Surat ul Munfiqoon

Surah: 63

Verse: 1

سورة المنافقون

اِذَا جَآءَکَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ قَالُوۡا نَشۡہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُ اللّٰہِ ۘ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَکٰذِبُوۡنَ ۚ﴿۱﴾

When the hypocrites come to you, [O Muhammad], they say, "We testify that you are the Messenger of Allah ." And Allah knows that you are His Messenger, and Allah testifies that the hypocrites are liars.

تیرے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اس کے رسول ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعًا جھوٹے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Case of the Hypocrites and their Behavior Allah the Exalted states that the hypocrites pretended to be Muslims when they went to the Prophet . In reality, they were not Muslims, but rather the opposite. This is why Allah the Exalted said, إِذَا جَاءكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... When the hypocrites come to you, they say: "We bear witness that you are indeed the Messenger of Allah." meaning, `when the hypocrites come to you, they announce this statement and pretend to believe in it.' Allah informs that there is no substance to their statement, and this is why He said, ... وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ ... Allah knows that you are indeed His Messenger, then said, ... وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ And Allah bears witness that the hypocrites are liars indeed. meaning, their claims, even though it is true about the Prophet. But they did not believe inwardly in what they declared outwardly, and this is why Allah declared their falsehood about their creed. Allah's statement,

اللہ تعالیٰ منافقوں کے نفاق کو ظاہر کرتا ہے کہ گویہ تیرے پاس آ کر قسمیں کھا کھا کر اپنے اسلام کا اظہار کرتے ہیں تیری رسالت کا اقرار کرتے ہیں مگر درصال دل کے کھوٹے ہیں ، فی الواقع آپ رسول اللہ بھی ہیں ، ان کا یہ قول بھی ہے مگر چونکہ دل میں اس کا کوئی اثر نہیں ، لہذا یہ جھوٹے ہیں ۔ یہ تجھے رسول اللہ مانتے ہیں ، اس بارے میں اگر یہ سچے ہونے کے لئے قسمیں بھی کھائیں لیکن آپ یقین نہ کیجئے ۔ یہ قسمیں تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے یہ تو اپنے جھوٹ کو سچ بنانے کا ایک ذریعہ ہیں ، مقصد یہ ہے کہ مسلمان ان سے ہوشیار ہیں کہیں انہیں سچا ایماندار سمجھ کر کسی بات میں ان کی تقلید نہ کرنے لگیں کہ یہ اسلام کے رنگ میں تم کو کفر کا ارتکاب کرا دیں ، یہ بد اعمال لوگ اللہ کی راہ سے دور ہیں ۔ ضحاک کی قرأت میں ابمانھم الف کی زیر کے ساتھ ہے تو مطلب یہ ہو گا کہ انہوں نے اپنی ظاہری تصدیق کو اپنے لئے تقیہ بنا لیا ہے کہ قتل سے اور حکم کفر سے دنیا میں بچ جائیں ۔ یہ نفاق ان کے دلوں میں اس گناہ کی شومی کے باعث رچ گیا ہے کہ ایمان سے پھر کر کفر کی طرف اور ہدایت سے ہٹ کر ضلالت کی جانب آ گئے ہیں ، اب دلوں پر مہر الٰہی لگ چکی ہے اور بات کی تہہ کو پہنچنے کی قابلیت سلب ہو چکی ہے ، بظاہر تو خوش رو خوش گو ہیں اس فصاحت اور بلاغت سے گفتگو کرتے ہیں کہ خواہ مخواہ دوسرے کے دل کو مائل کرلیں ، لیکن باطن میں بڑے کھوٹے بڑے کمزور دل والے نامرد اور بدنیت ہیں ، جہاں کوئی بھی واقعہ رونما ہوا اور سمجھ بیٹھے کہ ہائے مرے ، اور جگہ ہے اشحتہ علیکم الخ تمہارے مقابلہ میں بخل کرتے ہیں ، پھر جس وقت خوف ہوتا ہے تو تمہاری طرف اس طرح آنکھیں پھیر پھیر کر دیکھتے ہیں گویا کسی شخص پر موت کی بیہوشی طاری ہے ، پھر جب خوف چلا جاتا ہے تو تمہیں اپنی بدکلامی سے ایذاء دیتے ہیں اور مال غنیمت کی حرص میں نہ کہنے کی باتیں کہہ گذرتے ہیں یہ بے ایمان ہیں ان کے اعمال غارت ہیں اللہ پر یہ امر نہایت ہی آسان ہے ، پس ان کی یہ آوازیں خالی پیٹ کے ڈھول کی بلند بانگ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں یہی تمہارے دشمن ہیں ان کی چکنی چپڑی باتوں اور ثقہ اور مسکین صورتوں کے دھوکے میں نہ آجانا ، اللہ انہیں برباد کرے ذرا سوچیں تو کیوں ہدایت کو چھوڑ کر بےراہی پر چل رہے ہیں؟ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافقوں کی بہت سی علامتیں ہیں جن سے وہ پہچان لئے جاتے ہیں ان کا سلام لعنت ہے ان کی خوراک لوٹ مار ہے ان کی غنیمت حرام اور خیانت ہے وہ مسجدوں کی نزدیکی ناپسند کرتے ہیں وہ نمازوں کے لئے آخری وقت آتے ہیں تکبر اور نحوت والے ہوتے ہیں نرمی اور سلوک تواضع اور انکساری سے محروم ہوتے ہیں نہ خود ان کاموں کو کریں نہ دوسروں کے ان کاموں کو وقعت کی نگاہ سے دیکھیں رات کی لکڑیاں اور دن کے شور و غل کرنیوالے اور روایت میں ہے دن کو خوب کھانے پینے والے اور رات کو خشک لکڑیوں کی طرح پڑ رہنے والے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 منافقین سے مراد عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ہیں۔ یہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے تو قسمیں کھا کھا کر کہتے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ 1۔ 2 یہ جملہ معترضہ ہے جو مضمون ماقبل کی تاکید کے لیے ہے جس کا اظہار منافقین بطور منافقت کے کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تو ویسے ہی زبان سے کہتے ہیں، ان کے دل اس یقین سے خالی ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ 1۔ 3 اس بات میں کہ وہ دل سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں، یعنی دل سے گواہی نہیں دیتے صرف زبان سے دھوکا دینے کے لئے اظہار کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] یعنی منافق بھی یہ شہادت دیتے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ نے بھی یہی شہادت دی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اس کے باوجود اللہ یہ بھی شہادت دیتا ہے کہ منافق جھوٹے ہیں۔ کیونکہ یہ شہادت وہ دل کے یقین سے نہیں بلکہ محض فریب کاری کی غرض سے زبانی طور پر دیتے تھے۔ علاوہ ازیں ان کے اعمال ان کے اس زبانی دعویٰ کی تائید نہیں کرتے تھے۔ اور قول و فعل میں دیدہ دانستہ تضاد منافقت کی دلیل ہے۔ ایمان کی نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ اِذَا جَآئَ کَ الْمُنٰـفِقُوْنَ :” الْمُنٰـفِقُوْنَ “” النافقائ “ سے مشتق ہے جو ” یربوع “ ( چوہے سے ملتے جلتے ایک جنگلی جانور) کے بل کا ایک منہ ہوتا ہے ، وہ اسے اس طرح بناتا ہے کہ اس جگہ مٹی کی طرف اتنی تہہ رہنے دیتا ہے کہ سر مارے تو کھل جائے ، اس منہ کو وہ چھپا کر رکھتا ہے اور دوسرا منہ ظاہر کردیتا ہے۔ منافق بھی چونکہ اپنا کفر چھپاتا اور ایمان ظاہر کرتا ہے ، اس لیے اس کا یہ نام رکھا گیا ہے ۔ یہ ایک خالص اسلامی اصطلاح ہے ، مراد اس سے عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ہیں۔ ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدینہ تشریف آوری سے کچھ عرصہ پہلے اوس اور خزرج کے درمیان ہونے والی جنگ بعاث میں ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے ، ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ وہ اپنا ایک متفقہ سردار مقرر کرلیں ، بلکہ طے کرچکے تھے کہ عبد اللہ بن ابی کی باقاعدہ تاج پوشی کر کے اسے اپنا سردار بنالیں ۔ اسی اثناء میں چند سعادت مند حج کے لیے مکہ گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر مسلمان ہوگئے۔ اگلے دو سالوں میں مزید لوگوں نے جا کر بیعت کی اور آخری بار انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ آنے کی دعوت دی ۔ ان سالوں میں مدینہ کے ہر گھر میں اسلام پہنچ چکا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد پر اوس و خزرج کے بااثر لوگوں سمیت ان کی اکثریت مسلمان ہوگئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے عبد اللہ بن ابی اور اس کے حامیوں کی سردار ی کی امید ناکام ہوئی تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شدید دشمن بن گئے۔ کچھ مدت تک تو وہ کھلم کھلا عداوت کا اظہار کرتے رہے ، مگر بدر کی عظیم الشان فتح کے بعد ان کے پاس مدینہ میں رہنے کے لیے مسلمان ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تو وہ مسلمان ہوگئے ، حتیٰ کہ عبد اللہ بن ابی بھی مسلمان ہوگیا ، مگر ان کا اسلام صرف جان بچانے کے لیے اور وہ فوائد حاصل کرنے کیل یے تھا جو مسلمانوں کو عزت و قوت اور فتح و غنیمت کی صورت میں حاصل تھے۔ یہ لوگ نمازیں پڑھتے ، روزے رکھتے ، زکوٰۃ دیتے اور جہاں غنیمت کی امید ہوتی جہاد میں بھی جاتے تھے ، مگر دل سے اب بھی ایمان نہیں لائے تھے بلکہ ہر موقع پر انہوں نے مسلمانوں کو دھوکا دیا اور نقصان پہنچایا ۔ جنگ احد میں یہ لوگ لشکر کا تیسرا حصے لے کر میدان جنگ سے واپس چلے گئے بنو نضیر بنو قریظہ اور خیبر والوں کو جنگ پر اور مسلمانوں کے خلاف ڈٹ جانے پر ابھارتے رہے ، خندق اور دوسرے مواقع پر انہوں نے کفار کے ساتھ ساز باز رکھی اور جب موقع ملتا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، مسلمانوں اور اسلام کے متعلق گستاخانہ باتیں کرتے ، جیسا کہ اگلی آیات میں آرہا ہے لیکن جب ایسی باتیں سامنے آنے پر ان سے باز پرس کی جاتی تو وہ قسمیں کھا جاتے کہ ہم مسلمان ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول مانتے ہیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی گستاخیوں سے در گزر فرماتے رہے ، کیونکہ یہ لوگ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوچکے تھے اور مخلص مسلمانوں کے عزیز اور رشتہ دار بھی تھے۔ اگر آپ انہیں قتل کرتے تو بہت سی بد گمانیاں پیدا ہونے کا اندیشہ تھا، اس لیے آپ سب کچھ برداشت کرتے رہے ، حتیٰ کہ آخر کار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صبر و ضبط اور عفو و حلم کی وجہ سے ان کی حقیقت کھل کر سب کے سامنے آگئی اور وہ مخلص مسلمانوں کی نگاہ میں بالکل بےقدر و قیمت ہو کر رہ گئے ، ان کا کوئی اعتبار باقی نہ رہا ۔ ان کا کچھ حال سورة ٔ بقرہ (٨ تا ٢٠) ، آل عمران ، نساء ، مائدہ ، توبہ ، سورة ٔ احزاب اور دوسرے مقامات پر گزر چکا ہے۔ ٣۔ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللہ :” ان “ اور ” لام تاکید “ عموماً قسم کے جواب میں آتے ہیں اور قسم جیسی تاکید کا فائدہ دیتے ہیں ۔ شہادت اس بات کی خبردینے کو کہتے ہیں جس کا دل سے یقین ہو ۔ منافقین کی عادت تھی کہ وہ قسمیں کھا کر اپنی وفاداری کا یقین دلانے کی کوشش کرتے رہتے تھے، جب کہ مخلص مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ مزید دیکھئے سورة ٔ نسائ (٦٢) ، توبہ (٥٦، ٦٢، ٧٤، ٩٦) اور سورة ٔ مجادلہ (١٨) کی تفسیر۔ ٤۔ وَ اللہ ُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ ۔۔۔۔: یہ منافقین کا قول نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ، اس لیے اگر وقف کرنا ہو تو ” انک لرسول اللہ “ پر کرنا چاہیے ، آیت شروع کر کے ” انک لرسولہ “ پر وقف سے وہم پڑھتا ہے کہ یہ دونوں جملے منافقین کا قول ہیں ۔ یہاں ایک سوال ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تصدیق فرمائی کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں تو یہ کیوں فرمایا کہ اللہ شہادت دیتا ہے کہ بلاشبہ یہ منافق یقینا جھوٹے ہیں اور منافق جھوٹے کس طرح ہوئے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ انکا یہ کہنا جھوٹ نہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، بلکہ یہ سچ ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر اس کی تصدیق فرمائی کہ ” واللہ یعلم انک لرسولہ “ یعنی اللہ جانتا ہے کہ بلاشبہ آپ یقینا اس کے رسول ہیں، منافقین کو جھوٹا اس لیے فرمایا کہ انہوں نے کہا ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، حالانکہ وہ اس بات کی شہادت نہیں دیتے بلکہ یہ بات صرف زبان سے کہہ رہے ہوتے ہیں ، دل سے وہ آپ کو اس کا رسول نہیں مانتے۔ شہادت میں سچے وہ تب ہوتے جب وہ دل اور زبان دونوں سے آپ کی رسالت کا اقرار کرتے۔ زمخشری نے فرمایا کہ اگر درمیان میں جملہ ” واللہ یعلم انک لرسولہ “ نہ ہوتا تو کلام اس طرح ہونا تھا :” اذا جاء ک المنافقون قالوا نشھد انک لرسول اللہ وللہ یشھد ان المنافقین لکاذبون ‘ ‘” جب تیرے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلا شبہ تو یقینا اللہ کا رسول ہے اور اللہ شہادت دیتا ہے کہ بلا شبہ یہ منافق یقینا جھوٹے ہیں “ لیکن اس سے وہم پڑ سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس بات میں جھوٹا کہہ رہے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، اس لیے درمیان میں یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں ، پھر فرمایا اور اللہ تعالیٰ شہادت دیتا ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں ، یعنی ان کا یہ کہنا جھوٹ ہے کہ ہم شہادت دیتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Background of Revelation The incident, in which this Surah was revealed, took place in the campaign against Banul-Mustaliq which happened, according to Muhammad Ibn Ishaq in Sha’ ban 6AH and according to Qatadah and ‘Urwah, in Sha’ ban 5AH. [ Mazhari ] According to Muhammad Ibn Ishaq and most historians, the details of the incident is as follows: The Messenger of Allah received the news that the leader of Banul-Mustaliq, name, Harith Ibn Dirar, is preparing for a campaign against him Harith Ibn Dirar was the father of Sayyidna Juwairiah (رض) who later on embraced Islam and became one of the Holy wives of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Harith Ibn Dirar (رض) himself later on embraced Islam. Nevertheless, when the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) received the news about the campaign against him, he gathered a group of Muslims and went out to face them. Many hypocrites joined the Muslims to fight the jihad in the hope that they will receive a share in the spoils of war, because they, despite having disbelief in their hearts, were sure that Divine help will be on the Prophet’ s side, and he will attain victory. When the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) reached Banul-Mustaliq’ s settlement, he faced Harith Ibn Dirar’ s army near a well that was known as Muraisi’. Therefore, the campaign is also known as the battle of Muraisi’. The combatants arrayed themselves and shot arrows at each other. Many of Banul-Mustaliq’ s men were killed and others fled; and some men and women were captured as prisoners of war. Some of their belongings fell into Muslim hands as spoils of war. Allah granted victory to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the jihad came to an end. Co-operation on the basis of Tribal, Racial, National or Regional Bias is the Slogan of Pre-Islamic Paganism Whilst the Muslim army was still at the well of Muraisi’, an unpleasant scene broke out between a Muhajir (emigrant) and an Ansari (helper). They quarreled over the same water where the battle was fought. The Emigrant called their fellow-Emigrants for help, and the Helpers called the fellow-Helpers for help. Some individuals came forward to help their respective sides, and the dispute might have led to a fight between the Emigrants and the Helpers. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came to know about this, he immediately went to the scene of dispute, and expressed his indignation, saying مَا بَالُ دَعوَی الجَاھِلِیَّۃِ “ What is this slogan of paganism [ that you call for defence on the basis of regional, racial and national bias ]?” دَعُوھَا فَاِنَّھَا مُنتِنَۃٌ “ Give up the slogan. It stinks.” He said that every Muslim should help another Muslim brother, whether oppressor or oppressed. Helping the oppressed is quite obvious, but helping the oppressor implies to stop him from oppression. In all matters it is necessary to find out who is the oppressed and help him and who is the oppressor and stop him from oppressing, even though he may be his own brother or father. The racial, lineal, regional or national pride and prejudice is a filthy slogan, and it gives out nothing but bad odour. The speech of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) brought the quarrel to an end, and the dispute was thus quelled. The two people involved in this dispute were Jahjah, the Emigrant, and Sinan Ibn Wabrah al-Juhani, the Helper. In this matter, the former was more on the wrong, and the latter was wounded. Sayyidna ‘Ubadah Ibn Samit (رض) explained to Sinan Jahjah (رض) . The oppressor and the oppressed thus became brothers. The hypocrites had joined the Muslims for greed of receiving a share from the spoils. Their leader was ‘Abdullah Ibn Ubayy. Like other hypocrites, he called himself a Muslim for mundane benefits, but concealed enmity in his heart against the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the Muslims. When he came to know about the clash between the Muhajirs (Emigrants) and Ansar (the Helpers), he found this an ideal opportunity to cause friction among the Muslims. So he addressed an assembly in which there were hypocrites and a Muslim Zaid Ibn Arqam (رض) where he strongly provoked the Helpers with his fiery speech against the Emigrants, saying: “ You have brought all this on yourselves. You have let them settle in your land and share your wealth and property. They are fed on your breads until they became strong and now they rival you. If you do not realize the consequences of your helping them, they will make your life miserable. Therefore, in future you should abandon them and stop helping them with your property, and they would themselves disperse to other areas. By Allah, when we go back to Madinah the most honourable of the inhabitants of Madinah shall drive out the meanest of them from there.“ He termed his own group and the Ansar as ‘the honourable ones’, and [ God forbid!] the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) along with the muhajirin as ‘the meanest ones’. When Sayyidna Zaid Ibn Arqam (رض) heard his speech, he retorted instantly: “ By Allah, you are mean, low and despicable. The Messenger of Allah is successful by God-given honour, and by the love of the Muslims. Since ‘Abdullah Ibn Ubayy wanted to keep his hypocrisy under a veil, he concealed his intention under the cover of the vague expression of ‘the most honoured and meanest’. When Sayyidna Zaid Ibn Arqam (رض) made a sharp retort, he realized that his disbelief would be uncovered, he apologized to Sayyidna Zaid Ibn Arqam (رض) that he was merely joking and did not mean to do anything against the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Sayyidna Zaid Ibn Arqam (رض) left the assembly and went to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and reported to him the whole story about ‘Abdullah Ibn Ubayy. This news was very disturbing and trying for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The colour of his blessed countenance changed. Sayyidna Zaid Ibn Arqam (رض) was a young Companion at the time. