Surat ul Munfiqoon

Surah: 63

Verse: 6

سورة المنافقون

سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ اَسۡتَغۡفَرۡتَ لَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ ؕ لَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۶﴾

It is all the same for them whether you ask forgiveness for them or do not ask forgiveness for them; never will Allah forgive them. Indeed, Allah does not guide the defiantly disobedient people.

ان کے حق میں آپکا استغفار کرنا اور نہ کرنا دونوں برابرہے اللہ تعالٰی انہیں ہرگز نہ بخشے گا بیشک اللہ تعالٰی ( ایسے ) نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

It is equal to them whether you ask forgiveness or ask not forgiveness for them, Allah will never forgive them. Verily, Allah guides not the people who are the rebellious. As Allah said in Surah Bara'ah, and a discussion preceded there, and here we will present some of the Hadiths reported that are related to it. Several of the Salaf mentioned that this entire passage was revealed in the case of Abdullah bin Ubay bin Salul, as we will soon mention, Allah willing and our trust and reliance are on Him. Allah says, هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لاَ تُنفِقُوا عَلَى مَنْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنفَضُّوا وَلِلَّهِ خَزَايِنُ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لاَ يَفْقَهُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 اپنے نفاق پر اصرار اور کفر پر قائم رہنے کی وجہ سے وہ ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں استغفار اور عدم استغفار ان کے حق میں برابر ہے۔ 6۔ 2 اگر اسی حالت میں نفاق میں مرگئے۔ ہاں اگر وہ زندگی میں کفر و نفاق سے تائب ہوجائیں تو بات اور ہے، پھر ان کی مغفرت ممکن ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] اس کی تشریح کے لیے سورة توبہ کی آیات نمبر ٨٠ اور ٨٤ کے حواشی دیکھ لیے جائیں جو اس موقعہ پر نازل ہوئی تھیں۔ جب عبداللہ بن ابی کی وفات واقع ہوئی تھی۔ [١١] اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں کہ ایک یہ کہ دعائے مغفرت بھی صرف ان لوگوں کے لئے ہی قبول اور مفید ہوسکتی ہے جو خود بھی ہدایت کے راستے پر چلنا چاہتے ہوں یا چل رہے ہوں، خواہ دعائے مغفرت کرنے والے خود اللہ کے رسول ہی کیوں نہ ہوں۔ دوسری یہ کہ جو لوگ اللہ کی نافرمانی کی روش اختیار کئے ہوئے ہوں انہیں اللہ زبردستی ہدایت کی راہ پر نہیں لایا کرتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

سَوَآئٌ عَلَیْہِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ ۔۔۔۔۔:” استغفرت “ اصل میں ” ء استغفرت “ ہے۔ ہمزۂ تسویہ آنے کے بعد ہمزۂ وصل کی ضرورت نہ رہی ، اس لیے وہ گرگیا ۔ اس میں ہمزہ استفہام کا نہیں ہے ، بلکہ اسے ہمزہ ٔ تسویہ کہتے ہیں ۔ ( دیکھئے بقرہ : ٦) آیت کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ توبہ (٨٠) کی تفسیر۔ اس سے مقصود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان کے لیے معافی کی امید کو ختم کرنا ہے ، کیونکہ منافقون کی تمام شرارتوں اور بےادیبوں کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طبعی رحمت و شفقت کی بناء پر چاہتے تھے کہ ان کے لیے معافی کی دعا فرمائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے لیے معافی کی دعا سے منع فرما دیا ، کیونکہ ان کا فسق حد سے بڑھ چکا تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

