، عصبیت اور ہٹ دھرمی پر سوال کیا گیا ہے کہ وہ کونسی ہستی ہے جس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر کتاب نازل کی جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت کا سرچشمہ تھی۔ جسے تم نے مختلف اوراق میں تبدیل کردیا ہے کچھ حصہ لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہو جبکہ کثیر حصہ تم نے لوگوں سے چھپالیا ہے جسے بہت کم لوگوں کے سامنے ظاہر کرتے ہو حالانکہ اس کتاب میں تمہیں اس تعلیم سے آراستہ کیا گیا جس سے تم اور تمہارے آباو اجداد بیخبر تھے۔ اس سوال میں یہ استفسار بھی موجود ہے کہ بتاؤ موسیٰ بشر نہیں تھے۔ تورات کو مختلف اوراق میں تبدیل کرنے کا یہ بھی مفہوم ہے کہ انھوں نے ذاتی اور گروہی مفادات کے پیش نظر اس کے حصے، بخرے کردیئے تھے۔ جن کو موقع محل کے مطابق لوگوں کے سامنے پیش کرتے۔ اگر مجبوراً کہیں اصل مسئلہ بیان کرنا پڑتا تو اس کی ایسی تاویل کرتے کہ جس کا تورات کے ساتھ دور کا واسطہ نہیں ہوتا تھا۔ اس طرح جب چاہتے تورات کے احکام کی من مرضی تاویل کردیتے۔ اس صورت حال پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین کی گئی ہے کہ ایسے ناعاقبت اندیش اور ناہنجار لوگوں پر اپنی صلاحیتیں صرف کرنے کے بجائے انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کتاب کا حق چھپانا : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ الْیَہُودَ جَاءُ وا إِلَی رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَذَکَرُوا لَہُ أَنَّ رَجُلًا مِنْہُمْ وَامْرَأَۃً زَنَیَا فَقَالَ لَہُمْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا تَجِدُونَ فِی التَّوْرَاۃِ فِی شَأْنِ الرَّجْمِ فَقَالُوا نَفْضَحُہُمْ وَیُجْلَدُونَ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ (رض) کَذَبْتُمْ إِنَّ فیہَا الرَّجْمَ فَأَتَوْا بالتَّوْرَاۃِ فَنَشَرُوہَا فَوَضَعَ أَحَدُہُمْ یَدَہُ عَلٰی آیَۃِ الرَّجْمِ فَقَرَأَ مَا قَبْلَہَا وَمَا بَعْدَہَا فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ (رض) ارْفَعْ یَدَکَ فَرَفَعَ یَدَہُ فَإِذَا فیہَا آیَۃُ الرَّجْمِ فَقَالُوا صَدَقَ یَا مُحَمَّدُ فیہَا آیَۃُ الرَّجْمِ فَأَمَرَ بِہِمَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَرُجِمَا قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ فَرَأَیْتُ الرَّجُلَ یَجْنَأُ عَلَی الْمَرْأَۃِ یَقِیہَا الْحِجَارَۃَ ۔۔ ) [ رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب قول اللہ تعالیٰ یعرفونہ کما یعرفون ابناۂم ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں یہود کے کچھ افراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا ایک مرد اور عورت نے زنا کیا ہے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رجم کے بارے میں تم تورات میں کیا پاتے ہو ؟ انہوں نے کہا انہیں ذلیل ورسوا کرتے ہوئے پیٹا جائے گا۔ عبداللہ بن سلام (رض) نے کہا تم لوگ جھوٹ بولتے ہو اس میں تو رجم کا حکم ہے۔ وہ تورات لے کر آئے تو انہوں نے اسے کھولا تو ان میں سے ایک نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھا تو اس نے ان حروف سے پہلے اور بعد کی عبارت پڑھی۔ عبداللہ بن سلام (رض) نے کہا اس سے ہاتھ اٹھا ئیے۔ اس نے اپنا ہاتھاٹھا یا تو اس جگہ رجم کی آیت تھی تو انہوں نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو سچا ہے اس میں رجم کے متعلق آیت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کو سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ مرد عورت پر جھک کر اس کو پتھروں سے بچاتا تھا۔ “ مسائل ١۔ قرآن مجید کا انکار کرنے والے درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ناقدری کرتے ہیں۔ ٢۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں کے ذریعے تعلیم دی۔ ٣۔ تمام الہامی کتابوں کو نازل کرنے والا ایک اللہ ہی ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مشرکین اپنی کج بحثی اور عناد کی وجہ سے یہ کہتی تھے کہ اللہ نے تو انسانوں میں سے کسی فرد کو رسول بنا کر بھیجا ہی نہیں ہے ۔ نہ اللہ تعالیٰ نے کوئی کتاب بھیجی ہے جو اللہ کی وحی پر مبنی ہو حالانکہ مشرکین کے پڑوس ہی میں یہودی اہل کتاب رہتے تھے اور ان مشرکین کے کبھی اس امر کا انکار نہ کیا تھا کہ وہ اہل کتاب ہیں ۔ نہ انہوں نے اس بات کا انکار کیا تھا کہ تورات اللہ کی جانب سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اتری ۔ یہ بات وہ عناد اور محض کٹ حجتی کی خاطر کرتے تھے ۔ مقصد صرف یہ تھا کہ اس بہانے وہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کرسکیں ۔ اسی لئے قرآن مجید یہاں ان پر تنقید کرتا ہے کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ اللہ نے کوئی کتاب کسی انسان پر نہیں اتاری تو پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں یہ بات تم کیوں نہ کہتے تھے ۔ (آیت) ” وَمَا قَدَرُواْ اللّہَ حَقَّ قَدْرِہِ إِذْ قَالُواْ مَا أَنزَلَ اللّہُ عَلَی بَشَرٍ مِّن شَیْْء ٍ “ (٦ : ٩١) ” ان لوگوں نے اللہ کا بہت غلط اندازہ لگایا جب کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ۔ “ یہ نظریہ مشرکین مکہ دور جاہلیت میں رکھتے تھے ۔ ہر دور میں اس قسم کے لوگ ہمیشہ رہے ہیں ۔ آج دور جدید میں بھی بعض لوگوں کا یہی نظریہ ہے ۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ تمام ادیان سماوی انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور ان ادیان نے بھی درجہ بدرجہ ترقی کی جس طرح انسان نے بتدریج ترقی کی ۔ یہ لوگ اس معاملے میں ان ادیان کے درمیان جو خود لوگوں نے بنائے مثلا قدیم وجدیدیت پرستیاں اور ان ادیان کے درمیان فرق نہیں کرتے جو اللہ کے فرستادہ رسول لے کر آئے اور جواب تک اپنے حقیقی اصولوں پر قائم ہیں ۔ تمام رسول پے درپے انہی ادیان پر قائم رہے ۔ اگرچہ بعض لوگوں نے ان ادیان کو قبول کیا اور بعض نے انکار کیا ۔ بعد کے زمانوں میں ان کے اصول و فروع کے درمیان تحریف واقع ہوگئی اور لوگ اس تحریف کی وجہ سے دوبارہ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے ۔ اس کے بعد اللہ نے ان قوموں کے اندر رسول بھیجنے کی ضرورت محسوس کی ۔ آخر کار دین اسلام آیا ۔ ان لوگوں کا نظریہ فقط یہ ہے کہ جس طرح انسان نے ترقی کی اسی طرح ادیان نے بھی ساتھ ساتھ ترقی کی ۔ یہ بات قدیم لوگوں نے کی یا جدید لوگوں نے ان لوگوں نے فی الحقیقت اللہ کی ذات کا صحیح اندازہ نہیں لگایا اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے فضل ‘ اس کی رحمت اور اس کے عدل کو صحیح طرح نہیں پہنچانا ۔ ان لوگوں کے نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو رسول بنا کر نہیں بھیجتا ۔ اگر اللہ کوئی رسول بھیجنا چاہتا تو کسی فرشتے کو بھیج دیتا جس طرح بعض عرب یہ کہتے تھے ۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس عظیم کائنات کے عظیم خالق کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اپنی مخلوقات میں سے ایک چھوٹے سے ذرے جس کا نام کرہ ارض ہے ‘ کے اوپر بسنے والی اس حقیر مخلوق کی اس قدر فکر کرے جس طرح اہل ادیان کہتے ہیں کہ اس نے رسول بھیجے ‘ رسولوں پر کتابیں بھیجیں تاکہ ان کے ذریعے ان حقیر اہل ارض کو صحیح راستے پر لایا جائے یا جس طرح بعض قدیم اور جدید فلاسفر یہ کہتے آئے ہیں کہ نہ کوئی الہ ہے ‘ نہ کوئی وحی ہے اور نہ رسول ہیں ۔ یہ لوگوں کے ادہام ہیں اور دین کے نام پر بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں جس طرح آج کے جدید ملحد اور مادہ پرست لوگ کہتے ہیں ۔ یہ تمام لوگ دراصل اللہ کی ذات کے بارے میں اندازہ لگانے میں غلطی کرتے ہیں ۔ ایک عظیم وکریم ذات ‘ ایک رحیم اور عادل پروردگار اور ایک علیم و حکیم خالق کس طرح انسان کو بلاہدایت اور بلاحکمت وبصیرت چھوڑ سکتا ہے حالانکہ اللہ نے اس انسان کو پیدا کیا ۔ وہ اس کی خفیہ اور ظاہر ہر جبلت سے واقف ہے ۔ اس کی قوتوں اور صلاحیتوں سے باخبر ہے ۔ وہ اس کی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے بھی واقف ہے ‘ وہ اس کی ضروریات اور اقدار کے بارے میں بھی خوب جانتا ہے ۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ اللہ اس کے لئے کچھ اصول اور پیمانے وضع نہ کرے جس کے مطابق اس کے اعمال وافعال کو جانچا جائے اور اس کی اچھائیوں اور برائیوں کی نشاندہی کی جائے ۔ اللہ کو یہ بھی علم تھا کہ اس انسان کو جو عقل دی گئی ہے وہ محدود القوت ہے اور اس پر کئی فیکٹر اثر انداز ہوجاتے ہیں ۔ خواہشات نفس اور ذاتی میلانات کے وہ تابع ہوتی ہے ‘ ۔ وہ لالچ اور مفادات سے بھی متاثر ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ عقل کے ذمہ از جانب اللہ یہ فریضہ بھی عائد کیا گیا ہے کہ وہ اس زندگی کے لئے کوئی مستحکم نظام اور اصول تجویز کرے اس لئے کہ زندگی کا نظام تجویز کرنا اس کا کام نہیں ہے ‘ یہ نظام اس کے لئے منجانب اللہ آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی کا نظام تجویز کرنے کا کام صرف عقل انسانی پر نہیں چھوڑا ہے اور نہ یہ امر اللہ تعالیٰ کی اس فطری قوت کے حوالے کیا ہے جس کی رو سے اس پر یہ بات لازم ہے کہ وہ اللہ کی ذات کے سلسلے میں اجمالی معفرت حاصل کرے ۔ مصیبت کے وقت وہ اس رب ہی کو پکارتا ہے اس لئے کہ انسان کی اس فطری قوت کے حوالے کیا ہے جس کی رو سے اس پر یہ بات لازم ہے کہ وہ اللہ کی ذات کے سلسلے میں اجمالی معرفت حاصل کرے ۔ مصیبت کے وقت وہ اس رب ہی کو پکارتا ہے اس لئے انسان کی اس فطرت سلیمہ پر بھی بعض فیکٹر دباؤ ڈال کر اسے فساد میں مبتلا کردیتے ہیں ۔ یہ فیکٹر داخلی بھی اور خارجی بھی ہو سکتے ہیں ۔ نیز انسان کو بدی کی طرف انسانوں اور جنوں کے تمام ذرائع اختیار کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نظام زندگی کے بارے میں انسان کو صرف وحی اور رسالت کے حوالے کرتے ہیں ۔ اس کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اس کی ان ہدایات کی پیروی کرے جو اس نے کتابوں میں اتاری ہیں تاکہ اس کی فطرت درست اور صاف رہ سکے ۔ انکی عقل اور سوچ صحیح سمت میں کام کرسکے ۔ اور ان پر وہ عوامل نہ اندر سے اثر انداز ہو سکیں اور نہ باہر سے جو انسان کو گمراہ کرتے ہیں ۔ یہی پالیسی اللہ کی شان اور اس کے فضل وکرم اور اس کی رحمت اور عدالت اور اس کی حکمت اور علم کے شایان شان ہے ۔ اللہ کے لئے یہ بات کیسے مناسب ہو سکتی ہے کہ وہ انسان کو پیدا کرکے یونہی چھوڑ دے ۔ قیامت کے دن ان سے حساب و کتاب تو لے لیکن ان کی ہدایات کے لئے کوئی رسول نہ بھیجے حالانکہ اللہ کا اعلان ہے : (آیت) ” وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا “۔ اور ہم کسی قوم کو اس وقت تک عذاب دینے والے نہیں جب تک ان کے لئے رسول نہ بھیجیں “ ۔ اس لئے اللہ کی الوہیت کا صحیح اندازہ لگانے اور اس کی قدروقیمت کا اقرار کرنے کے لئے لازم ہے کہ یہ اعتراف کیا جائے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے رسول بھیجے ہیں۔ ان رسولوں کا مقصد یہ رہا ہے کہ وہ لوگوں کی فطرت کو تمام آلودگیوں سے پاک کرکے ‘ اور ان کی عقل وادراک کو تمام مؤثرات سے نکال کر خالص اور آزادنہ غوروفکر کرنے کے لئے آزاد کردیں ۔ اللہ نے ان رسولوں کو دعوت کا منہاج اور طریقہ کار بھی سکھایا اور ان میں سے بعض کو کتابیں بھی دیں جو آج تک موجود ہیں جیسا کہ داؤد اور موسیٰ (علیہ السلام) ۔ نبی آخرالزمان کو قرآن کریم دیا گیا جو آج تک تمام تحریفات سے پاک ہے ۔ چونکہ ساکنان جزیرہ عرب کے ہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت معروف ومشہور تھی اور عرب اہل کتاب کو بھی جانتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے رسول کو حکم دیا کہ وہ انکے سامنے اہل کتاب اور کتاب موسیٰ کو بطور مثال پیش کریں کہ اس کا تو کبھی تم نے انکار نہیں کیا ۔ (آیت) ” قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْکِتَابَ الَّذِیْ جَاء بِہِ مُوسَی نُوراً وَہُدًی لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَہُ قَرَاطِیْسَ تُبْدُونَہَا وَتُخْفُونَ کَثِیْراً وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُواْ أَنتُمْ وَلاَ آبَاؤُکُم (٦ : ٩١) ” ان سے پوچھو ‘ پھر وہ کتاب جسے موسیٰ (علیہ السلام) لایا تھا ‘ جو تمام انسانوں کے لئے روشنی اور ہدایت تھی ‘ جسے تم پارہ پارہ کر کے رکھتے ہو ‘ کچھ دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپا جاتے ہو ‘ اور جس کے ذریعے سے تم کو وہ علم دیا گیا جو نہ تمہیں حاصل تھا اور نہ تمہارے باپ دادا کو ‘ آخر اس کا نازل کرنے والا کون تھا ؟ ۔ “ اس سورة پر تبصرے کے وقت ہم نے بتایا تھا کہ ان لوگوں کا قول درست نہیں ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ۔ انہوں نے یہ قول اس لئے اختیار کیا کہ اس میں یہ الفاظ ہیں :” جسے تم پارہ پارہ کر کے رکھتے ہو ‘ کچھ دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپاتے ہو۔ “ ہم نے اس موقعہ پر بتایا تھا کہ ابن جریر کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور اس میں ایک قرات یجعلونہ یبدونھا “ اور یخفون بھی ہے اس صورت میں ضمیر غائب اہل کتاب کی طرف راجع ہے ۔ اگرچہ مخاطب مشرکین مکہ ہیں لیکن بات اہل کتاب کے متعلق ہے ۔ جس طرح انہوں نے عملا کر رکھا تھا کہ تورات کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بعض حصوںٗ کو چھپاتے تھے اور بعض کو اپنے منصوبے اور مقاصد کے مطابق ظاہر کرتے تھے ۔ یوں وہ عوام کو دھوکہ دیتے تھے اور احکام وفرائض کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔ یہودیوں کے ان کارناموں سے بعض عرب بھی واقف تھے ‘ جس طرح قرآن کریم بھی ان کا انکشاف کر رہا ہے تو گویا یہ آیت اخبار عن الیھود ہے جو مشرکین مکہ سے ہونے والی بات چیت کے اندر بطور جملہ معترضہ آئی ہے ۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ آیت بھی مکی ہے ‘ مدنی نہیں ہے ۔ میں سمجھتا ہوں ابن جریر کی رائے درست ہے ۔ اب مضمون ومفہوم یہ ہوگا : ” اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو وہ کتاب جو موسیٰ (علیہ السلام) لے کر آئے تھے جس میں نئی روشنی انسان کو دی گئی تاکہ لوگ راہ ہدایت پائیں جبکہ یہود نے اسے پارہ پارہ کیا ‘ جس میں سے بعض حصوں کو وہ چھپاتے تھے اور بعض کو ظاہر کرتے تھے اور کتاب الہی کے ساتھ یہ مذاق وہ اپنے ذاتی مقاصد کے لئے کرتے تھے ۔ “ ذرا غور تو کرو کہ اللہ تمہیں وہ حقائق بتا رہا ہے جن کے بارے میں تم نہ جانتے تھے ‘ اس لئے تم پر یہ فرض ہے کہ اللہ کے اس فضل وکرم کا شکر ادا کرو اور سرے سے تم اس بات کے منکر نہ بن جاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے نہ وحی بھیجی ہے اور نہ کوئی کتاب نازل کی ہے ۔ یہ سوال کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں موقعہ ہی نہ دیا کہ وہ جواب دیں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ خود ہی جواب دے دیں اور فیصلہ کن اور دو ٹوک بات کردیں تاکہ کوئی تنازعہ ہی نہ رہے اور نہ ہی مزید قیل وقال کرنے کے ضرورت رہے ۔ (آیت) ” قل اللہ ثم ذرھم فی خوضھم یلعبون “۔ (٦ : ٩١) ” بس اتنا کہہ دو کہ اللہ ‘ پھر انہیں اپنی دلیل بازیوں سے کھیلنے کے لئے چھوڑ دو ۔ “ اللہ نے اسے نازل کیا ہے ۔ بس یہ کہہ دیں اور اس کے بعد ان کے ساتھ مزید بات چیت کی ضرورت نہیں ہے ۔ ان کی کٹ حجتی اور لجاجت اور ظاہر داری کو خاطر میں نہ لائیں اور پھر ان کو چھوڑ دیں کہ وہ اپنی کٹ حجتی میں مگن رہیں ۔ یہ انداز کلام نہایت ہی تہدید آمیز ہے اور اس میں ان کے لئے ایک قسم کی توہین بھی ہے۔ اس سے حق پرستی اور سنجیدگی کا اظہار بھی ہوتا ہے ۔ جب لوگوں کی غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہوجائے اور وہ ایسی باتیں کرنے لگیں تو مناسب یہی ہے کہ دو ٹوک انداز میں کہہ دیا جائے کہ ہماری تو یہ راہ ہے تمہاری مرضی ہے ‘ کرو۔ آگے اس کتاب جدید کے بارے میں ایک مختصر تبصرہ آتا ہے ‘ جس کے بارے میں منکرین یہ کہتے تھے کہ اللہ سرے سے کتاب نازل ہی نہیں کرتا ۔ بتایا یہ جاتا ہے کہ یہ کوئی انوکھی چیز نہیں ہے ‘ یہ تو کتاب سماوی کا آخری حلقہ ہے ۔ اللہ اس سے قبل بھی رسول بھیجتا رہا ہے ۔ اور ان میں سے جسے چاہتا ہے کتاب عطا کرتا رہا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہودیوں کی ضد اور عناد کا ایک واقعہ ان آیات میں اول تو یہ فرمایا کہ لوگوں نے اللہ کو ایسا نہیں پہچانا جیسا کہ پہچاننا چاہئے تھا بہت سے لوگ تو ذات باری تعالیٰ کے منکر ہی رہے اور جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو مانا ان میں سے بہت سوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بنا دیئے اور اللہ کی صفات کمالیہ علم وقدرت وغیرہ کو ماننے کی طرح نہ مانا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے موافق حضرات انبیاء (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا اور کتابیں نازل فرمائیں بہت سے لوگ ان کے منکر ہوگئے۔ (اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلیٰ بَشَرٍ مِّنْ شَیْءٍ ) (جبکہ انہوں نے کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ بھی نازل نہیں کیا) حضرت مجاہد تابعی نے فرمایا اس سے مشرکین مکہ مراد ہیں جنہوں نے یہ بات کہی، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے یہودی مراد ہیں۔ درمنثور ج ٣ ص ٢٩ میں ہے کہ مالک بن صیف ایک یہودی تھا وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑا کرنے لگا۔ یہ علماء یہود میں سے تھا اور بھاری بدن والا تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے حصرت موسیٰ (علیہ السلام) پر توریت نازل فرمائی کیا تو توریت میں یہ مضمون پاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھاری جسم والے عالم سے بغض رکھتا ہے یہ سن کر وہ غصہ ہوگیا اور کہنے لگا کہ اللہ کی قسم اللہ نے کسی بشر پر کچھ بھی نازل نہیں فرمایا۔ وہ ضد میں آکر یہ بات کہہ گیا۔ اور الفاظ کے عموم سے توریت شریف کے نازل ہونے کی بھی نفی ہوگئی۔ اس کے ساتھی جو موجود تھے انہوں نے احساس بھی دلایا اور کہا کہ افسوس ہے تو ایسی بات کہہ رہا ہے۔ کیا موسیٰ (علیہ السلام) پر بھی کچھ نازل نہیں ہوا ؟ اس نے پھر وہی اپنی بات دہرائی کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں فرمایا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی۔ یہ عناد کی آخری حد ہے کہ ضد میں آکر انسان اپنے مسلمہ عقائد کا بھی انکار کر بیٹھے اور اپنے دین و ایمان کا بھی منکر ہوجائے۔ بعض لوگ بہت ہی نڈر ہوتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں لیکن اللہ کی بطش شدید اور مو اخذہ سے نہیں ڈرتے۔ جوش غضب میں کفریہ باتیں کہ جاتے ہیں۔ اللہ جل شانہٗ نے فرمایا (وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ) (کہ انہوں نے اللہ کی ذات وصفات کو ایسا نہیں مانا جس طرح ماننا تھا) اللہ کی ناراضگی اور گرفت کا اندیشہ انہیں بالکل نہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ اللہ نے کتابیں نازل فرمائی ہیں پھر بھی جرأت جاہلانہ کر کے یہ کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ بھی نازل نہیں فرمایا ان لوگوں کی تردید میں فرمایا۔ (قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَآءَ بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّ ھُدًی لِّلنَّاسِ ) (آپ فرما دیجیے کس نے اتاری وہ کتاب جسے موسیٰ لائے جو نور تھی اور لوگوں کے لیے ہدایت تھی) اس میں بطور استفہام تقریری ان ہی لوگوں سے سوال فرمایا جو منکر ہو رہے تھے اور عناد میں یوں کہہ گئے کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ بھی نازل نہیں فرمایا۔ ان سے سوال فرمایا کہ اب تک تو تم یہ کہتے اور مانتے رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر توریت شریف نازل فرمائی۔ اور اب کہہ رہے ہو کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ بھی نازل نہیں فرمایا کیا یہ حق اور حقیقت کا انکار نہیں ہے ؟ ساتھ ہی علماء یہود کے ایک بد ترین کردار کا تذکرہ فرمایا اور وہ یہ کہ (تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَھَا وَ تُخْفُوْنَ کَثِیْرًا) (کہ تم نے توریت کو بجائے اکٹھی مجموعی یکجا کتاب بنانے کے مختلف اوراق میں رکھ چھوڑا ہے۔ جس میں سے کچھ ظاہر کرتے ہو اور اکثر کو چھپاتے ہو) ۔ جب ان کے عوام کچھ بات پوچھنے کے لیے آتے تھے تو صندوق وغیرہ میں ہاتھ ڈال کر کوئی سا بھی ایک ورق نکال لیتے تھے اور سائل کے مطلب کے مطابق پڑھ کر سنا دیتے تھے۔ تاکہ اس سے کچھ مال مل جائے نیز توریت شریف میں جو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت و صفت بیان کی گئی تھی جسے وہ جانتے تھے اپنے عوام سے اس کو چھپاتے تھے۔ توریت شریف کے احکام جو اس وقت تک ان کے پاس موجود تھے ان کو بھی چھپاتے تھے۔ اور ان کی بجائے دوسرا حکم بتا دیتے تھے۔ جیسا کہ زانیوں کے رجم کے بیان میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ (انورا البیان ج ٢) پھر فرمایا (وَ عُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَ لَآ اٰبَآؤُکُمْ ) (اور تم کو وہ باتیں بتائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا جانتے تھے) (قُلِ اللّٰہُ ) آپ فرما دیجیے اللہ نے نازل فرمائی۔ اس کی تفسیر میں اور ترکیب نحوی میں متعدد اقوال ہیں جو صاحب روح المعانی نے ذکر کیے ہیں اقرب ترین تفسیر ہمارے نزدیک وہ ہے جو صاحب بیان القرآن نے اختیار کی۔ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ جس توریت کی یہ حالت ہے کہ اس کو اولاً تو تم مانتے ہو دوسرے بوجہ نور اور ہدیٰ ہونے کے ماننے کے قابل بھی ہے۔ تیسرے ہر وقت تمہارے استعمال میں ہے گو استعمال شرم ناک ہے لیکن اس کی وجہ سے گنجائش انکار تو نہیں رہی۔ چوتھے تمہارے حق میں وہ بڑی نعمت اور منت کی چیز ہے۔ اس کی بدولت عالم بنے بیٹھے ہو۔ اس حیثیت سے بھی اس میں گنجائش انکار کی نہیں۔ یہ بتلاؤ کہ اس کو کس نے نازل کیا اور چونکہ اس سوال کا جواب ایسا متعین ہے کہ وہ لوگ بھی اس کے سوا کوئی جواب نہ دیتے اس لیے خود ہی جواب دینے کے لیے حضور کو حکم ہے کہ (قُلِِ اللّٰہُ ) کہ آپ ہی کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب مذکور کو نازل فرمایا ہے۔ پھر فرمایا (ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ ) (پھر ان کو چھوڑ دیجیے اپنی خرافات میں کھیلتے رہیں گے) مطلب یہ ہے کہ جو کتاب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی یہ لوگ اسے مانتے بھی ہیں اور پھر عناد میں یوں بھی کہہ گئے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا۔ ان سے یہ سوال فرمانے کے بعد کہ توریت کس نے نازل فرمائی خود ہی جواب دیجیے کہ اللہ نے نازل فرمائی۔ پھر یہ جواب سنا کر ان کو چھوڑ دیجیے یعنی ان کے پیچھے نہ لگیے آپ کا فرض منصبی بتادینا ہے منوانا نہیں ہے وہ اپنی خرافات میں لگے رہیں گے۔ اپنا انجام دیکھ لیں گے اور انہیں پتہ چل جائے گا کہ حسن عاقبت مومنین متقین کے لیے ہے۔ قال ابن کثیر ای ثم دعھم فی جھلھم و ضلالھم یلعبون حتی یاتیھم من اللہ الیقین فسوف یعلمون الھم العاقبۃ اَمْ لعباد اللہ المتقین۔ فائدہ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ میری امت پر وہ دور آئے گا جو بنی اسرائیل پر آیا تھا جو بنی اسرائیل نے کیا۔ یہ لوگ بھی وہ سب کچھ کریں گے۔ (حذو النعل بالنعل) (مشکوٰۃ المصابیح ص ٣٠) آپ کی پیشین گوئی کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے مسلمان بنی اسرائیل کے طور طریقے اختیار کیے ہوئے ہیں اور بہت سے وہ لوگ جو مذہب کی طرف منسوب ہیں پیری مریدی کی گدیاں سنبھالے بیٹھے ہیں ان کا وہی کسب دنیا والا ڈھنگ ہے جو بنی اسرائیل کے لوگوں کا تھا۔ خود ہدایت سے دور، اتباع سنت سے بعد۔ مریدوں کو کیا ہدایت دیں ؟ صرب جلب زر کے لیے گدیاں سنبھالے بیٹھے ہیں اور قبروں کے مجاور بنے ہوئے ہیں۔ جو دنیا کے طلب گار پیروں کا حال ہے وہی جھوٹے مدعیان علم کا طریقہ ہے جنہیں جاہ و مال کی طلب ہے۔ ایسے لوگ جانتے بوجھتے ہوئے صحیح مسئلہ بتانے سے گریز کرتے ہیں تاکہ عوام ہم سے نہ کٹ جائیں اہل حق سے مناظرہ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور اپنے باطل دعوے کو باطل سمجھتے ہوئے حجت بازی کرتے رہتے ہیں اور قرآن و حدیث سے اپنے مطلب کے موافق تحریف کر کے استدلال کرلیتے ہیں۔ جیسے ایک مدعی علم نے آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے بھرے مجمع میں کہہ دیا کہ قرآن مجید میں لَآ اِلٰہَ اَلَّا اللّٰہُ نہیں ہے۔ اس پر ایک حافظ صاحب اٹھ کر چل دیئے تو اسٹیج سے کہنے لگا کہ وہ دیکھو وہ چلا وہابی ! حافظ صاحب موصوف نے کہا کہ میں اس لیے جا رہا ہوں کہ تو نے غلط بیانی کی ہے کہ قرآن مجید میں لَآ اِلٰہَ اَلَّا اللّٰہُنہیں ہے حالانکہ قرآن مجید میں موجود ہے۔ مقرر کہنے لگا کہ قرآن میں لا الہ الا اللہ کہاں ہے ؟ حافظ صاحب نے کہا کہ قرآن مجید لاؤ تو میں نکال کر بتاؤں۔ قرآن مجید لایا گیا۔ حافظ صاحب نے نکال کر دکھا دیا (سورۂ صافات رکوع ٢) اور سورة محمد رکوع ٢ میں لا الہ الا اللہ موجود ہے جب قرآن مجید میں نکال کر دکھایا تو مقرر کہنے لگا کہ یہ وہابیوں کا قرآن ہے۔ ان لوگوں نے اپنے پاس سے لکھ دیا ہوگا۔ اپنی بات کی پچ میں ایسی جسارت کرنا بالکل اسی طرح کی بےباکی ہے جیسے مالک بن صیف یہودی نے نفسانیت کی وجہ سے یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا۔ روافض میں تو یہ بات بہت ہی زیادہ رواج پذیر ہے کہ خود سے جو اپنا دین تراش لیا ہے اس کے مقابلے میں احادیث شریفہ کی تصریحات کو تو کیا مانتے، قرآن مجید کے صریح اعلانات کے منکر ہیں۔ اپنی بات رکھنے کے لیے قرآن کی تحریف کے قائل ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے سورة توبہ میں سابقین مہاجرین اولین اور ان کے متبعین بالا حسان کے لیے جو (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ) کا اعلان فرما دیا، یہ لوگ اس سے راضی نہیں اور مہاجرین و انصار کو کافر کہتے ہیں جب ان کے سامنے قرآن مجید کی آیات پیش کی جاتی ہیں جن میں حضرات صحابہ کرام (رض) کی مدح و ستائش ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ قرآن مجید میں تحریف ہوئی ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کریوں کہہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے بدا ہوگیا تھا یعنی اللہ تعالیٰ کو پتہ نہ تھا کہ یہ لوگ بعد میں کافر ہوجائیں گے۔ (العیاذ باللہ) کیسی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف جہل کی نسبت کرنے کو تیار ہیں لیکن اپنی خود تراشیدہ بات کو غلط کہنے کو تیار نہیں۔ جتنے بھی گمراہ فرقے گزرے ہیں یا اب موجود ہیں سب کا یہی حال ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

95 یہ یہود پر شکوی ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں۔ ما عظموا اللہ تعالیٰ حق تعظیمہ اور ابو العالیہ فرماتے ہیں۔ ما وصفوہ حق صفتہ اور قدروا کی ضمیر سے جمہور کے نزدیک یہود مراد ہیں اور اذ ظرف۔ قدروا کے متعلق ہے (روح) مَا اَنْزَلَ اللہُ الخ یعنی آج تک اللہ نے کسی بشر پر اپنا کوئی کلام نازل نہیں کیا اس سے ان کا مقصد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر طعن کرنا تھا کہ جب آپ بھی بشر ہیں تو اسے معلوم ہوا کہ آپ پر بھی اللہ کی طرف سے کوئی وحی نازل نہیں ہوئی۔ 