Surat ul Munfiqoon

Surah: 63

Verse: 9

سورة المنافقون

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡہِکُمۡ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۹﴾

O you who have believed, let not your wealth and your children divert you from remembrance of Allah . And whoever does that - then those are the losers.

اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کریں وہ بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Importance of not being too concerned with the Matters of the Worldly Life, and being Charitable before Death Allah says, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لاَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلاَا أَوْلاَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ... O you who believe! Let not your properties or your children divert you from the remembrance of Allah. Allah the Exalted orders His faithful servants to remember Him frequently and to refrain from being distracted from His remembrance by indulging in their properties and children excessively. ... وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُوْلَيِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ And whosoever does that, then they are the losers. Allah informs them that those who engage in this life, its delights and attributes and were busied from the obedience and remembrance of Allah, for which they were created, will be among the losers. They will lose themselves and their families on the Day of Resurrection. Allah encourages the believers to spend in His cause, وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلاَ أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ

مال و دولت کی خود سپردگی خرابی کی جڑ ہے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ بکثرت ذکر اللہ کیا کریں اور تنبیہہ کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ مال و اولاد کی محبت میں پھنس کر ذکر اللہ سے غافل ہو جاؤ ، پھر فرماتا ہے کہ جو ذکر اللہ سے غافل ہو جائے اور دنیا کی زنت ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے اپنے رب کی اطاعت میں سست پڑ جائے ، وہ اپنا نقصان آپ کرنے والا ہے ۔ پھر اپنی اطاعت میں مال خرچ کرنے کا حکم دے رہا ہے کہا پنی موت سے پہلے خرچ کر لو ، موت کے وقت کی بےبسی دیکھ کر نادم ہونا اور امیدیں باندھنا کچھ نفع نہ دے گا ، اس وقت انسان چاہے گا کہ تھوڑی سی دیر کے لئے بھی اگر چھوڑ دیا جائے تو جو کچھ نیک عمل ہو سکے کر لے اور اپنا مال بھی دل کھول کر راہ اللہ دے لے ، لیکن آہ اب وقت کہاں آنے والی مصیبت آن پڑی اور نہ ٹلنے والی آفت سر پر کھڑی ہو گئی اور جگہ فرمان ہے ( ترجمہ ) الخ ، یعنی لوگوں کو ہوشیار کر دے جس دن ان کے پاس عذاب آئے گا تو یہ ظالم کہنے لگیں گے اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی سی مہلت مل جائے تاکہ ہم تیری دعوت قبول کرلیں اور تیرے رسولوں کی اتباع کریں ۔ اس آیت میں تو کافروں کی مذمت کا ذکر ہے ، دوسری آیت میں نیک عمل میں کمی کرنے والوں کے افسوس کا بیان اس طرح ہوا ہے ۔ ( ترجمہ ) یعنی جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے میرے رب مجھے لوٹا دے تو میں نیک اعمال کرلوں ۔ یہاں فرماتا ہے موت کا وقت آ گے پیچھے نہیں ہوتا ، اللہ خود خبر رکھنے والا ہے کہ کون اپنے قول میں صادق ہے اور اپنے سوال میں حق بجانب ہے یہ لوگ تو اگر لوٹائے جائیں تو پھر ان باتوں کو بھول جائیں گے اور وہی کچھ کرنے لگ جائیں گے جو اس سے پہلے کرتے رہے ، ترمذی میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ہر وہ شخص جو مالدار ہو اور اس نے حج نہ کیا ہو یا زکوٰۃ نہ دی ہو وہ موت کے وقت دنیا میں واپس لوٹنے کی آرزو کرتا ہے ایک شخص نے کہا حضرت اللہ کا خوف کیجئے واپسی کی آرزو تو کافر کرتے ہیں آپ نے فرمایا جلدی کیوں کرتے ہو؟ سنو قرآن فرماتا ہے پھر آپ نے یہ پورا رکوع تلاوت کر سنایا اس نے پوچھا زکوٰۃ کتنے میں واجب ہے فرمایا دو سو اور اس سے زیادہ میں پوچھا حج کب فرض ہو جاتا ہے فرمایا جب راہ خرچ اور سواری خرچ کی طاقت ہو ، ایک مرفوع روایت بھی اسی طرح مروی ہے لیکن موقوف ہی زیادہ صحیح ہے ، ضحاک کی روایت ابن عباس والیبھی منقطع ہے ، دسری سند میں ایک راوی ابو جناب کلبی ہے وہ بھی ضعیف ہے ، واللہ اعلم ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صحابہ نے زیادتی عمر کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا جب اجل آ جائے پھر موخر نہیں ہوتی زیادتی عمر صرف اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو نیک صالح اولاد دے جو اسکے لئے اس کے مرنے کے بعد دعا کرتی رہے اور دعا اسے اس کی قبر میں پہنچتی رہے ۔ اللہ کے فضل و کرم اور لطف و رحم سے سورہ منافقون کی تفسیر ختم ہوئی ۔ فالحمد اللہ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 یعنی مال اور اولاد کی محبت تم پر غالب آجائے کہ تم اللہ کے بتلائے ہوئے احکام و فرائض سے غافل ہوجاؤ اور اللہ کی قائم کردہ حلال وحرام کی حدوں کی پروا نہ کرو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] مال اور اولاد کا نام اس لیے لیا گیا کہ ہر انسان کی زیادہ تر دلچسپی انہیں سے ہوتی ہے ورنہ اس میں ہر وہ کاروبار یا شغل شامل کیا جاسکتا ہے جو اللہ کی یاد سے غافل کر دے۔ اور اللہ کی یاد سے غفلت کا نتیجہ فسق و فجور کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ کسب حلال کی تمیز اٹھ جاتی ہے اور انسان زندگی کے ہر میدان میں بےراہ رو ہوجاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ :” لا تلہ “” لھو “ میں سے باب افعال ” الھی بلھی “ کا نہی مؤنث غائب کا صیغہ ہے ، ” کم “ اس کا مفعول بہ اور ’ ’ اموالکم ولا اولادکم “ فاعل ہے ۔ فاعل جمع مکسر ہونے کی وجہ سے فعل واحد مؤنث کا صیغہ لایا گیا ہے۔ ٢۔ منافقین کے برے اعمال کا حال بیان کرنے کے بعد تمام ایمان لانے والوں کو خواہ وہ مخلص ہیں یا منافق ، ان دو چیزوں سے ہوشیار رہنے کی نصیحت فرمائی جو انسان کے لیے فتنہ ہیں اور نفاق کا باعث بنتی ہیں ، جیسا کہ فرمایا :( اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ) ( التغابن : ١٥)” تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو محض ایک آزمائش ہیں “۔ اور فرمایا، دیکھنا ! تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کریں کہ ان کی وجہ سے نماز چھوڑ دو ، یا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا یا جہاد کے لیے نکلنا چھوڑ دو ، یا ان کی وجہ سے جھوٹ اور خیانت کا ارتکاب کرنے لگو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر آدمی کو اس کے اموال و اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کریں تو وہ قابل مذمت نہیں ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اموال و اولاد کے علاوہ کوئی اور چیز اللہ کے ذکر سے غافل کرتی ہے تو وہ بھی مذموم ہے ، مثلاً کھیل تماشے ، دوستوں کی مجلس اور نام و نمود کی خواہش وغیرہ۔ کعب بن عیاض (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نا :( ان لکل امۃ فتنۃ ، وان فتنۃ امتی المال) ( مسند احمد : ٤، ١٦٠، ح : ١٧٤٧١، قال المحقق حدیث صحیح)” ہر امت کے لیے کوئی نہ کوئی فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے “۔ یعلی ٰعامری (رض) بیان کرتے ہیں کہ حسن اور حسین (رض) دوڑتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آئے ، آپ نے انہیں اپنے ساتھ چمٹا لیا اور فرمایا :( ان الولد مبخلۃ مجبنۃ) ( ابن ماجہ ، الادب، باب برالوالدولا حسان الی البنات : ٣٦٦٦)” بیشک اولاد بخیل بننے اور بزدل بننے کا باعث ہے “۔ مزید دیکھئے سورة ٔ کہف کی آیت (٤٦) :(اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) کی تفسیر۔ ٣۔ عَنْ ذِکْرِ اللہ ِ :” ذکر اللہ “ سے صرف نماز ، روزہ اور زبانی ذکر مراد نہیں ، بلکہ ہر کام کے وقت اپنے رب کو یاد کھنامراد ہے کہ اگر مالک کی اجازت ہے تو وہ کام کرے ، اگر نہیں تو نہ کرے ۔ اسی طرح ہر وہ کام کرنے کی حتیٰ الوسع کوشش کرے جس کا اس نے حکم دیا ہے اور اس سے رک جائے جس سے اس نے منع فرمایا ہے۔ ٤۔ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓـئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ :” الخسرون “ پر الف لام لانے اور اس سے پہلے ضمیر فصل سے تاکید اور حصر کا مفہوم پیدا ہوگیا کہ اصل خسارے والے صرف وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے اموال و اولاد اللہ کی یاد سے غافل کردیں۔ اگر اللہ کی یاد پر قائم رہنے کی وجہ سے اموال و اولاد کا نقصان ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے اسے خسارہ تسلیم ہی نہیں فرمایا ، کیونکہ اموال و اولاد وفانی ہیں اور اللہ کی یاد باقی کو چھوڑ کر فانی میں مشغول ہوجائے اصل خسارے میں پڑنے والا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Linkage between Sections [ 1] and [ 2] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ‌ اللَّـهِ O those who believe, your riches and your children must not divert you from the remembrance of Allah. (63:9) The preceding section dealt with the hypocrites, their false oaths and their conspiracies. In sum, their nefarious activities were based on their excessive love for the worldly gains. They outwardly claimed to be Muslims, and might share the spoils of war with them. One of the consequences of this mentality was their design to stop spending on the Emigrant Companions. Now, this second section addresses the sincere and faithful believers, and warns them against being intoxicated with the love of this world, as the hypocrites foolishly did. There are two major objects in this world that divert a person from the remembrance of Allah: [ 1] wealth; [ 2] children. Therefore, these two things have been named in particular. Otherwise, it refers to all the means of enjoyments in the world. The import of the verse is that love of wealth and children to some extend is not bad. Being engaged with them to a certain degree is not only permissible but also obligatory. But there is a dividing line between permissible and impermissible love that must always be borne in mind. This criterion is that this love must not deviate one from Allah’ s remembrance. The word dhikr (remembrance) in this context has been variously interpreted by different commentators. Some say it refers to the five daily prayers, while others say it refers to Zakah or Hajj. Some refer it to the Qur’ an. Hasan Basri (رح) expresses the view that the word dhikr here refers to all forms of obedience and worship. This is the most comprehensive interpretation. [ Qurtubi ] In short, we are permitted to be involved in the material wealth up to the degree that it does not divert us from Allah’ s obedience. If one becomes engrossed in the material wealth or become absorbed in the forbidden or abominable things, which divert him from our duties and obligations towards Allah, the sentence أُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُ‌ونَ “…they are the losers” will apply, because he has sold the great and eternal reward of the Hereafter for the petty and perishable enjoyment of this world. What loss could be greater than this!

