Surat ul Munfiqoon

Surah: 63

Verse: 5

سورة المنافقون

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا یَسۡتَغۡفِرۡ لَکُمۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ لَوَّوۡا رُءُوۡسَہُمۡ وَ رَاَیۡتَہُمۡ یَصُدُّوۡنَ وَ ہُمۡ مُّسۡتَکۡبِرُوۡنَ ﴿۵﴾

And when it is said to them, "Come, the Messenger of Allah will ask forgiveness for you," they turn their heads aside and you see them evading while they are arrogant.

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تمہارے لئے اللہ کے رسول استغفار کریں تو اپنے سر مٹکاتے ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ وہ تکبر کرتے ہوئے رک جاتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Hypocrites are not interested to ask the prophet to ask Allah to forgive Them Allah the Exalted states about the hypocrites, may Allah curse them, وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُوُوسَهُمْ ... And when it is said to them: "Come, so that the Messenger of Allah may ask forgiveness from Allah for you," they twist their heads, m... eaning, they turn away, ignoring this call in arrogance, belittling what they are invited to. This is why Allah the Exalted said, ... وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ and you would see them turning away their faces in pride. Allah punished them for this behavior, saying, سَوَاء عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ   Show more

منافقوں کی محرومی سعادت کے اسباب ملعون منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کے گناہوں پر جب ان سے سچے مسلمان کہتے ہیں کہ آؤ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ تمہاے گناہ معاف فرما دے گا تو یہ تکبر کے ساتھ سر ہلانے لگتے ہیں اور اعراض کرتے ہیں اور رک جاتے ہیں اور اس بات ... کو حقارت کے ساتھ رد کر دیتے ہیں ، اس کا بدلہ یہی ہے کہ اب ان کے لئے بخشش کے دروازے بند ہیں نبی کا استغفار بھی انہیں کچھ نفع نہ دے گا ، بھلا ان فاسقوں کی قسمت میں ہدیات کہاں؟ سورہ براۃ میں بھی اسی مضمون کی آیت گذر چکی ہے اور وہیں اس کی تفسیر اور ساتھ ہی اس کے متعلق کی حدیثیں بھی باین کر دی گئی ہیں ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ سفیان راوی نے اپنا نہ دائیں جانب پھیر لیا تھا اور غضب و تکبر کے ساتھ ترچھی آنکھ سے گھور کر دکھایا تھا اسی کا ذکر اس آیت میں ہے اور سلف میں سے اکثر حضرات کا فرمان ہے کہ یہ سب کا سب بیان عبداللہ بن ابی بن سلول کا ہے جیسے کہ عنقریب آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول اپنی قوم کا بڑا اور شریف شخص تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے لئے منبر پر بیٹھتے تھے تو یہ کھڑا ہو جاتا تھا اور کہتا تھا لوگو یہ ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو تم میں موجود ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارا کرام کیا اور تمہیں عزت دی اب تم پر فرض ہے کہ تم آپ کی مدد کرو اور آپ کی عزت و تکریم کرو آپ کا فرمان سنو اور جو فرمائیں بجا لاؤ یہ کہہ کر بیٹھ جایا کرتا تھا ، احد کے میدان میں اس کا نفاق کھل گیا اور یہ وہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کھلی نافرمانی کر کے تہائی لشکر کو لے کر مدینہ کو واپس لوٹ آیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد سے فارغ ہوئے اور مدینہ میں مع لاخیر تشریف لائے جمعہ کا دن آیا اور آپ منبر پر چڑھے تو حسب عادت یہ آج بھی کھڑا ہوا اور کہنا چاہتا ہی تھا کہ بعض صحابہ ادھر ادھر سے کھڑے ہوگئے اور اس کے کپڑے پکڑ کر کہنے لگے دشمن اللہ بیٹھ جا تو اب یہ کہنے کا منہ نہیں رکھتا تو نے جو کچھ کیا وہ کسی سے مخفی نہیں اب تو اس کا اہل نہیں کہ زبان سے جو جی میں آئے بک دے ، یہ ناراض ہو کر لوگں کی گردنیں پھلانگتا ہوا باہر نکل گیا اور کہتا جاتا تھا کہ گویا میں کسی بدیات کے کہنے کے لئے کھڑا ہوا تھا میں تو اس کا کام اور مضبوط کرنے کے لئے کھڑا ہوا تھا جو چند اصحاب مجھ پر اچھل کر آ گئے مجھے گھسیٹنے لگے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے گویا کہ میں کسی بڑی بات کے کہنے کے لئے کھڑا ہوا تھا حالانکہ میری نیت یہ تھی کہ میں آپ کی باتوں کی تائید کروں انہوں نے کہا خیر اب تم واپس چلو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کریں گے آپ تمہارے لئے اللہ سے بخشش چاہیں گے اس نے کہا مجھے کوئی ضرورت نہیں ، حضرت فتادہ اور حضرت سدی فرماتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں اتری ہے واقعہ یہ تھا کہ اسی کی قوم کے ایک نوجوان مسلمان نے اس کی ایسی ہی چند بری باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنائی تھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بلوایا تو یہ صاف انکار کر گیا اور قسمیں کھا گیا ، انصاریوں نے صحابی کو ملامت اور ڈانٹ ڈپٹ کی اور اسے جھوٹا سمجھا اس پر یہ آیتیں اتریں اور اس منافق کی جھوٹی قسموں اور اس نوجوان صحابی کی سچائی کا اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا اب اس سے کہا گیا کہ تو چل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کرا تو اس نے انکار کے لہجے میں سر ہلا دیا اور نہ گیا ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جس منزل میں اترتے وہاں سے کوچ نہ کرتے جب تک نماز نہ پڑھ لیں ، غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی کہ عبداللہ بن ابی کہہ رہا ہے کہ ہم عزت والے ان ذلت والوں کو مدینہ پہنچ کر نکال دیں گے پس آپ نے آخری دن میں اترنے سے پہلے ہی کوچ کر دیا اسے کہا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر اپنی خطا کی معافی اللہ سے طلب کر اس کا بیان اس آیت میں ہے ، اس کی اسناد سعید بن جبیر تک صحیح ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک کا ہے اس میں نظر ہے بلکہ یہ ٹھیک نہیں ہے اس لئے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول تو اس غزوہ میں تھا ہی نہیں بلکہ لشکر کی ایک جماعت کو لے کر یہ تو لوٹ گیا تھا ، کتب سیرو مغازی کے مصنفین میں تو یہ مشہور ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع یعنی غزوہ بنو المصطلق کا ہے چنانچہ اس قصہ میں حضرت ممد بن حییٰ بن حبان اور حضرت عبداللہ بن ابو بکر اور حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ سے مروی ہے کہ اس لڑائی کے موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جگہ قیام تھا ، وہاں حضرت جھجاہ بن سعید غفاری اور حضرت سنان بن یزید کا پانی کے ازدہام پر کچھ جھگڑا ہو گیا جھجاہ حضرت عمر کے کارندے تھے ، جھگڑے نے طول پکڑا سنان نے انصاریوں کو اپنی مدد کے لئے آواز دی اور جھجاہ نے مہاجرین کو اس وقت حضرت زید بن ارقم وغیرہ انصاری کی ایک جماعت عبداللہ بن ابی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی ، اس نے جب یہ فریاد سنی تو کہنے لگا لو ہمارے ہی شہرں میں ان لوگوں نے ہم پر حملے شروع کر دیئے اللہ کی قسم ہماری اور ان قریشویں کی مثال وہی ہے جو کسی نے کہا ہے کہ اپنے کتے کو مٹا تازہ کرتا کہ تجھے ہی کاٹے اللہ کی قسم اگر ہم لوٹ کر مدینہ گئے تو ہم ذی مقدور لوگ ان بےمقدروں کو وہاں سے نکال دیں گے پھر اس کی قوم کے جو لوگ اس کے پاس بیٹھے تھے ان سے کہنے لگا یہ سب آفت تم نے خود اپین ہاتھوں اپنے اوپر لی ہے تم نے انہیں اپنے شہر میں بسایا تم نے انہیں اپنے مال آدھوں آدھ حصہ دیا اب بھی اگر تم ان کی مالی امداد نہ کرو تو یہ خود تنگ آ کر مدینہ سے نکل بھاگیں گے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تمام باتیں سنیں آپ اس وقت بہت کم عمر تھے سیدھے سرکار نبوت میں حاضر ہوئے اور کل واقعہ بیان فرمایا اس وقت آپ کے پاسح ضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بیٹیھ ہوئے تھے غضبناک ہو کر فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عباد بن بشیر کو حکم فرمایئے کہ اس کی گردن الگ کر دے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تو لوگوں میں یہ مشہور ہو جائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کی گردنیں مارتے ہیں یہ ٹھیک نہیں جاؤ لوگوں میں کوچ کی منادی کر دو ، عبداللہ بن ابی کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس کی گفتگو کا علم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو گیا تو بہت سٹ پٹایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عذر معذرت اور حیلے حوالے تاویل اور تحریف کرنے لگا اور قسمیں کھا گیا کہ میں نے ایسا ہرگز نہیں کہا ، چونکہ یہ شخص اپنی قوم میں ذی عزت اور باوقعت تھا اور لوگ بھی کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم شاید اس بچے نے ہی غلطی کیہ و اسے وہم ہو گیا ہو واقعہ ثابت تو ہوتا نہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے جلدی ہی کوچ کے وقت سے پہلے ہی تشریف لے چلے راستے میں حضرت اسید بن نضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے اور آپ کی شان نبوت کے قابل با ادب سلام کیا پھر عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آ جکیا بات ہے کہ وقت سے پہلے ہی جناب نے کوچ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں ملوم نہیں کہ تمہارے ساتھی ابن ابی نے کیا کہا وہ کہتا ہے کہ مدینہ جا کر ہم عزیز ان ذلیلوں کو نکال دیں گے حضرت اسید نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عزت والے آپ ہیں اور ذلیل وہ ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس کی ان باتوں کا خیال بھی نہ فرمایئے دراصل یہ بہت جلا ہوا ہے سنئے اہل مدینہ نے اسے سردار بنانے پر اتفاق کر لیا تھا تاج تیار ہو رہا تھا کہ اللہ رب اعلزت آپ کو لایا اس کے ہاتھ سے ملک نکل گیا پس یہ چراغ پا ہو رہا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے ، دوپہر کو ہی چل دیئے تھے شام ہوئی رات ہوئی صبح ہوئی یہاں تک کہ دھوپ میں تیزی آ گئی تب آپ نے پڑاؤ کیا تاکہ لوگ اس بات میں پھر نہ الجھ جائیں ، چونکہ تمام لوگ تھکے ہارے اور رات کے جاگے ہوئے تھے اترتے ہی سب سو گئے ادھر یہ سورت نازل ہوئی ( سیرۃ ابن اسحاق ) بیہقی میں ہے کہ ہم ایک غزوے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ایک مہاجر نے ایک انصار کو پتھر مار دیا اس پر بات بڑھ گئی اور دونوں نے اپنی اپنی جماعت سے فریاد کی اور انہیں پکارا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے یہ کیا جاہلیت کی ہانک لگانے لگے اس فضول خراب عادت کو چھوڑو ، عبداللہ بن ابی بن سلول کہنے لگا اب مہاجر یہ کرنے لگ گئے اللہ کی قسم مدینہ پہنچتے ہی ہم ذی عزت ان ذلیلوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گے ، اس وقت مدینہ شریف میں انصار کی تعداد مہاجرین سے بہت زیادہ تھی گو بعد میں مہاجرین بہت زیادہ ہوگئے تھے ، حضرت عمر کو جب ابن ابی کے اس قول کا علم ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے قتل کرنے کی اجازت چاہی مگر آپ نے روک دیا ، مسند احمد میں حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک میں میں نے جب اس منافق کا یہ قول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا اور اس نے آ کر انکار کیا اور قسمیں کھا گیا اس وقت میری قوم نے مجھے بہت کچھ برا کہا اور ہر طرح ملامت کی کہ میں نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نہایت غمگین دل ہو کر وہاں سے چل دیا اور سخت رنج و غم میں تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یاد فرمایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تیرا عذر نازل فرمایا ہے اور تیری سچائی ظاہر کی ہے اور یہ آیت اتری ھم الذین الخ یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں ہے ، مسند احمد میں ہے حضرت زید بن ارقم کا یہ بیان اس طرح ہے کہ میں اسے چچا کے ساتھ ایک غزوے میں تھا اور میں نے عبداللہ بن ابی کی یہ دونوں باتیں سنیں میں نے اپنے چچا سے بیان کیں اور میرے چچا نے حضور سے عرض کیں جب آپ نے اسے بلایا اس نے انکار کیا اور قسمیں کھا گیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سچا اور مجھے جھوٹا جانا میرے چچا نے بھی مجھے برا بھلا کہا مجھے اس قدر غم اور ندامت ہوئی کہ میں نے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا یہاں تک کہ یہ سورت اتری اور آپ نے میری تصدیق کی اور مجھے یہ پڑھ سنائی ۔ مسند کی اور روایت میں ہے کہ ایک سفر کے موقعہ پر جب صحابہ کو تنگی پہنچی تو اس نے انہیں کچھ دینے کی ممانعت کر دی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں اس لئے بلوایا کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں تو انہو نے اس سے بھی منہ پھیر لیا ، قرآن ریم نے انہیں ٹیک لگائی ہوئی لکڑیاں اس لئے کہا ہے کہ یہ لوگ اچھے جمیل جسم والے تھے ، ترمذی وغیرہ میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ہمارے ساتھ کچھ اعراب لوگ بھی تھے پانی کی جگہ وہ پہلے پہنچنا چاہتے تھے اسی رطح ہم بھی اسی کی کوشش میں رہتے تھے ایک مرتبہ ایک اعرابی نے جا کر پانی پر بضہ کر کے حوض پر کر لیا اور اس کے اردگرد پتھر رکھ دیئے اور اوپر سے چمڑا پھیلا دیا ایک انصاری نے آ کر اس حوض میں سے اپنے اونٹ کو پانی پلانا چاہا اس نے روکا انصاری نے پلانے پر زور دیا اس نے ایک لکڑی اٹھا کر انصاری کے سر پر ماری جس سے اس کا سر زخمی ہو گیا ۔ یہ چونکہ عبداللہ بن ابی کا ساتھی تھا سیدھا اس کے پاس آیا اور تمام ماجرا کہہ سنایا عبداللہ بہت بگڑا اور کہنے لگا ان اعرابیوں کو کچھ نہ دو یہ خود بھوکے مرتے بھاگ جائیں گے ، یہ اعربای کھانے کے قوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ جاتے تھے اور کھا لیا کرتے تھے تو عبداللہ بن ابی نے کہا تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا لے کر ایسے وقت جاؤ جب یہ لوگ نہ ہوں آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھالیں گے یہ رہ جائیں گے یونہی بھوکوں مرتے بھاگ جائیں گے اور اب ہم مدینہ جا کر ان کمینوں کو نکال باہر کریں گے ، میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا اور میں نے یہ سب سنا اپنے چچا سے ذکر کیا چچا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ نے اسے بلوایا یہ انکار کر گیا اور حلف اٹھا لیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سچا سمجھا اور مجھے جھوٹا قرار دیا میرے چچا میرے پاس آئے اور کہا تم نے یہ کیا حرکت کی؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر ناراض ہوگئے اور تجھے جھوٹا جانا اور دیگر مسلمانوں نے بھی تجھے جھوٹا سمجھا مجھ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا سخت غم و اندوہ کی حالت میں سر جھکائے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا تھوڑی ہی دیر گذری ہو گی کہ آپ میرے پاس آئے ، میرا کان پکڑا ، جبمیں نے سر اٹھا کر آپ کی طرف دیکھا تو آپ مسکرائے اور چل دیئے ، اللہ کی قسم مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے اگر دنیا کی ابدی زندگی مجھے مل جاتی جب بھی میں اتنا خوش نہ ہو سکتا تھا پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پاس آئے اور پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا کہا ؟ میں نے کہا ؟ فرمایا تو کچھ بھی نہیں مسکراتے ہوئے تشریف لے گئے ، آپ نے فرمایا بس پھر خوش ہو ، آپ کے بعد ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہی سوال مجھ سے کیا اور میں نے یہی جواب دیا صبح کو سورہ منافقون نازل ہوئی ۔ دوسری روایت میں اس سورت کا منھا الذل تک پڑھنا بھی مروی ہے ، عبداللہ بن لہیعہ اور موسیٰ بن عقبہ نے بھی اسی حدیث کو مغازی میں بیان کیا ہے لیکن ان دونوں کی روایت میں خبر پہنچانے والے کا نام اوس بن اقرم ہے جو قبیلہ بنو حارث بن خزرج میں سے تھے ، ممن ہے کہ حضرت زید بن ارقم نے بھی خبر پہنچائی ہو اور حضرت اوس نے بھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ راوی سے نام میں غلطیہو گئی ہو واللہ اعلم ، ابنابی حاتم میں ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع کا ہے یہ وہ غزوہ ہے جس میں حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیج کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مناۃ بت کو تڑوایا تھا جو قفا مثل اور سمندر کے درمیان تھا ، اسی غزوہ میں دو شخصوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا تھا ایک مہاجر تھا دوسرا قبیلہ بہز کا تھا اور قبیل بہز انصاریوں کا حلیف تھا بہزی نے انصاریوں کو اور مہاجر نے مہاجرین کو آواز دی کچھ لوگ دونوں طرف کھڑے ہوگئے اور جھگڑا ہنے لگا جب ختم ہوا تو منافق اور بیمار دل لوگ عبداللہ بن اب کے پاس جمع ہوئے اور کہنے لگے ہمیں تو تم سے بہت کچھ امیدیں تھیں تم ہمارے دشمنوں سے ہمارا بچاؤ تھے اب تو بیکار ہوگئے ہو ، نفع کا خیال نہ نقصان کا تم نے ہی ان جلالیبکو اتنا چڑھا دیا کہ بات بات پر یہ ہم پر چڑھ دوڑیں ، نئے مہاجرین کو یہ لوگ جلالیب کہتے تھے ، اس دشمن اللہ نے جواب دیا کہ اب مدینے پہنچتے ہی ان سب کو وہاں سے دیس نکالا دیں گے ، مالک بن وخشن جو منافق تھا اس نے کہا میں تو تمہیں پہلے ہی سے کہتا ہوں کہ ان لوگں کے ساتھ سلوک کرنا چھوڑ دو خودبخود منتشر ہو جائیں گے یہ باتیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سن لیں اور خدمت نبوی میں آ کر عرض کرنے لگے کہ اس بانی فتنہ عبداللہ بن ابی کا قصہ پاک کرنے کی مجھے اجازت دیجئے آپ نے فرمایا اچھا اگر اجازت دوں تو کیا تم اسے قتل کر ڈالو گے؟ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم ابھی اپنے ہاتھ سے اس کی گردن ماروں گا ، آپ نے فرمایا اچھا بیٹھ جاؤ اتنے میں حضرت اسید بن حفیر بھی یہی کہتے ہوئے آپ نے ان سے بھی یہی پوچھا اور انہں نے بھی یہی جواب دیا آپ نے انہیں بھی بٹھا لیا ، پھر تھوڑی دیر گذری ہو گی کہ کوچ کرنے کا حکم دیا اور وقت سے پہلے ہی لشکر نے کوچ کیا ، وہ دن رات دوسری صبح برابر چلتے ہی رہے جب دھوپ میں تیزی آ گئی ، اترنے کو فرمایا ، پھر دوپہر ڈھلتے ہی جلدی سے کوچ کیا اور اسی طرح چلتے رہے تیسرے دن صبح کو قفا مثل سے مدینہ شریف پہنچ گئے ، حضرت عمر کو بلوایا ان سے پوچھا کہ کیا میں اس کے قتل کا تجھے حکم دیتا تو تو اسے مار ڈالتا ؟ حضرت عمر نے عرض کیا یقیناً میں اس کا سرتن سے جدا کر دیتا ۔ آپ نے فرمایا اگر تو اسے اس دن قتل کر ڈالات تو بہت سے لوگوں کے ناک خاک آلودہ ہو جاتے میں اگر انہیں کہتا تو وہ بھی اسے مار ڈالنے میں تامل نہ کرتے پھر لوگوں کو باتیں بنانے کا موقعہ ملتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو بھی بےدردی کے ساتھ مار ڈالتا ہے اسی واقعہ کا بیان ان آیتوں میں ہے ، یہ سیاق بہت غریب ہے اور اس میں بہت سی ایسی عمدہ باتیں ہیں جو دوسری روایتوں میں نہیں ، سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو پکے سچے مسلمان تھے اس واقعہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گذارش کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے سنا ہے کہ میرے باپ نے جو بکواس کی ہے اس کے بدلے آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں اگر یونہی ہے تو اس کے قتل کا حکم آپ کسی اور کو نہ کیجئے میں خود جاتا ہوں اور ابھی اس کا سر آپ کے قدموں تلے ڈالتا ہوں ، قسم اللہ کی قبیلہ خزرج کا ایک ایک شخص جانتا ہے کہ مجھ سے زیادہ کوئی بیٹا اپنے باپ سے احسان و سلوک اور محبت و عزت کرنے والا نہیں ( لیکن میں نے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے پیارے باپ کی گردن مارنے کو تیار ہوں ) اگر آپ نے کسی اور کو یہ حکم دیا اور اس نے اسے مارا تو مجھے ڈر ہے کہ کیں جوش انتقام میں میں اسے نہ مار بیٹھوں اور ظاہر ہے کہ اگر یہ حرکت مجھ سے ہو گئی تو میں ایک کافر کے بدلے ایک مسلمان کو مار کر جہنمی بن جاؤں گا آپ میرے باپ کے قتل کا حکم دیجئے آپ نے فرمایا نہیں نہیں میں اسے قتل کرنا نہیں چاہتا ہم تو اس سے اور نرمی برتیں گے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کریں گے جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے ، حضرت عکرمہ اور حضرت ابنزید کا بیان ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکروں سمیت مدینے پہنچے تو اس منافق عبداللہ بن ابیکے لڑکے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم دینہ شریف کے دروازے پر کھڑے ہوگئے تلوار کھینچ لی لوگ مدینہ میں داخل ہونے لگے یہاں تک کہ ان کا باپ آیا تو یہ فرمانے لگے پرے رہو ، مدینہ میں نہ جاؤ اس نے کہا کیا بات ہے؟ مجھے کیوں روک رہا ہے؟ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو مدینہ میں نہیں جا سکتا جب تک کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لئے اجازت نہ دیں ، عزت والے آپ ہی ہیں اور تو ذلیل ہے ، یہ رک کر کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ کی عادت مبارک تھی کہ لشکر کے آخری حصہ میں ہوتے تھے آپ کو دیکھ کر اس مناق نے اپنے بیٹے کی شکایت کی آپ نے ان سے پوچھا کہ اسے کیوں روک رکھا ہے؟ انہوں نے کہا قسم ہے اللہ کی جب تک آپ کی اجازت نہ ہو یہ اندر نہیں جا سکتا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اب حضرت عبداللہ نے اپنے باپ کو شہر میں داخل ہونے دیا ، مسند حمیدی میں ہے کہ آپ نے اپنے والد سے کہا جب تک تو اپنی زبان سے یہ نہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عزت والے اور میں ذلیل تو مدینہ میں نہیں جا سکتا اور اس سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے باپ کی ہیبت کی وجہ سے میں نے آج تک نگاہ اونچی کر کے ان کے چہرے کو بھی نہیں دیکھا لیکن آپ اگر اس پر ناراض ہیں تو مجھے حکم دیجئے ابھی اس کی گردن حاضر کرتا ہوں کسی اور کو اس کے قتل کا حکم نہ دیجئے ایسا نہ ہو کہ میں اپنے باپ کے قتل کو اپنی آنکھوں سے چلتا پھرتا نہ دیکھ سکوں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یعنی استغفار سے اعراض کرتے ہوئے اپنے سروں کو موڑ لیتے ہیں۔ 5۔ 2 یعنی کہنے والے کی بات سے منہ موڑ لیں گے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعراض کرلیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] ویسے تو سب منافقوں کا یہی حال تھا۔ مگر ان کا سردار عبداللہ بن ابی اس بات میں بھی ان کا سردار تھا۔ جب بھی ان کی کوئی سازش یا ناشائستہ حرکت یا راز کی بات پکڑی جاتی تو مسلمان ان سے کہتے کہ : چلو، چل کر رسول اللہ سے معافی مانگ لو۔ وہ آپ کو خود بھی معاف کردیں گے اور اللہ سے بھی تمہاری مغفرت کی دعا ک... ریں گے۔ ایسے ہی ایک موقعہ پر عبداللہ بن ابی نے مسلمانوں کو یہ جواب دیا کہ تم نے مجھے ایمان لانے کو کہا تو میں ایمان لے آیا۔ تم نے نمازیں ادا کرنے کو کہا تو وہ بھی میں نے ادا کیں۔ تم نے مال کی زکوٰۃ ادا کرنے کو کہا تو وہ بھی میں نے ادا کی۔ اب کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں محمد کو سجدہ کروں ؟ && اس کا کبرونخوت سے بھرا ہوا یہ جواب سن کر آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ رسول اللہ کے پاس گیا ہوگا ؟ یا مسلمانوں نے اسے آگے کچھ کہا ہوگا ؟ اس کی اسی متکبرانہ کیفیت کا نقشہ اللہ نے اس آیت میں کھینچا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ ۔۔۔۔۔:” لووا “ ” لوی یلوی لیا “ (ض) ( پھیرنا) سے باب تفعیل ہے ، جس سے سر پھیرنے میں مبالغہ یا اس کا تکرار مقصود ہے۔ آیت (٧) میں اس کا سبب نزول آرہا ہے۔ ٢۔ وْا رُئُ وْسَہُمْ وَرَاَیْتَہُمْ یَصُدُّوْنَ وَہُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ :” صد یصد صدا و صدو... دا “ (ن) ” صدا “ (متعدی) روکنا اور ” وصدودا “ ( لازم) اعراض کرنا ، منہ پھیرلینا ۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر معذرت کرلینے کی ترغیب پر تم انہیں دیکھو گے کہ وہ تکبر کرتے ہوئے منہ پھیر لیں گے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Let us now study some specific sentences of the Surah: وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ‌ لَكُمْ رَ‌سُولُ اللَّـهِ (And when it is said to them, “ Come on, and Allah’ s Messenger will pray for your forgiveness”…63:5). When this Surah exposed the false oaths of ‘Abdullah Ibn Ubayy, the leader of the hypocrites, people went up to him to advise him to approach the Holy Prophet (صلی اللہ ... علیہ وآلہ وسلم) and admit his guilt. They said that he has still time to request the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to pray to Allah to forgive him. To this, the responded by turning his head around and saying arrogantly. “ I believed when you asked me to believe; I paid Zakah when you asked to; and now the only thing left is for you to ask me to prostrate to Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The above verses were revealed on this occasion, which make plain that he has no faith, and therefore asking forgiveness for him cannot benefit him in any way. Ibn Ubayy, after this incident, returned to Madinah, lived for a few days, and died soon thereafter. [ Mazhari ]  Show more

