Surat ut Tallaq

Surah: 65

Verse: 11

سورة الطلاق

رَّسُوۡلًا یَّتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُبَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ وَ یَعۡمَلۡ صَالِحًا یُّدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ قَدۡ اَحۡسَنَ اللّٰہُ لَہٗ رِزۡقًا ﴿۱۱﴾

[He sent] a Messenger [Muhammad] reciting to you the distinct verses of Allah that He may bring out those who believe and do righteous deeds from darknesses into the light. And whoever believes in Allah and does righteousness - He will admit him into gardens beneath which rivers flow to abide therein forever. Allah will have perfected for him a provision.

یعنی ) رسول جو تمہیں اللہ کے صاف صاف احکام پڑھ کر سناتا ہے تاکہ ان لوگوں کو جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں وہ تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے آئے اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ بیشک اللہ نے اسے بہترین روزی دے رکھی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

رَّسُولاً يَتْلُو عَلَيْكُمْ ايَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ ... A Messenger, who recites to you the Ayat of Allah containing clear explanations, Some said that the Messenger is the subject of what is being sent (as a reminder) because the Messenger is the one that conveys the Dhikr. Ibn Jarir said that what is correct is that the Messenger explains the Dhikr. This is why Allah the Exalted said here, رَّسُولاً يَتْلُو عَلَيْكُمْ ايَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ (A Messenger, who recites to you the Ayat of Allah containing clear explanations), meaning, plain and apparent. The statement of Allah; ... لِّيُخْرِجَ الَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ... that He may take out those who believe and do righteous good deeds, from the darkness to the light. Allah's is like saying; كِتَابٌ أَنزَلْنَـهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَـتِ إِلَى النُّورِ A Book which We have revealed unto you in order that you might lead mankind out of darkness (14:1), and, اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ ءامَنُواْ يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَـتِ إِلَى النُّور Allah is the Guardian of those who believe. He brings them out from darkness into light. (2:257) meaning, out of the darkness of disbelief and ignorance into the light of faith and knowledge. Allah the Exalted called the revelation that He has sent down, light, on account of the guidance that it brings. Allah also called it Ruh, in that, it brings life to the hearts, وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَأ إِلَيْكَ رُوحاً مِّنْ أَمْرِنَا مَا كُنتَ تَدْرِى مَا الْكِتَـبُ وَلاَ الاِيمَـنُ وَلَـكِن جَعَلْنَـهُ نُوراً نَّهْدِى بِهِ مَن نَّشَأءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِى إِلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ And thus We have sent to you Ruh of our command. You knew not what is the book, nor what is faith But We have made it a light wherewith we guide whosoever of Our servants We will. And verily, you are indeed guiding to the straight path. (42:52) Allah's statement, ... وَمَن يُوْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاَْنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا قَدْ أَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا And whosoever believes in Allah and performs righteous good deeds, He will admit him into Gardens under which rivers flow, to dwell therein forever. Allah has indeed granted for him an excellent provision. The same was explained several times before, and therefore, we do not need to repeat its explanation here. All the thanks and praises are due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 رسول، ذکر سے بدل ہے، بطور مبالغہ رسول کو ذکر سے تعبیر فرمایا، جیسے کہتے ہیں، وہ مجسم عدل ہے۔ یا ذکر سے مراد قرآن ہے اور رسولاً سے پہلے اَرْسَلْنَا محذوف ہے یعنی ذکر (قرآن) کو نازل کیا اور رسول کو ارسال کیا۔ 11۔ 2 یہ رسول کا منصب اور فریضہ بیان کیا گیا کہ وہ قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو اخلاقی پستیوں سے شرک و ضلالت کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان و عمل صالح کی روشنی کی طرف لاتا ہے۔ رسول سے یہاں مراد الرسول یعنی حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ 11۔ 3 عمل صالح میں دونوں باتیں شامل ہیں احکام و فرائض کی ادائیگی اور معصیات ومنہیات سے اجتناب، مطلب ہے کہ جنت میں وہی اہل ایمان داخل ہوں گے، جنہوں نے صرف زبان سے ہی ایمان کا اظہار نہیں کیا تھا، بلکہ انہوں نے ایمان کے تقاضوں کے مطابق فرائض پر عمل اور معاصی سے اجتناب کیا تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] یعنی صرف قرآن ہی نازل نہیں کیا بلکہ ایک رسول یعنی محمد رسول اللہ کو بھی مبعوث فرمایا جو اس کی واضح آیات پڑھ کر بھی سناتا ہے پھر اس کے احکام و ارشادات پر عمل کرنے کا طریقہ بھی سکھاتا ہے۔ [٢٦] شرعی عائلی قوانین کی خوبیاں :۔ تاریکیوں سے مراد جہالت کی تاریکیاں ہیں۔ اور یہ تاریکیاں ایک نہیں بلکہ لاتعداد ہوتی ہیں۔ انسان اپنے مسائل کے حل کے لیے جتنے بھی قوانین بناتا ہے وہ ناقص ہی ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس کی محدود عقلی فکر معاشرہ کے جملہ پہلوؤں کا احاطہ کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ اسی لیے ان قوانین میں آئے دن ترمیم و تنسیخ کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں روشنی سے مراد علم وحی کی روشنی ہے۔ جو ایک ہی رہی ہے اور ناقابل ترمیم و تنسیخ اور انسان کی دست برد سے پاک ہوتی ہے۔ اس مقام پر اس ارشاد کی پوری اہمیت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب ہم قدیم و جدید دنیا کے عائلی قوانین پر غور کرتے ہیں اس تقابلی مطالعہ سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ بار بار کی تبدیلیوں اور نت نئی قانون سازیوں کے باوجود معاشرے کے لئے آج تک کسی قوم کو ایسا معقول & فطری اور مفید قانون میسر نہیں آسکا ہے جیسا کہ اس کتاب اور اس کے لانے والے رسول نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہم کو دیا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ رَّسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ اللہ ِ مُبَیِّنٰتٍ :” رسولا “ پچھلی آیت میں مذکور ’ ’ ذکرا “ سے بدل ہے ، یعنی یقینا اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف عظیم ذکر نازل کیا ہے جو رسول ہے ، یعنی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود سراپا نصیحت ہے کہ اس کا قول ، فعل ، حال اور تقریر سب نصیحت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سورة ٔ حجر (٩) میں اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ) ( بیشک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بیشک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں) اس میں ” الذکر “ سے مراد صر ف قرآن مجید نہیں بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل شدہ ساری وحی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بھی حفاظت فرمائی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال و افعال اور احوال و تقریرات کی بھی حفاظت فرمائی ہے۔ ٢۔ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ۔۔۔۔: اس کی وضاحت کے لیے دیکھئے سورة ٔ بقرہ (٢٥٧) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَّسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ اللہِ مُبَـيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللہِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُّدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۝ ٠ ۭ قَدْ اَحْسَنَ اللہُ لَہٗ رِزْقًا۝ ١١ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ ظلم) تاریکی) الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔ کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں نور ( روشنی) النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] ( ن و ر ) النور ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة «2» ، إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] . ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔ تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ ابد قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء/ 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا . وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل : آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء . وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد . وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد : الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب . اب د ( الابد) :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے { خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا } [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