خلاصہ تفسیر اے ایمان والو ! تم کو تمہارے مال اور اولاد (مراد اس سے مجموعہ دنیا ہے) اللہ کی یاد (اور اطاعت) سے (مراد اس سے مجموعہ دین ہے) غافل نہ کرنے پاویں (یعنی دنیا میں ایسے مہنمک مت ہوجانا کہ دین میں خلل پڑنے لگے) وہ جو ایساکرے گا ایسے لوگ ناکام رہنے والے ہیں (کیونکہ نفع دنیوی تو خمت ہوجاوے گا اور آخرت کا ضرر اور خطارہ ممتد یا دائم رہ جاوے گا) اور ( منجملہ طاعات کے ایک اطاعت مالیہ کا حکم کیا جاتا ہے کہ لاتلہکم اموا لکم کے عام مضمون میں سے ایک فرد خاص ہے یعنی) ہم نے جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں سے (حقوق واجبہ کو) اس سے پہلے پہلے خرچ کرلو کہ تم میں سے کسی کی موت آ کھڑی ہو پھر وہ (بطور تمنا و حسرت) کہنے لگے کہ اسے میرے پروردگار مجھ کو اور تھوڑے دنوں مہلت کیوں نہ دی کہ میں خیرخیرات دے لیتا اور نیک کام کرنے والوں میں شامل ہوجاتا ( اور اس کی یہ تمنا و حسرت اس لئے غیر مفید ہے کہ) اللہ تعالیٰ کسی شخص کو جبکہ اس کی میعاد (عمر کی ختم ہونے پر) آجاتی ہے ہرگز مہلت نہیں دیتا اور اللہ کو تمہارے سب کاموں کی پوری خبر ہے (ویسی ہی جزاء کے مستحق ہو گے ) ۔ معارف و مسائل (آیت) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُم، اس سورت کے پہلے رکوع میں منافقین کی جھوٹی قسموں اور ان کی سازشوں کا ذکر تھا اور سب کا خلاصہ دنیا کی محبت سے مغلوب ہونا تھا، اسی وجہ سے ظاہر میں اسلام کا دعویٰ کرتے تھے کہ مسلمانوں کی زد سے بھی بچیں اور اموال غنیمت وغیرہ کا حصہ بھی ملے، اسی وجہ سے ان کی یہ سازش تھی کہ مہاجرین صحابہ پر خرچ کرنا بند کر دوں، اس دوسرے رکوع میں خطاب مومنین مخلصین کو ہے جس میں ان کو اس سے ڈرایا گیا ہے کہ دنیا کی محبت میں ایسے مدہوش نہ ہوجائیں جیسے منافقین ہوگئے، دنیا کی سب سے بڑی دو چیزیں ہیں جو انسان کو اللہ سے غافل کرتی ہیں، مال اور اولاد، اس لئے ان دونوں کا نام لیا گیا، ورنہ مراد اس سے پوری متاع دنیا ہے اور حاصل ارشاد کا یہ ہے کہ مال واولاد سے محبت ایک درجہ میں مذموم نہیں، ان کے ساتھ ایک درجہ تک اشتغال صرف جائز نہیں بلکہ واجب بھی ہوجاتا ہے مگر اس کی یہ حد فاصل ہر وقت سامنے رہنا چاہئے کہ یہ چیزیں انسان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہ کردیں، یہاں ذکر سے مراد بعض مفسرین نے پانچ وقت کی نماز بعض نے حج اور زکوٰة، بعض نے قرآن قرار دیا ہے، حضرت حسن بصری (رح) نے فرمایا کہ ذکر سے مراد یہاں تمام طاعات و عبادات ہیں اور یہی قول سب کا جامع ہے (قرطبی) خلاصہ یہ ہے کہ اس دنیاوی معیشت کے سامان میں اس قدر مشغول رہنے کی تو اجازت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر یعنی اطاعت سے انان کو غافل نہ کر دے کہ ان کی محبت میں مبتلا ہو کر فرائض و واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے لگے یا حرام اور مکر و ہات میں مبتلا ہوجائے اور جو ایسا کرے ان کے بارے میں ہے اولٓئک ہم الخسرون، یعنی یہی لوگ ہیں خسارہ میں پڑنے والے، کیونکہ انہوں نے آخرت کی عظیم اور ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتوں کے بدلے میں دنیا کی حقیر اور فانی نعمتوں کو اختیار کرلیا اس سے بڑا خسارہ کیا ہوگا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ۝ ٠ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝ ٩ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ لهو [ اللَّهْوُ : ما يشغل الإنسان عمّا يعنيه ويهمّه . يقال : لَهَوْتُ بکذا، ولهيت عن کذا : اشتغلت عنه بِلَهْوٍ ] . قال تعالی: إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد/ 36] ، وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] ، ويعبّر عن کلّ ما به استمتاع باللهو . قال تعالی: لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء/ 17] ومن قال : أراد باللهو المرأة والولد فتخصیص لبعض ما هو من زينة الحیاة الدّنيا التي جعل لهوا ولعبا . ويقال : أَلْهاهُ كذا . أي : شغله عمّا هو أهمّ إليه . قال تعالی: أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر/ 1] ، رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور/ 37] ولیس ذلک نهيا عن التّجارة وکراهية لها، بل هو نهي عن التّهافت فيها والاشتغال عن الصّلوات والعبادات بها . ألا تری إلى قوله : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج/ 28] ، لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله تعالی: لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء/ 3] أي : ساهية مشتغلة بما لا يعنيها، واللَّهْوَةُ : ما يشغل به الرّحى ممّا يطرح فيه، وجمعها : لُهًا، وسمّيت العطيّة لُهْوَةً تشبيها بها، واللَّهَاةُ : اللّحمة المشرفة علی الحلق، وقیل : بل هو أقصی الفم . ( ل ھ و ) اللھو ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے ہتائے اور بازر کھے یہ لھوت بکذا ولھیت عن کذا سے اسم ہے جس کے معنی کسی مقصد سے ہٹ کر بےسود کام میں لگ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد/ 36] جان رکھو کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے ۔ پھر ہر وہ چیز جس سے کچھ لذت اور فائدہ حاصل ہو اسے بھی لھو کہہ دیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء/ 17] اگر ہم چاہتے کہ کھیل بنائیں تو ہم اپنے پاس سے بنا لیتے ۔ اور جن مفسرین نے یہاں لھو سے مراد عورت یا اولادلی ہے انہوں نے دنیاوی آرائش کی بعض چیزوں کی تخصیص کی ہے جو لہو ولعب بنالی گئیں ہیں ۔ محاورہ ہے : الھاۃ کذا ۔ یعنی اسے فلاں چیز نے اہم کام سے مشغول کردیا ۔ قرآن میں ہے : أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر/ 1] لوگوتم کو کثرت مال وجاہ واولاد کی خواہش نے غافل کردیا ۔ رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور/ 37] یعنی ایسے لوگ جن کو خدا کے ذکر سے نہ سود اگر ی غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت ۔ اس آیت سے تجارت کی ممانعت یا کر اہتبیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں پروانہ دار مشغول ہو کر نماز اور دیگر عبادات سے غافل ہونے کی مذمت کی طرف اشارہ ہے نفس تجارت کو قرآن نے فائدہ مند اور فضل الہی سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج/ 28] تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں ۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة/ 198] اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ ( حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت ) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو ۔ اور آیت کریمہ : لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء/ 3] ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ان کے دل غافل ہو کر بیکار کاموں میں مشغول ہیں ۔ اللھوۃ ۔ آٹا پیستے وقت چکی میں ایک مرتبہ جتنی مقدار میں غلہ ڈالا جائے ۔ اس لھوۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع لھاء آتی ہے ۔ پھر تشبیہ کے طور پر عطیہ کو بھی لھوۃ کہدیتے ہیں ۔ اللھاۃ ( حلق کا کوا ) وہ گوشت جو حلق میں لٹکا ہوا نظر آتا ہے ۔ بعض نے اس کے معنی منہ کا آخری سرا بھی کئے ہیں ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] ، وقوله : هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] ، أي : شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] ، أي : الکتب المتقدّمة . وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه . وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) . ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] ، وقوله : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔ فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے ایمان والو مکہ مکرمہ میں تمہارے جو اموال اور اولاد ہے وہ تمہیں ہجرت اور جہاد سے غافل نہ کرنے پائے اور جس نے ان کی وجہ سے غفلت کی وہ سزا کے اعتبار سے گھاٹے میں رہیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب دوسرے رکوع کی تین آیات میں اس بیماری کا علاج بتایا گیا ہے۔ جس طرح طب میں ایک مرض کا علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے ‘ ایک حفاظتی (preventive) قسم کا علاج ہے اور دوسرا معالجاتی (curative) طرز کا ‘ اسی طرح یہاں بھی مرض نفاق کے علاج کے ضمن میں یہ دونوں پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کسی بیماری کے حوالے سے انسان کی پہلی کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ وہ اس بیماری کی چھوت سے بچا رہے۔ اس کے لیے ظاہر ہے اسے پرہیزی اقدام (preventive measures) اپنانے کی ضرورت ہوگی۔ جیسے آج کل کسی بیماری سے بچنے کا موثر طریقہ یہی ہے کہ آپ متعلقہوی کسی نیشن کا انجکشن لگوالیں۔ چناچہ اب اگلی آیت میں اس اقدام کا ذکر ہے جسے نفاق کی بیماری سے بچنے کے لیے حفظ ِماتقدم کے طور پر اپنانا ضروری ہے۔ آیت ٩{ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِکُمْ اَمْوَالُــکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ } ” اے اہل ایمان ! تمہیں غافل نہ کرنے پائیں تمہارے اموال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے۔ “ یہاں دو چیزوں کو معین کیا گیا ہے جو انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کرنے کا باعث بنتی ہیں ‘ یعنی مال اور اولاد۔ یہی مضمون آگے چل کر سورة التغابن میں نہایت واضح شکل میں بایں الفاظ آیا ہے : { اِنَّمَـآ اَمْوَالُــکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌط } (آیت ١٥) ” جان لو تمہارے مال اور تمہاری اولاد ہی ذریعہ آزمائش ہیں “۔ یہی تو وہ کسوٹی ہے جس پر تمہیں پرکھا جا رہا ہے۔ چناچہ متنبہ کردیا گیا کہ اہل ایمان ! دیکھنا تمہیں تمہارے اموال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں۔ { وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ ۔ } ” اور جو کوئی ایسا کریں گے تو وہی خسارے میں رہیں گے۔ “ یہاں اللہ کے ذکر سے مراد صرف یہی نہیں کہ انسان ہر وقت تسبیحات وغیرہ پڑھتا رہے ‘ بلکہ اس کا وسیع تر مفہوم یہ ہے کہ انسان کو اللہ ہر وقت یاد رہے اور اسی بنا پر وہ اپنے جملہ فرائض کی ادائیگی کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہے۔ تو اے اہل ایمان ! کہیں ایسا نہ ہو کہ اموال واولاد کے معاملات میں منہمک ہو کر تم لوگ اللہ ہی کو بھلا دو ۔ جیسا کہ آج کل ہماری اکثریت کا حال ہے۔ آج اگر آپ لوگوں کو اللہ اور دین کی طرف بلائیں تو آپ کو عام طور پر یہی جواب ملے گا کہ کیا کریں جی وقت ہی نہیں ملتا ! اب ظاہر ہے جو شخص ایک خاص ” معیارِ زندگی “ کو اپنا معبود بنا کر دن رات اس کی پوجا میں لگا ہو تو اس کے پاس معبودِ حقیقی کی طرف رجوع کرنے کے لیے وقت کیونکر بچے گا ؟ چناچہ مرض نفاق کی چھوت سے بچنے کے لیے پرہیزی اقدام یہ بتایا گیا کہ اللہ کی یاد کسی وقت بھی تمہیں بھولنے نہ پائے۔ اور ساتھ ہی اللہ کی یاد کو بھلانے والے دو اہم ترین عوامل کی نشاندہی بھی کردی گئی۔ ظاہر ہے کسی بھی بیماری کا علاج کرنے کے لیے اس کے اصل اور بنیادی سبب کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ جب بیماری کا سبب ڈھونڈ کر اس کی بیخ کنی کردی جائے گی تو وہ بیماری دور ہوجائے گی۔ نفاق کی بیماری کا اصل سبب چونکہ دنیا کی محبت ہے اور دنیا کی محبت کا سب سے بڑا مظہر مال کی محبت ہے ‘ لہٰذا اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دل سے مال کی محبت ختم کردی جائے اور اس محبت کو ختم کرنے کا موثر طریقہ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 Now a word of admonition is being addressed to aII those people, who have entered Islam, whether they are true and sincere believers, or those who profess the faith merely verbally. As we have explained at several places above. the words alladhina amanu in the Qur'an are sometimes used to address the true believers and sometimes to address the hypocrites, for they profess the faith only with the tongue, and sometimes to address the Muslims of aII kinds in general The context itself shows which group is the audience at a particular place. 18 The mention of the possessions and the children, in particular, has been made, for man mostly turns away from the demands of the faith for the sake of their well-being and interests and becomes involved in hypocrisy, weakness of faith, or wickedness and disobedience; otherwise it implies everything of the world that allures and absorbs tnan so completely that he becomes heedless of the remembrance of God. This heedlessness in respect of the remembrance of God is indeed the root cause of all evil. If man only remembers that he is not free but the servant of One God, and that God is fully aware of all his actions and deeds, and he will by held accountable one day before Him for aII his actions and deeds, he would never be involved in any deviation and wickedness, and if ever he commits an error due to a human weakness, he will immediately rectify it as soon as he comes to realize his wrongdoing and repent.

سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :17 اب تمام ان لوگوں کو جو دائرہ اسلام میں داخل ہوں ، قطع نظر اس سے کہ سچے مومن ہوں یا محض زبانی اقرار ایمان کرنے والے ، عام خطاب کر کے ایک کلمۂ نصیحت ارشاد فرمایا جا رہا ہے ۔ یہ بات اس سے پہلے ہم کئی مرتبہ بیان کر چکے ہیں کہ قرآن مجید میں اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے کبھی تو سچے اہل ایمان کو خطاب کیا جاتا ہے ، اور کبھی اس کے مخاطب منافقین ہوتے ہیں کیونکہ وہ زبانی اقرار ایمان کرنے والے ہوا کرتے ہیں ، اور کبھی ہر طرح کے مسلمان بالعموم اس سے مراد ہوتے ہیں ۔ کلام کا موقع و محل یہ بتا دیتا ہے کہ کہاں کونسا گروہ ان الفاظ کی مخاطب ہے ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :18 مال اور اولاد کا ذکر تو خاص طور پر اس لیے کیا گیا ہے کہ انسان زیادہ تر انہی کے مفاد کی خاطر ایمان کے تقاضوں سے منہ موڑ کر منافقت ، یا ضعف ایمان ، یا فسق و نافرمانی میں مبتلا ہوتا ہے ، ورنہ در حقیقت مراد دنیا کی ہر وہ چیز ہے جو انسان کو اپنے اندر اتنا مشغول کر لے کہ وہ خدا کی یاد سے غافل ہو جائے ۔ یہ یاد خدا سے غفلت ہی ساری خرابیوں کی اصل جڑ ہے ۔ اگر انسان کو یہ یاد رہے کہ وہ آزاد نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے ، اور وہ خدا اس کے تمام اعمال سے با خبر ہے ، اور اس کے سامنے جا کر ایک دن اسے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے ، تو وہ کبھی کسی گمراہی و بد عملی میں مبتلا نہ ہو ، اور بشری کمزوری سے اس کا قدم اگر کسی وقت پھسل بھی جائے تو ہوش آتے ہی وہ فوراً سنبھل جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩۔ ١١۔ اوپر عبد اللہ بن ابی منافق کا ذکر تھا کہ اس نے اپنی دنیا داری کی غفلت میں عقبیٰ کو یہاں تک بھلا دیا تھا کہ طرح طرح کے گناہوں کے بعد اس سے ان گناہوں پر نادم ہو کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہونے اور مغفرت کی دعا کرنے کے لئے کہا گیا تو اس نے انکار کیا ان آیتوں میں ارشاد ہے کہ کسی ایمان دار آدمی کو منافقوں کی مانند اس طرح دنیا میں گرفتار نہ ہونا چاہئے جس سے اللہ کی عبادت میں فتور پڑ کر اس کی عقبیٰ خراب ہوجائے۔ ذکر الٰہی میں سب عبادت بدنی داخل ہے پھر فرمایا کہ جو کوئی حکم الٰہی کے برخلاف عمل کرے گا اس کا بہت نقصان ہوگا۔ صحیح مسلم ١ ؎ میں مستورد بن شداد کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آخرت کی خوبیوں کی مثال ایک دریا کی ہے جس دریا کے مقابلہ میں تمام دنیا ایک قطرے کے برابر ہے یہ حدیث اس آیت کی تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے ایک قطرہ کے پے چھ ایک دریا کو ہاتھ سے کھو دیا اس کے نقصان کا کچھ ٹھکانا نہیں۔ اب آگے عبادت بدنی کے بعد عبادت مالی کا ذکر فرمایا۔ صحیح بخاری و مسلم ٢ ؎ میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ بڑا اجر اس صدقہ و خیرات کا ہے جو آدمی اپنی تندرستی کے زمانہ میں آخری وقت سے پہلے دے دے۔ کیونکہ اول تو آخری وقت پر آدمی کہتا کچھ ہے اور اوپر والے عمل کچھ اور کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ آخری وقت پر آدمی کا دل دنیا کی چیزوں سے اٹھ جاتا ہے اور یہ سورة بقر میں گزر چکا ہے کہ دل سے اتری ہوئی چیز کی خیرات اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ یہ حدیث گویا اس آیت کی تفسیر ہے آیت اور حدیث کو ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ آدمی کو کچھ اپنی عقبیٰ پاک کرنے کے لئے اللہ کے نام پر دینا ہو وہ اپنی تندرستی میں دے کیونکہ موت کا وقت اچانک آنے والا ہے اور اس طرح آنے والا ہے کہ پھر وہ ٹل بھی نہیں سکتا۔ اس لئے ایسے وقت پر یا تو خیرات ارادہ پورا ہی نہ ہوگا یا ہوگا تو عقبیٰ میں تندرستی کی خیرات کے برابر فائدہ نہ ہوگا۔ آخر کو فرمایا کہ عبادت بدنی یا مالی جس نیت سے انسان کرتا ہے وہ اللہ کو سب معلوم ہے اس لئے جو کچھ کیا جائے وہ خالص عقبیٰ کی نیت سے کیا جائے کہ بغیر اس کے کوئی عبادت اس کی بارگاہ میں قبول نہیں معتبر سند سے مسند امام احمد ٣ ؎ اور مسند بزار وغیرہ میں چند صحابہ کی حدیثیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن سربمہر لوگوں کے اعمال نامہ اللہ تعالیٰ کے رو برو پیش ہوں گے جن کے ملاحظہ کے بعد اللہ تعالیٰ ہر ایک عمل کے حق میں فرمائے گا یہ عمل خالص نیت سے کیا گیا ہے اس لئے قابل قبول ہے اور یہ عمل ریاکاری کا ہے اس لئے قبول ہونے کے لائق نہیں اور فرشتوں سے یہ بھی فرمائے گا کہ ان ریا کار لوگوں سے کہہ دیا جائے کہ جن کے دکھانے کو تم لوگوں نے یہ عمل کئے ہیں انہی سے ان عملوں کا ثواب مانگ لو اللہ کی بارگاہ سے ایسے عملوں کا کچھ ثواب نہیں مل سکتا۔ مسند ٤ ؎ بزار کی انس بن مالک کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ اعمال ناموں کے ملاحظہ کے بعد بعض نیک عملوں کو جب اللہ تعالیٰ اعمال ناموں سے خارج کردینے کا حکم فرمائے گا تو نیک عملوں کے لکھنے والے فرشتے یہ عرض کریں گے کہ یا اللہ ان عملوں میں ظاہری طور پر تو کوئی خراب نہیں معلوم ہوتی اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ ان فرشتوں سے فرمائے گا تم کو انسان کی نیت کا حال معلوم نہیں مجھ کو خوب معلوم ہے ان عملوں میں ریا کاری کا میل ہے اس لئے یہ عمل اجر کے قابل نہیں ہیں۔ یہ حدیثیں واللہ خبیر بما تعملون کی پوری تفسیر ہیں۔ آیت اور ان حدیثوں کے ملانے سے یہ مطلب نکلا کہ اللہ کو انسان کے عملوں کا ذرا ذرا حال معلوم ہے اور نیک عملوں میں قیامت کے دن بعضی بعضی ایسی درپردہ ریاکاری نکلے گی جس کا حال نیک عمل کے لکھنے والے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں مگر اللہ تعالیٰ غیب دان کو یہ سب حال معلوم ہے اس سے کوئی درپردہ بات یا دل کی بات پوشیدہ نہیں اور قیامت کے دن اجر کے ملنے کا فیصلہ اسی غیب دان کے علم کے موافق ہوگا جس کا خیال ہر نیک عمل کرنے والے آدمی کو نیک عمل کرتے وقت ضرور رکھنا چاہئے۔ اسی تفسیر میں یہ بھی کسی جگہ گزر چکا ہے کہ جس عمل میں بدعت کا کچھ میل ہوگا۔ ریاکاری کے عمل کی طرح وہ عمل بھی اجر کے قابل نہیں ہے۔ بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جس کا کچھ پتہ دین کی کتابوں میں لگتا ہو معتبر سند امام ١ ؎ احمد ‘ ابو داؤود اور مستدرک حاکم میں تمیم داری کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ فرض عبادت کا کوئی جز اچھی طرح ادا نہ ہوگا تو قیامت کے دن اس کی تکمیل نفلی عبادت سے ہوجائے گی۔ اس حدیث کو مسند بزار کی انس کی حدیث کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب نکلا کہ ریاکاری ایسی بدتر چیز ہے جس کے نقصان کی تکمیل کسی دوسری نفلی خالص عمل سے بھی نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے میل سے نیک عمل بالکل رائیگاں ہوجاتا ہے اس بلا سے ہر ایک مسلمان آدمی کو بہت بچنا چاہئے تاکہ قیامت کے دن نیکی برباد گناہ لازم کا مضمون نہ پیش ہو آجائے۔ صحیح بخاری ٢ ؎ وغیرہ کی حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ کسی برے کام کا آدمی کے دل میں خیال آجائے اور پھر اس خیال کے موافق آدمی وہ برا کام نہ کرے تو فقط خیال پر کوئی بدی اس شخص کے اعمال میں نہیں لکھی جاتی بلکہ اس برے خیال کے چھوڑ دینے کے اجر میں ایک نیکی نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ کسی نیک کام کے وقت دنیا کے دکھاوے کا خیال آدمی کے دل میں آجائے اور وہ اس خیال کا میل اس نیک کام میں نہ ہونے دے بلکہ فوراً اس خیال کو دل سے دفع کر دے تو فقط خیال سے وہ نیک عمل اکارت نہیں جاتا۔ (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة المنافقون ص ٧٢٧ ج ٢۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٧٠ ج ٤۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب فناء لدنیا وبیان الحشر یوم القیمۃ ص ٣٨٣ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب فصل صدقۃ الشحیح الصحیح الخ ص ١٩٠ ج ١ و صحیح مسلم باب بیان ان افضل الصدقۃ الصحیح الشحیح ص ٣٣٢ ج ١۔ ) (٣ ؎ الترغیب و الترہیب الترغیب فی الاخلاص والصدق والنبۃ الخ ص ٦٥ ج ١۔ ) (٤ ؎ الترغیب و الترہیب الترغیب فی الاخلاص والصدق والنبۃ الخ ص ٦٥ ج ١۔ ) (١ ؎ ابو دائود باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کل صلوٰۃ لایتمھا صاحبھا تتم من تطوعہ ج ١۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب من ھم بحسنۃ او سیئۃ ص ٩٦٠ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(63:9) تلہکم : تلہ مضارع کا صیغہ واحد مؤنث الہاء (افعال) مصدر بمعنی غافل کردینا۔ کم ضمیر جمع مذکر حاضر۔ تم کو غافل کر دے۔ لاتلکہم (وہ تم کو غافل نہ کردے) صیغہ نہی ہے۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ الہکم التکاثر (102:1) لوگو تم کو کثرت مال و جاہ اور اولاد کی خواہش نے غافل کردیا ۔ ل، ھ، و ، مادہ۔ سے مشتق ہے اللھو ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے غافل کر دے۔ باز رکھے ۔ ہٹائے۔ من یفعل ذلک : من شرطیہ یفعل مضارع (مجزوم بوجہ شرط) صیغہ واحد مذکر غائب ۔ جس کسی نے ایسا کیا۔ فالئک ف جواب شرط کے لئے ہے۔ اولئک اسم اشارہ بعید جمع مذکر۔ پس وہی لوگ۔ الخسرون خسر و خسران سے اسم فاعل جمع مذکر۔ گھاٹا پانے والے۔ نقصان اٹھانے والے۔ زیاں کار۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 کیونکہ وہ باقی کو چھوڑ کر فانی میں مشغول ہوگئے۔ مال و اولاد تو وہی اچھی ہے جو آخرت سے غافل نہ کرے ورنہ اس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٩ تا ١١۔ اسرار ومعارف۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ اے ایمان والو ! یہ مال وزر کی جائز تلاش اور اولاد کی پرورش یا ان کی بہتری کی فکر جو جائز بھی ہو وہ بھی اس قدر مصروف نہ کردے کہ اللہ یاد سے غفلت میں آنے لگے۔ ذکر اللہ۔ ذکر اللہ میں تمام عبادات اور شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کے سارے عمل شامل ہیں یہ عملی ذکر ہے اس کے ساتھ تلاوت تسبیحات ذکرلسانی یازبانی ذکر ہے اور ذکرقلبی نصیب ہوجائے یعنی قلب بھی ذاکر ہوجائے تو بھرپور فائدے کی امید کی جاسکتی ہے کہ خلوص سے شریعت پر عمل اور جہاد آسان ہوجاتا ہے اگر کوئی دنیا کی مصروفیات کے سبب اللہ کے ذکر سے غافل ہوا تو وہ بہت زیادہ نقصان میں چلا گیا کہ دینی نقصان تو ہوا دنیا کے امور سے بھی برکت اٹھ جاتی ہے اور اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں انہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرو یعنی اسلامی تعلیمات کو عام کرنے میں اور اسلام کو عملانافذ کرنے میں مال وجان اور اقتدار واختیار جو بھی نصیب ہے کام میں لاؤ پیشتر اس کے موت آجائے اور پھرج ب موت کے وقت آخرت منکشف ہوتوکہہ اٹھو کہ اے اللہ اب مجھے تھوڑی سی مہلت دے کہ میں اپنی دولت وقوت تیری راہ میں خرچ کرسکوں اور میرا شمار تیرے نیک بندوں میں ہونے لگے۔ وقت کی آخری آرزو۔ موت کے آخری لمحات میں فرشتے بھی نظر آنے لگتے ہیں ان سے بات چیت کو قران نے نقل فرمایا ہے اور آخرت بھی دکھائی پڑتی ہے تو سمجھ آجاتی ہے کہ دراصل مال وجان کو بچانے کے لیے ظلم اور کفر سے سمجھوتہ کس قدر نقصان دہ ہے تو آدمی کہہ اٹھتا ہے کہ اے اللہ اب تھوڑی سی مہلت عطا کر کہ میں اپنے سارے وسائل تیرے دین کے لیے صرف کردوں اور تیرے بندوں میں شامل ہوسکوں مگر جب وقت مقرر آجائے تو اللہ کریم کسی کو مزید مہلت عطا نہیں فرمائے گا یہ اللہ کے طے شدہ نظام ہے جس میں تبدیلی نہیں ہوتی تو بہرحال جو کرچکے ہو وہ تو سب اللہ کے سامنے ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی دنیا میں منہمک موت ہوجانا کہ دین میں خلل پڑنے لگے۔ 5۔ کیونکہ نفع دنیوی تو ختم ہوجاوے گا اور ضرر اخروی ممتد یا دائم رہ جائے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافق اولاد اور مال کی خاطر منافقت اختیار کرتا ہے جس سے ایماندار لوگوں کو منع گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جن چیزوں کو آزمائش قرار دیا ہے ان میں سر فہرست اولاد اور مال ہے۔ ان چیزوں کا ذکر کرتے ہوئے اکثر مقامات پر مال کا پہلے ذکر کیا ہے۔ بیشمار لوگ مال کی خاطر اپنا ایمان اور عزت برباد کرلیتے ہیں اور اولاد کی محبت میں ماں باپ وہ کچھ کرجاتے ہیں جس کے کرنے کی شریعت نے انہیں اجازت نہیں دی۔ مال اور اولاد کی آزمائش سے بچ کر زندگی بسر کرنا مومن کے لیے لازم ہے۔ اس لیے مومنوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو ! تمہیں تمہارے مال اور اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں، جنہوں نے اللہ کے ذکر سے غفلت اختیار کی وہ لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔ اللہ کے ذکر سے غفلت کی کئی صورتیں ہیں۔ ” اللہ “ کی ذات کو اس طرح وحدہٗ لاشریک نہ ماننا جس طرح اس نے ماننے کا حکم دیا ہے۔ اس کے احکام کا انکار کرنا، اس کی مقرر کردہ عبادات سے تغافل کرنا اور اس کے ذکر سے غفلت اختیار کرنا ہے، جو لوگ ان صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں غفلت کریں گے وہ دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔ ذکر کا جامع مفہوم یہ ہے کہ مسلمان ہر حال میں ” اللہ “ کی ذات اور فرمان کا خیال رکھے۔ ” اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ “ (طٰہٰ : ١٢٤) (عَنْ أَبِی مُوسٰی (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الَّذِی یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِی لَا یَذْکُرُ رَبَّہٗ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ ) ( رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب فضل ذکر اللہ عزوجل) ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کا ذکر کرنے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ “ یعنی جو ذکر کرتا ہے وہ زندہ ہے جو ذکر نہیں کرتا وہ مردہ ہے۔ ( رواہ البخاری : کتاب الدعوات) مسائل ١۔ ایمانداروں کو اپنی اولاد اور مال کی وجہ سے اللہ کے ذکر سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ ٢۔ جو لوگ اللہ کے ذکر سے غافل ہوں گے وہ دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اللہ تعالیٰ ان مومنین کو آخری بار پکارتا ہے ، وہ مومنین جن کے رسول کو اور خود ان کو اللہ نے اپنی عزت سے معزز بنایا ، اللہ کی طرف سے ان کی طرف اب اس سورت میں آخری ندا آتی ہے کہ وہ عزت اور شرف کے اس مقام تک بلند ہوجائیں اور منافقین کی تمام صفات اپنے اندر سے نکال دیں۔ اور مال اور اولاد سے بلند ہوکر شرف کا یہ مقام حاصل کریں ، دیکھو دنیا کا کوئی مفاد ، چاہے مال ہو یا اولاد ہو ، تمہیں روک نہ دے۔ اگر انسان کا قلب زندہ نہ ہو تو مال اور اولاد انسان کو غافل کردینے والے بن جاتے ہیں۔ یہ سامان لہو ولعب ہیں۔ قلب زندہ ہوگا تو معلوم ہوگا کہ انسان کا مقصد وجود کیا ہے۔ اسے معلوم ہوگا کہ اللہ نے اسے پیدا کیا ہے اور اس کے اندر اپنی روح پھونکی ہے۔ اس کی روح کے اندر ایک ایسا روحانی شوق پیدا کیا جو انسان کو ، انسانی طاقت کی حدود کے اندر ، صفات الٰہیہ کا عکس دیتا ہے۔ یہ مال واولاد تو دنیا کے عارضی انتظام اور دنیا میں رہنے کی حد تک ، محدود ذمہ داریاں ہیں ، جو انسان پر ڈالی گئی ہیں۔ اس لئے نہیں کہ یہ انسان کو آخرت کی اصل باقی اور دائمی زندگی سے غافل کردیں اور انسان اللہ اور اللہ تک پہنچنے کے اعلیٰ مقصد کو بھلا ہی دے اور انسان وہ سبق بھلا دے جو عالم بالا سے اسے ملتا ہے۔ یوں وہ غافل ہوکر خسارے میں پڑجائے۔ فاولئک ھم الخسرون (٣٦ : ٩) ” جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔ “ یوں ان کو پہلا خسارہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ انسانی صفات بھلا دیتے ہیں۔ کیونکہ انسان مکمل انسان تب ہی بنتا ہے کہ اسے عالم بالا سے اتصال حاصل ہو اور جو شخص انسانیت ہی گنوادے ، اس نے گویا سب کچھ گنوادیا۔ اس نے گویا اموال واولاد کو بھی گنوادیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تمہارے اموال اور اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں، اللہ نے جو کچھ عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرو ! دنیا میں مال اور اولاد دو چیزیں ایسی ہیں جن میں مشغول ہو کر انسان اللہ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے۔ فرائض اور واجبات کو چھوڑنا نوافل و اذکار سے دور رہنا زبان سے دنیاوی دھندوں میں پھنسا رہنا، یہ سب امور ایسے ہیں جو اللہ کی یاد سے غافل کرنے والے ہیں، آدمی مال کمانے میں لگتا ہے تو اللہ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے اولاد کو مالدار بنانے کے لئے اور موت کے بعد بہت سا مال چھوڑنے کے لئے كمائی کرتا ہے۔ حلال حرام کا خیال نہیں کرتا زکوٰۃ ادا نہیں کرتا واجبات شرعیہ میں خرچ نہیں کرتا، اگر کوئی شخص حلال مال ہی کمائے تب بھی کمانے کا انہماک اللہ کی یاد سے غافل کردیتا ہے، پھر اولاد کے غیر ضروری اخراجات لاڈ اور پیار اور ایسی ہی بہت سی چیزیں ہیں جو گناہ پر لگاتی ہیں اور اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں۔ بقدر ضرورت اپنی جان کے لئے اپنے اہل و اولاد کے لئے اپنے ماں باپ کے لئے مال کمانا جس میں اللہ کی رضا بھی مقصود ہو یہ تو اللہ کے ذکر میں ہی شامل ہے لیکن جس میں دنیا ہی مقصود ہو مال ہی مقصود ہو اس میں اللہ کے ذکر سے غفلت ہوجاتی ہے۔ پھر فرمایا ﴿ وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ ٠٠٩﴾ (اور جو شخص ایسا کرے یعنی اللہ کے ذکر سے غافل ہوجائے تو یہ لوگ نقصان میں پڑنے والے ہیں) جو شخص کافر ہے وہ تو پورا ہی خسارہ میں ہے یعنی اس کی ہلاکت کامل ہے آخرت میں اس کے لئے دائمی عذاب ہے اور جو شخص مومن ہوتے ہوئے دنیا کے جھمیلوں میں لگے وہ بقدر جھمیلوں کے اللہ کے ذکر سے غافل رہتا ہے اور اسی کے بقدر خسارہ میں ہے اور یہ خسارہ کوئی معمولی نہیں ہے اللہ کا نام لینے سے ذراسی غفلت بھی بہت بڑے نقصان کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس شخص نے ایک بار سبحان اللّٰہ وبحمدہ کہا اس کے لئے جنت میں کھجور کا درخت لگا دیا جائے گا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اگر میں ایک بار سبحان اللّٰہ والحمدللّٰہ ولا اِلٰہَ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر کہہ دوں تو یہ مجھے ان سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج نکلتا ہے۔ دیکھو اللہ کے ذکر سے غافل ہونے میں کتنا بڑا نقصان ہے ؟

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 12:۔ ” یا ایہا الذین امنوا “ یہ مومنوں کو انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب ہے۔ ” ذکر اللہ “ سے تمام عبادات خصوصا جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ مراد ہے۔ مومنوں سے ارشاد فرمایا مال و اولاد کی تدبیر واصلاح میں اشتغال و انہماک تمہیں جہاد و انفاق اور دیگر عبادات سے غافل نہ کردے۔ جو لوگ دنیوی امور میں منہمک ہو کر ذکر اللہ سے غافل ہوجائیں وہ انتہائی خسارے میں ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) اے دعوت ایمانی کو قبول کرنے والو ! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تم کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی یاد سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے گا تو ایسے ہی لوگ نقصان اٹھانے والے اور ناکام رہنے والے ہوں گے۔ ذکر الٰہی سے بعض لوگوں نے پانچ وقت کی نمازیں لی ہیں ، صحیح چیز یہ ہے کہ مال واولاد سے مراد دنیا کا مجموعی سازو سامان اور ذکر اللہ سے دین و اطاعت کا پورا مجموعہ مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ دنیا کی کسی بات میں ایسے منہمک نہ ہوجانا کہ دین کا کوئی کام چھوٹ جائے جس قدر دین کو نقصان پہنچے گا اسی قدرآخرت میں ناکامی کا سامانا کرنا ہوگا۔