Surat ul jumaa

Surah: 62

Verse: 4

سورة الجمعة

ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۴﴾

That is the bounty of Allah , which He gives to whom He wills, and Allah is the possessor of great bounty.

یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے اپنا فضل دے اور اللہ تعالٰی بہت بڑے فضل کا مالک ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

That is the grace of Allah, which He bestows on whom He wills. And Allah is the Owner of mighty grace. refers to the great Prophethood that He granted Muhammad and the qualities that He favored his Ummah with, by sending Muhammad to them.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یہ اشارہ نبوت محمدی کی طرف ہوسکتا ہے اور اس پر ایمان لانے والوں کی طرف بھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] یہود اگر جلتے ہیں تو جلتے رہیں۔ وہ کوئی اللہ کے فضل کے ٹھیکیدار نہیں ہیں کہ رسول اگر آنا تھا تو انہی کی قوم میں سے آنا چاہیے تھا۔ اور یہ فضل بھی کیا کم ہے کہ تاقیامت تمام روئے زمین کی قیادت پیغمبر اسلام اور آپ کی امت کے سپرد کردی گئی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِکَ فَضْلُ اللہ ِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ۔۔۔۔۔: یعنی امیوں میں نبی معبوث کرنا اور اسے بعد میں قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لیے رسول بنانا اللہ کا فضل ہے ، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے ، وہ یہود یا کسی اور کی خواہش کا پابند نہیں کہ اسی کو اپنے فضل سے نوازے جسے وہ چاہیں اور نہ ہی یہ کسی کی محنت و کوشش پر موقوف ہے کہ کوئی ریاضت اور محنت کے ساتھ نبوت کا منصب حاصل کرلے ، بلکہ یہ سراسر اللہ کے انتخاب اور اس کی مرضی پر موقوف ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :(اَﷲُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ) ( الحج : ٧٥)” اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے چنتا ہے اور لوگوں سے بھی “۔ اور فرمایا :(اَﷲُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسٰلَتَہٗ ) ( الانعام : ١٢٤)” اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے “۔ اور فرمایا :(وَ اللہ ُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُط وَ اللہ ُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ) ( البقرہ : ١٠٥) ” اور اللہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہتا ہے خاص کرلیتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے “۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ ۭ وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۝ ٤ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم/ 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] . ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : {إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا } [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