وہ رسول تمہارے سامنے قرآن کریم کی صاف صاف آیات پڑھ کر سناتے ہیں تاکہ ایسے لوگوں کو جو کہ ایمان لائیں اور اعمال صالحہ کریں ان کو کفر سے ایمان کی طرف لے آئیں۔ اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے گا اور نیک اعمال کرے گا اللہ اس کو جنت کے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے ان کو جنت میں بڑا عمدہ انعام دیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ ١{ رَّسُوْلًا یَّـتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُـبَـیِّنٰتٍ لِّـیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ } ” (یعنی) ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اللہ کی آیات بینات تم لوگوں کو پڑھ کر سنا رہا ہے ‘ تاکہ وہ نکالے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے اندھیروں سے نور کی طرف۔ “ یہاں وضاحت کردی گئی کہ ذکر سے مراد اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اللہ کی کتاب (اٰیٰتِ اللّٰہِ مُـبَـیِّنٰتٍ ) ہے۔ سورة البینہ میں اس موضوع کی مزید وضاحت آئی ہے۔ { وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا } ” اور جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے “ دین کے تقاضوں کا درست فہم نہ ہونے کی وجہ سے آج ہمارے ہاں ” اعمالِ صالحہ “ کا تصور بھی محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔ اعمالِ صالحہ سے اصل مراد یہ ہے کہ ایک بندئہ مومن ایمان کے جملہ تقاضوں کو پورا کرے ۔ مکی دور میں جبکہ ابھی شراب ‘ جوا ‘ سود وغیرہ کی حرمت نہیں آئی تھی اور نماز ‘ روزہ ‘ جہاد و قتال وغیرہ کا حکم نہیں آیا تھا ‘ اس دور میں اہل ایمان کے لیے ” اعمالِ صالحہ “ یہی تھے کہ وہ ایمان کی دعوت دیں اور اس راستے پر جو تکلیفیں اور آزمائشیں آئیں انہیں استقامت سے برداشت کریں۔ پھر مدنی دور میں جیسے جیسے مزیداحکام آتے گئے ویسے ویسے ایمان کے تقاضے بھی بڑھتے گئے اور رفتہ رفتہ نماز ‘ روزہ ‘ زکوٰۃ ‘ عشر ‘ حج ‘ انفاق ‘ جہاد و قتال وغیرہ بھی اعمالِ صالحہ میں شامل ہوگئے۔ گویا جس وقت ایمان کا جو تقاضا ہو اسے پورا کرنے کا نام ” عمل صالحہ “ ہے۔ آج ایک عام مسلمان جب قرآن میں ” عمل صالحہ “ کی اصطلاح پڑھتا ہے تو اس سے اس کے ذہن میں صرف نماز ‘ روزہ اور ذکر اذکار کا تصور ہی آتا ہے ‘ جبکہ منکرات کے خلاف جدوجہد اور اقامت دین کے لیے محنت جیسے اہم تقاضوں کو آج اعمالِ صالحہ کی فہرست سے ہی خارج کردیا گیا ہے۔ تو جو کوئی ایمان لانے کے بعد ایمان کے تقاضوں کو بھی پورا کرے گا : { یُّدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَـآ اَبَدًا } ” وہ اسے داخل کرے گا ان باغات میں جن کے نیچے ندیاں بہتی ہوں گی ‘ جن میں وہ لوگ رہیں گے ہمیشہ ہمیش۔ “ { قَدْ اَحْسَنَ اللّٰہُ لَـہٗ رِزْقًا ۔ } ” اللہ نے اس کے لیے بہت عمدہ رزق فراہم کیا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21 Sane of the commentators opine that 'Admonition here implies the Quran and 'Messenger" the Holy Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) ; some others say that "Admonition" implies the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace( himself, because he was admonition for .the people through anti through. We are of the opinion that this second interpretation is more correct, for according to the first commentary the sentence would read 'We have sent down to you an Admonition and sent such a Messenger. " obviously, there is no need for such an interpolation in the Qur'anic passage when it is perfectly meaningful, even snore so, without it. 22 "Out of darknesses Into light" : out of the darknesses of ignorance into the light of knowledge The full significance of this Divine Saying becomes obvious onlv when one studies the other ancient and modern family laws of the world pertaining to divorce, waiting-period and provision of maintenance. This comparative study will show that in spite of the un-ending alterations, modifications and continual legislation no nation has been able so far to build for itself such a rational. natural and socially useful law as had been given by this Book and the Messenger who brought it 1500 wears ago. It has never stood in treed of revision nor it .ever will. I here is no occasion here for a detailed comparative study of it; we have, however, given a brief specimen of it in the concluding portion of our book Huquq az-Zaujain; the,scholars who are interested in the subject can for themselves compare the world's religious and secular laws with this law of the Qur'an and Sunnah.

سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :21 مفسرین میں سے بعض نے نصیحت سے مراد قرآن لیا ہے ، اور رسول سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض کہتے ہیں کہ نصیحت سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں ، یعنی آپ کی ذات ہمہ تن نصیحت تھی ۔ ہمارے نزدیک یہی دوسری تفسیر زیادہ صحیح ہے ، کیونکہ پہلی تفسیر کی رو سے فقرہ یوں بنانا پڑے گا کہ ہم نے تمہاری طرف ایک نصیحت نازل کی ہے اور ایک ایسا رسول بھیجا ہے قرآن کی عبارت میں اس تبدیلی کی آخر ضرورت کیا ہے جب کہ اس کے بغیر ہی عبارت نہ صرف پوری طرح بامعنی ہے بلکہ زیادہ پر معنی بھی ہے ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :22 یعنی جہالت کی تاریکیوں سے علم کی روشنی میں نکال لائے ۔ اس ارشاد کی پوری اہمیت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب انسان طلاق ، عدت اور نفقات کے متعلق دنیا کے دوسرے قدیم اور جدید عائلی قوانین کا مطالعہ کرتا ہے ۔ اس تقابلی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کی تبدیلیوں اور نت نئی قانون سازیوں کے باوجود آج تک کسی قوم کو ایسا معقول اور فطری اور معاشرے کے لیے مفید قانون میسر نہیں آ سکا ہے جیسا اس کتاب اور اس کے لانے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈیڑھ ہزار برس پہلے ہم کو دیا تھا اور جس پر کسی نظر ثانی کی ضرورت نہ کبھی پیش آئی نہ پیش آ سکتی ہے ۔ یہاں اس تقابلی بحث کا موقع نہیں ہے ۔ اس کا محض ایک مختصر سا نمونہ ہم نے اپنی کتاب حقوق الزوجین کے آخری حصہ میں درج کیا ہے ۔ لیکن جو اصحاب علم چاہیں وہ دنیا کے مذہبی اور لادینی قوانین سے قرآن و سنت کے اس قانون کا مقابلہ کر کے خود دیکھ لیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(65:11) یتلوا علیکم : یتلوا مضارع واحد مذکر غائب تلاوۃ (باب نصر) مصدر وہ تلاوت کرتا ہے وہ پڑھتا ہے۔ یہ رسولا کی صفت ہے ای الذی یتلوا علیکم۔ ایت اللہ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول یتلوا کا۔ موصوف ہے اس کی صفت مبینت ہے (اسم فاعل کا صیغہ جمع مؤنث) تفصیل کرنے والیاں، بہت زیادہ روشن یہ صفت ہے ایت کی۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور اپنا پیغمبر بھی بھیجا ۔ جو تمہارے سامنے خدا کی واضح المطالب آیات پڑھ کر سناتا ہے۔ لیخرج۔ لام علت کا۔ یخرج : مضارع منصوب (بوجہ عمل لام) صیغہ واحد مذکر غائب اخراج (افعال) مصدر۔ تاکہ وہ نکال لے آئے۔ یخرج کا فاعل اللہ بھی ہوسکتا ہے اور رسول بھی۔ الذین امنوا۔ صلہ و موصول مل کر یخرج کا مفعول۔ من الظلمت الی النور۔ اندھیروں سے روشنی کی طرف ۔ کفر کی تاریکیوں سے ایمان کی روشنی میں۔ ومن یؤمن باللہ : من شرطیہ ، جملہ شرطیہ۔ یؤمن مضارع مجزوم (بوجہ جواب شرط) صیغہ واحد مذکر غائب ویعمل صالحا اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ یعمل مضارع مجزوم (بوجہ جواب شرط) صیغہ واحد مذکر غائب صلحا مفعول مطلق (محذوف) کی صفت ہے۔ ای عملا صلحا اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا۔ یدخلہ مضارع مجزوم بوجہ جواب شرط صیغہ واحد مذکر غائب ادخال (افعال) مصدر۔ ضمیر فاعل واحد مذکر غائب اللہ کی طرف راجع ہے۔ اور ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب من شرطیہ کی طرف راجع ہے (تو) خدا اس کو داخل کرے گا۔ خلدین فیہا ابدا : یدخلہ کی ضمیر مفعول سے حال ہے فیہا میں ضمیر واحد مؤنث غائب جنت کی طرف راجع ہے۔ خلدین جمع کا صیغہ بلحاظ معنی آیا ہے۔ اگرچہ اس کا مرجع یدخلہ میں ضمیر مفعول ہ واحد مذکر ہے۔ قد احسن قد تحقیق۔ احسن ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب احسان (افعال) مصدر۔ تحقیق اس نے اچھا بنایا۔ اس نے اچھا کیا۔ اس نے احسان کیا۔ رزقا تمیز کی وجہ سے منصوب ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ بیشک خدا نے اس کو خوب رزق دیا ہے۔ قد احسن اللہ لہ رزقا۔ یہ جملہ یا تو یدخلہ کی ضمیر مفعول سے حال ہے یا خلدین کی ضمیر جمع مذکر غائب سے حال ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ذکر سے مراد قرآن ہے اور اگر ذاکر کے معنی میں لیا جائے تو اس سے مراد خود آنحضرت بھی ہوسکتے ہیں۔2 یعنی جنت میں انہیں فراخ روزی دی جو نہ کبھی فنا ہوگی اور نہ کم

