Surat ut Taghabunn

Surah: 64

Verse: 6

سورة التغابن

ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَانَتۡ تَّاۡتِیۡہِمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا ۫ فَکَفَرُوۡا وَ تَوَلَّوۡا وَّ اسۡتَغۡنَی اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۶﴾

That is because their messengers used to come to them with clear evidences, but they said, "Shall human beings guide us?" and disbelieved and turned away. And Allah dispensed [with them]; and Allah is Free of need and Praiseworthy.

یہ اس لئے کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے کہہ دیا کہ کیا انسان ہماری رہنمائی کرے گا ؟ پس انکار کر دیا اور منہ پھیر لیا اور اللہ نے بھی بے نیازی کی اور اللہ تو ہے ہی بے نیاز سب خوبیوں والا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ بِأَنَّهُ كَانَت تَّأْتِيهِمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ... That was because there came to them their Messengers with Bayyinat, supporting arguments, evidence, and clear proofs, ... فَقَالُوا أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا ... but they said: "Shall mere men guide us?" They discounted and dismissed the possibility that the Message would be sent to a human and that their guidance would come by the hands of a man like themselves, ... فَكَفَرُوا وَتَوَلَّوا ... So they disbelieved and turned away. they denied the truth and turned away from abiding by it, ... وَّاسْتَغْنَى اللَّهُ ... But Allah was not in need (of them), ... وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَمِيدٌ And Allah is not need, Worthy of all praise.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 چناچہ اس بنا پر انہوں نے رسولوں کو رسول ما ننے سے اور ان پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ 6۔ 2 یعنی ان سے اعراض کیا اور جو دعوت وہ پیش کرتے تھے، اس پر انہوں نے غور و تدبر ہی نہیں کیا۔ 6۔ 3 یعنی ان کے ایمان اور ان کی عبادت سے۔ 6۔ 4 اس کو کسی کی عبادت سے کیا فائدہ اور اس کی عبادت سے انکار کرنے سے کیا نقصان ؟ 6 ۔ 5 یا محمود ہے تمام مخلوقات کی طرف سے یعنی ہر مخلوق زبان حال وقال سے اس کی حمد و تعریف میں رطب اللسان ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] یعنی ایسے دلائل جن سے یہ یقین حاصل ہوسکتا تھا کہ یہ رسول فی الواقع اللہ کے فرستادہ ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنی تعلیمات کے لئے وہ جو دلائل پیش کرتے تھے وہ نہایت معقول اور واضح ہوتے تھے۔ ان میں کسی قسم کا ابہام یا پیچیدگی نہیں ہوتی تھی۔ اور حق و باطل کی پوری پوری وضاحت ہوجاتی تھی۔ [١٢] انہیں اپنے رسول پر بنیادی اعتراض یہ ہوتا تھا کہ یہ تو ہم جیسا ہی ایک بشر ہے اسے ہم اپنا رہنما کیسے مان لیں ؟ کوئی فرشتہ ہماری رہنمائی کے لئے نازل ہوتا تب بھی کوئی بات تھی۔ گویا ان کے نزدیک بشریت اور رسالت میں منافات تھی۔ اسی بنا پر انہوں نے رسولوں کی بات ماننے سے انکار کردیا اور کفر کا راستہ اختیار کرلیا۔ کافروں کے اس اعتراض کا جواب قرآن میں بیشمار جگہ پر دیا گیا ہے کہ انسانوں کے لئے ہدایت کی صرف یہی صورت ہے کہ رسول بشر ہو اور بشر بھی وہ ہو جو ان کی قوم سے ہو اور انہی کی زبان میں بات کرتا ہو۔ اس کے علی الرغم ہمیں تو ان دوستوں کی داد دینا پڑتی ہے جو اسی آیت کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ رسول کو بشر کہنے والا کافر ہے۔ کیونکہ کافر ہی رسولوں کو بشر کہتے تھے۔ اور رسولوں کو بشر کہنا کافروں کا شیوہ ہے۔ اقبال (رح) نے کیا خوب کہا تھا : زمن بر صوفی و ملا سلامے۔۔ کہ پیغام خدا گفتند مارا۔۔ ولے تاویل شان در حیرت انداخت۔۔ خدا و جبرئیل و مصطفٰے را ترجمہ : (میری طرف سے صوفی اور ملا پر سلام ہو کہ انہوں نے ہمیں اللہ کا پیغام پہنچایا۔ لیکن ان کی تاویل نے اللہ کو جبرئیل کو اور اللہ کے رسول سب کو حیرت میں ڈال دیا (کہ ہم نے کہا کیا تھا اور ان لوگوں نے اس سے کیا مطلب نکال لیا) خ ہر رسول بشر ہوتا ہے :۔ مزید برآں یہی نہیں کہ کافر ہی رسولوں کو بشر کہتے تھے۔ بلکہ اللہ نے بھی رسولوں کو بشر ہی کہا ہے اور رسول خود بھی اپنے آپ کو بشر ہی کہتے تھے خواہ مخاطب کافر ہوں یا مسلمان ہوں۔ (تشریح کے لئے دیکھئے سورة کہف کی آیت نمبر ١١٠ کا حاشیہ) [١٣] یعنی اللہ نے تو انہیں کی بھلائی اور رہنمائی کے لئے رسول بھیجے تھے اب اگر یہ گڑھے میں ہی گرنا چاہتے ہیں تو گرا کریں۔ اللہ کو ان کی کیا پروا ہے اگر یہ اللہ اور اس کے رسول کو نہیں مانتے تو اس سے اللہ کی حکومت اس سے چھن تو نہیں جائے گی نہ اس میں کچھ کمی واقع ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَانَتْ تَّاْتِیْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ :” بانہ “ میں ” ہ “ ضمیر کو ضمیر شان کہا جاتا ہے ، اس کا مقصد اس بات کی اہمیت کا اظار ہوتا ہے جو بعد میں آرہی ہوتی ہے۔ ” بینات “ کا لفظی معنی واضح اور روشن چیزیں ہے۔ رسول جو بینات لے کر آئے ان میں وہ معجزے بھی شامل ہیں جو ان کی رسالت کی واضح دلیل تھے اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آیات اور عقلی دلائل بھی جو بالکل واضح اور روشن تھے ، جنہیں سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں تھی ، ان بینات کو دیکھ اور سن کر ان کے رسول ہونے کا یقین حاصل ہوتا تھا۔ ٢۔ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَنَا :” بشر “ اسم جنس ہے جو جمع پر بھی بولا جاتا ہے ، جیسا کہ یہاں ” یھدوننا “ سے ظاہر ہے اور واحد پر بھی ، جیسا کہ فرمایا :(بَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُہٗٓ ) ( القمر : ٢٤)” کیا ایک آدمی جو ہمیں سے ہے اکیلا ، ہم اس کے پیچھے لگ جائیں ؟ “ کفار کے قول میں ’ ’ بشر “ کو تحقیر کے لیے بطور نکرہ استعمال کیا گیا ہے ، گویا وہ کہہ رہے ہیں ” کیا یہ عام سے بشر ہماری رہنمائی کریں گے ؟ “ وہ کسی بشر کو رسول ماننے کے لیے تیار نہیں تھے ، خواہ اس کی رسالت ہر طرح سے ثابت ہوجائے ۔ ان کے خیال میں رسول فرشتہ ہونا چاہیے یا خود اللہ کو ان کے پاس آنا چاہیے۔ ( دیکھئے فرقان : ٢١) یہی وتیرہ پہلے تمام انبیاء کے منکرین کا تھا اور یہی کفار قریش نے اختیار کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر ان کے اس باطل خیال کا ذکر کیا اور اس کا رد فرمایا۔ دیکھئے بنی اسرائیل (٩٤، ٩٥) ، ابراہیم (١٠، ١١) ، کہف (١١٠) ، مومنون (٣٣) ، شعرائ (٨٦) ، یٰسین (١٥) اور سورة ٔ انعام (٩١) ۔ ٣۔ فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللہ ُ ۔۔۔: جب انہوں نے بشر کی رسالت کو محال قرار دیا تو اس کا واضح نتیجہ یہ تھا کہ انہوں نے رسولوں پر ایمان لانے سے انکار کردیا اور منہ پھیرلیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی کچھ پروا نہ کی ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں ، وہ ساری کائنات سے مستغنی اور بےپرواہ ہے۔ وہ اکیلا تمام خوبیوں کا مالک ہے ، کسی کے کفر سے اسے کوئی نقصان نہیں اور نہ ہی کسی کے ایمان سے اس کا کوئی فائدہ ہے۔ ایمان کا فائدہ اور کفر کا نقصان خود انسان ہی کو ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ آل عمران (٩٧) اور سورة ٔ زمر (٧) کی تفسیر۔ ٤۔ کفار کا معاملہ عجیب ہے ، وہ بشر کو رسول ماننے کے تیار نہیں مگر پتھر ، لکڑی اور دھات کے بتوں کو رب مانتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ بینات دیکھ کر بھی یہ کہہ کر ایمان نہیں لاتے کہ ” کیا کوئی بشر ہماری رہنمائی کریں گے ؟ “ گویا انہیں کسی بشر کی رہنمائی قبول نہیں ، خواہ وہ کتنی درست اور کتنی عمدہ ہو ، جبکہ وہ اپنے بڑوں کی غلط راہ پر اندھا دھند چل رہے ہیں ، حالانکہ وہ بھی بشر تھے ، جیسا کہ فرمایا :(قَالُوْٓا اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَآئَ نَا عَلٰٓی اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَ ) ( الزخرف : ٢٢)” انہوں نے کہا کہ بیشک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راستے پر پایا ہے اور بیشک ہم انہی کے قدموں کے نشانوں پر راہ پانے والے ہیں “۔ اگر کسی بشر کی راہ پر چلنا انہیں منظور نہیں تو بڑوں کی راہ پر کیوں چلتے ہیں ؟ اصل بات یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ پر چلنے کے لیے تیار نہیں ، کیونکہ شیطان نے انہیں اور ان کے بڑوں کو اپنی راہ پر لگا رکھا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَقَالُوا أَبَشَرٌ‌ يَهْدُونَنَا (…but they said, “ Shall some mortals give us guidance?”…64:6). Though the word basher [ mortal (s)] is singular, but in meaning it is plural. Therefore, the verb يَهْدُونَنَا ‘give us guidance’ is plural. All unbelievers held the notion that prophets and messengers cannot be human beings. The Qur’ an has time and again falsified and refuted this notion of the unbelievers. Alas, there is also a group of Muslims who denies the mortality of the Allah’ s Messenger. They need to think in which direction they are moving. His mortality is not contradictory to his prophet-hood, nor is it incompatible with his high station of messenger-ship, nor is his being a Messenger inconsistent with his being a Nur (light). He is Nur (light) as well as a mortal. It is a false analogy to compare his light with that of a lamp or of the sun or the moon.

