Surat ut Taghabunn

Surah: 64

Verse: 3

سورة التغابن

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ وَ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ ۚ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿۳﴾

He created the heavens and earth in truth and formed you and perfected your forms; and to Him is the [final] destination.

اسی نے آسمانوں کو اور زمین کو عدل و حکمت سے پیدا کیا اسی نے تمہاری صورتیں بنائیں اور بہت اچھی بنائیں اور اسی کی طرف لوٹنا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضَ بِالْحَقِّ ... He has created the heavens and the earth with truth, with equity and wisdom, ... وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ ... and He shaped you and made good your shapes. He made you in the best shapes and forms. Allah the Exalted said, يأَيُّهَا الاأِنسَـنُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِى خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَك... َ فِى أَىِّ صُورَةٍ مَّا شَأءَ رَكَّبَكَ O man! What has made you careless about your Lord, the most Generous Who created you, fashioned you perfectly and gave you due proportion; in whatever form He willed, He put you together. (82:6-8) And His saying, اللَّهُ الَّذِى جَعَـلَ لَكُـمُ الاٌّرْضَ قَـرَاراً وَالسَّمَأءَ بِنَـأءً وَصَوَّرَكُـمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُـمْ وَرَزَقَكُـمْ مِّنَ الطَّيِّبَـتِ Allah, it is He Who has made for you the earth as a dwelling place and the sky as a canopy, and has given you shape and made your shapes good (looking) and has provided you with good things. (40:64) and His saying; ... وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ And to Him is the return. means the return and final destination. Allah then informs of His knowledge of all that there is in the heavens, in the earth and in the souls, He said: يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 اور وہ عدل و حکمت یہی ہے کہ محسن کو احسان کی اور بدکار کو اس کی بدی کی جزا دے، چناچہ وہ اس عدل کا مکمل اہتمام قیامت والے دن فرمائے گا۔ 3۔ 2 تمہاری شکل وصورت، قدو قامت اور خدوخال نہایت خوبصورت بنائے۔ جس سے اللہ کی دوسری مخلوق محروم ہے۔ 3۔ 2 کسی اور کی طرف نہیں، کہ اللہ کے محاسبے اور مؤاخذے سے ب... چاؤ ہوجائے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] وہ حقیقی مصلحت یہ تھی کہ انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے ایسی تمام چیزیں پیدا کردیں جو انسان کی زندگی اور زندگی کی بقا کے لئے ضروری تھیں۔ تمام اشیاء کو انسان کا خادم بنادیا اور وہ تمام چیزیں انسان ہی کی خدمت پر مامور ہیں۔ [٦] انسان میں دوسری مخلوق سے کیا کیا صفات زائد ہیں ؟ : یعنی انس... ان کو سیدھا کھڑا ہو کردو پاؤں پر چلنے والی مخلوق بنایا۔ اسے بولنے & ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے اور جواب دینے کی قوتیں عطا فرمائیں۔ پھر اس کو یہ عقل و شعور بھی بخشا کہ وہ تمام مخلوق سے اپنے حسب ضرورت کام لے سکے، انہیں اپنا مطیع و منقاد بنا سکے اور ان پر حکومت کرسکے۔ اور یہ صفات انسان کے علاوہ اور کسی مخلوق کو عطا نہیں کی گئیں۔ اس کے اعضاء کی ساخت بھی ایسی بنائی کہ ایک ایک عضو سے وہ کئی کئی کام لے سکتا ہے۔ اور اپنی عقل اور اعضاء سے کام لے کر ایک طرف تو کائنات کی تسخیر کیے چلا جاتا ہے۔ دوسری طرف نت نئی ایجادات کو وجود میں لاتا رہتا ہے۔ [٧] یعنی انسان کا ڈیزائن بھی عمدہ بنایا پھر اس کی صورت بھی بہت خوب بنائی۔ یہ نہیں کیا کہ کسی انسان کی ایک آنکھ بڑی ہو اور دوسری چھوٹی یا ایک آنکھ کالی ہو دوسری نیلی یا ایک نتھنا بڑا ہو اور دوسرا چھوٹا یا ایک ہاتھ لمبا ہو اور دوسرا چھوٹا۔ جس سے انسان بدصورت ہی نہیں بلکہ خوفناک اور ڈراؤنا بھی معلوم ہونے لگے۔ پھر اتنی ہمہ گیر یکسانیت کے باوجود ہر ایک کی شکل اور نقش و نگار الگ الگ بنائے۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کی ناک یا اس کی آنکھیں پیچھے گردن پر یا پیٹھ کو لگا دیتا تو اندازہ کرلیجئے کہ انسان کتنی بدصورت مخلوق ہوتا۔ [٨] اللہ کا اس کائنات کو بنانا۔ اس کا مربوط انتظام کرنا۔ اس کے بعد انسان جیسی اشرف المخلوقات اور احسن تقویم والی مخلوق کو پیدا کرنا پھر اس میں لگاتار زندگی اور موت کا سلسلہ جاری کرنا۔ یہ سب کام تو تم دیکھ ہی رہے ہو۔ پھر کیا مرنے کے بعد اسے تمہیں اپنے پاس حاضر کرلینا ہی مشکل بن جائے گا ؟   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ : جس سے مراد یہاں حکمت و مصلحت ہے اور ان کی پیدائش کی بیشمار حکمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے ایسی تمام چیزیں پیدا فرما دیں جو انسان کی بقاء کے لیے ضروری تھیں اور انہیں انسان کی خدمت پر مامور کردیا ، جیسا کہ فرمایا :(ہُ... وَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ) ( البقرہ : ٢٩)” وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے سب تمہارے لیے پیدا کیا “۔ مزید دیکھئے سورة ٔ زمر (٥) ٢۔ وَصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ : اللہ تعالیٰ نے جو چیز پیدا فرمائی اچھی پیدا فرمائی۔ ( دیکھئے سجدہ : ٧) یہاں فرمایا کہ اس نے تمہاری صورت بنائی تو تمہاری صورتیں اچھی بنائیں ۔ ( دیکھئے مومن : ٦٤۔ انفطار : ٦ تا ٨) دوسری جگہ فرمایا کہ ہم نے انسان کو ( اچھی ہی نہیں بلکہ) سب سے اچھی بناوٹ میں پیدا فرمایا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :(لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ) (التین : ٤)” بلا شبہ یقینا ہم نے انسان کو سب سے اچھی بناوٹ میں پیدا کیا ہے “۔ ظاہر ی شکل و صورت میں بھی اور ذہنی اور عقلی استعداد کے لحاظ سے بھی انسان کو بہترین بناوٹ عطاء ہوئی ہے ، کسی دوسری مخلوق میں ایسی عقلی استعداد نہیں ہے ، کوئی انسان کتنا بھی بد صورت ہو ، کبھی نہیں چاہے گا کہ اسے کسی اور مخلوق کی شکل میں تبدیل کردیا جائے ، خواہ وہ کتنی خوبصورت ہو ۔ ٣۔ وَاِلَیْہِ الْمَصِیْرُ : یعنی ساری کائنات کی پیدائش خصوصاً انسان کو اتنی بہترین بناوٹ میں پیدا کرنا بےمقصد نہیں بلکہ تمہاری آزمائش کے لیے ہے ، جیسا کہ فرمایا :(لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا) ( ھود : ٧) ” تا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے “ اور اس کے لیے تمہیں مرنے کے بعد قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہو کر اس کی طرف واپس جانا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَصَوَّرَ‌كُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَ‌كُمْ (…and shaped your figures, and made your figures good…64:3). Shaping the figures of the creatures is one of the exclusive attributes of Allah, that is why Al-Musawwiru [ the shaper ] is one of His attributive names. If we analyze or look carefully into the universe, there are several classes of things. Each class has several species and each species has sever... al sexes. Each sex has billions of members. No single shape ever resembles another shape. Among humankind, for instance, on account of difference of country or territory or difference of stock and nations, there is clear distinction in the shapes and faces of individuals. The face and shape of each individual is so amazingly unique and that it baffles the human imagination. The human face is no more than six to seven square inches, and there are uncountable faces of the same type, and yet one face does not look exactly like the other one so that distinguishing one from the other would be difficult. The present verse mentions figure-making as one of the Divine blessings and immediately thereafter it goes on to say فَأَحْسَنَ صُوَرَ‌كُمْ (and made your figures good). In the entire universe, Allah made the human shape the most beautiful. No matter how ugly a man or an individual might seem in his community, he is still beautiful in his own right, relative to the shapes of all other non-human creatures.  Show more

(آیت) وَصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ ، (اس نے تمہاری صورت بنائی پھر تمہاری صورتوں کو بہتر بنایا) صورت گری در حقیقت خالق کائنات کی مخصوص صفت ہے، اسی لئے اسماء الٰہیہ میں اللہ تعالیٰ کا نام مصور آیا ہے اور غور کرو کہ کائنات میں کتنی اجناس مختلفہ ہیں اور ہر جنس میں کتنی انواع مختلفہ، ہر نوح میں ا... صناف مختلفہ اور ہر صنف میں لاکھوں کروڑوں افراد مختلفہ پائے جاتے ہیں، ایک کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی، ایک نوع انسانی میں ملکوں اور خطوں کے اختلاف سے نسلوں اور قوموں کے اختلاف سے شکل و صورت میں کھبے ہوئے امتیازات، پھر ان میں ہر فرد کی شکل و صورت کا دوسرے سب سے ممتاز ہونا ایک ایسی حیرت انگیز صنعت و صورت گری ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے، انسانی چہرہ جو کچھ سات مربع انچ سے زیادہ نہیں، اربوں، پدموں انسانوں میں ایک ہی طرح کا چہرہ ہونے کے باوجود ایک کی صورت بالکلیہ دوسرے سے نہیں ملتی کہ پہچاننا دشوار ہوجائے، آیت مذکورہ میں ایک نعمت صورت گری ہے اس کا ذکر فرمایا اس کے بعد فرمایا فاحسن صور کم، یعنی شکل انسانی کو ہم نے تمام کائنات و مخلوقات کی صورتوں سے زیادہ حسین اور بہتر بنایا ہے، کوئی انسان اپنی جماعت میں کتنا ہی بدشکل بدصورت سمجھا جاتا ہو مگر باقی تمام حیوانات وغیرہ کے اشکال کے اعتبار سے وہ بھی حسین ہے، فتبارک اللہ احسن الخالقین۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ۝ ٠ ۚ وَاِلَيْہِ الْمَصِيْرُ۝ ٣ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معن... ی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ صور الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران/ 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» وقوله تعالی: فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع . ( ص و ر ) الصورۃ : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ صير الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] . و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال . ( ص ی ر ) الصیر کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اس نے تمہیں آدم سے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا ہے سو تم میں سے بعض لوگ ظاہری طور پر کافر ہیں اور بعض مومن یا یہ کہ تم میں سے بعض کافر ہیں جو ایمان قبول کرلیں گے۔ یہ ایمان پر برانگیختہ کرنا ہوا اور بعض مومن ہیں جو کفر اختیار کرلیں گے یہ کفر سے ڈرانا ہوا یا یہ کہ تم میں بعض ظاہری و باطنی طور پر کافر ہی... ں اور بعض مومن اور بعض تم میں سے ظاہری طور پر مومن اور خفیہ طور پر کافر ہیں جیسا کہ منافق۔ اس نے حق و باطل کے اظہار کے لیے یا یہ کہ زوال و فنا کے لیے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور تمہارا بہ نسبت جانوروں کے عمدہ نقشہ بنایا کہ تمہارے نقشہ کو ہاتھوں، پیروں، کانوں اور آنکھوں اور تمام اعضاء کے ساتھ مضبوط کیا اور پھر سب کو آخرت میں اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ } ” اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا حق کے ساتھ “ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات عبث پیدا نہیں کی ‘ بلکہ یہ ایک بہت ہی بامقصد اور نتیجہ خیز تخلیق ہے اور انسان اس کی تخلیق کی معراج ہے۔ چناچہ کائنات کی تخلیق کے ذکر کے بعد خاص طور پر تخلیق ِانسانی کا ذکر ف... رمایا : { وَصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ } ” اور اس نے تمہاری صورت گری کی تو بہت ہی عمدہ صورت گری کی۔ “ انسانی ڈھانچے کی ساخت ‘ جسم کی بناوٹ ‘ چہرے کے خدوخال ‘ غرض ایک ایک عضو کی تخلیق ہر پہلو سے کامل ‘ انتہائی متناسب اور دیدہ زیب ہے۔ { وَاِلَـیْہِ الْمَصِیْرُ ۔ } ” اور اسی کی طرف (سب کو) لوٹنا ہے۔ “ کیا تم لوگ سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں تخلیق کے بہترین درجے پر (فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْم) بنا کر اور بہترین صلاحیتوں سے نواز کر جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کی سی بےمقصد زندگی گزارنے کے لیے چھوڑ دیا ہے ؟ یا کیا تمہاری حیثیت اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک کھلونے کی سی ہے جسے اس نے صرف دل بہلانے کے لیے بنایا ہے اور اس کے علاوہ تمہاری تخلیق کا کوئی سنجیدہ مقصد نہیں ہے ؟ نہیں ‘ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اپنی نسل کے اعتبار سے تم اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی معراج ہو۔ تمہاری تخلیق ایک بامقصد تخلیق ہے۔ ابھی تم محض ایک وقفہ امتحان سے گزر رہے ہو ‘ اس کے بعد تمہیں پلٹ کر اللہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے اور اپنی دنیوی زندگی کے اعمال و افعال کا حساب دینا ہے۔ اگلی آیت ” ایمان بالعلم “ کے حوالے سے قرآن کی جامع ترین آیت ہے۔ بلکہ یوں سمجھئے کہ اس موضوع پر قرآن مجید کی بہت سی آیات میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ اس ایک آیت میں آگیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے علم کی تین جہتیں (dimensions) بیان ہوئی ہیں۔ پہلی جہت کیا ہے ؟   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7 In this verse three things have been stated in their sequence, which are well connected logically: First, it has been said that AIlah has created this universe with the tnrth. When the word "with the truth" is spoken for a news, it means a true news; when it is spoken for a command, it means a command based on justice; when it is spoken for a statement, it means a correct statement; and when it...  is used for an act, it implies an act which is wise, reasonable and useful. Now, khalq (to create) is an act; therefore, to say that the universe has been created with the truth, would inevitably mean that the universe has not been created for fun but it is a serious work of a Wise Creator: everything in it has a rational object and purpose, and the element of its being purposeful is so evident that if a sensible person understands the nature of a thing well, it cannot be difficult for him to know the rational and wise purpose for which it has been created. All of modern science testifies that whenever man has succeeded in understanding the