Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 92

سورة الأنعام

وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ لِتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا ؕ وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ﴿۹۲﴾

And this is a Book which We have sent down, blessed and confirming what was before it, that you may warn the Mother of Cities and those around it. Those who believe in the Hereafter believe in it, and they are maintaining their prayers.

اور یہ بھی ایسی ہی کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے جو بڑی برکت والی ہے ، اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے تاکہ آپ مکہ والوں کو اور آس پاس والوں کو ڈرائیں اور جو لوگ آخرت کا یقین رکھتے ہیں ایسے لوگ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور وہ اپنی نماز پر مداومت رکھتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَهَـذَا كِتَابٌ ... And this is a Book, (the Qur'an), ... أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى ... Blessed, which We have sent down, confirming which came before it, so that you may warn the Mother of Towns, that is, Makkah, ... وَمَنْ حَوْلَهَا ... and all those around it... referring to the Arabs and the rest of the children of Adam, Arabs and non-Arabs alike. Allah said in other Ayat, قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا Say: "O mankind! Verily, I am sent to you all as the Messenger of Allah." (7:158) and, لااٌّنذِرَكُمْ بِهِ وَمَن بَلَغَ "that I may therewith warn you and whomsoever it may reach." (6:19) and, وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الاٌّحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ but those of the sects who reject it, the Fire will be their promised meeting place. (11:17) and, تَبَارَكَ الَّذِى نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَـلَمِينَ نَذِيراً Blessed be He Who sent down the criterion to His servant that he may be a warner to the Alamin (mankind and Jinn). (25:1) and, وَقُلْ لِّلَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَـبَ وَالاٍّمِّيِّينَ ءَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُواْ فَقَدِ اهْتَدَواْ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَـغُ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ And say to those who were given the Scripture and to those who are illiterates: "Do you submit yourselves!" If they do, they are rightly guided; but if they turn away, your duty is only to convey the Message; and Allah is All-Seer of (His) servants. (3:20) It is recorded in the Two Sahihs, that the Messenger of Allah said, أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الاَْنْبِيَاءِ قَبْلِي I have been given five things which were not given to any one else before me. The Prophet mentioned among these five things, وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّة Every Prophet was sent only to his nation, but I have been sent to all people. This is why Allah said, ... وَالَّذِينَ يُوْمِنُونَ بِالاخِرَةِ يُوْمِنُونَ بِهِ ... Those who believe in the Hereafter believe in it, meaning, those who believe in Allah and the Last Day, believe in this blessed Book, the Qur'an, which We revealed to you, O Muhammad. ... وَهُمْ عَلَى صَلَتِهِمْ يُحَافِظُونَ and they are constant in guarding their Salah. for they perform what Allah ordered them, offering the prayers perfectly and on time.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٣۔ ب ] قرآن بابرکت کتاب کیسے ؟ یہ قرآن کریم ہی کے بابرکت ہونے کا نتیجہ تھا کہ اس نے عرب جیسی جاہل قوم کو، جو قبائلی عصبیت کی وجہ سے ہر وقت برسرپیکار اور لڑتی مرتی رہتی تھی۔ ایک مہذب قوم بنا کر چند ہی سالوں میں اس کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ ان کے اخلاق و عادات اس قدر اعلیٰ بن گئے کہ یہی جاہل، وحشی اور اجڈ قوم تمام اقوام عالم کی پیشوا بن گئی۔ بڑی بڑی طاقتوں کو سرنگوں کیا اور دنیا کے ایک کثیر حصہ پر قابض ہو کر ان میں علوم و تہذیب پھیلانے کا سبب بن گئی۔ قرآن کی تعلیم نے انہیں ذلت کی گہرائیوں سے نکال کر عزت کے بلند مقامات پر پہنچا دیا۔ [٩٤] قرآن کریم کے اللہ کا کلام ہونے پر چار دلائل :۔ اس سے پہلی آیت میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ ایک بشر پر اللہ کا کلام نازل ہوسکتا ہے۔ اس سے از خود یہ معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ جنہیں سب لوگ بشر تسلیم کرتے تھے پر اللہ کا کلام نازل ہوسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ یہ کتاب قرآن فی الواقع اللہ کا کلام ہے تو اس پر چار دلائل پیش کئے گئے۔ ایک یہ کہ یہ کتاب اتنی خیر و برکت والی ہے کہ تمہاری زندگی کے ہر پہلو اور شعبے کے لیے تمہیں ہدایت فراہم کرتی ہے جو عقائد صحیحہ اور اخلاق فاضلہ اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے کی تعلیم دیتی ہے اور اس میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے بہترین اصول پیش کیے گئے ہیں۔ اور اس کے منزل من اللہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اس کی بنیادی تعلیمات وہی ہیں جو سابقہ کتب سماویہ کی ہیں۔ کوئی نئی بات پیش نہیں کرتی بلکہ انہی چیزوں کی تصدیق و تائید کرتی ہے جو پہلی کتب میں پیش کی گئی تھیں۔ تیسرے یہ کہ اس کتاب کا مقصد غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو خواب غفلت سے جھنجھوڑنا اور انہیں ان کے برے انجام سے ڈرانا ہے اور آپ کو ہدایت کی گئی کہ آپ اس کام کا آغاز اس مرکزی شہر مکہ اور اس کے پاس کی بستیوں سے کیجئے اور چوتھی بات جو بطور نتیجہ بتائی گئی یہ ہے کہ اس کتاب سے ہدایت صرف وہ لوگ پائیں گے جو اپنی خواہشات نفس کے غلام نہ ہوں بلکہ اللہ اور روز آخرت کی باز پرس سے ڈرتے ہوں اور اس کی واضح علامت کے طور پر نماز کی باقاعدگی سے محافظت کرتے ہوں۔ اور یہ سب ایسی باتیں ہیں جو کسی انسان کی تصنیف شدہ کتاب میں نہیں ہوسکتیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰي : اس آیت میں مکہ کو ” ام القریٰ “ کہا گیا ہے، جس کا معنی ہے تمام بستیوں کی جڑ یا ان کا مرکز اور ” وَمَنْ حَوْلَهَا ۭ‘ سے مراد قبائل عرب اور آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں، خواہ عرب ہوں یا عجم۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً )” مجھے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے۔ “ [ بخاری، الصلاۃ، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ( جعلت لی الأرض۔۔ ) : ٤٣٨ ] نیز دیکھیے سورة انعام (٩) ، سورة اعراف (١٥٨) اور سورة سبا ( ٢٨) ۔ وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ : کیونکہ قرآن مجید آخرت کی راہ بتلاتا ہے۔ وَهُمْ عَلٰي صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ : کیونکہ نماز تمام عبادتوں کی اصل اور آخرت میں کامیابی کی کنجی ہے۔ اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اس شخص کا ایمان آخرت پر صحیح اور درست ہے جو قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہے اور نماز کی نگہداشت اور نگرانی کرتا ہے، جو شخص قرآن پر ایمان نہیں رکھتا یا نماز کی حفاظت نہیں کرتا اس کا آخرت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ بلا دلیل ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After having concluded the argument concerning Books revealed by Allah Ta` ala against deniers, it was said in the third verse (92): وَهَـٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَ‌كٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ‌ أُمَّ الْقُرَ‌ىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا (And this is a blessed Book We have sent down confirming what has been before it, so that you may warn the town which is the mother of all towns, and those around it), that is, as it is that they too accept that the Torah was sent down by Allah Ta` ala, so it is that We have sent down this Qur&an too, and sufficient for them is the proof of its veracity that the Qur&an confirms what has been revealed in the Torah and the Injil. And that it was re¬vealed after the Torah and Injil is because these two Books were sent for the Bani Isra&il while for their other branch of Bani Isma&il, known as Arabs living in Umm al-Qura, that is, Makkah and its environs, there has been no prophet or book of guidance until that time. Now this Qur&an has been sent for them particularly, and for the whole world generally. Makkah al-Mu&azzamah has been called Umm al-Qura by the Holy Qur&an. It means the root and foundation of all towns and habitations. The reason is that, according to historical nar-ratives, the land mass of the earth first began appearing from here. In addition to that, this is the Qiblah, and the central attraction of all acts of ` Ibadah for the whole world. (Mazhari) Said with: أُمَّ الْقُرَ‌ىٰ (Umm al-Qura) is: وَمَنْ حَوْلَهَا (and those around it). It means all environs of Mak¬kah, which includes the whole world East, West, North and South of Makkah. Towards the end of the verse, it was said: وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَ‌ةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَهُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ. It means: Those who believe in the &Akhirah (Hereafter) also believe in the Qur&an and are particularly careful about their prayers (Salah). This carries an admonition for the Jews and disbe¬lievers against their common ailment whereby they would, with typi¬cal lack of concern, accept what they liked and reject what they did not, opening a front against it. This is an effect of that ailment - that they do not believe in &Akhirah. Anyone who believes in &Akhirah and in a Day of Judgment will definitely be moved by the fear of Allah which would help him or her reason it out, and once convinced, one would bypass constraints of ignorant customs and embrace what is the truth. A little thought would reveal that the lack of concern for the &Akhirah is the mother of all spiritual diseases. From here come Kufr and Shirk and sin and disobedience. If a believer in the &Akhirah happens to have committed a mistake or sin, he does feel a pinch in his heart. Sooner or later, he repents and resolves to stay away from sin in the future. So, the fear of Allah &and the concern for the &Akhirah are, in all truth, channels which make human beings what they should be and which make them capable of staying away from crime and sin and disobedience by conscious choice. Therefore, no Surah (Chapter) of the Qur&an, perhaps no Ruku` (Section) either, is left without a remin¬der of this concern for the &Akhirah:. اَللَّھُمَّ اجعَل جُملَۃَ ھُمُومِنَا ھَمَّاً وَّاحِداً ھَمَّ الآخِرَۃِ O Allah, make all our concerns a single concern - the concern for &Akhirah.

ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف نازل ہونے والی کتابوں کے بارے میں ان پر حجت تمام کرنے کے بعد تیسری آیت میں ارشاد فرمایا : وَهٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ، یعنی جس طرح تورات کا خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونا انھیں بھی تسلیم ہے اسی طرح یہ قرآن بھی ہم نے نازل کیا ہے اور اس کے حق و صدق ہونے کے واسطے ان کے لئے یہ شہادت کافی ہے کہ قرآن ان سب چیزوں کی تصدیق کرتا ہے جو تورات و انجیل میں نازل ہوئی ہیں، اور تورات و انجیل کے بعد اس کے نازل کرنے کی ضرورت اس لئے ہوئی کہ یہ دونوں کتابیں تو بنی اسرائیل کے لئے بھیجی گئی تھیں، ان کے دوسری شاخ بنی اسماعیل جو عرب کہلاتے ہیں اور ام القریٰ یعنی مکہ اور اس کے اردگرد بستے ہیں، ان کی ہدایت کے لئے کوئی خاص پیغمبر اور کتاب اب تک نہ آئی تھی، اب یہ قرآن ان کے لئے خصوصاً اور پورے عالم کے لئے عموماً نازل کیا گیا ہے، مکہ معظمہ کو قرآن کریم نے ام القریٰ فرمایا، یعنی تمام شہروں اور بستیوں کی جڑ اور بنیاد، اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخی روایات کے مطابق ابتداء آفرینش میں پیدائش زمین کی ابتداء یہیں سے ہوئی ہے، نیز یہ کہ سارے عالم کا قبلہ اور عبادت میں مرکز توجہ یہی ہے (مظہری) ام القریٰ کے ساتھ وَمَنْ حَوْلَهَا فرمایا، یعنی مکہ کے تمام اطراف جس میں پورا عالم مشرق و مغرب اور جنوب و شمال داخل ہے۔ آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا : وَالَّذِيْنَ يُؤ ْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَة ” یعنی جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں۔ اس میں یہود اور مشرکین کی ایک مشترک بیماری پر تنبیہ کی گئی ہے کہ یہ بےفکری کہ جس کو چاہا مانا جس کو چاہا رد کردیا، اور اس کے خلاف محاذ بنا لیا، یہ اس مرض کا اثر ہے کہ وہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، جس شخص کو آخرت اور یوم الحسنات پر ایمان ہوگا اس کو خوف خدا ضرور اس طرف متوجہ کرے گا، کہ دلائل میں غور کرے، اور حق بات کو قبول کرنے میں آبائی رسوم جاہلیت کی پروا نہ کرے۔ اور اگر غور کیا جائے تو آخرت سے بےفکری ہی اُمّ الامراض ہے، کفر و شرک بھی اسی کا نتیجہ ہوتا ہے اور سارے گناہ اور معاصی بھی، آخرت پر یقین رکھنے والے سے اگر کبھی کوئی غلطی اور گناہ سرزد بھی ہوجاتا ہے تو اس کا دل تڑپ اٹھتا ہے، اور بالآخر توبہ کرکے آگے کے لئے گناہ سے بچنے کا عزم کرتا ہے، اور درحقیقت خوف خدا اور فکر آخرت ہی وہ چیز ہے جو انسان کو انسان بناتی اور جرائم سے باز رکھتی ہے، اسی لئے قرآن کریم کی کوئی سورت بلکہ کوئی رکوع بھی شاید اس سے خالی نہیں کہ جس میں فکر آخرت کی طرف متوجہ نہ کیا گیا ہو، اللہم اجعل جملة ھمو منا ھما واحداھم الآخرۃ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰي وَمَنْ حَوْلَہَا۝ ٠ۭ وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَہُمْ عَلٰي صَلَاتِہِمْ يُحَافِظُوْنَ۝ ٩٢ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو برك أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء . قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ( ب رک ) البرک اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔ صِّدِّيقُ : من کثر منه الصّدق، وقیل : بل يقال لمن لا يكذب قطّ ، وقیل : بل لمن لا يتأتّى منه الکذب لتعوّده الصّدق، وقیل : بل لمن صدق بقوله واعتقاده وحقّق صدقه بفعله، قال : وَاذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِبْراهِيمَ إِنَّهُ كانَ صِدِّيقاً نَبِيًّا [ مریم/ 41] ، وقال : وَاذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كانَ صِدِّيقاً نَبِيًّا [ مریم/ 56] ، وقال : وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ [ المائدة/ 75] ، وقال : فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَداءِ [ النساء/ 69] ، فَالصِّدِّيقُونَ هم قوم دُوَيْنَ الأنبیاء في الفضیلة علی ما بيّنت في «الذّريعة إلى مکارم الشّريعة» صدیق وہ ہے جو قول و اعتقاد میں سچا ہو اور پھر اپنی سچائی کی تصدیق اپنے عمل سے بھی کر دکھائے ۔ قرآن میں ہے ؛وَاذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِبْراهِيمَ إِنَّهُ كانَ صِدِّيقاً نَبِيًّا [ مریم/ 41] اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے ۔ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ [ المائدة/ 75] اور ان کی والدہ ( مریم ) خدا کی ولی تھی ۔ اور آیت ؛مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَداءِ [ النساء/ 69] یعنی انبیاء اور صدیق اور شہداء میں صدیقین سے وہ لوگ مراد ہیں جو فضیلت میں انبیاء سے کچھ کم درجہ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ہم اپنی کتاب الذریعۃ الی پکارم الشریعۃ میں بیان کرچکے ہیں ۔ «بَيْن»يدي و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام/ 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي : قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت/ 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه/ 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : / یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] پھر ان کے آگے ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ أمّ الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته . ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف/ 4] أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام/ 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک وقیل : أم الأضياف وأم المساکين کقولهم : أبو الأضياف ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید/ 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه/ 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه وکذا : هوت أمّه والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان . ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ } ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ { لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا } ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ } ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق { وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ } ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ { وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ { يَا ابْنَ أُمَّ } ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ حول أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] ( ح ول ) & الحوال ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ( ح ف ظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٢) اور یہ قرآن کریم بذریعہ جبریل امین ہم نے نازل کیا ہے جو مومن کے لیے رحمت ومغفرت کا باعث ہے اور توریت، انجیل، زبور اور تمام کتب سماویہ کو بیان اور توحید اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت میں موافقت کرنے والا ہے تاکہ آپ اس قرآن کریم کے ذریعے خصوصیت کے ساتھ مکہ والوں اور تمام شہر والوں کو ڈرائیں مکہ کو ام القری اس کی عظمت کی بنا پر کہنے لگا جاتا ہے یا یہ کہ تمام زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے، اس لیے اس کو ام القری (تمام شہروں، بستیوں کی ماں) کہتے ہیں۔ اور جو لوگ بعث بعد الموت اور جنت کی نعمتوں پر ایمان رکھتے ہیں وہ ایسے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن حکیم پر ایمان لے آتے ہیں، اور پانچوں نمازوں کے اوقات کی پابندی کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٢ (وَہٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا ط) قُریٰ جمع ہے قریہ کی اور اُمُّ القُریٰ کا مطلب ہے بستیوں کی ماں ‘ یعنی کسی علاقے کا سب سے بڑا شہر۔ ہر ملک میں ایک سب سے بڑا اور سب سے اہم شہر ہوتا ہے ‘ اسے دار الخلافہ کہیں یا دار الحکومت۔ وہ بڑا شہر پورے ملک کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ عرب میں اس وقت کوئی مرکزی حکومت نہیں تھی جس کا کوئی دارالحکومت ہوتا ‘ لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر مکہ مکرمہ کو پورے عرب میں ایک مرکزی شہر کی حیثیت حاصل تھی۔ خانہ کعبہ کی وجہ سے یہ شہر مذہبی مرکز تھا۔ عرب کے تمام قبائل یہاں حج کے لیے آتے تھے۔ کعبہ ہی کی وجہ سے قریش مکہ کو خطے کی تجارتی سر گرمیوں میں ایک خاص اجارہ داری (monopoly) حاصل تھی۔ چناچہ اہل مکہ کے ہاں پیسے کی ریل پیل تھی اور عام لوگ خوشحال تھے۔ یہاں تجارتی قافلوں کا آنا جانا سارا سال لگا رہتا تھا۔ یمن سے قافلے چلتے تھے جو مکہ سے ہو کر شام کو جاتے تھے اور شام سے چلتے تھے تو مکہ سے ہو کر یمن کو جاتے تھے۔ ان وجوہات کی بنا پر شہر مکہ بجا طور پر علاقے میں اُمُّ القریٰ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس لیے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف یہ کتاب مبارک نازل کی ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُمُّ الْقریٰ میں بسنے والوں کو خبردار کریں اور پھر ان کو بھی جو اس کے ارد گرد بستے ہیں۔ یہاں پر وَمَنْ حَوْلَھَا کے الفاظ میں جو فصاحت اور وسعت ہے اسے بھی سمجھ لیں۔ ماحول کا دائرہ بڑھتے بڑھتے لامحدود ہوجاتا ہے۔ اس کا ایک دائرہ تو بالکل قریبی اور immediate ہوتا ہے ‘ پھر اس سے باہر ذرا زیادہ فاصلے پر ‘ اور پھر اس سے باہر مزید فاصلے پر۔ یہ دائرہ پھیلتے پھیلتے پورے کرۂ ارض پر محیط ہوجائے گا۔ اگر دور نبوی میں کرۂ ارض کی آبادی کو دیکھا جائے تو اس وقت براعظم ایک لحاظ سے تین ہی تھے ‘ ایشیا ‘ یورپ اور افریقہ۔ امریکہ بہت بعد میں دریافت ہوا ہے جبکہ آسٹریلیا اور انٹارکٹیکا بھی معلوم دنیا کا حصہ نہ تھے۔ دنیا کے نقشے پر نگاہ ڈالیں تو ایشیا ‘ یورپ اور افریقہ تینوں براعظم جہاں پر مل رہے ہیں ‘ تقریباً یہ علاقہ وہ ہے جسے اب مڈل ایسٹ یا مشرق وسطیٰ کہتے ہیں۔ اگرچہ یہ نام (مڈل ایسٹ) اس علاقے کے لیے misnomer ہے ‘ یعنی درست نام نہیں ہے ‘ لیکن بہرحال یہ علاقہ ایک نقطۂ اتصال ہے جہاں ایشیا ‘ یورپ اور افریقہ آپس میں مل رہے ہیں اور اس جنکشن پر یہ جزیرہ نمائے عرب واقع ہے۔ یہ علاقہ اس اعتبار سے پوری دنیا کے لیے بھی ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ چناچہ مَنْ حَوْلَھَا کے دائرے میں پوری دنیا شامل سمجھی جائے گی ۔ (وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَۃِ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ) یعنی قرآن کے مخاطب لوگوں میں سے کچھ تو مشرک ہیں اور کچھ وہ ہیں جو بعث بعد الموت کے سرے سے ہی منکر ہیں ‘ لیکن جن لوگوں کے دلوں میں مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور اللہ کے سامنے جوابدہ ہونے کا ذرا سا بھی تصور موجود ہے وہ ضرور اس پر ایمان لے آئیں گے۔ یہ اشارہ صالحین اہل کتاب کی طرف ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

61. The point argued above was that God's word can be, and in the past has been, revealed to human beings. The next point is that the message of Muhammad (peace be on him) is indeed the revealed word of God. In order to establish this, four things are adduced as evidence: First, that this Book is overflowing with God's grace and beneficence. In other words, it contains the best possible principles for the well-being and salvation of mankind. It lays down the true doctrines of belief. It urges man to righteous conduct and inspires him to moral excellence. It contains guidance as to how one may live a life of purity. And above all, it is free from any trace of the ignorance, egocentricity, narrow-mindedness, iniquity, obscenity and other corruptions with which the Jews and the Christians had overlaid their revealed Scriptures. Second, this Book does not propound any guidance which is essentially divergent from that previously revealed; rather it confirms and supports it. Third, the purpose of the revelation of this Book is the same as that of the revelation of Scriptures in the past, viz., to shake people out of their heedlessness and warn them of the evil consequences of their corruption. Fourth, that the call of this Book did not attract those who merely worshipped worldly advantages and were slaves of their animal desires. On the contrary, it attracted those whose vision goes beyond the narrow limits of worldly life. Moreover, the revolution wrought in the lives of people under the influence of this Book has rendered them conspicuously distinct from others in respect of piety and godliness. A Book with such characteristics and with such a wholesome impact on human beings can only be from God.