سَوَاۗءٌ عَلَيْہِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ۝ ٠ ۭ لَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَہُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۝ ٦ سواء ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال : فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] ، ( س و ی ) المسا واۃ مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔ استغفار الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ منافقین جب تک نفاق پر قائم رہیں گے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت نہیں فرمائے گا اور نفاق پر مرنے والوں کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں فرماتا۔ شان نزول : سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ (الخ) ابن منذر نے عکرمہ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور نیز عروہ سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت استغفرلھم اولا تستغفرلھم نازل ہوئی تو رسول اکرم نے فرمایا میں ستر مرتبہ سے زائد استغفار کروں گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ ۔ نیز مجاہد اور قتادہ سے بھی اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔ اور عوفی کے واسطہ سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ جب سورة برات کی یہ آیت نازل ہوئی تو حضور نے فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اس چیز کے بارے میں اجازت دی گئی ہے سو اللہ کی قسم میں ستر مرتبہ سے زائد استغفار کروں گا ممکن ہے ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرما دے تب یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦{ سَوَآئٌ عَلَیْہِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) ان کے لیے برابر ہے کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں یا ان کے لیے استغفار نہ کریں۔ “ { لَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ } ” اللہ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ “ یہی مضمون اس سے زیادہ سخت الفاظ میں سورة التوبہ میں بھی آچکا ہے۔ وہاں ان لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا : { اِسْتَغْفِرْ لَہُمْ اَوْلاَ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْط اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْط } (آیت ٨٠) ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ خواہ ان کے لیے استغفار کریں یا ان کے لیے استغفار نہ کریں۔ اگر آپ ستر ّمرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کریں گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں فرمائے گا “۔ لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نرم دلی اور مروّت کی اپنی شان ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کے نزول کے بعد ایک موقع پر مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا : (لَـوْ اَعْلَمُ اَنِّی اِنْ زِدْتُ عَلَی السَّبْعِیْنَ غُفِرَ لَـہٗ لَزِدْتُ عَلَیْھَا) (١) ” اگر مجھے معلوم ہو تاکہ ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کرنے سے اس کی معافی ہوسکتی ہے تو میں اس پر اضافہ کرلیتا “۔ واضح رہے کہ یہاں ستر کا عدد محاورے کے طور پر آیا ہے ۔ مراد اس سے یہ ہے کہ اب ان کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استغفار کرنا انہیں کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا ۔ ان کے دلوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ان کی بخشش ممکن ہی نہیں۔ اب آئندہ آیات میں ایک واقعہ کے حوالے سے اہل ایمان کے ساتھ منافقین کی عداوت کا نقشہ دکھایا جارہا ہے ۔ یہ واقعہ غزوئہ بنی مصطلق سے واپسی کے سفر میں پیش آیا تھا۔ مریسیع کے کنویں کے قریب جہاں لشکر کا پڑائو تھا ‘ دو مسلمانوں کا پانی بھرنے پر آپس میں جھگڑا ہوگیا۔ ان میں سے ایک انصار کا حلیف تھا جبکہ دوسرا حضرت عمر (رض) کا خادم تھا ‘ جس نے جذبات میں آکر اس کو ایک لات رسید کردی۔ اس پر منافقین نے اس کو بڑھا چڑھا کر مہاجرین اور انصار کے مابین جھگڑے کا رنگ دے دیا۔ عبداللہ بن ابی نے ‘ جو اس طرح کے مواقع کی ہمیشہ گھات میں رہتا ‘ موقع سے فائدہ اٹھا کر مہاجرین کے خلاف انصار کے جذبات بھڑکانے کے لیے نہایت زہر آلود فقرے کہے۔ اس نے انصار کو مخاطب کر کے کہا کہ مدینہ والو ! یہ ہمارے گھر میں پناہ پا کر اب ہمیں پر ّغرانے لگے ہیں۔ سچ کہا ہے جس نے کہا ہے کہ سَمِّنْ کَلْبَکَ یَاْکُلْکَکہ تم اپنے کتے کو کھلا پلا کر خوب موٹا کرو تاکہ وہ تم ہی کو کاٹے۔ تم نے ان بےگھر لوگوں کو سر چھپانے کی جگہ دی ‘ ان کی مدد کی ‘ انہیں کھلایا پلایا اور اپنے مال میں ان کو حصہ دار بنایا۔ یہ تمہاری اپنی غلطی کا خمیازہ ہے جو تمہیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اگر تم ان کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیتے تو یہ کب کے یہاں سے بھاگ کھڑے ہوتے۔۔۔ خدا کی قسم ! اب ہم پلٹے تو جو باعزت ہیں وہ رذیلوں کو مدینہ سے نکال باہر کریں گے۔ عبداللہ بن ابی کی یہ بکواس وہاں موقع پر موجود ایک نوجوان صحابی حضرت زید بن ارقم (رض) سن رہے تھے۔ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش ہو کر سارا واقعہ بیان کردیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن ابی کو بلا کر دریافت فرمایا تو وہ صاف مکر گیا ‘ بلکہ اس نے الٹا احتجاج کیا کہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے معاملے میں اس چھوکرے (حضرت زید بن ارقم (رض) کی بات پر یقین کریں گے ؟ اس طرح حضرت زید (رض) کی پوزیشن بڑی خراب ہوگئی۔ ان آیات کے نزول کے بعد جب واقعہ کی تصدیق ہوگئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید بن ارقم (رض) کی خصوصی طور پر دلجوئی فرمائی اور شفقت سے ان کا کان مروڑتے ہوئے فرمایا کہ لڑکے کے کان نے غلط نہیں سنا تھا۔ اس واقعہ کے حوالے سے یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ عبداللہ بن ابی کا جرم ثابت ہوجانے کے بعد بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک عملاً اسلامی ریاست قائم نہیں ہوئی تھی۔ اس بارے میں عام طور پر تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ تشریف لے جانے کے فوراً بعد ہی وہاں باقاعدہ اسلامی ریاست وجود میں آگئی تھی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باقاعدہ ایک سربراہِ ریاست اور سربراہِ حکومت کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی ‘ لیکن اس دور کے معروضی حقائق اور واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ خیال درست نہیں ہے۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ غزوئہ اُحد کے موقع پر اسلامی لشکر کو چھوڑ کر جانے والے تین سو افراد سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ منافقین مدینہ اپنے فیصلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بجائے یہودیوں سے کرواتے تھے۔ ظاہر ہے کسی ریاست میں تو ایسا نہیں ہوتا کہ اس کی ایک تہائی فوج دشمن کے مقابلے سے بھاگ جائے اور ان میں سے کسی ایک فرد سے بھی اس بارے میں کوئی باز پرس نہ ہو ‘ اور نہ ہی کسی ریاست کی عملداری میں یہ ممکن ہے کہ اس کا کوئی شہری ریاست کی عدالت کو چھوڑ کر اپنا مقدمہ کہیں اور لے جائے۔ بہرحال اس حوالے سے اصل صورت حال یہ تھی کہ علاقے کی واحد منظم اور طاقتور جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ میں معاشرتی و سیاسی لحاظ سے ایک خصوصی اور ممتاز مقام تو ہجرت کے فوراً بعد ہی حاصل ہوگیا تھا۔ البتہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تحت ایک باقاعدہ ریاست فتح مکہ کے بعد قائم ہوئی ۔ یہی وجہ ہے کہ ٩ ہجری میں غزوئہ تبوک سے رہ جانے والے لوگوں کا سخت مواخذہ ہوا۔ بہرحال عبداللہ بن ابی کے معاملے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت درگزر سے کام لیا ۔ واقعہ افک میں اس کے کردار سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت آزردہ ہوئے تھے ۔ اس دوران تو ایک موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہاں تک فرما دیا تھا کہ کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اس شخص کی ایذا سے مجھے بچا سکے ؟ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان بھی محض آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جذبات کا اظہار تھا ‘ جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے خلاف کسی عملی اقدام کا حکم اس وقت بھی نہیں دیا۔ البتہ اس موقع پر اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ حضور ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے حکم دیں ‘ میں اس شخص کا کام تمام کرتا ہوں۔ اس پر خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے حضرت سعد (رض) بن معاذ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے عبداللہ بن ابی کے قتل کی بات اس لیے کی ہے کہ اس کا تعلق قبیلہ خزرج سے ہے ! اور پھر حضرت سعد بن عبادہ (رض) ہی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشورہ دیا تھا کہ حضور ! آپ اس شخص کے معاملے میں نرمی سے کام لیں ۔ اس کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسے اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کرچکے تھے اور اس کے لیے ہم نے سونے کا تاج بھی تیار کرلیا تھا کہ اسی اثنا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لے آئے۔ اس طرح اس کے سارے خواب بکھر گئے۔ ہمارے قبیلے پر ابھی تک اس کا اثر و رسوخ موجود ہے ‘ اس لیے حکمت اور مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے خلاف سختی نہ کی جائے۔ بہرحال اس ساری تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت تک باقاعدہ اسلامی ریاست اور حکومت بھی وجود میں نہیں آئی تھی اور ابھی قبائلی عصبیتیں بھی کسی نہ کسی حد تک موجود تھیں۔ یعنی مجموعی طور پر حالات ایسے نہیں تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پہلوئوں کو نظرانداز کر کے عبداللہ بن ابی کے خلاف کوئی سخت اقدام کرنے کا حکم دیتے۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا یہ جرم بھی نظر انداز کردیا۔ { اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ ۔ } ” یقینا اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 This thing was reiterated in Surah At-Taubah, which was sent down three years after Surah Al-Mtutafiqun, cven in stronger words. In that Surah AIIah, while addressing the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) said this about the hypocrites: 'O Prophet (it will be aII the same) whether you beg forgiveness for them or not, for AIIah will not forgive them even if you beg forgiveness for them seventy times. This is because they have disbelieved in AIIah and His Messenger, and AIlah does not show guidance to the wrongdoers." (AtTaubah: 80) . A little further on in that Surah it was again said: 'And never perform the funeral prayer for anyone of them W;10 dies nor stand at his grave, for they have denied Allah and His Messenger and diod while they were transgressors. " (At-Taubah: 84) 14 Two things have been stated in this verse. First, that the prayer of forgiveness can be beneficial only for those who are guided aright. Let alone a common man, even if Allah's Messenger himself prays for the forgiveness of the person, who has turned away from guidance and adopted the way of sin and transgression instead of obedience, he cannot be forgiven. Second, that it is not Allah's way to bless with guidance those who do not seek His guidance. If a person himself turns away from Allah's guidance, rather shakes his head with arrogance and rejects the invitation when he is called towards guidance, Allah has no need that He should go after him with His guidance and implore him to come to the right path.

سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :13 یہ بات سورہ توبہ میں ( جو سورہ منافقون کے تین سال بعد نازل ہوئی ہے ) اور زیادہ تاکید کے ساتھ فرما دی گئی ۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے منافقین کے متعلق فرمایا کہ تم چاہے ان کے لیے استغفار کرو یا نہ کرو ، اگر تم ستر ( 70 ) مرتبہ بھی ان کے لیے دعائے مغفرت کرو گے تو اللہ ان کو ہرگز معاف نہ کرے گا ۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے ، اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ( التوبہ ۔ آیت 80 ) ۔ آگے چل کر پھر فرمایا اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا ۔ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے اور یہ فاسق ہونے کی حالت میں مرے ہیں ( التوبہ ۔ آیت 84 ) ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :14 اس آیت میں دو مضمون بیان کیے گئے ہیں ۔ ایک یہ کہ دعائے مغفرت صرف ہدایت یافتہ لوگوں ہی کے حق میں مفید ہو سکتی ہے ۔ جو شخص ہدایت سے پھر گیا ہو اور جس نے اطاعت کے بجائے فسق و نافرمانی کی راہ اختیار کر لی ہو ، اس کے لیے کوئی عام آدمی تو در کنار ، خود اللہ کا رسول بھی مغفرت کی دعا کرے تو اسے معاف نہیں کیا جا سکتا ۔ دوسرے یہ کہ ایسے لوگوں کو ہدایت بخشنا اللہ کا طریقہ نہیں ہے جو اس کی ہدایت کے طالب نہ ہوں ۔ اگر ایک بندہ خود اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے منہ موڑ رہا ہو ، بلکہ ہدایت کی طرف اسے بلایا جائے تو سر جھٹک کر غرور کے ساتھ اس دعوت کو رد کر دے ، تو اللہ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اس کے پیچھے پیچھے اپنی ہدایت لیے پھرے اور خوشامد کرے اسے راہ راست پر لائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: مطلب یہ ہے کہ جب تک یہ لوگ اپنی منافقت سے توبہ کر کے صحیح معنیٰ میں مسلمان نہیں ہوجاتے، اُس وقت تک ان کی بخشش نہیں ہوگی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(63:6) سوائ۔ برابر ہے۔ اسم مصدر ۔ بمعنی استوائ۔ یعنی دونوں طرف سے بالکل برابر ہونے کے۔ نہ اس کا تثنیہ بنایا جاتا ہے نہ جمع۔ علامہ جلال الدین سیوطی (رح) اپنی تفسیر الاتقان میں لکھتے ہیں۔ جلد اول نوع 40 ۔ سواء بہ معنی مستوی (برابر) آتا ہے ۔ لہٰذا کسرہ کے ساتھ قصر اور فتحہ کے ہمراہ مد کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ قصر کی مثال :۔ قولہ تعالیٰ مکانا سوی۔ (20:58) جگہ برابر یعنی صاف اور ہموار۔ سوی۔ سین کے کسرہ کے ساتھ ۔ ابو جعفر۔ نافع ابن کثیر۔ ابو عمرو نے پڑھا ہے۔ باقی قراء نے اسے سوی سین کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے) ۔ اور مد کی مثال ہے قولہ تعالیٰ سواء علیہمء انذرتھم ام لم تنذرھم (2:6) انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو۔ سواء وسط کے معنی میں بھی آتا ہے اس صورت میں بھی فتحہ کے ساتھ اس کو مد کرکے پڑھتے ہیں جیسے قولہ تعالیٰ : فی سواء الجحیم (37:55) میں ہے (دوزخ کے وسط میں) علیہم : علی حرف جار ہم ضمیر جمع مذکر غائب مجرور۔ ان پر۔ استغفرت۔ ماضی واحد مذکر حاضر۔ استغفار (استفعال) مصدر۔ خواہ تو بخشش مانگے۔ اصل میںء استغفرت تھا (حسب تصریح شوکانی) پہلی ہمزہ استفہام (جو یہاں تسویہ کے معنی میں تھی) حذف کردی گئی۔ کیونکہ آیت میں ام اس کے معنی پر دلالت کرنے کے لئے موجود ہے اور حسب تصریح ابو حیان ہمزہ تسویہ باقی ہے اور دوسری ہمزہ جو کہ ہمزہ وصل تھی۔ وہ محذوف ہے۔ ام۔ خواہ۔ لم تستغفرلہم۔ مضارع نفی جحد بلم واحد مذکر حاضر۔ (خواہ) تو بخشش نہ مانگے۔ لن یغفر۔ مضارع نفی تاکید بلن واحد مذکر غائب۔ ہرگز نہیں بخشے گا۔ القوم الفسقینموصوف و صفت مل کر مفعول فعل لایھدیکا۔ بیشک اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہدایت نہیں بخشتا۔ ہدایت نہیں دیا کرتا