true nature of a thing by careful thought, research and investigation, he has also come to know eventually the purpose and object of its creation, and this understanding of its purpose has led him to countless inventions which are now being used in civilized human life. This could not be possible, had this universe been the plaything of a carefree person, devoid of any wisdom and purpose. (For further explanation, see E.N. 46 of AIAn-am, E.N. 11 of Yunus, E.N. 26 of Ibrahim, E.N. 46 of Ati-Nahl, E.N.'s 15, 16 of AI-Anbiya, E.N. 102 of Al-Mu'nunun, E.N. 75 of Al-'Ankabut, E.N. 6 of Ar-Rum, E.N. 34 of Ad-Dukhan, B.N. 28 of AI-Jathiyah) . Secondly, it has been said that in this universe Allah has created man in the best shape. Shape here does not imply only man's fact but his whole bodily structure; it also inclusions all those powers and abilities which man has been granted to function in this world.In both these aspects man has been given the best shape and form among the creatures of the earth, and on the same basis he has become worthy to rule over aII the universe. He has been given an erect stature he has been given most appropriate feet to walk on; he has given most suitable hands to work with; he has been given such senses and organs to acquire knowledge by which he obtains every kind of information; he has been given a powerful mind to think and understand and deduce results from the body of acquired information; he has been given a moral sense and a power of discrimination by which he distinguishes between good and evil, right and wrong; he has been given the power of decision by using which he selects his own course of action, and decides as to where he should employ his efforts and where he should not. He has even been given the freedom that he may acknowledge his ('rector and serve Him if he so likes and reject Him if he pleases, or may make whomever he likes his gods, or rebel even against Him Whom he regards as his God. Along with all these capabilities and powers Allah has granted him the authority to appropriate everything created by Him, and he is practically using this authority in the world. (For further explanation, see E.N. 91 of Al-Mu'min) . The third thing which logically follows from the first two. as explained above has been stated in the third sentence of the verse "To Him you have to return in the end.' Obviously, when a creature endowed with power and authority has been created in a wise and purposeful system of the universe, wisdom dces not require that he should be left to live irresponsibly in the world, but it necessarily requires that that creature should be accountable to the Being Who has granted it this position and rank and blessed it with these powers; 'Returning" in this verse dces not merelu mean to return but to return for accountability. In the following verses it has been explained that this return will not be in this life but into the second life after death, and its right time will he when all mankind will be resurrected and gathered together simultaneously for accountability, and in consequence of the accountability man will be rewarded or punished on the ground whether he had used the powers given him by God in the right way or the wrong way. As for the question, why cannot this accountability be held in the present lift of the world? and why is its right time only the second lift after death'? and why is it necessary that this accountability be held only when all mankind has passed away from this world, and aII the former and the latter generations have been resurrected and gathered together simultaneously? If man only uses his common sense a little, he can understand that all this is perfectly rational as well as the very demand of wisdom and reason that accountability should be held in the second lift and of all mankind together. The first reason is that man is accountable for his whole life-work. Therefore, the right time of his accountability should necessarily be when his life-work has come to an end. The sccond reason is that man is responsible for alI those effects and influences which he produces by his acts on the lives of others, and those influences and effects do not come to an end with his death but continue to influence others till ages after him Therefore, true accountability call he held only when the life-work of entire mankind has come to an end and aII the former and the latter generations are gathered together simultaneously for accountability. (For further explanation, see E.N. 30 of AI-,A'raf. E.N.'s 10, 11 of Yunus E.N. 105 of Hud E.N. 35 of An-Nahl, E.N. 9 of AI-Hajj, E.N. 27 of An.Naml, E.N.'s 5,6 of Ar-Rum, E.N.'s 29, 30 of Suad, E.N. 80 of AI-Mu'min, E.N.'s 27 to 29 of Al-Jathiyah)  Show more

سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :7 اس آیت میں تین باتیں علی الترتیب بیان کی گئی ہیں جن کے درمیان ایک بہت گہرا منطقی ربط ہے ۔ پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ اللہ نے یہ کائنات بر حق پیدا کی ہے ۔ برحق کا لفظ جب خبر کے لیے بولا جاتا ہے تو مراد ہوتی ہے سچی خبر ۔ حکم کے لیے بولا جاتا ہے تو مطلب ہوتا ہے...  مبنی بر عدل و انصاف حکم ۔ قول کے لیے بولا جاتا ہے تو مقصود ہوتا ہے راست اور درست قول ۔ اور جب کسی فعل کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو مراد ایسا فعل ہوتا ہے جو حکیمانہ اور معقول ہو نہ کہ لا یعنی اور فضول ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ خَلْق ایک فعل ہے ، اس لیے تخلیق کائنات کو بر حق کہنے کا مطلب لا محالہ یہ ہے کہ یہ کائنات کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنا دی گئی ہے بلکہ یہ ایک خالق حکیم کا نہایت سنجیدہ کام ہے ۔ اس کی ہر چیز اپنے پیچھے ایک معقول مقصد رکھتی ہے ، اور یہ مقصدیت اس میں اتنی نمایاں ہے کہ اگر کوئی صاحب عقل انسان کسی چیز کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لے تو یہ جان لینا اس کے لیے مشکل نہیں ہوتا کہ ایسی ایک چیز کے پیدا کرنے کا معقول اور مبنی بر حکمت مقصد کیا ہو سکتا ہے ۔ دنیا میں انسان کی ساری سائنٹفک ترقی اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ جس چیز کی نوعیت کو بھی انسان نے غور و فکر اور تحقیق و تجسس سے سمجھ لیا اس کے بارے میں یہ بات بھی اسے آخر کار معلوم ہو گئی کہ وہ کس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے ، اور اس مقصد کو سمجھ کر ہی انسان نے وہ بے شمار چیزیں ایجاد کرلیں جو آج انسانی تمدن میں استعمال ہو رہی ہیں ۔ یہ بات ہرگز ممکن نہ ہوتی اگر یہ کائنات کسی کھلنڈرے کا کھلونا ہوتی جس میں کوئی حکمت اور مقصدیت کار فرما نہ ہوتی ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، سورہ انعام ، حاشیہ 46 ۔ جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 75 ۔ الروم ، حاشیہ 6 ۔ جلد چہارم ، الدخان ، حاشیہ 34 ۔ الجاثیہ ، حاشیہ 28 ) ۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا ہے ۔ صورت سے مراد محض انسان کا چہرہ نہیں ہے ، بلکہ اس سے مراد اس کی پوری جسمانی ساخت ہے اور وہ قوتیں اور صلاحیتیں بھی اسکے مفہوم میں شامل ہیں جو اس دنیا میں کام کرنے کے لیے آدمی کو عطا کی گئی ہیں ۔ ان دونوں حیثیتوں سے انسان کو زمین کی مخلوقات میں سب سے بہتر بنایا ہے ، اور اسی بنا پر وہ اس قابل ہوا ہے کہ ان تمام موجودات پر حکمرانی کرے جو زمین اور اس کے گرد و پیش میں پائی جاتی ہیں ۔ اس کو کھڑا قد دیا گیا ہے ۔ اس کو چلنے کے لیے مناسب ترین پاؤں دیئے گئے ہیں ۔ اس کو کام کرنے کے لیے موزوں ترین ہاتھ دیئے گئے ہیں ۔ اس کو ایسے حواس اور ایسے آلات علم دیئے گئے ہیں جن کے ذریعہ سے وہ ہر طرح کی معلومات حاصل کرتا ہے ۔ اس کو سوچنے اور سمجھنے اور معلومات کو جمع کر کے ان سے نتائج اخذ کرنے کے لیے ایک اعلیٰ درجہ کا ذہن دیا گیا ہے ۔ اس کو ایک اخلاقی حِس اور قوت تمیز دی گئی ہے جس کی بنا پر وہ بھلائی اور برائی اور صحیح اور غلط میں فرق کرتا ہے ۔ اس کو ایک قوت فیصلہ دی گئی ہے جس سے کام لے کر وہ اپنی راہ عمل کا خود انتخاب کرتا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ اپنی کوششوں کو کس راستے پر لگائے اور کس پر نہ لگائے ۔ اس کو یہاں تک آزادی دے دی گئی ہے کہ چاہے تو اپنے خالق کو مانے اور اس کی بندگی کرے ورنہ اس کا انکار کر دے ، یا جن جن کو چاہے اپنا خدا بنا بیٹھے ، یا جسے خدا مانتا ہو اس کے خلاف بھی بغاوت کرنا چاہے تو کر گزرے ۔ ان ساری قوتوں اور ان سارے اختیارات کے ساتھ اسے خدا نے اپنی پیدا کردہ بے شمار مخلوقات پر تصرُّف کرنے کا اقتدار دیا ہے اور وہ عملاً اس اقتدار کو استعمال کر رہا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، المؤمن ، حاشیہ 91 ) ۔ ان دو باتوں سے جو اوپر بیان کی گئی ہیں بالکل ایک منطقی نتیجہ کے طور پر وہ تیسری بات خود بخود نکلتی ہے جو آیت کے تیسرے فقرے میں ارشاد ہوئی ہے کہ اسی کی طرف آخر کار تمہیں پلٹنا ہے ۔ ظاہر بات ہے کہ جب ایسے ایک حکیمانہ اور با مقصد نظام کائنات میں ایسی ایک با اختیار مخلوق پیدا کی گئی ہے تو حکمت کا تقاضا ہرگز یہ نہیں ہے کہ اسے یہاں شتر بے مہار کی طرح غیر ذمہ دار بنا کر چھوڑ دیا جائے ، بلکہ لازماً اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ مخلوق اس ہستی کے سامنے جواب دہ ہو جس نے اسے ان اختیارات کے ساتھ اپنی کائنات میں یہ مقام و مرتبہ عطا کیا ہے ۔ پلٹنے سے مراد اس آیت میں محض پلٹنا نہیں ہے بلکہ جواب دہی کے لیے پلٹنا ہے ، اور بعد کی آیات میں صراحت کر دی گئی ہے کہ یہ واپسی اس زندگی میں نہیں بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ہو گی ، اور اس کا اصل وقت وہ ہو گا جب پوری نوع انسانی کو از سر نو زندہ کر کے بیک وقت محاسبہ کے لیے اکٹھا کیا جائے گا ، اور اس محاسبے کے نتیجے میں جزا و سزا اس بنیاد پر ہو گی کہ آدمی نے خدا کے دیئے ہوئے اختیارات کو صحیح طریقے سے استعمال کیا یا غلط طریقے سے ۔ رہا یہ سوال کہ یہ جواب دہی دنیا کی موجودہ زندگی میں کیوں نہیں ہو سکتی ؟ اور اس کا صحیح وقت مرنے کے بعد دوسری زندگی ہی کیوں ہے ؟ اور یہ کیوں ضروری ہے کہ یہ جواب دہی اس وقت ہو جب پوری نوع انسانی اس دنیا میں ختم ہو جائے اور تمام اولین و آخر ین کو بیک وقت دوبارہ زندہ کر کے اکٹھا کیا جائے ؟ آدمی ذرا بھی عقل سے کام لے تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ بھی سراسر معقول ہے اور حکمت و دانش کا تقاضا یہی ہے کہ محاسبہ دوسری زندگی ہی میں ہو اور سب انسانوں کا ایک ساتھ ہو ۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے پورے کارنامہ حیات کے لیے جواب دہ ہے ۔ اس لیے اس کی جواب دہی کا صحیح وقت لازماً وہی ہونا چاہیے جب اس کا کارنامہ حیات مکمل ہو چکا ہو ۔ اور دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ انسان ان تمام اثرات و نتائج کے لیے ذمہ دار ہے جو اس کے افعال سے دوسروں کی زندگی پر مترتب ہوئے ہوں ، اور وہ اثرات و نتائج اس کے مرنے کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتے بلکہ اس کے بعد مدت ہائے دراز تک چلتے رہتے ہیں ۔ لہٰذا صحیح محاسبہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب پوری نوع انسانی کا کارنامہ حیات ختم ہو جائے اور تمام اولین و آخر ین بیک وقت جواب دہی کے لیے جمع کیے جائیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 30 ۔ یونس ، حواشی 10 ۔ 11 ۔ ہود ، حاشیہ 105 ۔ النحل ، حاشیہ 35 ۔ جلد سوم ، الحج ، حاشیہ 9 ۔ النمل ، حاشیہ 27 ۔ الروم ، حواشی 5 ۔ 6 ۔ جلد چہارم ، ص ، حواشی 28 ۔ 30 ۔ المؤمن ، حاشیہ 80 ۔ الجاشیہ ، حواشی 27 تا 29 ) ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(64:3) بالحق : حق کے ساتھ ۔ بہمہ وجوہ ٹھیک ٹھاک۔ صورکم : فعل ماضی واحد مذکر غائب تصویر (تفعیل) مصدر۔ بمعنی صورت بنانا کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ اس نے تمہاری صورت کھینچی، اس نے تمہاری شکل بنائی۔ فاحسن صورکم ف تعقیب کا ہے احسن ماضی واحد مذکر غائب اس نے اچھا بنایا۔ احسان (افعال) مصدر۔ صورکم : مض... اف مضاف الیہ۔ صور جمع ہے صورۃ کی، منصوب بوجہ مفعول ہونے کے ۔ پھر اس نے تمہاری صورتوں کو اچھا بنایا۔ المصیر : اسم ظرف مکان صیر (باب ضرب) مصدر۔ لوٹنے کی جگہ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی بامقصد پیدا کیا ہے تاکہ ابتلاء کے ذریعہ نیک و بد کو جزا و سزا دی جائے۔ نیز دیکھئے ( سورة روم : 8)9 یعنی اس نے اپنی تمام مخلوقات میں سے تمہاری شکل و صورت اور بناوٹ بہترین بنائی۔ دیکھنے میں بھی خوبصورت اور عقل و استعداد کے اعتبارے بھی سب سے ممتاز۔ 1 نہ کہ کی اور طرف لہٰذا ناگزیر ہے کہ تم اس ک... ے حضور اپنے نیک اعمال کا نیک اور برے اعمال کا برا بدلہ پائو۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی پر حکمت و پر منفعت بنایا۔ 2۔ چناچہ اعضا انسانی کے برابر کسی حیوان کے اعضاء میں تناسب نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اے لوگو ! جس ” اللہ “ کی ہر چیز تعریف کرتی ہے اسی نے تمہیں بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ہے اور وہ تمہارے ہر عمل کو دیکھنے والا ہے اس لیے کہ اس سے تمہاری کوئی خفیہ اور ظاہر بات پوشیدہ نہیں جب اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے تو تمہیں ایسی ذات کے ساتھ کفر و شرک نہیں کرنا چاہیے۔ (... ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰہُنَّ سَبْعَ سَمَوٰتٍ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ) (البقرۃ : ٢٩) ” اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا پھر آسمان کا ارادہ فرمایا تو ان کو ٹھیک ٹھیک سات آسمان بنایا اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ “ (ہُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآءُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) (آل عمران : ٦) ” جس طرح چاہتا ہے وہ ماں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں بناتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ نہایت غالب خوب حکمت والا ہے۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) وَرَفَعَ الْحَدِیْثَ أَنَّہُ قَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَکَّلَ بالرَّحِمِ مَلَکًا فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ نُطْفَۃٌ أَیْ رَبِّ عَلَقَۃٌ أَیْ رَبِّ مُضْغَۃٌ فَإِذَا أَرَاد اللَّہُ أَنْ یَقْضِیَ خَلْقًا قَالَ قَالَ الْمَلَکُ أَیْ رَبِّ ذَکَرٌ أَوْ أُنْثٰی شَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ فَمَا الرِّزْقُ فَمَا الأَجَلُ فَیُکْتَبُ کَذَلِکَ فِی بَطْنِ أُمِّہٖ ) (رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ وَکِتَابَۃِ ۔۔ ) ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب ! یہ گوشت کا لوتھڑا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا خوش بخت اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے اسی طرح اس کا نیک اور بد ہونا اس کی ماں کے پیٹ میں ہی لکھ دیا جاتا ہے۔ “ (وَ عِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّ رَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَ لَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ) (الانعام : ٥٩) ” اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی تر اور خشک دانہ نہیں مگر وہ ایک واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ “ ” تم چپکے سے بات کرو یا اونچی آواز سے کرو۔ اللہ کے لیے برابر ہے وہ تو دلوں کا حال جانتا ہے۔ کیا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانتا ہے ؟ حالانکہ وہ نہایت باریک بین اور پوری طرح خبردار ہے۔ “ (الملک : ١٣، ١٤) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو برحق اور بامقصدپیدا کیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز جاننے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہی لوگوں کی صورتیں بنائیں اور وہ بہترین شکل و صورت بنانے والا ہے۔ ٤۔ سب نے اسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ وہ بھی جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اور وہ بھی جانتا ہے جو لوگ ظاہر کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ انسان کو پیدا کرنے والا اور وہی اس کی شکل و صورت بناتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ (البقرۃ : ٢٢) ٢۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : ٢٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٤۔ اللہ نے ایک ہی جان سے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ (الاعراف : ١٨٩) ٥۔ اللہ ہی نے انسان کو بڑی اچھی شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : ٤) ٦۔ اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے اور اس کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ (الاعراف : ٥٤) ٧۔ لوگو اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ (النساء : ١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

خلق السموت .................... المصیر (٤٦ : ٣) ” اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے ، اور تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی ہے ، اور اسی کی طرف آخر کار تمہیں پلٹنا ہے “۔ آیت کا پہلا حصہ یہ ہے کہ ” اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا “۔ اس سے ایک مومن کو یہ شعور ملتا ہے کہ اس کائنات ... کی تخلیق اور تدبیر میں حق ایک بنیادی عنصر ہے۔ یہ کوئی عارضی یا غیر ضروری چیز نہیں ہے۔ اس کائنات کی تشکیل ہی حق پر ہے اور جو ذات یہ حقیقت بیان کررہی ہے وہ وہی ہے جس نے زمین و آسمان اور اس کائنات کو پیدا کیا ہے اور اسے معلوم ہے کہ یہ کائنات کس بنیاد پر قائم ہے۔ کسی شخص کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے تو جب اس کا سچائی پر اعتماد بحال ہوتا ہے تو اس کا اپنے دین پر بھی اعتماد بحال ہوتا ہے۔ کیونکہ دین اسلام بھی حق پر قائم ہے اور دین حق ہے۔ اور یہ کائنات بھی حق پر قائم ہے جو انسان کے ارد گرد پھیلی ہوئی ہے۔ لہٰذا حق غالب ہوگا۔ حق باقی رہے گا اور جب باطل کی جھاگ بیٹھ جائے گی تو حق نمودار ہوتا ہے۔ اور آیت کے آخری حصہ میں ایک دوسری حقیقت بیان کی گئی ہے۔ وصورکم ............ صورکم (٤٦ : ٣) ” اور نے تمہاری صورت بنائی اور بہت عمدہ بنائی “۔ انسان کو یہ شعور دیا جاتا ہے کہ اللہ کے نزدیک تم مکرم ہو اور اللہ نے تمہیں بہترین صورت میں پیدا کیا ہے۔ تمہاری اخلاقی تصویر بھی اچھی ہے اور تمہاری شعوری تصویر بھی اچھی ہے اور پیدائشی تصویر بھی بہت حسین ہے۔ انسان انپی جسمانی ساخت کے اعتبار سے بھی زندہ اشیاء سے زیادہ مکمل جسم کا مالک ہے۔ اور روحانی ، وشعوری اور قابلیتوں کے لحاظ سے بھی وہ مکمل ہے ، یہی وجہ ہے کہ زمین پر خلافت کا منصب انسان کو دیا گیا ہے اور انسان کے لحاظ سے اس وسیع جگہ یعنی زمین پر اسے بسایا گیا ہے۔ اگر انسان کی جسمانی ساخت اور اس کے نقشے پر ذرا گہری نظر ڈالی جائے یا انسانی جسم کے نظام کے کسی بھی حصے پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے۔ وصورکم ................ صورکم (٤٦ : ٣) ” اس نے تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی “۔ یہ ایک ایسا نقشہ ہے جس کے اندر کمال و جمال دونوں پائے جاتے ہیں اور پھر ہر انسان کے اندر خوبصورتی میں تفاوت ہے لیکن جہاں تک مجموعی نقشے کا تعلق ہے وہ بہت ہی خوبصورت ہے۔ اور کامل ہے اور انسانی ضروریات تمام زندہ چیزوں کی ضروریات کے مقابلے میں بطریق احسن پوری کرتا ہے۔ والیہ المصیر (٤٦ : ٣) ” اور اس کی طرف آخر کار تمہیں پلٹنا ہے “۔ ہر چیز کا انجام ، ہر مخلوق کا مرجع اور ہر معاملے کا آخری فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس پوری کائنات کا مرجع بھی وہ ہے۔ اس انسان کے لوٹنے کی جگہ بھی وہ ہے۔ اللہ کے ارادے ہی سے ان چیزوں نے وجود پایا۔ اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ پیدائش بھی اس سے حاصل کی اور فنا اور انجام بھی اسی کی طرف ہے۔ وہی اول ہے اور وہی آخر ہے ، ہر چیز پر محیط ہے۔ آغاز بھی وہ اور انجام بھی وہ اور وہ لامحدود ہے۔ اور چوتھا تیز احساس جو اس آیت میں دیا گیا ہے ، وہ ہے اللہ کے جامع اور شامل اور محیط علم کی ایک ایسی تصویر ، جو انسان کے خفیہ رازوں کو جاننے والا ہے ، راز سے بھی خفیہ چیز ، جو دل میں آتی ہے ، جسے ” بذات الصدور “ کہتے ہیں جن کی گرفت میں دل ہوتا ہے ، انہیں بھی جانتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو حکمت سے پیدا فرمایا اور تمہاری اچھی صورتیں بنائیں : ﴿خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بالْحَقِّ ﴾ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین کو حق (یعنی حکمت) کے ساتھ پیدا فرمایا ﴿ وَ صَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ ١ۚ﴾ اللہ تعالیٰ نے تمہاری صورتیں بنائیں سو تمہاری اچھی ص... ورتیں بنائیں۔ اس میں انسانوں پر امتنان فرمایا اور اپنے ایک احسان عظیم کا تذکرہ فرمایا کہ اللہ نے ماؤں کے رحموں میں تمہاری صورتیں بنا دیں اور اچھی صورتیں بنائیں ہاتھ، پاؤں آنکھ ناک قد وقامت کے اعتبار سے جو اعضاء انسانی میں تناسب ہے اور ساتھ ہی حسن و جمال ہے۔ ان سب کو دیکھ کر انسانوں کو اپنے خالق کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ صورت اور شکل کے اعتبار سے جو انسان کی برتری ہے اسے انسان ہی سمجھتا ہے۔ زمین پر جو دوسری چیزیں رہتی اور بستی ہیں ان میں سے کوئی چیز کتنی بھی خوبصورت ہو اور کوئی انسان کتنا بھی بدصورت ہو وہ کبھی بھی یہ گوارا نہیں کرے گا کہ اس کی انسانی صورت سلب کرلی جائے اور وہ غیر انسانی صورت میں منتقل کردیا جائے۔ ﴿وَ اِلَيْهِ الْمَصِيْرُ ٠٠٣ ﴾ (اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے) وہی خالق ہے اور وہی مصور ہے اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے۔ لہٰذا انسانوں کو اسی کی طرف متوجہ رہنا لازم ہے اسی کی عبادت کریں اور اس کا شکر ادا کریں اور اس کی یاد میں لگے رہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” خلق السماوات “ اس ساری کائنات کو اس نے اظہار حق کے لیے پیدا فرمایا ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی وحدانیت اور اس کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے۔ ” وصورکم فاحسن صورکم “ منجملہ صنائع قدرت و بدائع صنعت خود تمہاری پیدائش اور تمہاری صورت سازی ہے کہ اس نے تمام مخلوقات میں تمہیں سب سے زیادہ حسن و جمال عطا ... فرمایا اور ظاہری جمال و کمال کے ساتھ ساتھ تمہارے باطن کی تکمیل و تحسین کے لیے دستور ہدایت نازل فرمایا۔ چونکہ تم سب آخر کار اللہ کی بارگاہ میں حاضر کیے جاؤ گے۔ اس لیے توحید اور دیگر احکام خداوندی سے سرتابی کر کے اپنے باطن کو نہ بگاڑو تاکہ عذاب جہنم سے تمہارا ظاہری حسن و جمال بھی نہ بگڑ جائے (والیہ المصیر) فاحسنوا سرائرکم حتی لاتمسخ بالعذاب ظواھرکم (بیضاوی ج 2، ص 379) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اس نے آسمانوں کو اور زمین کو کمال حکمت کے ساتھ بنایا اور اسی نے تمہاری صورتیں بنائیں سو تمہاری صورتیں بہت اچھی بنائیں اور سب کی باز گشت اسی کی طرف ہے۔ یعنی آسمان و زمین کی ساخت اور بناوٹ میں کمال حکمت کی رعایت رکھی گئی ہے تمام مخلوق اسی رعایت کی وجہ سے فائدہ اٹھارہی ہے۔ ……اور تمام خلق کی ضروریات...  زندگی اسی آسمان و زمین سے وابستہ ہے پھر تمام مخلوق میں سے انسان کو بہترین صورت پر بنایا اور قدوقامت اور ناک نقشے کے اعتبار سے اس کو خوشنما اور موزوں طریق پر ترتیب دیا، حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں سب جانوروں سے انسان کی خلقت اچھی ہے۔ اس خوبی اور کمال حسن کو انسان بھی سمجھتا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان کسی اور مخلوق کی صورت میں تبدیل ہونے کی خواہش نہیں کرتا الیہ المصیر کا مطلب ظاہر ہے کہ اس سارے کارخانے کو بیکار نہ سمجھو کیونکہ سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے اور تمام امور کا فیصلہ اسی کے حکم سے ہونے والا ہے۔  Show more