توحید، نبوت اور کتاب یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اس چیز کا اہل ہوتا ہے اللہ اس دولت کے ساتھ اس کو سرفراز کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والے ہیں کہ حضور کو اسلام اور نبوت عطا فرمائی یا یہ کہ مسلمانوں کو اسلام کی دولت دی یا یہ کہ اپنی مخلوق پر رسول اور کتاب کے ذریعے سے اپنا فضل فرمایا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ { ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُـؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ } ” یہ اللہ کا فضل ہے وہ دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ “ { وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ۔ } ” اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بہت سے درجات ہیں اور ان میں سب سے اونچا اور اعلیٰ درجہ پوری کائنات میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مختص ہے : { اِنَّ فَضْلَہٗ کَانَ عَلَیْکَ کَبِیْرًا ۔ } (بنی اسرائیل) ” اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا فضل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بہت بڑا ہے “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ہر اس شخص پر بھی اللہ کا بہت بڑا فضل ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن سے وابستہ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمیں اس نے اپنا یہ فضل پیدائشی طور پر عطا فرما دیا اور ہمیں ایسے گھروں میں پیدا کیا جہاں پیدا ہوتے ہی ہم نے اپنے کانوں میں اذان اور اقامت کی آوازیں سنیں۔ سورة الحجرات میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ھَدٰٹکُمْ لِلْاِیْمَانِ } (آیت ١٧) کہ تم پر یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ اب اگر ہم اپنے رویے سے اللہ کے اس فضل اور احسان کی ناقدری کریں اور اللہ کی نافرمانی کے راستے پر چل کر راندئہ درگاہ ہوجائیں تو ہم سے بڑا بدنصیب کون ہوگا ! اس حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی سمجھنے کا ہے کہ اللہ کے فضل کا تعلق دنیوی آسائش و آرام اور مال و دولت سے نہیں ہے۔ اس ضمن میں خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مثال ہی لے لیجیے۔ دُنیوی لحاظ سے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت سی محرومیوں کا سامنا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے یتیم پیدا کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش کے وقت گھر کی مالی حالت ایسی تھی کہ کوئی دایہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پرورش کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہ تھی۔ حلیمہ سعدیہ (رض) نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف اس لیے قبول کیا کہ انہیں کوئی اور بچہ ملا نہیں تھا۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لڑکپن اور جوانی کا دور بھی سخت مشقت اور مزدوری میں گزرا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود فرماتے ہیں کہ میں چند ٹکوں کے عوض قریش کی بکریاں چرایا کرتا تھا ۔ متعلقہ حدیث میں درہم یا دینار کا ذکر نہیں بلکہ ” قراریط “ کا لفظ آیا ہے جو ریزگاری کے لیے استعمال ہوتا تھا ‘ یعنی چند ٹکے یا پیسے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس دور کی زندگی کی جھلک سورة الضحیٰ کی ان آیات میں بھی نظر آتی ہے : { اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی - وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی - وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی ۔ } ” کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر آپ کو ٹھکانہ دیا ! اور آپ کو تلاش حقیقت میں سرگرداں پایا تو راہ دکھلائی ! اور آپ کو نادار پایا تو مال دار کردیا ! “ اس کے بعد دور نبوت میں بھی آپٖ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی مسلسل فقر و فاقہ اور مصائب و مشکلات میں گزری۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر اور مجنون کہا گیا ‘ اوباش اور آوارہ لڑکوں نے پتھرائو کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لہولہان کردیا۔ غرض آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دنیوی زندگی مجموعی طور پر سخت مشکلات اور مشقت میں گزری ۔ جبکہ دوسری طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان یہ ہے کہ پوری کائنات میں اللہ کا سب سے بڑا فضل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہے۔ چناچہ اللہ کے فضل کے اپنے انداز اور اپنے پیمانے ہیں ۔ دنیوی ناز و نعم ‘ عیش و عشرت ‘ عزت و شہرت وغیرہ کو اس کا معیار نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہاں پر سورة کی پہلی چار آیات کا مطالعہ مکمل ہوگیا ہے۔ ان آیات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے حوالے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض منصبی کا ذکر ہے اور اس امت کی ” آفاقی “ حیثیت کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یعنی سابقہ امت مسلمہ (بنی اسرائیل) یک نسلی (uni racial) اُمت تھی ‘ جبکہ موجودہ امت مسلمہ ملٹی نیشنل امت ہے ‘ جس میں عربی ‘ فارسی ‘ ہندی ‘ چینی وغیرہ ہر قوم اور ہر نسل کے لوگ شامل ہیں ‘ بلکہ اس وقت دنیا میں شاید ہی ایسی کوئی قوم یا نسل موجود ہو جس کے افراد اس امت میں شامل نہ ہوں۔ ان آیات میں دوسری بات یہ واضح کی گئی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آلہ دعوت اور آلہ تربیت صرف اور صرف قرآن تھا۔ اسی سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور اسی سے انہیں انقلابی جدوجہد اور جہاد و قتال کے لیے تیار کیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: یہودی یہ چاہتے تھے کہ آخر زمانے کے نبی اُنہی میں سے یعنی بنی اسرائیل میں سے آئیں، اور عرب کے بت پرست یہ کہتے تھے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کو کوئی نبی بھیجنا تھا تو وہ ہمارے بڑے سرداروں میں سے کوئی ہونا چاہئے تھا (دیکھئے سورۃ زخرف (۴۳:۳۱) اﷲ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ نبوت و رِسالت اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے، دیتا ہے۔ کسی اور کے لئے اس معاملے میں دخل دینے کی گنجائش نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(62:4) ذلک اسم اشارہ، اس کا مشار الیہ بعثت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعلیم رسول۔ تزکیہ گمراہان۔ یؤتیہ۔ مضارع واحد مذکر ایتاء (افعال) مصدر۔ وہ دیتا ہے۔ وہ عطا کرتا ہے۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع فضل ہے۔ من موصولہ، یشاء اس کا صلہ، جسے وہ چاہتا ہے۔ واللہ ذوالفضل العظیم : جملہ معترضہ تذلیلی ہے ما سبق کی تائید کے لئے ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ بڑے فضل کا مالک ہے۔ ذوا مضاف الفضل العظیم موصوف صفت مل کر مضاف الیہ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر اللہ کی صفت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اَ ن پڑھ اور گمراہ ترین لوگوں میں ایک پاکباز اور اُمّی شخص کو اپنا رسول منتخب کرنا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر عظیم ترین فضل ہے کہ اس نے ایک اَن پڑھ اور بدعمل قوم میں ایک ایسی شخصیت کو اپنا رسول منتخب کیا جس کا نبوت سے پہلے بھی اخلاق اور کردار اس قدر شاندار تھا کہ جس کی ہر شخص تعریف کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا دوسرا فضل یہ ہے کہ اس نے انسانوں میں ایک ہمہ صفت موصوف انسان کو اپنا رسول منتخب کیا اس لیے کہ وہ لوگوں کو آسان زبان میں اس کا پیغام پہنچائے اور اس پر عمل کرکے دکھلائے تاکہ لوگوں کو اللہ کا حکم سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ کا اہل مکہ پر تیسرا خاص فضل یہ ہوا کہ اس نے مکہ میں ایک ایسا رسول مبعوث فرمایا جسے اور اس کے خاندان کو مکہ والے اچھی طرح جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے چوتھا فضل یہ فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے اہل مکہ بالخصوص قریش کی عزت اور وقار میں بےپناہ اضافہ ہوا لیکن اس کے باوجود ان کے بہت سے لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لائے۔ خاص طور پر یہودیوں کے لیے یہ بات بڑی ناگوار ہوئی اور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل میں نبی کیوں مبعوث کیا ہے۔ کفار اور یہودیوں کے حسد و بغض کی وجہ سے ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص یا گروہ کا پابند نہیں کہ وہ ان کی مرضی کے مطابق اپنا فضل نازل کرے یہ اس کا اپنا اختیار اور انتخاب ہے کہ جس پر چاہے اپنا فضل فرمائے کیونکہ وہ بڑا ہی صاحب فضل ہے، یہاں فضل سے پہلی مراد نبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منتخب فرمایا اور آپ سب سے آخری نبی اور رسول ہیں، اب نبوت کی صورت میں قیامت تک اللہ تعالیٰ کسی پر اپنا فضل نہیں فرمائے گا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنا فضل فرماتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ عظیم فضل کا مالک ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے فضل کی مختلف صورتیں : ١۔ اللہ تعالیٰ جہان والوں پر فضل کرنے والا ہے۔ (البقرۃ : ٢٤٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ مومنوں پر اپنا فضل فرماتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٢) ٣۔ اللہ کا فضل نہ ہو تو آدمی شیطان کے تابع ہوجاتا ہے۔ (النساء : ٧٣) ٤۔ اللہ کے فضل کے بغیر انسان خسارہ پاتا ہے۔ (البقرۃ : ٦٤) ٥۔ اللہ کے فضل کے بغیر انسان تکلیف سے نہیں بچ جاسکتا۔ (النور : ١٤) (آل عمران : ٧٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذلک فضل .................... العظیم (٢٦ : ٤) ” یہ اس کا فضل ہے ، جسے چاہتا ہے دیتا ہے ، اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے “۔ اللہ کی جانب سے کسی امت ، کسی جماعت ، کسی فرد کو اس کام کے لئے چن لینا کہ وہ اس عظیم امانت کا حامل ہو ، اور اللہ کے نور اور فیض کا سرچشمہ ہو ، اور ایسا مرکز ہو ، جس پر زمین و آسمان ملتے ہوں ، یہ اختیارو انتخاب اللہ کا بہت بڑا فضل وکرم ہوتا ہے۔ اس سے بڑا فضل کہ اگر مومن اپنی جان اور مال اور اس دنیا کا سب کچھ بھی دے دے تو وہ اس سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس سے بڑا فضل کہ اگر مومن اپنی جان اور مال اور اس دنیا کا سب کچھ بھی دے دے تو وہ اس سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس راہ میں جدوجہد ، مشکلات ، جہاد غرض سب مشقتوں سے زیادہ قیمتی اور اہم۔ اللہ تعالیٰ مدینہ کی اسلامی جماعت اور ان کے بعد آنے والے لوگوں ، اور اسی راہ پر چلنے والوں کو یاد دلاتا ہے کہ یہ بہت بڑا فضل وکرم ہے تم پر ، کہ اس نے تمہیں اس عظیم مقصد کے لئے منتخب کیا ہے۔ تمہارے اندر رسول بھیجا ہے ، جو تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور علم و حکمت کا یہ سرمایہ آنے والی نسلوں کے لئے جمع کرتا ہے ، جو تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور علم و حکمت کا یہ سرمایہ آنے والی نسلوں کے لئے جمع کرتا ہے ، اور پہلی جماعت اسلامی کے کارہائے نمایاں بطور نمونہ اور مثال قائم کرتا ہے۔ اللہ مسلمانوں کو یاد دلاتا ہے کہ یہ ہے عظیم فضل الٰہی جس کے مقابلے میں تمام دنیاوی واخروی انعامات ہیچ ہیں ، جبکہ اس کے فرائض کی ادائیگی کے دوران ہر قسم کی مالی اور جانی قربانیاں بھی ہیچ ہیں بمقابلہ اس اعزاز اور فضل کبیر کے۔ اس کے بعد اللہ ان کو یقین دہانی کراتا ہے کہ یہودیوں کا دور اس کرہ ارض پر سے ختم ہوگیا ہے۔ اب وہ حاملین امانت الٰہیہ نہیں رہے۔ نہ ان کے دلوں میں یہ بات ہے اور نہ ان کے کردار میں یہ بات ہے کیونکہ اس امانت کو اٹھانے والے دل فقیہ ، صاحب ادراک ، مخلص اور باعمل دل ہوتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ ١ؕ﴾ (یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطا فرمائے) ۔ ﴿وَ اللّٰهُ ذو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ ٠٠٤﴾ (اور اللہ بڑے فضل والا ہے) ۔ اللہ تعالیٰ جس کو بھی ایمان کی توفیق دیدے یہ اس کا فضل ہے۔ تمام اہل ایمان اور خاص کر وہ لوگ جو اسلام کی خدمات میں لگے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں مومن بنایا اور اسلام کی خدمت میں لگایا۔ فلہ الحمد والمنہ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” ذلک فضل اللہ “ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل و احسان ہے وہ جسے چاہے اسے سرفراز فرمائے اور اس کے فضل عظیم کے سامنے دنیا کی ہر نعمت حقیر اور ہیچ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) یہ پیغمبر کی بعث اور اس کے ذریعہ سے گمراہی سے نکل کر کتاب و حکمت کی طرف آنا یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ اپنا فضل جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا فضل والا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی یہی رسول دوسرے ان پڑھوں کے واسطے بھی ہے وہ فارس کے لوگ وہ بھی نبی کی کتاب نہ رکھتے تھے حق تعالیٰ نے اول عرب پیدا کئے اس دین کے تھامنے والے پیچھے عجم میں ایسے کامل لوگ اٹھے۔ خلاصہ : یہ کہ بعض روایات میں چونکہ آخرین کی تفسیر میں فارس کا ذکر آیا ہے اس بنا پر حضرت شاہ صاحب (رح) نے وہ قول اختیار کیا ہے لیکن اس امر کی گنجائش ہے کہ تفسیر میں عام مفہوم کو اختیار کیا جائے تاکہ عموم میں اہل فارس بھی داخل ہوجائیں۔ بہرحال یہاں تک اس پیغمبر کی تعلیم اور اس کی تعلیم سے نفع کرنے والوں کا ذکر تھا اب آگے مخالفین رسالت کا ذکر فرمایا۔