Surat ul jumaa

Surah: 62

Verse: 10

سورة الجمعة

فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانۡتَشِرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ ابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰﴾

And when the prayer has been concluded, disperse within the land and seek from the bounty of Allah , and remember Allah often that you may succeed.

پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَإةُ ... Then when the Salah is complete, means, when the Friday prayer is finished, ... فَانتَشِرُوا فِي الاْاَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ ... you may disperse through the land, and seek the bounty of Allah, After Allah forbade Muslims from working after hearing the Adhan and ordered them to gather for the Friday prayer, He allowed t... hem to spread throughout the earth and seek bounty after the prayer is finished. Ibn Abi Hatim recorded that when the Friday prayer finished, Irak bin Malik would stand by the gate of the Masjid and invoke Allah, saying, "O Allah! I have accepted and complied with Your Call, performed the prayer You ordered and dispersed as You ordered me. Therefore, grant me of Your favor and You are the best of those who grant provisions." Allah's statement, ... وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ and remember Allah much, that you may be successful. means, while you are buying and selling, giving and taking, remember Allah much and do not let this life busy you from what benefits you in the Hereafter. There is a Hadith that states, مَنْ دَخَلَ سُوقًا مِنَ الاَْسْوَاقِ فَقَالَ لاَا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ كَتَبَ اللهُ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ وَمَحَا عَنْهُ أَلْفَ أَلْفِ سَيِّيَةٍ Whoever enters a marketplace and says, "La ilaha illallah, He is alone without partners, His is the sovereignty and His is the praise, and He is Able to do all things." Then Allah will record a thousand-thousand (a million) good deeds for him and will erase a thousand-thousand evil deeds. Mujahid said, "A servant (of Allah) will not be among those who remember Allah often, until he does so while standing, sitting and lying down."   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 اس سے مراد کاروبار اور تجارت ہے۔ یعنی نماز جمعہ سے فارغ ہو کر تم اپنے اپنے کاروبار اور دنیا کے مشاغل میں مصروف ہوجاؤ۔ مقصد اس امر کی وضاحت ہے کہ جمعہ کے دن کاروبار بند رکھنے کی ضرورت نہیں۔ صرف نماز کے وقت ایسا کرنا ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] یہ اجازت ہے حکم نہیں یعنی اگر تم نماز جمعہ کے بعد مسجد میں ہی بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے رہو تو بھی اچھا ہے، جانا چاہو تو بھی اجازت ہے۔ اور اگر جمعہ کی نماز کے بعد کاروبار یا کام کاج کرنا چاہو تو بھی مکمل اجازت ہے ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ جو بھی کام کاج کرو دل میں ہر وقت اللہ کی یاد ضرور رہنی چاہ... یے اور اگر ہوسکے تو زبانی بھی اللہ کا ذکر کرو۔ یہ یاد تمہیں معاصی میں پڑنے سے روکے گی۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن بھی سارا دن ہمیں کام کاج سے چھٹی منانے کی ضرورت نہیں۔ ضروری یہ ہے کہ جمعہ کے دن جس پر جمعہ واجب ہے وہ بر وقت غسل کرے، مسواک کرے۔ صاف ستھرے کپڑے پہنے، تیل اور خوشبو لگائے پھر خطبہ جمعہ شروع ہونے سے پہلے پہلے بلکہ خطبہ کی اذان سے پہلے مسجد پہنچ جائے۔ اور خطبہ بڑے غور سے سنے ہاں اگر ہفتہ میں ایک دن کاروبار سے چھٹی کرنا ہی ہے تو مسلمانوں کو جمعہ کے دن ہی کرنا چاہئے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ : ہم سب امتوں کے بعد دنیا میں آئے لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے۔ بات صرف اتنی ہے کہ یہود و نصاریٰ کو ہم سے پہلے اللہ کی کتاب ملی۔ ان کے لیے بھی جمعہ کا دن ہی (عبادت کے لئے) مقرر ہوا تھا لیکن انہوں نے اس میں اختلاف کیا اور ہم کو اللہ نے اسی دن کی ہدایت فرمائی۔ پھر سب لوگ ہمارے پیچھے ہوگئے۔ یہود کا دن کل (ہفتہ کا دن) ہے اور نصاریٰ کا پرسوں (اتوار) کا دن && (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب فرض الجمعۃ)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

٢۔ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ ۔۔۔: یہاں ایک سوال ہے کہ آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ جمعہ کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو ، تو کیا نماز کے بعد مسجد سے نکلنا ضروری ہے اور کیا کاروبار بھی ضرور ی ہے یا گھر میں آرام بھی کیا جاسکتا ہے ؟ جوا... ب اس کا یہ ہے کہ اگرچہ اصل یہی ہے کہ جس کام کا حکم دیا جائے وہ فرض ہوتا ہے ، مگر قرینہ موجود ہو تو امر استحباب کے لیے بھی ہوتا ہے اور بیان جواز کے لیے بھی ۔ یہاں اذان کے بعد بیع سے منع فرمایا تھا، اب اس ممانعت کی حد بیان فرما دی کہ یہ ممانعت نماز پوری ہونے تک ہے ، اس کے بعد بیع کی اجازت ہے اور تمہیں اختیار ہے کہ مسجد سے نکل کر کاروبار میں مصروف ہوجاؤ ، لیکن اگر کوئی مسجد میں رہے یا گھر چلا جائے ، کاروبار نہ کرے تو مضائقہ نہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اللہ نے احرام کی حالت میں شکار سے منع فرمایا ، جیسا کہ فرمایا :(لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ) ( المائدہ : ٩٥)” شکار کو مت قتل کرو ، اس حال میں کہ تم احرام والے ہو “۔ پھر فرمایا :(وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا) (المائدۃ : ٢)” اور جب تم احرام کھول دو تو شکار کرو “۔ یہاں شکار کا حکم دینے کا یہ مطلب نہیں کہ احرام کھولنے والے شخص پر شکار کرنا فرض ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ احرام کھولنے کے بعد شکار کی اجزت ہے۔ ٢۔ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہ ِ : اللہ کے فضل سے مراد یہاں روزی تلاش کرنا ہے ، یعنی جس طرح یہود کے لیے یوم السبت ( ہفتہ) کو سارا دن شکار منع تھا ، تم پر ایسی کوئی پابندی نہیں ، صرف اذان سے لے کر نماز سے فراغت تک خطبہ اور نما ز میں حاضری کے سوا ہر کام منع ہے ، اس کے بعد جس حلال طریقے سے روزی کما سکتے ہو کماؤ۔ ٢۔ وَاذْکُرُوا اللہ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ : یعنی روزی کی تلاش میں مصروفیت کے دوران بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوجاؤ بلکہ اسے بہت زیادہ یاد کرتے رہو۔ اللہ کی یاد دل سے بھی ہوتی ہے ، زبان سے بھی اور ہر کام اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق ادا کرنے کے ساتھ بھی ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ احزاب (٤١، ٤٢) کی تفسیر۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Blessings in Business after Jumu’ ah فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّـهِ (Then once the salah is finished, disperse in the land, and seek the grace of Allah…62:10). The preceding verses prohibited trading and all other worldly activities, after the adhan of Jumu’ ah. The present verse permits those activities after the Jumu’ ah prayer is over; ... we are allowed to spread throughout the land in search of our livelihood and sustenance. When Sayyidna ‘Irak Ibn Malik (رح) finished his Jumu’ ah prayer, he would come out and, standing on the threshold of the mosque, he would pray: اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَجَبتُ دَعوَتَکَ وَ صَلَّیتُ فرِیضَتَکَ وَ اَنشَرتُ کَمَا اَمَرتَنِی فَارزُقنِی مِن فَضلِکَ وَاَنتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ ۔ (رواہ ابن ابی حاتم، از ابن کثیر) “ O Allah, I responded to Your call and performed the Salah which You hve prescribed for me as an obligation, and O a, going out as You have commanded me in search of livelihood. So, grant me my livelihood out of Your grace. And You are the best giver of sustenance.” [ Transmitted by ibn Hatim, as quoted by Ibn Kathir ]. It is reported from the righteous elders that whoever carries out his commercial activities after prayer of Jumu’ ah is favoured by Allah with seventy blessings. (Ibn Kathir) وَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ كَثِيرً‌ا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (And remember Allah much, so that you may be successful – 62:10). It means that commercial activities are though allowed after the prayer, one should not neglect Allah’ s remembrance during these activities as the infidels do. Even during such activities one must remain mindful of Allah and His remembrance.  Show more