سورت کا تر جمہ اور خلاصہ تفسیر اوپر لکھا جا چکا ہے، اب اس کے خاص خاص جملوں کو مزید توضیح دیکھئے :۔ (آیت) وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ الاٰیة، عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین جس کے معاملہ میں یہ سورت نازل ہوئی ہے جس میں اس کی قسموں کا جھوٹا ہونا واضح کردیا گیا ... تو لوگوں نے اس کو از راہ خیر خواہی یہ کہا کہ تجھے معلوم ہے کہ تیرے بارے میں قرآن میں کیا نازل ہوا ہے، اب بھی وقت نہیں گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوجا (اور اعتراف جرم کرلے) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے لئے استغفار فرما دیں گے، اس نے جواب میں کہا کہ تم لوگوں نے مجھے کہا کہ ایمان لے آ میں نے ایمان اختیار کرلیا، پھر تم نے مجھے اپنے مال سے زکوٰة دینے کو کہا وہ دینے لگا، اب اس کے سوا کیا رہ گیا کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ کیا کروں، اس پر آیات مذکورہ نازل ہوئیں، جن میں واضح کردیا گیا کہ جب اس کے دل میں ایمان ہی نہیں تو اس کے لئے کسی کا استغفار نافع نہیں ہوسکتا۔ ابن ابی اس واقعہ کے بعد مدینہ طیبہ پہنچ کر چند روز ہی زندہ رہا پھر جلد ہی مر گیا (مظہری)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا قِيْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُوْلُ اللہِ لَوَّوْا رُءُوْسَہُمْ وَرَاَيْتَہُمْ يَصُدُّوْنَ وَہُمْ مُّسْـتَكْبِرُوْنَ۝ ٥ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «م... ا» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ استغفار الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ لوی اللَّيُّ : فتل الحبل، يقال : لَوَيْتُهُ أَلْوِيهِ لَيّاً ، ولَوَى يدَهُ ، قال : لوی يده اللہ الذي هو غالبه ولَوَى رأسَهُ ، وبرأسه أماله، قال تعالی: لَوَّوْا رُؤُسَهُمْ [ المنافقون/ 5] : أمالوها، ولَوَى لسانه بکذا : كناية عن الکذب وتخرّص الحدیث . قال تعالی: يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ، وقال : لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ [ النساء/ 46] ، ويقال فلان لا يلْوِي علی أحد : إذا أمعن في الهزيمة . قال تعالی:إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران/ 153] وذلک کما قال الشاعر : ترک الأحبّة أن تقاتل دونه ... ونجا برأس طمرّة وثّاب واللِّوَاءُ : الراية سمّيت لِالْتِوَائِهَا بالرّيح، واللَّوِيَّةُ : ما يلوی فيدّخر من الطّعام، ولَوَى مدینَهُ ، أي : ماطله، وأَلْوَى: بلغ لوی الرّمل، وهو منعطفه . ( ل و ی ) لویٰ ( ض ) الجبل یلویہ لیا کے معنی رسی بٹنے کے ہیں ۔ لوی یدہ : اس کے ہاتھ کو موڑ الویراسہ وبراسہ وبراسہ اس نے اپنا سر پھیرلیا یعنی اعراض کیا ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوَّوْا رُؤُسَهُمْ [ المنافقون/ 5] تو سر پھیر لیتے ہیں لو یٰ لسانہ بکذا : کنایہ ہوتا ہے جھوٹ بولنے اور اٹکل بچوں کی باتیں بنانے سے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] کتاب ( تو راۃ) کو زبان موڑ موڑ کر پڑھتے ہیں لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ [ النساء/ 46] زبان کو موڑ کر محاورہ ہے : ۔ فلان لا یلون علیٰ احد ۔ وہ کسی کی طرف گردن موڑ کر بھی نہیں دیکھتا ۔ یہ سخت ہزیمت کھا کر بھاگ اٹھنے کے موقع پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران/ 153] جب تم لوگ دور بھاگ جاتے تھے ۔ اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے ۔ چناچہ شاعر نے اس معنی کو یوں ادا کیا ہے ( 401 ) ترک الاحبۃ ان تقاتل دو نۃ ونجا بر اس طمرۃ وثاب اور اس نے دوستوں کے درے لڑنا چھوڑ دیا اور چھلا نگیں بھر کر دوڑے والی گھوڑی پر سوار ہو کر بھاگ گیا ۔ اللواء ۔ جھنڈے کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ ہوا سے لہراتا رہتا ہے ۔ اللویۃ وہ کھانا جو لپیٹ کر توشہ کے طور پر رکھ دیا جائے ۔ لوی مدینہ ۔ اپنے مقروض کو ڈھیل دینا الویٰ ۔ ٹیلے کے لوی یعنی موڑ پر پہنچنا ۔ رأس الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه . ( ر ء س ) الراس سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآم میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( استفعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جب ان سے ان کے خاندان والے ان کے رسوا ہونے کے بعد کہتے ہیں کہ رسول اکرم کے پاس جاؤ اور کفر و نفاق سے توبہ کرو تو وہ اپنے سر جھکا لیتے اور منہ پھیر لیتے ہیں اور آپ ان کو توبہ و استغفار اور آپ کی خدمت میں حاضری سے بےرخی کرتا ہوا دیکھیں گے۔ شان نزول : وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا (الخ) ابن جر... یر نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن ابی سے کہا گیا کہ تو رسول اکرم کے پاس جا حضور تیرے لیے استغفار کردیں گے تو وہ اپنا سر مٹکانے لگا تو اس کے بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ { وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَــکُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ } ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو (اپنی غلطی مان لو) تاکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے لیے استغفار کریں “ ظاہر ہے ان کے دلوں میں تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف بغض اور عناد پیدا ہوچکا ... تھا تو ان حالات میں وہ کیسے آتے اور کیونکر اپنی غلطی تسلیم کرتے ؟ { لَوَّوْا رُئُ وْسَہُمْ } ” تو وہ اپنے سروں کو مٹکاتے ہیں “ کہ ہاں ہاں ! ٹھیک ہے ہم آئیں گے ‘ ضرور آئیں گے۔ { وَرَاَیْتَہُمْ یَصُدُّوْنَ وَہُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ ۔ } ” اور آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ رک جاتے ہیں تکبر کرتے ہوئے۔ “ ان کے دلوں میں چونکہ تکبر ہے ‘ اس لیے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر معافی مانگنے کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں کہ دیکھیں جی آخر ہماری بھی کوئی عزت ہے ‘ اب کون روز روز وہاں جا کر مجرموں کی طرح اقبالِ جرم کرے اور ڈانٹ سنے !   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 That is, they not only refuse to come to the Messenger to seek forgiveness, but also on hearing the invitation they shake their heads with arrogance and pride, and remain adamant, thinking that it would be disgraceful for them to approach the Messenger to seek forgiveness. This is a clear sign that they are not believers.

سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :12 یعنی صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس استغفار کے لیے آئیں ، بلکہ یہ بات سن کر غرور اور تمکنت کے ساتھ سر کو جھٹکا دیتے ہیں اور رسول کے پاس آنے اور معافی طلب کرنے کو اپنی توہین سمجھ کر اپنی جگہ جمے بیٹھے رہتے ہیں ۔ یہ ان کے مومن ... نہ ہونے کی کھلی علامت ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: قرآنِ کریم نے جو لفظ استعمال فرمایا ہے، اُس کا ترجمہ سر کا موڑنا بھی ہوسکتا ہے، اور ہلانا بھی۔ حضرت شیخ الہندؒ نے شاید اسی لئے اس کا ترجمہ مٹکانے سے کیا ہے جس میں ایک مکاری کا تصوّر پنہاں ہے، اور جو اُن کی کیفیت کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥۔ ٨۔ ان آیتوں کی تفسیر قصہ طلب ہے اور وہی قصہ اس سورة کے نازل ہونے کا سبب ہے حاصل اس قصہ کا یہ ہے کہ ایک صحابی انصاری کا ایک صحابی مہاجر سے کچھ جھگڑا ہوگیا۔ یہ جھگڑا اس وقت ہوا جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کچھ روایتوں کے موافق تبوک کی لڑائی سے اور بعضی روایتوں کے موافق بنی مصطلق کی...  لڑائی کے سفر میں تھے اس جھگڑے کو سن کر عبد اللہ بن ابی منافق نے اپنے قبیلہ کے انصار لوگوں سے یہ کہا کہ ہمارے قبیلہ کے لوگوں کی طرف سے ان مہاجرین کی خبر گیری جو کچھ کی جاتی ہے وہ آئندہ بند کردی جائے تاکہ یہ مہاجر لوگ خرچ برچ سے تنگ ہو کر ہماری بستی سے چلے جائیں اور اس سفر سے مدینہ واپس پہنچنے کے بعد ان مہاجرین کو مدینہ سے نکال دینے کی اور بھی ہر طرح کی کوشش کی جائے۔ زید بن ارقم صحابی نے عبد اللہ بن ابی کی یہ باتیں سنیں اور اس کا ذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب عبد اللہ بن ابی کو بلا کر ان باتوں کی تصدیق کی تو عبد اللہ نے قسمیں کھا کر ان باتوں کے کہنے سے انکار کیا اور زید بن ارقم کو جھوٹا ٹھہرایا۔ زید بن ارقم کہتے ہیں کہ مجھ کو اپنے جھوٹا ٹھہرنے کا بڑا رنج ہوا آخر اللہ تعالیٰ نے میرے کلام کی تصدیق میں یہ سورة نازل فرمائی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ کو بلایا اور سورة پڑھ کر مجھے سنائی اور فرمایا زید بن ارقم اللہ تعالیٰ نے تم کو سچا کیا۔ اس سورة کی ان آیتوں کے نازل ہونے کے بعد جب عبد اللہ جھوٹا قرار پایا تو لوگوں نے عبد اللہ سے کہا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر اپنے جھوٹ کی ندامت اور اپنے گناہوں کی مغفرت کی دعا کی التجا کرنی چاہئے اس پر غرور سے منکروں کی طرح عبد اللہ اپنی گردن مٹکانے لگا۔ اس کا ذکر بھی اللہ تعالیٰ نے خفگی کے طور پر ان آیتوں میں قصہ کے شروع کرنے سے پہلے فرمایا اور اسی ذکر میں یہ بھی فرما دیا کہ اے رسول اللہ کے تم ایسے لوگوں کے لئے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو۔ ایسے ازلی گمراہ لوگ اپنے قصد و اختیار سے راہ راست پر آنے والے نہیں۔ اور ان کو مجبور کرکے راہ راست پر لانا اللہ کو منظور نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس خفگی کا یہ نتیجہ ہوا کہ اس خفگی کے بعد عبد اللہ بیمار پڑا اور کچھ دن بیمار رہ کر منافقانہ حالت میں مرگیا۔ یہ آتیں عبد اللہ کی زندگی کی حالت میں نازل ہوئیں اور اصلی اعتبار شرع میں خاتمہ کا ہے اور خاتمہ کا حال سوا اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں۔ اس لئے عبد اللہ بن ابی کے مرجانے کے بعد عبد اللہ کے بیٹے کی خاطر سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپن کرتہ عبد اللہ کے کفن کے لئے دیا اور عبد اللہ کے جنازہ کی نماز پڑھی جس پر سورة توبہ کی آیتیں نازل منافقوں کے جنازہ کی نماز پڑھنے کی ممانعت کی نازل ہوئیں۔ چناچہ یہ پورا قصہ سورة توبہ میں گزر چکا ہے اس سورة کی شان نزول کا جو قصہ اوپر بیان کیا گیا ہے پورا قصہ تو صحیح ١ ؎ بخاری میں اس سورة کی نزول کے طور پر زید بن ارقم کی روایت ہے لیکن اس میں اس لڑائی کا نام نہیں ہے جس لڑائی کے سفر میں یہ قصہ پیش آیا۔ نسائی ٢ ؎ کی زید بن ارقم کی روایت میں اس لڑائی کا نام جنگ تبوک ہے اور اہل مغازی نے اس لڑائی کا نام جنگ بنی مصطلق لکھا ہے جنگ بنی مصطلق ٥ ھ میں ہوئی اور عبد اللہ بن ابی کا انتقال بھی اگرچہ ٦ ھ میں جنگ تبوک کے بیس یا بائیس دن کے بعد ہوا ہے۔ اس صورت میں یہ کہا جاسکتا تھا کہ جنگ تبوک کے سفر میں عبد اللہ بن ابی شریک تھا اور اس سفر میں اس نے وہ باتیں کیں جن کا ذکر بخاری کی زید بن ارقم کی روایت میں ہے لیکن یہ مشکل ہے کہ بغوی اور بعض اور مفسروں نے اس بات کو صراحت سے بیان کیا ہے کہ موسم کی سختی کے سبب سے اسی آدمی کے قریب جنگ تبوک میں جو نہیں گئے عبد اللہ بن ابی بھی ان ہی میں سے ہے۔ چناچہ اس کی تفصیل سورة توبہ میں گزر چکی ہے سورة توبہ میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ جنگ تبوک کے وقت جلاس بن سوید اس شخص منافق کا اسی قسم کا قصہ پیش آیا تھا جیسا قصہ عبد اللہ بن ابی کا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نسائی کے بعض راویوں کو اجلاس کے قصہ کی جگہ عبد اللہ کے قصہ دھوکا ہوگیا ہے ورنہ ترجیح اس قول کو معلوم ہوتی ہے کہ عبد اللہ کا قصہ بنی مصطلق کی لڑائی کے وقت کا ہے کیونکہ جنگ تبوک میں عبد اللہ کا جانا ثابت نہیں ہوتا اور ان آیتوں کے مضمون کے موافق یہ قصہ حالت سفر کا ہے۔ وللہ خزائن السموت والارض ولکن المنافقین لایفقھون و للہ العزۃ و رسولہ وللمومنین ولکن المنفقین لایعلمون۔ ان دونوں آیتوں کا حاصل مطلب یہ ہے کہ منافقوں کی یہ نافہمی اور نادانی ہے جو یہ لوگ مہاجروں کو مفلس ‘ کم عزت غریب الوطن خیال کرتے ہیں اتنا نہیں سمجھتے کہ مہاجروں نے اپنا مال و اسباب اور گھر بار سب کچھ اس اللہ کے واسطے چھوڑا ہے جس کے حکم میں جہان بھر کے خزانے اور جہان بھر کی عزت ہے وہ ان کی ہجرت کے معاوضہ میں بہت کچھ ان کو دے سکتا ہے اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے جن لوگوں نے تاریخ کی کتابیں دیکھی وہ جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت سے لے کر بنی عباس کی خلافت کے خاتمہ تک اللہ تعالیٰ نے اس پیشین گوئی کے موافق مہاجرین اور ان کی اولاد کو کیا کچھ دیا۔ ان آیتوں میں قرآن شریف کے کلام الٰہی ہونے کا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی آخر الزمان ہونے کا پورا ثبوت ہے کیونکہ جس کلام میں اس طرح کی غیب کی خبریں ہوں وہ بلاشک اللہ کا کلام ہے اور جن پر یہ کلام اترا وہ بلاشک اللہ کے رسول ہیں۔ (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٧٠ ج ٤۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(63:5) واذا۔ واؤ عاطفہ ہے اذا طرف زمان (شرطیہ) جب۔ تعالوا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ تعالیٰ (تفاعل) مصدریہ ۔ تعال کے اصل معنی ہیں کسی کو بلند جگہ کی طرف بلانا۔ پھر عام بلانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ تم آؤ۔ ع ل ی ، ع ل و مادہ کے حروف ہیں۔ واذا قیل لہم تعالوا جملہ شرط ہے۔ یستغفر۔ مضارع مج... زوم بوجہ جواب امر ای تعالوا واحد مذکر غائب استغفار (استفعال) مصدریہ۔ یہ معافی مانگیں گے (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ۔ یہ امر تعالوا کے جواب میں ہے۔ یعنی آؤ تاکہ اللہ کا رسول تمہارے لئے مغفرت طلب فرمائے۔ لووا ماضی جمع مذکر غائب تلویۃ (تفعیل) مصدر۔ ل ی ی مادہ۔ وہ نیوڑاتے ہیں۔ گھماتے ہیں۔ لہراتے ہیں۔ اکڑاتے ہیں۔ یہ تمام علامت غرور کی ہے۔ مجرد لوی یلوی کا معنی بھی موڑنا۔ لہرانا۔ دوہرا کرنا ہے۔ باب تفعیل میں لاکر اس فعل میں زیادتی اور مبالغہ کا اظہار کیا گیا ہے ۔ باب ضرب سے اس مادہ کے افعال لازم بھی آتے ہیں۔ اور متعدی بھی۔ صلات کے اختلاف سے مفہوم میں بہت اختلاف ہوجاتا ہے۔ ، مثلا لوی الغلام (لڑکا بیس سال کا ہوگیا) لوی الحبل (رسی کو دوہرا کیا) لوی راسہ (اس نے سر کو موڑ لیا) وغیرہ وغیرہ۔ لودا رؤسہم جملہ جواب شرط ہے واذا قیل لہم تعالوا ۔۔ کا جواب ہے۔ تو وہ سرہلا دیتے ہیں۔ یصدون : مضارع جمع مذکر غائب۔ صد (باب نصر) مصدر۔ وہ باز رہتے ہیں۔ وہ اعراض کرتے ہیں۔ وہم مستکبرون۔ واؤ حالیہ ہم ضمیر جمع مذکر غائب ۔ جس کا مرجع منافقین ہے جن کا ذکر اوپر ہو رہا ہے۔ مستکبرون اسم فاعل جمع مذکر ۔ تکبر کرنے والے۔ غرور کرنے والے۔ استکبار (استفعال) مصدر سے۔ جملہ حالیہ ہے یصدون کے فاعل سے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی جب ان کی دغا بازی کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے اور کوئی سچا مسلمان ان سے کہتا ہے کہ اب تو ان حرکتوں سے باز آجائو اور آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی مانگ لو

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین کی ہٹ دھرمی کی انتہا۔ منافقت ایسا نقص اور عیب ہے کہ جو زیادہ دیرتک چھپ نہیں سکتا۔ جب مدینہ کے منافقین کی منافقت ظاہر ہوگی تو ان کے عزیز و اقرباء میں مخلص مسلمانوں نے انہیں سمجھایا کہ آئندہ اس حرکت سے توبہ کرو اور اپنی غلطیوں کی نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مع... ذرت کرلو۔ منافقین نے کھلے الفاظ میں کہا کہ ہمیں کسی سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔ ایسے ہی موقع پر عبداللہ بن ابی کو مسلمانوں نے سمجھایا کہ آؤ اللہ کے رسول سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے لیے اللہ سے استغفار کریں۔ عبداللہ بن ابی نے بڑی نخوت کے ساتھ جواب دیا کہ تم لوگوں نے مجھے اس پر ایمان لانے کی دعوت دی، میں اس پر ایمان لے آیا۔ تم نے نماز کے لیے کہا تو میں نے نماز پڑھنا شروع کردی، تم نے زکوٰہ اور صدقہ و خیرات کے لیے کہا تو میں نے صدقہ کیا اور زکوٰۃ دی۔ اب کہتے ہو کہ میں اس سے معافی مانگوں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ یہی حالت دوسرے منافقین کی تھی جب انہیں یہ بات کہی جاتی کہ اگر تم توبہ کرو اور اللہ کے رسول سے اپنے لیے استغفار کی درخواست کرو تو وہ پوری رعونت سے سر ہلاتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے سے انکار کرتے اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے تھے۔ ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ کے رسول کو بتلایا گیا کہ آپ ان کے لیے معافی مانگیں یا نہ مانگیں اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ کیونکہ ” اللہ “ اس قسم کے نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (اِسْتَغْفِرْلَہُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْلَہُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْلَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَفَرُوْا باللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ ) (التوبۃ : ٨٠) ” ان کے لیے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں اگر آپ ان کے لیے ستر بار بخشش کی دعا کریں گے تب بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا، کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب عبداللہ بن ابی فوت ہوا اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ بن ابی رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے آپ سے قمیض کا مطالبہ کیا کہ اس میں اس کے والد کو کفن دیا جائے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قمیض عنایت کردی۔ پھر اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی۔ جب رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز جنازہ کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کپڑے کو پکڑکرعرض کی اے اللہ کے رسول ! کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منع کیا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ استغفار کریں میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ حضرت عمر (رض) نے کہا یہ تو منافق ہے۔ پھر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نماز پڑھائی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ” آپ منافقوں میں سے کسی پر بھی نماز نہ پڑھائیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ “ ( رواہ البخاری : کتاب تفسیر القران ) مسائل ١۔ منافقین اپنی منافقت اور تکبر کی بنا پر استغفار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین کے حق میں استغفار کرنے سے روک دیا تھا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہٹ دھرم شخص کو ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن منافقین کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ساتھ جہاد کرنے اور ان پر سختی کرنے کا حکم دیا ہے۔ (التوبہ : ٧٣) ٢۔ منافق کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ : ١٠) ٣۔” اللہ “ کے نزدیک منافق لعنتی ہیں۔ (الاحزاب : ٦١) ٤۔ منافق جہنم کے نچلے گڑھے میں ہوں گے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (النساء : ١٤٥) ٥۔ منافق جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی رہے گی۔ (التوبہ : ٦٨) ٦۔ منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ (النساء : ١٤٥) ٧۔ اے نبی منافقین اور کفار کے ساتھ سختی کے ساتھ سے جہاد کرو۔ ( التحریم : ٩)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سلف صالحین میں بیشمار لوگوں کی رائے یہ ہے کہ یہ آیات عبدالہل ابن ابی ابن سلول کے بارے میں ہیں۔ علامہ ابن اسحاق نے غزوہ بنی الصطلق کے ذیل میں اس کی تفصیلات دی ہیں۔ یہ کو اقعہ بنی المصطلق کے پانی کے چشمے المریسیع پر سن ٦ ہجری میں ہوا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پانی پر نزول فرمایا تھا ،...  غزوہ کے واقعات کے بعد واقعہ یوں ہوا کہ لوگ پانی بھرنے کے لئے اس پانی پر جمع ہوگئے۔ حضرت عمر (رض) کے ساتھ ایک شخص ملازم تھا جو بنی غفار قبیلے کا تھا اور اس کا نام جبجا ابن مسعود تھا۔ یہ آپ کے گھوڑے کو چلاتا تھا۔ یہ جبجا اور ایک دوسرے شخص سنان ابن وبر الجہنی بنی عون ابن الخزرج کا حلیف ایک دوسرے سے آگے ہونے کی وجہ سے پانی پر لڑ پڑے۔ جہنی نے آواز دی ” اے قوم انصار “۔ اور جبجاہ نے آواز دی ” اے مہاجرین “۔ اس پر عبداللہ ابن ابی ابن سلول سخت غصے میں آگیا۔ اس وقت اس کی قوم کے کچھ لوگ اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں حضرت زید بن رقم ایک نوجوان لڑکے بھی تھے۔ عبداللہ ابن ابی ابن سلول نے کہا اچھا ، یہاں تک بات پہنچ گئی ، اب یہ لوگ ہمارے علاقے میں زیادہ ہوکر ہمیں یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں۔ خدا کی قسم قریش کے ان گرے پڑے لوگوں اور ہماری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے کہا : کتے کو پالو کہ وہ تمہیں کاٹے ، خدا کی قسم اگر ہم مدینہ گئے تو ہم میں سے جو زیادہ عزت دار ہوگا وہ ذلیل کو نکال دے گا۔ اس کے بعد اس نے حاضرین مجلس سے خطاب کرکے کہا۔ یہ تو کام تو تم نے اپنے ساتھ خود کیا ہے ۔ تم نے ان کو اپنے علاقے میں آنے دیا۔ تم نے ان کے ساتھ اپنے مال تقسیم کیے۔ خدا کی قسم اگر تم نے ان سے اپنے ہاتھ کھینچ لئے ہوتے تو وہ دوسرے علاقوں کا رخ کرتے۔ یہ باتیں زید ابن ارقم نے سن لیں۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے اور یہ پوری باتیں آپ کو سنائیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ رسول اللہ اپنے دشمنوں سے فارغ ہوگئے تھے۔ جب حضور کے سامنے یہ بات کی گئی تو حضرت عمر (رض) موجود تھے۔ تو حضرت عمر (رض) نے کہا حضور عبادا بن بشر کو حکم دیں کہ اسے قتل کردے۔ اس پر حضور نے فرمایا : ” عمر اس پر تو لوگ یہ کہیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرنے لگا ہے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا البتہ فوراً کوچ کا اعلان کردو “۔ یہ ایسا وقت تھا کہ اس میں رسول اللہ کبھی سفر نہ فرماتے تھے۔ لوگ نکل پڑے۔ عبداللہ ابن ابی ابن سلول حضور اکرم کے پاس گیا۔ یہ اس وقت جب اسے معلوم ہوگیا کہ زید ابن ارقم نے پوری بات حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا دی ہے۔ اس نے قسم اٹھائی کہ نہ میں نے یہ بات کی ہے اور نہ اس بارے میں کوئی لفظ کہا ہے۔ یہ عبداللہ ابن ابی اپنی قوم میں بڑا معزز اور ذی مرتبہ تھا۔ اس کے ساتھ جو صحابہ کرام انصار سے آئے تھے۔ انہوں نے کہا رسول خدا ممکن ہے یہ لڑکا بات کو پوری طرح نہ سمجھا ہو ، یا وہم سے اس نے ایک بات سے کچھ اور سمجھا ہو۔ اور بات اسے پوری طرح یاد نہ رہی ہو۔ یہ لوگ عبداللہ ابن ابی ابن سلول پہ مہربان تھے اور اس کے طرفدار تھے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب حضور نے کوچ کیا اور چل پڑے تو اسید ابن حضیر آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت کا سلام کیا ، اور پھر کہا اللہ کے نبی آپ تو ایک ایسے وقت میں کوچ کررہے ہیں جو ایک نیاوقت ہے۔ ایسے اوقات میں آپ نے کبھی کوچ کا حکم نہیں دیا۔ رسول اللہ نے فرمایا کیا تم نے سنا نہیں کہ تمہارے ساتھی نے کیا کہا۔ تو انہوں نے کہا ” حضور وہ کون ساتھی ہے تو آپ نے فرمایا (عبداللہ ابن ابی) ۔ تو انہوں نے کہا اس نے کیا کہا ہے ؟ تو حضور نے فرمایا کہ ” اس کا خیال ہے کہ جب ہم مدینہ پہنچیں گے تو ہم میں سے عزت دار آدمی ذلیل لوگوں کو نکال دے “۔ تو انہوں نے کہا رسول اللہ تو پھر آپ اسے مدینہ سے نکال دیں گے۔ اگر آپ چاہیں گے۔ خدا کی قسم وہ ذلیل ہے اور آپ معزز ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ رسول اللہ اس کے ساتھ نرمی فرمائیں ، خدا کی قسم اللہ نے آپ کو ہمارے پاس بھیجا ہے اور اس کی قوم اس کے لئے موتی تلاش کررہی تھی کہ ان سے تاج بنا کر اسے پہنا دے۔ اس کا خیال یہ ہے کہ آپ نے اس سے ایک مملکت چھین لی ہے۔ اس کے بعد حضور اس دن پورا دن لوگوں کو لے کر چلے ، شام ہوگئی ، پھر ساری رات چلے کہ صبح ہوگئی ، اور دوسرے دن بھی سورج نکل آیا اور وہ ان کو اذیت دینے لگا۔ اس کے بعد حضور نے حکم دیا کہ پڑاﺅ کرو ۔ جونہی لوگ اتر کر زمین پر پڑے سوگئے اور حضور نے یہ کام اس لئے کیا کہ لوگوں کو کل کی بات پر کوئی چہ میگوئی کرنے کا موقعہ ہی نہ ملے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں اس وقت سورة منافقون نازل ہوئی۔ یہ ابن ابی کے بارے میں نازل ہوئی اور ان لوگوں کے بارے میں جو اس جیسے تھے۔ جب یہ سورت نازل ہوئی تو حضور نے زید ابن ارقم کو کان سے پکڑا۔” یہ شخص ہے جس نے اللہ کے لئے اپنے کانوں سے کام کیا “۔ اور عبداللہ ابن عبداللہ ابن ابی ابن سلول کو پتہ چل گیا کہ اس کے والد نے کیا کیا ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے عاصم ابن عمر ابن قتادہ نے بتایا کہ یہ عبداللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے ۔ اور کہا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ........ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ میرے والد عبداللہ ابن ابی کو قتل کرنا چاہتے ہیں ؟ اگر آپ لازماً یہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ مجھے حکم دیں میں اس کا سر لاکر حاضر کردوں گا۔ کیونکہ خزرج کو معلوم ہے کہ اپنے والد کے ساتھ اچھا برتاﺅ کرنے والا میرے مقابلے میں کوئی نہیں ہے۔ مجھے یہ خطرہ ہے کہ آپ کسی اور کو حکم دیں گے وہ میرے والد کو قتل کردے۔ میرا نفس مجھے اجازت نہ دے گا کہ عبداللہ ابن ابی کا قاتل مدینہ میں لوگوں کے اندر پھرے اور میں مجبور ہوجاﺅں کہ ایک کافر کے بدلے مومن کو قتل کردوں اور ہمیشہ کے لئے جہنمی ہوجاﺅں۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نہیں ہم اس کے ساتھ نرمی کریں گے اور اس کی ملاقات بھی اچھے طریقے سے کریں گے جب تک وہ ہمارے اندر زندہ ہے “۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ اس کے بعد جب بھی وہ کوئی ایسی حرکت کرتا ، اس کی قوم اس پر اس کی سخت گرفت کرتی۔ اسے پکڑتے اور اس کے ساتھ لوگ سختی کرتے۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) سے کہا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوا کہ اس کی قوم اس سے نفرت کرنے لگی ہے۔ ” عمر (رض) تمہاری اب کیا رائے ہے ؟ کہ جس دن تم نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں اسے قتل کردوں ، اگر میں اسے اس دن قتل کردیتا تو اس کی وجہ سے شورش پیدا ہوجاتی اور آج اگر میں خود اس کے قبیلے کو حکم دوں تو وہ اسے قتل کردیں “۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : خدا کی قسم مجھے اب معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے میری رائے سے بہت زیادہ برکت والی ہے۔ عکرمہ اور ابن زید وغیرہ نے ذکر فرمایا ہے کہ لوگ جب واپس مدینہ پہنچے تو حضرت عبداللہ ابن عبداللہ ابن ابی ابن السلول (رض) مدینہ کے دروازے پر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے تلوار نکال لی ، لوگ اس کے پاس سے گزرتے رہے ، جب اس کے والد رئیس المنافقین آئے تو انہوں نے باپ سے کہا : ” پیچھے کھڑے ہوجاﺅ“۔ خدا کی قسم ، تم اس جگہ سے ادھر نہیں آسکتے۔ جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت نہ دے دیں۔ اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معزز ہیں۔ اور تم ذلیل ہو ، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو آپ اس وقت قافلے کے ” ساقہ “ کے طور پر آرہے تھے (ساقہ قافلے کے پیچھے چلنے والا افسر جو دیکھے کہ کسی نے راہ گم کردیا ہو یا کوئی ضرورت مند ہوگیا ہو) تو رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی ابن سلول نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے بیٹے کی شکایت کی تو عبداللہ (رض) نے کہا حضور یہ اس وقت تک شہر کے اندر نہیں جاسکتا جب تک آپ اجازت نہ دیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اجازت دی۔ اور بیٹے سے کہا : اب جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دے دی ہے تو آپ جاسکتے ہیں “۔ یہاں آکر ہم کبھی ان واقعات کو دیکھتے ہیں ، کبھی صحابہ کرام کو دیکھتے ہیں اور کبھی نصوص قرآنی کو دیکھتے ہیں ، یوں ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت ، اللہ تعالیٰ کے نظام تربیت اور اللہ کے دست قدرت اور نظام قضا وقدر کو دیکھتے ہیں۔ تو حیران رہ جاتے ہیں .... مسلمانوں کی صفوں کے اندر منافقین نہایت دور تک گھسے ہوئے ہیں۔ یہ منایق تقریباً دس سال سے یہاں رہ رہے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو چن کر اپنی صفوں سے نکالتے نہیں ہیں اور ان منافقین کے ناموں اور اشخاص کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف اپنی وفات سے چندایام قبل ہی اطلاع دیتا ہے۔ اگرچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی چاپلوسی ، چالاکی اور عیاری کی وجہ سے انہیں خوب جانتے تھے۔ اسی طرح دوسری علامات کی وجہ سے بھی کہ جب کوئی بات ہوتی ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا۔ اور اللہ نے یہ حکم اس لئے دیا کہ اللہ کسی شخص کے دل کو کسی دوسرے کے اختیار میں نہیں دیتا۔ دلوں کا مالک صرف اللہ ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو دلوں کے بھیدوں پر محاسبہ کرسکتا ہے۔ لوگوں کا تعلق لوگوں کے ساتھ ظاہری اقرار اور حالات پر ہوگا۔ اور محض شک کی بنا پر کسی کو پکڑا نہ جائے گا بلکہ شک کی بنا پر چھوڑا جائے گا۔ محض عقل کی بنیاد پر کسی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں تک کہ جب اللہ نے رسول کو اطلاع دے دی کہ آخر تک بعض لوگ نفاق پر قائم ہیں اور نام بھی بتادیئے تب بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جماعت سے نہ نکالا۔ جب تک کہ وہ اسلام کا اقرار کرتے اور اسلامی فرائض وواجبات ادا کرتے رہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف حذیفہ ابن الیمان (رض) کو اطلاع دی تھی اور انہوں نے مسلمانوں کے اندر اس راز کو نہیں پھیلایا۔ یہاں تک کہ حضرت ابن عمر (رض) حضرت عذیفہ کے پاس آتے تھے اور اپنے بارے میں ان سے اطمینان حاصل کرتے کہ بتاﺅ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے تو منافقین میں شمار نہیں کیا۔ تو حضرت حذیفہ فرماتے ، عمر (رض) تم ان میں سے نہیں ہو اور اس سے زیادہ کچھ نہ کہتے اور رسول اللہ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان میں سے اگر کوئی مرجائے تو اس کا نماز جنازہ نہ پڑھائیں۔ جب ان میں سے کوئی مرجاتا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی نماز جنازہ نہ پڑھاتے۔ یوں معلوم ہوجاتا کہ یہ منافق ہے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے تو حضرت حذیفہ (رض) ان لوگوں کی نماز جنازہ میں شریک نہ ہوتے تھے۔ اور حضرت عمر (رض) کسی نماز جنازہ میں نہ جاتے تھے ، جن میں حضرت حذیفہ نہ گئے ہوں۔ جب وہ دیکھتے کہ حضرت حذیفہ موجود ہیں تو معلوم کرلیتے کہ منافقین میں سے نہیں ہے۔ اور اگر حذیفہ نہ ہوتے تو حضرت عمر (رض) نماز نہ پڑھتے لیکن منہ سے کچھ نہ کہتے۔ اس طرح یہ واقعات آگے بڑھتے رہے ، اللہ کی تقدیر اور حکمت کے مطابق۔ اللہ کی مقرر کردہ حکمتوں اور مقاصد کے حصول کے لئے تربیت ، عبرت اور اخلاقی اور تنظیمی تربیت کی خاطر .... یہ واقعہ جس کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں ، اس کے اندر کس قدر عبرتیں ہیں ؟ ذرا عبداللہ ابن ابی ابن سلول کو دیکھیں۔ یہ مسلمانوں کے اندر رہ رہا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب رہتا ہے ۔ اس دین کی حقانیت کے واقعات و احادیث اور نشانات و علامات اس کے ماحول میں ، اس کے سامنے پے درپے ظاہرہو رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اسے توفیق ایمان نہیں دے رہا ہے۔ کیونکہ اللہ کے نظام قضا وقدر میں اس طرح لکھا ہی نہ گیا تھا۔ اثر آفرینی اور ضوپاشی کا یہ سیلاب اس تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوا ، اس لئے کہ اس کے دل میں اس دین کی دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یوں کہ وہ اوس اور خزرج کا بادشاہ نہ بن سکا۔ اس نے یہ کھیل تیار کرلیا تھا ، مگر اسلام اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ میں داخل ہوئے تو یہ کھیل خراب ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے ہدایت قبول نہ کی۔ حالانکہ ہدایت کے دلائل ہر طرف سے آرہے تھے۔ اور اسلام میں ہر طرف وسعت ہورہی تھی۔ لیکن دوسری طرف ان کے بیٹے ہیں ، ان کا نام بھی حضرت عبداللہ (رض) ہے۔ یہ ایک مسلم اور مخلص مسلم کا بلندترین نمونہ ہیں۔ یہ باپ ان کے لئے مصیبت ہے ، یہ باپ کے کارناموں سے تنگ آچکے ہیں۔ باپ جو موقف اختیار کرتا ہے ، وہ ان کے لئے شرمندگی کا سبب ہے۔ لیکن باپ جو بھی کرے وہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے سعادت مند بیٹے ہیں۔ یہ سنتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو شاید اس شخص کو اب قتل ہی کرادیں۔ ان کے دل میں جذبات اور رد عمل کا واضح طوفان اٹھتا ہے۔ اور ورہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ان کا اظہار صاف صاف کردیتے ہیں۔ وہ اسلام سے محبت کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطیع فرمان بھی ہیں۔ وہ صاف کہتے ہیں کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اپنے باپ ہی کے خلاف حکم دیں تو میں تعمیل کروں گا۔ لیکن وہ اس بات کو برداشت نہیں کرتے کہ کوئی اور آگے بڑھے اور ان کے باپ کی گردن اڑادے۔ وہ زمین کے اوپر زندہ پھرے اور لوگ انہیں دیکھیں۔ وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ شاید میرا نفس اس منظر کو برداشت نہ کرسکے۔ شیطان مجھے بدلہ لینے پر مجبور کردے۔ تو وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنے یہ خلجانات پیش کرکے مسئلے کے حل کی درخواست کرتے ہیں۔ اور خود ہی تجویز پیش کرتے ہیں کہ اگر آپ نے لازماً یہ کام کرنا ہی ہے تو مجھے حکم دیں۔ میں اس کا سر آپ کے سامنے پیش کردوں گا تاکہ کوئی غیر اس کام کو نہ کرے اور میں اپنے کافر والد کے بدلے ایک مسلمان کو قتل کردوں اور جہنم رسید ہوجاﺅں۔ انسانی فکر و خیال کو جس میدان میں بھی جو لانی دی جائے ، اور جس پہلو سے بھی اس واقعہ پر نظر دوڑائی جائے اس میں حسن و جمال ہی نظر آتا ہے۔ ایک مومن کے دل میں ایمان کس قدر خوبصورت نظر آتا ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ تجویز رکھتا ہے کہ دنیا کا مشکل ترین کام یعنی خوداپنے باپ کے قتل کا حکم مجھے دیجئے۔ اور یہ ڈیوٹی وہ صداقت سے لے رہا ہے۔ اور نور ایمان اور حکمت ایمانی کا جمال دیکھئے کہ اس پیشکش کے ذریعہ وہ اپنے آپ کو کسی حکمت سے اس سے بھی بڑی مصیبت سے بچاتا ہے۔ یہ کہ وہ انسانی جذبات سے مغلوب ہوکر ایک کافر باپ کے بدلے مومن کو قتل کردے اور وہ مومن کو جنت میں پائے اور اپنے آپ کو دوزخ میں۔ اور اسی مومن کی صداقت اور سچائی دیکھئے کہ وہ اپنی کمزوری کا بھی صاف صاف اظہار کرتا ہے اور وہ کہتا ہے ” خدا کی قسم خزرج کو معلوم ہے کہ میرے مقابلے میں والد کے بارے میں احسان کرنے والا جوان نہیں ہے “۔ چناچہ وہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کرتے ہیں کہ انہیں اس مشکل سے نکالا جائے۔ یہ مومن اپنے کیس کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ نہ حکم عدولی ہوتی ہے اور نہ آپ کی دل شکنی ہوتی ہے۔ کیونکہ حکم رسول کو ماننے کے لئے وہ تیار ہیں۔ اشارے کی ضرورت ہے۔ بشرطیکہ حضور حکم دیں اور وہ والد کا سر پیش کردیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معلوم کرلیتے ہیں کہ یہ سچا مومن کس قدر مشکل صورت حال میں پھنس گیا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہایت ہی شریفانہ انداز میں ان کی ہر مشکل دور فرمادیتے ہیں۔ بلکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ” ہم اس کے ساتھ نرمی کریں گے اور اس کے ساتھ محفل میں اچھا سلوک کریں گے جب تک کہ وہ زندہ ہے “۔ اور اس سے قبل جب حضرت عمر (رض) نے اس کے قتل کی تجویز پیش کی تو آپ نے ان کی تجویز یہ کہہ کر رد کردی کہ لوگ کہیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔ پھر اس واقعہ میں حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو تصرفات واقدامات ہیں وہ بھی قابل ملاحظہ اور قابل تقلید ہیں۔ آپ ایک ایسے قائد کی طرح کام کرتے نظر آتے جو الہام کی روشنی میں کام کرتا ہے۔ آپ نے لشکر کو حکم دیا کہ کوچ کرو ، حالانکہ آپ کی ایسے اوقات میں کوچ کرنے کی عادت نہتھی۔ اور آپ نے اس سفر کو اس قدر طویل وقت کے لئے جاری رکھا کہ لوگ تھک کر چور ہوگئے تاکہ لوگوں کے اندر عصبیت جاہلیہ کے جذبات پھیلائے جانے کا کوئی موقعہ ہی کسی کو نہ ملے۔ کیونکہ دو افراد نے اپنی جنگ میں عصبیت کا سہارا لیا تھا۔ ایک نے کہا اے انصاریو ! ، دوسرے نے کہا اے مہاجرو ! اور پھر اس موقعہ پر رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی ابن سلول جو فتنہ انگیزی کرنا چاہتا تھا اسے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دبا دیا۔ اس کی اسکیم یہ تھی کہ مہاجرین اور انصار کے درمیان جو اخوت اور محبت ہے ، اس کو جلا کر رکھ دے۔ حالانکہ یہ اخوت و محبت کا وہ نادر نمونہ تھا جس کی مثال انسان کی ہزاروں سالوں کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کے بعد اسید ابن حضیر کے ساتھ حضور کی گفتگو اور اس کے اندر پائی جانے والی روحانی تیاری ، جو اس فتنے کے مقابلے میں حضور فرما رہے تھے اور پھر اس فتنے کے سرغنے کو پکڑنے کا جوش جبکہ وہ اپنی قوم میں اب تک بھی بااثر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب سے آخر میں رجل مومن عبداللہ ابن عبداللہ کا کردار نہایت ہی روشن اور خوبصورت ہے کہ وہ مدینہ کے باہر تلوار لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے باپ کو شہر کے اندر داخل نہیں ہونے دیتے ، جب تک حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت نہ دیں۔ اور یہ ہے مظاہرہو اس بات کا کہ۔ لیخرجن ................ الاذل (٣٦ : ٨) ” اس معزز شخص ذلیل شخص کو نکال باہر کرے گا “۔ اور اس پر بھی رجل مومن نے یہ کام اس لئے کیا کہ لوگ جان لیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت دار ہیں اور ان کا باپ ذلیل ہے۔ آخر کار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لاتے ہیں اور اس ذلیل شخص کو داخلے کی اجازت ہوتی ہے۔ اور سائنسی تجربہ بتا دیتا ہے کہ عزیز کون ہے اور ذلیل کون ؟ اسی واقعہ میں اور اسی وقت میں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بلند ترین چوٹی ہے جہاں تک یہ مومنین پہنچ چکے تھے۔ ایمان نے ان کو ان مقامات بلند اور مراتب بلند تک پہنچا دیا تھا لیکن وہ تھے انسان۔ ان میں بشری کمزوریاں تھیں ، ان میں جذبات تھے ، ان کے دلوں میں خلجانات آتے تھے ، یہ ہے اس دین کا نہایت ہی نمایاں وصف ، بشرطیکہ لوگ اسے اس کی حقیقت کے مطابق سمجھیں۔ اور لوگ ان لوگوں کو ایک انسان کی طرح رکھ کر سمجھیں۔ کہ یہ لوگ مکہ اور مدینہ کی سرزمین پر بطور انسان رہے ، کھانا کھاتا رہے اور بازاروں میں پھرتے رہے اور پھر بھی اس مقام تک پہنچ گئے۔ اب وہ آیات جو ان واقعات کے بارے میں نازل ہوئیں ، مناسب ہے کہ قدرے ان کے ساتھ بھی رہیں : واذا قیل ........................ مستکبرون (٣٦ : ٥) ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آگو تاکہ اللہ کا رسول تمہارے لئے مغفرت کی دعا کرے تو سر جھٹکتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ آنے سے رکتے ہیں “۔ یہ لوگ یہ فعل کرتے ہیں ، اور اس قسم کی باتیں منہ سے نکالتے ہیں ، جب ان کو معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک یہ باتیں پہنچ گئی ہیں تو پھر یہ فوراً ڈر جاتے ہیں۔ ذلیل ہوکر جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں اور ان جھوٹی قسموں کے سہارے زندہ رہ رہا ہے اور اگر وہ امن کی حالت میں ہوں ، کوئی ان سے کہے کہ آﺅ رسول اللہ سے درخواست کرو کہ تمہاری بخشش کے لئے رسول اللہ دعا کریں تو سرجھٹکتے ہیں اور نہایت ہی تکبر میں حضور کے پاس آنے سے رک جاتے ہیں۔ یہ منافقین کی دونوں باہم متضاد صفات ہیں۔ اگرچہ یہ اپنی قوم میں ، باعزت اور بامقام لوگ ہوں۔ یہ دل میں اپنے اندر سے اس قدر کھوکھلے اور ڈرپوک ہوتے ہیں کہ یہ تکبر کرتے ہیں ، اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ سر جھٹک کر پھیر دیتے ہیں ، جب ان کو خوف نہ ہو ، لیکن جب یہ خوف ہو کہ رسول اللہ کے سامنے جانا ہے تو پھر قسمیں اٹھاتے ہیں۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ نے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا ہے ، لہٰذا اب آپ ان کے بارے میں استغفار کریں یا نہ کریں ، استغفار کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا ﴾ (الآیۃ) معالم التنزیل صفحہ ٣٥٠: جلد ٤ میں لکھا ہے کہ جب عبداللہ بن ابی منافق کے بارے میں آیت قرآنیہ نازل ہوگئی جس سے اس کا جھوٹا ہونا اور حضرت زید بن ارقم کا سچا ہونا، ثابت ہوگیا تو اس سے کسی نے کہا کہ دیکھ تیرے بارے میں کیسی سخت بات نازل ہوئی ہے تو رسول اللہ (ص... لی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتا کہ وہ تیرے لئے اللہ سے دعا کریں اس پر اس نے انکار کرتے ہوئے اپنے سر کو حرکت دی اور کہنے لگا کہ تم لوگوں نے مجھ سے ایمان لانے کو کہا تو میں ایمان لے آیا تم لوگوں نے زکوٰۃ دینے کے لئے کہا تو میں نے زکوٰۃ بھی دی۔ اب اتنی سی بات رہ گئی ہے کہ رسول اللہ کو سجدہ کرلوں، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ ﴿وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمْ ﴾ نازل فرمائی (اور جب کہا گیا کہ آجاؤ اللہ کے رسول تمہارے لئے استغفار کردیں تو انکار کرتے ہوئے اپنے سروں کو پھیر دیتے ہیں اور تکبر کرتے ہوئے بےرخی اختیار کرلیتے ہیں) ۔ صحیح بخاری میں ﴿ لَوَّوْا رُءُوْسَهُمْ﴾ کی تفسیر میں لکھا ہے : (حرکوارؤ سھم استھزوا بالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ یہ لوگ سر کو حرکت دیتے ہیں اور یہ حرکت دینا اس انداز میں ہوتا ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑانا مقصود ہوتا ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖف 7:۔ ” واذا قیل لہم “ یہ بھی منافقین پر زجر ہے۔ جب منافقین کی تکذیب نازل ہوئی تو تمام مسلمانوں نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو ملامت کی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر توبہ کرنے کا مشورہ دیا، خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بلا بھیجا تاکہ وہ سچے ... دل سے ایمان لے آئیں اور نفاق سے توبہ کرلیں تو آپ ان کے لیے اللہ سے استغفار کریں اور ان کے لیے معافی کی درخواست کریں تو انہوں نے کمال بےاعتنائی سے کبر و غرور کے ساتھ اس سے اعراض کیا اور خدمت عالیہ میں حاضر ہونے سے انکار کردیا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) اور جب ان منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ آئو اور پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی غلطی پر ندامت کا اظہار کرو تاکہ اللہ کا رسول تمہارے لئے استغفار کرے اور بخشش طلب کرے تو یہ لوگ اپنے سروں کو مٹکاتے پھیر لیتے ہیں اور آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ اس تحصیل استغفار سے یا اس کہنے والے سے کہ آئو متکبرانہ انداز...  کے ساتھ بےرخی برتتے ہیں۔ شاید عبداللہ ابن ابی منافق کی کوئی غلطی اور شرارت ظاہر ہوگئی تھی اس پر کسی نے اس سے کہا کہ پیغمبر (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوکر عذر کردے تاکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے لئے استغفار کردیں تو اس منافق نے گردن کو مٹکا کر اور سر کر پھیر کر کہا مجھ سے تم نے ایمان کو کہا میں ایمان لے آیا تم نے زکوٰۃ دینے کو کہا میں نے زکوٰۃ بھی ادا کی بس اب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ کرنا باقی رہ گیا ہے اور نہایت تکبر کے ساتھ بےرخی کا برتائو کیا اور خدتم اقدس میں حاضر ہوکر عذر کرنے کو آمادہ نہ ہوا۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ بہرحال منافقوں کی سرکشی اور تکبر کی یہ حالت تھی کہ خیانت اور بددیانتی کے ظہور پر اگر کوئی سمجھاتا تو اس کی پروانہ کرتے اور تکبر و غرور کا برتائو کرتے حضرت حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔  Show more