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked him: “ Boy! Are you not perhaps lying?” Sayyidna Zaid Ibn Arqam (رض) made the same reply. After that, the news of Ibn Ubayy’ s fiery speech spread throughout the Muslim army. No one spoke anything but about this speech. On the other hand, the Helpers reproached Sayyidna Zaid Ibn Arqam (رض) . They said that he has accused the venerable leader of the nation (that is, Ibn Ubayy) and severed kinship ties with him. Sayyidna Zaid Ibn Arqam (رض) swore by Allah and said that in the entire tribe of Khazraj, Ibn Ubayy was the dearest person to him, but when he uttered the unpleasant words against the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، he could not hold himself. “ Even if that were my father,” he went on, “ I would have certainly reported his speech to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .” When Sayyidna ‘Umar (رض) heard the story, he said: “ O Allah’ s Messenger! Permit me to behead this hypocrite.” According to another narration, Sayyidna ‘Umar (رض) said: “ Permit ‘Abbad Ibn Bishr to cut off his head and present it to you.” The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said that if he were to permit them to do that, the news will spread among people that Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) kills his own Comrades. As a result, he did not allow Ibn Ubayy to be killed. When this news about Sayyidna ‘Umar (رض) reached ‘Abdullah Ibn Ubayy’ s son who also bore the same name as his father’ s, ‘Abdullah, but he was a sincere Muslim, he immediately went up to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and said: “ If you wish my father to be killed because of his speech, then allow me to kill him and bring his head to you before you arise from your assembly. The entire tribe of Khazraj is a witness to the fact that no one is more serving and obedient to my parents than myself. But I will not tolerate any of their mischief against Allah and His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . If you allow anyone else to kill my father and he kills him, then, I am afraid, when I see my father’ s killer walking freely, my tribal jealously may overcome me and I may be tempted to kill him, and that might be the cause of my punishment.” The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: “ I do not have the intention of killing him, nor have I instructed anyone else to kill him.” After this incident, the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) announced, at an unusual time against his normal habit, that he would immediately set out on his journey back to Madinah. So he mounted his she-camel Quswa’ and started his journey at an unusual time. When the general body of the blessed Companions had set out on the journey, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) called ‘Abdullah Ibn Ubayy and asked him: “ Did you say this?” He took oath and denied everything that was imputed to him, and claimed that the boy, Zaid Ibn Arqam, was liar. ‘Abdullah Ibn Ubayy was the respectable chief of his people. All the people felt that may be Zaid Ibn Arqam (رض) was under some misconception, and Ibn Ubayy did not say it as was conveyed. In any case, the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) accepted Ibn Ubayy’ s oath and explanation. The reproach of the people against Zaid Ibn Arqam (رض) was further aggravated. This embarrassed him and he hid himself from the people. Then the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) travelled with the entire Muslim army the whole day and night and the next morning, until the bright sun was out. Then he, together with the army, halted in a place. They were all exhausted on account of the long and strenuous journey. As soon as they touched the ground, they fell into deep sleep. The narrator reports that the purpose of this unusually immediate and long journey was to close the chapter of the story of Ibn Ubayy, which had by and by spread among the entire Muslim community, and they talked about it all the time. After that, the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) started the journey, in the course of which Sayyidna ‘Ubadah Ibn Samit (رض) suggested to Ibn Ubayy to approach the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and admit his guilt before him who would pray Allah for his pardon and he would attain salvation. When he heard this suggestion, he turned his head away. No Qur’ anic verses pertaining to Ibn Ubayy were revealed until then, but when he turned himself away in haughty arrogance, Sayyidna ‘Ubadah Ibn Samit (رض) said: “ Certainly, the Qur’ an will reveal verses pertaining to your turning down the advice.” While the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was on his journey, Sayyidna Zaid Ibn Arqam (رض) came near him again and again, and he was firm that since this hypocrite has called him a liar and embarrassed him in front of the entire nation. Allah would surely reveal verses to clear him and give the lie to the hypocrite. Suddenly Sayyidna Zaid Ibn Arqam (رض) noticed that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) entered into the state that he experienced when he received revelation. He stared breathing heavily, his forehead dripped with perspiration and his mount, the she-camel, began to feel the weight of the revelation. Sayyidna Zaid Ibn Arqam (رض) sensed that some revelation was coming down regarding that matter. When that state of revelation was over, and, because his own mount was closer to the mount of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، he held the ear of Zaid (رض) and said یا غُلَامُ صَدَّقَ اللہُ حَدِیثَکَ وَ نَزَلَت سُورَۃُ المُنافِقِینَ فِی اِبنِ اُبیٍّ مِن اَوَّلِھَا اِلٰی آخِرِھَا “ O Boy, Allah has confirmed the veracity of your statement, and the entire Surah Al-Munafiqun – from the beginning to the end – has been revealed in connection with Ibn Ubayy’ s incident.” This shows that Surah Al-Munafiqun was revealed in the course of the journey. According to Baghawi’ s narration, however, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had reached Madinah and Sayyidna Zaid Ibn Arqam (رض) was hiding himself in the house for fear of reprisal, when this Surah was revealed. And Allah knows best! According to another narration, when the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) approached Madinah at the valley of Aqiq, ‘Abdullah, the son of the hypocrite ‘Abdullah Ibn Ubayy, who was faithful believe, went forward and searched through the throng of mounts and, finding his father’ s mount, made it sit. He placed his foot on its knees and said to his father: “ By Allah! You cannot enter Madinah unless the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) permits you, and unless you clarify who are the most honourable inhabitants of Madinah that expel the meanest ones. Tell me who is the most hounourable one, the Messenger of Allah or you?” Passer-by were reproaching ‘Abdullah as to how unkindly he was treating his father. By then the mount of Allah’ s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came near. He inquired what was happening. People said that ‘Abdullah has barred his father’ s entry into Madinah unless Allah’ s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) permits him. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) saw that the hypocritical Ibn Ubbay declared to his son that he himself was the meanest of the citizens of Madinah, even meaner than children and women, and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the most honourable of them. At this, the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to the son: Leave his way; let him enter.” The son then let him enter. Only this much is the story of the revelation of Surah Al-Munafiqun. At the beginning of the story, a concise reference was made to the campaign of Banul-Mustaliq where it was shown that the real person responsible for the campaign was Harith Ibn Dirar who at that time was not a Muslim but embraced Islam later. He was the father of Sayyidah Juwairiyah (رض) who too was not a Muslim but embraced Islam later, and became one of the noble wives of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Musnad Ahmad, Abu Dawud and others record that when Banul-Mustaliq were defeated, spoils of war, together with prisoners of war, fell into Muslim hands. According to Islamic Law, all prisoners and spoils of war were distributed among the Mujahidin. Among the prisoners of war was Juwairiyah (رض) the daughter of Harith Ibn Dirar. She fell to the lot of Sayyidna Thabit Ibn Qais Ibn Shammas. He entered into the contract of kitabah to set her free in lieu of a specified sum of money.1 (1) For fuller explanation of the contract of kitabah, see volume 6, pp.426-427 of this book under the commentary of Surah 24:33. (Muhammad Taqi Usmani) According to Sayyidah Juwairiyah’ s (رض) contract of kitabah, the sum specified was very large and she could not pay off the large sum of money to purchase her freedom. She came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and said: “ I have embraced Islam and I bear witness that there is only One Allah and He has no partners, and that you are Allah’ s Messenger.” Then she went on to narrate her story: “ I fell to the lot of Thabit Ibn Qais Ibn Shammas, but we entered into the contract of kitabah and the sum specified in the contract is so large that I cannot manage. Please do help me.” The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) acceded to her request. In addition, he expressed his intention to emancipate her and marry her. For Sayyidah Juwairiyah (رض) ، this was a great boon. How could she refuse to accept this offer? She accepted the offer whole-heartedly and thus became one of the noble wives of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The mother of the Faithful, Sayyidah Juwairiyah (رض) says that three days before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came for the campaign of Banul-Mustaliq ‘I saw in my dream that the moon arose in Yathrib and it came and fell in my lap. I did not narrate this dream to anyone at that time. Now I have seen its interpretation with my own eyes.’ She was the daughter of the leader of her nation. When she became one of the wives of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، it exerted a great influence on the entire tribe. One advantage that accrued to all women captured with her was that all of them were emancipated. They were relatives of the Mother of the Faithful. The Muslims set free all slave-girls related to her when they came to know of her joining the rank of the Mother of Faithful. About one hundred of them were emancipated with her. Her father saw a miracle of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and embraced Islam. The above story imparts guiding principles on important issues The circumstances, under which Surah Al-Munafiqun was revealed, indeed help us understand the basic interpretation of the Surah. Additionally, they bring out some important guiding principles related to moral or ethical, political and social issues. That is why the full story has been fully recounted here. The guiding principles derived from this story are given below: The foundation Stone of Islamic Polity: Establishment of Islamic Brotherhood which aims at Ending Colour, Racial and Linguistic Discriminations, and Indigenous-Alien Prejudices. The episode of the dispute that broke out between an Emigrant and a Helper, and each side calling their fellow-Emigrants and their fellow-Helpers respectively for help was the icon of paganism which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) destroyed. He established the principle that all believers are brothers, regardless of their race, colour, language, or nationality. The bond of brotherhood the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) established between the Refugees and the Helpers had made them like real brothers. It is, however the ancient Shaitanic network to get people involved in mutual co-operation and help on this basis alone. This necessarily results in blocking out the Islamic concept of mutual co-operation based on race and nationalism taken place. In this way, the Shaitan causes friction among Muslims. In this instance also a similar situation would have developed if the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) did not arrive on the scene in time and quell the dispute and said to them that it was the stinking slogan of paganism and that they should give it up. He re-established them on the Qur’ anic principle of mutual co-operation وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (And help each other in righteousness and piety, and do not help each other in sin and aggression…5:2). In other words, the standard for Muslims to help others or to receive help from others is good will, justice, fair play and equity. They should co-operate mutually on this basis, even though the others may belong to another race, ethnic group, or to another region. They should not unite in one conjoint to co-operate in sin and injustice, even though he may be father or brother. This is the just and rational foundation which Islam has laid, and the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself took care of this every step of the way and commanded everyone to follow the principle. In his Farewell Address, he said that all customs of paganism are trampled under his feet. The idols of discrimination of Arab-non-Arab, white-black and indigenous-aliens have been broken. Islamic principle of mutual help and co-operation is Truth and Justice. All should apply it. Another lesson that stems from this story is that the enemies of Islam since time immemorial use nationalism and regionalism to cause friction, and break up the Muslim Community. Whenever the opportunity arises, they split them up. Alas, the Muslims have long forgotten this lesson, and the enemies have once more set up the same Shaitanic network to break up Islamic unity. The Muslims all over the world have put the religion and the religious principles into oblivion. As a result, they have become victims of civil wars. Their united front to fight disbelief has been smashed. The Muslim world is divided not only into Arabs and non-Arabs, but further divided into Egyptian, Syrian, Hijazi and Yemeni. In the Indo-Pak subcontinent, the Punjabis, Bengalis, Sindhis, Hindis, Pathans and Balochis are victims of mutual differences. To Allah we direct our complaint! The enemies of Islam are toying with our differences. As a result, they are overcoming us in all fields, and we are defeated everywhere. We have developed a slavish mentality and are forced to take refuge in them. Even today we can see with our open eyes Divine help and assistance coming to us, provided we adopt the Qur’ anic principles and the guidance of Allah’ s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ; provided we adhere to a strong Islamic brotherhood instead of showing a slavish devotion to the lifestyle of others; and provided we break down the idols of colour, race, language and region. The Noble Companions’ Unparalleled Adherence to Islamic Principles and their Lofty Station This incident further shows that though the Shaitan made some people raise the slogan of paganism temporarily, the ‘Iman was so engrossed in their hearts that the slightest admonition was sufficient to jolt them into repenting. They had such a high degree of love and reverence for Allah and His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that no relationship and sense of nationality could act as a barrier against it. An eloquent testimony of that is contained in the statement of Zaid Ibn Arqam (رض) . He himself was a member of the tribe of Khazraj and Ibn Ubayy was the leader of that tribe, and the former loved and venerated the latter most dearly, but he could not tolerate the provocative words uttered against the Refugee Muslims and Allah’ s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and complained to him about the hypocrites. The tribal-worshippers of the present age would never have dared to take the complaint of their leaders to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The attitude of Ibn Ubayy’ s son ‘Abdullah in this incident makes it crystal clear that his real love and veneration was dedicated to Allah and His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . When he heard him utter words against them, he went to Allah’ s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and sought his consent to cut off his father’ s head. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) did not permit him, he made his father’ s mount sit, when he approached Madinah, blocked his way and forced him to admit that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is ‘the most honourable’ and that he himself is ‘the meanest one’. He did not open the way for his father before the Holy Prophet’ s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) permission. Besides, the idols of nation-worship and land-worship were broken to pieces in the battles of Badr, Uhud and Ahzab, which proved that all Muslims are brothers, no matter which nationality, country, colour or language group they belong to. Anyone who does not believe in Allah and his Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is an enemy, even though he may be his own real brother or father. ھزار خویش کہ بیگا انہ از خدا باشد فدایٔے یک تنِ بیگانہ کآشنا باشد Thousand of relatives who are alien to Allah May be sacrificed to an alien who is faithful to Allah. Taking care of General Welfare of Muslims: Protecting them from misunderstanding Another point illustrated by this incident is that an act which is permissible in itself should be avoided if it may create a misunderstanding in the mind of a Muslim, or may provide an opportunity for the enemies to spread misunderstanding among them. Thus, despite the fact that Ibn Ubayy’ s hypocrisy was exposed openly, the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) did not permit Sayyidna ‘Umer (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to behead him when he sought his permission, because the enemies could create misunderstanding in the public minds that Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) killed his own Comrades. But it should be noted that, as other traditions prove, such acts may be abandoned only when they are not from the basis objectives of Shariah, they cannot be abandoned for such an apprehension. Instead, attempts must be made to remove the danger and do the work dictated by the objectives of Shari’ ah.

خلاصہ تفسیر جب آپ کے پاس یہ منافقین آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم (دل سے) گواہی دیتے ہیں کہ آپ بیشک اللہ کے رسول ہیں اور یہ تو اللہ کو معلوم ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ( اس میں تو ان کے قول کی تکذیب نہیں کی جاتی) اور (باوجود اس کے) اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین ( اس کہنے میں) جھوٹے ہیں ، (کہ ہم دل سے گواہی دیتے ہیں، کیونکہ وہ گواہی محض زبانی ہے اعتقاد قلب سے نہیں) ان لوگوں نے اپنی قسموں کو (اپنی جان و مال کو بچانے کے لئے) ڈھال بنا رکھا ہے (کیونکہ اظہار کفر کرتے تو ان کی حالت بھی مثل دوسرے کفار کے ہوجاتی کہ جہاد کیا جاتا اور قتل و غارت ہوتا) پھر (اس لازمی خرابی کے ساتھ متعدی خرابی بھی ہے کہ) یہ لوگ (دوسروں کو بھی) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں بیشک ان کے یہ اعمال بہت ہی برے ہیں (اور ہمارا) یہ (کہنا کہ ان کے اعمال بہت برے ہیں) اس سبب سے ہے کہ یہ لوگ (اول ظاہر میں) ایمان لے آئے پھر (اپنے شیاطین کے پاس جا کر کلمات کفریہ انامعکم انمانحن و مستہزون کہہ کر) کافر ہوگئے (مطلب یہ کہ ان پر برے اعمال کا حکم کرنا ان کے نفاق کے سبب سے ہے کہ وہ بدترین عمل کفر ہے) سو (اس نفاق کی وجہ سے) ان کے دلوں پر مہر کردی گئی، تو یہ (حق بات کو) نہیں سمجھتے اور (ظاہر میں یہ ایسے چکنے چڑے ہیں کہ) جب آپ ان کو دیکھیں (تو شان و شوکت ظاہری کی وجہ سے) ان کے قدو قامت آپ کو خوشنما معلوم ہوں اور (باتوں میں ایسے ہیں کہ) اگر یہ باتیں کرنے لگیں تو آپ ان کی بات (غایت فصاحت و شیرینی کی وجہ سے) سن لیں (لیکن چونکہ اندر خاک بھی نہیں ہے اس لئے قدو قامت ظاہری کے ساتھ باطنی کمالات سے خالی ہونے کے سبب ان کی ایسی مثال ہے کہ) گویا یہ لکڑیاں ہیں جو (دیوار کے) سہارے سے لگائے ہوئی (کھڑی) ہیں (کہ حبثہ میں تو لمبی چوڑی موٹی موٹی مگر بےجان محض اور عام عادت یہ ہے کہ اکثر جو لکڑی فی الحال کام میں نہیں لگتی وہ اس طرح رکھ دی جاتی ہے، ایسی لکڑی بےنفع محض بھی ہے، اسی طرح یہ لوگ ظاہری دیکھنے میں تو شاندار ہیں لیکن اندر سے محض بیکار اور چونکہ بوجہ عدم اخلاص و عدم ایمان کے ہر وقت ان کو اندیشہ رہتا ہے کہ کبھی مسلمانوں کو ہمارے حال کی اطلاع کسی قرینہ سے یا بذریعہ وحی کے نہ ہوجاوے اور مثل دیگر کفار کے ہم پر بھی جہاد وغیرہ نہ ہونے لگے اس خیال سے ایسے غائف رہتے ہیں کہ) ہر غل پکار کو (گو کسی وجہ سے ہو) اپنے ہی اوپر (پڑنے والی) خیال کرنے لگتے ہیں (یہی جب کوئی شور و غل ہوتا ہے یہی سمجھتے ہیں کہ کہیں ہمارے اوپر بھی افتاد پڑنے والی نہ ہو حقیقت میں) یہی لوگ (تمہارے پورے) دشمن ہیں آپ ان سے ہوشیار رہئے (یعنی ان کی کسی بات پر اعتماد نہ کیجئے) خدا ان کو غارت کریں کہاں (دین حق سے) پھرے چلے جاتے ہیں (یعنی روزانہ دور ہی ہوتے جاتے ہیں) اور (ان کے تکبر اور شرارت کی یہ کیفیت ہے کہ) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس) آؤ تمہارے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) استغفار کردیں تو وہ اپنا سر پھیر لیتے ہیں اور آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ (اس خیر خواہی اور استغفار رسول سے) تکبر کرتے ہوئے بےرخی کرتے ہیں (جب ان کے کفر کی یہ حالت ہے تو) ان کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں خواہ آپ ان کے لئے استغفار کریں یا ان کے لئے استغفار نہ کریں اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز نہ بخشے گا (مطلب یہ کہ اگر وہ آپ کے پاس آتے بھی اور آپ ان کی ظاہری حالت کے اعتبار سے استغفار بھی فرماتے تب بھی ان کو کچھ نفع نہ ہوتا، یہ تو ماضی کے اعتبار سے ان کی حالت ہوئی اور آئندہ کے لئے یہ ہے کہ) بیشک اللہ تعالیٰ ایسے نافرمان لوگوں کو (توفیق) ہدایت (کی) نہیں دیتا یہ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس (جمع) ہیں ان پر کچھ خرچ مت کرو یہاں تک کہ یہ آپ ہی منتشر ہوجاویں گے اور (ان کا یہ کہنا جہل محض ہے کیونکہ) اللہ ہی کے ہیں سب خزانے آسمانوں اور زمین کے و لیکن منافق سمجھتے نہیں ہیں (کہ رزق کا مدار اہل شہر کے نفقات کو سمجھتے ہیں اور) یہ (لوگ) یوں کہتے ہیں کہ اگر ہم اب مدینہ میں لوٹ کر جاویں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو باہر نکال دے گا (یعنی ہم ان مسافر پر دیسیوں کو نکال باہر کردیں گے) اور (اس قول میں جو اپنے کو عزت والا اور مسلمانوں کو ذلت والا کہتے ہیں یہ جہل محض ہے، بلکہ) اللہ ہی کی ہے عزت (بالذات) اور اس کے رسول کی (بواسطہ تعلق باللہ کے) اور مسلمانوں کی (بواسطہ تعلق مع اللہ .... والرسول کے) و لیکن منافق جانتے نہیں (بلکہ مدار امور فانیہ کو سمجھتے ہیں ) ۔ معارف و مسائل سورة منافقون کے نزول کا مفصل واقعہ : یہ واقعہ محمد بن اسحاق کی روایت کے مطابق شعبان سن 6 ھ میں اور قتادہ و عروہ کی روایت کے مطابق شعبان سن 5 ہجری میں غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر پیش آیا ہے (مظہری) جو محمد بن اسحاق اور اکثر علماء مغازی و سیر کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر ملی کہ بنی المصطلق کے رئیس حارث بن ضرار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہے ہیں، یہ حارث بن ضرار جویریہ کے والد ہیں جو بعد میں مسلمانہو کر ازواج مظہرات میں داخل ہوئیں اور خود حارث بن ضرار بھی بعد میں مسلمان ہوگئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب ان کی جنگی تیاری کی خبر ملی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان کے مقابلہ کے لئے نکلے، اس جہاد کے لئے نکلنے والے مسلمانوں کے ساتھ بہت سے منافق بھی اس طمع میں نکلے کہ ہمیں بھی مال غنیمت میں حصہ ملے گا کیونکہ یہ لوگ باوجود دل میں کافرو منکر ہونے کے یہ یقین رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد آپ کے ساتھ ہے اور آپ ہی غالب اور فاتح ہوں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بنی المصطلق کے مقام پر پہنچے تو حارث بن ضرار کے لشکر سے سامنا اس پانی کے چشمہ یا کنویں پر ہوا جو مریسیع کے نام سے معروف تھا، اسی لئے اس غزوہ کو غزوہ مریسیع بھی کہا جاتا ہے، جانبین سے جنگ کی صفیں مرتب ہو کر تیروں کے ساتھ مقابلہ ہوا جس میں بنی المصطلق کے بہت سے آدمی مارے گئے باقی بھاگنے لگے، حق تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح عطا فرمائی، ان کے کچھ اموال غنیمت اور کچھ مرد و عورت قید ہو کر مسلمان کے ہاتھ آئے اس جہاد کا قضیہ تو ختم ہوا۔ وطنی یا نسبی قومیت کی بنیاد پر تعاون و تناصر کفر و جاہلیت کا نہرہ ہے : مگر اس کے بعد ابھی مسلمانوں کا لشکر اسی مریسیع کے پانی پر جمع تھا کہ ایک ناگوار واقعہ یہ پیش آ گیا کہ ایک مہاجر اور ایک انصاری میں اسی پانی پر باہم جھگڑا ہوگیا اور نوبت باہم قتل و قتال کی آگئی، مہاجر نے اپنی مدد کے لئے مہاجرین کو پکارا اور انصاری نے انصار کو، دونوں کی مدد کے لئے کچھ افراد پہنچے گئے اور قریب تھا کہ مسلمانوں کے باہم ایک فتنہ کھڑا ہوجائے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع ہوئی تو فوراً موقع پر تشریف لے گئے اور سخت ناراضی کے ساتھ فرمایا ” مابال دعوی الجاھلیة “ (یعنی یہ جاہلیت کا نعرہ کیسا ہے) کہ وطنی اور نسبی قومیت کو بنیاد بنا کر امداد و دفاع کا معاملہ ہونے لگا، اور فرمایا ” دعوھا فانھا منتنة “ ( اس نعرہ کو چھوڑ دو یہ بدبو دار نعرہ ہے) اور فرمایا کہ ہر مسلمان کو اپنے ہر مسلمان بھائی کی مدد کرنا چاہئے خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم مظلوم کی مدد کرنا تو ظاہر ہے کہ اس کو ظلم سے بچائے اور ظالم کی مدد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ظلم سے روکے، کیونکہ اس کی حقیقی مدد یہی ہے، مراد یہ تھی کہ ہر معاملہ میں یہ دکھنا چاہئے کہ مظلوم کون ہے، ظالم کون، پھر ہر مسلمان کا خواہ وہ مہاجری ہو یا انصاری اور کسی قبیلہ و خاندان کا ہو یہ فرض ہوجاتا ہے کہ مظلوم کو ظلم سے چھڑائے اور ظالم کا ہاتھ روکے، خواہ وہ اپنا حقیقی بھائی اور باپ ہی کیوں نہ ہو، یہ نسبی اور وطنی قومیت جاہلانہ اور بد بودار نعرہ ہے جس سے گندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد سنتے ہی جھگڑا ختم ہوگیا، اس معاملہ میں زیادتی جہجاہ مہاجری کی ثابت ہوئی، اس کے بالمقابل سنان بن وبرہ جہنی انصاری کو زخم آ گیا تھا، حضرت عبادہ بن صامت کے سمجھانے سے سنان بن وبرہ نے اپنا حق معاف کردیا اور جھگڑنے والے ظالم و مظلوم پھر بھائی بھائی بن گئے۔ منافقین کی ایک جماعت جو مال غنیمت کی طمع میں مسلمانوں کے ساتھ لگی ہوئی تھی، ان کا سردار عبداللہ بن ابی تھا جو دل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے دشمنی رکھتا تھا، مگر دنیوی فوائد کی خاطر اپنے کو مسلمان کہتا تھا، اس کو جب مہاجرین و انصار کے باہم تصادم کی خبر ملی تو اس نے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کا موقع غنیمت پایا اور اپنی مجلس میں جس میں منافقین جمع تھے اور مومنین میں سے صرف زید بن ارقم موجود تھے ........ اس نے انصار کو مہاجرین کے خلاف بھڑکایا اور کہنے لگا کہ تم نے ان کو اپنے وطن میں بلا کر اپنے سروں پر مسلط کیا، اپنے اموال و جائیداد ان کو تقسیم کر کے دے دیئے یہ تمہاری روٹیوں پر پلے ہوئے اب تمہارے ہی مقابلہ پر آئے ہیں، اگر تم نے اب بھی اپنے انجام کو نہ سمجھا تو آگے یہ تمہارا جینا مشکل کردیں گے، اس لئے تمہیں چاہئے کہ آئندہ مال سے ان کی مدد نہ کرو تو خود ہی ادھر ادھر بھاگ جائیں گے اور اب تمہیں چاہئے کہ جب مدینہ پہنچ جاؤ تو تم میں سے جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو نکال باہر کرے۔ اس کی مراد عزت والے سے خود اپنی جماعت اور انصار تھے اور ذلیل سے مراد معاذ اللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مہاجرین صحابہ تھے، حضرت زید بن ارقم نے جب اس کا یہ کلام سنا تو فوراً بولے کہ واللہ تو ہی ذلیل و خوار اور مبغوض ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے دی ہوئی عزت اور مسلمانوں کی دلی محبت سے کامیاب ہیں۔ عبداللہ بن ابی چونکہ اپنے نفاق پر پردہ ڈالنا چاہتا تھا اسی لئے الفاظ صاف نہ بولے تھے، اس وقت زید بن ارقم کے اظہار غضب سے اس کو ہوش آیا کہ میرا کفر ظاہر ہوجائے گا، تو حضرت زید سے عذر کیا کہ میں نے تو یہ بات ہنسی میں کہہ دی تھی، میرا مطلب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کچھ کرنا نہیں تھا۔ حضرت زید بن ارقم اس مجلس سے اٹھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابن ابی کا یہ سارا واقعہ کہہ سنایا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ خبر بہت شاق ہوئی، چہرہ مبارک پر تغیر کے آثار نظر آنے لگے (زید بن ارقم کم عمر صحابی تھے) آپ نے ان سے کہا کہ لڑکے تم جھوٹ تو نہیں بول رہے ہو ؟ زید بن ارقم نے قسم کھا کر کہا کہ نہیں میں نے اپنے کانوں سے اس کے یہ کلمات سنے ہیں، آپ نے پھر فرمایا کہ تمہیں کچھ شبہ تو نہیں ہوگیا، زید بن ارقم نے پھر وہی جواب دیا اور پھر ابن ابی کی یہ بات مسلمانوں کے پورے لشکر میں پھیل گئی اور آپس میں اس بات کے سوا کوئی بات ہی نہ رہی، ادھر حضرات انصار سب زید بن ارقم کو ملامت کرنے لگے کہ تم نے قوم کے سردار پر تہمت لگائی اور قطع رحمی کی، زید ابن ارقم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی قسم پورے قبیلہ خزرج میں مجھے ابن ابی سے زیادہ کوئی محبوب نہیں (مگر جب اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف یہ کلمات کہے تو میں اسے برداشت نہیں کرسکا) اور اگر میرا باپ بھی ایسی بات کہتا تو میں اس کو بھی ضرور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچاتا۔ دوسری طرف حضرت عمر بن خطاب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن ماردوں اور بعض روایات میں ہے کہ فاروق اعظم نے یہ عرض کیا کہ آپ عباد بن بشر کو حکم دیدیجئے کہ اس کا سر قلم کر کے آپ کے سامنے پیش کریں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے عمر اس کا کیا ہوگا کہ لوگوں میں یہ شہرت دی جائے گی کہ میں اپنے اصحاب کو قتل کردیتا ہوں، اس لئے آپ نے ان ابی کے قتل سے روک دیا، حضرت فاروق اعظم کے اس کلام کی خبر عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے کو پہنچی، ان کا نام بھی عبداللہ تھا اور یہ پکے مسلمان تھے، یہ فوراً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اگر آپ کا ارادہ میرے باپ کو ان کی اس گفتگو کے نتیجہ میں قتل کرنے کا ہے تو آپ مجھے حکم دیجئے میں انپے بات کا سر کاٹ کر آپ کی خدمت میں اس سے پہلے کہ آپ اپنی مجلس سے اٹھیں پیش کر دوں گا اور عرض کیا کہ پورا قبیلہ خزرج اس کا گواہ ہے کہ ان میں کوئی بھی مجھ سے زیادہ اپنے والدین کی خدمت و اطاعت کرنے والا نہیں ہے، مگر اللہ و رسول کے خلاف ان کی بھی کوئی چیز برداشت نہیں ہو سکتی اور مجھے خطرہ ہے کہ اگر آپ نے کسی اور کو میرے باپ کے قتل کا حکم دیا اور اس نے قتل کردیا تو ایسا نہ ہو کہ جب میں اپنے باپ کے قاتل کو چلتا پھرتا دیکھوں تو مجھ پر غیرت نسبی غالب آجائے اور میں اسے قتل کر بیٹھوں جو میرے لئے عذاب کا سبب بنے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہ میرا ارادہ اس کے قتل کا ہے نہ میں نے کسی کو اس کا حکم دیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عام عادت کے خلاف بےوقت سفر کرنے کا اعلان عام فرما دیا اور خود ناقہ قصویٰ پر سوار ہوگئے جب عام حضرات صحابہ روانہ ہوگئے تو آپ نے عبداللہ ابن ابی کو بلایا اور دریافت کیا کہ کیا تم نے ایسا کہا ہے ؟ یہ قسمیں کھا گیا کہ میں نے ہرگز ایسا نہیں کہا یہ لڑکا (زید بن ارقم) جھوٹا ہے، عبداللہ بن ابی کی اپنی قوم میں عزت تھی سب نے یہ قرار دیا کہ شاید زید بن ارقم کو کچھ مغالطہ لگ گیا ہے، ابن ابی نے ایسا نہیں کہا۔ بہرحال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن ابی کی قسم اور عذر کو قبول کرلیا اور لوگوں میں زید بن ارقم پر غصہ اور ان کی ملامت اور تیز ہوگئی اور یہ اس رسوائی کے سبب لوگوں سے چھپے رہنے لگے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پورے لشکر اسلام کے ساتھ پورے دن پھر پوری رات سفر کیا اور اگلے روز صبح کو بھی برابر سفر کرتے رہے، یہاں تک کہ دھوپ تیز ہونے لگی اس وقت آپ نے قافلہ کو ایک جگہ ٹھہرایا، پورے ایک دن ایک رات کو مسلسل سفر سے تھکے ہوئے صحابہ کرام جب اس منزل پر اترے تو فوراً سب محو خواب ہوگئے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عام سفر کرنے کی عادت کے خلاف فوری طور پر بےوقت سفر شروع کرنے اور پھر سفر کو اتنا طویل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ابن ابی کے واقعہ کا چرچا جو تمام مسلمانوں میں پھیل گیا تھا مسلمانوں کو سفر کے ایسے شغل میں لگا دے کہ یہ چرچا ختم ہوجائے۔ اس کے بعد پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر شروع کیا، اسی دوران میں جب تک ابن ابی کے بارے میں قرآن کی آیات نازل نہ ہوئی تھیں تو عبادہ بن صامت نے اس کو نصیحت کی کہ تو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے جرم کا اعتراف کرے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے لئے استغفار فرما دیں گے، تیری نجات ہوجائے گی، ابن ابی نے ان کی نصیحت سن کر اپنا سر اس طرف سے پھیرلیا، حضرت عبادہ نے اسی وقت فرمایا کہ ضرور تیرے اس اعراض کے بارے میں قرآن .... نازل ہوگا۔ ادھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں تھے اور زید بن ارقم بار بار آپ کے قریب آتے تھے کیونکہ ان کو اپنی جگہ یقین تھا کہ اس شخص منافق نے مجھے پوری قوم میں جھوٹا قرار دے کر رسوا کیا ہے ضروری میری تصدیق اور اس شخص کی نکیر میں قرآن نازل ہوگا، اچانک زید بن ارقم نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو وحی کے وقت ہوتی تھی کہ سانس پھولنے لگا اور پیشانی مبارک پر پسینہ بہنے لگا اور آپ کی سواری ناقہ بوجھ سے دبنے لگی، تو ان کو امید ہوئی کہ اب کوئی وحی اس بارے میں نازل ہوگی، یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ کیفیت رفع ہوئی، میری سواری چونکہ آپ کے قریب تھی آپ نے اپنی سواری ہی پر سے میرا کان پکڑا اور فرمایا : یا غلام صدق اللہ حدیثک ونزلت سورة المنفقین فی ابن ابی من اولھا ابی اخرھا ( یعنی اے لڑکے اللہ نے تیری بات کی تصدیق کردی اور پوری سورة منافقوں اسی واقعہ ابن ابی کے متعلق نازل ہوئی) ۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ سورة منافقون دوران سفر ہی میں نازل ہوگئی تھی مگر بغوی کی روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ طیبہ پہنچ گئے اور زید بن راقم رسوائی کے خوف سے گھر میں چھپ کر بیٹھ رہے اس وقت یہ سورت نازل ہوئی، واللہ اعلم۔ ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ طیبہ کے قریب وادی عقیق میں پہنچے تو عبداللہ بن ابی منافق کے مومن صاحبزادے عبداللہ آگے بڑھے اور تمام سواریوں میں تلاش کرتے ہوئے اپنے باپ ابن ابی کی سواری کے قریب پہنچ کر باپ کی اونٹنی کو بٹھا دیا اور اس کے گھٹنے پر پاؤں رکھ کر باپ سے خطاب کیا کہ خدا کی قسم ! تم مدینہ میں داخل نہیں ہو سکو گے جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) داخل ہونے کی اجازت نہ دیں اور جب تک تم یہ بات واضح نہ کرو کہ تم نے جو بات کہی ہے کہ عزت والا ذلت والے کو نکال دے گا، اس میں عزت والا کون ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا تم ؟ عبداللہ بن عبداللہ ابن ابی اپنے باپ کا راستہ روکے ہوئے کھڑے تھے اور پاس سے گزرنے والے لوگ عبداللہ کو ملامت کر رہے تھے کہ باپ کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے، آخر میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری ان کے قریب آئی تو معاملہ کے متعلق دریافت کیا، لوگوں نے بتلایا کہ عبداللہ مومن نے اپنے باپ کا راستہ اس لئے روکا ہوا ہے کہ جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے یہ مدینہ میں داخل نہ ہوسکے گا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ ابن ابی منافق بیٹے سے مجبور ہو کر یہ کہہ رہا ہے کہ میں تو بچوں اور عورتوں سے بھی زیادہ ذلیل ہوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر صاحبزادے سے کہا کہ ان کا راستہ چھوڑ دو ، مدینہ میں جانے دو ، تب بیٹے نے راستہ چھوڑا۔ سورة منافقون کے نزول کا قصہ تو اتنا ہی تھا جو اوپر لکھا گیا، قصہ کے شروع میں یہ بھی اجمالاً ذکر ہوا ہے کہ غزوہ بنی المصطلق کا اصل ذمہ دار ام المومنین حضرت جویریہ کا والد حارث بن ضرار ہوا تھا، بعد میں حضرت جویریہ کو اللہ تعالیٰ نے شرف اسلام کے ساتھ امہات المومنین میں داخل ہونے کا شرف عطا فرمایا اور باپ بھی مسلمان ہوگیا۔ اس کا کو واقعہ مسند احمد ابو داؤد وغیرہ میں یہ منقول ہے کہ جب بنو المصطلق کو شکست ہوئی تو مال غنیمت کے ساتھ ان کے کچھ قیدی بھی ہاتھ آئے، اسلامی قانون کے مطابق سب قیدی اور مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کردیئے گئے، قیدیوں میں حارث بن ضرار کی بیٹی جویریہ بھی تھیں، یہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے حصہ میں آگئیں، انہوں نے جویریہ کو بصورت کتابت آزاد کرنے کا ارادہ فرمایا جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ غلام یا کنیز پر کچھ قرم مقرر کردی جائے اور اس کو محنت مزدوری یا تجارت کی اجازت دے دیجائے وہ مقرر رقم کما کر مالک کو ادا کر دے تو آزاد ہوجائے۔ جویریہپر جو رقم مقرر کی تھی وہ بڑی رقم تھی جس کی ادائیگی ان کے لئے آسان نہ تھی وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور درخواست کی کہ میں مسلمان ہوچکی ہوں، شہادت دیتی ہوں کہ اللہ ایک ہے اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں پھر اپنا واقعہ سنایا کہ ثابت بن قیس جن کے حصہ میں میں آئی ہوں انہوں نے مجھے مکاتب بنادیا ہے مگر رقم کتابت کی ادائیگی میرے بس میں نہیں، آپ اس میں میری کچھ مدد فرما دیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو درخواست قبول فرمالی اور ساتھ ہی ان کو آزاد کرکے اپنی زوجیت میں لینے کا ارادہ ظاہر فرمایا، جویریہ کے لئے یہ بہت بڑی نعمت تھی وہ کیسے قبول نہ کرتیں، بخوشی خاطر قبول کیا اور یہ ازواج مطہرات میں داخل ہوگئیں، ام المومنین حضرت جویریہ کا بیان ہے کہ غزوہ بنی المصطلق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لانے سے تین دن پہلے میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ یثرب کی طرف سے چاند چلا اور میری گود میں آ کر گرگیا ، اس وقت تو میں نے یہ خواب کسی سے ذکر نہ کیا تھا اب اس کی تعبیر آنکھوں سے دیکھ لی۔ یہ سردار قوم کی بیٹی تھیں، ان کے ازواج مظہرات میں داخل ہونے سے پورے قبیلہ پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوئے اور ایک فائدہ ان تمام عورتوں کو پہنچا جو ان کے ساتھ گفرتار ہوئی تھیں اور ان کی رشتہ دار تھیں، کیونکہ ان کا ام المومنین ہوجانا معلوم کرنے کے بعد جس جس مسلمان کے پاس ان کی رشتہ دار کوئی کنیز تھی سب نے ان کو آزاز کردیا کہ ان کی عزیز کسی عورت کو کنیز بنا کر اپنے پاس رکھنا ادب کے خلاف سمجھا، اس طرح سو کنیزیں ان کے ساتھ آزاد ہوگئیں اور پھر ان کے والد بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک معجزہ دیکھ کر مسلمان ہوگئے۔ واقعہ مذکورہ میں اہم ہدایات و فوائد : سورة منافقون کے نزول کا واقعہ اس کی تفسیر کے سمجھنے میں تو معین ہے ہی، اس کے ضمن میں بہت اہم ہدایات و مسائل، اخلاق، سیاست اور معاشرت کے متعلق آگئے ہیں، اس لئے احقر نے اس واقعہ کی پوری تفصیل یہاں نقل کی ہے، وہ ہدایات یہ ہیں :۔ اسلامی سیاست کا سنگ بنیاد خالص اسلامی برادری قائم کرنا ہے جس میں رنگ و نسل اور زبان اور ملکی و غیر ملکی کے سب امتیازات بالکل ختم کردیئے جاویں : غزوہ بنی المصطلق میں پیش آنے والا ایک انصاری اور ایک مہاجر کا جھگڑا اور دونوں طرف سے انصار مہاجرین کو اپنی اپنی مدد کے لئے پکارنا، یہ وہ جاہلیت کا بت تھا جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے توڑ دیا تھا اور مسلمان کہیں کا رہنے والا ہو کسی رنگ و زبان اور کسی نسل و قوم کا ہو سب کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا، انصار و مہاجرین میں باقاعدہ پھر مواخات کرا کر ان کی مشترک اسلامی برادری بنادی تھی، مگر شیطان کا یہ پرانا جال ہے جس میں لوگوں کو پھنسا کر باہمی جھگڑوں کے وقت قوم و وطن اور زبان و رنگ وغیرہ کو تعاون و تناصر کی بنیاد بنا دیتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تعاون و تناصر کا اسلامی معیار حق و انصاف سب کے ذہنوں سے اوجھل ہوجاتا ہے، صرف برادری اور قومیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا اصول بن جاتا ہے، اس طرح وہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے بھڑا دیتا ہے، اس واقعہ میں بھی کچھ ایسی ہی صورت بن رہی تھی، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فوراً موقع پر پہنچ کر اس فتنہ کو ختم کردیا اور بتلایا کہ یہ جاہلیت و کفر کا بدبودار نعرہ ہے، اس سے بچو اور پھر سب کو قرآنی اصول تعاون پر قائم کردیا جس میں ارشاد ہے تعاونوا علے البر والتقوی ولا تعاونوا علی الا ثم و العدوان، یعنی مسلمانوں کے لئے کسی کی مدد کرنے یا مدد حاصل کرنے کا معیار یہ ہونا چاہئے کہ جو شخص عدل و انصاف اور نیکی پر ہے اس کی مدد کرو، اگرچہ وہ نسب و خاندان اور زبان و وطن میں تم سے الگ ہو اور جو شخص کسی گناہ اور ظلم پر ہو اس کی ہرگز مدد نہ کرو اگرچہ وہ تمہارا باپ اور بھائی ہی ہو، یہی وہ معقول اور منصفانہ بنیاد ہے جس کو اسلام نے قائم فرمایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر قدم پر اس کو خود رعایت فرمائے اور سب کو اس کے تابع رہنے کی تلقین فرمائی اور اپنے آخری خطبہ حجہ الوداع میں اعلان فرمایا کہ جاہلیت کی سب رسمیں میرے قدموں کے نیچے مسل دی گئی ہیں، اب عربی، عجمی، کالے گورے ملکی غیر ملکی کے امتیازات کے بت ٹوٹ چکے ہیں، باہمی تعاون و تناصر کی اسلامی بنیاد صرف حق و انصاف ہے، سب کو اس کے تابع چلنا ہے۔ اس واقعہ نے ہمیں یہ بھی سبق دیا ہے کہ دشمنان اسلام آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے مسلمانوں کا شیرازہ منتشر کرنے کے لئے یہی برادری اور وطنی قومیت کا حربہ استعمال کرتے ہیں جب اور جس وقت موقع مل جاتا ہے اسی سے کام لے کر مسلمانوں میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔ افسوس ہے کہ زمانہ دراز سے پھر مسلمان اپنے اس سبق کو بھول گئے اور اغیار نے مسلمانوں کی اسلامی وحدت کے ٹکڑے کرنے میں پھر وہی شیطانی جال پھیلا دیا اور دین و اصول دین سے غفلت کی بنا پر عام دنیا کے مسلمان اس جال میں پھنس کر باہمی خانہ جنگیوں کے شکار ہوگئے اور کفر و الحاد کے مقابلہ کے لئے ان کی متحدہ قوت پاش پاش ہوگئی، صرف عربی و عجمی ہی نہیں عربوں میں مصری، شامی حجازی، یمنی ایک دوسرے سے متحد نہ رہے، ہندوستان اور پاکستان میں پنجابی، بنگالی، سندھی، ہندی، پٹھان اور بلوچی باہم آویزش کے شکار ہوگئے، فالی اللہ المثتکی، دشمنان اسلام ہماری آویزش سے کھیل رہے ہیں اس کے نتیجہ میں وہ ہر میدان میں ہم پر غالب آتے جاتے ہیں اور ہم ہر جگہ شکست خوردہ غلامانہ ذہنیت میں مبتلا انہی کی پناہ لینے پر مجبور نظر آتے ہیں، کاش ! آج بھی مسلمان اپنے قرآنی اصول اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات پر غور کریں، غیروں کے سہارے جینے کے بجائے خود اسلامی برادری کو مضبوط بنالیں، رنگ و نسل اور زبان و وطن کے بتوں کو پھر ایک دفعہ توڑ ڈالیں تو آج بھی خدا تعالیٰ کی نصرت و امداد کا مشاہدہ کھلی آنکھوں ہونے لگے۔ صحابہ کرام کی اسلامی اصول پر بینظیر ثابت قدمی اور مقام بلند : اس واقعہ نے یہ بھی بتلایا کہ اگرچہ وقتی طور پر شیطان نے کچھ لوگوں کو نعرہ جاہلیت میں مبتلا کردیا تھا مگر درحقیقت سب کے دلوں میں ایمان رچابس ہوا تھا، ذراسی تنبیہ پر سب ان خیالات سے تائب ہوگئے اور ان کے دلوں پر اللہ اور رسول کی محبت و عظمت کا ایسا غلبہ تھا جس میں کوئی رشتہ ناطہ برادری اور قومیت حائل نہ ہوئی، اس کی شہادت خود اسی واقعہ میں اول زید بن ارقم کے بیان سے واضح ہوئی کہ وہ خود بھی قبیلہ خزرج کے آدمی ہیں، اوز ابن ابی اس قبیلہ کا سردار تھا اور زید بن ارقم بھی اس کی عزت و عظمت کے قائل تھے لیکن جس وقت اس کی زبان سے مومنین مہاجرین اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف الفاظ سنے تو برداشت نہ کرے سکے، اسی مجلس میں ابن ابی کو منہ توڑ جواب دیا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے شکایت پیش کردی اگر آج کل کی برادری پرستی ہوتی تو اپنی برادری کے سردار کی یہ بات وہ کبھی حضور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک نہ پہنچاتے۔ اس واقعہ میں خود ابن ابی کے صاحبزادے عبداللہ کے واقعہ نے اس کو کس قدر روشن کردیا کہ ان کی محبت و عظمت کا اصل تعلق صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے تھا، جب اپنے باپ سے ان کے خلاف بات سنی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر خود اپنے باپ کا سر قلم کرنے کی پیشکش کردی اور اجازت طلب کی، آپ نے اس سے روک دیا، تو مدینہ کے قریب پہنچ کر باپ کی سواری کو بٹھا دیا اور مدینہ جانے کا راستہ روک کر باپ کو مجبور کیا کہ وہ یہ اقرار کرے کہ عزت دار صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں وہ خود ذلیل و خوار ہے، پھر آپ کی اجازت ملنے سے پہلے باپ کا راستہ نہیں کھولا، جس کو دیکھ کر بےساختہ زبان پر آتا ہے۔ تو نخل خوش ثمر کیستی کہ سرو وسمن ہمہ زخویش برید ندد باتو پیو ستند اس کے علاوہ بدر واحد اور احزاب کی جنگوں نے تو بذریعہ تلوار اس قوم پرستی اور وطن پرستی کے بت کے ٹکڑے اڑائے ہیں، جس نے ثابت کردیا کہ مسلمان کسی قوم و وطن اور کسی رنگ و زبان کا ہو وہ سب آپس میں بھائی بھائی ہیں اور جو اللہ و رسول کو نہ مانے وہ اگرچہ حقیقی بھائی اور باپ ہی کیوں نہ ہو وہ دشمن ہے۔ ہزار خویش کہ بیگانہ خدا باشد فدائے یک تن بیگانہ کا شنا باشد مسلمانوں کے مصالح عامہ کی رعایت اور ان کو غلط فہمی سے بچانے کا اہتمام : اس واقعہ نے ہمیں ایک سبق یہ دیا کہ جو کام فی نفسہ جائز و درست ہو مگر اس کے کرنے سے کوئی یہ خطرہ ہو کہ کسی مسلمان کو خود غلط فہمی پیدا ہوگی یا دشمنوں کو غلط فہمی پھیلانے کا موقع ملے گا تو یہ کام نہ کیا جائے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رئیس المنافقین ابن ابی کا نفاق کھل جانے کے بعد بھی فاروق اعظم کے اس مشورہ کو قبول نہیں فرمایا کہ اس کو قتل کیا جائے، کیونکہ اس میں خطرہ یہ تھا کہ دشمنوں کو عام لوگوں میں یہ غلط فہمی پھیلانے کا موقع مل جائے گا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کو بھی قتل کردیتے ہیں۔ مگر دوسری روایات سے یہ ثابت ہے کہ غلط فہمی کے خطرہ سے ایسے کاموں کو چھوڑا جاسکتا ہے جو مقاصد شرعیہ میں سے نہ ہوں گو مستحب اور کار ثواب ہوں، کسی مقصد شرعی کو ایسے خطرہ سے ترک نہیں کیا جاسکتا بلکہ خطرہ کے ازالہ کی فکر کی جائے گی اور اس کام کو کیا جائے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللہِ۝ ٠ ۘ وَاللہُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُہٗ۝ ٠ ۭ وَاللہُ يَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ۝ ١ ۚ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ونَيْفَقُ السَّرَاوِيلِ معروفٌ نا فقاء الیربوع ہے یعنی جنگلی چوہے کا بل جس کے دود ھا نے ہوں نافق الیر بوع ونفق جنگی چوہیا اپنے مل کے دہانے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل گئی اور اسی سے نفاق ہے جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَالنَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ نیفق السراویل پا جامے کا نیفہ شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ويجري علمت مجراه في القسم، فيجاب بجواب القسم ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے بعض نے کہاز ہے کہ اگر اشھد کے ساتھ باللہ نہ بھی ہو تب بھی یہ قسم کے معنی میں ہوگا اور کبھی علمیت بھی اس کے قائم مقام ہوکر قسم کے معنی دیتا ہے اور اس کا جواب بھی جواب قسم کی طرح ہوتا ہے ۔ شاھد اور شھید کے ایک ہی معنی ہیں شھید کی جمع شھداء آتی ہے قرآن میں ہے۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

