Surat ul Mumtahina

Surah: 60

Verse: 3

سورة الممتحنة

لَنۡ تَنۡفَعَکُمۡ اَرۡحَامُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ ۚ ۛ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ۛ یَفۡصِلُ بَیۡنَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۳﴾

Never will your relatives or your children benefit you; the Day of Resurrection He will judge between you. And Allah , of what you do, is Seeing.

تمہاری قرابتیں ، رشتہ داریاں اور اولاد تمہیں قیامت کے دن کام نہ آئیں گی اللہ تعالٰی تمہارے درمیان فیصلہ کر دے گا اور جو کچھ تم کر رہے ہو اسے اللہ خوب دیکھ رہا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Neither your relatives nor your children will benefit you on the Day of Resurrection. He will judge between you. And Allah is the All-Seer of what you do. means, `your family relations will not benefit you with Allah if Allah decided to cause harm your way. Your relations will not benefit you if you please them with what angers Allah.' Those who agree with their family being disbelievers in order to please them will have earned loss and failure and their deeds will be rendered invalid. Their relation will not benefit them with Allah, even if their relation was with a Prophet. Imam Ahmad recorded that Anas said that a man said, "O Allah's Messenger! Where is my father" He said, فِي النَّار In the Fire. When the man went away, the Prophet called him back and said: إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّار Verily, my father and your father are in the Fire. Muslim and Abu Dawud also collected this Hadith.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یعنی جس اولاد کے لئے تم کفار کے ساتھ محبت کا اظہار کر رہے ہو، یہ تمہارے کچھ کام نہ آئے گی، پھر اس کی وجہ سے تم کافروں سے دوستی کرکے کیوں اللہ کو ناراض کرتے ہو۔ قیامت والے دن جو چیز کام آئے گی، وہ تو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ہے، اس کا اہتمام کرو۔ 3۔ 2 دوسرے معنی ہیں تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا۔ یعنی اہل اطاعت کو جنت میں اور اہل معصیت کو جہنم میں داخل کرے گا، بعض کہتے ہیں آپس میں جدائی کا مطلب کہ ایک دوسرے سے بھا گیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] تم نے یہ کام صرف اس لیے کیا کہ مکہ میں تمہارے بال بچے کافروں کی ایذا رسانی سے محفوظ رہیں۔ تم نے اپنے بال بچوں کے مفاد کو اسلام کے اجتماعی مفاد کے مقابلہ میں ترجیح دی۔ حالانکہ قیامت کے دن تمہارے یہ بال بچے تمہارے کسی کام نہ آسکیں گے۔ بال بچوں کی خاطر جس خطرناک غلطی کا تم نے ارتکاب کیا ہے۔ اگر اللہ تمہیں اس کی پاداش میں پکڑے تو کیا یہ بال بچے تمہیں اللہ سے بچا سکیں گے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ لَنْ تَنْفَعَکُمْ اَرْحَامُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْج یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ :” ارحام “ ” رحم “ کی جمع ہے ، رشتہ داری ۔ مراد ” ذو وا الارحام “ ہے ، رشتہ دار ۔ یعنی وہ رشتہ دار اور اولاد جن کی خاطر تم اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کر رہے ہو قیامت کے دن وہ تمہیں ہرگز کوئی فائدہ نہیں دیں گے کہ تمہیں اس گناہ کی سزا سے یہ کہہ کر بچا لیں کہ انہوں نے ہماری خاطر خاطر یہ غلطی کی تھی۔ ٢۔ یَفْصِلُ بَیْنَکُمْ : اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا ۔ دوسرا یہ کہ وہ قیامت کے دن تمہارے درمیان اور تمہارے ارحام و اولاد کے درمیان جدائی ڈال دے گا ، کسی کو کسی کا ہوش نہ ہوگا ، جیسا کہ فرمایا :(یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ ) (عبس : ٣٤ تا ٣٧)” جس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا ۔ اور اپنی ماں اور اپنے باپ ( سے) ۔ اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے ۔ اس دن ان میں سے ہر شخص کی ایک ایسی حالت ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بےپروا بنا دے گی “۔ پچھلی آیت میں ان لوگوں کا حال بتایا جن سے دوستی کی جا رہی ہے اور اس آیت میں ان لوگوں کا حال بیان کیا جن کی خاطر کفار سے دوستی کی جا رہی ہے۔ ٣۔ وَ اللہ ُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ : اس میں فرماں برداروں کے لیے وعدہ اور نافرمانوں کے لیے وعید ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَن تَنفَعَكُمْ أَرْ‌حَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ ۚ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ (Neither your womb-relations nor your children will avail you on the Day of Judgment. He will decide between you, and Allah is watchful of what you do...60:3). The verse refutes the plea of Sayyidna Hatib (رض) . He did what he did for the love of his children, but they will be of no help on the Day of Resurrection. All relations on that day will come to an end. Parents will flee from their children, and children from their parents, and no secret will ever remain hidden from Allah.