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ مطلب یہ کہ جو نصیحت اس رسول کے ذریعے سے پہنچے اس پر عمل کرنا بھی اطاعت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس ذکر کا اس سے پہلے بیان ہوا ہے وہ ذکر ” اللہ “ نے اپنے رسولوں پر نازل فرمایا جن میں آخری رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ الرّسول کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کے احکام لوگوں کے سامنے کھول کھول کر بیان فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنا ذکر یعنی آخری کتاب نازل فرمائی۔ جس کے بارے میں سورة الجمعہ کی ابتدا میں ارشادہوا کہ اسی نے اَن پڑھ قوم میں انہی میں سے ایک رسول منتخب کیا جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتے ہوئے انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے الرّسول کی بعثت سے پہلے لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ سورت ابراہیم کی پہلی آیت میں فرمایا کہ اس کتاب کو ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا اس لیے کہ آپ اپنے رب کے حکم سے لوگوں کو ہر قسم کے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائیں۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب اور لائقِ تعریف ہے۔ یہاں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر نازل کرنے کے ساتھ اپنا رسول بھیجا تاکہ تمہارے سامنے اللہ کے احکام کھول کھول کر بیان کرے اور ان لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لے آئے۔ جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور ایمان لاکر صالح اعمال کرتے ہیں۔ جو بھی اللہ پر ایمان لاکر صالح اعمال کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرماے گا جس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بہترین رزق عطا فرمائے گا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صبح کی نماز سے پہلے دعا : (اللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا وَفِی بَصَرِی نُورًا وَفِی سَمْعِی نُورًا وَعَنْ یَمِینِی نُورًا وَعَنْ یَسَارِی نُورًا وَفَوْقِی نُورًا وَتَحْتِی نُورًا وَأَمَامِی نُورًا وَخَلْفِی نُورًا وَاجْعَلْ لِیّ نُورًا) (رواہ البخاری، کتاب الدعوات، باب الدعا اذا انتبدہ بالیل) ” اے اللہ میرے دل میں نور پیدا فرمادے میری نگاہ میں بھی نور، میرے کا نوں میں بھی نور، میرے دائیں بھی نور، میرے بائیں بھی نور، میرے اوپر بھی نور، میرے نیچے بھی نور، میرے آگے بھی نور، میرے پیچھے بھی نور، اور میرے لیے نور پیدا فرما۔ “ مسائل ١۔ الرسول لوگوں کے سامنے اللہ کے احکام کھول کھول کر بیان کرتے تھے۔ تاکہ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لایا جائے۔ ٢۔ جو لوگ اللہ پر ایمان لائیں اور صالح اعمال کریں گے اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ ہمیش کے لیے جنت میں داخل فرمائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جنتیوں کو بہترین رزق عطا فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن انبیائے کرام (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد : ١۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کا پہلا مقصد ” اللہ “ کی توحید کی دعوت دینا تھا۔ (الانبیاء : ٢٥) ٢۔ ” اللہ تعالیٰ “ نے ہر امت میں رسول مبعوث فرمائے ان کی بعثت کا مقصد لوگوں کو ” اللہ “ کی بندگی کی طرف بلانا اور شیطان کی بندگی سے روکنا تھا۔ (النمل : ٣٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس لیے قرآن مجید نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو ہر قسم کی جہالت سے نکال کر دین کی روشنی کی طرف لانے کی کوشش کریں۔ (ابراہیم : ١) ٤۔ ” اللہ تعالیٰ “ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف اس لیے مبعوث فرمایا کہ وہ انہیں ظلمات سے نکال کر دین کی روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم : ٥) ٥۔ ” اللہ تعالیٰ “ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس لیے مبعوث فرمایا کہ آپ لوگوں کے سامنے اللہ کی کتاب پڑھیں انہیں گناہوں سے پاک کریں، اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیں۔ (الجمعہ : ٢) ٦۔” اللہ تعالیٰ “ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس لیے مبعوث فرمایا کہ آپ انہیں نیکی کا حکم کریں اور برائی سے منع کریں، طیب چیزوں کو ان کے لیے حلال کریں اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیں اور ان سے ناروا بوجھ اتار دیں اور ان کی گردنوں کو ناجائز پابندیوں سے آزاد کریں۔ (اعراف : ١٥٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