(آیت) فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ ، سابقہ آیات میں اذان جمعہ کے بعد بیع و شراء وغیرہ کے تمام دنیوی امور کو ممنوع کردیا گیا تھا، اس آیت میں اس کی اجازت دے دیگئی کہ نماز جمعہ سے فارغ ہونے کے بعد تجارتی کاروبار اور اپنا اپنا رزق حاصل کرنے ک... ا اہتمام سب کرسکتے ہیں۔ جمعہ کے بعد تجارت و کسب میں برکت : حضرت عراک بن مالک جب نماز جمعہ سے فارغ ہو کر باہر آتے تو دروازہ مسجد پر کھڑے ہو کر یہ دعا کرتے تھے۔ اللھم انی اجبت دعوتک وصلیت فریضتک وانتشرت کما امرتنی فارزقنی من فضلک و انت خیر الراز قین (رواہ ابن ابی حاتم، از ابن کثیر) ” یعنی یا اللہ میں نے تیرے حکم کی اطاعت کی اور تیرا فرض ادا کیا اور جیسا کہ تو نے حکم دیا ہے نماز پڑھ کر میں باہر جاتا ہوں تو اپنے فضل سے مجھے رزق عطا فرما اور تو تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے “ اور بعض سلف صالحین سے منقول ہے کہ جو شخص نماز جمعہ کے بعد تجارتی کاروبار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ستر مرتبہ برکات نازل فرماتے ہیں۔ (ابن کثیر) وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ، یعنی نماز جمعہ سے فارغ ہو کر کسب معاش تجارت وغیرہ میں لگو، مگر کفار کی طرح خدا سے غافل ہو کر نہ لگو، عین خریدو فروخت اور مزدوری کے وقت بھی اللہ کی یاد جاری رکھو۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ وَاذْكُرُوا اللہَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝ ١٠ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «م... ا» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ نشر النَّشْرُ ، نَشَرَ الثوبَ ، والصَّحِيفَةَ ، والسَّحَابَ ، والنِّعْمَةَ ، والحَدِيثَ : بَسَطَهَا . قال تعالی: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] ، وقال : وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] «2» ، وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ [ الشوری/ 28] ، وقوله : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] أي : الملائكة التي تَنْشُرُ الریاح، أو الریاح التي تنشر السَّحابَ ، ويقال في جمع النَّاشِرِ : نُشُرٌ ، وقرئ : نَشْراً فيكون کقوله :«والناشرات» ومنه : سمعت نَشْراً حَسَناً. أي : حَدِيثاً يُنْشَرُ مِنْ مَدْحٍ وغیره، ونَشِرَ المَيِّتُ نُشُوراً. قال تعالی: وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] ، بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] ، وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلانُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وأَنْشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ فَنُشِرَ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] وقیل : نَشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ وأَنْشَرَهُ بمعنًى، والحقیقة أنّ نَشَرَ اللَّهُ الميِّت مستعارٌ من نَشْرِ الثَّوْبِ. كما قال الشاعر : طَوَتْكَ خُطُوبُ دَهْرِكَ بَعْدَ نَشْرٍ ... كَذَاكَ خُطُوبُهُ طَيّاً وَنَشْراً «4» وقوله تعالی: وَجَعَلَ النَّهارَ نُشُوراً [ الفرقان/ 47] ، أي : جعل فيه الانتشارَ وابتغاء الرزقِ كما قال : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] ، وانْتِشَارُ الناس : تصرُّفهم في الحاجاتِ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] ، فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] وقیل : نَشَرُوا في معنی انْتَشَرُوا، وقرئ : ( وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] «1» أي : تفرّقوا . والانْتِشَارُ : انتفاخُ عَصَبِ الدَّابَّةِ ، والنَّوَاشِرُ : عُرُوقُ باطِنِ الذِّرَاعِ ، وذلک لانتشارها، والنَّشَرُ : الغَنَم المُنْتَشِر، وهو للمَنْشُورِ کالنِّقْضِ للمَنْقوض، ومنه قيل : اکتسی البازي ريشا نَشْراً. أي : مُنْتَشِراً واسعاً طویلًا، والنَّشْرُ : الكَلَأ الیابسُ ، إذا أصابه مطرٌ فَيُنْشَرُ. أي : يَحْيَا، فيخرج منه شيء كهيئة الحَلَمَةِ ، وذلک داءٌ للغَنَم، يقال منه : نَشَرَتِ الأرضُ فهي نَاشِرَةٌ. ونَشَرْتُ الخَشَبَ بالمِنْشَارِ نَشْراً اعتبارا بما يُنْشَرُ منه عند النَّحْتِ ، والنُّشْرَةُ : رُقْيَةٌ يُعَالَجُ المریضُ بها . ( ن ش ر ) النشر کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں یہ کپڑے اور صحیفے کے پھیلانے ۔ بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردیتے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] اور جب دفتر کھولے جائیں گے ۔ وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] اور وہی تو ہے جو لوگوں کے ناامیدہو جانیکے بعد مینہ برساتا اور اپنی رحمت ( یعنی بارش کے برکت ) کو پھیلا دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] اور بادلوں کو ( بھاڑ ) ( پہلا دیتی ہے ۔ میں ناشرات سے مراد وہ فرشتے ہن جو ہواؤں کے پھیلاتے ہیں یا اس سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو بادلون کو بکھیرتی ہیں ۔ چناچہ ایک قرات میں نشرابین یدی رحمتہ بھی ہے جو کہ وہ الناشرات کے ہم معنی ہے اور اسی سے سمعت نشرا حسنا کا محاورہ ہے جس کے معنی میں نے اچھی شہرت سنی ۔ نشرالمیت نشودا کے معنی ہیت کے ( ازسرنو زندہ ہونے کے ہیں ) چناچہ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] اسی کے پاس قبروں سے نکل کر جانا ہے بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] بلکہ ان کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کی امیدہی نہیں تھی ۔ وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے ۔ اور نہ جینا اور نہ مرکراٹھ کھڑے ہونا ۔ انشر اللہ المیت ک معنی میت کو زندہ کرنے کے ہیں۔ اور نشر اس کا مطاوع آتا ہے ۔ جس کہ معنی زندہ ہوجانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ بعض نے کہا ہے ک نشر اللہ المیت وانشرہ کے ایک ہی معنی میں ۔ لیکن درحقیقت نشر اللہ المیت نشرالثوب کے محاورہ سے ماخوذ ہے شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (425) طوتک خطوب دھرک بعد نشر کذاک خطوبہ طیا ونشرا تجھے پھیلانے کے بعد حوادث زمانہ نے لپیٹ لیا اس طرح حوادث زمانہ لپیٹنے اور نشر کرتے رہتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] اور دن کو اٹھ کھڑا ہونے کا وقت ٹھہرایا ۔ میں دن کے نشوربنانے سے مراد یہ ہے کہ اس کا روبار کے پھیلانے اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] اور اس نے رحمت سے تمہارے لئے رات کو اور دن کو بنایا ۔ تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اس میں اس کا فضل تلاش کرو ۔ اور انتشارالناس کے معنی لوگوں کے اپنے کاروبار میں لگ جانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] پھر اب تم انسان ہوکر جابجا پھیل رہے ہو ۔ فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] تو جب کھانا کھا چکو تو چل دو ۔ فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نشروا بمعنی انتشروا کے آتا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ : وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑا ہوا کرو ۔ میں ایک قراءت فاذا قیل انشروافانشروا بھی ہے ۔ یعنی جب کہاجائے کہ منتشر ہوجاؤ تو منتشر ہوجایا کرو ۔ الانتشار کے معنی چوپایہ کی رگوں کا پھول جانا ۔۔ بھی آتے ہیں ۔ اور نواشر باطن ذراع کی رگوں کو کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بدن میں منتشر ہیں ۔ النشر ( ایضا) پھیلنے والے بادل کو کہتے ہیں ۔ اور یہ بمعنی منشور بھی آتا ہے جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اسی سے محاورہ ہے ؛اکتسی البازی ریشا نشرا ۔ یعنی باز نے لمبے چوڑے پھیلنے والے پروں کا لباس پہن لیا ۔ النشر ( ایضا) خشک گھاس کو کہتے ہیں ۔ جو بارش کے بعد سرسبز ہوکر پھیل جائے اور اس سے سر پستان کی سی کونپلیں پھوٹ نکلیں یہ گھاس بکریوں کے لئے سخت مضر ہوتی ہے ۔ اسی سے نشرت الارض فھی ناشرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی زمین میں نشر گھاس پھوٹنے کے ہیں ۔ شرت الخشب بالمنشار کے معنی آرے سے لکڑی چیرنے کے ہیں ۔ اور لکڑی چیر نے کو نشر اس لئے کہتے ہیں کہ اسے چیرتے وقت نشارہ یعنی پر ادہ پھیلتا ہے ۔ اور نشرہ کے معنی افسوں کے ہیں جس سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے ۔ ابتغاء (ينبغي) البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48] ، وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟ فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] . ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔ الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو ) فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ فلح الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَحُ أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ المجادلة/ 22] ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [ المؤمنون/ 1] ، لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ البقرة/ 189] ، إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكافِرُونَ [ المؤمنون/ 117] ، فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ الحشر/ 9] ، وقوله : وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى [ طه/ 64] ، فيصحّ أنهم قصدوا به الفلاح الدّنيويّ ، وهو الأقرب، وسمّي السّحور الفَلَاحَ ، ويقال : إنه سمّي بذلک لقولهم عنده : حيّ علی الفلاح، وقولهم في الأذان : ( حي علی الفَلَاحِ ) أي : علی الظّفر الذي جعله اللہ لنا بالصلاة، وعلی هذا قوله ( حتّى خفنا أن يفوتنا الفلاح) أي : الظّفر الذي جعل لنا بصلاة العتمة . ( ف ل ح ) الفلاح الفلح کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ المجادلة/ 22] ( اور ) سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] بیشک وہ مراد کو پہنچ گیا جو پاک ہوا ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] جس نے اپنے نفس یعنی روح کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچ گیا ۔ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [ المؤمنون/ 1] بیشک ایمان والے رستگار ہوئے ۔ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ البقرة/ 189] تاکہ تم فلاح پاؤ ۔ إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكافِرُونَ [ المؤمنون/ 117] کچھ شک نہیں کہ کافر رستگاری نہیں پائیں گے ۔ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ الحشر/ 9] وہ تو نجات پانے والے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى [ طه/ 64] اور آج جو غالب رہا وہ کامیاب ہوا ۔ میں یہ بھی صحیح ہے کہ انہوں نے فلاح دنیوی مراد لی ہو بلکہ یہی معنی ( بلحاظ قرآن ) اقرب الی الصحت معلوم ہوتے ہیں ۔ اور سحور یعنی طعام سحر کو بھی فلاح کہا گیا ہے کیونکہ اس وقت حی علی الفلاح کی آواز بلند کی جاتی ہے اور اذان میں حی علی الفلاح کے معنی یہ ہیں کہ اس کامیابی کیطرف آؤ جو نما زکی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کر رکھی ہے ۔ اور حدیث (76) حتی خفنا ان یفوتنا الفلاح ( حتی کہ فلاح کے فوت ہوجانے کا ہمیں اندیشہ ہوا ) میں بھی فلاح سے مراد وہ کامیابی ہے جو صلاۃ عشا ادا کرنے کی وجہ سے ہمارے لئے مقدر کی گئی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ ، پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو) حسن اور ضحاک کا قول ہے کہ یہ اجازت اور رخصت ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے بیع کی ممانعت کے بعد اس کا ذکر کیا تو ظاہراً اس سے اباحت اور ممانع... ت کے رفع کا مفہوم حاصل ہوا۔ جس طرح یہ قول باری ہے (واذا حللتم فاصلادوا اور جب احرام کھول دو تو شکار کرو) ۔ ایک قول کے مطابق آیت کا مفہوم ہے ” اللہ کی اطاعت اور دعا کے ذریعے اس کا فضل تلاش کرو۔ “ ایک قول ہے کہ ” تجارت وغیرہ کے ذریعے اس کا فضل تلاش کرو۔ “ یہ بھی اباحت کا مفہوم ادا کررہا ہے۔ یہ بات زیادہ واضح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کی ابتداء میں بیع وشراء کی ممانعت کردی تھی جس طرح جمعہ کی طرف چل پڑنے کا حکم دیا تھا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں ظاہر قول باری (وابتغوا من فضل اللہ) میں بیع کی اباحت ہے جس کی ابتداء میں ممانعت کردی گئی تھی۔ ارشاد باری ہے (واخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل اللہ واخرون یقاتلون فی سبیل اللہ، اور کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں) ۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ تجارت اور دوسرے کام کاج کے ذریعے اللہ کا فضل تلاش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اباحت مراد ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اس حکم کے فوراً بعد فرمایا (واذکراللہ کثیرا، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو) آیت میں جمعہ کی نماز کے بعد سفر کی اباحت پر دلالت موجود ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ)  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠{ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ } ” پھر جب نماز پوری ہوچکے تو زمین میں منتشر ہو جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو “ یعنی جمعہ کے حوالے سے اسلام میں یہودیوں کے یوم سبت جیسی سختی نہیں ہے کہ پورا دن اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص کر دو ۔ بلکہ ... مسلمانوں سے اس دن صرف یہ تقاضا ہے کہ وہ نماز جمعہ سے قبل اپنے تمام کام کاج چھوڑ دیں۔ نہائیں دھوئیں ‘ اچھے کپڑے پہنیں ‘ خوشبو لگائیں اور بروقت مسجد میں پہنچ جائیں ‘ تاکہ تعلیمی و تربیتی نشست سے بھرپور استفادہ کرسکیں۔ اسی لیے نماز جمعہ کے لیے اوّل وقت مسجد میں آنے والے کو حدیث میں اونٹ کی قربانی کے برابر ثواب کی بشارت دی گئی ہے ۔ دوسری طرف نماز جمعہ ترک کرنے والے کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سخت وعید سنائی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (مَنْ تَرَکَ ثَلَاثَ جُمُعَاتٍ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ طُبِعَ عَلٰی قَلْبِہٖ ) (١) ” جو شخص بغیر کسی عذر کے مسلسل تین جمعے ترک کر دے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ “ اس وعیدی حکم میں بھی یہی فلسفہ کارفرما ہے کہ مسلمانوں کے درمیان کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ ہو جو تعلیم و تربیت کے اس اجتماعی پروگرام سے مستقل طور پر کٹ کر رہ جائے۔ بہرحال جمعہ کے دن ” شرعی مصروفیت “ صرف نماز جمعہ کی ادائیگی تک ہی ہے ‘ اس کے بعد ہر کوئی اپنی دنیوی مصروفیات کے لیے آزاد ہے ۔ اس لیے حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ جمعہ کے دن ” آدھی چھٹی “ قرآن مجید کے مذکورہ حکم کے مطابق کرے ۔ یعنی اگر جمعہ کے دن لوگوں کو آدھی چھٹی دینا ضروری ہے تو یہ چھٹی صبح کے وقت ہونی چاہیے تاکہ لوگ آسانی سے نماز جمعہ کی تیاری کریں ‘ نماز ادا کریں اور نماز کے بعد معمول کے مطابق اپنے کام نپٹائیں۔ { وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّــعَلَّــکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ } ” اور اللہ کو یاد کرو کثرت سے تاکہ تم فلاح پائو۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16 "This does not mean that after the Friday is over, it is obligatory to go in search of livelihood. but it only implies permission. As it was ordered to stop aII worldly business as soon as the call was made for the Prayer, so it is allowed that after the Prayer is over, the people may dispose and resume or pursue whatever occupation or business they may like. It is just like the prohibition of ... hunting in the state of ihram, but after ihram is put off, one is told to hunt. (AI-Ma'idah: 2) . That does not mean that one must hunt, but that one may hunt if one so likes. Or, for instance. in Surah An-Nisa', permission to marry more than one wife has been given, saying: "Marry two or three or four women whom you 'choose. " Here, although the verb is in the imperative mood, no one has taken it in the meaning of a command This gives the principle that the imperative form of the verb does not always imply an obligation or command it sometimes implies the permission and sometimes exercise of choice or preference. The context determines where it implies the command, where the permission and where Allah's approval of the act, and not that the act is obligatory. Immediately after this very sentence itself, it has been said: "And remember Allah much. " Here also the verb is in the imperative mood, but obviously it implies exercise of one's choice and not that it is a duty or compulsion. Here, another thing worthy of mention is that although in the Qur'an Friday has not been declared a public holiday like the Jewish Sabbath and the Christian Sunday, yet no one can deny that Friday is a symbol of the Muslim community precisely in the carne way as Saturday is a Jewish and Sunday a Christian symbol. And if declaring a day in the week a public holiday be a cultural necessity, then just as the lews naturally select Saturday for it and the Christians Sunday, so a Muslim (if he has any Islamic feeling) will necessarily select only Friday for this purpose. The Christians did not even hesitate to impose their Sunday on some other countries where Christian population was negligible. When the Jews established their state in Palestine, the first thing they did was to announce Saturday as the weekly holiday instead of Sunday. In prepartitioned India one conspicuous distinction between British India and the Muslim states was that in one part of the country Sunday was observed as a closed holiday and in the other Friday. However, where the Muslims lack Islamic values, they hold w Sunday even after attaining to sovereign power as we see in Pakistan. In case of excessive westernization Friday is replaced by Sunday as the weekly holiday as was done by Mustafa Kamal in Turkey. 