(آیت) لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ ڔ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ڔ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ” یعنی قیامت کے روز تمہارے رشتے ناتے اور تمہاری اولاد تمہارے کام نہ آئیں گے، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز یہ سب تعلقات ختم کردیں گے اولاد ماں باپ سے اور ماں باپ اولاد سے بھاگتے پھریں گے، اس میں حضرت حاطب کے عذر کی تردید ہے کہ جس اولاد کی محبت میں مبتلا ہو کر یہ کام کیا تھا سمجھ لو کہ قیامت کے دن وہ اولاد تمہارے کچھ کام نہ آئے گی اور اللہ تعالیٰ سے کوئی راز اور خفیہ چیز چھپنے والی نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ۝ ٠ ۚۛ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝ ٠ ۚۛ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝ ٣ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ فصل ( جدا) الفَصْلُ : إبانة أحد الشّيئين من الآخر : حتی يكون بينهما فرجة، ومنه قيل : المَفَاصِلُ ، الواحد مَفْصِلٌ ، قال تعالی: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف/ 94] ، ويستعمل ذلک في الأفعال والأقوال نحو قوله : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان/ 40] ( ف ص ل ) الفصل کے معنی دوچیزوں میں سے ایک کو دوسری سے اسی طرح علیحدہ کردینے کے ہیں کہ ان کے درمیان فاصلہ ہوجائے اسی سے مفاصل ( جمع مفصل ) ہے جس کے معنی جسم کے جوڑ کے ہیں . قرآن میں ہے : وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف/ 94] اور جب قافلہ ( مصر سے ) روانہ ہوا ۔ اور یہ اقول اور اعمال دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان/ 40] کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن سب کے اٹھنے کا دن ہے ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے بصیر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة : بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔ اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

لیکن اگر تم نے ایمان لانے اور ہجرت کرنے کے بعد کفر کیا تو قیامت کے دن عذاب الہی کے مقابلہ میں تمہارے مکہ کے رشتہ دار کچھ کام نہیں آئیں گے۔ وہ قیامت کے دن تمہارے اور مومنین کے درمیان یا یہ کہ اس چیز پر فیصلہ فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ تمہاری نیکی و برائی کو خوب دیکھتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ لَنْ تَنْفَعَکُمْ اَرْحَامُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ } ” تمہیں ہرگز نفع نہیں پہنچائیں گے تمہارے رحمی رشتے اور نہ تمہاری اولادیں ‘ قیامت کے دن۔ “ { یَفْصِلُ بَیْنَکُمْط } ” اللہ فیصلہ کر دے گا تمہارے مابین۔ “ { وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۔ } ” اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 The allusion is to Hadrat Hatib. As he had acted thus only in order to ensure that his mother and brother and children remained safe in the event of a war, it is being said: "The relations for whose sake you have committed this grave error, will not save you on the Day of Resurrection. No one will dare come forward in the Court of Allah and say: `Our father, or our son, or our brother had committed this sin for ow sake; therefore, we may be punished instead of him. At that time everyone will be worried only about himself, and weighed down with the anxiety of somehow saving himself from the consequences of his own acts, not to speak of being ready to take the burden of another's sins on his head," This thing has been expressed in clearer words at several other places in the Qur'an. At one place it has boon said: "To save oneself froth the torment of that Day, the culprit will wish to give his children, his wife, his brother, his kinsfolk, who gave him shelter, and all the people of the earth, in ransom that this device might rescue him." (Al-Ma'arij -11-14) . At another place: `On the Day man shall flee froth his brother and his mother and his father and his wife and his children. Each one of them? an that Day, shall have enough to occupy him so as to make him heedless of others." ('Abasa: 34-37) . 4 That is, "All worldly relationships and bonds of lout and friendship shall be rendered void in the Hereafter. The people will not be judged as groups and parties and families, but every person will have to present himself as an individual and render his own account only. Therefore, no one in the world should commit a wrong for the sake of a relationship or friendship or fraternity, for he will himself have to face alI its consequences, and no one else will become a partner in a matter of his personal responsibility." 5 The following conclusions arc deduced from the details of the cast of .Hadrat Hatib, as mentioned above, and the verses which were sent down in this connection: (1) Whatever the motive of the person, it was in itself an act of espionage, and a very dangerous kind of espionage on a critical occasion. The enemy, who was absolutely unaware, had been informed of the immanent attack from Madinah. Then it was not a case based on suspicion but a letter written by the concerned person himself had been intercepted, after which no other proof of the guilt was required. These were not peace but war time conditions; yet the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) did not place Hadrat Hatib in confinement without giving-him a chance of self-defence: This chance also was not given him in camera but publicly before the people. This makes it manifest that there is no room in Islam for such, laws and regulations under which the ruler may have the right in any case to imprison a person only on the basis of his own knowledge or ' suspicion. Islam also does not recognize the method of trying a person secretly in camera. (2) Hadrat Hatib was not only one of the Emigrants but also a participant in the Battle of Badr, and enjoyed a distinguished place among the Companions. But despite this a serious crime happened to be committed by him and Allah took him to task for this in the Qur'an as is evident from the above verses. In the Hadith too, his case has been narrated in detail and among the commentators also there may be none who has not made a reference to it. These arc some of the evidences which prove that the Companions were not innocent. They also could commit errors because of human weaknesses, and errors happened to be committed by them practically. The teaching of regarding them with respect and reverence that Allah and His Messenger have given, does not at all require that if one of them happened to conunit an error, it should not be mentioned, for evidently, if this were their demand, neither would Allah have mentioned them in His Book, nor the Companions and their successors and the traditionists and the commentators would have related their details in their traditions and books. (3) The view that Hadrat `Umar expressed in the case of Hadrat Hatib concerned the apparent aspect of the act. His reasoning was that the act was clearly in the nature of treachery to Allah and His Messenger and the Muslims; therefore, Hatib was a hypocrite and deserved to be put to death. But the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) rejected his viewpoint and explained the viewpoint of the Islamic Shari'ah, saying: "Decision should not be given only on the outward form of the act but it should also be seen what evidence is given by the past lift and general character of the person, who happens to commit the act and the circumstances under which he commits it. The act, no doubt, smacked of