رسولا .................... مبینت (٥٦ : ١١) ” ایک رسول جو تم کو اللہ کی صاف صاف ہدایت دینے والی آیات سناتا ہے “۔ یہ نہایت ہی گہرا قابل توجہ نکتہ ہے اور اس کے اوپر کئی دلائل ہیں۔ یہ ذکر جو رسول لوگوں تک پہنچانے کے لئے لائے ہیں وہ رسول اللہ کی شخصیت کے اندر سے وکر ان تک پہنچا ہے۔ آپ صادق وامین تھے اور آپ نے پورا ذکر ان تک پہنچا دیا گویا یہ ذکر خا سے براہ راست ان تک پہنچ گیا۔ اور رسول کی ذات نے اس کا کوئی حصہ چھپایا نہیں تھا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ آیت ذات رسول کو ذکر بتاتی ہے کہ رسول کی ذات پوری کی پوری ذکر ہوگی۔ رسول گویا مجسمہ ذکر ہیں اور وہ زندہ قرآن ہیں۔ اور حضرت عائشہ (رض) نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ : کان خلقہ القرآن ” آپ کے اخلاق قرآن تھے “۔ آپ کے دل میں قرآن تھا اور آپ عملی زندگی میں قرآن پیش کرتے تھے۔ ذکر کے علاوہ اہل ایمان کو نور ، ہدایت ، صالحیت اور جنتوں کی نعمتوں کا وعدہ بھی کیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ جنتوں میں جو رزق ملیں گے۔ وہ دنیا کے ارزاق کے مقابلے میں بہت ہی مکرم رزق ہیں ، بہت ہی احسن ہیں۔ ایک بار پھر رزق کی بات ہوتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ دنیا کا رزق تو ہر کسی کو ملتا ہے۔ اصل رزق تو رزق آخرت ہے ، جبکہ مومنین کے لئے دنیا میں بھی رزق حسن کا وعدہ ہے۔ اور آخر میں پھر پوری کائنات کا زمزمہ جو بہت ہی محیرالعقول حد تک وسیع ہے۔ یوں اس پوری سورت کے موضوع کو یعنی قوانین طلاق کو ، اللہ کے نظام قضاوقدر اور اس وسیع کائنات میں اللہ کے قانون قدرت کے ساتھ ملادیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12 ۔ ” ومن یومن باللہ “ یہ مومنین کے لیے بشارت اخرویہ ہے۔ جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرے اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل فرمائے گا جن میں ہر اعلی مشروب کی ندیاں بہتی ہوں گی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان میں رہیں گے وہاں انہیں جو رزق ملے گا وہ بھی نہایت عمدہ، لذیذ اور اعلی درجہ کا ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(11) وہ ایسا رسول ہے جو تم پر اللہ تعالیٰ کی وہ آیتیں تلاوت کرتا ہے اور تم کو وہ آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے جو احکام الٰہی کو واضح کرنے والی ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئے اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے گا اور نیک اعمال کا پابند رہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں یہ لوگ ان باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے بیشک اللہ تعالیٰ نے ان کو اچھی روزی عطا کی اور خوب دی اللہ نے ان کو روزی۔ آیت کا ترجمہ کئی طرح سے کیا گیا ہے ہم نے ایک طریقہ اختیار کرلیا ہے ذکر کو رسول سے بدل قرار دے کر ترجمہ کرنا سہل ہے اور ذکر بمعنی ذاکر کرنا چاہیے۔ اسی طرح آیات سے جنت کے ترجمہ میں بھی بعض حضرات نے آیات بینت کا ترجمہ واضح احکام کیا ہے مگر ہم نے الفاظ کی رعایت کے ساتھ ترجمہ کیا ہے اسی لئے لیخرجکم میں بعض حضرات نے فاعل کی ضمیر رسول کی طرف راجع کی ہے بہرحال ! اہل ایمان اور اعمال صالح کے بجا لانے والے مسلمانوں کو تاریکی سے نور کی طرف نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ایمان پر قائم رکھے اور مزید اعمال صالح کی توفیق عطا فرمائے اور ان کو دنیوی تاریکیوں سے نکال کر ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل فرمائے یا بناوٹ اور ریا سے محفوظ رکھ کر خلوص کی طرف لے جائے اچھی روزی تو ظاہر ہے کہ جنت کے رزق سے بہتر اور کون سا رزق ہوگا۔ آگے حضرت حق تعالیٰ نے اپنی خالقیت اپنی قدرت اور اپنے واجب الاطاعت ہونے کا اظہار فرمایا۔