17 "Remember Allah much": "Do not forget Allah even when you arc otherwise occupied; but remember Him under alI circumstances and remain conscious of Him at ail times." (For explanation, see E.N. 63 of Surah Al-Ahzab) 18 At several places in the Qur'an, after giving an-instruction or an admonition, or a command words to the effect: perhaps, you achieve success" or 'perhaps you may be shown mercy" have been used. The use of 'perhaps" on such occasions dces not mean that AIIah, God forbid, is entertaining a doubt, but it is in fact a royal style of address. It is just like a kindly master's giving out hope to his servants to continue doing their best so that they may achieve and win the desired goal and reward, It contains a subtle promise which fills the servant with hope and he carries out his duties and obligations with enthusiasm.' As the Commands pertaining to the Friday congergational prayer come to an end here, it would be useful to give a resume of the injunctions that the four schools of juristic thought have derived from the Qur'an, the Hadih, traditions of the Companions of the Holy Prophet and the general principles of Islam. According to the Hanafi school of thought, the time for the Friday Prayer is the same as for Zuhr Prayer. The Friday Prayer can neither be held before it nor after it. Business and trade become forbidden with the first call to the Prayer and not with the second call which is made after the Imam has taken his place on the pulpit, for the words of the Qur'an in this regard are explicit and definite. Therefore, whichever call is made for the Friday Prayer after the declining of the sun when the Prayer time begins, the people should stop conducting business on hearing it. However, if a person has made a bargain at that time, it will not be void, but will only be a sin. The Friday Prayer cannot be held in every settlement but only in the misr Jami which has been defined as a large town or city, where there arc market places, adequate security arrangements, and which has large enough population so that if alI the people upon whom attendance at the Friday Prayer is obligatory, gather together, they should be too many for the principal mosque to hold. The people who live outside the city will have to offer the Prayer in the city only in case the call to the Prayer reaches them, or if they live within six miles of the city. The Prayer may not necessarily be held in the mosque; it may also be held in the open field and also on a ground which is outside the city but a part of it. The Friday Prayer can be validly held only in a place where any and every person may come to attend it without any hindrance. It will not be valid if it is held in a restricted place where every person is not allowed to join in no matter how many people may gather together. For the Prayer to be valid there should at least be three men (according to Imam Abu Hanifah beside the Imam, or two men including the Imam (according to Imams Abu Yusuf and Mohammed) , upon whom it is obligatory to attend the Friday Prayer. A person will be exempt from the Prayer if he is on a journey, or is so ill that he cannot walk to attend it, or is disabled of both the legs, or is blind (but according to Imam Abu Yusuf and Imam Muhammad, a blind person will be exempt from the Prayer duty only in case he dces not find a man who can take him along for the Prayer) , or he apprehends a danger to he life and honour, or an unbearable financial loss from a tyrant, or It is raining heavily and there is slush and rainwater on the way, or he is a. prisoner, For the prisoner and the disabled, it is undesirable that they should perform the Zuhr Prayer on Friday In congregation. For those also who have missed the Friday Prayer it is undesirable to perform the Zuhr Prayer collectively, The sermon is one of the pre-requisites of the Friday Prayer to be valid, for the Holy Prophet (upon whom be peace) never performed the Friday Prayer without the Sermon; the Sermon must necessarily precede the prayer, and there should be two Sermons. From the time the Imam steps towards the pulpit for the sermon, every kind of speech becomes forbidden till he brings it to an end; no prayer may be performed during it, whether one can hear the Imam at the place where one is sitting or not. (Hedayah, Al-Fath ul-Qadir; al-Jassas: Ahkam al-Qur'an; AI-Fiqh alai-Madhahib al-Arb'ah; 'Umdat al-Qari) . According to the Shafe'is the time of the Friday Prayer is the same as of the Zuhr Prayer. Trade and business become forbidden and hastening to the remembrance of Allah becomes obligatory from the time the second call is sounded, i.e. the call which is sounded after the Imam has taken his place on the pulpit. However, if A person carries out a transaction at this time, it does not become void. The Friday Prayer can be held in every such settlement among the permanent residents of which there are 40 such men upon whom it is incumbent to perform the Prayer. Attendance at the Friday Prayer is obligatory for, those people of the suburbs whom the call may reach The Friday service must be held within the bounds of the settlement, but it may not necessarily be held in the mosque. Thus, it is not obligatory for nomadic peoples who live in tents, in the desert. For the Prayer to be valid there should at least be 40 such men including the Imam in the congregation upon whom the Prayer is incumbent. A person would be exempt from the Prayer if he is on a journey, or intends to stay at a place for four or less than four days provided that the journey is lawful, or he is old or sick and cannot go to attend the Prayer even by a conveyance, or is blind and does not find a man . who can take him along for the Prayer, or apprehends danger to lift or property or honour, or is a prisoner provided that this imprisonment has not been caused by his own crime. There should be two sermons before the Prayer. Although it is according to the Sunnah to sit quiet during the sermon, yet speech is not forbidden. For the person who is sitting close to the Imam so that he can hear the sermon, speech is disapproved, but he can respond to a greeting, and can recite prayer on the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) aloud when he hears his name being mentioned. (Mughni al-Muhtaj Al-Fiqh alal-Madhahib al-Arb'ah) . According to the Malikis, 'the Friday Prayer time begins from the declining of the sun and lasts till such time in the evening that the Sermon and the Prayer can be concluded before sunset. Business transactions become forbidden and hastening becomes obligatory with the second call. If a transaction takes place after it, it would be void and sinful. The Friday Prayer can be held in the settlements, residents of which live in permanent houses and do not migrate in the summer or the winter, and whose needs and requirements are met in the same settlements, and who can defend themselves on the basis of their strength. In temporary dwelling places the Friday 'Prayer cannot be established even though many people may be staying there and staying for long periods. Attendance at the Prayer is obligatory for the people who live within- three miles of the settlement where the Prayer is held. The Prayer can be held only in the mosque, which is inside the settlement or adjoining it, and the building of which is not inferior to the houses of the common residents of the place. Some Malikis have also imposed the condition that the mosque should be roofed, and arrangements for offering collective Prayer five times daily should also exist in it However, the better known view of the Malikis is that for the Prayer to be valid the mosque's being roofed is no pre-requisite. The Friday Prayer can also be held in a mosque which has been built only for the Friday Prayer and no arrangements exist in it for the five daily Prayers. For the Prayer to be valid there