Surat ut Taghabunn

Surah: 64

Verse: 10

سورة التغابن

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿٪۱۰﴾  15 الثلٰثۃ

But the ones who disbelieved and denied Our verses - those are the companions of the Fire, abiding eternally therein; and wretched is the destination.

اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی ( سب ) جہنمی ہیں ( جو ) جہنم میں ہمیشہ رہیں گے ، وہ بہت برا ٹھکانا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And whosoever believes in Allah and performs righteous deeds, He will expiate from him his sins, and will admit him to Gardens beneath which rivers flow (Paradise), to dwell therein forever; that will be the great success. But those who disbelieved and denied Our Ayat, they will be the dwellers of the Fire, to dwell therein forever. And worst indeed is that destination. We explained these meanings several times before.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰـتِنَآ : یہ اس دن کی ہار والوں کے حصے کا بیان ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝ ٠ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝ ١٠ ۧ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے صير الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] . و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال . ( ص ی ر ) الصیر کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا ہوگا اور حضور اور قرآن حکیم کی تکذیب کی ہوگی مثلا کفار مکہ یہ دوزخی ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ دوزخ برا ٹھکانہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠{ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ خٰلِدِیْنَ فِیْہَاط } ” اور جنہوں نے انکار کیا اور تکذیب کی ہماری آیات کی وہی ہوں گے جہنمی ‘ وہ ہمیشہ رہیں گے اس میں۔ “ { وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ۔ } ” اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ “ گزشتہ دس آیات میں ایمانیاتِ ثلاثہ (ایمان باللہ ‘ ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرت) کی بہترین اور جامع ترین تعبیر بیان ہوئی ہے اور پھر ایمان کے لیے زوردار دعوت دی گئی ہے۔ اس طرح کہ جس موضوع کا بیان مفصل ہے اس کے لیے دعوت مختصراً دی گئی ہے اور جو موضوع مختصر طور پر بیان ہوا ہے اس کی دعوت نسبتاً مفصل انداز میں آئی ہے۔ یعنی ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت کا بیان چھ آیات میں ہوا ہے اور ان کے لیے دعوت صرف ایک آیت (آیت ٨) میں دی گئی ہے۔ اس کے مقابل ایمان بالاخرت کا بیان صرف ایک آیت (آیت ٧) میں ہوا ہے لیکن اس کی دعوت کا ذکر دو آیات (آیت ٩ اور ١٠) میں نسبتاً تفصیل سے ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22 These words by themselves make manifest the meaning of unbelief(Kufr) . Unbelief is nothing but denying the verse of Allah's Book to be Divine Revelation rejecting the truths expressed therein and refusing to follow and obey the commandments given in them; its results are those being mentioned below.

سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :22 یہ الفاظ خود کفر کے مفہوم کو واضح کر دیتے ہیں ۔ کتاب اللہ کی آیات کو اللہ کی آیات نہ ماننا ، اور ان حقائق کو تسلیم نہ کرنا جو ان آیات میں بیان کیے گئے ہیں ، اور ان احکام کی پیروی سے انکار کر دینا جو ان میں ارشاد ہوئے ہیں ، یہی کفر ہے اور اس کے نتائج وہ ہیں جو آگے بیان ہو رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(64:10) والذین کفروا او کذبو بایتنا۔ موصول اور صلہ مل کر مبتدائ۔ اولئک ۔۔ الخ سارا جملہ اس کی خبر ہے۔ اور جنہوں نے انکار کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ اس آگ میں ہمیشہ رہا کریں گے اور (وہ) برا ٹھکانہ ہے۔ ” جزاو سزاء کی دونوں آیات (64:910) تغابن کی تفصیل ہیں۔ یا۔ یوم الجمع میں جو سب کو جمع کیا جائے گا اس کی اصل غرض و مقصد کا اظہار اور دونوں فریقوں کے الگ الگ نتیجہ کا بیان ہے “۔ (تفسیر مظہری)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر کافروں کی بدحالی بیان فرمائی ﴿ وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَاۤ﴾ (الآیۃ) (اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا یہ لوگ دوزخ والے ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) اورجن لوگوں نے کفر کیا ہوگا اور کفر کے مرتکب رہے ہوں گے اور ہماری آیتوں کی تکذیب کی ہوگی تو یہ لوگ اہل جہنم ہیں جو ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اور وہ جہنم بہت برا ٹھکانا ہے۔ پہلی آیت میں مسلمانوں کے نفع کا اظہار تھا اور اسکی آیت میں منکرین اور مکذبین کے نقصان کا اظہار فرمایا ۔