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 اس سے مقصود آنحضرت کو تسکین دیتا ہے کیونکہ منافقوں کی تمام شرارتوں اور بےادبیوں کے باوجود آپ اپنی طبعی رحمت و شفقت کی بنا پر چاہتے تھے کہ ان کے لئے معافی کی دعا فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے لئے دعا کرنے سے منع فرمایا کیونکہ ان کی سرکشی حد سے بڑھ چکی تھی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مطلب یہ کہ اگر وہ آپ کے پاس آتے بھی اور آپ ان کی ظاہری حالت کے اعتبار سے استغفار بھی فرماتے تب بھی ان کو کچھ نفع نہ ہوتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سواء علیھم .................... الفسقین (٣٦ : ٦) ” اے نبی ! تم چاہے ان کے لئے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو ، ان کے لئے یکساں ہے ، اللہ ہرگز انہیں معاف نہ کرے گا ، اللہ فاسق لوگوں کو ہرگز ہدایت نہیں دیتا “۔ ان کے فسق وفجور کی ایک جھلک ملاحظہ ہو ، جس کی وجہ سے اللہ نے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا ہے کہ انہیں ہدایت نصیب نہ ہوگی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان کی بےرخی کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ﴿ سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ﴾ (ان کے حق میں برابر ہے کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں) آپ کا استغفار کرنا انہیں کوئی نفع پہنچانے والا نہیں) ۔ ﴿لَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ ﴾ (اللہ تعالیٰ ہرگز کبھی ان کی بخشش نہیں فرمائے گا) کیونکہ کفر کی بخشش نہیں ہوسکتی اور یہ پہلے معلوم ہوگیا کہ ان کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے مزید فرمایا ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ ٠٠٦﴾ (بیشک اللہ تعالیٰ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” سواء علیہم “ یہ منافقین، نفاق اور ضد وعناد کی انتہاء کو پہنچ چکے ہیں، اس لیے ان کے دلوں پر مہر جباریت ثبت ہوچکی ہے اور ان سے توبہ کرنے اور راہ راست پر آنے کی توفیق سلب کرلی گئی ہے، اس لیے آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں، اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے فساق و فجار کو ہدایت کی توفیق نہیں دیتا جو راہ راست پر نہ آنا چاہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) اے پیغمبر ان کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں آپ ان کے لئے مغفرت طلب کریں یا مغفرت نہ طلب کریں اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز معاف نہ فرمائے گا اور ہرگز ان کو نہ بخشے گا بلا شبہ اللہ تعالیٰ ایسے نافرمانوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا اور ایسے بےحکموں کو ہدایت کی توفیق عطا نہیں فرماتا۔ سورہ برات میں گزر چکا ہے کہ اگر آپ ستر بار بھی استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف نہیں کرے گا اس موقعہ پر منقول ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض صحابہ (رض) سے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ستر بار فرمایا ہے میں ستر بار سیزیادہ استغفار کی دعا کروں گا شاید پھر قبول ہوجائیگی۔ سورہ منافقون میں فرمایا استغفار کرنا یا نہ کرنا ان کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں سورة برات میں ہم مفصل عرض کرچکے ہیں کہ اس استغفار کی وجہ کیا تھی اور لوگوں کی تالیف قلوب کے لئے اس کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی، بعض منافقوں کے رشتہ دار پختہ مسلمان ہوگئے تھے ان کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے عزیزوں کے حق میں جو نفاق میں مبتلا ہیں دعا کردیں اور استغفار کردیں تو اللہ تعالیٰ ان کو مخلص مسلمان بنادے اور وہ بھی ہماری طرح پختہ مومن ہوجائیں۔ غرض بعض اور بھی اس قسم کی وجوہات تھیں جن کی بناپر دربار رسالت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استغفار کی جاتی تھی بالآخر منافقوں کو بڑھتی ہوئی شرارت اور اسلام کش پالیسی کے پیش نظر ان کی عدم مغفرت کا صاف اعلان فرمادیا گیا۔