اشھد کا لفظ بمعنی میں قسم کھاتا ہوں قول باری ہے (اذا جاء ک المنافقون قالواشھد انک لرسول اللہ، اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ” ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں) تا قول باری (اتخذوا ایمانھم جنۃ فصدوا عن سبیل اللہ ، انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنارکھا ہے اور اس طرح یہ اللہ کے راستے سے خودرکتے اور دنیا کو روکتے ہیں) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اشھد (میں گواہی دیتا ہوں) کا لفظ قسم ہوتا ہے۔ کیونکہ منافقین نے لفظ ” شھد “ استعمال کیا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قسم قرار دیا۔ چناچہ ارشاد ہوا (اتخذوا ایمانھم جنۃ) اس مسئلے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب، سفیان ثوری اور اوزاعی کا قول ہے کہ ” اشھد، اقسم اعزم اور احلف “ کے الفاظ سب قسم کے الفاظ ہیں۔ زفر کا قول ہے کہ اگر کوئی کہے ” اقسم لافعلن “ (میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ فلاں کام کروں گا) یہ تو قسم ہوگی اور اگر ” اشھد لا فعلن “ کا فقرہ کہے گا تو قسم نہیں ہوگی۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر ” اقسم “ کے لفظ سے اس کی مراد ” اقسم باللہ “ (اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں) ہو تو یہ قسم ہوگی ورنہ یہ فقرہ بےمعنی ہوگا۔ یہی صورت ” احلف “ (میں حلف اٹھاتا ہوں) کی ہے۔ امام مالک نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر ” اعزم “ (میں عزم کرتا ہوں) کہے تو یہ قسم نہیں ہوگی الا یہ کہ وہ یہ کہے ” اعزم باللہ “ (میں اللہ کے نام کے ساتھ عزم کرتا ہوں) اگر کوئی کہے ” علی نذر “ (مجھ پر نذر ہے) یا کہے ” علی نذر للہ “ (مجھ پر اللہ کے لئے نذر ہے) تو اس فقرے سے جو اس کی نیت ہوگی اس کے مطابق ہوگا۔ اگر اس کی کوئی نیت نہ ہو تو اس کا کفارہ قسم کے کفارے کی طرح ہوگا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ لفظ ” اقسم “ قسم نہیں ہے البتہ ” اقسم باللہ “ قسم ہے۔ بشرطیکہ وہ قسم کا ارادہ کرے اگر وہ اس فقرے سے وعدہ کا ارادہ کرے گا تو یہ قسم نہیں ہوگی۔ اسی طرح فقرہ ” اشھد باللہ “ سے اگر قسم کی نیت ہوگی تو یہ قسم ہوگی اور اگر قسم کی نیت نہیں ہوگی تو یہ قسم نہیں ہوگی۔ اگر وہ ” اعزم باللہ “ کہہ کر قسم کا ارادہ کرے گا تو قسم ہوجائے گی۔ الربیع نے امام شافعی کی طرف سے ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص ” اقسم “ یا ” اشھد “ یا ” اعزم “ کہے اور اس کے ساتھ ” باللہ “ کا لفظ نہ ملائے تو یہ اس کے قول ” واللہ “ کی طرح ہوگا۔ اگر وہ ” احلف باللہ “ کہتا ہے تو اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا الایہ کہ وہ قسم کی نیت کرے۔ ابوبکرحبصاص کہتے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ فقرہ ” اشھدب اللہ “ قسم کا فقرہ ہے اسی طرح لفظ ” اشھد “ بھی قسم کا فقرہ ہونا چاہیے۔ اس کے دو وجوہ ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ ” ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کو قسم قرار دیا ہے جبکہ اس فقرے کے ساتھ اللہ کے نام کا الحاق نہیں ہے۔ اسی طرح ارشاد باری ہے (فشھادۃ احدھم اربع شھادات باللہ، ان میں سے ایک کی گواہی یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کا نام لے کر گواہی دے) اللہ تعالیٰ نے لفظ شھادۃ سے علیٰ الاطلاق قسم کی تعبیر کی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ فقرہ ” اشھدب اللہ “ قسم کے موقعہ پر بولا جاتا ہے اس لئے یہ واجب ہے کہ اللہ کے نام کو حذف کرنے اور اسے ذکر کرنے کی صورتوں میں اس فقرے کے حکم میں کوئی اختلاف واقع نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں قسم کے لفظ کے ساتھ کبھی اللہ کے نام کا ذکر کیا ہے اور کبھی اسے حذف کردیا ہے لیکن دونوں صورتوں میں فقرے کا مفہوم یکساں ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے (واقسموا باللہ جھدا ایمانھم اور انہوں نے اللہ کے نام کی پکی قسمیں کھائی تھیں) دوسری جگہ ارشاد ہوا (اذا اقسموا لیصرمنھا مصبحین، جب انہوں نے قسم کھائی کہ صبح اٹھ کر ضرور اپنے باغ کے پھل توڑیں گے) اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ اللہ کے نام کو محذوف کردیا کیونکہ مخاطبین کو اس کا علم تھا کہ یہاں یہ لفظ پوشیدہ ہے اور ایک جگہ اسے ظاہر کردیا۔ زہری نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک خواب کی تعبیر بیان کی جسے سن کر آپ نے فرمایا : ” ابوبکر (رض) ! تم نے ایک حصے کی تعبیر درست کی ہے اور ایک حصے کی تعبیر میں تم سے غلطی ہوگئی ہے۔ “ یہ سن کر حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ مجھے ضرور بتادیں۔ “ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” ابوبکر ! قسم نہ کھائو۔ “ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا تھا : ” اللہ کے رسول بخدا آپ مجھے ضرور بتادیں۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کے قول ” اقسمت علیک “ (میں آپ کی قسم دے کر کہتا ہوں) کو قسم قرار دیا۔ بعض لوگ قسم کھانے کو مکروہ سمجھتے ہیں کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) سے فرمایا تھا ” لا تقسم “ (ابوبکر (رض) ! قسم نہ کھائو) بعض لوگ قسم کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو قسم کھانے سے اس لئے منع فرمایا تھا کہ خواب کی تعبیر کی حیثیت ایک ظن اور گمان کی ہوتی ہے جس میں غلطی واقع ہوسکتی ہے۔ یہ بات اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کو کوئی دوسرا آدمی قسم دے اس پر اس قسم کو پورا کرنا لازم نہیں ہوتا۔ کیونکہ حضرت ابوبکر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب کی تعبیر بتانے کی قسم دی تھی لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اس قسم کو پورا نہیں کیا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کو خواب کی تعبیر معلوم ہو اس پر اسے دوسرے کو بتانا لازم نہیں ہوتا کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو اس خواب کی تعبیر نہیں بتائی تھی۔ ہشام بن سعد نے زید بن اسلم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمر (رض) کو شام کا گورنر مقرر کردیا تھا۔ حضرت عمر (رض) کہتے ہیں کہ ” میں یہ دیکھ رہا تھا کہ گویا اونٹ پر پالان کس رہا ہوں۔ “ جب انہوں نے شام کی طرف کوچ کا ارادہ کیا تو لوگوں نے حضرت ابوبکر (رض) سے عرض کیا کہ ” آپ عمر (رض) کو شام جانے دے رہے ہیں، بخدا عمر (رض) آپ کے پاس رہ کر بھی شام کے معاملات سدھارنے میں آپ کے لئے کافی ہوں گے۔ “ یہ سن کر حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمر (رض) سے کہا : ” میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ ٹھہر جائو۔ “ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چند متروکہ چیزوں کی ملکیت کے متعلق جب حضرت عباس (رض) اور حضرت علی (رض) کے مابین تنازعہ پیدا ہوگیا تو حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عباس (رض) سے اپنی ذات پر حضرت علی (رض) کو ترجیح دینے کے لئے کہا اور فرمایا : ” میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ تم یہ چیزیں علی کے حوالے کردو۔ “ حضرت برا بن عازب نے روایت کی ہے کہ ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم پوری کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ بات قسم کی اباحت پر دلالت کرتی ہے نیز یہ کہ قسم کا لفظ یمین ہے یعنی اس لفظ سے قسم واقع ہوجاتی ہے۔ تاہم قسم پوری کرنے کا حکم استحباب پر محمول ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ قسم پوری نہیں کی تھی جو حضرت ابوبکر (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی تھی اور یہ کہا تھا (اقسمت علیک میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قسم دیتا ہوں) حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، علقمہ، ابراہیم نخعی، ابوالعالیہ اور حسن سے مروی ہے کہ قسم کا لفظ یمین ہوتا ہے۔ حسن اور ابوالعالیہ کا قول ہے کہ ” اقسمت “ اور ” اقسمت باللہ “ دونوں کا مفہوم ایک ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جب آپ کے پاس یہ مدینہ منورہ کے منافقین یعنی عبداللہ بن ابی، معتب بن قشیر، جد بن قیس وغیرہ آتے ہیں۔ تو اللہ کی قسمیں کھا جاتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور یہ تو اللہ کو معلوم ہی ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں اس میں ان منافقین کی گواہی کی کوئی حاجت نہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ اپنی قسموں میں جھوٹے ہیں وہ اس چیز کو نہیں جانتے۔ شان نزول : اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ (الخ) امام بخاری نے حضرت زید بن ارقم سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی منافق کو اپنے ساتھیوں سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو لوگ رسول اکرم کے پاس جمع ہیں ان پر کچھ خرچ مت کرو اگر اب ہم مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو باہر نکال دے گا میں نے اس چیز کا اپنے چچا سے ذکر کیا، میرے چچا نے رسول اکرم سے ذکر کیا، حضور نے مجھے بلایا میں نے آپ سے سارا واقعہ بیان کیا تو رسول اکرم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کے پاس قاصد بھیجا ان لوگوں نے اس کے بارے میں جھوٹی قسمیں کھالیں۔ غرض کہ آپ نے میری تکذیب کی اور اس کی تصدیق تو اس بات سے مجھے اس قدر صدمہ ہوا کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا میں گھر میں بیٹھ گیا میرے چچا کہنے لگے کہ تو نے بس یہی چاہا تھا کہ حضور تیری تکذیب کریں اور تجھ سے ناراض ہوں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں، حضور نے میرے پاس قاصد بھیجا اور مجھے پڑھ کر یہ آیات سنائیں اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تیری تصدیق کردی، یہ روایت حضرت زید سے مختلف طریقوں سے مروی ہے اور بعض میں ہے کہ یہ بات غزوہ تبوک میں پیش آئی اور یہ سورت رات کو نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ اِذَا جَآئَ کَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ ٧} ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ “ { وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ } ” اور اللہ جانتا ہے کہ یقینا آپ اس کے رسول ہیں۔ “ { وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَــکٰذِبُوْنَ ۔ } ” اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین یقینا جھوٹے ہیں۔ “ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی یہ لوگ صرف اپنی زبانوں سے دیتے ہیں ‘ ان کے دل اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے ‘ اس لیے یہ لوگ جھوٹے (کٰذِبُوْنَ ) ہیں۔ جیسا کہ تمہیدی کلمات میں ذکر ہوا ہے بات بات پر جھوٹ بولنا مرض منافقت کی پہلی سٹیج ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 That is, "Although the thing they. are uttering with the tongue is true by itself, it dces not reflect their belief. Therefore they lie when they say that they bear witness that you are a Messenger of AIIah." Here, one should clearly understand that an evidence or witness is composed of two things: first, the actual thing to which one bears the witness; second, the concerned person's own belief about the thing to which he bears the witness, Now, if the thing by itself is true and the belief of the bearer of witness also correspons to what he says, he will be truthful in every respect. And if the thing in itself is false; but the beater of the witness believes it to be right and true, he will be regarded as truthful in one way, for he is truthful in expressing his belief, and liar in another way, for the thing he is bearing witness to is by itself false. Contrary to this, if the thing by itself is true but the belief of the bearer of the witness is opposed to it, he will be regarded as truthful because he is testifying to the right thing, and a liar because his own belief is contrary to what he is saying with the tongue. For instance, if a Believer states that Islam is a taste religion, he is truthful in every respect, but if a Jew, while he is steadfast in his Judaism, states the same thing, he would be stating the right thing but his evidence would be regarded 8s false, for he is testifying against his faith and belief. And if he calls it a false religion, he would be uttering a false thing but he would be beating a true witness according to his belief.

سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :1 یعنی جو بات وہ زبان سے کہہ رہے ہیں وہ ہے تو بجائے خود سچی ، لیکن چونکہ ان کا اپنا عقیدہ وہ نہیں ہے جسے وہ زبان سے ظاہر کر رہے ہیں ، اس لیے اپنے اس قول میں وہ جھو ٹے ہیں کہ وہ آپ کے رسول ہونے کی شہادت دیتے ہیں ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شہادت دو چیزوں سے مرکب ہوتی ہے ۔ ایک وہ اصل بات جس کی شہادت دی جائے ۔ دوسرے اس بات کے متعلق شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ ۔ اب اگر بات بجائے خود بھی سچی ہو ، اور شہادت دینے والے کا عقیدہ بھی وہی ہو جس کو وہ زبان سے بیان کر رہا ہو ، تو ہر لحاظ سے وہ سچا ہو گا ۔ اور اگر بات اپنی جگہ جھوٹی ہو ، لیکن شہادت دینے والا اسی کے حق ہونے کا عقیدہ بیان کرنے میں صادق ہے ، اور ایک دوسرے لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے ، کیونکہ جس بات کی وہ شہادت دے رہا ہے وہ بجائے خود غلط ہے ۔ اس کے برعکس اگر بات اپنی جگہ سچی ہو لیکن شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ اس کے خلاف ہو ، تو ہم اس لحاظ سے اس کو سچا کہیں گے کہ وہ صحیح بات کی شہادت دے رہا ہے ، اور اس لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے کہ اس کا اپنا عقیدہ وہ نہیں ہے جس کا وہ زبان سے اظہار کر رہا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک مومن اگر اسلام کو بر حق کہے تو وہ ہر لحاظ سے سچا ہے ۔ لیکن ایک یہودی اپنی یہودیت پر قائم رہتے ہوئے اس دین کو اگر بر حق کہے تو بات اس کی سچی ہو گی مگر شہادت اس کی جھوٹی قرار دی جائے گی ، کیونکہ وہ اپنے عقیدے کے خلاف شہادت دے رہا ہے ۔ اور اگر وہ اس دین کو باطل کہے ، تو ہم کہیں گے کہ بات اس کی جھوٹی ہے ، مگر شہادت وہ اپنے عقیدے کے مطابق سچی دے رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٤۔ زبان سے تو منافق لوگ قسمیں کھا کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے لیکن ان کے دل میں کفر اور نفاق بھرا ہوا تھا اس واسطے فرمایا کہ یہ لوگ زبان سے ایمان اور اسلام کی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے دل کے نفاق کے سبب سے جس کا حال اللہ کو معلوم ہے اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں کیونکہ ان کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے۔ بیچ میں اپنے رسول کی تسکین کے لئے یہ بھی فرمایا کہ اللہ قسم کھا کر اس بات کی صداقت ادا کرتا ہے کہ اے نبی اللہ کے تم اللہ کے رسول ہو لیکن ان منافقوں کی دو دلی کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے کہ جو کچھ زبان سے نیک بات یہ لوگ کہتے ہیں اس نیک بات کا اثر ان لوگوں کے دل تک نہیں پہنچتا۔ صحیح ٢ ؎ حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ بغیر توبہ کے گناہ پر گناہ کرتے کرتے آدمی کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے جس سے نیک بات اس کے دل پر اثر نہیں کرتی اس زنگ کو دل کی مہر فرمایا بعض مفسروں نے یہ جو لکھا ہے کہ یہ آیت مرتد لوگوں کی شان میں ہے یہ قول ضعیف ہے صحیح قول یہی ہے کہ جس طرح اور آیتوں میں منافقوں کا ذکر ہے یہ آیت بھی منافقوں کی شان میں ہے کیونکہ جھوٹی قسمیں کھانا منافقوں کی ایک خاص نشانی ہے چناچہ اس باب میں صحیح حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ منافق کی ہر بات جھوٹی ہوتی ہے۔ ١ ؎ ان منافقوں کی جھوٹی قسموں کا سبب یہ فرمایا کہ انہوں نے اپنے ظاہری اسلام پر جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے جان و مال کے بچاؤ کی ایک ڈھال ان قسموں کو ٹھہرا رکھا ہے جس سے خود بھی یہ گمراہ ہیں اور بعض اور نادانوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں عبد اللہ بن ابی ‘ جد بن قیس ‘ معتب بن قشیر منافقوں میں روز دار لوگ تھے ان کی چالیں دیکھ کر ان کی قوم کے اور نادان لوگ بھی ان کے ڈھنگ سیکھتے تھے اس لئے یہ فرمایا کہ یہ خود بھی گمراہ ہیں اوروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں پھر فرمایا جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ ان کے حق میں برا ہے کس لئے کہ سوا اللہ تعالیٰ کے ان کے دل کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ اس واسطے ایمان داروں کی مجلس میں ان کی سی باتیں کرکے دونوں بہکا لیتے ہیں اور ان کے دل پر زنگ لگ جانے سے یہ لوگ اپنے کاموں کی برائی کو نہیں سمجھ سکتے بلکہ اپنی بدعادت کی برائی کے سمجھنے کے بجائے ان کی یہ بدعادت ان کو ایسی بھلی معلوم ہونے لگی ہے کہ رات دن اسی میں لگے رہتے ہیں اور رات دن اس عادت کے نہ چھوڑنے کے سبب سے ان کے دل میں یہ عادت ایسی بس گئی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو بھی جھوٹی قسمیں کھا کر یہ لوگ اپنے آپ کو ایمان دار بتائیں گے اور اس جھوٹے ایمان سے اپنی نجات کی توقع رکھیں گے لیکن اس غیب دان کے رو برو کسی کا دھوکا کیا چل سکتا ہے ان کا یہ دھوکا ان کو اسی قسم کی یہ سزا دلوائے گا کہ پل صراط کے اندھیرے کو طے کرنے کے لئے جب پکے ایمان دار لوگوں کو روشنی ملے گی تو ان کی زبانی ایمان کی مدھم روشنی کے موافق ان کو بھی کچھ روشنی مل جائے گی جو پل صراط کے عین اندھیرے میں بجھ جائے گی اور یہ لوگ آخر دوزخ کے نیچے کے طبقے میں گر پڑیں گے منافقوں کے دوزخ کے طبقہ کا حال سورة النساء میں اور ان کی روشنی کے بجھ جانے کا حال سورة الحدید میں اور اللہ تعالیٰ کے رو برو ان کی جھوٹی قسمیں کھانے کا حال سورة المجادلہ میں گزر چکا ہے اب آگے منافقوں کے ایک اور حال کا ذکر فرمایا کہ ان کی صورت شکل ڈیل ڈول سے چرب زبانی سے اور مسجد نبوی کی دیواروں سے لگ کر بڑی توجہ کے ساتھ بیٹھ جانے سے تو دیکھنے والے کو ان کی ظاہری حالت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بات کے سمجھنے کا پورا مادہ ہوگا لیکن ان کی شامت اعمال سے ان کے دلوں پر وہ زنگ چھایا ہوا ہے کہ ان کا وہ دیوار سے لگ کر بڑی توجہ کے ساتھ بیٹھنا بالکل ایسا ہے جس طرح کڑی یا شہتیر دیوار سے لگا کر کھڑے کردیئے ہیں کہ جن میں بات کے سمجھنے کا کچھ بھی مادہ نہیں ہوتا اور ان دو دلی کے سب سے ان کا دل کسی طرف سے مطمئن نہیں ہے اس لئے کوئی صدمہ پیش آجانے کا کھٹکا ان کے دل میں ہر وقت لگا رہتا ہے مثلاً دو مسلمان آپس میں باتیں کریں تو ان کو خیال ہوتا ہے کہ شاید ان ہی کی مذمت میں کوئی نئی آیت اتری ہے۔ اسی کا یہ چرچا ہو رہا ہے اور لڑائی چڑاہی کا کچھ تذکورہ ہو تو یہ وسوسہ پیدا ہوجاتا ہے کہ ہم کو بھی لڑائی پر جانا پڑے گا۔ پھر معلوم نہیں کہ لڑائی کا انجام کیا ہو اگر ہو سکے تو دشمنوں کے فائدہ کی کوئی جاسوسی کی جائے تاکہ دشمنوں سے بھی میل بنا رہے۔ اسی واسطہ فرمایا کوئی بھید کی بات ان کے رو برو کہنے سے بچنا چاہئے۔ آخر کو فرمایا جب باوجود اس قدر فہمایش کے بھی یہ لوگ راہ راست سے پھرے جاتے ہیں اور اپنی بدعادتوں سے باز نہیں آتے تو ان پر خدا کی پھکار ہے مسند امام احمد ترمذی ١ ؎ صحیح ابن حبان وغیرہ میں عبد اللہ بن عمروبن العاص (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب ازل میں اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو آدم (علیہ السلام) کی پشت سے نکالا تو ان کو ایک ہدایت کی روشنی تقسیم کی گئی تھی جو لوگ دنیا میں آنے کے بعد راہ راست پر آنے والے تھے۔ ان کو اس روشنی نے نورانی حالت میں کردیا۔ اور جو لوگ راہ راست پر آنے والے نہیں تھے وہ اندھیرے میں رہ گئے۔ ابن حبان وغیرہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے عالم مثال میں ہر ایک چیز کی خاص خاص صورت ہے اس لئے اس حدیث کی شرح میں علماء نے لکھا ہے کہ اجالے اور اندھیرے کی صورت میں وہ بدیاں اور نیکیاں تھیں جن کو اب لوگ دنیا میں اپنے اختیار سے کرتے ہیں باوجود ہر طرح کی فہمایش کے جن لوگوں کے راہ راست پر نہ آنے کا ذکر ان آیتوں میں یا اس قسم کی اور آیتوں میں ہے۔ یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے جس سے یہ معلوم ہوگیا کہ ازل میں راہ راست پر دنیا میں قائم رہنے کا انکار اقرار خالص طور پر نہ تھا اور دنیا میں آنے کے بعد جس حالت پر یہ لوگ ہیں وہ حالت ان کی ازلی ہے کسی فہمایش اور نصیحت سے وہ پلٹنے والی نہیں ہے یہ فقط اللہ تعالیٰ کا انصاف ہے جو اس نے سزا و جزا کا مدار دنیاوی عملوں پر رکھا ہے ازلی حالت پر نہیں رکھا ورنہ ان کا حال تو ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ پیدا ہونے کے بعد یہ لوگ کیا کریں گے رہی یہ بات کہ ان کو مجبور کرکے راہ راست پر لایا جائے یہ انتظام الٰہی کے برخلاف ہے کیونکہ انتظام الٰہی کے موافق دنیا نیک و بد کے امتحان کے لئے پیدا کی گئی ہے بد لوگوں کو مجبور کرکے راہ راست پر لانے کے لئے نہیں پیدا کی گئی۔ (٢ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة ویل للمطففین ص ١٩١ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب علامۃ المنافق ص ١٠ ج ١۔ ) (١ ؎ جامع ترمذی آخر ابواب الایمان ص ١٠٤ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(63:1) ازا جاء ک المنفقون۔ جملہ شرط ہے۔ قالوا نشھد انک لرسول اللہ۔ جواب شرط۔ اذا۔ جب (شرطیہ) جاء ک میں ک ضمیر واحد مذکر حاضر کا مرجع رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ المنفقون۔ اسم فاعل جمع مذکر معرف باللام ۔ نفاق کرنے والے مرد۔ دو رخی کرنے والے۔ یعنی زبان و عمل سے بظاہر مسلمان اور دل سے اسلام کے خلاف عقیدہ رکھنے والے۔ یہ نافقاء ونفقۃ سے ہے۔ جس کے معنی ہیں گواہ (جنگلی چوہا) کا بھٹ۔۔ جس کے کم از کم دو منہ ہوتے ہیں ایک دہانے سے گوہ اس میں داخل ہوتی ہے شکاری اس طرف متوجہ ہوتا ہے تو دوسرے سوراخ سے باہر نکل جاتی ہے (تبریزی) ۔ اصطلاح قرآنی میں نفاق اور منافقت اسی دو رخی کا نام ہے بظاہر زبان سے آدمی مومن ہونے کا اقرار کرتا ہے اور دکھاوے کی نمازیں بھی پڑھتا ہے لیکن دل میں کافر رہتا ہے اسلام کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے ایسے آدمی کو عرف شریعت میں منافق کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر عقیدہ مؤمنانہ ہو اور عمل کافرانہ تو دو رخی کی ایک یہ بھی شکل ہوتی ہے ایک دروازے سے آدمی اسلام کے دائرے میں داخل ہوتا ہے اور دوسرے راستہ سے کا رج ہوتا ہوا نظر آتا ہے لیکن قرآن اصطلاح میں ایسے آدمی کو منافق نہیں کہا جاتا بلکہ فاسق اور عاصی کہا جاتا ہے (شرح عقائد نسفی) قالوا میں ضمیر فاعل جمع مذکر غائب المنافقون کی طرف راجع ہے نشھد مضارع جمع متکلم شھادۃ (باب سمع) مصدر سے۔ ہم گواہی دیتے ہیں۔ لرسول اللہ میں لام تاکید کا ہے۔ انک لرسول اللہ بیشک آپ ضرور اللہ کے رسول ہیں۔ واللہ یعلم انک لرسولہ۔ اور اللہ تعالیٰ بھی جانتا ہے کہ آپ بلاشبہ اس کے رسول ہیں۔ جملہ معترضہ ہے کلام سابق کی تاکید کے لئے ہے۔ واللہ یشھد ان المنافقین لکذبون : ان حرف مشبہ بالفعل، المنافقین اسم ان لکذبون اس کی خبر۔ جملہ اسمیہ ہوکر فعل یشھد کا مفعول۔ اللہ فاعل ، فعل، فاعل، مفعول مل کر جملہ فعلیہ ہوا۔ لام تاکید کے لئے ہے۔ اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بلاشبہ منافق جھوٹے ہیں (یعنی زبان سے جو کہہ رہے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں لیکن ان کے دل میں ان کا اعتقاد بالکل الٹ ہے وہ دل کی بات صحیح طور پر نہیں بیان کر رہے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی زبان سے جو بات کہتے ہیں وہ اپنی جگہ صحیح ہے لیکن یہ ان کے دل کی بات نہیں ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں دل میں ہرگز آپ کو سچا رسول نہیں سمجھتے شاہ صاحب لکھتے ہیں :” یعنی وہ قائل نہیں عرض کو کہتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١ تا ٨۔ اسرار ومعارف۔ یہ سورة مبارکہ خلاف اسلام سازش کرنے والے نام نہاد مسلمانوں کے بارے نازل ہوئی جنہیں منافقین کہا گیا ہے ۔ یہ پانچ یاچھ ہجری میں غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر نازل ہوئی کہ ان کی شرارت کے باعث ان پر لشکر کشی کی گئی خود رسول اللہ نے قیادت فرمائی ان کے چشموں کے نزدیک رن پڑا اور تیراندازی میں ہی ان کے بہت سے لوگ مارے گئے اور انہیں شکست ہوئی بہت سے لوگ قید ہوئے سردار کی بیٹی حضرت جویریہ بھی انہیں قیدیوں میں تھیں جو ازواج مطہرات میں داخکل ہوئیں اور یوں قبیلے کی تقریبا ایک صد خواتین کی رہائی کا سبب بن کر قبیلے کے اسلام لانے کا باعث بھی بنیں۔ اس میں منافقین جو غنیمت کے لالچ میں ساتھ تھے ان کا کردار بھی ظاہر ہوا کہ انہوں نے انصار ومہاجر کے نام پر مسلمانوں کو لڑانے کی سازش کی جس کی بنیاد پر دو صحابہ کا معمولی ساتکرار تھا اور انصار سے منافقین کے سردار نے کہا یہ یہ باہر سے آئے ہوئے کمزور لوگ ہیں انہیں نکال باہر کرو اور ان کی مدد کرنا بند کرو کہ اسے اپنے سردار بننے کا یقین تھا مگر حضور کی تشریف آوری پر وہ سارا نظام ختم ہوگیا اور اسلام کا نظام رائج ہواجس کے سربراہ نبی کریم تھے پھر ان کے خلفاء تو ابن ابی منافقین کے سردار نے اس کو ختم کرنے کی ناکام سازش کی جس کے بارے ارشاد ہوا کہ جب یہ منافقین آپ کی خدمت میں آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم آپ کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں اور اللہ جانتا ہے یہ حق ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ منافقت۔ مگر اللہ اس بات کا بھی گواہ ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں یعنی یہ دل سے آپ کے لائے ہوئے نظام کو قبول نہیں کرتے کہ اس میں ان کی ریاست و حکومت یا اقتدار واختیار کی کوئی صورت نہیں بنتی تو گویا ایسا شخص جو مسلمان کہلاتا ہو تو نماز روزہ ادا کرتا ہوں مگر اسلامی نظام کا اس لیے ساتھ نہ دے کہ اس طرح وہ اقتدار میں نہیں آسکتا منافق کہلائے گا ، اعاذنا اللہ منہا۔ ان منافقین نے اپنے دعوائے ایمان کو ڈھال بنارکھا ہے اور اس کے ساتھ اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ظاہر ہے نماز روزہ تودکھاوے کے لیے وہ خود بھی کرتے تھے عملا اسلام کے ریاستی نظام کے حق میں نہ تھے اور اعتراضات کرتے رہتے تھے۔ ان کا یہ عمل بہت ہی برا ہے انہیں ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوئی مگر انہوں نے کفر کو پسند کیا دنیا کے فائدے کے لیے دل میں وہی کافرانہ نظام بساکررکھا ہے جس پر ناراض ہو کر اللہ نے ان کے دلوں پر مہر کردی ہے اب یہ ان باتوں کو سمجھنے کے شعور سے ہی محروم ہوگئے۔ ان کو دیکھیں تو بڑے صحت مند جوان نظر آتے مگر اندر سے کھوکھلے ہیں یعنی باطنی کمالات ، ایمان اخلاق اور جرات سے عاری ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے لکڑیاں کسی دیوار کے سہارے کھڑی ہوں اور ہر وقت ان پر خوف طاری ہے گویا ہر مصیبت صرف ان کے لیے ہی آنے والی ہے یہ خطرناک دشمن ہیں لہذا آپ ان سے احتیاط کیجئے اللہ انہیں تباہ کرے یہ کس کام میں لگ گئے۔ اگر انہیں توبہ کی دعوت بھی دی جائے کہ آؤ رسول اللہ تمہارے لیے دعا کریں گے جو تمہاری بخشش کا سامان ہوگاتوسرکوجھٹک کر چل دیتے ہیں اور ہمیشہ اسلام کی راہ روکنے میں لگے رہتے ہیں اور اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اسیر ہیں۔ اب ایسے لوگ جو آپ کے خلاف یعنی آپ کے لائے ہوئے نظام کے خلاف کمربستہ ہیں مگر آپ بھی اپنے مزاج کریمہ کے سبب انہیں معاف فرما کر ان کے لیے دعافرمائیں یا آپ نہ فرمائیں برابر ہے کہ اللہ ایسے بدکاروں کو ہرگز معاف نہ کرے گا۔ نام نہاد مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ۔ بظاہرنیکی کا اظہا کرنے والے حکمران اگر نظام اسلام کی مخالفت پر کمربستہ رہے جیسے آجکل ہیں تو یہ ضرور خیال کرلیں کہ یہ مخالفت اسلام کی نہیں داعی اسلام کی ہے جواتنابڑاجرم ہے جو اس کی بخشش کی دعا کرنے سے اللہ نے اپنے رسول اللہ کو منع فرمادیا ہے اے کاش اللہ کریم ان کو ہدایت دے۔ مغرب کی پالیسی۔ یہ ایسے ظالم ہیں کہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی اور اسلامی نظام کی مالی مدد نہ کی جائے تو مسلمان از خود منتشر ہوجائیں گے اور آج بھی نادان حکمرانوں کی غفلت اور ہوس اقتدار کے باعث مغرب کی یہی پالیسی ہے کہ مسلمان ریاستوں کے مالی وسائل چھین لیے جائیں تاکہ مسلمان کبھی اسلام نظام کا نام نہ لے سکیں۔ مگریہ نادان اس بات سے بیخبر ہیں کہ زمینوں اور آسمانوں کے خزانے اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ اپنے بندوں کو کفارومنافقین کی سازشوں کا شکار نہ ہونے دے گا اور ان کا کہنا تو ہے کہ جب واپس مدینہ پہنچیں تو ہم طاقتوران کمزور لوگوں کو نکال باہر کریں گے مگر حق یہ ہیی کہ عزت و غلبہ اللہ ک لیے ہے اور اس کے رسول کے لیے جو خلوص دل سے نبی کی اتباع کرتے ہیں مگر یہ بات منافقین کی سمجھ میں نہیں آتی قرآن حکیم کا نزول بیشک خاص واقعات پر ہوا مگر یہ ہمیشہ کے لیے ہے اور حکم عام ہے آج بھی جو برائے نام مسلمان اسلام کے خلاف سازش کر رہے ہیں ان پر یہی احکام لاگو ہوں گے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

طبع۔ مہر لگا دی گئی۔ خشب۔ لکڑیاں۔ مسندۃ۔ سہار لگائی ہوئی۔ صیحۃ۔ چیخ پکار۔ ینفضوا۔ بکھر جائیں گے۔ الاعذ۔ قوت اور زور والا۔ الاذل ۔ کمزور و ناتواں۔ تشریح : رئیس المنافقین عبد اللہ ابن ابی ابن سلول ایک کھلا ہوا منافق اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی میں سب سے آگے تھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی عداوت اور دشمنی سے اچھی طرح واقف تھے لیکن آپ نے کبھی اس کو منافق کہہ کر نہ تو پکارا اور نہ صحابہ کرام نے اس کو اس لقب دے یاد کیا۔ حالانکہ کوئی ایسا موقع نہیں تھا جہاں اس نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور اسلام دشمنی میں کوئی کسر چھوڑی ہو۔ اصل میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدینہ منورہ تشریف آواری سے پہلے مدینہ کے دو بڑے قبیلے اوس اور خزرج آپس کی لڑائیوں اور جنگ سے تنگ آچکے تھے انہوں نے یہ طے کیا کہ کسی ایک شخص کو ان دونوں قبیلوں کا سردار اور بادشاہ بنا لیا جائے تاکہ اختلاف اور جھگڑے کے وقت اس سے مدد لی جاسکے۔ عبد اللہ ابن ابی ایک نہایت چالاک اور عیار آدمی تھا۔ اس نے ایسے طریقے اختیار کئے کہ اورس اور خزرج کے لوگ اس کو اپنا بادشاہ بنانے پر رضا مند ہوگئے۔ انہوں نے بادشاہوں جیسا تاج تیار کرلیا تھا تاکہ باقاعدہ تاج پوشی کی رسم ادا کی جائے۔ ادھر بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد مدینہ منورہ کے وہ حضرات جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی تعلیمات کو قبول کرلیا تھا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے اگرچہ ان کی تعداد زیادہ نہیں تھی مگر انہوں نے جرأت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کو مدینہ منورہ آنے کی باقاعدہ دعوت پیش کردی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار مدینہ کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرما لی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے ہی مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہر گھر میں آپ ہی کا چرچا شروع ہوگیا۔ پھر آپ نے آتے ہی مہاجرین و انصار کو اخوت و محبت کے رشتے میں اس طرح منسلک کردیا کہ وہ سگے بھائیوں سے زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کرنے لگے۔ دوسری طرف آپ نے مدینہ منورہ میں آباد تمام قبیلوں سے باہمی صلح کا ایک ایسا معاہدہ فرمایا تاکہ سب ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے ایسی فضا پیدا کریں جس سے بیرونی دشمن کو مدینہ منورہ پر حملہ کرنے یا نقصان پہنچانے کی ہمت نہ ہوسکے۔ یہ سارے اقدامات ایسے تھے کہ لوگ عبد اللہ ابن ابی کی تاج پوشی کو بھول گئے۔ ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے عبد اللہ ابن ابی نے اسی میں میں عافیت سمجھی کہ جس طرح اوس و خزرج اور دوسرے قبیلوں کے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں وہ بھی ظاہری طور پر اسلام قبول کرلے۔ چناچہ اس نے اور اس کے قبیلی کے دو تین سو آدمیوں نے منافقت کے لبادے میں اسلام قبول کرلیا۔ کہتے ہیں چوٹ کھایا ہوا سانپ بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ عبد اللہ ابن ابھی بھی اس بات کو کیسے بھول سکتا تھا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی وجہ سے اس کی بادشاہت کا تصور چھین چکا تھا۔ چناچہ اس نے ہر موقع پر مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور اسلام کے مقاصد کو نقصان پہنچانے میں کسر نہیں چھوڑی۔ ٭جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو قینقاع کی سرکشی اور معاہدہ شکنیوں پر ان کو سزا دینے کا فیصلہ کیا تو بنو قینقاع کی حمایت میں سب سے آگے یہی عبد اللہ ابن ابی تھا۔ غزوہ بدر کے بعد جب کفار مکہ نے تین ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کیا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک ہزار مسلمان تھے۔ اس موقع پر عبد اللہ ابن ابی نے لوگوں میں کفار مکہ کی طاقت کا اس طرح نقشہ کھینچا کہ وہ خود اور اس کے تین سو ساتھی میدان جنگ سے مدینہ منورہ میں اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ اتنے بڑے دشمن کے مقابلے کے وقت اتنی بڑی تعداد کا نکل جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا جس کو نظر انداز رکر دیا جاتا لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) کا بھروسہ صرف اس اللہ پر تھا جو ساری کائنات کی قوتوں کا مالک ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ جن کے پاس پوری طرح ہتھیار بھی نہ تھے جنگ شروع ہوتے ہی ایسے بےجگری سے لڑے کہ دشمن کو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنا پڑا۔ بعض صحابہ کرام (رض) نے دشمن پر ایسے وار کئے کہ دشمن کے دانت کھٹے کردئیے۔ عبد اللہ ابن ابی ان سلول اور اس کے ساتھیوں کے نکل جانے سے اس جنگ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا لیکن عبد اللہ ابن ابی نے اپنی ذہنیت کا مظاہرہ کرکے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں کسر نہ چھوڑی۔ اسی طرح جب 4 ھ میں بنو نضیر نے غداری اور عہد شکنی کی انتہا کردی اور یہ ثابت ہوگیا کہ بن نضیر مکہ کے کفار کے ساتھ سازش کرکے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کا پورا بندوبست کرچکے ہیں تو آپ نے بنو نضیر کو ان کی عہد شکنی کی سزا دینے کا فیصلہ کرلیا۔ عبد اللہ ابن ابی نے بنو نضیر کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنی جگہ ڈٹے رہیں۔ اس کے پاس دو ہزار ایسے مسلح نوجوان موجود ہیں جو ان کی مدد کریں گے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کو ذلت و رسوائی کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکال دیا اس کے بعد۔ غزوہ بنو مصطلق کا موقع تھا کہ ایک دن عبد اللہ ابن ابی نے ایک محفل میں اپنے دلی بغض اور دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگو ! تم نے ان مسلمانوں کو اپنے وطن میں بلا کر اپنے سروں پر مسلط کیا۔ اپنے مال و جائیداد میں ان کو شریک کیا۔ یہ تمہاری روٹیوں پر پلنے والے اب تمہارے ہی مقابلے پر آگئے ہیں۔ اگر تم نے اب بھی اپنے انجام پر غور نہ کیا تو یہ لوگ آگے تمہارا جینا حرام کردیں گے۔ تمہیں چاہیے کہ تم آئندہ سے ان کی کسی طرح مدد نہ کرو اس طرح یہ لوگ مدینہ چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ اب تمہیں چاہیے کہ جب تم مدینہ پہنچو تو جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو باہر نکال دے۔ حضرت زید ابن ارقم جو بچے تھے انہوں نے عبد اللہ ابن ابی کی ساری باتیں سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتادیں۔ آپ نے پوچھا کہ کیا تم نے یہ سب باتیں خود سنی ہیں۔ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ عبد اللہ ابن ابی کی یہ بات پورے لشکر اسلام میں پھیل گئی اور ہر طرف عبد اللہ ابن ابی کے خلاف غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ عبد اللہ ابن ابی کے بیٹے کا نام بھی عبد اللہ ہی تھا۔ وہ سچے اور پکے مسلمان تھے۔ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنے باپ کو قتل کردوں۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سختی کے ساتھ منع فرمادیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کے اشتعال اور غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اس جگہ سے کوچ کا حکم دیا۔ جب آپ مدینہ کے قریب وادی عقیق میں پہنچے تو عبد اللہ ابن ابی کے بیٹے حضرت عبد اللہ نے اپنے باپ کو تلاش کرنا شروع کردیا۔ جب باپ پر نظر پڑی تو انہوں نے عبد اللہ ابن ابی کی سواری کو بٹھا کر اور اونٹ کے گھٹنے پر پاؤں رکھ کر کہا کہ اللہ کی قسم تم مدینہ میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک اس بات کی وضاحت نہ کردو کہ عزت والا ذلت والے کو نکال دے۔ بتائو اسمیں عزت والا کون ہے ؟ عبد اللہ اپنے باپ کا راستہ روکے کھڑے تھے جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری پاس سے گزری اور صورت حال معلوم کی تو آپ نے اپنے صحابی حضرت عبد اللہ سے فرمایا کہ عبد اللہ ابن ابی کا راستہ چھوڑ دو ۔ مدینہ جانے دو ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے بعد حضرت عبد اللہ نے اپنے باپ کا راستہ چھوڑ دیا۔ لیکن عبد اللہ ابن بی نہایت ذلیل و خوار ہوچکا تھا اور اس کی منافقت پوری طرح کھل کر سامنے آچکی تھی۔ اس موقع پر زیر مطالعہ آیات نازل ہوئیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ سبب نزول آیات متضمنہ ذکر منافقین کا یہ ہے کہ کسی غزوہ میں کسی مہاجر اور انصاری میں تکرار ہوگیا، اس پر عبداللہ بن ابی بگڑا کہ تم نے ان پر دیسیوں کو روٹیاں کھلا کھلا کر بگاڑ دیا۔ اب کے مدینہ پہنچ کر ان لوگوں کو خرچ دینا بند کردو، خود ہی چلے جائیں گے، اور یہ بھی کہا کہ ہم عزت والے ہیں ان ذلت والوں کو نکال دیں گے، یہ بات زید بن ارقم صحابی نے سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جا کہی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن ابی اور اس کے رفقاء کو بلا کر پوچھا وہ صاحب مکر گیا اور قسمیں کھا گیا، زید بن ارقم کو بڑا رنج ہوا، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں دنیا کے معاملات اور فائدے کو مقدم سمجھنا عملی طور پر منافقت کرنے کے برابر ہے۔ اس لیے سورة جمعہ کے بعد سورة منافقون رکھی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کو ہر قسم کی منافقت سے بچنے کی تعلیم دی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک منافق اس قدر برا ہے کہ اس کے کلمہ پڑھنے پر بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ فہم القرآن کے دو مقامات پر یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ منافق کا لفظ نفق سے نکلا ہے۔ نَفق چوہے یا لومڑ کی ایسی بل کو کہتے ہیں جس کے دوراستے ہوں۔ منافق اپنے گفتار اور کر دار کے لحاظ سے دوغلا ہوتا ہے جس وجہ سے اسے منافق کہا جاتا ہے منافق اپنی زبان سے وہ دعویٰ کرتا ہے جس پر اس کا اعتقاد اور ایمان نہیں ہوتا۔ اسی لیے قرآن مجید نے منافق کے ایمان اور اس کی گواہی کی تردید کی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں منافقوں کی یہ حالت تھی کہ جب مسلمانوں کے پاس آتے تو اپنے ایمان کا اظہار کرتے اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے تو ان کے ساتھی بن جاتے تھے۔ (وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِءُ وْنَ ) (البقرۃ : ١٤) ” جب منافق ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان دار ہیں اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بلا شک ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو مسلمانوں کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔ “ منافقین کے جھوٹا ہونے کی وجہ سے ان کے ایمان کی تردید کی جارہی ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ جانتا ہے کہ ہاں آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ منافق اپنی بات میں جھوٹے ہیں۔ منافقین کے جھوٹے ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ سمع و اطاعت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول نہیں مانتے۔ البتہ محض دنیا کے فائدے کی خاطر آپ کی نبوت کی شہادت دیتے ہیں۔ یاد رہے ! کہ ایمان میں تین باتوں کا ہونا ضروری ہے ان میں کوئی ایک بات نہ ہو تو انسان منافق ہوگا یا پھر کافر۔ کافر اور منافق میں فرق یہ ہے کہ کافر کھلے بندو اپنے کفر کا اظہار کرتا ہے اور منافق اپنے کفر کو چھپاتا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَاءِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُإِ لٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً وَ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً ) (رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأَحکامھم ) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھرتی ہے کبھی ایک ریوڑ کی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ) (رواہ البخاری : باب علامۃ المنافق) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔ “ مسائل ١۔ منافق اپنی زبان سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی شہادت دیتے تھے لیکن دل میں آپ کی رسالت کے منکر تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی اور رسول بنایا بلکہ آپ کی رسالت کی شہادت بھی دی ہے۔ ٣۔ منافق اپنے ایمان کے دعوے میں جھوٹا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن منافق کی عادات کا مختصر بیان : ١۔ منافق دعویٰ ایمان کے باوجود ایمان دار نہیں ہوتا۔ ( البقرۃ : ٨) ٢۔ منافق نماز بھی دھوکہ دینے کے لیے پڑھتے ہیں۔ ( النساء : ١٤٢) ٣۔ اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق ایمان کے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔ ( المنافقون : ١) ٤۔ منافقین نے ایمان کا اظہار کرنے کے باوجود کفر اختیار کیے رکھتے ہیں۔ ( المنافقون : ٣) ٥۔ منافق اپنے ایمان کے بارے میں جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں۔ ( التوبہ : ٥٦) ٦۔ منافق اللہ اور مومنوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ( البقرۃ : ٩) ( المنافقون : ١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ رسول اللہ کے پاس آتے تھے۔ آپ کے سامنے یہ لوگ آپ کی رسالت پر ایمان کی شہادت دیتے تھے ، لیکن دل سے یہ شہادت نہ ہوتی۔ بطور تقیہ یہ شہادت دیتے ، تاکہ ان کی حقیقت مسلمانوں سے چھپ جائے ، لیکن درحقیقت یہ جھوٹی شہادت دے رہے تھے۔ محض دھوکے کے لئے آتے۔ یہ اس کے ذریعہ اپنے آپ کو چھپاتے۔ چناچہ اللہ فرماتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں۔ لیکن اس موقعہ پر اللہ حضور کی رسالت کی تصدیق خود فرماتا ہے اور منافقین کی جھوٹ کی شہادت دیتا ہے۔ واللہ ................ لرسولہ (٣٦ : ١) ” اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اس کے رسول ہو “۔ اور واللہ .................... لکذبون (٣٦ : ١) ” اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی جھوٹے ہیں “۔ یہاں انداز تعبیر میں نہایت احتیاط ملحوظ رکھی گئی ہے۔ منافقین کے قول کی تکذیب سے پہلے رسالت محمدی کی تصدیق فرماتا ہے۔ اگر یوں نہ ہوتا تو صرف یہ بات آتی کہ منافقین کی شہادت جھوٹی ہے۔ اور شہادت تو رسالت سے متعلق فرماتا ہے۔ اور قرآن کا مقصد یہ نہ تھا۔” ان کی شہادت سچی ہے لیکن وہ اپنی شہادت میں جھوٹے ہیں “۔ مطلب یہ ہے کہ شہادت سچی ہے لیکن وہ اقرار رسالت میں جھوٹے ہیں۔ ضمیر کے مطابق شہادت نہیں دے رہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقین کی شرارتوں اور حرکتوں کا بیان یہاں سے سورة المنافقون شروع ہو رہی ہے۔ اس میں منافقین کی بےایمانی اور بات کر کے مکر جانے اور جھوٹی قسم کھا جانے کا تذکرہ ہے۔ منافقین جو اوپر اوپر سے ایمان کا دعویٰ کرتے تھے اور دل سے کافر تھے یہ لوگ نمازوں میں بھی برے دل سے شریک ہوجاتے تھے نیز جہاد کے مواقع میں بھی حاضر ہوتے تھے اور اپنی حرکتیں جاری رکھتے تھے، شرارتوں سے اور ناگوار باتوں سے باز نہیں آتے تھے، ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ (رض) کے ساتھ جہاد کے لئے تشریف لے گئے (شراح حدیث نے فرمایا ہے کہ یہ غزوہ بنی المصطلق کا واقعہ ہے اور سنن نسائی میں اس کی تصریح ہے) منافقین بھی حسب عادت ساتھ لگ گئے تھے وہاں یہ قصہ پیش آیا کہ ایک مہاجر نے ایک انصاری کو دھپ مار دیا۔ اس پر انصاری نے مدد کے لئے انصار کو اور مہاجر نے مہاجرین کو پکارا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آواز سنی تو فرمایا یہ کیا جاہلیت کی دہائی ہے (کہ مسلمان ہونے کے بعد بھی گروہ بندی کی عصبیت کام کرنے لگی) ۔ عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مہاجرین میں سے ایک شخص نے انصاری کو ایک دھپ مار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس جاہلیت کی دہائی کو چھوڑو۔ یہ بد بودار چیز ہے۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے بھی مہاجرین اور انصار کے جھگڑنے والی بات سن لی اس نے کہا کہ اچھا یہ بات ہے کہ مہاجرین انصار کو مارنے لگے۔ یہ لوگ جو باہر سے آئے ہیں ہم نے انہیں کھلایا پلایا تو یہ اتنے چڑھ گئے، یہ تو وہی بات ہوئی کہ جس کا کھائے اس پر غرائے۔ اب ان لوگوں پر خرچ نہ کرو تاکہ خود ہی منتشر ہوجائیں کھانے کو نہیں ملے گا تو خود ہی تتر بتر ہوجائیں گے اور اس نے یہ بھی کہا کہ مدینہ پہنچ کر عزت والے ذلت والوں کو نکال دیں گے (عزت والا اس نے اپنے آپ کو کہا کیونکہ انصاری پہلے سے مدینہ میں رہتے تھے اور ذلت والا مہاجرین کو کہا جو مکہ مکرمہ سے آکر مدینہ منورہ میں مقیم ہوگئے تھے) ۔ یہ واقعہ صحیح بخاری میں حضرت زید بن ارقم اور حضرت جابر (رض) دونوں سے مروی ہے جو کہ صحیح بخاری میں صفحہ ٢٨، ٢٩ پر مذکور ہے۔ حضرت زید بن ارقم (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عبداللہ بن ابی منافق کی بات نقل کردی، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوا تو عبداللہ زور دار قسم کھا گیا اور اس نے صاف کہہ دیا کہ میں نے یہ بات نہیں کہی، عبداللہ کے جو دوسرے ساتھی تھے انہوں نے بھی جھوٹی قسم کھالی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تصدیق فرما دی اس پر مجھے اتنی ندامت ہوئی اور طبیعت پر بوجھ ہوا اور رنج کی وجہ سے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ﴿ اِذَا جَآءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ سے لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ ﴾ تک آیات نازل فرمائیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تصدیق فرما دی، حضرت عمر (رض) ایسے مواقع پر اپنے جذبات پر قابو پانے والے کہاں تھے جو بات انہوں نے حاطب بن ابی بلتعہ کے بارے میں کہی تھی وہ ہی بات یہاں بھی عرض کردی اور کہا یارسول اللہ مجھے اجازت دیں اس منافق کی گردن ماردوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ چھوڑو اگر ایسا کرو گے تو لوگ یوں کہیں گے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔ رئیس المنافقین کے بیٹے کا ایمان والا طرز عمل : سنن الترمذی میں بھی حضرت زید بن ارقم (رض) کی روایت مذکور ہے اس میں یہ ہے کہ یہ غزوہ تبوک کا واقعہ ہے۔ حضرت جابر (رض) کی روایت بھی امام ترمذی نے نقل کی ہے اس میں یہ ہے کہ غزوہ بنی المصطلق کا قصہ ہے علماء کرام نے اس دوسری روایت کو ترجیح دی ہے۔ جب عبداللہ بن ابی کی یہ بات اس کے بیٹے نے سنی کہ عزت دار ذلت والے کو نکال دے گا تو اس نے باپ سے کہا کہ تو مدینہ میں واپس نہیں ہوسکتا جب تک تو یہ اقرار نہ کرلے کہ تو ذلیل ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عزت دار ہیں چناچہ جب اس نے یہ اقرار کرلیا تو مدینہ منورہ آنے کی اجازت دے دی یادر ہے کہ عبداللہ بن ابی کے بیٹے کا نام بھی عبداللہ تھا جو مسلمان تھے۔ اب آیت کا ترجمہ دوبارہ پڑھئے اور بات سمجھتے جائیے۔ (الدر المنثور) جب منافقین آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کو معلوم ہے کہ بلاشبہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ اپنی گواہی اور اپنی قسم میں جھوٹے ہیں۔ یہ بات تو سچ ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں لیکن ان کا اس انداز سے گواہی دینا اور قسم کھانا کہ وہ آپ کو دل سے اللہ کا رسول مانتے ہیں اس میں وہ جھوٹے ہیں، آدمی اس لئے قسم کھاتا ہے کہ وہ سننے والوں کو یہ بتائے کہ میرا ظاہر و باطن ایک ہے اور جو کہہ رہا ہوں وہ ہی دل میں ہے چونکہ یہ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت کے قائل نہ تھے اس لئے ان کی اس قسما دھرمی کو اور اپنے اس دعوے کو کہ ہم دل کی گہرائی سے آپ کے رسول ہونے کی گواہی دے رہے ہیں جھوٹا قرار دیدیا درمیان میں یہ بھی فرما دیا۔ ﴿ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ ١ؕ﴾ (اور اللہ جانتا ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں) آپ کی رسالت کے لئے ان کی گواہی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بات یہ ہے کہ جھوٹا ہی قسمیں زیادہ کھایا کرتا ہے سچے آدمی تو بہت کم کبھی قسم کھالیتے ہیں جن کے دل میں کھوٹ ہوتا ہے وہ ہی اپنی زبان اور دل کی موافقت ثابت کرنے کے لیے قسم کھاتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” اذا جاءک المنافقون۔ تا۔ ان اللہ لا یہدی القوم الفاسقین “ منافقین پر شکوی ہے۔ منافقین کے اعمال خبیثہ اور ان کے ناپاک عزائم کو واشگاف کر کے مسلمانوں کو ان سے متنفر کیا گیا ہے، تاکہ وہ ان سے دور رہیں۔ ” قالوا نشہد انک لرسول اللہ “ منافقین جب آپ کے پاس آتے ہیں تو قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ہم دل و جان سے آپ کو اللہ کا سچا رسول مانتے ہیں۔ منافقین کا یہ دعوی چونکہ حق و صداقت کے خلاف تھا، کیونکہ وہ صرف زبان ہی سے رسالت کا اقرار کرتے تھے، لیکن ان کے دل ایمان وتصدیق سے خالی تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کی تکذیب فرمائی۔ ” واللہ یشہد انہم لکذبون “ کہ اللہ تعالیٰ اعلان فرماتا ہے کہ منافقین اپنے اس دعوے میں سراسر جھوٹے ہیں۔ درمیان ” واللہ یعلم انک لرسولہ “ جملہ معترضہ لایا گیا تاکہ یہ وہم نہ کیا جاسکے کہ ” لکذبون “ کا تعلق نفس خبر ” انک لرسول اللہ “ سے ہے۔ تو اب معلوم ہوگیا کہ منافقین کو نفس خبر میں جھوٹا نہیں کہا گیا، بلکہ انہیں ان کے اس دعوے میں جھوٹا کہا گیا ہے کہ ان کا یہ زبانی قول دل کے اعتقاد کے مطابق ہے۔ فالتکذیب راجع الی (نشہد) باعتبار الخبر الضمنی الذی دل علیہ التاکید وھو دعوی المواطاۃ فی الشہادۃ ای واللہ یشہد انہم لکاذبون فیما ضمنوہ قولہم (نشہد) من دعوی المواطاۃ وتوافق اللسان والقلب فی ھذہ الشھادۃ (روح ج 28 ص 108) ۔ یا ” لکذبون “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی اس صفائی میں جھوٹے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کے خلاف کوئی بات نہیں کہی (روح) ۔ ظاہر قرآن سے اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) اے پیغمبر جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں اور دل سے گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اور پیغمبر ہیں اور ہاں اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ بیشک آپ اس کے رسول ہیں اور باوجود اس کے اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق یقینا جھوٹے اور کاذب ہیں یعنی جو کہتے ہیں اس پر ان کا اعتقاد نہیں۔ پہلی صورت میں یہود کے بعض منافقین کا ذکر فرمایا تھا اس سورت میں مدینے کے بعض دیگر منافقین کا ذکر ہے جو ظاہر میں مسلمانوں کی طرح باتیں کرتے تھے لیکن علیحدگی میں مسلمانوں پر طعن وتشنیع اور عیب چینی اور بدگوئی کرتے تھے نووارد لوگوں کو بہکا کر اور غلط باتیں کہہ کر اسلام سے روکتے تھے اور اگر کبھی کوئی بات کھل جاتی تھی اور ان سے دریافت کیا جاتا تھا کہ تم نے ایسا کہا ہے تو صاف قسمیں کھا جاتے تھے کہ ہم نے ایسا نہیں کیا۔ بعض موقہ پر سفر کی حالت میں جبکہ ایک کنویں سے پانی لینے پر انصار اور مہاجر کی کچھ کہہ سن ہوگئی عبداللہ بن ابی منافق نے انصار سے یہ کہہ تھا کہ تم نے ان مہاجرین کو پرورش کرکے اور روٹیاں کھلا کر اپنے پر شیر کرلیا ہے اب یہ تمہارا مقابلہ کرتے ہیں اگر تم ان کی امداد بند کردو تو چند دن میں یہ بھاگتے نظر آیں اور یہ بھی کہا کہ اب کہ ہم مدینے واپس گئے تو عزت دار لوگ ذلیلوں کو وہاں سے نکال دیں گے۔ اشارہ اس طرف تھا کہ میں جو عزت دار ہوں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو معاذ اللہ ذلیل ہیں میں ان کو مدینے سے نکال باہرکردوں گا زیدبن ارقم نے اس بات کی اطلاع حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی مگر یہ مکر گیا اور قسم کھالی کہ میں نے نہیں کہا زید بن ارقم بلاوجہ محجوب ہوئے۔ حضرت حق تعالیٰ نے زید بن ارقم (رض) کی توثیق فرمائی غرض اس سورت کے بڑے حصے میں انہی لوگوں کی شرارتوں کا ذکر ہے چناچہ فرمایا کہ جب منافق آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم دل سے گواہی دیتے ہیں یعنی جو بات زبان سے کہتے ہیں ہمارا اعتقاد بھی یہی ہے اور ہمارا دل ہماری زبان کی موافقت اور مطابقت کرتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ حضرت حق تعالیٰ نے نفس رسالت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توثیق فرمائی کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں لیکن منافق چونکہ جھوٹ بول رہے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں ان کا اعتقاد اور ان کا قلب ان کی زبان کے موافق نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی وہ قائل نہیں غرض کو کہتے ہیں۔ خلاصہ : یہ کہ اعتقاد قلبی زبان سے موافقت نہیں کرتالہٰذا گواہی اعتقاد قلب سے نہیں محض لسانی ہے۔