espionage, but did the attitude of the person concerned towards Islam and the followers of Islam until then indicate that he could do such a thing with the intention of treachery to AIlah and His Messenger and the Muslims? He was one of those who had emigrated for the sake of the Faith. Could he have made such a sacrifice without sincerity? He fought in a critical battle like Badr for the sake of his Faith when the Muslims were facing an enemy much better equipped and three times their number, Could the sincerity of such a person be doubted? Or, could it be believed that he had the slightest inclination towards the Quraish? He was telling the plain truth that his family at Makkah did not enjoy the protection of any tribe or clan, which the families of the other Emigrants enjoyed; therefore, he acted thus during war time only in order to safeguard his children from the persecution of the disbelievers. The facts confirmed that he did not really belong to any tribe at Makkah and this too was known that his family members were still back at Makkah. Therefore, there was no reason why his statement should be taken as false and the opinion formed that his actual motive was not this but the intention of treachery. No doubt, for a sincere Muslim even with a good intention it was not lawful that he should inform the enemy of the military plans of the Muslims only for the sake of his personal interests, yet there is a great difference between the error of a sincere Muslim and the treachery of a hypocrite. Both cannot be awarded the same punishment only on the basis of the similarity between their acts. This was the Holy Prophet's decision in this case, and Allah confirmed it in the verses of Surah AIMumtahinah. A careful study of the above three verses will show that in these Allah has certainly reprimanded Hatib, but it is a kind of a reprimand administered to a believer and not the one administered to a hypocrite. Moreover, no penalty, or physical punishment was awarded to him, but he was administered a severe rebuke publicly and lot off, which meant that in a Muslim society even a blot on the honour of a guilty believer and his falling into disrepute also was a very severe punishment. (4) About the great merit of tile Companions who fought at Badr, the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) said: You may not know Allah might have looked favourably at tilt people of Badr and said: 'Do as you please, I have forgiven you'." This does not moan that the Companions of Badr were forgiven each and . every sin and they were at liberty to commit whatever sin and crime they pleased, for forgiveness had already been guaranteed to them This was neither meant by the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) nor the Companions ever understood it in this meaning, nor any Canpartion of Badr after hearing this good news ever thought that he was free to commit any sin, nor ever any rule was made on the basis of this in the Islamic Shari'ah that if a Companion of Badr happened to commit a sin, he should not be given ally punishment for it. As a matter of fact, if one considers the circumstances under which this was said and the words that the Holy Prophet used on this occasion carefully, one can clearly understand the meaning to be this: "It would not be anything impossible if in view of the great and meritorious services that the Companions rendered at Badr out of sincerity and devotion and at the very risk of their lives for the sake of Allah and His Religion, Allah might have forgiven all their former and latter sins mercifully. Therefore, you should not suspect such a Companion of treachery and hypocrisy, and should accept the excuse that he himself is presenting for his crime." (5) From the Qur'an and the Holy Prophet's sayings it also becomes evident that a Muslim's being involved in espionage for the disbelievers by itself is not a sufficient basis for the conclusion that he has become an apostate, or is devoid of the Faith, or is a hypocrite. For reaching such a conclusion if there arc some other circumstances and evidences, it would be a different thing; otherwise by itself this act is only a crime, not a sigin of disbelief. (6) From these verses of the Qur'an it also becomes evident that for a Muslim it is in no case permissible that he should spy for the disbelievers, no matter how gravely his own life and property, or that of his near and dear ones, might be endangered. (7) When Hadrat `Umar asked for the Holy Prophet's permission to put Hadrat Hatib to death for the crime of espionage, the Holy Prophet did not say that the crime was not punishable with -death, but declined permission on the ground that Hatib's being a Companion of Badr was an express proof of his being sincere, and the statement given by him was correct that be had acted thus not out of any good wishes for the enemies but for the sake of safeguarding his family from any possible persecution to death. From this one section of the jurists has argued that the general law in respect of a Muslim spy is that he should be put to death, unless there are very weighty-reasons for awarding him a lesser punishment or a mere reprimand. But the jurists have disputed this question. Imam Shafe'i and some other jurists hold the view that the Muslim spy is punishable, but not with death. Imam Abu Hanifah and Imam Auza'i maintain that he will be subjected to corporal punishment and long imprisonment. ImamMalik says that he will be put to death, but the Malik; jurists hold different views on this question. Ash'hab says that the Muslim ruler has vast powers in this matter. He can exercise his judgement keeping in view the circumstances of the crime and the culprit and award him any punishment. A saying of Imam Malik and Ibn al-Qasim also is to the same effect. Ibn al Majishun and `Abdul Malik bin Habib say that if the culprit is a habitual spy, he should be put to death. Ibn Wahb says that the punishment of the spy is death, but if he repents of spying, he may be pardoned. Sahnun says that one cannot know whether his repentance is genuine or deceptive; therefore, he should be put to death. There is a saying of Ibn al-Qasim also in support of this. And Asbagh says that the belligerent spy is punishable with death, but the Muslim or dhimmi spy should be given corporal punishment instead of the death sentence, unless he be helping the enemies openly as against the Muslims. (Ibn al-`Arabi, Ahkam al-Qur'an; 'Umdat al-Qari; Fath al-Bari.) (8) The Hadith that has been cited above also permits that for the investigation of the crime not only the male but the female accused also can be stripped if so required. Although Hadrat `Ali, Hadrat Zubair and Hadrat Miqdad had not stripped the woman, yet they had threatened her that if she did not produce the letter, thay would strip and search her.. Obviously, if it were not lawful, the three illustrious Companions could not have threatened her thus. And one can understand that they must have reported the story of their expedition on their return to the Holy Prophet (upon whom be Allah s peace) . Had he expressed his displeasure, it must have been reported. That is why the jurists have held it as permissible. ('Umdat al-Qari) .

سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :3 یہ اشارہ ہے حضرت حاطب کی طرف انہوں نے اپنی ماں ، اپنے بھائی ، اور اپنی اولاد کو جنگ کے موقع پر دشمنوں کی ایذا سے بچانے کے لیے یہ کام کیا تھا ۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ تم نے جن کی خاطر اتنے بڑے قصور کا ارتکاب کر ڈالا وہ قیامت کے روز تمہیں بچانے کے لیے نہیں آئیں گے ۔ کسی کی یہ ہمت نہیں ہو گی کہ خدا کی عدالت میں آگے بڑھ کر یہ کہے کہ ہمارے باپ یا ہمارے بیٹے یا ہمارے بھائی نے ہماری خاطر یہ گناہ کیا تھا اس لیے اس کے بدلے کی سزا ہمیں دے دی جائے ۔ اس وقت ہر ایک کو اپنی ہی پڑی ہو گی ، اپنے اعمال ہی کے خمیازے سے بچنے کا سوال ہر شخص کے لیے بلائے جان بن رہا ہو گا ، کجا کہ کوئی کسی دوسرے کے حصے کا خمیازہ بھی اپنے اوپر لینے کے لیے تیار ہو ۔ یہی بات ہے جو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر زیادہ صریح الفاظ میں فرمائی گئی ہے ۔ ایک جگہ فرمایا اس روز مجرم یہ چاہے گا کہ اپنی اولاد ، اپنی بیوی ، اپنے بھائی ، اپنی حمایت کرنے والے خاندان اور دنیا بھر کے لوگوں کو بھی اگر فدیے میں دے کر عذاب سے چھوٹ سکتا ہو تو انہیں بھینٹ چڑھا دے اور خود چھوٹ جائے ( المعارج ، آیات 11 ۔ 14 ) ۔ دوسری جگہ فرمایا اس روز آدمی اپنے بھائی ، اپنی ماں ، اپنے باپ ، اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا ۔ ہر ایک اپنے ہی حال میں ایسا گرفتار ہو گا جس میں اسے کسی کا ہوش نہ ہو گا ( عبس ، 34 ۔ 37 ) ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :4 یعنی دنیا کے تمام رشتے ، تعلقات ، اور رابطے وہاں توڑ دیئے جائیں گے ۔ جتھوں اور پارٹیوں اور خاندانوں کی شکل میں لوگوں کا محاسبہ نہ ہو گا ، بلکہ ایک ایک فرد اپنی ذاتی حیثیت میں پیش ہو گا ، اور ہر ایک کو اپنا ہی حساب دینا پڑے گا ۔ اس لیے دنیا میں کسی شخص کو بھی کسی قرابت یا دوستی یا جتھہ بندی کی خاطر کوئی ناجائز کام نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ اپنے کیے کی سزا اس کو خود ہی بھگتنی ہوگی ، اس کی ذاتی ذمہ داری میں کوئی دوسرا شریک نہ ہوگا ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :5 حضرت حاطب کے اس مقدمہ سے جس کی تفصیل اوپر ہم نے نقل کی ہے ، اور ان آیات سے جو اس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ، حسب ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں : ( 1 ) قطع نظر اس سے کہ کرنے والے نے کس نیت سے کیا ، بجائے خود یہ فعل صریحاً ایک جاسوسی کا فعل تھا ، اور جاسوسی بھی بڑے نازک موقع پر سخت خطرناک نوعیت کی تھی کہ حملے سے پہلے بے خبر دشمن کو خبردار کیا گیا تھا ۔ پھر معاملہ شبہ کا بھی نہ تھا بلکہ ملزم کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا خط پکڑ لیا گیا تھا جس کے بعد کسی ثبوت کی حاجت نہ تھی ۔ حالات بھی زمانہ امن کے نہیں ، زمانہ جنگ کے تھے ۔ مگر اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب کو صفائی کا موقع دیے بغیر نظر بند نہیں کر دیا ۔ اور صفائی کا موقع بھی ان کا بند کمرے میں نہیں بلکہ کھلی عدالت میں برسر عام دیا ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ایسے قوانین و قواعد و ضوابط کی کوئی گنجائش نہیں ہے جن کی رو سے کسی حالت میں حکام کو یہ حق پہنچتا ہو کہ کسی شخص کو محض اپنے علم یا شبہ کی بنا پر قید کر دیں ۔ اور بند کمرے میں خفیہ طریقے پر مقدمہ چلانے کا طریقہ بھی اسلام میں نہیں ہے ۔ ( 2 ) حضرت حاطب نہ صرف مہاجرین میں سے تھے بلکہ اہل بدر میں شامل تھے جنہیں صحابہ کے اندر بھی ایک امتیازی مقام حاصل تھا ۔ مگر اس کے باوجود ان سے اتنا بڑا جرم سرزد ہو گیا ، اور اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس شدت کے ساتھ گرفت فرمائی جسے اوپر کی آیات میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ احادیث میں بھی ان کا قصہ پوری تفصیل کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اور مفسرین میں سے بھی شاید ہی کوئی ہو جس نے اس کا ذکر نہ کیا ہو ۔ یہ من جملہ ان بہت سے شواہد کے ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ بے خطا نہیں تھے ، ان سے بھی بشری کمزوریوں کی بنا پر خطائیں سرزد ہو سکتی تھیں اور عملاً ہوئیں ، اور ان کے احترام کی جو تعلیم اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے کم از کم اس کا تقاضا ہرگز یہ نہیں ہے کہ ان میں سے اگر کوئی غلط کام سرزد ہوا تو اس کا ذکر نہ کیا جائے ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر اس کا تقاضا یہ ہوتا تو نہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں ان کا ذکر کرتا اور نہ صحابہ کرام اور تابعین اور محدثین و مفسرین اپنی روایات میں ان کی تفصیلات بیان کرتے ۔ ( 3 ) حضرت حاطب کے مقدمہ میں حضرت عمر نے جس رائے کا اظہار کیا وہ ان کے فعل کی ظاہری صورت کے لحاظ سے تھا ۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ فعل ایسا ہے جو صریحاً اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی نوعیت رکھتا ہے ، اس لیے حاطب منافق اور واجب القتل ہیں ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس نقطہ نظر کو رد فرما دیا اور اسلامی شریعت کا اصل نقطہ نظر یہ بتایا کہ محض فعل کی ظاہری شکل پر ہی فیصلہ نہیں کر دینا چاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جس شخص سے وہ صادر ہوا ہے اس کی پچھلی زندگی اور مجموعی سیرت کیا شہادت دیتی ہے اور قرائن کس بات پر دلالت کرتے ہیں ۔ فعل کی شکل بلاشبہ جاسوسی کی ہے ۔ مگر کیا اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ فاعل کا آج تک کا رویہ یہی بتا رہا ہے کہ یہ شخص یہ کام اللہ اور رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی نیت سے کر سکتا تھا ؟ وہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے ایمان کی خاطر ہجرت کی ۔ کیا خلوص کے بغیر وہ اتنی بڑی قربانی کر سکتا تھا ؟ یا اس کے بارے میں یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ اس کے دل میں کفار قریش کی طرف کوئی ادنیٰ سا میلان بھی موجود ہے؟ وہ اپنے فعل کی صاف صاف وجہ یہ بتا رہا ہے کہ مکہ میں اس کے بال بچوں کو خاندان اور قبیلے کا وہ تحفظ حاصل نہیں ہے جو دوسرے مہاجرین کو حاصل ہے ، اس لیے اس نے ان کو جنگ کے موقع پر کفار کی ایذا رسانی سے بچانے کی خاطر یہ کام کیا ہے ۔ حقائق اس کی تائید کرتے ہیں کہ فی الواقع مکہ میں اس کا کوئی قبیلہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ واقعی اس کے بال بچے وہاں موجود ہیں ۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کے اس بیان کو جھوٹا سمجھا جائے اور یہ رائے قائم کی جائے کہ اس کے اس فعل کا اصل محرک یہ نہ تھا بلکہ خیانت ہی کا ارادہ اس کے اندر پایا جاتا تھا ۔ بلاشبہ ایک مخلص مسلمان کے لیے نیک نیتی سے بھی یہ حرکت جائز نہیں ہے کہ وہ محض اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دشمنوں کو مسلمانوں کے جنگی منصوبوں کی خبر بہم پہنچائے ، لیکن مخلص کی غلطی اور منافق کی غداری میں بڑا فرق ہے ۔ محض نوعیت فعل کی بنا پر دونوں کی ایک ہی سزا نہیں ہو سکتی ۔ یہ تھا اس مقدمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ، اور اللہ تعالیٰ نے سورہ ممتحنہ کی ان آیات میں اس کی تائید فرمائی ۔ اوپر کی تینوں آیات کو غور سے پڑھیے تو صاف محسوس ہوگا کہ ان میں حضرت حاطب پر عتاب تو ضرور فرمایا گیا ہے ، مگر یہ عتاب اس طرز کا ہے جو ایک مومن کے لیے ہوتا ہے نہ کہ وہ جو ایک منافق کے لیے ہوا کرتا ہے ۔ مزید برآں ان کے لیے کوئی مالی یا جسمانی سزا تجویز نہیں کی گئی ہے بلکہ علانیہ سخت زجر و توبیخ کر کے چھوڑ دیا گیا ہے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ مسلم معاشرے میں ایک خطا کار مومن کی عزت کو بٹّہ لگ جانا اور اس کے اعتماد پر حرف آجانا بھی اس کے لیے ایک بڑی سزا ہے ۔ ( 4 ) ۔ بدری صحابہ کی فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ تمہیں کیا خبر ، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو ملاحظہ فرما کر کہہ دیا ہو کہ تم خواہ کچھ بھی کرو ، میں نے تم کو معاف کر دیا ۔ اس کے معنی یہ نہ تھے کہ بدری صحابیوں کو سات خون معاف ہیں ، اور انہیں کھلی چھٹی ہے کہ دنیا میں جو گناہ اور جو جرم بھی کرنا چاہیں کرتے رہیں ، مغفرت کی انکو پیشگی ضمانت حاصل ہے ۔ یہ مطلب نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ، نہ صحابہ نے کبھی اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ، نہ کسی بدری صحابی نے یہ بشارت سن کر اپنے آپ کو ہر گناہ کرنے کے لیے آزاد سمجھا ، اور نہ اسلامی شریعت میں اس کی بنا پر ایسا کوئی قاعدہ بنایا گیا کہ بدری صحابی سے اگر کوئی جرم سرزد ہو تو اسے کوئی سزا نہ دی جائے ۔ دراصل جس موقع و محل میں یہ بات فرمائی گئی تھی اس پر ، اور خود ان الفاظ پر جو آپ نے استعمال فرمائے ہیں ، اگر غور کیا جائے تو اس ارشاد کا صاف مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اہل بدر نے اللہ اور اس کے دین کے لیے اخلاص اور سرفروشی و جانبازی کا اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیے ہوں تو یہ بھی اس خدمت اور اللہ کے کرم کو دیکھتے ہوئے کچھ بعید از امکان نہیں ہے ، لہٰذا ایک بدری پر خیانت اور منافقت کا شبہ نہ کرو ، اور اپنے جرم کا جو سبب وہ خود بیان کر رہا ہے اسے قبول کر لو ۔ ( 5 ) قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ کسی مسلمان کا کفار کے لیے جاسوسی کر بیٹھنا بجائے خود اس بات کا فیصلہ کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ مرتد ہو گیا ہے ، یا ایمان سے خارج ہے ، یا منافق ہے ۔ ایسا فیصلہ کرنے کے لیے اگر کچھ دوسرے قرائن و شواہد موجود ہوں تو بات الگ ہے ، ورنہ اپنی جگہ یہ فعل صرف ایک جرم ہے ، کفر نہیں ہے ۔ ( 6 ) ۔ قرآن مجید کی ان آیات سے یہ بات بھی واضح ہے کہ مسلمان کے لیے کفار کی جاسوسی کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے ، خواہ اس کی یا اس کے قریب ترین عزیزوں کی جان و مال کو کیسا ہی خطرہ لاحق ہو ۔ ( 7 ) ۔ حضرت عمر نے جب حضرت حاطب کو جاسوسی کے جرم میں قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو حضور نے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ یہ جرم مستوجب قتل نہیں ہے ، بلکہ اجازت دینے سے انکار اس بنا پر کیا کہ حاطب کا بدری ہونا ان کے مخلص ہونے کا صریح ثبوت ہے اور ان کا یہ بیان صحیح ہے کہ انہوں نے دشمنوں کی خیر خواہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے بال بچوں کو ہلاکت کے خطرے سے بچانے کے لیے یہ کام کیا تھا ۔ اس سے فقہاء کے ایک گروہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ مسلمان جاسوس کے لیے عام قانون یہی ہے کہ اسے قتل کیا جائے الّا یہ کہ بہت وزنی وجوہ اسے کم تر سزا دینے یا محض ملامت کر کے چھوڑ دینے کے لیے موجود ہوں ۔ مگر فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے ۔ امام شافعی اور بعض دوسرے فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان جاسوس کو تعزیر دی جائے گی مگر اس کا قتل جائز نہیں ہے ۔ امام ابو حنیفہ اور امام اوزاعی کہتے ہیں کہ اسے جسمانی عقوبت اور طویل قید کی سزا دی جائے گی ۔ امام مالک کہتے ہیں کہ اسے قتل کیا جائے گا ۔ لیکن مالکی فقہاء کے اقوال اس مسئلے میں مختلف ہیں ۔ اَشہَب کہتے ہیں کہ امام کو اس معاملہ میں وسیع اختیارات حاصل ہیں ، جرم اور مجرم کے حالات کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے اجتہاد سے کوئی سزا دے سکتا ہے ۔ ایک قول امام مالک اور ابن القاسم کا بھی یہی ہے ۔ ابن الماجشون اور عبدالملک بن حبیب کہتے ہیں کہ اگر مجرم نے جاسوسی کی عادت ہی بنا لی ہو تو اسے قتل کیا جائے ۔ ابن وہب کہتے ہیں کہ جاسوس کی سزا تو قتل ہی ہے مگر وہ اس فعل سے تائب ہو جائے تو اسے معاف کیا جا سکتا ہے ۔ سَحنُون کہتے ہیں کہ اس کی توبہ صحیح ہے یا محض فریب ، اس کا علم آخر کیسے ہو سکتا ہے؟ اس لیے اسے قتل ہی کیا جانا چاہیے ۔ ابن القاسم کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے ۔ اور اصبغ کہتے ہیں کہ حربی جاسوس کی سزا قتل ہے ، مگر مسلم اور ذمی جاسوس کو قتل کے بجائے عقوبت دی جائے گی ، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں دشمنوں کی کھلی کھلی مدد کر رہا ہو ۔ ( احکام القرآن ، ابن العربی ۔ عمدۃ القاری ، فتح الباری ) ۔ ( 8 ) حدیث مذکور سے اس امر کا جواز بھی نکلتا ہے کہ تفتیش جرم کے لیے اگر ضرورت پڑے تو ملزم مرد ہی نہیں ، عورت کے کپڑے بھی اتارے جاسکتے ہیں ۔ حضرت علی ، حضرت زبیر اور حضرت مقداد ( رضی اللہ عنہم ) نے اگرچہ اس عورت کو برہنہ نہیں کیا تھا ، لیکن انہوں نے اسے دھمکی دی تھی کہ وہ خط حوالے نہ کرے گی تو وہ اسے برہنہ کر کے اس کی تلاشی لیں گے ۔ ظاہر ہے اگر یہ فعل جائز نہ ہوتا تو یہ تین جلیل القدر صحابی اس کی دھمکی نہیں دے سکتے تھے ۔ اور قیاس یہ کہتا ہے کہ انہوں نے ضرور واپس جاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی مہم کی روداد سنائی ہوگی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہوتا تو وہ ضرور منقول ہوتا ۔ اسی لیے فقہاء نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے ( عمدۃ القاری ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(60:3) لن تنفعکم۔ مضارع منفی تاکید بلن واحد مؤنث غائب۔ نفع (باب فتح) مصدر۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ وہ تمہارے کام نہیں آئے گی۔ یا نہیں آتی ہے ۔ وہ تم کو نفع نہیں دیتی یا نہیں دے گی۔ ارحامکم : ارحام جمع رحم کی۔ رحم عورت کے پیٹ کا وہ حصہ جس میں بچہ پیدا ہوتا ہے مجازا قرابت کے معنی میں بھی مستعمل ہوتا ہے کیونکہ اہل قرابت ایک ہی رحم سے پیدا ہوتے ہیں۔ مضاف کم ضمیر جمع مذکر حاضر مضاف الیہ۔ ارحامکم : تمہاری قرابتیں۔ یوم القیمۃ : مجاف مضاف الیہ۔ یوم منصوب بوجہ مفعول فیہ ہونے کے۔ قیامت کے دن۔ یفصل۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ فصل (باب ضرب) مصدر۔ وہ فیصلہ کر دے گا۔ یعنی قیامت کے دن تمہارا فیصلہ کر دے گا۔ تم کو الگ الگ کر دے گا۔ مؤمنوں کو جنت میں اور مشرکوں کو دوزخ میں ڈال دے گا۔ پھر آج اللہ اور اس کے رسول کے حق کو ترک کرکے تم مشرکوں کے دوست کیوں بنتے ہو۔ ما تعملوان : ما موصولہ۔ تعملون صلہ ۔ جو کچھ تم کرتے ہو۔ بصیر : بصر (باب کرم و سمع) مصدر۔ ب کے صلہ کے ساتھ ۔ بمعنی دیکھانا۔ چاننا۔ بروز فعیل بمنعی فاعل دیکھنے والا۔ جاننے والا

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی تم اپنے ایمان کی بدولت جنت میں جائو گے اور وہ اپنے کفر کی بدلوت دوزخ میں تمہارا اور ان کا کیسا ؟ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تمہارا اور ان کا فیصلہ کر دیگا لہٰذا یہ کافر رشتہ دار تمہارے کسی کام نہ آئیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یہ آیتیں ایک قصہ کے متعلق ہیں اور وہ قصہ یہ ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے لئے جہاد کرنے کا ارادہ کیا تو حاطب بن ابی بلتعہ نے جو کہ اہل بدر سے ہیں اور رہنے والے یمن کے ہیں اور مکہ میں آرہے تھے اور ان کے بھائی اور والدہ اور اولاد واہل عیال و اموال اب بھی مکہ میں تھے اہل مکہ کے نام ایک خط لکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر چڑھائی کرنے والے ہیں اور یہ خط ایک عورت کو دیدیا کہ مکہ والوں پہنچا دے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی سے یہ بات معلوم ہوگئی، آپ نے حضرت علی اور چند صحابہ کو حکم دیا کہ فلاں جگہ وہ عورت ملے گی اس سے وہ خط لے آو، یہ گئے اور وہ عورت ملی، اور ان کے دھمکانے سے وہ خط اس نے دیا اور یہ لائے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاطب سے پوچھا، انہوں نے کہا کہ واقعی خط میرا ہی لکھا ہوا ہے لیکن خدا نہ کرے میں نے مخالفت اسلام کے سبب یہ خط نہیں لکھا، بلکہ میں جانتا تھا کہ اسلام کو اس سے کوئی ضرر نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کو ضرور غالب کرنے والا ہے، اور آپ کو ضرور فتح ہوگی، اور میرا نفع ہوجاوے گا کہ اہل مکہ اس کا احسان مان کر میرے اہل و عیال و اموال کی حفاظت کریں گے اور ان کو ایذا و ضرر نہ پہنچاویں گے۔ حضرت عمر کو غصہ آیا اور آپ سے ان کی گردن مارنے کی اجازت چاہی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ اہل بدر سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کے گناہ معاف فرمادیئے ہیں، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لن تنفعکم .................... بصیر (٠٦ : ٣) ” قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں کسی کام آئیں گی نہ تمہاری اولاد۔ اس روز اللہ تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا اور وہی تمہارے اعمال کا دیکھنے والا ہے “۔ مومن نیکی کرتا ہے اور آخرت کام اجر چاہتا ہے۔ وہ دنیا میں بوتا ہے اور آخرت میں کاٹے گا۔ اور اس پر یہ بات اثرانداز ہوتی ہے کہ جب آخرت میں ایمان اور عقیدے کا تعلق نہ ہوگا تو رشتہ داری کا تعلق بھی کٹ جائے گا ، تو اس طرح اس دنیا کی مختصر زندگی میں اس کے دل سے اس رشتہ داری اور قرابت داری کے تعلقات کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ اور وہ ایسے تعلق کو اہمیت دینے لگتا ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں مفیدہوتا ہے اور قائم رہتا ہے اور وہ نظریاتی اور ایمانی تعلق ہوتا ہے۔ لن تنفعکم .................... اولادکم (٠ : ٣) ” قیامت کے دن تمہاری رشتہ داریاں اور اولاد تمہارے کسی کام نہ آئے گی “۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی طرف تم لپکتے ہو اور تمہارے دل ان سے متعلق ہیں اور یہ تعلقات تمہیں مجبور کرتے ہیں کہ تم اپنے دشمنوں کے ساتھ دوستی کرو ، تاکہ تم ان تعلقات کو بچا سکو۔ جب کہ حضرت حاطب نے اپنی اولاد اور مال کی خاطر یہ کیا۔ جس طرحدوسروں کے دل اپنی اولاد اور مال کے لئے جوش مارتے ہیں ، تو یہ چیزیں بھی تمہیں کوئی نفع نہ دیں گی۔ قیامت کے دن تو یفصل بینکم ” اس روز اللہ تمہارے درمیان جدائی کردے گا “۔ کیونکہ رشتہ داری اور قرابت دار کی رسی اس دن ٹوٹ جائے گی ، اس دن صرف اللہ کی رسی کام کرے گی۔ واللہ ............ بصیر (٠٦ : ٣) ” اور وہی تمہارے اعمال کا دیکھنے والا ہے “۔ وہ ظاہر ، باطن اور نیت تک سے واقف ہے۔ اب تیسرا پیراگراف آتا ہے۔ اس میں امت مسلمہ کو اس امت کے سرچشمے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سے جایا جاتا ہے۔ کیونکہ حضرت ابراہیم سے ادھر ایک ہی قافلہ ہے ، اور ایک ہی امت ہے ، تاریخ کی طویل وادیوں میں یہ چلا آرہا ہے۔ اس قافلے کا سامان ، سامان ایمان ہے۔ یہ قافلہ ہر قسم کے تعلقات سے برات کرتا ہے ، ماسوائے تعلقات عقیدہ کے۔ یہی امت ہے جو حضرت ابراہیم سے چلی۔ یہ ابو الانبیاء تھے اور دین حنیف کے داعی۔ وہ قابل تقلید ہیں ، نہ صرف عقیدے میں ، بلکہ سیرت اور انداز تبلیغ میں بھی۔ ان کو بھی یہی قرابت داری اور رشتہ داری کا مسئلہ درپیش تھا۔ چناچہ حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھی مومنین ان رشتہ داریوں اور علاقوں کو چھوڑ کر چلے گئے اور انہوں نے صرف اپنا عقیدہ اپنا لیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ” لن تنفعکم “ جن رشتہ داروں اور جس اولاد کی خاطر تم مشرکین پر احسانات کر رہے ہو قیامت کے دن وہ تمہارے کام نہیں آسکیں گے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمہاری آل و اولاد اور خویش و اقارب کے درمیان جدائی ڈال دے گا۔ اگر اولاد اقارب کافر ہوں تو جدائی کا حکم ظاہر ہے اور اگر مسلمان ہوں تو ہول محشرک کی وجہ سے ہر ایک اپنے رشتہ داروں سے جدا ہوگا۔ جیسا کہ ارشاد ہے۔ ” یوم یفر المء من اخیہ وامہ وابیہ و صاحبتہ وبنیہ (عبس) ای یفرق اللہ تعالیٰ بینکم بما یکون من الھول الموجب لفرار کل منکم من الاخر (روح ج 28 ص 69) ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے اور تمہیں اعمال کی پوری جزا و سزا دے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) قیامت کے دن تمہاری رشتہ داریاں اور قرابت داریاں تم کو کچھ نفع نہیں دے سکتیں اور نہ تمہاری اولاد تمہارے کچھ کام آسکتی ہے اللہ تعالیٰ تمہارے مابین فیصلہ فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ ان تمام اعمال کو جو تم کررہے ہو دیکھتا ہے۔ یعنی قرابت داری اور اولاد وغیرہ کی وجہ سے اس قسم کی کمزوریاں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ اسی کو فرمایا کہ یہ چیزیں نفع دینے والی نہیں ہیں قیامت کے دن ان میں سے کوئی بھی چیز کام آنے والی نہیں اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان فیصلہ فرمادے گا مومن جنت میں ہوں گے اور یہ منکروں کو جہنم میں بھیج دیا جائے گا لہٰذا کام آنے اور نفع دینے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ تمہارے تمام اعمال کو اللہ تعالیٰ دیکھنے والا ہے پس ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حق کو مقدم سمجھو اور کسی دوسرے کے حق کو اللہ تعالیٰ کے حق پر ترجیح نہ دو ۔ آگے ترغیب وتحریص کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا۔