Surat ut Taghabunn

Surah: 64

Verse: 15

سورة التغابن

اِنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ؕ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۵﴾

Your wealth and your children are but a trial, and Allah has with Him a great reward.

تمہارے مال اور اولاد تو سراسر تمہاری آزمائش ہیں اور بہت بڑا اجر اللہ کے پاس ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Your wealth and your children are only a Fintah, whereas Allah! With Him is a great reward. Allah said that the wealth and children are a test and trial from Allah the Exalted for His creatures, so that He knows those who obey Him and those who disobey Him. Allah's statement, وَاللَّهُ عِندَهُ (whereas Allah! With Him), meaning, on the Day of Resurrection, أَجْرٌ عَظِيمٌ (is a great reward). As Allah said; زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَتِ مِنَ النِّسَأءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَـطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالاَنْعَـمِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَـعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَأَبِ Beautified for men is the love of things they covet; women children, Qanatir Al-Muqantarah of gold and silver, branded beautiful horses, cattle and well-tilled land. This is the pleasure of the present world's life; but Allah has the excellent return with him. (3:14), and the Ayah after it. Imam Ahmad recorded that Buraydah said, "The Messenger of Allah was giving a speech and Al-Hasan and Husayn came in wearing red shirts, walking and tripping. The Messenger descended from the Minbar, held them and placed them in front of them and said, صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ نَظَرْتُ إِلَى هَذَيْنِ الصَّبِيَّيْنِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ فَلَمْ أَصْبِرْ حَتْى قَطَعْتُ حَدِيثِي وَرَفَعْتُهُمَا Allah and His Messenger said the truth, `Verily, your wealth and your children are a Fitnah.' I saw these two boys walking and tripping and could not be patient until I stopped my speech and picked them up." This was recorded by the Sunan compilers, and At-Tirmidhi said, "Hasan Gharib." The Order for Taqwa, as much as One is Capable Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 جو تمہیں کسب حرام پر اکساتے ہیں اور اللہ کے حقوق ادا کرنے سے روکتے ہیں پس اس آزمائش میں تم اسی وقت سرخرو ہوسکتے ہو جب تم اللہ کی معصیت میں ان کی اطاعت نہ کرو۔ مطلب یہ ہوا کہ مال واولاد جہاں اللہ کی نعمت ہیں وہاں انسان کی آزمائش کا ذریعہ بھی ہیں اس طرح اللہ دیکھتا ہے کہ کون میرا فرمانبردار ہے اور کون نافرمان۔ 15۔ 2 یعنی اس شخص کے لئے جو مال و اولاد کی محبت کے مقابلے میں اللہ کی اطاعت کو ترجیح دیتا ہے اور اس کی نافرمانی سے اجتناب کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] مال اور اولاد ہر انسان کی آزمائش ہے :۔ یہاں آزمائش کے لئے فتنۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ فتنۃ میں عام طور پر ایسی چیزوں سے آزمائش ہوتی ہے جن سے انسان محبت کرتا ہے اور ان سے اس کا دلی لگاؤ ہوتا ہے اور یہ آزمائش اس طرح آہستہ آہستہ ہوتی ہے کہ دوسرے تو کیا بسا اوقات خودمفتون کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کسی آزمائش میں پڑچکا ہے۔ یہاں بتایا یہ گیا ہے کہ بیویوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں۔ لیکن مال اور اولاد ایسی چیزیں ہیں جو ساری کی ساری اور سب انسانوں کے لئے آزمائش کا سبب بن جاتی ہیں۔ اور ان چیزوں سے اللہ آزمائش اس طرح کرتا ہے کہ کون ان فانی اور زائل ہونے والی چیزوں میں پھنس کر آخرت کی دائمی نعمتوں کو فراموش کردیتا ہے اور کون انہی چیزوں کو اپنے لئے آخرت میں ذخیرہ کا ذریعہ بناتا ہے اور وہاں کے اجر عظیم کو دنیا کی دلفریبیوں پر ترجیح دیتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ۔۔۔۔۔: اس کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ آل عمران (١٤) ، انفال (٢٨) ، کہف (٤٦) اور سورة ٔ منافقون (٩)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Wealth and Children are a Trial إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ (Your riches and your children are but a trial…64:14). The word fitnah means ‘test or trial’. The purport of the verse is to say that Allah tests man by means of his wealth and children as to whether he is so much engrossed in the love of wealth and children as to become heedless of Divine laws and injunctions, or he maintains his love for them within limits and remains heedful of his duties and obligations toward Allah. The truth of the matter is that the love of wealth and children is a great trial for man. He mostly commits sins for their love, especially when he indulges in earning livelihood through unlawful means. According to a hadith, some people will be brought on the Day of Judgment, and the people will look at him and say اَکَلَ عَیَالُہ حَسَنَاتِہٖ (His family ate up his good deeds.) [ Ruh ]. In another narration, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، referring to the children, said: مَبخَلَۃٌ مَّجبنَۃٌ (They are the cause of one’ s miserliness and cowardice.) It means that on account of their love, man fails to spend in Allah’ s way, and on account of their love he fails to participate in jihad. Some righteous elders have said, اَلعَیِال سُوسُ الطَّاعَات (Family is the weevil of obedience.” A weevil is small beetle that feeds on grain and seeds and destroys crops. Likewise, a family feeds on man’ s good deeds and destroys them.

