Surat us Saff

Surah: 61

Verse: 9

سورة الصف

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۹﴾  9

It is He who sent His Messenger with guidance and the religion of truth to manifest it over all religion, although those who associate others with Allah dislike it.

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے اور تمام مذاہب پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین ناخوش ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But Allah will bring His Light to perfection even though the disbelievers hate (it). He it is Who has sent His Messenger with guidance and the religion of truth to make it victorious over all (other) religions even though the idolators hate (it). We explained the meanings of similar Ayat before, in the Tafsir of Surah Bara'ah. All praise and thanks are due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 یہ گذشتہ بات ہی کی تاکید ہے، اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے پھر دہرایا گیا ہے۔ 9۔ 1 تاہم یہ لامحالہ ہو کر رہے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] اس آیت کی تشریح کے لیے سورة توبہ کی آیت نمبر ٣٣ پر حاشیہ نمبر ٣٣ ملاحظہ فرمائیے۔ [١٢] مشرکوں کو خالص توحید ناگوار گزرتی ہے :۔ یعنی مشرک تو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسروں کی بندگیاں بھی چلاتے رہیں۔ بڑے خدا کے ساتھ چھوٹے خداؤں یا اس کے اپنے پیاروں کو کائنات کے تصرف میں، حاجت روائیوں اور مشکل کشائیوں میں شامل اور شریک کرتے رہیں۔ اللہ کے دین میں دوسرے دینوں کی اور غیر اسلامی فلسفوں اور نظریات کی آمیزش کرتے رہیں۔ مگر اللہ کو ایسی شراکت اور ایسے سمجھوتے قطعاً منظور نہیں۔ وہ ہر قسم کے شرک سے پاک سچے اور ستھرے دین کو ہر دین پر غالب کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اسے پورا کرکے رہے گا اگر مشرکوں کو یہ بات ناگوار ہے تو وہ اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا دیکھیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝ ٠ ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۝ ٩ ۧ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ ظَهَرَ ظاهر هونا الشّيءُ أصله : أن يحصل شيء علی ظَهْرِ الأرضِ فلا يخفی، وبَطَنَ إذا حصل في بطنان الأرض فيخفی، ثمّ صار مستعملا في كلّ بارز مبصر بالبصر والبصیرة . قال تعالی: أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر/ 26] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف/ 33] ، إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] ، يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم/ 7] ، أي : يعلمون الأمور الدّنيويّة دون الأخرويّة، والعلمُ الظَّاهِرُ والباطن تارة يشار بهما إلى المعارف الجليّة والمعارف الخفيّة، وتارة إلى العلوم الدّنيوية، والعلوم الأخرويّة، وقوله : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] ، وقوله : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] ، أي : كثر وشاع، وقوله : نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان/ 20] ، يعني بالظَّاهِرَةِ : ما نقف عليها، وبالباطنة : ما لا نعرفها، وإليه أشار بقوله : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل/ 18] ، وقوله : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ/ 18] ، فقد حمل ذلک علی ظَاهِرِهِ ، وقیل : هو مثل لأحوال تختصّ بما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، وقوله : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن/ 26] ، أي : لا يطلع عليه، وقوله : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة/ 33] ، يصحّ أن يكون من البروز، وأن يكون من المعاونة والغلبة، أي : ليغلّبه علی الدّين كلّه . وعلی هذا قوله : إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] ، وقوله تعالی: يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 29] ، فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف/ 97] ، وصلاة الظُّهْرِ معروفةٌ ، والظَّهِيرَةُ : وقتُ الظُّهْرِ ، وأَظْهَرَ فلانٌ: حصل في ذلک الوقت، علی بناء أصبح وأمسی . قال تعالی: وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم/ 18] . ظھر الشئی کسی چیز کا زمین کے اوپر اس طرح ظاہر ہونا کہ نمایاں طور پر نظر آئے اس کے بالمقابل بطن کے معنی ہیں کسی چیز کا زمین کے اندر غائب ہوجانا پھر ہر وہ چیز اس طرح پر نمایاں ہو کہ آنکھ یابصیرت سے اس کا ادراک ہوسکتا ہو اسے ظاھر کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر/ 26] یا ملک میں فساد ( نہ ) پیدا کردے ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف/ 33] ظاہر ہوں یا پوشیدہ ۔ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] مگر سرسری سی گفتگو ۔ اور آیت کریمہ : يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم/ 7] یہ دنیا کی ظاہری زندگی ہی کو جانتے ہیں کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ صرف دنیو یامور سے واقفیت رکھتے ہیں اخروی امور سے بلکل بےبہر ہ ہیں اور العلم اظاہر اور الباطن سے کبھی جلی اور خفی علوم مراد ہوتے ہیں اور کبھی دنیوی اور اخروی ۔ قرآن پاک میں ہے : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] جو اس کی جانب اندورنی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب ۔ اور آیت کریمہ : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ۔ میں ظھر کے معنی ہیں زیادہ ہوگیا اور پھیل گیا اور آیت نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان/ 20] اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں ۔ میں ظاہرۃ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو ہمارے علم میں آسکتی ہیں اور باطنۃ سے وہ جو ہمارے علم سے بلا تر ہیں چناچہ اسی معنی کی طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ اور آیت کریمہ : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ/ 18] کے عام معنی تو یہی ہیں کہ وہ بستیاں سامنے نظر آتی تھیں مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بطور مثال کے انسانی احوال کیطرف اشارہ ہو جس کی تصریح اس کتاب کے بعد دوسری کتاب ہیں ) بیان کریں گے انشاء اللہ ۔ اظھرہ علیہ اسے اس پر مطلع کردیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اپنے غائب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا اور آیت کریمہ : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة/ 33] میں یظھر کے معنی نمایاں کرنا بھی ہوسکتے ہیں اور معاونت اور غلبہ کے بھی یعنی تمام ادیان پر اسے غالب کرے چناچہ اس دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 29] اے قوم آج تمہاری ہی بادشاہت ہے اور تم ہی ملک میں غالب ہو ۔ فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف/ 97] پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس کے اوپر چڑھ سکیں ۔ صلاۃ ظھر ظہر کی نماز ظھیرۃ ظہر کا وقت ۔ اظھر فلان فلاں ظہر کے وقت میں داخل ہوگیا جیسا کہ اصبح وامسیٰ : صبح اور شام میں داخل ہونا ۔ قرآن پاک میں ہے : وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم/ 18] اور آسمان اور زمین میں اسی کیلئے تعریف ہے اور سہ پہر کے وقت بھی اور جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

دین حق کا غلبہ دلیل نبوت ہے قول باری ہے (لیظھرہ علی الدین کلۃ تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے ) اس کا شماردلائل نبوت میں ہوتا ہے کیونکہ یہ بات اس وقت کہی گئی تھی جب مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی، وہ بہت کمزور تھے اور انہیں ہر وقت دشمنوں کا خطرہ لاحق رہتا تھا اور لوگوں کی نظروں میں مقہور و بےبس تھے۔ لیکن ان حالات کے باوجودیہ خبر اپنی تمام جزئیات کے ساتھ حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ اس زمانے میں ادیان درج ذیل تھے۔ یہودیت، نصرانیت، مجوسیت، صبائیت اور ان کے علاوہ بت پرست بھی تھے جن کا دائرہ ، عرب سے لے کر سندھ یعنی ہندوستان تک پھیلا ہوا تھا۔ پھر ان ادیان کو ماننے والوں میں سے کوئی قوم ایسی باقی نہیں رہی جس پر مسلمان غالب نہیں آئے اور ان کے تمام علاقوں یا بعض کو اپنے زیر نگیں نہیں کیا اور انہیں دور دراز علاقوں کی طرف مار بھگایا۔ یہ ہے اس آیت کا مصداق جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسلام کو ان تمام ادیان پر غالب کردے گا۔ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے اور وہ غیب کی خبر صرف اپنے رسولوں کو وحی کے ذریعے بھیجتا ہے۔ اس لئے یہ آیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت کی ایک واضح دلیل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان تمام ادیان پر غلبہ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ہوا تھا اس لئے یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غلبہ نہیں کہلا سکتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ آپ کے لائے ہوئے دین کو تمام ادیان پر غالب کردے گا کیونکہ ارشاد باری ہے (ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے) ۔ اس سے مراد دین حق ہے۔ اگر اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مراد لی جاتی تو پھر بھی یہ بات درست ہوتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین اور آپ پر ایمان لانے والوں کو تمام ادیان اور اہل ادیان پر غالب کردیا تو اس صورت میں یہ کہنا درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو غالب کردیا۔ جس طرح کوئی لشکر اسلامی اگر کسی شہر یا علاقے کو فتح کرلے تو یہ کہنا درست ہوتا ہے کہ خلیفۃ المسلمین نے اسے فتح کیا ہے اگر چہ وہ قتال میں شریک بھی نہ ہوا ہو، کیونکہ اسلامی لشکر کای یہ اقدام اس کے حکم اور اس کی طرف سے لشکر کی تیاری کے تحت ہوا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

یہاں سے اس سورت کے تیسرے حصے کا آغاز ہو رہا ہے۔ آیت ٩ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا ذکر ہوا ہے : آیت ٩ { ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } ” وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظام زندگی پر “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقصد بعثت کے حوالے سے یہ آیت خصوصی اہمیت کی حامل ہے اور اسی اہمیت کے باعث قرآن مجید میں اسے تین بار (اس مقام کے علاوہ سورة التوبہ ‘ آیت ٣٣ اور سورة الفتح ‘ آیت ٢٨ کے طور پر) دہرایا گیا ہے۔ تمام انبیاء و رسل - کے لیے قرآن مجید میں بشیر ‘ نذیر ‘ مذکر ‘ شاہد ‘ معلم وغیرہ الفاظ مشترک استعمال ہوئے ہیں ‘ لیکن اس آیت کا مضمون اور اسلوب صرف محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے خاص ہے ۔ الہدیٰ سے مراد یہاں وہ ہدایت نامہ (قرآن) ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کامل ہوگیا ‘ جبکہ آپ سے پہلے تمام انبیاء کو اپنے اپنے دور میں جو میزان (شریعت) عطا ہوتی رہی تھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت میں وہ کامل ہو کر ” دین الحق “ یعنی سچے اور عادلانہ نظام زندگی کی شکل اختیار کرگئی۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ کے نظام عدل و قسط کو دنیا کے تمام نظاموں پر غالب کردیا جائے ۔ یہ تھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مشن جسے تکمیل کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے سپرد فرما گئے تھے۔ لیکن ہم نے تو اس مشن کو کبھی اپنایا ہی نہیں۔ ہمارا مشن تو یہ ہے کہ حلال و حرام طریقے سے جیسے بھی ہو ‘ دولت اکٹھی کرو ‘ پھر اسی دولت سے صدقہ و قربانی دو ‘ حج کرو اور رمضان میں ہر سال عمرے کے لیے چلے جایا کرو۔ ہمارا سارا زور rituals پر ہے اور دین اگر دنیا میں پامال ہے تو ہوتا رہے ‘ ہماری بلا سے ! تصور کریں ‘ اگر آج صرف ایک سال میں حج پر اکٹھے ہونے والے افراد ہی سروں پر کفن باندھ کر غلبہ دین کی جدوجہد کے لیے میدان میں کود پڑیں تو دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ مگر افسوس ‘ صد افسوس ! ؎ رہ گئی رسم اذاں روح بلالی (رض) نہ رہی فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی ! { وَلَــوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ۔ } ” اور خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو ! “ ظاہر ہے مشرکین کب چاہیں گے کہ دنیا میں اسلام کا غلبہ ہو ‘ نظام توحید کا نفاذ ہو اور اللہ کی حکومت بالفعل قائم ہوجائے۔ یہاں پر مُشْرِکُوْنَ کا لفظ خاص طور پر لائق توجہ ہے۔ اس سے مراد صرف وہ مشرکین ہی نہیں ہیں جو بتوں اور دیوی دیوتائوں کو پوجتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے حضور ان کی سفارش کردیں گے ‘ بلکہ سب سے بڑے مشرک تو وہ ہیں جو دنیا میں خدائی کے دعوے دار بنے بیٹھے ہیں ‘ جو نمرود اور فرعون کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور جن کا دعویٰ ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ (sovereignty) کے مالک ہم ہیں۔ فرعون بھی تو یہی کہتا تھا : { اَلَـیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَھٰذِہِ الْاَنْھٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْج } (الزخرف : ٥١) کہ دیکھو ! کیا یہ مصر کی حکومت میری نہیں ہے ؟ اور کیا یہ پورا نہری نظام میرے تابع نہیں ہے ؟ تو فرعون کے اس دعوے اور ” عوام کی حاکمیت “ کے نعرے میں کیا فرق رہ گیا ؟ صرف یہی نا کہ وہاں اقتدار کا دعویٰ کرنے والا ایک فرد تھا اور یہاں پوری قوم حاکمیت کی دعوے دار ہے۔ اب ظاہر ہے اگر اس ماحول میں آپ اللہ کی حاکمیت کا نعرہ لگائیں گے اور اللہ کے نظام عدل و قسط کے قیام کے مشن کو لے کر آگے بڑھنا چاہیں گے تو ” اپنی حاکمیت “ کے یہ دعوے دار خم ٹھونک کر آپ کے مقابلے میں آ کھڑے ہوں گے ۔ اس کے بعد بھی اگر آپ اپنے موقف پر قائم رہیں گے تو ان سے آپ کا تصادم ناگزیر ہوجائے گا اور آپ کو مال و جان کی قربانی کی صورت میں اپنے اس موقف کی قیمت چکانا پڑے گی۔ چناچہ اب اگلی آیات میں اسی صورت ِحال کا ذکر کیا جا رہا ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 "The mushriks ": those who combine the service of others with the service of AIIah and mix other religions in the Religion of Allah; who are not prepared to see that the entire system of lift is established on the obedience and guidance of One God; who insist that they will worship any deity they like and base "Then said the priest: 'How shall the Messiah be called, and what sign shall reveal his coming? "Jesus answered: `The name of the Messiah is admirable, ,for God himself gave him the name when he had created his soul, and placed it in a celestial splendour. God said: `Wait Muhammad; for thy sake I will to create paradise, the world, and a great multitude of creatures whereof I make thee a present, insomuch that whoso shall bless thee shall be blessed, and whose shall curse thee shall be accursed, When I shall send thee into the world, I shall send thee as my messenger of salvation, and thy word shall be true, insomuch that heaven and earth shall fail, but thy faith shall newer fail. Muhammad is his blessed name' (Ch. 97) Barnabas writes that on one occasion Jesus spoke to his disciples and said that one of them (who was to be Judas Iscariot) would sell him to the enemies for 30 pieces of gold. Then said: "Whereupon I am sure that who shall sell me, be slain in my name, for that God shall take me up from the earth, and shall change the appearance of the traitor so that every one shall believe him to be me; nevertheless when he dieth an evil death, I shall abide in that dishonour for a long time in the world But when Mohammed shall come, the sacred messenger of God, that infamy shall be taken away. And this shall God do because I have confessed the truth of the Messiah, who shall give me this reward that I shall be known to be alive and to be a stranger to that death of infamy.' (Ch. i 12) (To the disciples Jesus said:) "Verily I say unto you that if the truth had not been erased from the book of Moses, God would not have given to David our father the second. And if the book of David had not been contaminated, God would not have committed the Gospel to me; seeing that the Lord our God is unchangeable, and hath spoken but one message to a]I men. Wherefore, when the messenger of God shall come, he shall come to cleanse