Surat ul Mumtahina

Surah: 60

Verse: 8

سورة الممتحنة

لَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ ﴿۸﴾

Allah does not forbid you from those who do not fight you because of religion and do not expel you from your homes - from being righteous toward them and acting justly toward them. Indeed, Allah loves those who act justly.

جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالٰی تمہیں نہیں روکتا بلکہ اللہ تعالٰی تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لاَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ ... Allah does not forbid you with those who fought not against you on account of religion nor drove you out of your homes, means, those who did not have a role in your expulsion. Therefore, Allah does not forbid you from being kind to the disbelievers who do not fight you because of the religion, such as women and weak disbelievers, ... أَن تَبَرُّوهُمْ ... to deal kindly, (to be gentle with them), ... وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ... and justly with those, (to be fair with them), ... إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ Verily, Allah loves those who deal with equity. Imam Ahmad recorded that Asma' bint Abu Bakr said, "My mother, who was an idolatress at the time, came to me during the Treaty of Peace, the Prophet conducted with the Quraysh. I came to the Prophet and said, `O Allah's Messenger! My mother came visiting, desiring something from me, should I treat her with good relations' The Prophet said, نَعَمْ صِلِي أُمَّك Yes. Keep good relation with your mother." The Two Sahihs recorded this Hadith. Imam Ahmad recorded that Abdullah bin Zubayr said, "Qutaylah came visiting her daughter, Asma' bint Abi Bakr, with some gifts, such as Dibab, cheese and clarified (cooking) butter, and she was an idolatress at that time. Asma' refused to accept her mother's gifts and did not let her enter her house. A'ishah asked the Prophet about his verdict and Allah sent down the Ayah, لاَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ ... Allah does not forbid you with those who fought not against you on account of religion ... until the end of the Ayah. Allah's Messenger ordered Asma' to accept her mother's gifts and to let her enter her house." Allah's statement, إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (Allah loves those who deal with equity), was duly explained in the Tafsir of Surah Al-Hujurat. We also mentioned the authentic Hadith, الْمُقْسِطُونَ عَلى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُكْمِهِمْ وَأَهَالِيهِمْ وَمَا وَلُوا The just, who are fair in their decisions, families and those under their authority, will be on podiums made of light, to the right of the Throne. The Prohibition of being Kind towards Combatant Disbelievers Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 یہ ان کافروں کے بارے میں ہدایت دی جا رہی ہے جو مسلمانوں سے محض دین السلام کی وجہ سے بغض و عداوت نہیں رکھتے اور اس بنیاد پر مسلمانوں سے نہیں لڑتے، یہ پہلی شرط ہے ۔ 8۔ 2 یعنی تمہارے ساتھ ایسا رویہ بھی اختیار نہیں کیا کہ تم ہجرت پر مجبور ہوجاؤ، یہ دوسری شرط ہے۔ ایک تیسری شرط یہ ہے جو اگلی آیت سے واضح ہوتی ہے، کہ وہ مسلمانوں کے خلاف دوسرے کافروں کو کسی قسم کی مدد بھی نہ پہنچائیں مشورے اور رائے سے اور نہ ہتھیار وغیرہ کے ذریعے سے۔ 8۔ 3 یعنی ایسے کافروں سے احسان اور انصاف کا معاملہ کرنا ممنوع نہیں ہے جیسے حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی مشرکہ ماں کی بابت صلہ رحمی یعنی حسن سلوک کرنے کا پوچھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صلی امک۔ صحیح مسلم۔ اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ 8۔ 4 اس میں انصاف کرنے کی ترغیب ہے حتی کہ کافروں کے ساتھ بھی حدیث میں انصاف کرنے والوں کی فضیلت یوں بیان ہوئی ہے۔ ان المقسطین عند اللہ علی منبر من نور عن یمین الرحمن عز وجل وکلتا یدیہ یمین الذین یعدلون فی حکمھم واھلیھم وماولوا۔ صحیح مسلم کتاب الامارہ۔ انصاف کرنے والے نور کے منبروں پر ہوں گے جو رحمن کے دائیں جانب ہوں گے اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں جو اپنے فیصلوں میں اپنے اہل میں اور اپنی رعایا میں انصاف کا اہتمام کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] لڑنے کا حکم صرف ان کافروں سے ہے جو دکھ پہنچاتے اور معاندانہ سرگرمیوں میں مشغول ہوں۔ عام کافروں سے نہیں & محض کفر لڑائی کا سبب نہیں بن سکتا :۔ اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے کافروں کو دو گروہوں میں تقسیم فرمایا ہے۔ ایک وہ جو معاند تھے۔ مسلمانوں کو ایذائیں پہنچاتے، اسلام کی راہ روکتے اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے میں سرگرم تھے۔ دوسرے مسالم جو کافر تو تھے مگر روادار تھے۔ غیر جانبدار بن کر رہے۔ مسلمانوں کو نہ کوئی دکھ پہنچایا نہ ان کے خلاف کسی کارروائی میں حصہ لیا۔ اور یہ دونوں قسم کے لوگ مکہ میں بھی رہتے تھے اور ارد گرد بھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے لیے الگ الگ احکام بیان فرمائے۔ پہلی قسم کے لوگوں سے سلوک کا بیان ابتدائے سورة سے چلا آرہا ہے۔ رہے دوسری قسم کے بےضرر قسم کے کافر تو ان کے ساتھ رواداری کا حکم فرمایا۔ یعنی ان سے تم کو بھی عداوت نہ رکھنی چاہئے۔ اور رشتہ داری کے حقوق کا بھی خیال رکھنا چاہئے اور ان سے بہتر سلوک کرنا چاہئے۔ کیونکہ انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ ان دونوں سے سلوک میں فرق رکھا جائے۔ اس سے دو اہم باتوں کا پتہ چلتا ہے ایک یہ کہ مسلمانوں کی عداوت کی بنیاد محض کفر نہیں بلکہ اسلام کے خلاف معاندانہ سرگرمیاں ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام نے دوران جنگ بچوں، بوڑھوں، عورتوں، عبادت گزار اور درویش قسم کے لوگوں اور جنگ میں شریک نہ ہونے والے کافروں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا ہے۔ اور دوسری یہ کہ اسلام ایک حق پسند، انصاف پسند اور امن پسند دین ہے۔ جو صرف ان لوگوں سے تعرض کرتا ہے۔ جو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں یا اس کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ لَا یَنْہٰکُمُ اللہ ُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ ۔۔۔۔۔: اس آیت میں اور اس کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو دو گروہوں میں تقسیم فرمایا ہے۔ ایک محارب جو مسلمانوں سے ضد اور عناد رکھتے تھے ، انہیں ایذا دینے ، ان کے گھروں سے نکالنے اور ان سے لڑنے میں سر گرم تھے ، یا ایسے لوگوں کی پشت پناہی اور مدد کرتے تھے ۔ دوسرے مسالم جو کافر تو تھے مگر روادادر تھے ، غیر جانبدار بن کر رہے ، مسلمانوں کو نہ کوئی دکھ پہنچایا اور نہ ان کے خلاف کسی کارروائی میں حصہ لیا ۔ ان میں مکہ کے ارد گرد رہنے والے کئی قبائل تھے ، جیسے بنوخزاعہ اور بنو حارث وغیرہ جو مسلمانوں کے حلیف تھے یا کفار قریش کے مقابلے میں مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے تھے۔ اہل مکہ میں بھی اس طرح کے کئی لوگ تھے ، خصوصاً بنو ہاشم اور بنو مطلب کے اکثر لوگوں کی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ تھیں ۔ مہاجرین کی بہت سی رشتہ دار عورتیں اور بچے جو مکہ میں تھے اور ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تے مگر ان سے انس اور تعلق رکھتے تھے۔ مسلمانوں کی دلی خواہش ایسے لوگوں سے تعلق رکھنے کی تھی ، اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دے دی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایسے لوگوں سے نیک سلوک اور ان کے حق میں انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا ۔ اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میری ماں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ( معاہدہ ٔ صلح کے دوران حسن سلوک کی) امید رکھتے ہوئے میرے پاس آئی ، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا :” کیا میں اس سے حسن سلوک کروں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہاں ! “ ابن عینیہ نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ( لا ینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلو کم فی الدین) ” اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی “۔ (بخاری ، الادب ، باب صلۃ الوالد المشرک : ٥٩٧٨) اسی طرح ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمر (رض) کو ایک ریشمی حلہ عطاء فرمایا ، انہوں نے وہ اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا جو مکہ میں رہتا تھا۔ ( بخاری ، الادب ، باب صلۃ الاخ المشرک ، ٥٩٨١)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Some reports indicate that Sayyidah Asma’ s (رض) mother Qutailah was divorced by Sayyidna Abu Bakr (رض) in the Days of Ignorance. Sayyidah Asma’ s sister, Sayyidah ` A&ishah (رض) was born of the second wife of Abu Bakr (رض) ، namely, Umm Raman, who had embraced Islam. [ Ibn Kathir and Mazhari ]. The verse directs that justice and good behavior should be maintained with those unbelievers who did not fight the Muslims. As for justice, it is obligatory to maintain with every non-Muslim, whether he is a citizen of an Islamic State, or the Muslims have peace agreement with him, or a citizen of an un-Islamic State, even though he is at war with Muslims. Rather, Islam enjoins upon Muslims to do justice even to animals. We are not allowed to lay a burden on them more than they can bear. We need to take care of their fodder and comfort. The focus of the verse, therefore, is upon the direction that they should be treated, not only with justice, but also in good and courteous manner. Ruling This verse proves that optional charities may be spent on non-Muslim citizens of an Islamic State and on non-Muslims with whom the Muslims have a peace pact. It is, however, forbidden to spend on non-believers who are at war with Muslims.