must at least be 12 other men, apart from the Imam, in the congregation upon whom the Friday Prayer is incumbent. A person would be exempt from it if he is on a journey, or intends to stay for Less than four days at a place during the journey, or is so ill that he cannot come to the mosque, or has an ailing mother or father, or wife, or child, or he is nursing a stranger who has nobody else to nurs him, or has a close relative who is seriously ill, or at the point of death, or apprehends an unbearable loss to property, or a danE to his life or honor, or is hiding from fear of imprisonment, or punishment, provided that he is a wronged and oppressed person, or it is raining heavily and there is slush and rainwater on the way, or the weather is oppressive due to excessive heat or cold. The Prayer has to be preceded by two Sermons; so much so that if the Sermon is given after the Prayer, the Prayer has to be repeated, and the Sermons must necessarily be delivered inside the mosque. It is forbidden to offer a voluntary Prayer after the Imam has stepped towards the pulpit, land to talk when the Sermon has begun, even if one is not hearing it, However, if the Imam indulges in meaningless and absurd things in the Sermon, or uses abusive language for a person who does not deserve it, or starts praising a, person for whom praise is unlawful, or starts reciting something irrelevant to the Sermon, the people have the right to protest. Furthermore, it is reprehensible that a prayer be made in the Sermon for the temporal ruler, unless the Imam apprehends danger to his life. The Imam must necessarily be the same person who leads the Prayer; if another person than the one who gave the Sermon led the Prayer it would be void. (Hashiyah ad-Dusuqi ila-sh-Sharh al-Kabir,' Ibn 'Arabi, .4hkam al-Qur an; Al-Fiqh alal-Madhahib al-'Arb ah) . According to the Hanbalis, the Friday Prayer time begins when the sun has risen about a spear's length high and lasts till the beginning of the 'Asr Prayer time in the afternoon, but performing the Prayer before the declining of the sun is just permissible but after it obligatory and meritorious. Business transactions become forbidden and hastening to the Prayer becomes obligatory with the second call, A transaction contracted after it has no effect in the law. The Prayer can be held only at a place where 40 men on whom the Friday Prayer is incumbent have permanently settled in houses (and not in tents) and are not nomadic tribesmen. For this purpose, it will not make any difference if the houses of the settlement or its different parts are scattered or compact; if their combination is called by ane name, it will be one settlement even if its different parts are miles apart. Attendance at the Prayer will be obligatory for the people who live within three miles of the settlement. The congregation should consist of 40 men including the Imam. The Prayer may not necessarily be performed in the mosque; it may be performed in the open as well. A person will be exempt from it if he is on a journey and intend to stay in the settlement for four or less than four days, or is so iII that he cannot come to the mosque even by a conveyance, or is blind unless he can grope his way to the mosque; (it is not obligatory for the blind man to come for the Prayer with another man's help) , or he is prevented by extreme weather or heavy rain or slush and rainwater, or he is hiding to escape persecution or apprehends danger to life or honour, or fears an unbearable financial loss, The Prayer should be preceded by two Sermons. The person who is sitting so close to the Imam that he can hear him, is forbidden speech; however, the one sitting far away, who cannot hear the Sermon, can speak. The people have to sit quiet during the Sermon whether the person delivering the Sermon is a just man or an unjust man. If 'Id falls on a Friday, the people who have performed the `Id Prayer will be exempt from the Friday Prayer. In this matter, the viewpoint of the Hanbalis is different from that of the other three Imams. (Ghayat al-Muntaha; AI-Fiqh alal-Madhahib al-Arb ah) , All jurists are agreed that if the person upon whom the Friday Prayer is not incumbent, joins in the Prayer, his Prayer would be valid, and he would be absolved from the Zuhr Prayer.  Show more

سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :16 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد زمین میں پھیل جانا اور تلاش رزق کی دوڑ دھوپ میں لگ جانا ضروری ہے ۔ بلکہ یہ ارشاد اجازت کے معنی میں ہے ۔ چونکہ جمعہ کی اذان سن کر سب کاروبار چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا تھا اس لیے فرمایا گیا کہ نماز ختم ہو جانے بعد تمہیں اجاز... ت ہے کہ منتشر ہو جاؤ اور اپنے جو کاروبار بھی کرنا چاہو کرو ، یہ ایسا ہی ہے جیسے حالت احرام میں شکار کی ممانعت کرنے کے بعد فرمایا : فَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ( الماعدہ ۔ 2 ) جب احرام کھول چکو تو شکار کرو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احرام کھولنے کے بعد ضرور شکار کرو ، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے بعد شکار پر کوئی پابندی باقی نہیں رہتی ۔ چاہو تو شکار کر سکتے ہو ۔ یا مثلاً سورہ نساء میں ایک سے زائد نکاح کی اجازت فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ کے الفاظ میں دی گئی ہے ۔ یہاں اگرچہ فَانْکِحُوْا بصیغۂ امر ہے ۔ مگر کسی نے بھی اس کو حکم کے معنی میں نہیں لیا ہے ۔ اس سے یہ اصولی مسئلہ نکلتا ہے کہ صیغۂ امر ہمیشہ وجوب ہی کے معنی میں نہیں ہوتا بلکہ کبھی یہ اجازت اور کبھی استحباب کے معنی میں بھی ہوتا ہے ۔ یہ بات قرائن سے معلوم ہوتی ہے کہ کہاں یہ حکم کے معنی میں ہے اور کہاں اجازت کے معنی میں اور کہاں اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ کو ایسا کرنا پسند ہے لیکن یہ مراد نہیں ہوتی کہ یہ فعل فرض و واجب ہے ۔ خود اسی فقرے کے بعد متصلاً دوسرے ہی فقرے میں ارشاد ہوا ہے وَاذْکُرُوا اللہَ کَثِیْراً ۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرو ۔ یہاں بھی صیغۂ امر موجود ہے ، مگر ظاہر ہے کہ یہ استحباب کے معنی میں ہے نہ کہ وجوب کے معنی میں ۔ اس مقام پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ قرآن میں یہودیوں کے سبت اور عیسائیوں کے اتوار کی طرح جمعہ کو عام تعطیل کا دن قرار نہیں دیا گیا ہے لیکن اس امر سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جمعہ ٹھیک اسی طرح مسلمانوں کا شعار ملت ہے جس طرح ہفتہ اور اتوار یہودیوں اور عیسائیوں کے شعار ملت ہیں ۔ اور اگر ہفتہ میں کوئی ایک دن عام تعطیل کے لیے مقرر کرنا ایک تمدنی ضرورت ہو تو جس طرح یہودی اس کے لیے فطری طور پر ہفتے کو اور عیسائی اتوار کو منتخب کرتے ہیں اسی طرح مسلمان ( اگر اس کی فطرت میں کچھ اسلامی حِس موجود ہو ) لازماً اس غرض کے لیے جمعہ ہی کو منتخب کرے گا ، بلکہ عیسائیوں نے تو دوسرے ایسے ملکوں پر بھی اپنے اتوار کو مسلط کرنے میں تامل نہ کیا جہاں عیسائی آبادی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی یہودیوں نے جب فلسطین میں اپنی اسرائیلی ریاست قائم کی تو اولین کام جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ اتوار کے بجائے ہفتہ کو چھٹی کا دن مقرر کیا ۔ قبل تقسیم کے ہندوستان میں برطانوی ہند اور مسلمان ریاستوں کے درمیان نمایاں فرق یہ نظر آتا تھا کہ ملک کے ایک حصے میں اتوار کی چھٹی ہوتی تھی اور دوسرے حصے میں جمعہ کی ۔ البتہ جہاں مسلمانوں کے اندر اسلامی حس موجود نہیں ہوتی وہاں وہ اپنے ہاتھ میں اقتدار آنے کے بعد بھی اتوار ہی کو سینے سے لگائے رہتے ہیں جیسا کہ ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں ۔ بلکہ اس سے زیادہ جب بے حسی طاری ہوتی ہے تو جمعہ کی چھٹی منسوخ کر کے اتوار کی چھٹی رائج کی جاتی ہے ، جیسا کہ مصطفیٰ کمال نے ٹرکی میں کیا ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :17 یعنی اپنے کاروبار میں لگ کر بھی اللہ کو بھولو نہیں ، بلکہ ہر حال میں اس کو یاد رکھو اور اس کا ذکر کرتے رہو ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ احزاب ، حاشیہ 63 ) ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :18 قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ایک ہدایت یا ایک نصیحت یا ایک حکم دینے کے بعد لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْ نَ ( شائد کہ تم فلاح پا جاؤ ) اور لَعَلَّکُمْ تَرْ حَمُوْنَ ( شاید کہ تم پر رحم کیا جائے ) کے الفاظ ارشاد فرمائے گئے ہیں ۔ اس طرح کے مواقع پر شاید کا لفظ استعمال کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کو معاذاللہ کوئی شک لا حق ہے ، بلکہ یہ دراصل شاہانہ انداز بیان ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی مہربان آقا اپنے ملازم سے کہے کہ تم فلاں خدمت انجام دو ، شاید کہ تمہیں ترقی مل جائے ۔ اس میں ایک لطیف وعدہ پوشیدہ ہوتا ہے جس کی امید میں ملازم دل لگا کر بڑے شوق کے ساتھ وہ خدمت انجام دیتا ہے ۔ کسی بادشاہ کی زبان سے کسی ملازم کے لیے یہ فقرہ نکل جائے تو اس کے گھر خوشی کے شادیانے بج جاتے ہیں ۔ یہاں چونکہ جمعہ کے احکام ختم ہو گئے ہیں ، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذاہب اربعہ میں قرآن ، حدیث ، آثار صحابہ ، اور اسلام کے اصول عامہ سے جو احکام جمعہ مرتب کیے گئے ہیں ان کا خلاصہ دے دیا جائے ۔ حنفیہ کے نزدیک جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے ۔ نہ اس سے پہلے جمعہ ہو سکتا ہے ، نہ اس کے بعد ۔ بیع کی حرمت پہلی اذان ہی سے شروع ہو جاتی ہے ، نہ کہ اس دوسری اذان سے جو امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی ہے ، کیونکہ قرآن میں اِذَ نُوْ دِیَ لِلصَّلوٰۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ کے الفاظ مطلقاً ارشاد ہوئے ہیں ۔ اس لیے زوال کے بعد جب جمعہ کا وقت شروع ہو جائے اس وقت جو اذان بھی نماز جمعہ کے لیے دی جائے ، لوگوں کو اسے سن کر خرید و فروخت چھوڑ دینی چاہیے ۔ لیکن اگر کسی شخص نے اس وقت خرید و فروخت کر لی ہو تو وہ بیع فاسد یا جسخ نہ ہو جائے گی ، بلکہ یہ صرف ایک گناہ ہو گا ۔ جمعہ ہر بستی میں نہیں بلکہ صرف مصر جامع میں ہو سکتا ہے ، اور مصر جامع کی معتبر تعریف یہ کہ وہ شہر جس میں بازار ہوں ، قیام امن کا انتظام موجود ہو ، اور آبادی اتنی ہو کہ اگر اس کی بڑی سے بڑی مسجد میں بھی نماز جمعہ کے مکلف سب لوگ جمع ہو جائیں تو اس میں سما نہ سکیں ۔ جو لوگ شہر سے باہ رہتے ہوں ان پر جمعہ اس صورت میں شہر آ کر پڑھنا فرض ہے جبکہ ان تک اذان کی آواز پہنچتی ہو ، یا وہ زیادہ سے زیادہ شہر سے 6 میل کے فاصلے پر ہوں ۔ نماز کے لیے ضروری نہیں کہ وہ مسجد ہی میں ہو ۔ وہ کھلے میدان میں بھی ہو سکتی ہے اور ایسے میدان میں بھی ہو سکتی ہے جو شہر کے باہر ہو مگر اس کا یاک حصہ شمار ہوتا ہو ، نماز جمعہ صرف اس جگہ ہو سکتی ہے جہاں ہر شخص کے لیے شریک ہونے کا اذنِ عام ہو ۔ کسی بند جگہ ، جہاں ہر ایک کو آنے کی اجازت نہ ہو ، خواہ کتنے ہی آدمی جمع ہو جائیں ، جمعہ صحیح نہیں ہو سکتا ۔ صحت جمعہ کے لیے ضروری ہے کہ جماعت میں کم از کم ( بقول ابو حنیفہ ) امام کے سوا تین آدمی ، یا ( بقول ابو یوسف و محمد ) امام سمیت دو آدمی ایسے موجود ہوں جن پر جمعہ فرض ہے ۔ جن عذرات کی بنا پر ایک شخص سے جمعہ ساقط ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں : آدمی حالت سفر میں ہی ، یا ایسا بیمار ہو کہ چل کر نہ آ سکتا ہو ، یا دونوں ٹانگوں سے معذور ہو ، یا اندھا ہو ( مگر امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک اندھے پر سے صرف اس وقت جمعہ کی فرضیت ساقط ہوتی ہے جبکہ وہ کوئی ایسا آدمی نہ پاتا ہو جو اسے چلا کر لے جائے ) یا کسی ظالم سے اس کو جان اور آبرو کا ، یا ناقابل برداشت مالی نقصان کا خطرہ ہو ، یا سخت بارش اور کیچڑ پانی ہو ، یا آدمی قید کی حالت میں ہو ۔ قیدیوں اور معذوروں کے لیے یہ بات مکروہ ہے کہ وہ جمعہ کے روز ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھیں ۔ جن لوگوں کا جمعہ چھوٹ گیا ہو ان کے لیے بھی ظہر کی نماز جماعت سے پڑھنا مکروہ ہے ۔ خطبہ صحت جمعہ کی شرائط میں سے ایک شرط ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی جمعہ کی نماز خطبہ کے بغیر نہیں پڑھی ہے ، اور وہ لازماً نماز سے پہلے ہونا چاہیے ، اور دو خطبے ہونے چاہییں ۔ خطبہ کے لیے جب امام منبر کی طرف جائے ، اس وقت سے اختتام خطبہ تک ہر قسم کی بات چیت ممنوع ہے ، اور نماز بھی اس وقت نہیں پڑھنی چاہیے ، خواہ امام کی آواز اس مقام تک پہنچتی ہو یا نہ پہنچتی ہو جہاں کوئی شخص بیٹھا ہو ( ہدایہ ، فتح القدیر ، احکام القرآن للجصاص ، الفقہ علی المذاہب الا ربعہ ، عمدۃ القاری ) ۔ شافعیہ کے نزدیک جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا ہے ۔ بیع کی حرمت اور سعی کا وجوب اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب دوسری اذان ہو ( یعنی وہ اذان جو امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی ہے ) ۔ تاہم اگر کوئی شخص اس وقت بیع کرے تو وہ فسخ نہیں ہوتی ۔ جمعہ ہر اس بستی میں ہو سکتا ہے جس کے مستقل باشندوں میں 40 ایسے آدمی موجود ہوں جن پر نماز جمعہ فرض ہے ۔ بستی سے باہر کے ان لوگوں پر جمعہ کے لیے حاضر ہونا لازم ہے جن تک اذان کی آواز پہنچ سکتی ہو ۔ جمعہ لازماً بستی کے حدود میں ہونا چاہیے مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ مسجد ہی میں پڑھا جائے ۔ جو لوگ صحرا میں خیموں کے اندر رہتے ہوں ان پر جمعہ واجب نہیں ہے ۔ صحت جمعہ کے لیے ضروری ہے کہ جماعت میں امام سمیت کم از کم 40 ایسے آدمی شریک ہوں جن پر جمعہ فرض ہے ۔ جن عذرات کی بنا پر کسی شخص سے جمعہ کا فرض ساقط ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں: سفر کی حالت میں ہو ، یا کسی مقام پر چار دن یا اس سے کم قیام کا ارادہ رکھتا ہو ، بشرطیکہ سفر جائز نوعیت کا ہو ۔ ایسا بوڑھا یا مریض ہو کہ سواری پر بھی جمعہ کے لیے نہ جا سکتا ہو ۔ اندھا ہو اور کوئی ایسا آدمی نہ پاتا ہو جو اسے نماز کے لیے لے جائے ۔ جان یا مال یا آبرو کا خوف لاحق ہو ۔ قید کی حالت میں ہو ، بشرطیکہ اس کی قید اس کے اپنے کسی قصور کی وجہ سے نہ ہو ۔ نماز سے پہلے دو خطبے ہونے چاہییں ۔ خطبے کے دوران میں خاموش رہنا مسنون ہے ، مگر بات کرنا حرام نہیں ہے ۔ جو شخص امام سے اتنا قریب بیٹھا ہو کہ خطبہ سن سکتا ہو اس کے لیے بولنا مکروہ ہے ، لیکن وہ سلام کا جواب دے سکتا ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سن کر بآواز بلند درود پڑھ سکتا ہے ( مغنی المحتاج ۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ ) ۔ مالکیہ کے نزدیک جمعہ کا وقت زوال سے شروع ہو کر مغرب سے اتنے پہلے تک ہے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے خطبہ اور نماز ختم ہو جائے ۔ بیع کی حرمت اور سعی کا وجوب دوسری اذان سے شروع ہوتا ہے ۔ اس کے بعد اگر بیع واقع ہو تو وہ فاسد ہے اور فسخ ہوگی ۔ جمعہ صرف ان بستیوں میں ہو سکتا ہے جن کے باشندے وہاں مستقل طور پر گھر بنا کر رہتے ہوں ، اور جاڑے گرمی میں منتقل نہ ہوتے ہوں ، اور ان کی ضروریات اسی بستی میں فراہم ہوتی ہوں ، اور اپنی تعداد کی بنا پر وہ اپنی حفاظت کر سکتے ہوں ۔ عارضی قیام گاہوں میں خواہ کتنے ہی لوگ ہوں اور خواہ وہ کتنی ہی مدت ٹھہریں ، جمعہ قائم نہیں کیا جا سکتا ۔ جس بستی میں جمعہ قائم کیا جاتا ہو اس سے تین میل کے فاصلے تک رہنے والے لوگوں پر جمعہ میں حاضر ہونا فرض ہے ۔ نماز جمعہ صرف ایسی مسجد میں ہو سکتی ہے جو بستی کے اندر یا اس سے متصل ہو اور جس کی عمارت بستی کے عام باشندوں کے گھروں سے کم تر درجے کی نہ ہو ۔ بعض مالکیوں نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ مسجد مسقف ہونی چاہیے اور اس میں پنج وقتہ نماز کا بھی اہتمام ہونا چاہیے ۔ لیکن مالکیہ کا راجح مسلک یہ ہے کہ کسی مسجد میں صحت جمعہ کے لیے اس کا مسقف ہونا شرط نہیں ہے ، اور ایسی مسجد میں بھی جمعہ ہو سکتا ہے جو صرف نماز جمعہ کے لیے بنائی گئی ہو اور پنج وقتہ نماز کا اس میں اہتمام نہ ہو ۔ جمعہ کی نماز صحیح ہونے کے لیے جماعت میں امام کے سوا کم از کم 12 ایسے آدمیوں کا موجود ہونا ضروری ہے جن پر جمعہ فرض ہو ۔ جن عذرات کی بنا پر کسی شخص پر سے جمعہ کا فرض ساقط ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں : سفر کی حالت میں ہو یا بحالت سفر کسی جگہ چار دن سے کم قیام کا ارادہ رکھتا ہو ۔ ایسا مریض ہو کہ مسجد آنا اس کے لیے دشوار ہو ۔ اس کی ماں یا باپ یا بیوی یا بچہ بیمار ہو ، یا وہ کسی ایسے اجنبی مریض کی تیمارداری کر رہا ہو جس کا اور کوئی تیماردار نہ ہو ، یا اس کا کوئی قریبی رشتہ دار سخت بیماری میں مبتلا ہو یا مرنے کے قریب ہو ۔ اس کے ایسے مال کو جس کا نقصان قابل برداشت نہ ہو خطرہ لاحق ہو ، یا اسے اپنی جان یا آبرو کا خطرہ ہو ، یا وہ مار یا قید کے خوف سے چھپا ہوا ہو بشرطیکہ وہ اس معاملہ میں مظلوم ہو ۔ سخت بارش اور کیچڑ پانی یا سخت گرمی یا سردی مسجد تک پہنچنے میں مانع ہو ۔ دو خطبے نماز سے پہلے لازم ہیں ، حتیٰ کہ اگر نماز کے بعد خطبہ ہو تو نماز کا اعادہ ضروری ہے ۔ اور یہ خطبے لازماً مسجد کے اندر ہونے چاہییں خطبے کے لیے جب امام منبر کی طرف آواز نہ سن رہا ہو ۔ لیکن اگر خطیب اپنے خطبے میں ایسی لغو باتیں کرے جو نظام خطبہ سے خارج ہوں ، یا کسی ایسے شخص کو گالیاں دے جو گالی کا مستحق نہ ہو ، یا کسی ایسے شخص کی تعریفیں شروع کر دے جس کی تعریف جائز نہ ہو ، یا خطبہ سے غیر متعلق کوئی چیز پڑھنے لگے ، تو لوگوں کو اس پر احتجاج کرنے کا حق ہے ۔ نیز خطبہ میں بادشاہ وقت کے لیے دعا مکروہ ہے الا یہ کہ خطیب کو اپنی جان کا خطرہ ہو ۔ خطیب لازماً وہی شخص ہونا چاہیے جو نماز پڑھائے ۔ اگر خطیب کے سوا کسی اور نے نماز پڑھائی ہو تو وہ باطل ہو گی ( حاشیہ الدسوقی علی الشرح الکبیر ۔ احکام القرآن ابن عربی ۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ ) ۔ حنابلہ کے نزدیک جمعہ کی نماز کا وقت صبح کو سورج کے بقدر ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد سے عصر کا وقت شروع ہونے تک ہے ۔ لیکن زوال سے پہلے جمعہ صرف جائز ہے ، اور زوال کے بعد واجب اور افضل ۔ بیع کی حرمت اور سعی کے وجوب کا وقت دوسری اذان سے شروع ہوتا ہے ۔ اس کے بعد جو بیع ہو وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتی ۔ جمعہ صرف اس جگہ ہو سکتا ہے جہاں 40 ایسے آدمی جن پر جمعہ فرض ہو ، مستقل طور پر گھروں میں ( نہ کہ خیموں میں ) آباد ہوں ، یعنی جاڑے اور گرمی میں منتقل نہ ہوتے ہوں ۔ اس غرض کے لیے بستی کے گھروں اور محلوں کے باہم متصل یا متفرق ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، ان سب کے مجموعہ کا نام ایک ہو تو وہ ایک ہی بستی ہے خواہ اس کے ٹکڑے ایک دوسرے سے میلوں کے فاصلے پر واقع ہوں ۔ ایسی بستی سے جو لوگ تین میل کے اندر رہتے ہوں ان پر جمعہ کے لیے حاضر ہونا فرض ہے ۔ جماعت میں امام سمیت 40 آدمیوں کی شرکت ضروری ہے ۔ نماز کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ مسجد ہی میں ہو ۔ کھلے میدان میں بھی ہو سکتی ہے ۔ جن عذرات کی بنا پر کسی شخص سے جمعہ کا فرض ساقط ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں: مسافر ہو اور جمعہ کی بستی میں چار دن یا اس سے کم قیام کا ارادہ رکھتا ہو ۔ ایسا مریض ہو کہ سواری پر آنا بھی اس کے لیے مشکل ہو ۔ اندھا ہو ، الا یہ کہ خود راستہ ٹٹول کر آ سکتا ہو ۔ کسی دوسرے شخص کے سہارے آنا اندھے کے لیے واجب نہیں ہے ۔ سخت سردی یا سخت گرمی یا سخت بارش اور کیچڑ نماز کی جگہ پہنچنے میں مانع ہو ۔ کسی ظالم کی ظلم سے بچنے کے لیے چھپا ہوا ہو ۔ جان یا آبرو کا خطرہ یا ایسے مالی نقصان کا خوف ہو جو قابل برداشت نہ ہو ۔ نماز سے پہلے دو خطبے ہونے چاہییں ۔ خطبے کے دوران میں اس شخص کے لیے بولنا حرام ہے جو خطیب سے اتنا قریب ہو کہ اس کی آواز سن سکتا ہو ۔ البتہ دور کا آدمی جس تک خطیب کی آواز نہ پہنچتی ہو ، بات کر سکتا ہے ۔ خطیب خواہ عادل ہو یا غیر عادل ، لوگوں کو خطبہ کے دوران میں چپ رہنا چاہیے ۔ اگر جمعہ کے روز عید ہو جائے تو جو لوگ عید پڑھ چکے ہوں ان پر سے جمعہ کا فرض ساقط ہے ۔ اس مسئلے میں حنابلہ کا مسلک ائمہ ثلاثہ کے مسلک سے مختلف ہے ( غایتہ المنتہیٰ ۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ ) ۔ اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ جس شخص پر جمعہ فرض نہیں ہے وہ اگر نماز جمعہ میں شریک ہو جائے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اس کے لیے پھر ظہر پڑھنا فرض نہیں رہتا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: جیسا کہ بارہا گزرچکا ہے، اللہ کا فضل تلاش کرنا قرآنِ کریم کی اصطلاح میں تجارت وغیرہ کے ذریعے روزگار حاصل کرنے کو کہا جاتا ہے، لہٰذا مطلب یہ ہے کہ خرید وفروخت پر جو پابندی اذان کے بعد عائد ہوئی تھی، جمعہ کی نماز ختم ہونے کے بعد وہ اٹھ جاتی ہے اور خرید وفروخت جائز ہوجاتی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(62:10) فاذا قضیت الصلوٰۃ : ف عاطفہ، اذا۔ جب۔ ظرف زمان۔ شرطیہ ۔ قضیت : ماضی مجہول واحد مؤنث غائب قضاء (باب ضرب) مصدر۔ نماز ادا کرنا ق۔ ض۔ ی مادہ۔ پھر جب نماز ادا ہوچکے ۔ جملہ شرط ہے۔ فانشروا : ف جواب شرط کے لئے ہے انشروا : فعل امر، جمع مذکر حاضر۔ انتشار (افعال) مصدر۔ تم منتشر ہوجاؤ۔ تم الگ الگ ہو... جاؤ۔ تم بکھر جاؤ۔ عربی میں لوگوں کے انتشار کا مطلب ان کا پھیل کر اپنے اپنے کام میں لگ جانا ہے۔ جملہ جواب شرط ہے۔ وابتغوا من فضل اللہ۔ واؤ عاطفہ ابتغوا فعل امر جمع مذکر حاضر۔ ابتغاء (افتعال) مصدر۔ تم تلاش کرو۔ من تبعیضیہ ہے ۔ فضل اللہ مضاف مضاف الیہ۔ اللہ کا فضل۔ فضل سے کیا مراد ہے ؟ اس میں مختلف اقوال ہیں :۔ (1) بعض اہل علم نے کہا کہ زمین پر پھیل جانے سے مراد دنیا کمانے کے لئے پھیلنا نہیں ہے۔ بلکہ بیمار کی عیادت، کسی جنازہ کی شرکت اور اللہ کی رضا کی خاطر دوست کی ملاقات کے لئے جانا ہے۔ (2) بعض نے خداداد روزی اس کا مطلب لیا ہے۔ (3) بعض نے اس سے علم حاصل کرنا مراد لیا ہے۔ فضل اللہ کی تلاش کے لئے پھیل جانا و جو بی نہیں ہے بلکہ اباحت کے لئے ہے اس جملہ کا عطف بھی جملہ سابقہ پر ہے۔ اور یہ بھی جواب شرط میں ہے۔ واذکروا اللہ کثیرا۔ یہ بھی جملہ معطوفہ ہے اور جواب شرط میں ہے۔ یعنی نہ صرف زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا رزق تلاش کرو بلکہ ہر حال میں اللہ کو ہرگز نہ بھولو اور اسے ہر وقت اور کثرت سے یاد کیا کرو۔ ذکر اللہ کو محض نماز تک مخصوص اور محدود نہ رکھو۔ بلکہ ہر وقت دوسرے دنیاوی کام کرتے وقت بھی اللہ کو یاد کیا کرو۔ اذکروا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ ذکر (باب نصر) مصدر سے۔ کثیرا صفت ہے موصوف محذوف ہے۔ ای ذکرا کثیرا مفعول مطلق ہے۔ لعلکم : تاکہ تم۔ بمعنی کی۔ تاکہ۔ تفلحون۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ افلاح (افعال) مصدر۔ تم فلاح پاؤ۔ تم فلاح پاؤ گے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ ” یہود کے ہاں عبادت کا دن ہفتہ تھا اور نصاریٰ کے ہاں، اتوار) سارا دن سودا صکاروبار) منع تھا۔ اس واسطے فرما دیا کہ تم نماز کے بعد روزی کی تلاش کرو اور روزی کی تلاش میں بھی اللہ کو نہ بھولو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی اس وقت دنیا کے کاموں کے لئے چلنے پھرنے کی اجازت ہے۔ 4۔ یعنی اشغال دنیویہ میں ایسے منہمک مت ہوجاو کہ احکام و عبادات ضروریہ سے غافل ہوجاو

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں نماز جمعہ کے لیے کاروبار چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب جمعہ کے بعد کاروبار کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ حکم ہوا کہ جب تم نماز مکمل کرلو تو اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ جب انہوں نے تجارت اور کھیل...  تماشا دیکھا تو اس کی طرف دوڑ پڑے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے فرمائیں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے کھیل، تماشے اور تجارت سے بہت بہتر ہے۔ یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ بہتررزق دینے والا ہے۔ اس آیت میں ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اس طرح ہے کہ مدینہ کی منڈی میں دحیہ کلبی کا تجارتی قافلہ عین اس وقت پہنچا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اس زمانے میں کوئی قافلہ مال لے کر منڈی میں آتا تو اطلاع کے لیے ڈھول یادف بجایا جاتا تھا۔ مدینہ میں اناج کی کمی پیدا ہوچکی تھی اس صورت حال میں تجارتی قافلے کے آنے پر جب ڈھول بجایا گیا تو جمعہ میں حاضر ہونے والے چند صحابہ کے سوا باقی سب ایک ایک کرکے مسجد سے نکلے اور منڈی میں پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حرکت پر گرفت کرتے ہوئے یہ فرمان نازل فرمایا کہ جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے ہوئے دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ کر اس کی طرف چلے گئے۔ انہیں فرمائیں کہ ان کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں تھا کیونکہ رزق اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ لہٰذا جمعہ اور نماز کا وقت ہو تو لوگوں کو ہر قسم کی خریدو فروخت چھوڑ کر جمعہ اور نماز کی طرف آنا چاہیے۔ جمعہ اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد ” اللہ “ کا فضل تلاش کرنے کے لیے زمین پر پھیل جاؤ اور اس بات پر ایمان رکھو کہ رزق دینے والا صرف ” اللہ “ ہے جو بہترین رزق دینے والا ہے، یاد رکھو کہ اس نے رزق کا ایسا بندوبست کیا ہے کہ رزق کھانے والا جہاں بھی ہو اس کا رزق وہاں پہنچا دیتا ہے، کوئی اس کے نظام میں دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ (وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَ مَسْتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ) (ہود : ٦) ” زمین میں چلنے والا کوئی جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی کے ذمہ ہے اور وہ اس کی قرار گاہ اور اس کے دفن کیے جانے کی جگہ کو جانتا ہے سب کچھ ایک کھلی کتاب میں درج ہے۔ “ (اِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ ) (الذّاریات : ٥٨) ” یقیناً اللہ ہی رزق دینے والا، بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ “ مسائل ١۔ جمعہ اور نماز مکمل ہونے کے بعد مسلمانوں کو اللہ کا فضل تلاش کرنا چاہیے۔ ٢۔ مسلمانوں کو کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ کا ذکر کرنے والے ہی کامیاب ہوں گے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بہترین رزق دینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن رزق صرف ” اللہ “ کے اختیار میں ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٢۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (سبا : ٣٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں سے رزق نہیں مانگتا بلکہ وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ٤۔ اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ مہاجروں کو ضرور بہتر رزق دے گا۔ (الحج : ٥٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ چوپاؤں اور تمام انسانوں کو رزق دیتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٠) ٧۔ اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو کیونکہ اللہ تمہیں اور انھیں رزق دینے والا ہے۔ (الانعام : ١٥١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاذ قضیت ........................ تفلحون (٢٦ : ٠١) ” پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاﺅ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو ، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے “۔ یہ ہے اسلامی نظام کا توازن۔ یعنی زمین ضر ضروریات زندگی کا توازن۔ مثلاً کام کاج اور تلاش معاش اور روح کا ذک... ر الٰہی میں مشغول کرنا اور ایک وقت کے لئے تلاش معاش کی سرگرمیوں سے نکل کر عزات نشیں ہوکر ذکر وفکر میں مشغول ہونا ، قلبی زندگی کے لئے یہ ضروری ہے اور اس قلبی اور روحانی بالیدگی کے بغیر کوئی شخص اس عظیم امانت کا حق ادا نہیں کرسکتا جو ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے اور ذکر الٰہی تلاشمعاش کے دوران بھی ضروری ہے۔ اور تلاش معاش کے اندر بھی اگر ذکر وفکر ہو تو یہ تلاش معاش عبادت بن جاتا ہے لیکن تلاش معاش کے دوران ذکر وفکر کے علاوہ ایک وقت صرف ذکر وفکر کے لئے خالص بھی ضروری ہے۔ جس میں اور کوئی کام نہ ہو جس طرح ان دو آیات میں اشارہ ہے۔ حضرت عراک ابن مالک (رض) جب جمعہ کی نماز پڑھتے تھے تو مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر یہ فرماتے ہیں۔ اے اللہ میں نے آپ کی پکار کی تعمیل کردی اور فرض نماز ادا کردیا اور اب میں مسجد سے نکل رہا ہوں جس طرح تو نے حکم دیا ہے ، اے اللہ مجھے اپنا فضل نصیب کر۔ آپ خیرالرازقین ہیں (ابن ابو حاتم) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ حکم الٰہی کو کس سنجیدگی سے لیا کرتے تھے۔ کس قدر سادگی سے ، کیونکہ ان کے دل میں شعور تھا کہ ، قرآن اللہ کے احکام پر مشتمل ہے اور مسلمانوں نے اس کی تعمیل کرنی ہے۔ صحابہ کرام کا یہ سادہ ادراک ، سنجیدہ طرز عمل اور نہایت ہی سادگی سے رب تعالیٰ سے ہمکلامی ہی وہ عوامل تھے جن کی وجہ سے وہ اس قدر بلند مقام تک پرواز کرگئے ، حالانکہ وہ جاہلیت سے نکل کر آئے تھے ، اور جاہلیت کی عادات اور میلانات ان کو ہر وقت اپنی طرف کھینچتے تھے۔ اور جاہلیت کی ایک عادت کا نمونہ اس سورت کی آخری آیات میں پیش کیا جاتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نماز جمعہ کے بعد زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو : اس کے بعد ارشاد فرمایا ﴿ فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ ﴾ (الآیۃ) (یعنی جب نماز ختم ہوجائے تو تم زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو) ۔ یہ امرو جوب کے لیے نہیں ہے اباحت اور اجازت کے لیے ہے۔ مطلب یہ کہ جب...  نماز ختم ہوگئی تو مسجد کی حاضری والا کام ختم ہوگیا اب اپنے دنیاوی مشاغل میں لگ سکتے ہو مسجد سے فارغ ہو کر بازار میں جاؤ۔ اللہ کا رزق حاصل کرو۔ جمعہ کی حاضری کے لیے جو کاروبار چھوڑ کر آئے تھے چاہو تو اس میں لگ جاؤ چونکہ یہ امراباحت کے لیے ہے اس لئے اگر کوئی شخص نماز پڑھ کر عصر تک یا مغرب تک مسجد میں رہ جائے اعتکاف، تلاوت ذكر، ساعت اجابت کی تلاش میں وقت گزارے تو یہ بھی اچھی بات ہے۔ خریدو فروخت کی اجازت دینے کے بعد ﴿ وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ٠٠١٠﴾ بھی فرمایا اور یہ بتادیا کہ خریدو فروخت کی مشغولیت یا دوسرے کام اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں، مومن کو ہر حال میں اللہ کے ذکر میں لگا رہنا چاہئے جو حاصل زندگی ہے، نماز بھی اللہ کے ذکر کے لئے ہے جیسا کہ سورة طہ میں فرمایا ہے۔ ﴿وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ ٠٠١٤﴾ (کہ نماز کو میرے ذکر کے لئے قائم کرو) سورة العنکبوت میں فرمایا ﴿ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ﴾ (اور یقیناً اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے) سورة الاحزاب میں فرمایا ہے : ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًاۙ٠٠٤١ وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا ٠٠٤٢﴾ (اے ایمان والو ! اللہ کا ذکر کرو خوب زیادہ اور صبح وشام اس کی تسبیح میں مشغول رہو) پھر فرمایا ﴿لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ٠٠١٠﴾ (تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ) اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے۔ اس میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے اس سے قلب کو راحت ہوتی ہے اطمینان حاصل ہوتا ہے چونکہ بازار میں بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے خریدو فروخت کی آوازیں لگتی ہیں۔ غفلت کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں اس لئے طلب رزق کے ساتھ کثرت ذکر کا بھی حکم فرمایا۔ ذیل میں لکھے ہوئے الفاظ پڑھنے کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص بازار میں داخل ہوا اور اس نے یہ کلمات پڑھے : لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحییٰ ویمیت وھو حی لایموت بیدہ الخیرو ھو علی کل شیء قدیر (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لئے ملک ہے اور اسی کے لیے حمد ہے، وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہ زندہ ہے اسے موت نہ آئے گی، اسی کے ہاتھ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے) ۔ تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ دس لاکھ نیکیاں لکھ دیں گے اور دس لاکھ گناہ معاف فرما دیں گے اور دس لاکھ درجے بلند فرما دیں گے اور اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنادیں گے۔ (رواہ الترمذی وابن ماجہ)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” فاذا قضیت “ جب نماز جمعہ سے فارگ ہوجاؤ تو بدستور خریدو فروخت اور دیگر کاروبار میں لگ جاؤ اور اپنی روزی تلاش کرو اور اللہ کو بہت یاد رکھو۔ اللہ کی یاد کو صرف نماز ہی سے مختص نہ کرو بلکہ ہر وقت اس کو یاد کرتے رہو۔ اللہ کی یاد زبان سے یاد کرنے ہی میں منحصر نہیں اگر کوئی شخص اپنے کاروبار میں اللہ...  کو یاد رکھتا ہے تو وہ بھی ذکر اللہ میں مصروف ہے۔ واذکروا کثیرا فی مجامع احوالکم ولا تخصوا ذکرہ بالصلوۃ الخ (مظہری ج 9 ص 298) ۔ اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرنا فلاح دارین کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) پھر جب نماز پوری ہوچکے تو اختیار ہے کہ تم زمین میں چلو پھرو اور اللہ تعالیٰ کا فضل یعنی اس کی روزی کی تلاش کرو اور اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پائو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہود کے ہاں عبادت کا دن ہفتہ تھا سارے دن سودا منع تھا اسی واسطے روزی کی تلاش کرو اور روزی کی تلاش ... میں بھی اللہ کی یاد کو نہ بھولو۔ خلاصہ : یہ کہ یہود کے ہاں ہفتہ اور نصاری کے ہاں اتوار کا دن عبادت کے لئے مقرر تھا امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے جمعہ کا دن مقرر فرمایا احادیث میں جمعہ کی بہت فضیلت آئی ہے ایک روایت میں ہے جو شخص جمعہ کے دن مرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے شہید کا اجر لکھتا ہے اور اس کی قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے جمعہ کے دن صرف خطبے اور نماز کے لئے بیع وشرا کے بند کرنے کا حکم دیا گیا اور نماز کے بعد اجازت دی گئی اور کاروبار کی اباحت کا اعلان فرمایا تلاش معاش اور روزی کی جستجو کو اپنا فضل فرمایا۔ جیسا کہ قرآن کا عام قاعدہ ہے کہ رحمت روحانی ترقی کے لئے اور فضل مالی ترقی کے لئے عام طور پر استعمال کرتا ہے اگرچہ کبھی کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے پھر تاکید فرمائی کہ تلاش روزگار یا کاروبار اور تجارت کا یہ مطلب ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یاد یا اس کے ذکر سے بالکل غافل ہوجائو کوئی شغل بھی ہو اللہ تعالیٰ کو ہر حال میں یاد کرتے رہو خواہ ذکر لسانی ہوی ا ذکر قلبی ہو اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی حقیقی زندگی ہے ورنہ غافل میں زندگی کہاں آگے اس سلسلے میں ایک خاص واقعہ کا ذکر فرمایا جو ایک جمعہ کو عین خطبے کی حالت میں پیش آگیا تھا وہ یہ کہ مدینہ منورہ میں غلے کی کمی تھی لوگ مال کے آنے کے منتظر تھے۔ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے جمعہ کا خطبہ فرما رہے تھے یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب خطبہ نماز کے بعد ہوا کرتا تھا یا شاید اسی دور کا ذکر ہے جب خطبہ پہلے اور نماز بعد میں ہوا کرتی تھی بہرحال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دے رہے تھے اور عین خطبے کی حالت میں کوئی قافلہ غلہ کا دف بجاتا ہو نقارہ پیٹتا ہوا بازار میں آگیا لوگ غلہ خریدنے کے خیال سے اٹھ اٹھ کر بازار میں چلنے شروع ہوگئے یہاں تک کہ مسجد میں صرف بارا آدم یخطبہ سنتے رہ گئے اور سب چلے گئے چاروں خلفائے راشدین اور آٹھ اور حضرات بیٹھے رہے اس پر حضرت حق تعالیٰ نے تنبیہہ فرمائی چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔  Show more