(آیت) فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ يَّهْدُوْنَنَا، لفظ بشر اگرچہ مفرد ہے مگر معنی میں جمع کے ہے، اس لئے یہدون جمع کا لفظ اس کے لئے استعمال فرمایا گیا، بشریت کو نبوت و رسالت کے منافی سمجھنا سبھی کفار کا خیال باطل تھا جس پر قرآن میں جابجا رد کیا گیا ہے، افسوس ہے کہ اب مسلمانوں میں بھی بعض لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت کے منکر پائے جاتے ہیں، انہیں سوچنا چاہئے کہ وہ کدھر جا رہے ہیں، بشر ہونا نہ نبوت کے منافی ہے نہ رسالت کے بلند مقام کے منافی ہے اور نہ رسول کے نور ہونے کے منافی ہے، وہ نور بھی ہیں بشر بھی، ان کے نور کو چراغ اور آفات و ماہتاب کے نور پر قیاس کرنا غلطی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ بِاَنَّہٗ كَانَتْ تَّاْتِيْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ يَّہْدُوْنَنَا۝ ٠ ۡفَكَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَى اللہُ۝ ٠ ۭ وَاللہُ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ۝ ٦ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم/ 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] . ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : {إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا } [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ غنی الغِنَى يقال علی ضروب : أحدها : عدم الحاجات، ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] ، الثاني : قلّة الحاجات، وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس» والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ 2 قدرے محتاج ہونا اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ حمید إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، ( ح م د ) حمید اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور یہ عذاب اس وجہ سے ہے کہ ان کے پاس رسول اوامرو نواہی اور معجزات لے کر آئے تو ان لوگوں نے کہا کہ کیا ہمارے جیسا آدمی ہمیں توحید کی دعوت دے گا سو انہوں نے کتابوں رسولوں اور معجزات کا انکار کیا اور ان پر ایمان لانے سے اعراض کیا اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کی پرواہ نہ کی وہ ان کے ایمان سے بےنیاز اور ستودہ صفات ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦{ ذٰلِکَ بِاَنَّــہٗ کَانَتْ تَّــاْتِیْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَـیِّنٰتِ } ” یہ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول آتے رہے واضح نشانیاں لے کر “ { فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَـنَاز فَـکَفَرُوْا وَتَوَلَّـوْا } ” تو انہوں نے کہا کہ کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے ؟ پس انہوں نے کفر کیا اور رُخ پھیرلیا “ { وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ ۔ } ” اور اللہ نے بھی (ان سے) بےنیازی اختیار کی۔ اور اللہ تو ہے ہی بےنیاز ‘ ستودہ صفات۔ “ یعنی ہر قوم کے لوگ صرف اس بنا پر اپنے رسول (علیہ السلام) کا انکار کرتے رہے کہ یہ تو ہماری طرح کا بشر ہے۔ یہ رسول کیسے ہوسکتا ہے ؟ ان کے اس رویے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا کہ تم جدھر جانا چاہتے ہوچلے جائو۔ یہاں پر یہ نکتہ بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ جیسے رسالت کا انکار بربنائے بشریت (کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا) غلط ہے ‘ ایسے ہی بشریت کا انکار بربنائے رسالت (کہ رسول بشر نہیں ہوسکتا) بھی غلط ہے۔ یہ دراصل ایک ہی سوچ کے دو رُخ ہیں۔ جیسے انسانی جسم کے اندر ایک بیماری کسی ایک عضو پر کینسر کی شکل میں حملہ کرتی ہے تو کسی دوسرے عضوپر اثر انداز ہونے کے لیے کسی اور روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔ چناچہ اس نظریاتی بیماری کی ابتدائی صورت یہ سوچ تھی کہ ایک انسان یا بشر اللہ تعالیٰ کا رسول نہیں ہوسکتا۔ چناچہ ہر قوم نے اپنے رسول (علیہ السلام) پر بنیادی اعتراض یہی کیا کہ یہ تو بشر ہے ‘ یہ بالکل ہمارے جیسا ہے ‘ ہماری طرح کھاتا پیتا ہے اور ہماری طرح ہی چلتا پھرتا ہے۔ فلاں کا بیٹا ہے ‘ فلاں کا پوتا ہے ‘ ہمارے سامنے پلا بڑھا ہے۔ یہ رسول کیسے ہوسکتا ہے ؟ یعنی انہوں نے بشریت کی بنیاد پر رسول (علیہ السلام) کی رسالت کا انکار کردیا۔ بعد میں اس بیماری نے دوسری شکل اختیار کرلی۔ وہ یہ کہ جس کو رسول مان لیا پھر اسے بشر ماننا مشکل ہوگیا۔ کسی نے اپنے رسول کو خدا بنالیا تو کسی نے خدا کا بیٹا ۔ صرف اس لیے کہ اسے بشر ماننا انہیں گوارا نہیں تھا۔ اسی وجہ سے قرآن مجید میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار کہلوایا گیا : { قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ } (الکہف : ١١٠) کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ڈنکے کی چوٹ پر کہیے اور بار بار کہیے کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ ہاں مجھے یہ امتیاز حاصل ہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ لیکن قرآن مجید کے واضح اور تاکیدی احکام کے باوجود مذکورہ نظریات کے اثرات ہماری صفوں میں بھی در آئے ‘ بلکہ ہمارے ہاں تو یہ بھی ہوا کہ اس مسئلے کے تدارک کے نام پر کچھ لوگ دوسری انتہا پر چلے گئے۔ چناچہ اس حوالے سے اگر کسی نے ” بڑے بھائی “ کی مثال بیان کی یا اسی نوعیت کی کوئی دوسری دلیل پیش کی تو اس نے بھی حد ادب سے تجاوز کیا۔ ظاہر ہے جب فریقین ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے لیے بحث و تکرار کریں گے تو نامناسب الفاظ کا استعمال بھی ہوگا اور غلطیاں بھی ہوں گی۔ بہرحال اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر انسان ہی تھے ‘ لیکن پیغمبروں کے بعض خصائص ایسے بھی ہوتے ہیں جو عام انسانوں کے نہیں ہوسکتے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت میں ایسے کئی خصائص کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً جب صحابہ کرام (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود تو صوم وصال (کئی کئی دنوں کا روزہ اور اس طرح کے یکے بعد دیگرے کئی روزے رکھنے) کا اہتمام فرماتے ہیں لیکن ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتے ‘ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَیُّکُمْ مِثْلِیْ ؟ اِنِّیْ اَبِیْتُ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِ ) (١) ” تم میں سے کون ہے جو مجھ جیسا ہے ؟ میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے “۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (فَوَ اللّٰہِ مَا یَخْفٰی عَلَیَّ رُکُوْعَکُمْ وَلَا سُجُوْدَکُمْ ‘ اِنِّیْ لَاَرَاکُمْ وَرَائَ ظَھْرِیْ ) (٢) ” اللہ کی قسم ! (نماز باجماعت میں) تمہارے رکوع اور تمہارے سجدے مجھ پر مخفی نہیں ہوتے ‘ میں تو اپنے پس پشت بھی تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہوں “۔ صحیح بخاری کی روایات میں وَلَا خُشُوْعَکُمْ کے الفاظ بھی ہیں کہ نماز میں تمہارا خشوع بھی مجھ سے مخفی نہیں ہوتا۔ پھر معراج کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راتوں رات مکہ سے بیت المقدس تشریف لے جانا ‘ اس کے بعد آسمانوں کی سیر کرنا اور سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر خصوصی کیفیات کا مشاہدہ کرنا ‘ یہ سب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امتیازی خصائص ہیں۔ دوسری طرف اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بنیادی طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسان تھے اور انسانی داعیات و میلانات رکھتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چوٹ لگتی تو درد محسوس کرتے ‘ جنگ احد میں زخم آیا تو خون کا فوارہ چھوٹ پڑا ‘ بیٹا فوت ہوا تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ کبھی جذبات کی ایسی کیفیت بھی ہوئی کہ زبان سے بددعا بھی نکل گئی : (کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمًا خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بَالدَّمِ ! ) (٣) ” اللہ تعالیٰ اس قوم کو کیسے کامیاب کرے گا جس نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ خون سے رنگین کردیا ! “ بہرحال بلاشبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشر تھے ‘ جیسا کہ قرآن مجید ہمیں تکرار کے ساتھ بتاتا ہے ‘ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا فرمایا تھا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شایانِ شان تھا۔۔۔۔ اب اگلی آیت میں ایمان بالآخرت کا ذکر ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 The word bayyinet as used in the original has a vast meaning. Bayyin (sing. of bayyinat in Arabic is something which is very clear and manifest. Saying about the Prophets that they came with bayyinat gives the meaning that firstly, they brought such manifest signs as bore clear testimony to their having been appointed by AIIah; secondly, they presented whatever they presented with rational and clear arguments; thirdly, there was no ambiguity in their teaching; they clearly explained what was the truth and what was falsehood. what was lawful and what was unlawful, what path man should follow and what he should avoid. 12 This was then the foremost and basic cause of their degenenation and ruin Mankind could not have known the right course of action in the world unless their Creator gave them the correct knowledge, and there could be no practical means of bestowing such knowledge by the Creator unless He blessed some of the human beings with the knowledge and entrusted them with the duty to convey it to other human beings. For this purpose He sent the Prophets with the manifest Signs bayyinat) so that there was-no reasonable ground for the people to doubt their being on the truth. But the people refused to believe that a human being could be a Messenger of God. Then, obviously there could be no other way for them to receive guidance. (For further explanation, see E.N. 11 of Surah Ya Sin) . In this connection, however, a strange manifestation of the ignorance and folly of human beings is seen. They have in fact, never shown any hesitation in accepting the guidance of men, so much so that they have caryed out gods of wood and stone according to their guidance, they have made human beings themselves God, the incarnation of God, even son of God. and they have adopted such strange viewpoints by following the guidance of their mis-leaders blindly, which ruined human civilization and morals altogether. But when the Messengers of God came to them with the truth, and they presented the pure Truth before them without any selfish motive, they said, "Shall mere human beings show us guidance?" This amounted to saying that if a human begin misled them, they would follow his guidance willingly, but if he showed the right path to them, his guidance was not acceptable. 13 That is, when they treated the guidance sent down by Allah with indifference, then AIlah also became indifferent to them and did not care what pit they fell in. AIIah did not stand in need of their aknowledging Him God to sustain and support His Godhead. Nor was He in need of their worship, nor of their praise and adoration. He, in fact, willed to show them the right path only for their own good and well-being. But when they turned away from it, AIlah also became heedless of them. Then, neither He gave them guidance, nor remained responsible for their protection, nor saved them from being afflicted with calamities, nor prevented them from bringing about their own ruin for they themselves were not keen for His guidance and help.

سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :11 اصل میں لفظ بینات استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔ بین عربی زبان میں ایسی چیز کو کہتے ہیں جو بالکل ظاہر اور واضح ہو ، انبیاء علیہم السلام کے متعلق یہ فرمانا کہ وہ بینات لے کر آتے رہے ، یہ معنی رکھتا ہے کہ ایک تو وہ ایسی صریح علامات اور نشانیاں لے کر آتے تھے جو ان کے مامور من اللہ ہونے کی کھلی کھلی شہادت دیتی تھیں ۔ دوسرے ، وہ جو بات بھی پیش کرتے تھے نہایت معقول اور روشن دلیلوں کے ساتھ پیش کرتے تھے ۔ تیسرے ، ان کی تعلیم میں کوئی ابہام نہ تھا ، بلکہ وہ صاف صاف بتاتے تھے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ، جائز کیا ہے اور ناجائز کیا ، کس راہ پر انسان کو چلنا چاہیے اور کس راہ پر نہ چلنا چاہیے ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :12 یہ تھی ان کی تباہی کی اولین اور بنیادی وجہ ۔ نوع انسانی کو دنیا میں صحیح راہ عمل اس کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتی تھی کہ اس کا خالق اسے صحیح علم دے ، اور خالق کی طرف سے علم دیئے جانے کی عملی صورت اس کے سوا کچھ نہ ہو سکتی تھی کہ وہ انسانوں ہی میں سے بعض افراد کو علم عطا کر کے دوسروں تک اسے پہنچانے کی خدمت سپرد کرے ۔ اس غرض کے لیے اس نے انبیاء کو بینات کے ساتھ بھیجا تاکہ لوگوں کے لیے ان کے بر حق ہونے میں شک کرنے کی کوئی معقول وجہ نہ رہے ۔ مگر انہوں نے سرے سے یہی بات ماننے سے انکار کر دیا کہ بشر خدا کا رسول ہو سکتا ہے ۔ اس کے بعد ان کے لیے ہدایت پانے کی کوئی صورت باقی نہ رہی ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، سورہ یٰس ، حاشیہ 11 ) ۔ اس معاملہ میں گمراہ انسانوں کی جہالت و نادانی کا یہ عجیب کرشمہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ بشر کی رہنمائی قبول کرنے میں تو انہوں نے کبھی تامل نہیں کیا ہے ، حتیٰ کہ ان ہی کی رہنمائی میں لکڑی اور پتھر کے بتوں تک کو معبود بنایا ، خود انسانوں کو خدا اور خدا کا اوتار اور خدا کا بیٹا تک مان لیا ، اور گمراہ کن لیڈروں کی اندھی پیروی میں ایسے ایسے عجیب مسلک اختیار کر لیے جنہوں نے انسانی تہذیب و تمدن اور اخلاق کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ۔ مگر جب خدا کے رسول ان کے پاس حق لے کر آئے اور انہوں نے ہر ذاتی غرض سے بالا تر ہو کر بے لاگ سچائی ان کے سامنے پیش کی تو انہوں نے کہا کیا اب بشر ہمیں ہدایت دیں گے ؟ اس کے معنی یہ تھے کہ نشر اگر گمراہ کرے تو سر آنکھوں پر ، لیکن اگر وہ راہ راست دکھاتا ہے تو اس کی رہنمائی قابل قبول نہیں ہے ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :13 یعنی جب انہوں نے اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت سے استغناء برتا تو پھر اللہ کو بھی اس کی کچھ پروا نہ رہی کہ وہ کس گڑھے میں جا کر گرتے ہیں ۔ اللہ کی کوئی غرض تو ان سے اٹکی ہوئی نہ تھی کہ وہ اسے خدا مانیں گے تو وہ خدا رہے گا ورنہ خدائی کا ٹکٹ اس سے چھن جائے گا ۔ وہ نہ ان کی عبادت کا محتاج تھا ، نہ ان کی حمد و ثناء کا ۔ وہ تو ان کی اپنی بھلائی کے لیے انہیں راہ راست دکھانا چاہتا تھا مگر جب وہ اس سے منہ پھیر گئے تو اللہ بھی ان سے بے پروا ہو گیا ۔ پھر نہ ان کو ہدایت دی ، نہ ان کی حفاظت اپنے ذمہ لی ، نہ ان کو مہالک میں پڑنے سے بچایا اور نہ انہیں اپنے اوپر تباہی لانے سے روکا ، کیونکہ وہ خود اس کی ہدایت اور ولایت کے طالب نہ تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(64:6) ذلک یعنی عذاب جو انہوں نے اس دنیا میں بھگتا اور عذاب جو وہ آخرت میں بھگتیں گے۔ بانہ : ب سببیہ ہے ان حرف مشبہ بالفعل ہ ضمیر واحد مذکر غائب ۔ ذالک بانہ بیشک یہ (عذاب دنیا و عذاب آخرت) اس سبب سے ہے۔ کانت تاتیہم۔ ماضی استمراری صیغہ واحد مؤنث غائب (بمعنی جمع مذکر) ہم ضمیر جمع مذکر غائب ان کے پاس آئے تھے یا آیا کرتے تھے رسلہم مضاف مضاف الیہ مل کر فاعل فعل کانت تاتی کا۔ ان کے رسول۔ ان کے پیغمبران، یعنی خدا کے ارسال کردہ پیغمبر جو ان کی طرف بھیجے جاتے تھے۔ بالبینت : ب تعدیہ کے لئے ہے البینت معجزات وواضح دلائل۔ واضح اور روشن دلائل لے کر آتے تھے۔ فقالوا : ف عاطفہ۔ اس کا عطف کانت تاتیہم پر ہے۔ تو یہ (لوگ) کہتے ۔ یا ۔ تو انہوں نے کہا۔ ابشر یھدوننا (یہ ان کا مقولہ ہے) ہمزہ استفہامیہ۔ استفہامیہ ۔ بشر مبتدائ۔ یھدوننا اس کی خبر۔ یھدون مضارع جمع مذکر غائب ۔ نا ضمیر مفعول جمع متکلم۔ کیا آدمی ہم کو ہدایت کریں گے۔ فکفروا : ف ترتیب کا ہے۔ نتیجہ انہوں نے انکار کیا (اپنے پیغمبروں کا) وتولوا۔ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے اور انہوں نے منہ موڑ لیا۔ روگردانی کی۔ تولوا ماضی جمع مذکر غائب تولی (تفعل) مصدر ۔ بمعنی منہ موڑنا۔ پشت پھیرنا ۔ واستغنی اللہ یہ جملہ ، جملہ ماقبل کا معطوف ہے استغنی ماضی واحد مذکر غائب استغناء (استفعال) مصدر۔ اس نے بےپرواہی کی، یعنی اللہ نے ان کے ایمان اور ان کی طاعت سے بےپرواہی کا اظہار فرمایا۔ واللہ غنی حمید : جملہ معترضہ تذییلی ہے صفت مذکورہ ماقبل کی تائید کے لئے آیا ہے۔ اللہ مبتدائ۔ غنی خبر اول حمید خبرثانی۔ غنی غناء سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ واحد مذکر ہے۔ مالدار۔ بےنیاز، بےپرواہ۔ غیر محتاج۔ اللہ تعالیٰ کا اسم صفت ہے۔ حمید بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے بمعنی مفعول۔ ای محمود، جو اپنی ذات میں ہی مستحق حمد ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی اللہ تعالیٰ کو اگر ہماری رہنمائی مقصود تھی تو اسے چاہیے تھا کہ آسمان سے فرشتے بھیجتا نہ کہ ہم جیسے یہ آدمی گویا ان کے نزدیک کوئی پیغمبر بشر (آدمی) نہیں ہوسکتا تھا۔ اللہ تعالیٰنے متعدد ٓیات میں اس خیال کے باطل ہونے کے دلائل دیئے۔ دیکھئے سورة ابراہیم 1010 سورة کہف 110 سورة مومنون 33 سورة شعراء 86 سورة یٰسین 154 یعنی وہ اپنی ذات میں تمام خوبیوں کا مالک ہے اسے کسی کی عبادت کی ضرورت نہیں ہے جو شخص اس کی عبادت کرتا ہے اپنے بھلے کے لئے کرتا ہے اور جو شخص اس کی بادت سے منہ موڑتا ہے وہ اپنا نقصا آپ کرتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی اس کو نہ کسی کی معصیت سے ضرر اور نہ کسی کی طاعت سے نفع ہے، خود مطیع و عاصی ہی کا نفع و ضرر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذلک بانہ .................... یھدوننا (٤٦ : ٦) ” اس انجام کے مستحق وہ اس لئے ہوئے کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی دلیلیں اور نشانیاں لے کر آتے رہے ، مگر انہوں نے کہا ” کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے ؟ “ اور یہ وہی اعتراض تھا جو مشرکین مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کرتے تھے۔ یہ بہت ہی گرا پڑا اعتراض ہے اور خالص جہالت پر مبنی ہے۔ یہ لوگ منصب رسالت کو سمجھے ہی نہیں اور اس بات کو سمجھے ہی نہیں کہ رسول اور رسالت نے انسانوں کے سامنے اللہ کی شریعت اور نظام پیش کرنا ہوتا ہے ، لہٰذا ضروری ہے کہ اس نظام کو ایک بشر اپنے اوپرنافذ کرکے لوگوں کو دکھائے۔ یوں رسول کا بشر ہونا انوکھا نہیں بلکہ ضروری تھا۔ یہ رسول ہی ہوتا ہے جو اسلامی شریعت اور قانون پر عمل کرکے دکھاتا ہے ، اگر رسول اور لوگوں کی جنس ہی الگ ہو تو لوگ رسالت کی ایک عملی صورت سے محروم ہوجائیں گے اور ان کے لئے یہ ممکن ہی نہ ہوگا کہ اس کی اطاعت کریں۔ اپنی ذات ، اپنے اخلاق اور اپنی انداز معیشت میں۔ پھر ان کی یہ رائے خود انسان کی حقیقت سے جہالت پر مبنی ہے کہ اللہ نے انسان کو یہ صلاحیت عطا کی کہ وہ عالم علوی سے ہدایت اخذ کرنے کے قابل ہو ، اور اس کے لئے کسی فرشتے کو رسول بنانے کی ضرورت ہی نہ ہو۔ انسان کے اندر تو اللہ کی روح پھونکی ہوئی ہے اور انسان کی اسی روحانیت کی وجہ سے وہ اللہ سے براہ راست رسالت اخذ کرتا ہے۔ اور اس کے فرائض اللہ کی منشا کے مطابق ادا کرتا ہے۔ یہ انسانوں کے لئے ایک ایسا اعزاز ہے جس سے انکار کوئی جاہل ہی کرسکتا ہے جس کو انسان کے مقام و مرتبہ کا علم نہ ہو۔ اگر کوئی جاہل نہیں ہے تو پھر وہ متکبر اور مغرور ہے۔ اور اپنے کبرغرور کی وجہ سے رسول اللہ کی اطاعت نہیں کرتا۔ گویا یہ اعتراض کرنے والے یا جاہل ہیں یا متکبر اور مغرور ہے۔ اور اپنے کبروغرور کی وجہ سے رسول اللہ کی اطاعت نہیں کرتا۔ گویا یہ اعتراض کرنے والے یا جاہل ہیں یا متکبر ہیں اور نظر انداز کرنے کے قابل ہیں۔ ان کے نزدیک یہ تو جائز ہے کہ جنس انسان کے علاوہ کوئی جنس فرشتے وغیرہ آئیں تو ان کی رسالت کو تو یہ ماننے کے لئے تیار ہیں مگر اپنے میں سے ایک انسان کو یہ رسول ماننے کے لئے تیار نہیں۔ صرف یہی وجہ ہے جس کی بنا پر تاریخ میں لوگوں نے رسولوں کا انکار کیا ، حالانکہ ان کے ساتھ دلائل ومعجزات تھے ، اور اعلیٰ تعلیمات تھیں۔ اس جہالت اور کبر کی وجہ سے لوگوں نے کفر وشرک تو اختیار کیا مگر رسالتوں کا انکار کرتے رہے۔ واستغنی ................ حمید (٤٦ : ٦) ” تب اللہ بھی ان سے بےپرواہ ہوگیا اور اللہ تو ہے ہی بےنیاز اور اپنی ذات میں محمود “۔ اللہ ان کے ایمان اور ان کی اطاعت سے مستغنی ہوگیا۔ اللہ کو ان چیزوں کی ضرورت کیا ہے ۔ اللہ تو ان چیزوں کا اصلا محتاج ہی نہیں ہے ، وہ غنی ہے اور اپنی ذات ہی میں محمود ہے۔ یہ تو تھے وہ لوگ جنہوں نے کفر اور شرک پر اصرار کررہے ہی۔ کیا یہ بھی اسی انجام کو پہنچنے کے خواہش مند ہیں۔ تیسرا پیراگراف دوسرے پیراگراف کا تتمہ ہے کہ رسالت پر اعتراض کے ساتھ یہ لوگ بعث بعد الموت کے بھی منکر ہیں۔ یہ لوگ مکہ اور مدینہ کے مشرک تھے ، جن کے سامنے رسول اللہ کی دعوت پیش کی جارہی تھی۔ اس پیراگراف میں رسول اللہ کو ہدایت فرمائی جاتی ہے کہ آپ بطور تاکید مزید ان تک یہ بات پہنچا دیں کہ مزاح نہ سمجھو تم نے ایک دن اٹھنا ہے۔ پھر اس دن کا ایک منظر بھی پیش کیا جاتا ہے جس میں مکذبین اور مصدقین کا انجام بتایا جاتا ہے۔ آخر میں ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ ایمان لاﺅ اور ہر معاملے میں رسول کی اطاعت کرو اور ہر معاملے کو اللہ کے سپرد کردو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

امم سابقہ کی گمراہی کا سبب : پھر ان لوگوں کے کفر پر جمے رہنے کا سبب بتایا ﴿ ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِيْهِمْ ﴾ (الآیۃ) یہ اس وجہ سے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے ان لوگوں نے ان کی دعوت پر ایمان نہ لانے کا یہ حیلہ نکالا اور یہ بہانہ تراشا کہ یہ تو آدمی ہے اور ہم بھی آدمی ہیں بھلا آدمی، آدمی کو کیا ہدایت دے گا۔ اس جاہلانہ بات کو اٹھایا اور کفر پر جمے رہے اور حق سے اعراض کیا اور اللہ نے ان کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ انجام کار وہ دنیا و آخرت میں سزا کے مستحق ہوئے۔ ﴿وَ اللّٰهُ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ٠٠٦﴾ (اور اللہ بےنیاز ہے) کوئی بھی ایمان نہ لائے تو اس کا کوئی نقصان نہیں، وہ ستودہ صاف ہے ہمیشہ سے حمد وثناء کا مستحق ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) یہ دنیا اور آخرت کا عذاب اس لئے ہے کہ ان پیغمبران کے پاس واضح اور کھلے دلائل لے کر آتے رہے اور یہ لوگ یہی کہتے رہے کہ کیا بشر ہماری رہنمائی کریں گے اور آدمی ہم کو راہ دکھائیں گے غرض انہوں نے انکار اور کفر کا شیوہ اختیار کیا اور اعراض و روگردانی کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے بےنیازی اور بےپروائی کی اور اللہ تعالیٰ بڑا بےنیاز اور جملہ صفات سے متصف ہے۔ یعنی رسول ان کے پاس معجزات اور دلائل لے کر آئے مگر انہوں نے یہ اعتراض کیا کہ ہماری ہدایت کے لئے بشر آئیں گے بشر کی ہدایت کے لئے آسمان سے فرشتے آنے چاہئیں چونکہ بشر کے لئے بشر کا ہادی ہونا ان کی سمجھ میں نہیں آیا اس لئے انہوں نے رسولوں کا انکار اور ان رسولوں پر ایمان لانے اور ان کی تعلیم پر عمل پیرا ہونے سے منکر ہوگئے اور رسولوں کی تعلیم سے اعراض کیا اور روگردانی کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا اور ان کی کوئی پروانہ کی اور اللہ تعالیٰ بےنیاز اور سب خوبیوں سراہا ہے۔ واستغنی اللہ کا مطلب یہ ہے کہ جب انکا اصرار اور کفر پر استمرار بڑھا تو آخر یہ ہوا کہ حضرت حق تعالیٰ نے اپنا دامن رحمت ان کو نصیبوں سے کھینچ لیا اور اپنے سایہ عاطفت سے ان کو محروم کردیا اور یہ حالت انتہائی شقاوت اور بدبختی کی حالت ہے ۔ اعاذنا اللہ منہ۔