96 یہ جواب شکویٰ ہے اور یہود کے قول نا معقول کا رد ہے کہ اگر تمہارے قول کے مطابق اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں فرمایا تو بتاؤ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جن کو تم بشر مانتے ہو یہ تورات کس نے نازل کی جو سراپا نور ہدایت تھی جسے تم بھی اللہ کی کتاب مانتے ہو اور یہ بھی مانتے ہو کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ہی نازل ہوئی تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْس الخ یہ جملہ استنافیہ ہے اور اس میں علماء یہود کی ایک شرارت کا ذکر کیا گیا ہے یعنی یہ تورات وہی کتاب ہے جس کے بہت سے حصوں کو تم اپنی خواہشات نفسانیہ کے مطابق محرف و مبدل کر کے مختلف کاغذوں پر لکھ لیتے ہو اور اپنے ماننے والوں اور عقیدت مندوں کو دکھا کر ان پر ظاہر یہ کرتے ہو کہ یہ اللہ کی کتاب تورات کی آیتیں ہیں جسے اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمایا۔ اس طرح تورات کے جو مسائل تمہاری خواہشات کے خلاف اور مذہبی پائیت کی بنیادیں ہلا دینے والے ہیں ان کو چھپاتے ہو اور جو تمہاری خواہشات کے مطابق ہیں ان کو بیان کرتے ہو۔ آجکل کے علماء سوء کا بھی بالکل یہی وطیرہ ہے وہ قرآن میں تحریف لفظی تو کر نہیں سکتے اس لیے اپنے من گھڑت مسائل کے مطابق آیتوں کا مطلب اپنی طرف گھڑ کر عوام کو سنا دیتے ہیں۔ 97 یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نزول وحی کی دوسری دلیل ہے۔ یعنی تورات کے ہی ذریعے تمہیں ان امور غیبیہ کا علم حاصل ہوا جنہیں نہ تم جانتے تھے نہ تمہارے آباؤ و اجداد۔ قُلِ اللہُ بقرینہ سوال یہاں فعل محذوف ہے ای انزلہ اللہ یہ گذشتہ سوال قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰب الخ کا جواب ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب دینے کا حکم دے کر اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہود ضد وعناد کی وجہ سے حق کا انکار کریں گے اس لیے آپ یہ جواب دے دیں وَھٰذَا کِتٰبٌ یہ نفی شرک فی التصرف پر دلیل وحی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نزول کتاب کا ذکر کر کے فرمایا یہ قرآن بھی ہم ہی نے اتارا ہے اور وہ مسئلہ توحید اور اصول دین میں تورات کی تصدیق کرتا ہے تو پھر اس کو تم کیوں نہیں مانتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

91 اور منکرین یہود نے اللہ تعالیٰ کو اس قدر نہ پہنچاتا جس قدر اس کو پہچانتا واجب تھا اور اس کے پہچاننے کا حق تھا جبکہ انہوں نے بےساختہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کتاب کی قسم میں سے کوئی چیز نازل نہیں کی اور اس نے کوئی کتاب نہیں اتاری آپ ان سے دریافت کیجیے کہ وہ کتاب کس نے نازل فرمائی تھی جو موسیٰ (علیہ السلام) تھے یعنی توریت جو نور کی طرح روشن اور واضح تھی اور لوگوں کے ذریعہ ہدایت تھی اور جس کا حال یہ ہے کہ تم نے اس کو علیحدہ علیحدہ اوراق میں لکھ رکھا ہے جو تمہارے مطلب کا مضمون ہوتا ہے اور جو احکام تمہارے موافق ہوتے ہیں ان کو تم ظاہر کرتے ہو اور ہر ایک کو دکھاتے پھرتے ہو اور بہت سے مضامین جو تمہارے خلاف ہوتے ہیں اور جو احکام تمہاری بےعملی کی وجہ سے تم کو ناپسند ہوتے ہیں ان کو چھپالیتے ہو اور اس کتاب کے ذریعہ تم کو وہ وہ باتیں سکھائی گئیں اور تعلیم کی گئیں جن کو نہتم پہلے جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا ان امور سے واقف تھے یعنی یہ کلیتاً انکار کر رہے ہیں کہ خدا نے کسی بشر پر کوئی کتاب ہی نازل نہیں کی ان کے باطل دعویٰ کو توڑنے کے لئے صرف ایک ہی کتاب کا ذکر کافی ہے جس کو یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ بشر پر نازل ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے آپ ان کو جواب … دیجیے کہ جو کتاب توریت موسیٰ لائے تھے وہ اللہ تعالیٰ ہی نے تو نازل فرمائی تھی بس اب آپ ان کو چھوڑیئے کہ یہ اپنی بےہودہ خرافات میں پڑے رہیں اور بےہودہ مشاغل اور مباحث میں مشغول اور الجھے رہیں یعنی آپ نے اپنا فرض منصبی ادا کردیا اب ان کو ان کی حالت میں پڑا رہنے دیجیے ہم جانیں اور یہ جانیں۔