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :61 پہلی دلیل اس بات کے ثبوت میں تھی کہ بشر پر خدا کا کلام نازل ہو سکتا ہے اور عملاً ہوا بھی ہے ۔ اب یہ دوسری دلیل اس بات کے ثبوت میں ہے کہ یہ کلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے یہ خدا ہی کا کلام ہے ۔ اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے چار باتیں شہادت کے طور پیش کی گئی ہیں: ایک یہ کہ یہ کتاب بڑی خیر و برکت والی ہے ، یعنی اس میں انسان کی فلاح و بہبود کے لیے بہترین اصول پیش کیے گئے ہیں ۔ عقائد صحیحہ کی تعلیم ہے ، بھلائیوں کی ترغیب ہے ، اخلاق فاضلہ کی تلقین ہے ، پاکیزہ زندگی بسر کرنے کی ہدایت ہے ، اور پھر یہ جہالت ، خودغرضی ، تنگ نظری ، ظلم ، فحش اور دوسری ان برائیوں سے ، جن کا انبار تم لوگوں نے کتب مقدسہ کے مجموعہ میں بھر رکھا ہے ، بالکل پاک ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس سے پہلے خدا کی طرف سے ہدایت نامے آئے تھے یہ کتاب ان سے الگ ہٹ کر کوئی مختلف ہدایت پیش نہیں کرتی بلکہ اسی چیز کی تصدیق و تائید کرتی ہے جو ان میں پیش کی گئی تھی ۔ تیسرے یہ کہ یہ کتاب اسی مقصد کے لیے نازل ہوئی ہے جو ہر زمانہ میں اللہ کی طرف سے کتابوں کے نزول کا مقصد رہا ہے ، یعنی غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو چونکانا اور کج روی کے انجام بد سے خبردار کرنا ۔ چوتھے یہ کہ کتاب کی دعوت نے انسانوں کے گروہ میں سے ان لوگوں کو نہیں سمیٹا جو دنیا پرست اور خواہش نفس کے بندے ہیں ، بلکہ ایسے لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا ہے جن کی نظر حیات دنیا کی تنگ سرحدوں سے آگے تک جاتی ہے ، اور پھر اس کتاب سے متاثر ہو کر جو انقلاب ان کی زندگی میں رونما ہوا ہے اس کی سب سے زیادہ نمایاں علامت یہ ہے کہ وہ انسانوں کے درمیان اپنی خدا پرستی کے اعتبار سے ممتاز ہیں ۔ کیا یہ خصوصیات اور یہ نتائج کسی ایسی کتاب کے ہو سکتے ہیں جسے کسی جھوٹے انسان نے گھڑ لیا ہو جو اپنی تصنیف کو خدا کی طرف منسوب کر دینے کی انتہائی مجرمانہ جسارت تک کر گزرے؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:92) لتنذر۔ کہ ڈرائے تو۔ تو ڈرائے گا۔ تو ڈراتا ہے۔ انذار۔ سے مضارع واحد مذکر حاضر۔ ام القری مکہ معظمہ۔ بستیوں کی اصل اور جڑ۔ بستیوں کی ماں۔ من حولہا۔ جو اس کے اردگرد ہے۔ یعنی تمام اہل مشرق و مغرب

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 کیونکہ دنیا اور آخرت کی سعادت تہذیب اخلاقی اور تزکیہ نفس میں ہے اور ان دونوں کا بیان قرآن میں جس جامعیت کے ساتھ ملتا ہے کسی دوسری کتاب میں نہیں پایا جاتا ہے (رازی)12 اس آیت میں مکہ معظمہ کو ام القری فرمایا گیا ہے جس کی معنی ہیں تمام بستیوں کی جڑیا ان کا مرجع (کذافی الموضح) اور من حولھا سے مراد قبائل عرب ارسارے طوائف بنی آدم ہیں کیا عرب اور کیا عجم حدیث میں ہے وبعثٹ الی الناس عامتہ کی میں تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ ( دیکھئے آیت 19 نیز اعراف، 158)13 کیونکہ قرآن مجید آخرت ہی کو درست کرنے کی راہ بتلارہا ہے (وحیدی)14 کیونکہ تمام تمام عبادتوں کی اصل اور آخرت میں کامیابی کی کنجی ہے۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 11 ۔ آیات 92 تا 95 ۔ اسرار و معارف : نبی کی بشریت : اسلام نے پوری دنیائے کفر کو چیلنج کرتے ہوئے ساری انسانیت کو ایک معبود برحق کے ساتھ ایمان لانے اور اس کی اطاعت کرنے کی دعوت دی اور اس طرح سب کافر اسلام دشمنی پہ جمع ہوگئے سوائے ان خوش نصیب لوگوں کے جنہیں نور ایمان نصیب ہوا اور ظلمت کفر سے نجات ملی مگر یہودی اسلام دشمنی میں اول روز سے پیش پیش رہے حتی کہ مشرکین مکہ بھی علمائے یہود سے اعتراض سیکھ کر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہ پیش کرتے تھے اور اس غرض سے مدینہ آتے جاتے رہتے کہ اکثر یہودی عالم وہاں رہتے تھے آخر یہودی علما کے سربراہ نے انہیں کہا کہ کسی بشر پر یا کسی انسان پر اللہ کی طرف سے کبھی کوئی چیز نازل ہی نہیں ہوئی یہ ایسی ہی بات تھی جیسے جہلا کہہ دیتے ہیں کہ نبی بشر نہیں ہوسکتا غالباً ایسا کہنے والے خود اپنی ذات کو یا ارد گرد کے افراد کو معیار انسانیت سمجھ لیتے ہیں جو درست نہیں بلکہ اصل معیار نبی کی ذات ہے اور کمال انسانیت ہی کا نام ہے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ مکلف مخلوق چار قسم کی ہے فرشتہ شیطان جن اور انسان۔ ظاہر ہے فرشتوں میں نبوت نہیں اور نہ جنوں میں ثابت ہے شیطان سراسر ظلمت ہے باقی صرف انسان ہے جسے یہ نعمت بخشی گئی ہاں ہر بنی آدم انسان نہیں بلکہ اولاد آدم میں جو جس قدر نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع ہے اس درجہ کا انسان ہے ورنہ انسانیت سے محروم ہے لہذا نبی تو نہ صرف انسان ہوتا ہے بلکہ معیار انسانیت ہوتا ہے لہذا جواباً ارشاد ہوا کہ اگر اللہ نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری تو موسیٰ (علیہ السلام) پر وہ روشن اور واضح کتاب جو لوگوں کے لیے باعث ہدایت تھی کس نے نازل کی تھی نور اور ہدی یہ دو ایسے اوصاف ہیں جو تمام آسمانی کتب کا خاصہ ہیں کہ کلام الہی ہونے کے سبب بھی نور ہیں اور ہر طرح کی ظلمت کے مقابلے میں روشن اور زندگی کے جملہ امور کے لیے واضح راہنمائی کی حامل ہوتی ہیں مگر سب کا اپنا دور اور زمانہ تھا اگرچہ ایمان تو اب بھی سب کے ساتھ ویسا ہی ضروری ہے مگر اتباع آخری کتاب اور آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہوگا۔ اس کتاب نے تمہیں ایسے اعلی علوم سکھائے جو اس کے بغیر نہ تم جان سکتے تھے نہ تمہارے باپ دادا کی رسائی وہاں تک تھی مگر تم ایسے بدبخت تھے کہ اس کتاب کو بھی ورق ورق کرکے رکھا جہاں اپنے مطلب کی بات آئی ورق نکال کر کتاب سے ثابت کردیا اور جہاں اپنے مطلب کی بات آئی ورق نکال کر کتاب سے ثابت کردیا اور جہاں اپنی پسند کے خلاف کچھ کرنا پڑا جیسے آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا ذکر موجود تھا مگر چھپا لیا۔ اس کردار کے لوگ بھلا آپ پر نازل شدہ کلام کی تصدیق کب کریں گے ہاں انہیں فرما دیجئے کہ وہ کتاب بھی اللہ ہی نے نازل فرمائی تھی اور اپنے بندے اور ایک انسان پر یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر مدلل جواب دینے کے بعد آپ ان کی پرواہ نہ کریں اور انہیں اپنی خرافات کہنے دیں۔ کتاب کے مطابق عمل کرے نہ یہ کہ اپنے عمل کا جواز گھڑتا پھرے : یہ بات واضح ہوگئی کہ محض مقصد بر آوری کے لیے کتاب اللہ کے حوالے تلاش کرنا درست نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب راہنمائی حاصل کرنے کے لیے ہے اگر اپنا عمل اس کے مطابق ہو تو اللہ کا شکر ادا کرے اور اگر کوتاہی ہورہی ہو تو اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے کتاب کی ناروا تاویلیں کرکے اپنے عمل کو جائز ثابت کرنا ظلم ہے یہ کتاب جو ہم نے نازل فرمائی بہت بڑی برکتیں رکھتی ہے ایک ایک ضرورت کا وہ حل پیش فرماتا ہے جو آسان ترین بھی ہے اور اللہ کریم کا پسندیدہ بھی اور ان تمام صداقتوں کی امین بھی ہے جو پہلی کتابوں میں تھیں عقائد توحید و رسالت یا مبداء و معاد ثواب و عذاب زندگی اور آخرت میں کوئی تبدیلی نہیں کرتی اور یہ اس لیے نازل فرمائی گئی کہ آپ ام القری یعنی مکہ مکرمہ جو اس مقام پر ہے جو روئے زمین کا مرکز ہے جہاں سے زمین پھیلائی گئی لہذا تمام انسانی آبادیوں کی اصل ہے کے باسیوں کو بھی اور اردگرد یعنی جہاں تک زمین پھیلائی گئی اور اس پر جو انسان آباد ہیں سب کو اخروی اور ابدی نقصان سے بروقت خبردار کردیں سبحان اللہ کتنا بڑا احسان ہے رب کریم کا اور کس قدر عظیم مشقت ہے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی کے لیے۔ صداقت کتاب کی دلیل : جن لوگوں میں آخرت کا شعور باقی ہوگا وہ تو آپ کی بات فوراً قبول کریں گے اور اللہ کی اطاعت اور پنجگانہ عبادت پورے خلوص سے شروع کردیں گے بلکہ اس کی ھفاظت کریں گے یعنی ایسے امور سے اجتناب کریں گے جو عبادت سے روکنے یا اللہ کریم کی ناراضگی کا سبب بن سکتے ہوں۔ دوسری دلیل قرآن کے کتاب الہی ہونے کی خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی ہے کہ جس ہستی نے کبھی کسی انسان پر غلط بیانی نہ کی ہو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ نے مجھ پر یہ بات نازل فرمائی ہے حالانکہ اللہ نے نازل نہ کی ہو یہ آپ جیسا کریم اور صادق و امین نہیں کہہ سکتا یہ تو کوئی بہت بڑا بدکار اور ظالم شخص ہی کہہ سکتا ہے کہ اللہ پر جھوٹ بولنے سے بڑا اور کیا جرم ہوسکتا ہے یا یہ کہہ دے جو کچھ اللہ نے نازل فرمایا ہے میں بھی ایسا کلام پیش کرسکتا ہوں ایسا کرنے والے لوگ تو انتہائی درجہ کے ظالم اور بدکار ہوتے ہیں حتی کہ انہیں اگر موت کی دہلیز پہ دیکھا جائے یعنی وہ روحانی اور باطنی کیفیت اگر دیکھی جاسکے جب موت کے فرشتے یعنی ملک الموت کے کارندے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوتے ہیں اور ساتھ یہ خبر بھی دیتے ہیں کہ اب جان حوالے کردو آج سے تم اس ذلت کے عذاب میں پڑنے جا رہے ہو جو اللہ کریم پر جھوٹ بولنے کی سزا ہے اور اس تکبر کی سزا بھی جو تم نے احکامِ الہی کے مقابلے میں اختیار کیا تھا۔ یاد رہے مرنے والے کی ظاہری حالت سے اندازہ نہیں کیا جاسکتا بعض اوقات مومنین پر بھی بظاہر تکلیف نظر آتی ہے مگر حقیقت میں یہ چن دلمحوں کی تکلیف ان کے لیے بیشمار خطاؤں کی بخشش کا سبب ہوتی ہے اس لیے میں نے روحانی اور باطنی کیفیت کے الفاظ لکھ دئیے ہیں کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو یہ مشاہدہ نصیب ہوتا ہے اسی ذریعے سے تو ساری کتاب بھی حاصل کرتے ہیں ایسے ہی اہل اللہ کو بھی انبیاء کی اطاعت اور نسبت سے یہ دولت حسب حال نصیب ہوتی ہے۔ پھر جب اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے یعنی یوم حساب بھی بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ تم تو ویسے ہی اکیلے ننگے بدن برہنہ سر آگئے جیسے میں نے پیدا کیا تھا اور وہ مال اور اقتدار جس پر اکڑتے تھے وہ کیا ہوا سب چھوڑ آئے ہو تمہارے ساتھ تو کوئی ایسے سفارشی بھی نہیں جن کو تم اللہ کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے تھے جن کی غلامی پہ تمہیں ناز ہوا کرتا تھا آج تو تمہاری دوستیاں ٹوٹ گئیں وہ تم سے جان چھڑاتے ہیں اور تم ان سے بیزار ہو تعلیماتِ نبوت کے مقابلے میں جو اوہام تم نے گھڑ رکھے تھے سب تباہ ہوگئے اور کوئی تمہارے کام نہ آسکا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تورات اور انجیل کے بعد قرآن مجید مبارک کتاب ہے اور لوگوں کے لیے ہدایت کا آخری سرچشمہ ہے جو پہلی کتب آسمانی کی تصدیق کرتی ہے۔ یہودی عصبیت کی بنا پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قرآن مجید کے نزول کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن تورات سمیت آسمانی کتابوں کی تصدیق اور تائید کرتا ہے اور لوگوں کے لیے باعث برکت ہے۔ قرآن مجید کتب آسمانی کی تائید و تصدیق کرنے کے ساتھ نہایت ہی مبارک کتاب ہے۔ کائنات کے انسانوں کے لیے ہدایت کا منبع، روشنی کا سرچشمہ اور حکمت و دانش کا مہرتاباں ہے اگر یہود ہٹ دھرمی کی بنا پر مسلسل انکار کر رہے ہیں تو اے رسول ان پر صلاحیتیں صرف کرنے کے بجائے آپ اہل مکہ اور اس کے چاروں طرف بسنے والے لوگوں کو ڈرائیں اور سمجھائیں اور ان مسلمانوں کو جو آخرت کے حساب و کتاب پر یقین رکھتے اور پنجگانہ نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس آیت میں مکہ معظمہ کو ام القریٰ کا درجہ دیا گیا ہے ام القریٰ کا معنی ہے ” بستیوں کی ماں۔ “ سورة آل عمران کی آیت ٩٦ سے اشارہ ملتا ہے کہ یہی مبارک بستی ہے جو سب سے پہلے دنیا میں معرض وجود میں آئی حدیث میں اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے کہ زمین کے پیدا ہونے سے پہلے آسمان کے نیچے پانی ہی پانی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو صفحۂ ہستی پر آنے کا حکم دیا۔ سب سے پہلے زمین کا جو حصہ ظہور پذیر ہوا۔ وہ مکہ معظمہ کی سرزمین تھی اس اعتبار سے بھی مکہ ام القریٰ کا درجہ رکھتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہاں آخری نبی کی بعثت کی دعا کی تھی اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ تبلیغ کا نیٹ ورک ایسا ہونا چاہیے جس میں ایک مبلغ اپنے نفس کے بعد اپنے اعزاء و اقرباء، اڑوس پڑوس اور اپنے ہم وطنوں کو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائے۔ یہ حقوق انسانی اور فطری تقسیم کے عین مطابق ہے پھر تبلیغ کے سلسلہ میں ان لوگوں پر خاص توجہ دے جو مرنے کے بعد جی اٹھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو منوانا دوسروں کی نسبت آسان ہوتا ہے۔ آخرت پر یقین رکھنے والے ہی نماز کی حفاظت کا التزام کرتے تھے کیونکہ نماز اللہ تعالیٰ کے قرب کا مؤثر ذریعہ ہے اور نماز اس بات کا احساس دلاتی ہے جس طرح دنیا میں اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوتے ہیں۔ اسی طرح مرنے کے بعد اس کی بارگاہ میں عاجز اور سرافگندہ ہو کر کھڑے ہوں گے۔ قرآن مجید کے نفاذ کی برکات : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَدٌّ یُعْمَلُ بِہٖ فِی الْأَرْضِ خَیْرٌ لِأَہْلِ الْأَرْضِ مِنْ أَنْ یُمْطَرُوا أَرْبَعِینَ صَبَاحًا) [ رواہ ابن ماجۃ : کتاب الحدود، باب اقامۃ الحد ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ حد کو زمین پر نافذ کرنا اہل زمین کے لیے چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔ “ قرآن مجید کی تلاوت کا ثواب : (عن عَبْد اللَّہِ بْنَ مَسْعُودٍ (رض) یَقُولُ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ کِتَاب اللّٰہِ فَلَہُ بِہٖ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا لَا أَقُول الم حَرْفٌ وَلَکِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیمٌ حَرْفٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القران ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک حرف پڑھا اس کے لیے دس نیکیوں کے برابر ثواب ہے میں یہ نہیں کہتا الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے ل دوسرا حرف ہے اور میم تیسرا حرف ہے۔ “ تبلیغ کی ترتیب : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ قَامَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی الصَّفَا فَقَالَ یَا فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ یَا صَفِیَّۃَ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَا بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا أَمْلِکُ لَکُمْ مِنْ اللّٰہِ شَیْءًا سَلُونِی مِنْ مَالِی مَا شِءْتُمْ ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب فی قولہ تعالیٰ وانذر عشیرتک الأقربین ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے “ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا پر کھڑے ہو کر فرمایا اے فاطمہ میری بیٹی، اے صفیہ بنت عبدالمطلب، اے عبدالمطلب کے خاندان کے لوگو ! مجھ سے مانگ لو لیکن اللہ کے ہاں میں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ “ نماز کی فرضیت اور فضیلت : (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الصَّلَوٰتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَۃُ اِلَی الْجُمُعَۃِ وَ رَمَضَانُ اِلٰی رَمْضَانَ مُکَفِّرَاتٌ لِّمَا بَیْنَہُنَّ اِذَا اجْتُنِبَتِ الْکَبَاءِرُ )[ رواہ مسلم : کتاب الطہارۃ، باب الصلوات الخمس ] ” ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پانچ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ اور رمضان سے رمضان درمیانی مدّت کے گناہوں کا کفارہ ہیں۔ بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔ “ مسائل ١۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ ٢۔ قرآن مجید بابرکت کتاب ہے۔ ٣۔ قرآن مجید پہلے انبیاء و رسل کی تصدیق کرتا ہے۔ ٤۔ مکہ مکرمہ دنیا کی تہذیبوں کا سنگم تھا۔ ٥۔ قرآن مجید کے ماننے والے اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” وَہَـذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْْنَ یَدَیْْہِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَہَا وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالآخِرَۃِ یُؤْمِنُونَ بِہِ وَہُمْ عَلَی صَلاَتِہِمْ یُحَافِظُونَ (92) (اسی کتاب کی طرح) یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے ۔ بڑی خیر و برکت والی ہے ۔ اس چیز کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے آئی تھی ۔ اور اس لئے نازل کی گئی ہے کہ اس کے ذریعہ سے تم بستیوں کے اس مرکز (یعنی مکہ) اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو متنبہ کرو ۔ جو لوگ آخرت کو مانتے ہیں وہ اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ۔ “ سنن الہیہ میں سے یہ بھی ایک سنت ہے کہ اللہ رسول بھیجا کرتا ہے ۔ یہ جدید کتاب جس کے نزول کے بارے میں یہ لوگ شک کرتے ہیں یہ ایک کتاب مبارک ہے اور خدا کی قسم فی الواقعہ یہ ایک مبارک کتاب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہر معنی کے اعتبار سے مبارک ہے اور حقیقت کے اعتبار سے مبارک ہے ۔ اس میں اللہ کے اس وقت برکت ڈالی جب اسے نازل کیا ۔ اس اعتبار سے بھی مبارک ہے کہ جس محل اور رسول پر اسے اتارا گیا وہ بھی مبارک ہے ۔ یعنی قلب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کریم اور عظیم ہیں ۔ یہ اپنے حجم اور مضامین کے اعتبار سے بھی مبارک ہے ۔ یہ انسانوں کی لکھی ہوئی طویل کتابوں کے مقابلے میں چندصفحات ہیں ۔ لیکن مفہوم ‘ ہدایات ‘ تعلیمات اور اثرات کے اعتبار سے وہ اس قدر عظیم ہے کہ انسانوں کی لکھی ہوئی دسیوں کتابیں ان کی تشریح نہیں کرسکتیں اگرچہ وہ حجم اور صفحات کے اعتبار سے قرآن کریم سے کئی گنا زیادہ کیوں نہ ہوں ۔ وہ لوگ جو اسالیب کلام ‘ خود اپنے کلام یا دوسروں کے کلام پر تبصرے اور غور وفکر کرتے ہیں اور الفاظ کے ذریعے معافی کی طرز ہائے تعبیر پر تنقیدی نگاہ رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ متن قرآن اظہار معانی کے اعتبار سے نہایت ہی مبارک کلام ہے اور یہ بات ناممکن ہے کہ کوئی انسان اس طرز پر بات کرسکے ۔ کوئی شخص طویل ترین عبارات کے اندر بھی وہ معانی ادا نہیں کرسکتا جو قرآن نے مختصر ترین جملوں میں ادا کئے ہیں ۔ ان میں معانی کا دریا ہے ‘ اشارات اور معانی کا سیلاب ہے ‘ اور پھر نہایت ہی اثر آفریں بھی ۔ ایک پوری آیت تو اس قدر معانی ادا کرتی ہے اور اس قدر حقائق اس کے اندر سمو دیئے گئے ہوتے ہیں کہ اسے تقریر وتحریر کے بہترین نمونے اور ایک منفرد ٹکڑے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ‘ جس کی نظیر بلیغ سے بلیغ انسانی کلام میں نہیں ملتی ۔ پھر یہ کتاب اپنے اثرات کے اعتبار سے بھی بہت ہی مبارک ہے ۔ یہ انسانی فطرت اور انسانی شخصیت کو جامعیت کے ساتھ خطا کرتی ہے اور یہ خطاب نہایت ہی لطیف پیرائے میں اور براہ راست ہوتا ہے ۔ یہ خطا نہایت ہی لطیف انداز میں فطرت کے اندر اتر جاتا ہے ۔ یوں یہ کلام فطرت انسانی کو اس کے ہر پہلو اور ہر راستے سے متاثر کرتا ہے اور اس پر یوں اثر انداز ہوتا ہے کہ کوئی اور کلام اس پر اس طرح اثر انداز نہیں ہوسکتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کلام میں اللہ کی جانب سے ایک قوت ودیعت کردی گئی ہے اور اس کے سوا دوسرے لوگوں کے کلام کے اندر اس قسم کی کوئی قوت نہیں ہوتی ۔ کتاب اللہ کی برکات کے بارے میں یہاں مزید کہنا ہمارے لئے ممکن نہیں اور اگر ہم اس موضوع پر کلام جاری بھی رکھیں تو اس کا حق ادا کرنا کسی انسان کے لئے ممکن ہی نہیں ہے ۔ بس اللہ کی یہ بات کافی وشافی ہے کہ یہ کلام مبارک ہے اور فصل الخطاب پر مشتمل ہے ۔ (آیت) ” مصدق الذی بین یدیہ “۔ (٦ : ٩٢) یہ سابقہ کتب کی تصدیق کرنے والی ہے ۔ “ یعنی یہ ان تمام کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو کبھی بھی اللہ کی جانب سے اتری ہیں لیکن یہ کتاب ان کتابوں کی تصدیق ان کی اصلی شکل میں کرتی ہے ‘ اس شکل میں نہیں جن میں ان کتابوں کو ان کے ماننے والوں کی مختلف کانفرنسوں نے پیش کیا اور کہا کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہے ۔ یہ کتاب کتب سابقہ کی تصدیق اس لئے کرتی ہے کہ اصول و عقائد کے اندر یہ کتاب جو سچائی پیش کرتی ہے ‘ وہ ان کتب سابقہ کے اندر بھی موجود ہے ۔ رہی شریعت اور قوانین تو اللہ کی سنت یہ ہے کہ اللہ ہر امت کے لئے علیحدہ شریعت اور علیحدہ منہاج وضع کیا کرتا ہے لیکن یہ منہاج اور یہ شریعت دین کے عظیم اصولوں کی روشنی میں طے ہوتے ہیں ۔ جو لوگ اسلام کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ یہ پہلا دین ہے جس نے مکمل توحید کا نظریہ پیش کیا اور یہ کہ رسالت اور رسولوں کے بارے میں اس دین نے سب سے پہلے مکمل تصور پیش کیا ۔ آخرت اور حساب و کتاب کے بارے میں سب سے پہلے مکمل نظریہ پیش کیا ۔ ایسے لوگوں کا مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اسلام کی تعریف کریں ۔ ایسے لوگوں نے دراصل قرآن کریم کا مطالعہ نہیں کیا ہوتا ۔ اگر انہوں نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا ہوتا تو وہ لوگ بسہولت معلوم کرلیتے کہ قرآن کے مطابق تمام رسولوں نے مکمل اور خالص توحید کا نظریہ اور عقیدہ پیش کیا جس کے اندر شرک کا شائبہ تک نہ تھا ‘ اور یہ کہ تمام رسولوں نے رسالت کی حقیقت بیان کی اور سب نے یہی کہا کہ وہ کسی کے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں ۔ وہ غیب نہیں جانتے اور یہ کہ وہ کسی کے نفع ونقصان کے ملک نہیں ہیں ۔ وہ غیب نہیں جانتے اور یہ کہ وہ کسی کے رزق میں نہ کمی کرسکتے ہیں اور نہ زیادتی ۔ تمام رسولوں نے اپنی اپنی قوم اور امت کو آخرت کی جواب دہی کا احساس دلایا اور کہا کہ تم کو وہاں حساب و کتاب سے سابقہ پیش ہوگا ۔ تمام رسولوں نے ایک ہی قسم کے اساسی عقائد ونظریات پیش کئے ۔ قرآن کریم جو آخری کتاب ہے اس نے ان تمام سابقہ کتب کی تصدیق کی ۔ اسلام کے بارے میں یہ تعریفی جملے جن کا ذکر ہوا یورپین تصورات کا چربہ ہیں اور یورپین تصور یہ ہے کہ تمام آسمانی مذاہب ترقی پذیر ہیں اور وہ ترقی کے مختلف مراحل سے گزرے ہیں ۔ جوں جوں قوموں نے ترقی کی ‘ ان مذاہب کے تصورات میں بھی ترقی ہوتی رہی ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے کسی اصول کو منہدم کرکے اسلام کی تعریف و توصیف نہیں کی جاسکتی لہذا تمام لکھنے والوں اور تمام پڑھنے والوں کو چاہئے کہ وہ ایسی باتیں نہ لکھیں اور نہ ایسی باتیں پڑھیں ۔ اور یہ آخری کتاب کیوں نازل کی گئی ؟ تاکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مکہ اور اس کے اردگرد جو لوگ بستے ہیں ان کو ڈرائیں ۔ (آیت) ” لتنذر ام القری ومن حولھا “۔ (٦ : ٩٢) تاکہ تم ام القری اور اس کے ارد گرد بسنے والوں کو دراؤ۔ “ مکہ مکرمہ کو ام القری اس لئے کہا گیا کہ اس میں وہ گھر ہے جسے سب سے پہلے اللہ وحدہ کی عبادت کے لئے تعمیر کیا گیا اور اسے امن اور لوگوں کے آنے جانے کی جگہ قرار دیا گیا ۔ فقط انسانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر زندہ چیز کے لئے اسے جائے امن قرار دیا گیا اور مکہ مکرمہ ہی سے تمام روئے زمین کے باشندوں کے لئے دعوت اٹھی ۔ اس سے قبل تمام انبیاء کی دعوت کبھی دعوت عامہ نہیں رہی اور یہ ام اس لیے بھی ہے کہ یہاں تمام اہل ایمان حج کے لئے آتے ہیں تاکہ یہاں سے دعوت اسلامی کو لے کر دنیا میں پھیل جائیں ۔ اس آیت سے وہ مراد نہیں جو مغربی مستشرقین سے نکالی ہے کہ دعوت اسلامی صرف اہل مکہ اور اس کے اردگرد بسنے والے لوگوں کے لئے ہے۔ مستشرقین اس آیت کا یہ مفہوم اس طرح نکالتے ہیں کہ اسے دوسرے قرآن مجید ہے کاٹ کر پڑھتے ہیں اور یہ اخذ کرتے ہیں کہ پہلے پہل حضرت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقصد صرف یہ تھا کہ اہل مکہ اور چند دوسرے شہروں کے لوگوں تک اپنی دعوت کو محدود رکھیں مگر بعد میں آپ نے اپنی دعوت کو پھیلائیں ۔ اس کے بعد آپ نے یہ ارادہ کیا کہ اسے اور آگے بڑھایا جائے ۔ آپ کے ذہن میں یہ خیال بعض اتفاقات کی وجہ سے پیدا ہوا یعنی مدینہ کی طرف ہجرت کرنے اور وہاں حکومت قائم ہوجانے کی وجہ سے ‘ لیکن ان لوگوں نے اسلام اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ عظیم افتراء باندھا ہے اس لئے کہ دعوت کے ابتدائی دنوں ہی میں اللہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہہ دیا تھا ۔ (آیت) ” وما ارسلنک الا رحمۃ اللعلمین “۔ (٢١ : ١٠٧) اور ہم نے تجھے پورے جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔ “ (آیت) ” وما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیرا ونذیرا “۔ (٣٤ : ٢٨) اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے بشیرونذیر بنا کر بھیجا ہے ۔ “ یہ اس دور کی بات ہے جب دعوت اسلامی مکہ میں شعب ابو طالب میں محصور تھی اور اسے سخت مشکلات کا سامنا تھا ۔ (آیت) ” وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالآخِرَۃِ یُؤْمِنُونَ بِہِ وَہُمْ عَلَی صَلاَتِہِمْ یُحَافِظُونَ (92) ” اور لوگ آخرت کو مانتے ہیں وہ اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ “ اور وہ لوگ جو اس حقیقت پر ایمان لاتے ہیں کہ ایک دن ہم نے اپنی زندگی کا حساب و کتاب دینا ہے ‘ وہ اس بات پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لازما رسول بھیجتا ہے اور وہ رسولوں کی طرف وحی کرتا ہے ۔ ایسے لوگ قرآن مجید کی تصدیق کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے بلکہ یہ ایمان انہیں اس تصدیق پر آمادہ کرتا ہے اور پھر وہ اپنے اس ایمان بالاخرت اور ایمان بالکتاب کی وجہ سے اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں تاکہ ان کا تعلق ذات باری سے قائم و دائم ہے ۔ اور وہ نماز کی شکل میں اطاعت باری کا اظہار کرسکیں ۔ یہ انسانی نفسیات کی کیفیت ہے کہ جب کسی کے دل میں خوف آخرت پیدا ہوجائے اور اس کو قیام قیامت کا یقین ہوجائے تو ایسے نفوس اللہ کی جانب سے کتاب ہدایت کے نزول کو خود بخود مان لیتے ہیں اور اس کے بعد وہ نماز کی صورت میں اللہ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرلیتے ہیں ۔ قرآن کریم کے اندر جابجا جن انسانی نفسیات و کیفیات کو قلم بند کیا گیا ہے ‘ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رب العالمین کا سچا کلام ہے ۔ اب آگے اس لہر اور سبق کا آخری حصہ ہے ۔ یہ حصہ ایک خوفناک اور متحرک منظر پیش کرتا ہے ۔ یہ منظر الفاظ کی تصویر کے ذریعے نظروں کے سامنے اسکرین پر ہے ۔ اس منظر کے کردار وہ لوگ ہیں جو مشرک ہیں اور ظالم ہیں اور جن کا وطیرہ یہ ہے کہ یہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ۔ یہ جعلی مدعیان نبوت ہیں جن کا دعوی یہ ہے کہ ان کی طرف وحی آتی ہے ۔ حالانکہ ان کی طرف کوئی وحی نہیں آتی ۔ یہ وہ لوگ جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ بھی قرآن مجید جیسا کلام پیش کرسکتے ہیں ۔ یہ لوگ حالت نزع میں ہیں اور ان کا ظلم اس قدر عظیم ہے کہ اس کے بارے میں انسان سوچ میں نہیں سکتا ۔ موت کے وقت فرشتے ہاتھوں میں ذرائع عذاب لے کر ان کی جان نکالنے کے لئے حاضر ہوں گے ۔ اس وقت ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہوں گی اور یہ لوگ اس دنیا کی ہر چیز کا پیچھے چھوڑتے ہوئے جان دیں گے اور رخصت ہوں گے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قرآن مجید مبارک کتاب ہے سابقہ کتب کی تصدیق کرتی ہے یہود نے یہ جو کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا اس سے قرآن مجید کا انکار بھی لازم آگیا۔ لہٰذا قرآن مجید کے نازل فرمانے کا متصلاً ہی تذکرہ فرمایا۔ اور قرآن مجید کی دو صفات بیان فرمائیں اول یہ کہ مبارک ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اللہ کی دوسری کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ صاحب روح المعانی ج ٧ ص ٢٢١ مبارک کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ای کثیر الفائدۃ و النفع لاشتمالہ علی منافع الدارین و علوم الاوّلین و الاخرین۔ یعنی یہ کتاب بہت زیادہ فائدہ والی ہے اس لیے کہ اس میں دونوں جہان کے منافع ہیں اور اولین اور آخرین کے علوم ہیں۔ قرآن مجید کی دوسری صفت یہ بیان کی کہ اس سے پہلے جو اللہ کی کتابیں ہیں ان سب کی تصدیق کرنے والا ہے، اس میں یہودیوں کی تنبیہ ہے کہ اس کتاب سے منحرف نہ ہوں جو کتاب تمہارے پاس ہے یہ کتاب اس کے معارض نہیں ہے بلکہ اس کی تصدیق کرتی ہے۔ توریت شریف پر بھی ایمان لاؤ اور اس کتاب پر بھی۔ پھر فرمایا (وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَ مَنْ حَوْلَھَا) اور تاکہ آپ ڈرائیں ام القری کے رہنے والوں کو اور جو اس کے آس پاس کے رہنے والے ہیں۔ ام القری مکہ معظمہ کا ایک نام ہے۔ نزول قرآن کے زمانہ میں چونکہ آس پاس کی بستیوں میں یہ بڑی بستی تھی اور اپنی ضرورتوں کے لیے لوگ یہاں آتے جاتے تھے۔ اس لیے اس کو ام القریٰ (بستیوں کی ماں) کے نام سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ اس میں قرآن مجید کا مقصد نزول بیان فرمایا اور وہ یہ کہ اس کے ذریعہ اہل مکہ اور وہاں کی آس پاس کی بستیوں کو حق کی دعوت دی جائے اور مخالفت حق سے ڈرایا جائے۔ لفظ (وَ مَنْ حَوْلَھَا) کا مصداق مکہ مکرمہ کے آس پاس کی بستیاں ہیں۔ اور بعض حضرات نے پوری دنیا مراد لی ہے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تمام جنات اور انسانوں کے لیے ہے۔ اسی لیے دوسری جگہ قرآن مجید میں فرمایا۔ (وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَ کُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ ) ( سورة انعام ع ٢) ۔ آخر میں فرمایا (وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَۃِ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَ ھُمْ عَلٰی صَلَاتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ ) یعنی جو لوگ آخرت پر ایمان لاتے ہیں انہیں آخرت کی نجات کا فکر ہے اور وہاں کے عذاب کا ڈر ہے اس لیے ان کا غور و فکر انہیں قرآن پر ایمان لانے پر آمادہ کرتا ہے۔ اور یہ لوگ ایمان لا کر نمازوں کی پابندی کرتے ہیں کیونکہ نماز میں باربار ایمانی تقاضوں پر عمل کرنے کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اور نماز ایمان کی سب سے بڑی علامت ہے اور دین کا ستون ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

92 اور جب یہود کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوگیا اور یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام پر کتابیں نازل کرتا رہا ہے تو یہ قرآن بھی ایک کتاب ہے جس کو ہم نے ہی اتارا ہے یہ کتاب بڑی بابرکت ہے اور اپنے سے پہلی کتب آسمانی کی تصدیق کرنے والی ہے اور یہ کتاب اس لئے نازل فرمائی ہے تاکہ اے پیغمبر ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مکہ والوں کو اور اس کے چاروں طرف بسنے والوں کو ڈرا دیں اور جو لوگ آخرت کو مانتے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو قرآن کریم پر ایمان لے ہی آتے ہیں اور اپنی نمازوں کی حفاظت اور نگہداشت کرتے ہیں اور اپنی نمازوں سے پوری طرح باخبر رہتے ہیں یعنی آسمانی کتابوں کی اس طرح تصدیق کرتی ہے کہ ان کو سچا اور آسمانی کہتی ہے یا اس طرح کہ ان کتابوں میں نزول قرآن کا ذکر ہے قرآن نے آ کر ان کی تصدیق کردی کہ جو بات ان کتابوں میں کہی گئی تھی وہ واقعی سچ تھی آخرت پر اگر کوئی پوری طرح ایمان رکھتا ہے اس کو تو قرآن کریم پر ایمان لانے اور نماز کی پابندی کرنے کے سوا چارہ نہیں اور جو لوگ محض آخرت کا خیال رکھتے ہیں اور اتنا سمجھتے ہیں کہ حساب کتاب کا کوئی دن ہوگا تو ان کا مآل بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ اس قرآن کریم پر ایمان لے آتے ہیں اور اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