Admonishing the Jews and challenging Them to wish for Death
Allah the Exalted says,
مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا
...
The likeness of those who were entrusted with the Tawrah, but did not carry it, is as the likeness of a donkey which carries huge burdens of books.
Allah the Exalted admonishes the Jews who were entrusted with the Tawrah and were ordered to abide by it.
However, they did not abide by it, and this is why Allah resembled them to the donkey that carries volumes of books. Surely, when the donkey carries books, it will not understand what these books contain because it is only carrying these books using its strength.
This is the example of those who were entrusted with the Tawrah; they read its letter but did not understand its meanings nor abided by them. Rather, they even corrupted and changed the Tawrah. Therefore, they are worse than the donkey, because the donkey cannot understand. They, on the other hand, could have understood using their minds, but their minds were of no benefit.
This is why Allah the Exalted said in another Ayah,
أُوْلَـيِكَ كَالاَنْعَـمِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُوْلَـيِكَ هُمُ الْغَـفِلُونَ
They are like cattle, nay even more astray; those! They are the heedless. (7:179),
and said,
...
بِيْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِأيَاتِ اللَّهِ
وَاللَّهُ لاَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
How bad is the example of people who deny the Ayat of Allah? And Allah does not guide the people who are wrongdoers.
Allah the Exalted said,
قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاء لِلَّهِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
کتابوں کا بوجھ لادا گدھا اور بےعمل عالم
ان آیتوں میں یہودیوں کی مذمت بیان ہو رہی ہے کہ انہیں تورات دی کتابوں کا بوجھ لاد دیا جائے تو اسے یہ تو معلوم ہے کہ اس پر کوئی بوجھ ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس میں کیا ہے؟ اسی طرح یہود ہیں کہ ظاہری الفاظ تو خوب رٹے ہوئے ہیں لیکن نہ تو یہ معلوم ہے کہ مطلب کیا ہے؟ نہ اس پر ان کا عمل ہے بلکہ اور تبدیل و تحریف کرتے رہتے ہیں ، پس درصال یہ اس بےسمجھ جانور سے بھی بدترین ، کیونکہ اسے تو قدرت نے سمجھ ہی نہیں دی لیکن یہ سمجھ رکھتے ہوئے پھر بھی اس کا استعمال نہیں کرتے ۔ اسی لئے دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے ۔ ( ترجمہ ) یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بہکے ہوئے ، یہ غافل لوگ ہیں ۔ یہاں فرمایا اللہ کیا آیتوں کے جھٹلانے الوں کی بری مثال ہے ، ایسے ظالم اللہ کی رہنمائی سے محروم رہتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص جمعہ کے دن امام کے خطبہ کی حالت میں بات کرے ، وہ مثل گدھے کے ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو اور جو اسے کہے کہ چپ رہ اس کا بھی جمعہ جاتا رہا ۔ پھر فرماتا ہے اے یہود! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم حق پر ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب ناحق پر ہیں تو آؤ اور دعا مانگو کہ ہم دونوں میں سے جو حق پر نہ ہو اللہ اسے موت دے ، پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے جو اعمال آگے بھیج رکھے ہیں وہ ان کے سامنے ہیں مثلاً کفر فجور ظلم نافرمانی وغیرہ اس وجہ سے ہماری پیشین گوئی ہے کہ وہ اس پر آمادگی نہیں کریں گے ، ان ظالموں کو اللہ بخوبی جانتا ہے ۔ سورہ بقرہ کی آیت قل ان کانت الخ ، کی تفسیر میں یہودیوں کے اس مباہلے کا پورا ذکر ہم کر چکے ہیں اور وہیں یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ اپنے اوپر اگر خود گمراہ ہوں تو ان پر تو یا اپنے مقابل پر اگر وہ گمراہ ہوں موت کی بد دعا کریں ، جیسے کہ نصرانیوں کے مباہلہ کا ذکر سورہ آل عمران میں گذر چکا ہے ، ملاحظہ ہو تفسیر آیت فمن حاجک الخ ، مشرکین سے بھی مباہلہ کا اعلان کیا گیا ملاحظہ ہو تفسیر سورہ مریم آیت ( قُلْ مَنْ كَانَ فِي الضَّلٰلَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا 75 ) 19-مريم:75 ) ، یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہدے کہ جو گمراہی میں ہو رحمٰن اسے اور بڑھا دے ۔ مسند احمد میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ابو جہل لعنتہ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے پاس دیکھوں گا تو اس کی گردن ناپوں گا جب یہ خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا اگر یہ ایسا کرتا تو سب کے دیکھتے فرشتے اسے پکڑ لیتے اور اگر یہود میرے مقابلہ پر آ کر موت طلب کر تے تو یقینا وہ مر جاتے اور اپنی جگہ جہنم میں دیکھ لیتے اور اگر مباہلہ کے لئے لوگ نکلتے تو وہ لوٹ کر اپنے اہل و مال کو ہرگز نہ پاتے ۔ یہ حدیث بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی موجود ہے ، پھر فرماتا ہے موت سے تو کوئی بچہی نہیں سکتا ، جیسے سورہ نساء میں ہے ( ترجمہ ) یعنی تم جہاں کہیں بھی ہو وہاں تمہیں موت پا ہی لے گی گو مضبوط محلوں میں ہو ، معجم طبرانی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے موت سے بھاگنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک لومڑی ہو جس پر زمین کا کچھ قرض ہو وہ اس خوف سے کہ کہیں یہ مجھ سے مانگ نہ بیٹھے ، بھاگے ، بھاگتے بھاگتے جب تھک جائے تب اپنے بھٹ میں گھس جائے جہاں گھسی اور زمین نے پھر اس سے تقاضا کیا کہ لومڑی میرا قرض ادا کردو پھر وہاں سے دم دبائے ہوئے تیزی سے بھاگی آخر یونہی بھاگتے بھاگتے ہلاک ہو گئی ۔