away all where with the ungodly have contaminated my book.' (Ch.124) In these clear and comprehensive prophecies there are only three things which at first sight appear to be doubtful. First, that in these and in several other passages of the Gospel of Barnabas the Prophet Jesus (peace be upon him) has denied his own self being the Messiah. Second, that not only in these but at many other places also in this Gospel the Holy Messenger's actual name "Muhammad" has been mentioned, whereas this is not the way the Prophets make prophecies: they do not mention the actual name of the one coming in the future. Third, that in these the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) has been called the Messiah The answer to the first objection is that not only in the Gospel of Barnabas but in the Gospel according to Luke also it is mentioned that the Prophet Jesus had forbidden his disciples to call him the Christ (the Messiah) . The words in Luke are: "He said unto them, But whom say ye that I am? Peter answering said, The Christ of God. And he strictly charged them, and commanded them to tell no man that thing." (9: 20-21) Probably the reason was that about the Messiah whom the Israelites were awaiting, they thought he would subdue the enemies of truth by the sword. Therefore, the Prophet Jesus (peace be on him) said that he was not that Messiah but he would come rafat him. The answer to the second objection is that no doubt in the extant Italian translation of Barnabas the Holy Prophet's name has been written as "Mohammed", but no one knows through how many different languages has this book reached the Italian. Obviously, the original Gospel of Barnabas must be in Syriac, because that was the language of Jesus and his companions. If the original book were extant, it could be seen what name of the Holy Prophet (upon whom be peace) was written in it. Now what one can assume is that originally the Prophet Jesus must have used the word Munhamanna as we have explained above by citing Ibn Ishaq's reference to St. John's Gospel. Then different translators may have translated it in their own languages. Later, probably some translator seeing that the name given in the prophecy was exactly synonymous with the word "Mohammed" may have written this very sacred name of the Holy Prophet. Therefore, the mere appearance of this name only is not enough to give rise to the doubt that the entire Gospel of Barnabas has been forged by a Muslim. The answer to the third objection is that the word "Messiah" is an Israelite technical term, which has bets used in the Qur'an particularly for the Prophet Jesus for the reason that the Jews had denied his being the Messiah; otherwise it- is neither a Qur'anic term nor has it been used anywhere in the Qur'an in the meaning of the Israelite term, Therefore, if the Prophet Jesus used the word Messiah for the Holy Prophet (peace be upon him) , and the Qur'an has not used this word for him, it is not right to conclude that the Gospel of Barnabas ascribes something to him which the Qur'an denies. In fact, it was customary with the Israelites that when somebody or something was set aside for a sacred cause, the person or thing was anointed with the holy oil on the head and consecrated. This anointing with the oil was called mesh in Hebrew, and the one thus anointed messiah " Utensils were likewise anointed and set aside for use in the house of worship. THe priests also were anointed when they were appointed to priesthood. The kings and the prophets too were anointed when they were designated to kingship or prophethood by God. Thus, according to the Bible, there have been many messiahs in the history of the Israelites. The Prophet Aaron was a messiah as a priest, Moses as a priest and a prophet, Saul as a king, David as a king and a prophet, Melchizedek as a king and a priest, and AI-Yas'a (Elisha) was a messiah as a prophet. Later, it was no longer regarded as necessary to appoint a person by their beliefs and morals and civilization on any philosophy and doctrine they please, As against the ways of such people, it is being said that the Messenger of AIlah has not been sent to make a compromise with than, but' with the object that he .should cause the Guidance and Religion of Truth which he has brought from Allah to prevail ove all religion, i.e. every aspect of the way of life. This mission he has to accomplish in any case whether the disbelievers and polytheists like it or not, and whoever they support it or resist it. This declaration has been made in the Qur'an at two other places about, in Surah At Taubah: 33 and Surah AI-Fath: 28. Here it has been re-iterated for the third time. (For further explanation, see E.N. 32 of At-Taubah and E.N. 51 of Al-Fath) .