(آیت) اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ، فتنہ کے معنی ابتلاء اور امتحان کے ہیں، مراد آیت کی یہ ہے کہ مال واولاد کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انسان کی آزمائش کرتا ہے کہ ان کی محبت میں مبتلا ہو کر احکام و فرائض سے غفلت کرتا ہے یا محبت کو اپنی حد میں رکھ کر اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوتا۔ مال و اولاد انسان کے لئے بڑا فتنہ ہیں : اکثر گناہوں میں خصوصاً حرام کمائی میں انہیں کی محبت کی وجہ سے مبتلا ہوتا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز بعض اشخاص کو لایا جائے گا اس کو دیکھ کر لوگ کہیں گے :۔ اکل عیالہ حسناتہ ” یعنی اس کی نیکیوں کو اس کے عیال نے کھالیا “ (روح) ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اولاد کے بارے میں فرمایا مبخلتہ مجبنة ” یعنی یہ بخل اور جبن یعنی نامردی اور کمزوری کے اسباب ہیں “ کہ ان کی محبت کی وجہ سے آدمی اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے رکتا ہے، انہیں کی محبت کی وجہ سے جہاد میں شرکت سے رہ جاتا ہے، بعض سلف صالحین کا قول ہے الحیال سوس الطاعات ” یعنی عیال انسان کی نیکیوں کے لئے گھن ہے “ جیسا گھن غلہ کو کھا جاتا ہے یہ اس کی نیکیوں کو کھا جاتے ہیں “۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَۃٌ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۝ ١٥ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ تمہارے اموال و اولاد جو کہ مکہ مکرمہ میں ہیں تمہارے لیے ایک آزمائش کی چیز ہے جبکہ ہجرت اور جہاد سے تمہیں روکیں اور جو شخص ان چیزوں کے باوجود ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کرے تو اس کے لیے بڑا اجر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥{ اِنَّمَآ اَمْوَالُــکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌط } ” تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے امتحان ہیں۔ “ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مال و دولت دنیا ‘ یہ رشتہ و پیوند تمہاری آزمائش کا ذریعہ ہیں : { زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَـرَۃِ مِـنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِط } (آل عمران : ١٤) ” مزین کردی گئی ہے لوگوں کے لیے مرغوباتِ دنیا کی محبت جیسے عورتیں اور بیٹے اور جمع کیے ہوئے خزانے سونے کے اور چاندی کے اور نشان زدہ گھوڑے اور مال مویشی اور کھیتی “۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دلوں میں یہ محبتیں پیدا ہی ان کو آزمانے کے لیے کی ہیں۔ اس کا تو اعلان ہے کہ میرے جس بندے کے دل میں مجھ تک پہنچنے کی تڑپ ہے ‘ اسے ان تمام رکاوٹوں اور آزمائشوں کو عبور کر کے آنا ہوگا : ؎ انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے ! حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (حُجِبَتِ النَّارُ بِالشَّھَوَاتِ وَحُجِبَتِ الْجَنَّۃُ بِالْمَکَارِہِ ) (١) ” جہنم کو نفس کی مرغوب چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے اور جنت کو ناپسندیدہ چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ “ ان ناپسندیدہ چیزوں میں مال و اولاد کی محبتوں کی قربانی سرفہرست ہے۔ آج اگر کسی شخص کے بارے میں آپ یہ معلوم کرنا چاہیں کہ اس کے دل میں کتنا ایمان ہے تو یہ دیکھ لیجیے کہ وہ اپنی اولاد کو کیا بنانا چاہتا ہے۔ بظاہر ایک شخص اگر بہت بڑا عالم دین ‘ صوفی ‘ مسند نشین اور پیر طریقت ہے لیکن اپنی اولاد کو وہ ایمان وآخرت کے راستے پر ڈالنے کے بجائے پیسے بنانے والی مشین بنانے کی کوشش میں ہے تو جان لیجیے کہ اس کے باطن میں دین اور دینی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اب اس سلسلے کی تیسری بات سنیے : { وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ ۔ } ” اور اللہ ہی کے پاس اجر عظیم ہے۔ “ تمہارے اعمال کا اصل اجر اور بدلہ تمہیں اللہ تعالیٰ سے ملے گا ‘ لہٰذا کسی اور سے کسی اجر کی توقع نہ رکھنا۔ اولاد کے بارے میں بھی مت امید رکھنا کہ وہ تمہارے بڑھاپے کا سہارا بنے گی۔ ہوسکتا ہے یہی اولاد جس کے لیے آج تم اپنا ایمان تک دائو پر لگانے کو تیار ہوجاتے ہو ‘ بڑھاپے میں تمہیں ٹھوکریں مارے اور بعض اوقات اولاد کی زبان کی ٹھوکریں والدین کے لیے ان کی پائوں کی ٹھوکروں سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ اس تکلیف کی کیفیت اس باپ سے پوچھیں جس کا بیٹا اس کے سامنے سینہ تان کر کہتا ہے : ابا جان آپ ہمیشہ بےموقع بات کرتے ہیں ‘ اس معاملے میں آپ خاموش رہیں ‘ آپ کو کیا معلوم کہ زمانہ کہاں سے کہاں چلا گیا ہے !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 For explanation, sec E.N. 23 of Surah AI-Anfal. Here one should also keep in view the Holy Prophet's saying which Tabarani has related on the authority of Hadrat Abu Malik al-Ash'ari, saying: "Your real enemy is not he whom if you kill there is success for you, and if he kills you, there is Paradise for you; but your real enemy may b your own child who is born of your own loins, or the wealth of which you are the owner." That is why here us well as in Al-Anfal: 28, AIIah says: If you save yourselves from the temptation and allurements of worldly possessions and Children and succeed in keeping love of them subject to the love of AIIah, there are rich rewards for you with Allah.

سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :30 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الانفال ، حاشیہ 23 ۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد بھی نگاہ میں رہنا چاہیے جسے طبرانی نے حضرت ابو مالک اشعری سے روایت کیا ہے کہ تیرا اصل دشمن وہ نہیں ہے جسے اگر تو قتل کر دے تو تیرے لیے کامیابی ہے اور وہ تجھے قتل کر دے تو تیرے لیے جنت ہے ، بلکہ تیرا اصل دشمن ، ہو سکتا ہے کہ تیرا اپنا وہ بچہ ہو جو تیری ہی صُلب سے پیدا ہوا ہے ، پھر تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا وہ مال ہے جس کا تو مالک ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی اور سورہ انفال میں بھی یہ فرمایا ہے کہ اگر تم مال اور اولاد کے فتنے سے اپنے آپ کو بچا لے جاؤ اور ان کی محبت پر اللہ کی محبت کو غالب رکھنے میں کامیاب رہو ۔ تو تمہارے لیے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: آزمائش یہ ہے کہ اِنسان مال ودولت اور اولاد کی محبت میں منہمک ہو کر اﷲ تعالیٰ کے احکام سے غافل تو نہیں ہوتا، اور جو شخص ایسی غفلت سے اپنے آپ کو بچالے، اُس کے لئے اﷲ تعالیٰ کے پاس بڑا اَجر وثواب ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(64:15) انما : بیشک ، تحقیق۔ سوائے اس کے نہیں۔ ان حرف مشبہ بالفعل ہے اور ما کافہ ہے ۔ جو کہ حصر کے لئے آتا ہے اور ان کو عمل لفظی سے روک دیتا ہے۔ اموالکم (مضاف مضاف الیہ) تمہارے مال۔ واولادکم : (مضاف مضاف الیہ) تماری اولادیں۔ اسم ان۔ فتنۃ۔ اس کی خبر۔ بیشک تمہارے مال اور تمہاری اولادیں (تمہارے لئے) آزمائش ہیں ۔ الفتن کے دراصل معنی سونے کو آگ میں ڈالنے اور گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا معلوم ہوجائے اس لحاظ سے کسی کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کہ قرآن مجید میں ہے یوم ھم علی النار یفتنون (51:13) جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا۔ اور آزمائش اور امتحان لینے کے معنی میں بھی آیا ہے مثلاً وفتناک فتونا (20:40) اور ہم نے تمہاری کئی بار آزمائش کی) ۔ مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو مفردات القرآن ، امام راغب۔ واللہ عندہ اجر عظیم۔ اس سے قبل عبارت محذوف ہے، یعنی اس آزمائش کے باوجود جس نے اللہ کی محبت اور اس کی اطاعت کو دنیاوی اموال و اولاد پر ترجیح دی اس کے لئے اللہ کے پاس اجر عظیم ہے۔ ای واللہ عندہ اجر عظیم لمن اثر محبۃ اللہ تعالیٰ وطاعتہ علی محبۃ الاموال والاولاد (روح المعانی) فائدہ : آیت 14 میں اہل و عیال کی عداوت کے اظہار کے موقعہ پر ان من ازواجکم واولادکم فرمایا یعنی من تبعیضیہ ذکر کیا کہ تمہاری ازواج اور اولاد میں سے بعض (سارے نہیں) تمہارے دشمن ہیں لیکن دنیاوی مال و اولاد کو سب کو بلا استثناء باعث فتنہ فرمایا۔ کیونکہ یہ سب آزمائش ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی اللہ تعالیٰمال و دولت دیکر تمہاری آزمائش کرتا ہے کہ کون اللہ و رسول کے احکام کی اطاعت کرتا ہے اور کون دنیا کی محبت میں مشغول ہو کر اعراض کرتا ہے۔ حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ حضرت حسن اور حسین لال کرتے پہنے گرنے پڑتے آپہنچے۔ آنحضرت منبر پر خطبہ دے رہے تھے آپ نے منبر سے اتر کر ان کو اپنے دونوں طرف اٹھا لیا اور فرمایا :” اللہ تعالیٰنے سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اور اولاد آزمائش ہیں (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ کہ دیکھیں کون ان میں پڑ کر خدا کے احکام کو بھول جاتا ہے اور کون یاد رکھتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انما ........................ فتنة (٤٦ : ٥١) ” تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں “۔ تنبیہ یہ ہے کہ بعض اوقات مال اور اولاد دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ بات انسانی زندگی کی ایک نہایت ہی بڑی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ زندگی کے اندر بعض اوقات روابط اور تعلقات اس قدر متنوع اور مختلف سمتوں سے دامن کش ہوتے ہیں کہ انسان آزمائش میں پڑجاتا ہے۔ ازواج اور اولاد کبھی انسان کو ذکر الٰہی سے غافل کردیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ ایمان کے مشکل ترین تقاضے پورے کرنے کی راہ میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مثلاً فریضہ جہاد فی سبیل اللہ میں دنیاوی نقصانات اٹھانے پڑتے ہی۔ بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ انسان اور اس کی اولاد اور اہل خاندان تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ بعض اوقات انسان اپنی ذات پر سختی برداشت کرسکتا ہے لیکن بیوی بچوں پر سختیاں اور تشدد برداشت نہیں کرسکتا۔ یوں انسان جدوجہد اور جہاد میں بزدلی اختیار کرتا ہے کہ بچوں اور بیوی کو کے آرام اور آسائشوں میں خلل نہ ہو۔ اور وہ اس کے دشمن نہ ہوجائیں اور یوں دراصل وہ دشمن ہوجاتے ہیں اور اسے راہ راست سے روک دیتے ہیں۔ یوں ایک مومن اعلیٰ مقاصد اور بلند مراتب کے حصول سے نیچے رہ جاتا ہے۔ بعض اوقات تو ازواج واولاد ٹھیک کھڑے ہوکر راہ روک دیتے ہیں اور مومن اپنے فرائض سرانجام دینے سے رک جاتا ہے۔ بعض اوقات وہ مومن کے نظریاتی مخالف ہوتے ہیں۔ اور مومن کے لئے ان سے صاف صاف قطع تعلق بھی ممکن نہیں ہوتا۔ غرض یہ اور بیشمار دوسری صورتیں اس دشمنی اور آزمائش کی پیش آسکتی ہیں۔ اس لئے اللہ نے اولاد ، بیوی اور مال کے فتنوں اور آزمائشوں کے بارے میں یہاں سختی کے ساتھ متنبہ کیا کہ ان کے بارے میں مومن کے دل میں ایک احتیاط اور ایک شعور موجود ہو اور اس کا دل بیدار ہو اور برداشت کرنے کی تیاری میں اگر کوئی دباﺅ آئے تو وہ مقابلہ کرے۔ اس کے بعد مال اور اولاد کی دشمنی کو ایک دوسرے رنگ میں تکرار کرکے پیش کیا کہ یہ فتنہ بھی ہوتے ہیں۔ لفظ فتنہ کے دو معنی ہوتے ہیں : ایک یہ کہ اللہ تمہیں مال اور اولاد کے ذریعہ آزماتا ہے ، لہٰذا چوکنے رہو ، احتیاط کرو کہ تم اس آزمائش میں پاس ہوجاﺅ۔ اور خلوص اور تجرد اختیار کرو۔ فتنے کے معنی یہ ہیں کہ سنار سونے کو آگ میں ڈال کر پگھلاتا ہے تاکہ اس سے کھوٹ نکال دے۔ یہ عمل فتنہ کہلاتا ہے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ مال واولاد خود فتنہ ہیں اور یہ شیطان کے ہتھیار ہیں۔ یہ تمہیں دین کی مخالفت اور معصیت میں ڈالتے ہیں۔ لہٰذا اس معنی میں دشمن ہیں ان سے بچو ، کہ وہ تمہیں نقصان نہ پہنچا دیں۔ یہ دونوں معنی قریب قریب ہیں۔ امام احمد نے روایت کی ہے۔ عبداللہ ابن بریدہ سے ، انہوں نے ابوبردہ سے کہ ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دے رہے تھے حسن اور حسین آئے۔ انہوں نے سرخ قمیض پہن رکھے تھے۔ یہ چلتے تھے اور گرتے پڑتے آرہے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر سے اترے۔ ان کو اٹھایا۔ اپنے سامنے بٹھایا۔ اور پھر فرمایا : ” اللہ اور اللہ کے رسول نے سچ کہا کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے آزمائش ہے۔ میں نے دونوں بچوں کو دیکھا کہ چل رہے ہیں اور گرتے پڑتے آرہے ہیں۔ مجھ سے نہ رہا گیا ، میں نے خطبہ چھوڑ کر ان کو اٹھالیا “۔ اصل سنت نے واقد سے اسے روایت کیا ہے۔ یہ ہیں رسول اور یہ ہیں آپ کے نواسے۔ لہٰذا اولاد کا معاملہ بہت ہی نازک اور اہم ہے اور خطرہ ہے اور ان کے بارے میں تنبیہ ضروری تھی۔ اللہ نے اسے ضروری سمجھا اور یہ تنبیہ کی۔ اللہ تعالیٰ ، جو لوگوں کا خالق ہے ، ان کے جذبات اور شعور کا بھی خالق ہے۔ اور یہ جذبات اور میلانات اولاد کے بارے میں اسی نے حضرت انسان میں رکھے ہیں۔ اللہ نے ضروری سمجھا کہ لوگ افراط وتفریط سے بچیں اور کہیں ان کی اولاد ان کی ہلاکت کا باعث نہ بن جائے۔ اللہ جانتا تھا کہ یہ محبتیں بعض اوقات دشمن سے بھی زیادہ نقصان دے سکتی ہیں۔ اور بعض اوقات یہ ایسی سازش کرسکتی ہیں جس طرح ایک گہرا دشمن چال چلتا ہے۔ انسان کو مال واولاد کے فتنے سے ڈراکر ، اور ان کی جانب سے نہایت ہی گہری دشمنی سے خبردار کرکے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فتنہ ہیں۔ واللہ .................... عظیم (٤٦ : ٥١) ” اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اموال و اولاد تمہارے لئے فتنہ ہیں : پانچویں نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ﴿ اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِيْمٌ٠٠١٥﴾ (بات یہی ہے کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد فتنہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس اجر عظیم ہے) ۔ اس میں یہ تنبیہ فرمائی کہ تمہارے اموال تمہاری اولاد تمہارے لئے فتنہ ہیں۔ یعنی آزمائش کا ذریعہ ہیں۔ مال کمانے اور مال خرچ کرنے میں اور اولاد کی پرورش کرنے میں اور ان کے ساتھ رہنے سہنے میں اس کا بہت زیادہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہوجائے اور مال کی تحصیل اور اولاد کی محبت اور دیکھ بھال کو ہی زندگی کا مشغلہ نہ بنالیا جائے اللہ کے پاس اجر عظیم ہے اس کے لئے محنت اور کوشش میں لگنا ایمان کا اہم تقاضا ہے۔ اس آیت کے ہم معنی سورة الانفال کے تیسرے رکوع میں بھی ایک آیت گزر چکی ہے وہاں ہم نے اموال اور اولاد کے فتنہ ہونے کی تشریح کردی ہے۔ (دیکھو انوارا لبیان جلد اول)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ ” انما انموالکم “ یہ مال و اولاد تو آزمائش کے لیے ہے تاکہ ظاہر ہوجائے کہ کون ان کی محبت کو مال و اولاد کی محبت پر ترجیح دے گا اللہ کے یہاں اس کیلئے بڑا اجر وثواب ہے۔ ” فاتقوا اللہ ما استطعتم “ لہذا جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرو اور اس کے احکام بغور سنو اور ان کو بجا لاؤ اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو یہ تمہارے لیے بہت بتر ہے۔ ” خیرا “ یا فعل ناقص مقدر کی خبر ہے یا فعل امر مقدر کا مفعول یا مصدر محذوف کی صفت ہے۔ ای یکن خیرا۔ او قصدوا خیرا۔ او انفقوا انفاقا خیرا (روح، بیضاوی) ۔ ” ومن یوق شح نفسہ “ اور جو لوگ اللہ کی توفیق سے بخل اور کنجوسی کی بیماری سے بچا لیے گئے اور جنہیں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے توفیق مل گئی دنیا اور آخرت میں ایسے ہی لوگ کامیاب اور فائز المرام ہوتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) سو ائے اسکے نہیں کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے ایک آزمائش کی چیز ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ یعنی جس طرح مصیبت میں صبر کا امتحان ہے اسی طرح اموال واولاد میں بھی شکر کا امتحان ہے یوں تو اس عالم میں ہر چیز ایک دوسرے کے لئے آزمائش ہے۔ وجعلنا بعضکم لبعض فتنۃ۔ سورة فرقان میں فرمایا ہے لیکن ہر نعمت حضرت حق تعالیٰ کی جانب سی آزمائش اور موجب امتحان ہے اس نعمت کا شکر کون ادا کرتا ہے اور ہر نعمت میں منہمک ہوکر آخرت کو کون فراموش کرتا ہے مال اور اولاد یہ دونوں چیزیں دنیاوی نعمتوں میں اہم ہیں اس لئے ان کو فتنہ فرمایا اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا۔ آگے حسب استطاعت تقوی کی تاکید ہے کیونکہ مال اور اولاد کے معاملے میں بسا اوقات انسان سے تقویٰ اور احتیاط کا دامن چھوٹ جاتا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