صحیح بخاری میں حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق سے روایت ہے کہ ان کی والدہ بحالت کفر مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ پہنچیں (مسند احمد کی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ غزوہ بدر حدیبیہ کے بعد قریش مکہ سے معاہدہ صلح ہوگیا تھا اور ان کی والدہ کا نام قتیلہ ہے، یہ اپنی بیٹی اسماء کے لئے کچھ تحفے ہدیئے لے کر مدینہ پہنچیں تو حضرت اسماء نے ان کے تحفے قبول کرنے سے انکار کردیا اور اپنے گھر میں آنے کی بھی اجازت اس وقت تک نہ دی جب تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت نہ کرلیا) غرض حضرت اسماء نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میری والدہ مجھ سے ملنے کے لئے آئی ہیں اور وہ کافر ہیں میں ان کے ساتھ کیا سلوک کروں ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنی والدہ کی صلہ رحمی کرو یعنی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اس پر یہ آیات نازل ہوئیں لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُم بعض روایات میں ہے کہ حضرت اسماء کی والدہ قتیلہ کو صدیق اکبر نے زمانہ جاہلیت میں طلاق دے دی تھی حضرت اسماء اس کے بطن سے تھیں اور ان کی بہن ام المومنین حضرت عائشہ صدیق اکبر کی دوسری بیوی ام رومان کے بطن سے تھیں، یہ مسلمان ہوگئی تھیں (ابن کثیر و مظہری) اس آیت میں ایسے کفار جنہوں نے مسلمانوں سے مقابلہ نہیں کیا اور ان کے گھروں سے نکالنے میں بھی کوئی حصہ نہیں لیا ان کے ساتھ احسان کے معاملہ اور اچھے سلوک اور عدل انصاف کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، عدل و انصاف تو ہر کافر کے ساتھ ضروری ہے، جس میں کافر ذمی کا مصالح اور کافر حربی و دشمن سب برابر ہیں، بلکہ اسلام میں تو عدل و انصاف جانوروں کے ساتھ بھی واجب ہے کہ ان کی طاقت سے زیادہ بار ان پر نہ ڈالے اور ان کے چارے اور آرام کی نگہداشت رکھے، اس آیت میں اصل مقصود بر و احسان کرنے کی ہدایت ہے۔ مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ نفلی صدقات ذمی اور مصالح کافر کو بھی دیئے جاسکتے ہیں صرف کافر حربی کو دینا ممنوع ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۝ ٨ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ نهى النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] ( ن ھ ی ) النهي کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔ «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] . ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ برَّ البَرُّ خلاف البحر، وتصوّر منه التوسع فاشتق منه البِرُّ ، أي : التوسع في فعل الخیر، وينسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ تارة نحو : إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور/ 28] ، وإلى العبد تارة، فيقال : بَرَّ العبد ربه، أي : توسّع في طاعته، فمن اللہ تعالیٰ الثواب، ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان : ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» «1» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] ، ويستعمل البِرُّ في الصدق لکونه بعض الخیر المتوسع فيه، يقال : بَرَّ في قوله، وبرّ في يمينه، وقول الشاعر : أكون مکان البرّ منه«2» قيل : أراد به الفؤاد، ولیس کذلک، بل أراد ما تقدّم، أي : يحبّني محبة البر . ويقال : بَرَّ أباه فهو بَارٌّ وبَرٌّ مثل : صائف وصیف، وطائف وطیف، وعلی ذلک قوله تعالی: وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم/ 32] . وبَرَّ في يمنيه فهو بَارٌّ ، وأَبْرَرْتُهُ ، وبَرَّتْ يميني، وحجّ مَبْرُور أي : مقبول، وجمع البارّ : أَبْرَار وبَرَرَة، قال تعالی: إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار/ 13] ، وقال : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین/ 18] ، وقال في صفة الملائكة : كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 16] فَبَرَرَةٌ خصّ بها الملائكة في القرآن من حيث إنه أبلغ من أبرار «1» ، فإنه جمع برّ ، وأبرار جمع بار، وبَرٌّ أبلغ من بَارٍّ ، كما أنّ عدلا أبلغ من عادل . والبُرُّ معروف، وتسمیته بذلک لکونه أوسع ما يحتاج إليه في الغذاء، والبَرِيرُ خصّ بثمر الأراک ونحوه، وقولهم : لا يعرف الهرّ من البرّ «2» ، من هذا . وقیل : هما حكايتا الصوت . والصحیح أنّ معناه لا يعرف من يبرّه ومن يسيء إليه . والبَرْبَرَةُ : كثرة الکلام، وذلک حكاية صوته . ( ب رر) البر یہ بحر کی ضد ہے ( اور اس کے معنی خشکی کے ہیں ) پھر معنی دسعت کے اعتبار سے اس سے البر کا لفظ مشتق کیا گیا ہے جس کے معنی وسیع پیمانہ پر نیکی کرنا کے ہیں اس کی نسبت کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے جیسے إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور/ 28] بیشک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے ۔ اور کبھی بندہ کی طرف جیسے بدالعبدربہ ( یعنی بندے نے اپنے رب کی خوب اطاعت کی ) چناچہ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ طرف ہو تو اس کے معنی ثواب عطاکرنا ہوتے ہیں اور جب بندہ کی طرف منسوب ہو تو اطاعت اور فرمانبرداری کے البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت سے بد کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآں میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی ۔۔۔ کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔ اور بد کے معنی سچائی بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی خیر ہے جس میں وسعت کے معنی پائے جانے ہیں چناچہ محاورہ ہے ؛۔ برفی یمینہ اس نے اپنی قسم پوری کردکھائی اور شاعر کے قول (43) اکون مکان البر منہ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ بد بمعنی فؤاد یعنی دل ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہاں بھی بد بمعنی نیکی ہے یعنی میرا مقام اس کے ہاں بمنزلہ بر کے ہوگا ۔ بر اباہ فھو بار و بر صیغہ صفت جو کہ صائف وصیف وطائف وطیف کی مثل دونوں طرح آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم/ 32] اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے ۔ اور مجھے اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ( بنا) بر فی یمینہ فھوباز ابررتہ قسم پوری کرنا ۔ برت یمینی میری قسم پوری ہوگئی ۔ حج مبرور حج جس میں رفت وفسق اور جدال نہ ہو ۔ البار کی جمع ابرار وبررۃ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار/ 13] بیشک نیکو کار نعمتوں ( کی بہشت ) میں ہوں گے ۔ كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین/ 18] اور یہ بھی سن رکھو کہ نیکو کاروں کے اعمال علیین میں ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 16] . جو سردار اور نیکو کار ہیں ۔ میں خاص کر فرشتوں کو بررۃ کہا ہے کیونکہ ابرار ( جمع ) زیادہ بلیغ ہے ۔ اس لئے کہ بررۃ ، بر کی بنسبت عدل میں مبالغہ پایا جاتا ہے اسی طرح بد میں بار سے زیادہ مبالغہ ہے البر یر خاص کر پیلو کے درخت کے پھل کو کہتے ہیں عام محاورہ ہے : فلان لایعرف البر من الھر ( وہ چوہے اور بلی میں تمیز نہیں کرسکتا ) بعض نے کہا ہے کہ یہ دونوں لفظ حکایت کی صورت کے طور پر بولے جاتے ہیں مگر اس محاورہ کے صحیح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے خیر خواہ اور بدخواہ میں امتیاز نہیں کرسکتا ۔ البربرۃ بڑبڑ کرنا یہ بھی حکایت صورت کے قبیل سے ہے ۔. قسط الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس/ 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن/ 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات/ 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء/ 35] . ( ق س ط ) القسط ( اسم ) ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس/ 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن/ 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات/ 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء/ 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مشرک کے ساتھ صلہ رحمی کا بیان قول باری ہے (لا ینھا کم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین۔ اللہ تمہیں ان لوگوں سے (حسن سلوک اور انصاف کرنے سے ) نہیں روکتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے) تا آخر آیت ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت اسماء (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ ان کی ایک مشرک ماں ہے جو ان کے پاس آئی ہوئی ہے، آیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا جواب اثبات میں دیا تھا اور فرمایا تھا کہ اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ان تبروھم وتقسطوا الیھم ان لوگوں سے حسن سلوک اور انصاف کرنے سے (نہیں روکتا) ) اہل ذمہ کو صدقات دینے کے جواز میں عموم ہے۔ کیونکہ اہل ذمہ ہم سے قتال نہیں کرتے۔ اس میں اہل حرب کو صدقہ دینے کی ممانعت ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (انما ینھاکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین، اللہ تو تمہیں صرف ان لوگوں سے (دوستی کرنے سے) روکتا ہے جو تم سے دین کے بارے میں لڑے) اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں اور روایتیں بھی ہیں۔ ہمیں عبدللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے اور انہوں نے قتادہ سے قول باری (لا ینھاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اس آیت کو قول باری (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتمو ھم مشرکین کو قتل کرو جہاں کہیں بھی انہیں پائو) نے منسوخ کردیا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ دوستی رکھنے اور احسان کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور تمہیں انہوں نے مکہ مکرمہ سے نہیں نکالا اور نہ تمہارے نکالنے میں کسی کی مدد کی اور اللہ تعالیٰ وفائے عہد کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ شان نزول : لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ (الخ) امام بخاری نے حضرت اسماء سے روایت کیا ہے فرماتی ہیں کہ میری والدہ میرے پاس آئیں اور وہ ضرور مند تھیں میں نے رسول اکرم سے ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے بارے میں دریافت کیا آپ نے اجازت دے دی۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ صرف ان لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے سے۔ امام احمد اور بزار نے اور حاکم نے تصحیح کے ساتھ حضرت عبداللہ بن زبیر سے روایت کیا ہے کہ فتیلہ اپنی صاحبزادی حضرت اسماء بنت ابوبکر کے پاس آئیں اور حضرت ابوبکر نے ان کو زمانہ جاہلیت میں طلاق دے دی تھی۔ چناچہ یہ اپنی لڑکے کے پاس تحائف لے کر آئیں، تو حضرت اسماء نے اپنی والدہ کے تحائف قبول کرنے یا ان کے گھر جانے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ حضرت عائشہ کے پاس قاصد بھیجا کہ وہ اس بارے میں رسول اکرم سے دریافت کریں۔ چناچہ حضرت عائشہ نے حضور اکرم کو اس چیز کی اطلاع دی، آپ نے ان کے تحائف قبول کرنے اور ان کے گھر جانے کا حکم دیا اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨{ لَا یَنْہٰٹکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَـبَـرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَـیْہِمْ } ” اللہ تمہیں نہیں روکتا ان لوگوں سے جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے کبھی جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کہ تم ان کے ساتھ کوئی بھلائی کرو یا انصاف کا معاملہ کرو۔ “ یعنی وہ غیر حربی کافر ‘ جن کے ساتھ تمہاری جنگ نہیں ہے ‘ تم لوگوں کو مکہ سے بےدخل کرنے میں بھی ان کا کوئی کردار نہیں اور نہ ہی انہوں نے تمہارے خلاف تمہارے دشمنوں کی کبھی مدد کی ہے ‘ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان اور بھلائی کا سلوک روا رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ ایسے لوگوں کے ساتھ دنیوی معاملات کے حوالے سے عدل و انصاف کے تمام تقاضے بھی پورے کرنے چاہئیں۔ البتہ ولایت کا رشتہ اور قلبی محبت کا تعلق ان کے ساتھ بھی قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ { اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔ } ” بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 Here a doubt may arise in the minds. It is all right to treat the disbelievers, who are not hostile, kindly, but should only they be treated un-justly? And should the disbelievers, who arc hostile, be treated un-justly? The answer is that in this context, the word justice, in fact, has been used in a special sense. It means: "Justice demands that you should not be hostile to those who are not hostile to you, for it is not justice to treat the enemy and the non-enemy alike. You have every right to adopt a stem attitude towards those who persecuted you for embracing Islam and compelled you to leave yew homes and pursued you even after your expulsion. But as for those who were not partners in persecuting you, you should treat them well and should fulfil the right they have on you because of blood and other relationships. "

سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :12 اس مقام پر ایک شخص کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ دشمنی نہ کرنے والے کافروں کے ساتھ نیک برتاؤ تو خیر ٹھیک ہے ، مگر کیا انصاف بھی صرف انہی کے لیے مخصوص ہے؟ اور کیا دشمن کافروں کے ساتھ بے انصافی کرنی چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سیاق و سباق میں دراصل انصاف ایک خاص مفہوم میں استعمال ہوا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص تمہارے ساتھ عداوت نہیں برتتا ، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی اس کے ساتھ عداوت نہ برتو ۔ دشمن اور غیر دشمن کو ایک درجہ میں رکھنا اور دونوں سے ایک ہی سلوک کرنا انصاف نہیں ہے ۔ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کا حق ہے جنہوں نے ایمان لانے کی پاداش میں تم پر ظلم توڑے اور تم کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کیا ، اور نکالنے کے بعد بھی تمہارا پیچھا نہ چھوڑا ۔ مگر جن لوگوں نے اس ظلم میں کوئی حصہ نہیں لیا ، انصاف یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور رشتے اور برادری کے لحاظ سے ان کے جو حقوق تم پر عائد ہوتے ہیں انہیں ادا کرنے میں کمی نہ کرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: یعنی جو غیر مسلم مسلمانوں سے نہ جنگ کرتے ہیں، اور نہ اُنہیں کوئی اور تکلیف دیتے ہیں، اُن سے اچھا برتاو اور نیکی کا سلوک اﷲ تعالیٰ کو ہرگز ناپسند نہیں ہے، بلکہ انصاف کا معاملہ کرنا تو ہر مسلم اور غیر مسلم کے ساتھ واجب ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨۔ ٩۔ صحیح بخاری ١ ؎ مسند امام احمد مسند بزار مستدرک حاکم میں جو روایتیں ہیں ان سے ان آیتوں کی شان نزول یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس سورة کی شروع آیتوں میں مسلمانوں کو کافروں سے میل جول رکھنے کو منع فرمایا تو مکہ میں مسلمانوں کی رشتہ دار جو مشرک عورتیں تھی مسلمان مردوں اور عورتوں نے ان سے بھی میل جول ترک کردیا۔ چناچہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی طلاق دی ہوئی بی بی قتیلہ اپنی بیٹی حضرت اسماء کے پاس صلح کے زمانہ میں کچھ تحفہ لے کر مکہ سے مدینہ آئیں لیکن حضرت اسماء اپنی مشرک ماں سے نہیں ملیں اور اپنی ماں کا تحفہ بھی نہیں لیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرما دیا کہ میل جول کی ممانعت ان ہی مشرک لوگوں سے ہے جو دین پر لڑتے ہیں عورتوں ‘ بچوں اور ضعیف لوگوں سے میل جول کی کچھ ممانعت نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ دین کی لڑائی میں شریک نہیں ہے۔ سورة مریم میں گزر چکا ہے کہ بت پرستی سے بیزار ہو کر جب ہجرت کی نیت سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ سے جدا ہوئے تو انہوں نے اپنے باپ سے یہ کہا تھا کہ میں تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی جناب میں مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا اور یہ بات انہوں نے اس وقت کہہ دی تھی جب کہ ان کو اپنے باپ کا حالت شرک پر مرنے کا حال معلوم نہ تھا پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے باپ کا انجام جتلا دیا تو انہوں نے وہ مغفرت کی دعا اس کے بعد اپنے باپ کے حق میں نہیں کی چناچہ اس کی تفصیل سورة توبہ میں گزر چکی ہے۔ غرض سو رہ توبہ ‘ سورة مریم اور اس سورة کی آیتوں کو ملانے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے مشرک باپ کے حق میں مغفرت کی دعا کیوں کی اور کب تک کی۔ ملک عراق کو اور قوم کے لوگوں کو چھوڑنے کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں ربنا لاتجعلنا فتنۃ للذین کفروا جو کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ یا اللہ تو ان بت پرست لوگوں کو مجھ سے اور میرے ساتھیوں سے دور ہی رکھیو تاکہ یہ لوگ قابو پا کر آگ میں ڈالنے کی طرح ہم کو کسی طرح کے فتنہ میں نہ ڈال دیں۔ جن مہاجرین کے مشرک قرابت دار مکہ میں تھے ان آیتوں کے اخیر میں اللہ تعالیٰ نے ان مہاجرین کی یہ تسکین فرمائی کہ کچھ جلدی مشرک قرابت داروں سے ملنے کی تم لوگوں کو نہیں کرنی چاہئے قریب میں اللہ تعالیٰ سب قرابت داروں کے میل جول کی صورت پیدا کرے گا اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے اسی سفر میں مکہ فتح ہوگیا اور سب اہل قرابت مل جل گئے اور بڑے اسلام کے مخالف اسلام کے پورے مددگار بن گئے۔ چناچہ ابو سفیان جیسا اسلام کا مخالف شخص فتح مکہ کی رات کو مشرف باسلام ہو کر اسلام کا ایک مضبوط بازو ہوگیا۔ غرض فتح مکہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اہل مکہ کی نجات کی صورت نکالی اس لئے اس آیت کو غفور رحیم پر ختم فرمایا۔ یہ مکہ پر کی چڑھائی صلح حدیبیہ کے دو برس کے بعد ہوئی اگرچہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں دس برس تک کی لڑائی موقوف رکھنے کا معاہدہ تھا لیکن قریش اس معاہدہ پر قائم نہ رہے بلکہ قبیلہ بنی بکر اور خزاعہ کی لڑائی میں بنی بکر کو قریش نے مدد دی جو صلح نامہ کے بالکل مخالف تھی کیونکہ قبیلہ خزاعہ صلح نامہ کے موافق لشکر اسلام کے عہد حمایت میں تھا اس واسطے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب قریش کی یہ عہد شکنی معلوم ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ خزاعہ کی حمایت میں یہ چڑھائی کی۔ آخر کو فرمایا کہ جو مسلمان مہاجر اپنے ان مشرک قرابت داروں سے در پردہ میل جول رکھے گا جن قرابت داروں سے ملنے کی ان آیتوں میں ممانعت کی گئی ہے تو وہ کسی کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا بلکہ خود وہی گناہ گار ہوگا اور اس گناہ گاری کی سزا میں گرفتار ہونے کا بار اپنے ذمہ لے کر اپنے نفس پر ظلم کرے گا۔ (١ ؎ صیح بخاری باب صلۃ الوالد الشراع ص ٨٨٤ ج ٢ و تفسیر ابن کثیر ص ٣٤٩ و تفسیر الدر المنثور ص ٣٠٥ ج ٦۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(60:8) لاینھکم مضارع منفی واحد مذکر غائب نھی (باب فتح) مصدر۔ منع کرنا۔ روکنا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ وہ تم کو منع نہیں کرتا ہے۔ لم یقاتلوکم : مضارع مجزوم نفی جحد بلم۔ مقاتلۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ وہ تم سے نہیں لڑے۔ ان تبروھم : ان مصدریہ تبروا مضارع جمع مذکر حاضر۔ اصل میں تبرون تھا۔ ان کے عمل سے نون اعرابی ساقط ہوگیا۔ بروبر (باب سمع) مصدر۔ تم نیکی کرتے ہو۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ کہ تم ان کے ساتھ احسان کرتے رہو۔ وتقسطوا الیہم۔ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے تقسطوا ای وان تقسطوا مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اقساط (افعال) مصدر۔ الیہم۔ جاز مجرور۔ ان کی طرف ۔ ان سے، (اور یہ کہ) تم ان سے انصاف سے پیش آؤ ف س ط مادہ۔ قسط وقسوط مصدر سے (باب ضرب) بمعنی بےانصافی کرنا۔ اسی سے قرآن مجید میں ہے واما القاسطون فکانوا لجھنم حطبا (72:15) اوع جو گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے۔ اسی مادہ سے مصدر قسط واقسط (باب ضرب) سے اور (باب نصر) سے۔ بمعنی انصاف کرنا ہے۔ اسی سے قرآن مجید میں ہے واقسطوا ان اللہ یحب المقسطین (49:9) اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے آیت زیر غور میں اسی معنی میں آیا ہے۔ ترجمہ آیت یوں ہوگا ! جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا۔ ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا۔ المقسطین : اسم فاعل جمع مذکر۔ انصاف کرنے والے ۔ نیکی کرنے والے۔ بھلائی کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ان سے مراد وہ عورتیں بچے بوڑھے اور بیمار لوگ ہیں جو جنگ نہیں کرسکتے یا وہ عرب قبائل جیسے خزاعہ اور بنو الحارث جو اگرچہ کافر تھے لیکن مسلمانوں کا ان سے معاہدہ تھا کہ وہ ان کے مقابلے میں قریش کی مدد نہ کریں گے اور وہ اپنے اس معاہدہ پر قائم ہے (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں : مکہ کے لوگوں میں سے بعض یاییس بھی تھے کہ آپ مسلمان نہ ہوئے ہونے والوں سے ضد بھی نہ کی۔ “ آخر حضرت اسماء کا آنحضرت کی اجازت سے اپنی والدہ مشرکہ) کے ساتھ اچھا سلوک کرنا تو ثابت ہی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

س 3۔ مراد وہ کافر ہیں جو ذمی یا مصالح ہوں، یعنی محسنانہ برتاوان کو منصفانہ برتاوفرمادیا، پس انصاف ہے یعنی خاص ان کی ذمیت یا مصالحت کے اعتبار سے انصاف مقتضی اس کو ہے کہ ان کے ساتھ احسان سے دریغ نہ کیا جاوے، ورنہ مطلق انصاف تو ہر کافر بلکہ جانور کے ساتھ بھی واجب ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کے ساتھ تعلقات میں استثناء۔ پچھلی آیت کے اختتام پر ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے یہ اس کی مہربانی کا نتیجہ ہے کہ اس نے ہر کافر کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع کرنے کا حکم نہیں دیا قطع تعلق اور لڑنے کا حکم ان کفار کے ساتھ ہے جو مسلمانوں پر زیادتی کرتے ہیں اور اسلام کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اس نے صرف کفار کے ساتھ قلبی محبت، ازواجی تعلقات اور ان کو رازداں بنانے سے منع کی گیا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ، کاروبار اور سماجی تعلقات رکھنے سے منع نہیں کرتا جنہوں نہ دین کی وجہ سے تمہارے ساتھ جنگ کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا۔ اس لیے تم ان کے ساتھ انصاف کا سلوک کرو اور یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ تمہیں قلبی دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تمہاردے دین کی وجہ سے تمہارے ساتھ جنگ کی اور تمہارے گھروں سے تمہیں نکال دیا اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی جو لوگ ان کے ساتھ دوستی کریں گے وہ ظالم ہوں گے۔ اس وضاحت اور اجازت سے ان لوگوں کی غلط فہمی دور ہوجانی چاہیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام جنگجو دین ہے ایسا ہرگز نہیں کیونکہ اسلام امن و آشتی کا دین ہے۔ دین صرف ان لوگوں سے تعلقات میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور ان سے لڑنے کا حکم دیتا ہے جو اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جو اس کی تبلیغ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور لوگوں پر ظلم کرتے ہیں ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے یہ لوگ یا اسلام قبول کریں یا پھر سرنگوں ہو کر رہیں تاکہ دنیا امن وامان کا گہوارہ بن جائے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ وُجِدَتِ امْرَأَۃٌ مَقْتُوْلَۃً فِی بَعْضِ مَغَازِیْ رَسُوْلِ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَنَہَی رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْیَا نِ ) (رواہ البخاری : باب قتل النساء فی الحرب) ” حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غزوات میں سے کسی ایک غزوہ میں ایک مقتول عورت پائی گئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا۔ “ مسائل ١۔ پُرامن رہنے والے کفار کے ساتھ بھلائی اور انصاف کرنے کا حکم ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ٣۔ جو کفار اسلام کے راستے میں رکاوٹ اور مسلمانوں پر زیادتی کرتے ہیں ان کے ساتھ دوستی نہیں رکھنی چاہیے۔ ٤۔ جو ان کے ساتھ دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں سے محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ٧٦) ٢۔ بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (الممتحنہ : ٨) ٣۔ غصہ پینے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٣٤) ٤۔ اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٤٦) ٥۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٤٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (التوبہ : ١٠٨) ٧۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اللہ کی راہ میں منظم ہو کر لڑتے ہیں۔ (الصف : ٤) ٨۔ اللہ پاک باز لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ (التوبہ : ١٠٨) ٩۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو سے محبت کرتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٢٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔” لاینھاکم “ یہ ایک قانون کا بیان ہے جو زجر مذکور سے متعلق ہے اور ان کافروں کا ذکر ہے جن پر احسان کرنے اور جن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرنے کی ممانعت نہیں۔ کیونکہ عدل کرنے والوں کو اللہ پسند فرماتا ہے اور ان سے مراد وہ کافر ہیں، جنہوں نے مسلمانوں سے دین کی وجہ سے عداوت نہیں کی اور نہ ان سے لڑے ہیں اور ان کو گھروں سے نکالنے میں مشرکین مکہ کی نہیں کی ہے۔ یہ وہ قبائل عرب تھے جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معاہدہ کر رکھا تھا کہ وہ نہ خود ان سے لڑیں گے اور نہ ان کے دشمنوں کی مدد کریں گے۔ نزلت الایۃ فی خزاعۃ وبنی الحارث بن کعب وکنانۃ ومزینۃ وقبائل من لاعرب کانوا صالحوا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی ان لا یقاتلوہ ولا یعینوا علیہ (روح ج 28 ص 75) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور نہ انہوں نے تم کو تمہارے گھروں پر نکالا۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے بر اور اقساط بھلائی نیکی اور حسن سلوک کی اجازت دی اور انصاف کرنے کا حکم دیا ایسے لوگوں کے معاملے میں انصاف کرو اور ظلم نہ کرو۔ مشرکین میں سب قسم کے آدمی تھے بعض جارحانہ کاروائیاں کرتے تھے بعض سخت برتائو کی مخالفت کرتے تھے اور اگر ان کی بات نہ چلتی تو وہ مسلم آزار کاروائیوں سے بالکل علیحدہ رہتے تھے ان کے لئے خصوصی برو اقساط کا حکم دیا ورنہ عام برداقساط کا حکم تو ہر ذی روح کے ساتھ ہے خواہ وہ آدمی ہو یاجانور۔ بعض لوگوں نے فرمایا قبیلہ خزاعہ کے لوگ مراد ہیں جو اپنی مصالحت اور اپنے عہد قائم رہے۔ بہرحال کوئی خاص قبیلہ ہو یا مکہ کے لوگ ہوں جن کا رویہ امن پسندانہ رہا ہو سب کے ساتھ اچھے سلوک اور انصاف خصوصی کا حکم ہے۔ بعض حضرات نے قتیلہ بنت عبدالعزی کے حق میں شان نزول کا ذکر کیا ہے کہ وہ مشرکہ تھیں اور اسماء بنت ابی بکر (رض) کے لئے کچھ تحائف اور ہدایا لے کر آئی تھی لیکن اسماء بنت ابی بکر (رض) نے اس کے قوبل کرنے سے انکار کردیا اس پر یہ آیت اتری اور ان کے ساتھ اکرام اور احسان کرنے کا حکم دیا گیا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں مکہ کے لوگوں میں بعضے ایسے بھی تھیے کہ آپ مسلمان نہ ہوئے اور ہونے والوں سے ضد بھی نہ کی۔