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: دلیل اور حجت کے میدان میں تو اسلام ہمیشہ سے غالب ہے، اور رہے گا، البتہ دُنیا میں مسلمانوں کا غلبہ بہت سی شرائط سے مشروط ہے اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانوں میں، نیز اُس کے بعد بھی صدیوں تک مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا، پھر ان شرائط کے فقدان کی وجہ سے یہ غلبہ ختم ہوا۔ اور آخر زمانے میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بشارت دی ہے کہ اسلام اور مسلمان پھر دُنیا پر غالب ہوں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩۔ سب سے پہلے صاحب شریعت نبی حضرت نوح (علیہ السلام) ہیں اور سب سے آخر صاحب شریعت نبی خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور ان سب شریعتوں میں توحید کی تاکید اور شرک کی ممانعت کا حکم یکساں ہے ہر وقت کی امت کی حالت کے موافق عمل کرنے کی کچھ باتیں ہر شریعت میں بدلتی رہی ہیں مثلاً اور شریعتوں میں نماز کے لئے ایک جگہ جو خاص ٹھہرائی جاتی تھی وہیں نماز ہوسکتی تھی شریعت محمدی میں یہ حکم ہے کہ جنگل ‘ گھر ‘ مسجد ہر جگہ میں نماز ہوسکتی ہے یا اور شریعتوں میں غنیمت کے مالک کا خرچ میں لانا جائز نہ تھا شریعت محمدی میں جائز ہے اسی طرح اور مشکل باتیں جو اور شریعتوں میں تھیں ایک تو وہ اس آخری شریعت میں آسان ہوگئیں اور دوسرے شریعت محمدی کے بعد قیامت تک اب کوئی شریعت اور نہیں ہے اس لئے جو باتیں شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں قائم ہوئی ہیں وہی قیامت تک قائم رہیں گی۔ غرض شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور شریعتوں سے سہل اور اور شریعتوں کی باتوں کو منسوخ کرنے والی ہے اور شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی بات کسی دوسری شریعت سے منسوخ ہے نہ قیامت تک شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی دوسری شریعت ہے۔ سب شریعتوں کو ملا کر ایک ناتمام مکان فرض کیا جائے تو شریعت محمدی اس ناتمام مکان کا ایسا ایک آخری ردہ ہے جس سے مکان پورا ہوگیا ہے کہ قیامت تک نہ اب اس مکان میں کوئی جدید تعمیر ہونے والی ہے نہ کسی اور رد و بدل کی ضرورت ہے۔ صحیحین ١ ؎ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے اور اور انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ اور انبیاء کی نبوت ایک خوبصورت عمارت تھی جس میں آخری ایک ردہ کی کوتاہی تھی میں خاتم النبین ہوں میرے سبب سے وہ آخری ردہ پورا ہوا اور وہ ناتمام عمارت تمام ہوگئی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اس دین محمدی میں وہ باتیں اور پائیداریاں ہیں کہ کسی دین میں نہیں ہیں اس واسطے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ فرمایا کہ یہ دین اور دینوں پر غالب ہے اس دین کے غالب ہونے کی علامت یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن اور امتوں سے اس امت کی تعداد زیادہ ہوگی۔ چناچہ صحیح ٢ ؎ بخاری و مسلم کی ابوہریرہ (رض) کی حدیث اس باب میں اوپر گزر چکی ہے۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب خاتم النبین ص ٥٠١ ج ١ و صحیح مسلم ‘ باب ذکر کونہ خاتم النبیین ص ٢٤٨ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب کیف نزل الوحی ص ٧٤٤ ج ٢ صحیح مسلم باب وجوب الایمان برسالۃ نبینا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الخ ص ٨٦ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(61:9) ھو الذی۔ وہ ذات ہے جس نے۔ الھدی : ای القران۔ دین الحق۔ اس کا عطف الھدی پر ہے ای وبدین الحق۔ دین حق۔ دین الٰہی اسلام۔ ملت حنفیہ۔ لیظھرہ۔ لام تعلیل کا۔ یظھر مضارع منصوب (بوجہ عمل لام) اظھار (افعال) مصدر۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع دین حق ہے۔ یظھر کی ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع ہے۔ تاکہ وہ اس کو غالب کر دے۔ الدین کلہ : ای جمیع الادیان المخالفۃ۔ اسلام کے مخالف جملہ دین۔ ولو کرہ المشرکون۔ مشرک کیسے ہی ناخوش ہوں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والا دین ” الاسلام “ نور اور روشنی ہے۔ کفار اور مشرکین، یہودی اور عیسائی اس نور کو مٹانا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ یہ نور مکمل ہو کر رہے گا۔ اس نور اور روشنی کو پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا تاکہ دین حق کا نور دنیا میں ہر سو پھیل جائے۔ بیشک یہ بات کفار اور مشرکین کے لیے کتنی ہی ناقابل برداشت ہو۔ مفسرین کے دلائل کے مطابق یہ آیات غزوہ احد کے بعد نازل ہوئیں۔ جب حضرت حمزہ (رض) اور ستر صحابہ کرام شہید ہوچکے تھے۔ منافقین نے بغلیں بجائیں اور کافر امید لگا بیٹھے کہ اب اسلام کا چراغ بجھنے والا ہے۔ بس ایک اور حملے کی ضرورت ہے اسلام اور مسلمانوں کا قصہ ہمیشہ ہمیش کے لیے پاک ہوجائے گا۔ ان ناہموار حالات میں یکدم اعلان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اپنی راہنمائی اور دین حق کے ساتھ اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ اس کا رسول تمام ادیان پر اللہ کے دین کو غالب کردے۔ بیشک مشرکوں کے لیے یہ بات کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو مشرک چاہتے ہیں کہ اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسروں کی بندگی جاری رہے کفار کا خیال ہے کہ نظام اسلام کی بجائے کفر کا نظام قائم رہے۔ ہدایت سے مراد وہ راہنمائی، بصیرت اور توفیق ہے جس کے ساتھ نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام ادیان باطل پر دین اسلام کو غالب کردکھایا۔ مشرک توحید کا نوربجھانا اور قرآن کی روشنی کو مٹانا چاہتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ اسے مکمل فرماکر اسے دلائل کی بنیاد پر قیامت تک غالب رکھے۔ کفار، مشرکین اور اہل کتاب پہلے دن سے ہی اس کوشش میں ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے کہ وہ اپنے نور کو غالب کرکے رہے گا اس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے تاکہ دین اسلام تمام باطل ادیان پر غالب آجائے خواہ مشرکوں اور کفار کے لیے یہ بات کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو، نور سے مراد قرآن مجید کی تعلیم جس کی مرکزی دعوت التوحید ہے دونوں کو اللہ تعالیٰ نے نور قرار دیا ہے۔ (البقرہ : ٢٥٧) میں ارشاد ہوا ہے کہ ” اللہ “ ایمانداروں کا خیر خواہ ہے وہ انھیں ہر قسم کے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کفار کے دوست شیطان ہیں وہ ان کو نور سے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں۔ کافر چاہتے ہیں کہ اللہ کی توحید کے چراغ اور قرآن مجید کی تعلیمات کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں پھونکوں کا لفظ لا کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جس طرح سورج کی روشنی اور چاند کی ضیاء پاشیوں کو پھونکوں سے نہیں بجھایا جاسکتا اور جس طرح سورج اور چاند کی طرف منہ کرکے تھوکنے اور پھونکنے والا پاگل پن کا مظاہرہ کرتا ہے، اسی طرح دین کے خلاف کوششیں کرنے والے بھی اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے تاکہ تمام باطل ادیان پر دین اسلام کو غالب کردے ہدایت سے مراد وہ رہنمائی اور طریقہ ہے جس کی روشنی میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دین کا ابلاغ اور نفاذ فرمایا۔ یاد رہے کہ دین اور قانون کتنا ہی مفصل کیوں نہ ہو اس کے سمجھنے اور نفاذ کے لیے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے یہاں بالہدیٰ کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا ہے کہ جس رب نے یہ دین نازل فرمایا ہے اسی نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رہنمائی کا بندوبست کیا تاکہ ” اللہ “ کی منشا کے مطابق دین کی تشریح اور اس کا نفاذ کرے۔ جو حدیث شریف اور سیرت طیبہ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ ” لِیُظْہِرَہٗ “ کا معنی ہے زبردست کشمکش جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دین آسانی کے ساتھ نافذ نہیں ہوگا جب تک کفار، مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ زبردست کشمکش اور معرکہ آرائی نہ ہوجائے چناچہ یہی کچھ ہوا کہ دین کے ابلاغ اور نفاذ کے لیے کئی معرکے برپا ہوئے اور نہ معلوم قیامت تک کتنے معرکے پیش آئیں گے۔ دین کے غلبہ سے پہلی مراد اس کا دلائل اور براہین کے ساتھ باطل نظریات اور ادیان پر غالب رہنا ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک یہ دین اپنی سچائی اور دلائل کی بنیاد پر باطل ادیان پر غالب رہا اور رہے گا۔ جہاں تک اس کے سیاسی غلبے اور نفاذکا تعلق ہے اس کا دارومدار مسلمانوں کے اخلاص اور کردار پر ہے۔ جب مسلمان جان ومال کی قربانی دے کر دین کو غالب کرنا چاہیں گے تو یقیناً دین سیاسی طور پر بھی غالب آئے گا جس طرح نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور اور آپ کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک اس کا غلبہ رہا ہے اور قرب قیامت ایک دفعہ پھر اس کے غلبے کا دور آئے گا۔ (عَنْ أبی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَیُوشِکَنَّ أَنْ یَنْزِلَ فیکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا فَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہٗ أَحَدٌ حَتّٰی تَکُون السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرًا مِنْ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا) (رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! عنقریب تم میں عیسیٰ ابن مریم عادل حکمران کی حیثیت میں آئیں گے وہ صلیب کو توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کر ڈالیں گے اور جزیہ ختم کریں گے۔ مال و دولت کی اس قدر بہتات ہوگی کوئی اس کو لینے والا نہ ہوگا یہاں تک کہ ایک سجدہ کرنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔ “ (عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لَیَبْلُغَنَّ ہَذَا الأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَلاَ یَتْرُکُ اللَّہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَلاَ وَبَرٍ إِلاَّ أَدْخَلَہُ اللَّہُ ہَذَا الدِّینَ بِعِزِّ عَزِیزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِیلٍ عِزًّا یُعِزُّ اللَّہُ بِہِ الإِسْلاَمَ وَذُلاًّ یُذِلُّ اللَّہُ بِہِ الْکُفْرَوَکَانَ تَمِیمٌ الدَّارِیُّ یَقُولُ قَدْ عَرَفْتُ ذَلِکَ فِی أَہْلِ بَیْتِی لَقَدْ أَصَابَ مَنْ أَسْلَمَ مِنْہُمُ الْخَیْرُ وَالشَّرَفُ وَالْعِزُّ وَلَقَدْ أَصَابَ مَنْ کَانَ مِنْہُمْ کَافِراً الذُّلُّ وَالصَّغَارُ وَالْجِزْیَۃُ ) (رواہ احمد : مسند تمیم دارمی) ” حضرت تمیم داری (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا دین اسلام وہاں تک پہنچے گا جہاں تک رات کا اندھیرا اور دن کا اجالا پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کچے پکے مکان کو نہیں چھوڑے گا مگر دین کو وہاں داخل فرمائے گا۔ عزت والے کو عزت دے گا اور ذلیل کو مزید ذلیل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ معزز کو دین اسلام کے ساتھ عزت دے گا اور ذلیل کو کفر کی وجہ سے مزید ذلت ملے گی۔ تمیم داری (رض) کہا کرتے تھے کہ میں اپنے خاندان میں ان لوگوں کو پہچانتا ہوں جو دین کی وجہ سے معزز ہوئے اور بھلائی حاصل کی۔ جو کافر تھے ان پر ذلت، حقارت مسلط کردی گئی اور وہ جزیہ دینے پر مجبور ہوئے۔ “ مسائل ١۔ ” اللہ “ نے ہی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دین حق اور اپنی راہنمائی کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ ٢۔ دین اسلام کے سوا باقی تمام نظریات اور ادیان باطل ہیں۔ ٣۔ اللہ کے رسول اس لیے مبعوث کیے گئے تاکہ آپ دین اسلام کو تمام باطل نظریات اور ادیان پر غالب کردیں۔ ٤۔ دین کے ابلاغ اور نفاذ میں مشرکین کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے۔ ٥۔ مشرکین اور کفار دین حق کی بالا دستی کو کبھی پسند نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن دینِ حق سے انکار کے لیے کفار اور مشرکین کے بہانے : ١۔ مشرکین نے کہا اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے۔ (النحل : ٣٥) ٢۔ مشرکین کہیں گے اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔ (الانعام : ١٤٨) ٣۔ کفار نے کہا ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک تو زمین سے ہمارے لیے کوئی چشمہ جاری نہ کر دے۔ (بنی اسرائیل : ٩٠) ٤۔ مشرکین نے آپ پر اعتراض کیا کہ آپ پر خزانہ کیوں نہیں نازل ہوتا۔ (ھود : ١٢) ٥۔ کفار نے کہا ہمارے لیے اپنے آباؤ اجداد کا طریقہ ہی کافی ہے۔ (المائدۃ : ١٠٤) ٦۔ بنی اسرائیل نے کہا اے موسیٰ جب تک ہم اللہ کو اپنے سامنے نہیں دیکھ لیتے ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ (البقرۃ : ٥٥) ٦۔ کہتے ہیں یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جس کو اس نے لکھ رکھا ہے اور وہ صبح وشام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔ (الفرقان : ٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ھوالذی .................... المشرکون (١٦ : ٩) ” وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کہ پورے دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو “۔ یہ اس بات کی شہادت ہے کہ اسلامی نظام زندگی ہدایت ہے اور دین حق ہے۔ یہ ایک فیصلہ کن بات ہے اور اس پر کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا۔ اللہ کا ارادہ پورا ہوگیا اور یہ دین تمام ادیان پر غالب ہوگیا ہے۔ یہ دین اپنی ذات اور اپنی تشکیل کے لحاظ سے واحد دین ہے ، اس کے مقابل کا کوئی دین نہیں ہے۔ مثلاً دنیا کے بت پرستانہ ادیان کے اندر تو مقابلے کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ رہے کتابی دین تو یہ اسی سلسلے کا آخری اور مکمل دین ہے ، اور اللہ کے نظام کا یہ آخری ایڈیشن ہے۔ یہ اپنی مکمل اور اعلیٰ صورت میں ہے۔ سابقہ کتب سماوی کے اندر بیشمار تحریفات کردی گئی ہیں ، ان کی شکل بدل گئی ہے اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ہیں اور ان میں وہ اضافے ہوگئے ہیں جو ان میں نہ تھے۔ ان کے اندر کانٹ چھانٹ کردی گئی ہے۔ پھر وہ اس حالت تک پہنچ گئی ہیں کہ وہ آج جدید دور کی زندگی کی کوئی رہنمائی نہیں کرسکتیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ان کے اندر تحریف نہیں ہوئی تو بھی وہ سابقہ ایڈیشن ہیں جبکہ دین اسلام اللہ کے نظام کا آخری اور تازہ ترین نسخہ ہے جس کے اندر جدید ترقی یافتہ زندگی کے تمام مسائل حل کردیئے گئے ہیں۔ سابقہ ادیان اللہ کی اسکیم کے مطابق ایک محدود وقت کے لئے آئے تھے۔ اللہ کا یہ وعدہ نفس دین اور اس کی نوعیت اور اس کے احکام ومواد کے اعتبار سے تو پورا ہوا کہ دین اسلام کے مقابلے کا کوئی دین نہیں ہے لیکن یہ نظام عملی زندگی میں بھی ایک غالب نظام رہا ہے۔ ایک بار تو یہ دین غالب ہوکر رہا ہے۔ یہ اس کرہ ارض پر اس قدر غالب ہوا کہ تمام ادیان ، تمام اقوام تقریباً ایک سو سال تک اس کے زیر نگیں رہے۔ اس کے بعد بھی یہ دین وسط ایشیا اور وسط افریقہ میں سیلاب کی طرح پھیل گیا ۔ یہاں تک کہ ابتدائی جہادی جدوجہد کے ذریعہ اس کے اندر جس قدر لوگ داخل ہوئے اس کے بعد محض تبلیغی جدوجہد کے ذریعہ اپنی ذاتی قوت سے یہ دین پانچ گنا علاقے اور آبادی میں پھیل گیا۔ آج بھی یہ دین بغیر حکومتی قوتوں کے پھیل رہا ہے۔ حالانعہ یہودی اور صیہونی سازش نے اہل دین کے سیاسی نظام ، نظام خلافت کو ختم کردیا ہے۔ یہ نظام ان لوگوں نے ترکی میں اس ہیرو کے ہاتھوں ختم کرایا جسے اس مقصد کے لئے انہوں نے خودگھڑا تھا۔ اور باوجود اس کے کہ پورے عالم اسلام میں اس دین کے خلاف رات دن سازشیں ہورہی ہیں اور پورے عالم اسلام میں یہودیوں کے ہاتھوں ھنصب کردہ ” ہیرو “ عالم اسلام میں اٹھنے والی اسلامی تحریکات کچل رہے ہیں لیکن یہ اللہ کا چراغ ہے اور پھونکوں سے اسے بجھایا نہیں جاسکتا۔ غرض باوجود اپنوں اور غیروں کی سازشوں کے یہ دین انسانی ، تاریخ میں اب بھی اہم کردار سرانجام دے رہا ہے اور پہلے بھی اس نے ادا کیا ہے ۔ اور انسانی سازشیں اس کی راہ نہیں روک سکتیں۔ کیونکہ اللہ کے مقابلے میں انسان کی قوت کوئی قوت نہیں ہے۔ اگرچہ وہ بہت گہری چال چلیں کیونکہ اللہ بھی گہری چال چلتا ہے۔ یہ آیات اس وقت اہل ایمان کے حوصلے بڑھارہی تھیں جب قرآن کی ابتدائی سامعین یہود ونصاریٰ کی کوششوں اور سازشوں کے علی الرغم غلبہ دین کی جدوجہد کررہے تھے اس وقت بھی دین کو اللہ غالب کررہا تھا ، مسلمان تو دست قدرت کے لئے ایک پردہ اور بہانہ تھے۔ اور آج بھی یہ آیات ان لوگوں کے لئے ایک حوصلہ پیدا کررہی ہیں جو غلبہ دین کا کام کررہے ہیں اور آئندہ بھی غلبہ دین کے لئے اٹھنے والی تحریکات کے لئے یہ آیات مشعل راہ ہوں گی اور وہ دن دور نہیں ہے کہ ایک بار پھر یہ دین غالب ہوکر رہے گا۔ اسلامی نظریہ حیات کے تسلسل کے بیان کے بعد ، اور اس وعدے کے بعد کہ اس دین کو غالب ہوکر رہنا ہے۔ اگرچہ کافر اس کے خلاف سازشیں کریں ، اب روئے سخن مسلمانوں کی طرف ہے۔ اس وقت کے مسلمانوں کو بھی خطاب ہے۔ اور اس کے بعد قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو بھی یہ خطاب ہے کہ مسلمانو ، اس دین کی رو سے ایک بہترین تجارت تمہیں بتائی جارہی ہے ، یہ تجارت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” ھو الذی “ ” الھدی “ یعنی قرآن، اللہ تعالیٰ نے قرآن اور دین حق کے ساتھ اپنے پیغمبر کو بھیجا ہی اسی لیے ہے تاکہ اس کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کرے اگرچہ مشرکین اس کو گوارا نہ کریں اور غیظ و غضب میں جل بھن جائیں۔ جس دین کو اللہ تعالیٰ غالب فرمانے کا فیصلہ کرچکا ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں مٹا سکتی۔ حاصل یہ کہ بشارت مسیح (علیہ السلام) کے مطابق خاتم النبیین، (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیات بینات کے ساتھ آچکے ہیں لیکن معاندین اور سفہاء نے ان کو جادو کہہ کر جھٹلا دیا ہے اور اب دین اسلام کو مٹانے کے درپے ہیں اس لیے ان کے ساتھ جہاد فرض ہے۔ تم ان کے مقابلے میں نکلو۔ اللہ تعالیٰ تم کو فتح و غلبہ عطا فرمائیگا اور اسلام کو سربلند کرے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت و رہنمائی اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ وہ اس دین حق کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کردے اگرچہ مشرک کتناہی برا مانیں اور مشرکوں کو کتنا ہی برا لگے۔ ہدی اور دین حق یہی قرآن اور اسلام ہے غلبہ یا بطور شوکت اور قہر یا بطور دلائل اگر دلائل کا غلبہ مراد ہو تو وہ ہر وقت بحمداللہ موجود ہے اور اگر شوکت کا غلبہ مراد ہو تو وہ بھی حاصل ہوچکا۔ بعض نے کہا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں سوائے دین اسلام کے اور کون دین نہ ہوگا۔ سورہو براءت میں تفصیل گزر چکی ہے اسی غلبہ کو اوپر کی آیت میں تمام فرمایا ہے آیت کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام کے علاوہ کوئی مذہب ہی باقی نہ رہے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اسلام کے مخالف ادیان باطلہ بھی رہیں گے لیکن غلبہ اور قہر اور تفوق اسلام کو حاصل ہوگاجیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں۔