Surat ul Mumtahina

Surah: 60

Verse: 5

سورة الممتحنة

رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَۃً لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ اغۡفِرۡ لَنَا رَبَّنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۵﴾

Our Lord, make us not [objects of] torment for the disbelievers and forgive us, our Lord. Indeed, it is You who is the Exalted in Might, the Wise."

اے ہمارے رب! تو ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال اور اے ہمارے پالنے والے ہماری خطاؤں کو بخش دے ، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا ... Our Lord! Make us not a trial for the disbelievers, Mujahid said, "It means, `Do not punish us by their hands, nor with a punishment from You.' Or they will say, `Had these people been following the truth, the torment would not have struck them'." Ad-Dahhak said something similar. Qatadah said, "Do not give the disbelievers victory over us, thus subjecting us to trials by their hands. Surely, if You do so, they would then think that they were given victory over us because they are on the truth." This is the meaning that Ibn Jarir preferred. Ali bin Abi Talhah reported from Ibn `Abbas: "Do not give them dominance over us, lest we suffer trials by their hands." Allah's statement, ... وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ and forgive us, Our Lord! Verily, You, only You, are the Almighty, the All-Wise. means, `cover our mistakes from being exposed to other than You, and forgive us for what (sin) is between us and You.' أَنتَ الْعَزِيزُ (Verily, You, only You, are the Almighty), `and those who seek refuge in Your majesty are never dealt with unjustly,' الْحَكِيمُ (the All-Wise), `in Your statements, actions, legislation and decrees.' Allah the Exalted said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یعنی کافروں کو ہم پر غلبہ وتسلط عطا نہ فرما اس طرح وہ سمجھیں گے کہ وہ حق پر ہیں اور یوں ہم ان کے لیے فتنے کا باعث بن جائیں گے یا یہ مطلب ہے کہ ان کے ہاتھوں یا اپنی طرف سے ہمیں کسی سزا سے دو چار نہ کرنا اس طرح بھی ہمارا وجود ان کے لیے فتنہ بن جائے گا وہ کہیں گے کہ اگر یہ حق پر ہوتے تو ان کو یہ تکلیف کیوں پہنچتی ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] یہاں فتنہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جو بڑا وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ فتنہ کے معنی آزمائش، دکھ، رنج، رسوائی، دیوانگی، عبرت، عذاب، مرض سب کچھ آسکتا ہے اور یہ لفظ عموماً برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس جملہ یا دعا کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک تو ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر خدانخواستہ کافر ہم پر غالب آگئے تو ہمیں ہمارے دین پر قائم نہ رہنے دیں گے۔ اور پھر سے کفر و شرک میں مبتلا کرنے کا باعث بن جائیں گے۔ نیز وہ یہ سمجھیں گے کہ ہم ہی سچے دین پر ہیں۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ایسے اخلاق فاضلہ اور اعمال صالحہ کی توفیق دے کہ کافر لوگ ہماری طرف انگشت نمائی نہ کرسکیں اور طعنے نہ دے سکیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا : اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ یونس (٨٥) کی تفسیر۔ ٢۔ وَاغْفِرْلَنَا رَبَّنَا۔۔۔۔: پہلی تمام دعائیں حرف عطف کے بغیر ہیں اور یہ واؤ عطف کے ساتھ ہے ، کیونکہ پہلی تمام دعاؤں میں دنیوی زندگی میں اپنے دین کی اصلاح اور اس پر استقامت مانگی گئی ہے اور اس میں اخروی زندگی کی اصلاح کی درخواست ہے ۔ دونوں کے درمیان مغایرت کی وجہ سے درمیان میں واؤ عطف لائی گئی ہے ۔ ابن عاشور) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا۝ ٠ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝ ٥ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تمام باتوں میں تقلید کرنے کا حکم دیا۔ البتہ کافر بات کے لئے بخشش کی دعا مانگنے کی بات کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا۔ قول باری ہے۔ (ربنا لا تجعلنا فتنۃ للذین کفروا۔ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں کافروں کا تختہ مشق نہ بنا) قتادہ کا قول ہے : ” یعنی انہیں ہم پر غالب کرکے ، اور پھر وہ یہ سمجھ لیں کہ وہ حق پر ہیں۔ “ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے۔ ان کو ہم پر مسلط نہ کر کہ پھر وہ ہمیں اپنا تختہ مشق بنالیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ہمیں کفار مکہ کے لیے سخت مشق نہ بنایے کہ وہ ہم پر غلبہ کر کے کہنے لگیں کہ وہ حق پر ہیں اور ہم باطل پر ہیں جس کی وجہ سے ان کی ہم پر اور دلیری ہوجائے اور ہمارے گناہوں کو معاف فرما دیجیے آپ زبردست حکمت والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا } ” پروردگار ! تو ہمیں کافروں کے لیے تختہ امتحان نہ بنا دینا “ اے ہمارے پروردگار ! ایسا نہ ہو کہ تو کافروں کو ہمارے ذریعے سے آزمائے۔ ایسا نہ ہو کہ تو انہیں آزمانے کے لیے ہم پر ظلم کرنے کی چھوٹ دے دے ۔ کسی کے لیے فتنہ یا تختہ مشق بننے کے مفہوم کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکی دور میں مسلمانوں اور مشرکین کی مثال سے سمجھنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ مشرکین مکہ کی رسی دراز کر کے انہیں آزمانا چاہتا تھا کہ ٹھیک ہے تم میرے بندوں پر جتنا ظلم کرسکتے ہو کرلو ! میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم کس حد تک جاتے ہو ! لیکن مشرکین کی اس آزمائش میں تختہ ستم تو ظاہر ہے مسلمان بنے ہوئے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دعا میں اللہ تعالیٰ سے ایسی آزمائش سے بچانے کی درخواست کی گئی ہے۔ { وَاغْفِرْلَـنَا رَبَّنَاج اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ } ” اور تو ہمیں بخش دے ‘ اے ہمارے پروردگار ! یقینا تو ہی زبردست اور حکمت والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8 There are several ways in which the believers can become a cause of trial for the disbelievers, for which every believer should seek Allah's refuge. For example, (1) the disbelievers may gain in upper hand over them and consider it a proof of their being in the right and the believers' being in the wrong; otherwise it could not be that in spite of Allah's good pleasure that they claim to enjoy, the disbelievers would have been able to gain an upper hand over them; (2) the persecution of the believers by the disbelievers may become unbearable with the result that they may yield to them and abandon their Faith and moral values this would subject the believers to public ridicule and would provide the disbelievers with an opportunity w humiliate and debase than and their religion: (3) in spite of being the standard-bearers of the true Faith the believers may lose their moral superiority that should accrue W than as believers. and the people ma! ste the same defects and deficiencies in their character as are commonly found in an unIslamic community: this would give the disbelievers an opportunity to say that the Faith of the believers was in no way superior W their disbelief. (For further details sec E.N. 8.3 of Surah Yunus) .

سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :8 کافروں کے لیے اہل ایمان کے فتنہ بننے کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں جن سے ہر مومن کو خدا کی پناہ مانگنی چاہیے ۔ مثال کے طور پر اس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کافر ان پر غالب آ جائیں اور اپنے غلبہ کو اس بات کی دلیل قرار دیں کہ ہم حق پر ہیں اور اہل ایمان برسر باطل ، ورنہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ان لوگوں کو خدا کی رضا حاصل ہوتی اور پھر بھی ہمیں ان پر غلبہ حاصل ہوتا ۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اہل ایمان پر کافروں کا ظلم و ستم ان کی حد برداشت سے بڑھ جائے اور آخر کار وہ ان سے دب کر اپنے دین و اخلاق کا سودا کرنے پر اتر آئیں ۔ یہ چیز دنیا بھر میں مومنوں کی جگ ہنسائی کی موجب ہوگی اور کافروں کو اس سے دین اور اہل دین کی تذلیل کا موقع ملے گا ۔ تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ دین حق کی نمائندگی کے مقام بلند پر فائز ہونے کے باوجود اہل ایمان اس اخلاقی فضیلت سے محروم رہیں جو اس مقام کے شایان شان ہے ، اور دنیا کو ان کی سیرت و کردار میں بھی وہی عیوب نظر آئیں جو جاہلیت کے معاشرے میں عام طور پر پھیلے ہوئے ہوں ۔ اس سے کافروں کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ اس دین میں آخر وہ کیا خوبی ہے جو اسے ہمارے کفر پر شرف عطا کرتی ہو؟ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 83 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(60:5) ربنا : مناجات کو محکم کرنے اور درخواست رحم میں مزید قوت پیدا کرنے کے لئے ربنا کا دوبارہ ذکر کیا گیا۔ لاتجعلنا۔ فعل نہی واحد مذکر حاضر جعل (باب فتح) مصدر۔ تو ہم کو نہ بنا، تو ہم کو نہ کر۔ فتنۃ۔ ایک کثیر المعانی لفظ ہے۔ فتن کے اصل معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھڑا کھوٹا ہونا معلوم ہوسکے۔ اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن مجید میں ہے یوم ہم علی النار یفتنون (51:13) جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا۔ آیت زیر غور میں اس کے مندرجہ ذیل معانی ہوسکتے ہیں :۔ (1) ہم کو کافروں کے ظلم و ستم کا تختہ مشق نہ بنا۔ (2) کافروں کو ہم پر مسلط نہ کر۔ کہ وہ ہم کو دکھ دے سکیں۔ (3) ہم کو کافروں کا آزمائش کا مقام نہ بنا۔ فتنۃ بوجہ مفعول منصوب ہے۔ اغفرلنا : اغفر واحد مذکر امر معروف۔ غفر (باب ضرب) مصدر۔ تو بخش دے تو معاف کر دے۔ غفر اصل میں ایسے لباس پہنا دینے کو کہتے ہیں جو ہر قسم کی گندگی اور میل سے محفوظ رکھ سکے۔ مغفرت الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو عذاب سے محفوظ رکھے۔ اسی اعتبار سے غفر کا استعمال معاف کردینے اور بخش دینے کے معنی میں ہوتا ہے۔ محاورہ ہے اغفر ثوبک فی الوعائ۔ اپنے کپڑوں کو صندوق میں ڈال کر چھپا دو ۔ العزیز الحکیم : زبردست، حکمت والا۔ (نیز ملاحظہ ہو 59:24)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی ہمیں نیک عمل اور پختہ کردار کی توفیق دے ایسا نہ ہو کہ ہماری بد عملی اور اخلاقی کمزوری کو دیکھ کر یہ کافر ایمان لانے سے باز رہیں اور غلط راہوں پر چلتے رہیں۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کافروں کو ہم پر غلبہ نصیب نہ فرما۔ کیونکہ اس صورت میں وہ یہ سمجھیں گے کہ وہ حق پر ہیں اور ہم باطل پر اور اس طرح وہ ایمان لانے سے باز رہیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی مزید دعائیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان انبیائے میں سر فہرست ہیں جنہوں نے بیک وقت اپنے اہل خانہ اور قوم سے تکلیفیں اٹھانے کے ساتھ ساتھ وقت کے حکمران کے ساتھ مقابلہ کیا اور ان سے اذّیت اٹھائی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنی قوم اور حکمرانوں کے ساتھ کشمکش اتنی شدید ہوئی کہ وہ اور ان کے ساتھی پکار اٹھے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں معاف فرما بیشک تو ہر اعتبار سے غالب اور حکمت رکھنے والا ہے۔ قرآن مجید نے فتنہ کا لفظ کئی معانی میں استعمال کیا ہے۔ یہاں فتنہ کا لفظ چار معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اکثر اہل علم نے یہاں فتنہ کا مفہوم آزمائش لیا ہے۔ مومنوں کا کفار کے لیے فتنہ بننا اہل علم نے درج ذیل صورتوں میں بیان کیا ہے۔ 1 ۔ اے ہمارے رب ! جب تو مشرکین کو دنیا میں عذاب دے تو ہمیں اس عذاب سے محفوظ فرما۔ 2 ۔ ایمانداروں پر کسی اعتبار سے کفار کا غلبہ پانا اور انہیں یہ کہنے کا موقع ملنا اگر ایماندار حق پر ہوتے تو ہمیں ان پر غلبہ حاصل نہ ہوتا یہ مومنوں کے لیے تکلیف دہ آزمائش ہے۔ 3 ۔ کفار کا اہل ایمان پر ظلم اس قدربڑھ جائے کہ ایماندار لوگ ان کے سامنے جھک جائیں اور باقی مسلمانوں کے لیے سبکی کا باعث بن جائیں یہ بہت بڑی آزمائش ہے۔ 4 ۔ مسلمانوں کا اخلاق اس قدر گرجائے کہ وہ جگ ہنسائی کا باعث بن جائیں۔ ان کے کردار کو کفاراسلام کی توہین کا ذریعہ بنالیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا : (فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) (یونس : ٨٥) ” تو انہوں نے کہا ہم نے اللہ پر ہی توکل کیا، اے ہمارے رب ہمیں ظالم لوگوں کے سے بچا۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ کَانَ یَدْعُواللَّہُمَّ احْفَظْنِی بالْإِسْلَامِ قَاءِمًا وَاحْفَظْنِی بالْإِسْلَامِ قَاعِدًا وَاحْفَظْنِی بالْإِسْلَامِ رَاقِدًا وَلَا تُشْمِتْ بِی عَدُوًّا حَاسِدًا ” اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ مِنْ کُلِّ خَیْرٍ خَزَاءِنُہُ بِیَدِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ کُلِّ شَرٍّ خَزَاءِنُہُ بِیَدِکَ.“ ) (رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر : بَابُ جَامِعُ مَا کَانَ یَدْعُو بِہِ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَیَأْمُرُ أَنْ یُدْعَی بِہِ ) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! کھڑے، بیٹھے اور نیند کی حالت میں اسلام کے ساتھ میری حفاظت فرما ! اور میرے مصائب سے میرے حاسد دشمن کو خوش نہ کر۔ اے اللہ ! جو خزانے تیرے پاس ہیں۔ میں آپ سے ان کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور ان کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ لَزِمَ الاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللَّہُ لَہُ مِنْ کُلِّ ہَمٍّ فَرَجًا وَمِنْ کُلِّ ضیقٍ مَخْرَجًا وَرَزَقَہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ) (رواہ ابوداؤد : باب الاستغفار، قال البانی ضعیف) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے استغفار کو لازم پکڑ ا، اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے نجات عطا فرما دیتا ہے اور ہر تنگی سے نکلنے کی جگہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے خیال بھی نہ ہو۔ “ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے سجدوں میں پڑھا کرتے تھے :” اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی ذَنْبِی کُلَّہٗ دِقَّہٗ وَجِلَّہٗ وَأَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ وَعَلَانِیَتَہٗ وَسِرَّہٗ “ اے اللہ میرے چھوٹے اور بڑے پہلے اور بعد والے، علانیہ اور پوشیدہ کیے تمام کے تمام گناہ معاف فرما دے۔ “ (رواہ مسلم : کتاب الصلاۃ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے ہر قسم کی آزمائش سے بچنے کے لیے ایمانداروں کو دعا کرنی چاہیے۔ ٢۔ آدمی کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہیے۔ ٣۔ مسلمان کا عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب ہے اور اس کے ہر حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن توبہ و استغفار کی اہمیت : ١۔ توبہ کرنا مومن کا شیوہ ہے۔ (التوبہ : ١١٢) ٢۔ توبہ کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٢٢) ٣۔ توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ (البقرۃ : ١٦٠) ٤۔ توبہ کرنے والے کا میاب ہوں گے۔ (القصص : ٦٧) ٥۔ توبہ کرنے والوں کے لیے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (المومن : ٧ تا ٩) (الفرقان : ٧٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس قصے کے دوران حضرت ابراہیم کی دعا کا یہ حصہ بھی اہم ہے۔ ربنا لا ........................ کفروا (٠٦ : ٥) ” اے ہمارے رب ہمیں کافروں کے لئے فتنہ نہ بنا دے “ ان کافروں کو ہم پر مسلط نہ کر ، کہ یہ تسلط ان کافروں کے لئے فتنہ ہوجائے ، وہ یہ کہیں کہ اگر مسلمان حق پر ہوتے اور ان کا ایمان ان کو بچا سکتا ، تو ہم ان پر کس طرح غالب ہوجاتے۔ اور یہی شبہات ہر دور میں اہل ایمان کے دلوں میں بھی پیدا ہوتے ہیں ، جب اہل باطل اور اہل کفر اہل ایمان پر غالب ہوجاتے ہیں۔ اور باغی اور سرکشی اہل ایمان پر غالب ہوتے ہیں اور اس میں بھی اللہ کی حکمت ہوتی ہے۔ اور یہ غلبہ ایک وقت کے لئے ہوتا ہے۔ مومن ان ابتلاؤں پر صبر کرتا ہے۔ لیکن ایسے حالات میں بھی اہل ایمان کو دعا کرنا چاہئے کہ وہ ان کو ایسی آزمائشوں میں نہ ڈالے۔ واغفرلنا ربنا (٠ : ٥) ” اے ہمارے رب ، ہمارے قصوروں سے درگزر فرما “۔ یہ دعا حضرت ابراہیم خلیل اللہ کررہے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ کی بندگی کا جو اعلیٰ مقام ہے۔ اس تک پہنچنا مشکل ہے اور اللہ کی نعمتوں اور احسانات کے برابر اللہ کی بندگی کوئی بشر نہیں کرسکتا جو اللہ کی پاکی اور جلالت شان کے برابر ہو۔ اس لئے آپ یہ دعا کرتے ہیں کہ آپ کے بعد آنے والوں کے لئے یہ نمونہ ہو۔ آپ کی دعا ، آپ کا رجوع الی اللہ ، آپ کے استغفار ، آپ کی تعریف رب کا خاتمہ یوں ہے : انک انت .................... الحکیم (٠٦ : ٥) ” بیشک تو ہی زبردست اور دانا ہے “۔ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور تیرے سب کام حکمت پر مبنی ہوتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کے اس طرز عمل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں تمہارے لئے ایک بہترین نمونہ ہے جنہوں نے مشکل ترین حالات میں رجوع الی اللہ کیا اور اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کردیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ﴾ (اے ہمارے رب ہمیں کافروں کے لئے فتنہ نہ بنا دیجئے) یعنی انہیں ہمارے اوپر مسلط نہ کیجئے کہ وہ ہمیں تکلیف پہنچا سکیں۔ ﴿اغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا﴾ (اور ہماری مغفرت فرما دیجئے اے ہمارے رب) ۔ ﴿ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ٠٠٥﴾ (بےشک آپ زبردست ہیں حکمت والے ہیں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) اے ہمارے پروردگار نہ جانچ ہم پر کافروں کو اور ہم کو کافروں کے لئے محل آزمائش نہ بنا اور اے ہمارے پروردگار ہم کو بخش دے اور ہمارے گناہوں کو معاف کردے بلا شبہ تو کمال قوت اور کمال حکمت کا مالک ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ابراہیم (علیہ السلام) نے ہجرت کی پھر اپنی قوم کی طرف منہ نہ کیا تم بھی وہی کرو ایک ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا چاہی تھی بات کے واسطے جب تک معلوم نہ تھا تم کو معلوم ہوچکا تم کافر کی بخشش نہ مانگو نہ جانچ ہم پر کافروں کو یعنی ہم کو کافروں کے واسطے محل آزمائش نہ کر۔ خلاصہ : یہ ہے کہ تم کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کی پیروی کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے ہجرت کی تم بھی ہجرت کر جائو اور اپنے ہم وطن کافروں کی طرف رخ کر کینہ دیکھو۔ البتہ ابراہیم جو اپنے باپ کے حق میں دعا کیا کرتے تھے وہ اجازت سے کیا کرتے تھے جب ان کو معلوم ہوگیا کہ وہ کفر پر مرا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو منع کردیا تو وہ رک گئے اور چونکہ تم کو اپنے رشتہ داروں کے مرنے کا حال معلوم ہے اس لئے تم ان کے لئے استغفار نہ کیا کرو اور یہ جو فرمایا ربنا لا تجعلنا فتنۃ للذین کفروا اس کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کے ظلم وستم کے لئے ہم کو تختہ مشق نہ بنا اور ان کو ایسا غلبہ اور اقتدار نہ دے کہ ہمارے اعلان بیزاری اور بتری سے وہ ہم پر ظلم کرنے لگیں اور ہم پر نئے نئے ستم توڑنے شروع کردیں آپ عزیز بھی ہیں حکیم بھی ہیں اپنی طاقت اور حکمت کی وجہ سے ہم کو ان کے شر سے محفوظ رکھ۔