Surat ut Tallaq

Surah: 65

Verse: 3

سورة الطلاق

وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمۡرِہٖ ؕ قَدۡ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَدۡرًا ﴿۳﴾

And will provide for him from where he does not expect. And whoever relies upon Allah - then He is sufficient for him. Indeed, Allah will accomplish His purpose. Allah has already set for everything a [decreed] extent.

اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا ۔ اللہ تعالٰی اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا اللہ تعالٰی نے ہرچیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ ... And whosoever has Taqwa of Allah, He will make a way for him to get out. And He will provide him from where he never could imagine. meaning, whoever has Taqwa of Allah in what He has commanded and avoids what He has forbidden, then Allah will make a way out for him from every difficulty and will provide for him from resources he ne... ver anticipated or thought about. Ibn Abi Hatim recorded that `Abdullah bin Mas`ud said, "The most comprehensive Ayah in the Qur'an is, إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالاْحْسَانِ Verily, Allah enjoins Al-`Adl(justice) and Al-Ihsan (doing good). (16:90) The greatest Ayah in the Qur'an that contains relief is, ... وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجا And whosoever has Taqwa of Allah, He will make a way for him to get out." Ikrimah also commented on the Ayah, "Whoever divorces as Allah commanded him, then Allah will make a way out for him." Similar was reported from Ibn Abbas and Ad-Dahhak. Abdullah bin Mas`ud and Masruq commented on the Ayah, وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجا (And whosoever has Taqwa of Allah, He will make a way for him to get out). "It pertains to when one knows that if Allah wills He gives, and if He wills He deprives, مِنْ حَيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ (from where he never could imagine). from resources he did not anticipate" Qatadah said, وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجا (And whosoever has Taqwa of Allah, He will make a way for him to get out). "meaning, from every doubt and the horrors experienced at the time of death, وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ (And He will provide him from where he never could imagine), from where he never thought of or anticipated." Allah said, ... وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ... And whosoever puts his trust in Allah, then He will suffice him. Imam Ahmad recorded that Ibn Abbas said that he rode the Prophet's camel while sitting behind the Prophet, and the Messenger of Allah said to him, يَا غُلَامُ إِنِّي مُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ احْفَظِ اللهَ يَحْفَظْكَ احْفَظِ اللهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ وَإِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَاعْلَمْ أَنَّ الاْاُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ لَكَ وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ عَلَيْكَ رُفِعَتِ الاْاَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُف O boy! I will teach you words (so learn them). - Be mindful of Allah and He will protect you, - be mindful of Allah and He will be on your side. - If you ask, ask Allah, and if you seek help, seek it from Allah. - Know that if the Ummah gather their strength to bring you benefit, they will never bring you benefit, except that which Allah has decreed for you. - Know that if they gather their strength to harm you, they will never harm you, except with that which Allah has decreed against you. The pens have been raised and the pages are dry. At-Tirmidhi collected this Hadith and said: "Hasan Sahih." Allah's statement, ... إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ... Verily, Allah will accomplish his purpose. meaning, Allah will execute His decisions and judgement that He made for him, in whatever way He wills and chooses, ... قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا Indeed Allah has set a measure for all things. This is like His saying: وَكُلُّ شَىْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَار Everything with Him is in (due) proportion. (13:8)   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یعنی وہ جو چاہے۔ اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ 3۔ 2 تنگیوں کے لئے بھی اور آسانیوں کے لئے بھی۔ یہ دونوں اپنے وقت پر انتہا پذیر ہوجاتے ہیں۔ بعض نے اس سے حیض اور عدت مراد لی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] اس مقام پر رزق کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ انسان دوران عدت مطلقہ عورت پر خرچ کرنے اور اس کو بھلے طریقے سے رخصت کرنے میں بخل سے کام نہ لے بلکہ اس سے جتنا بہتر سلوک کرسکتا ہے، کرے۔ نیز بعض دفعہ صورت حال یہ ہوتی ہے کہ میاں بیوی کی آپس میں ٹھنی رہتی ہے۔ مگر عورت صاحب جائیداد ہوتی ہے یا اچھا کما سکتی ... ہے۔ تو خاوند اس کو چھوڑنے پر ہی آمادہ نہیں ہوتا۔ مگر اس سے اچھا سلوک کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوتا ہے۔ لہذا وہ عورت کو اپنے ہاں لٹکائے رکھتا ہے۔ ایسی سب صورتوں میں اللہ سے ڈرتے ہوئے وہی کام کرنا چاہئے جو اللہ کا حکم ہو۔ تنگدستی سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اور اس سے ڈر کر اسی کے حکم کے مطابق چلے گا تو اس کی تنگدستی کو دور کرنا اللہ کے ذمہ ہے۔ وہ اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچانے کا انتظام فرما دے گا جو پہلے اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ [١٣] اس لیے کہ ہر قسم کے ظاہری اور باطنی اسباب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ جبکہ انسان کی نظر صرف چند ظاہری اسباب تک محدود ہوتی ہے۔ لہذا وہ اللہ سے ڈرنے والے کے لیے پریشانیوں سے نجات کی راہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔ اور تنگدستی کو دور کرنے کے لیے نئے اسباب بھی پیدا کرسکتا ہے۔ نیز یہ کہ اللہ کی قدرت اسباب کی پابند نہیں۔ بلکہ اسباب بھی اس کی مشیت کے تابع ہیں۔ وہ ظاہری اسباب سے ایسے نتائج حاصل کرنے کی قدرت رکھتا ہے جو انسانی عقل کے برعکس ہوں۔ جیسے اللہ کی مشیت نہ ہو تو مجرب دوائی بھی الٹا اثر دکھا دیتی ہے۔ یا ایک مضر دوائی سے بعض دفعہ انسان صحت یاب ہوجاتا ہے۔ [١٤] یعنی اگر کسی الجھنوں میں گرفتار شخص کو اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرنے پر نجات کی راہ نہیں مل سکی یا کسی شخص نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنی مطلقہ بیوی سے فیاضانہ سلوک کیا مگر اس کی تنگدستی فوراً دور نہیں ہوئی تو اس سے اسے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ اس کے ہاں ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر ہے اسی کے مطابق وہ ظہور پذیر ہوتی ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ : مفسر عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں :” اس مقام پر رزق کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ انسان دوران عدت مطلقہ عورت پر خرچ کرنے اور اس کو بھلے طریقے سے رخصت کرنے میں بخل سے کام نہ لے ، بلکہ اس سے جتنا بہتر سلوک کرسکتا ہے کرے ۔ نیز بعض دفعہ صورت حال یہ ہوسکتی ہے کہ م... یاں بیوی کی آپس میں ٹھنی رہتی ہے مگر عورت صاحب جائیداد ہوتی ہے یا اچھا کما سکتی ہے تو خاوند اس کی چھوڑنے ہی پر آمادہ نہیں ہوتا ، مگر اس سے اچھا سلوک کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوا ہے ، لہٰذا وہ عورت کو اپنے ہاں لٹکاتے رکھتا ہے ۔ ایسی سب صورتوں میں اللہ سے ڈرتے ہوئے وہی کام کرنا چاہیے جو اللہ کا حکم ہو ، تنگ دستی سے نہیں ڈرنا چاہیے ، کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس سے ڈر کر اسی کے حکم کے مطابق چلے گا تو اس کی تنگدستی کو دورکرنا اللہ کے ذمے ہے ، وہ اسی کو ایسی جگہ سے رزق پہنچانے کا انتظام فرما دے گا جو پہلے اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی “۔ ( تیسیر القرآن) ٢۔ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللہ ِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ۔۔۔۔۔: یعنی جو شخص غلام کام سے بچتے ہوئے حق پر قائم رہے اور اپنا معاملہ اور نفع ہو نقصان اللہ کے سپرد کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے کافی ہوجائے گا ، کیونکہ ہر قسم کے ظاہری اور باطنی اسباب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ، جب کہ انسان کی نطر صرف چند ظاہری اسباب تک محدود ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے اپنے ڈرنے والے کے لیے پریشانیوں سے نجات کی راہ پیدا کرسکتا ہے اور وہ پریشان اور تنگدستی دور کرنے کے لیے نئے اسباب بھی پیدا فرما سکتا ہے۔ اور اسباب کے بغیر بھی جو چاہے کرسکتا ہے ، کیونکہ اس کی قدرت اسباب کی پابند نہیں بلکہ اسباب اس کی مشیت کے تابع ہیں ۔ وہ ظاہری اسباب سے بھی ایسے نتائج ظاہر کرسکتا ہے جو اسانی عقل کے برعکس ہوں ، وہ نہ چاہے تو محرب دوا بھی شفاء کے بجائے بیماری کا باعث بن جاتی ہے اور چاہے تو مضر صحت چیز شفاء کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ٣۔ قَدْ جَعَلَ اللہ ُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا : یعنی اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے باوجود نکلنے کی راہ نہیں ملی اور نہ ہی اللہ پر توکل کے باوجود اس کی پریشانی دور ہوئی ہے تو اسے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ صبر اور حوصلے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور کشادگی کا منتظر رہنا چاہیے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا اسے ہر حال میں پورا کرنے والا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ اور وقت اپنے کامل علم کے ساتھ شروع سے مقرر فرمایا ہے ، اس مقرر وقت پر اس کا توکل کرنے والوں کے لیے کافی ہوجانے کا وعدہ ضرور پورا ہوگا ۔ درحقیقت یہ ہے کہ تقدیر پر ایمان ہی انسان کو مشکلات میں صبر اور حوصلہ دلاتا ہے، فرمایا :(قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ اللہ ُ لَنَاج ھُوَ مَوْلٰـنَاج وَعَلَی اللہ ِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ) (التوبۃ : ٥١)” کہہ دے ہمیں ہرگز نہیں پہنچے گا مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا وہی ہمارا مالک ہے اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ ایمان والے بھروسہ کریں “۔ مزید دیکھئے سورة ٔ قمر (٤٩) ، فرقان (٢) ، رعد (٨) اور سورة ٔ حجر (٢١) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَيَرْ‌زُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بَالِغُ أَمْرِ‌هِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّـهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرً‌ا whoever places his trust in Allah, He is sufficient for him. Surely Allah is to accomplish His purpose. Allah has set a measure for everything....65:3) ۔ In this verse Allah promises those who put their trust in Him that He s... hall suffice for them against all odds, because Allah will execute His decisions that He made for them, in whatever way He wills and chooses. Allah set a measure for all things. It is in accordance with this set measure that He decrees all acts. Tirmidhi and Ibn Majah record from Sayyidna ` Umar (رض) that Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: لو اَنّکم توکّلتم علی اللہ حقّ توکّلہٖ لرزقکم کما یرزق الطّیر تغدوا خماصاً وتروح |"If you trust in Allah as He ought to be trusted, He will provide for you in the same way as He provides for the birds. They leave their nests while hungry in the mornings, but come back in the evenings with their bellies full.|" Sahihs of Bukhari and Muslim transmit on the authority of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Seventy-thousand of my followers will be admitted to Paradise without account.|" Among their other qualities, they will be characterised by having trust in Allah.|" [ Mazhari ] Tawakkul (Trust in Allah) does not mean to forsake the causes and means Allah has created for us to acquire things. One should utilise the means at our disposal. However, instead of relying solely on them, one should rather put his trust in Allah, in that no task shall be accomplished unless Allah wills it. After describing the virtues and blessings of taqwa and Twakkul, the next verses lay down some more rules about divorce and |"iddah.  Show more

وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ ۭ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا یعنی جو شخص اللہ پر توکل اور بھروسہ کرے گا اللہ اس کی مہمات کے لئے کافی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے کام کو جس طرح چاہے پورا کر کے رہتا ہے اس نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر ک... ردیا ہے اسی کے مطابق سب کام ہوتے ہیں ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت عمر بن خطاب سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔ اگر تم اللہ پر توکل کرتے جیسا کہ اس کا حق ہے تو بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں اس طرح رزق دیتا جیسا پرندے جانوروں کو دیتا ہے کہ صبح کو اپنے گھونسلوں سے بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے ہوئے واپس ہوتے ہیں۔ اور صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت میں سے ستر ہزار آدمی بےحساب جنت میں داخل ہوں گے، ان کے اوصاف میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ اللہ پر توکل کرنے والے ہوں گے۔ (مظہری) توکل کے معنی یہ نہیں کہ اللہ کے پیدا کئے ہوئے اسباب و آلات کو چھوڑ دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اسباب اختیار یہ کو ضرور اختیار کرے مگر بھروسہ اسباب پر کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ پر کرے کہ جب تک اس کی مشیت و ارادہ نہ ہوجائے کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ مذکورہ آیت میں تقوی اور توکل کے فضائل و برکات بیان کرنے کے بعد مزید چند احکام طلاق وحدت کے بیان فرمائے ہیں،   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّيَرْزُقْہُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ فَہُوَحَسْبُہٗ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ۝ ٠ ۭ قَدْ جَعَلَ اللہُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا۝ ٣ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أ... عطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو حيث حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة/ 149] . ( ح ی ث ) حیث ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] اور تم جہاں ہوا کرو لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ حَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، وحَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران/ 173] ، أي : کافینا هو، وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة/ 8] ، وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء/ 6] ، أي : رقیبا يحاسبهم عليه، وقوله : ما عَلَيْكَ مِنْ حِسابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَما مِنْ حِسابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنعام/ 52] ، فنحو قوله : عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ [ المائدة/ 105] ، ونحوه : وَما عِلْمِي بِما کانُوا يَعْمَلُونَ إِنْ حِسابُهُمْ إِلَّا عَلى رَبِّي [ الشعراء/ 112- 113] ، وقیل معناه : ما من کفایتهم عليك، بل اللہ يكفيهم وإياك، من قوله : عَطاءً حِساباً [ النبأ/ 36] ، أي : کافیا، من قولهم : حسبي كذا، وقیل : أراد منه عملهم، فسمّاه بالحساب الذي هو منتهى الأعمال . وقیل : احتسب ابْناً له، أي : اعتدّ به عند اللہ الحسیب والمحاسب کے اصل معنی حساب لینے والا یا حساب کرنے والا کے ہیں ۔ پھر حساب کے مطابق بدلہ دینے والے کو بھی ھسیب کہا جاتا ہے ۔ ( اور یہی معنی اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے ہیں ) اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء/ 6] تو خدا ہی ( گواہ اور ) حساب لینے والا کافی ہے ۔ میں حسیب بمعنی رقیب ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے جوان سے محاسبہ کرے گا ۔ حسب ( اسم فعل ) بمعنی کافی ۔ جیسے فرمایا : ۔ حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران/ 173] ہمیں خدا کافی ہے ۔ وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة/ 8] ان کو دوزخ رہی کی سزا کافی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ما عَلَيْكَ مِنْ حِسابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَما مِنْ حِسابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنعام/ 52] ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت : ۔ عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ [ المائدة/ 105] اپنی جانوں کی حفاظت کرو جب تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا ۔ اور آیت : ۔ وَما عِلْمِي بِما کانُوا يَعْمَلُونَ إِنْ حِسابُهُمْ إِلَّا عَلى رَبِّي [ الشعراء/ 112- 113] مجھے کیا معلوم کہ وہ کیا کرتے ہیں ان کا حساب ( اعمال ) میرے پروردگار کے ذمے ہے ۔ کے مفہہوم کے مطابق ہے بعض نے آیت کے یہ معنی کئے ہیں کہ ان کو کافی ہونا تمہارا کام نہیں ہے ۔ بلکہ تیرے اور ان کے لئے اللہ ہی کافی ہے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ عَطاءً حِساباً [ النبأ/ 36] میں حساب بمعنی کافی ہے اور یہ کے محاورہ سے لیا گیا ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ قَدَرُ ( معین وقت) وقت الشیء المقدّر له، والمکان المقدّر له، قال : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات/ 22] ، وقال : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد/ 17] ، أي : بقدر المکان المقدّر لأن يسعها، وقرئ :( بِقَدْرِهَا) أي : تقدیرها . وقوله : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم/ 25] ، قاصدین، أي : معيّنين لوقت قَدَّرُوهُ ، وکذلک قوله فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر/ 12] ، وقَدَرْتُ عليه الشیء : ضيّقته، كأنما جعلته بقدر بخلاف ما وصف بغیر حساب . قال تعالی: وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] ، أي : ضيّق عليه، وقال : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] ، وقال : فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] ، أي : لن نضيّق عليه، وقرئ : ( لن نُقَدِّرَ عليه) «3» ، ومن هذا قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات/ 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد/ 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم/ 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر/ 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ ہے۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا یہ آیت حضرت عوف بن مالک اشجعی کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ دشمن نے ان کے لڑکے کو قید کرلیا تھا پھر بعد میں وہ بہت سے اونٹ لے کر واپس آئے، اور جو شخص رزق میں بھی اللہ تعالیٰ پر توکل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہے۔ سختی اور نی... کی میں اپنا حکم پورا کر کے رہتا ہے سختی ہو یا فراخی اللہ تعالیٰ نے ہر ایک شے کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے کہ اس پر آکر وہ چیز پوری ہوجاتی ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ وَّیَرْزُقْـہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ } ” اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا۔ “ اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ رزق یعنی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کا ہے۔ اس لیے جب کوئی اللہ کا بندہ اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فرمانِ الٰہی : { اِنَّ صَلَاتِیْ وَ... نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ } (الانعام) کو اپنا نصب العین بنانا چاہتا ہے تو اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ یہ اندیشہ بنتا ہے کہ ضروریاتِ زندگی کیسے پوری ہوں گی ؟ چناچہ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اہل ِ ایمان کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے کہ اے میرے بندو ! تمہارا رازق تو میں ہوں اور تمہیں رزق دینے کے لیے میں وسائل و اسباب کا محتاج نہیں ہوں ۔ تم لوگ ایمان و یقین کے ساتھ مجھ پر اعتماد کرکے دیکھو ‘ میں تمہیں وہاں سے رزق دوں گا جہاں سے تمہیں گمان بھی نہیں ہوگا۔ { وَمَنْ یَّـتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ } ” اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے تو اس کے لیے وہ کافی ہے۔ “ جو شخص اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے اپنے معاملات اس کے سپرد کردیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات و حاجات کو اپنے ذمہ لے لیتا ہے۔ اسی بات کو کسی شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے : ؎ کار ساز ما بہ فکر ِکارِ ما فکر ِما در کار ما آزار ما ! کہ ہمارا کارساز تو اللہ ہے ‘ اور وہ ہمارے کاموں کی فکر میں مصروف ہے ‘ اس لیے ہم اپنے کاموں کی فکر کے جھنجھٹ میں کیوں پڑیں ! ظاہر ہے اگر ہم خود اپنے کاموں کی فکر کریں گے تو غلطیاں بھی کریں گے ‘ نقصان بھی اٹھائیں گے اور ٹھوکریں بھی کھائیں گے ‘ تو کیوں نہ ہم اپنے کام اسے سونپ کر خود کو اس کے کام (اقامت دین کی جدوجہد) میں لگا دیں ۔ اللہ تو ایسا قدردان ہے کہ اگر اس کا کوئی بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرتا ہے تو وہ بدلے میں اس کا مددگار بن جاتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَۃِ اَخِیْہِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ حَاجَتِہٖ ) (١) کہ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرنے میں اپنا وقت صرف کرتا ہے تو اللہ اس کی ضرورتیں پوری کرنے میں لگ جاتا ہے۔ تو اگر اللہ کا کوئی بندہ اپنی ذاتی ترجیحات کو پس پشت ڈال کر خود کو براہ راست اللہ تعالیٰ کے کام میں لگا دے گا تو کیا اللہ اس کے معاملات کو خراب ہونے کے لیے چھوڑ دے گا ؟ ہرگز نہیں ! ایسا تو دنیا میں ہم انسانوں کے ہاں بھی نہیں ہوتا ‘ بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس انسان میں تھوڑی سی بھی شرافت اور مروت ہوتی ہے وہ دوسرے انسان کی وفاداری کا بدلہ ضرور چکاتا ہے ۔ چناچہ جب ایک انسان بھی دوسرے انسان کی وفاشعاری کا صلہ دینا ضروری سمجھتا ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک وفاشعار اور متوکل ّ بندے کی کس کس انداز سے دست گیری فرمائے گا ۔ یاد رکھیں ! توکل کا تعلق بندے کے ایمان سے ہے۔ جس قدر گہرا اور پختہ کسی کا ایمان ہوگا ‘ اسی قدرمضبوط اس کا توکل ہوگا۔ آج ہمارے لیے اللہ تعالیٰ پر بھرپور توکل کرنا اس لیے مشکل ہے کہ ہمارا ایمان کمزور ہے۔ تو آیئے ! ہم اپنا ایمان مضبوط کر کے اللہ پر توکل کریں۔ اپنے معاملات کی منصوبہ بندیوں کا دردسر مول لینے کے بجائے تفویض الامر الی اللّٰہ کی حکمت عملی اپنائیں ۔ اپنے معاملات اس کے سپرد کردیں اور اس کے کام کو اپناکام سمجھ کر اس کے لیے اپنا تن من دھن کھپا دیں !۔۔۔۔ - -{ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ بِصِیْرٌج بِالْعِبَادِ ۔ } (المومن) { اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ } ” اللہ تو یقینا اپنا کام پورا کر کے ہی رہتا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے دین کو غالب کرنا ہی ہے ‘ لیکن اس عظیم الشان کام کے لیے جدوجہد کی سعادت وہ اپنے بندوں کے نام کرنا چاہتا ہے۔ اب اس کے لیے ہر انسان کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس منافع بخش ” کاروبار “ میں شریک ہونا چاہتا ہے یا اپنی محرومی پر قناعت کر کے بیٹھے رہنے کو پسند کرتا ہے۔ جیسے ابوبکر ‘ عمر ‘ عثمان ‘ علی ‘ عبدالرحمن بن عوف اور ان کے ساتھی (j) اس جدوجہد میں شریک ہو کر ہمیشہ کے لیے سرخروہو گئے ‘ جبکہ ابوجہل ‘ ابولہب اور ان کے ہم نوائوں نے اس سے بےاعتنائی دکھائی اور ابدی محرومیاں اپنے نام کرالیں۔ آج ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قیام قیامت سے پہلے پہلے اس کرئہ ارضی پر دین اسلام کو غالب تو ہونا ہے اور یقینا ہم جیسے انسانوں کی کوششوں اور قربانیوں سے ہی ہونا ہے ‘ تو کیا ہم اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو تیار ہیں یا محرومین کی صفوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں ؟ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارا تن من دھن غرض سب کچھ اس جدوجہد میں کھپ جائے اور ہماری ہڈیاں چورا بن کر بھی اسلام کی تعمیر نو میں کام آجائیں تو یہ ہماری بہت بڑی کامیابی اور خوش قسمتی ہوگی۔ { قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا ۔ } ” اللہ نے ہرچیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔ “ یہ بہت خوبصورت اور سبق آموز جملہ ہے۔ غلبہ دین کی جدوجہد کے تناظر میں دیکھیں تو اس کا مفہوم واضح تر ہوجاتا ہے ‘ کہ اے راہ حق کے مسافرو ! تمہاری محنت اور جدوجہد کس کس گھاٹی سے ہوتی ہوئی کب ‘ کہاں پہنچے گی اور اللہ کی مدد کب تمہارے شامل حال ہوگی ‘ اللہ کے ہاں یہ سب کچھ طے ہے۔ یقینا اس راستے میں کامیابی کا دارومدار اللہ کی مدد پر ہے ‘ لیکن اللہ کی مدد تو تبھی آئے گی جب تم خود کو اس کا اہل ثابت کرو گے۔ اس کے لیے تمہیں منہج نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپناتے ہوئے ہر اس راستے سے گزرنا ہوگا جس راستے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گزرے اور ہر وہ سختی برداشت کرنا ہوگی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر برداشت کی۔ جب ان تمام امتحانات سے سرخرو ہو کر آگے بڑھو گے تو خود کو ایک ایسے میدان میں کھڑا پائو گے جس کے نشیب و فراز سرزمین ِبدر کے نشیب و فراز سے ملتے جلتے ہوں گے۔ اس میدان کی مخالف سمت سے اسلحہ کی جھنکار اور لَا غَالِبَ لَـکُمُ الْیَوْمَ کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی ہوگی ‘ جبکہ اس کی فضا ملکوتی تقدس کے احساس سے معمور ہوگی۔ جب تم یہ سب کچھ دیکھو اور محسوس کرو تو جان لینا کہ تمہاری جدوجہد کا فیصلہ کن موڑ آپہنچا ہے۔ بس اس موقع پر تم سجدے میں گرجانا اور رو رو کر دعا کرنا کہ اے اللہ ! ہم نے تیرے داعی کی دعوت پر لبیک کہا ! ہم تیرے پیغام کو لے کر قریہ قریہ گھومے ! گلی گلی پھرے ! ایک عرصہ تک ہم نے اپنی صبحیں اور اپنی شامیں اسی فکر میں بتادیں ! ہم نے اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو پھلانگنے اور ہر مشکل گھاٹی کو عبور کرنے کی کوشش کی ! اے اللہ ! ہم نے یہ سب کچھ تیری رضا کے لیے کیا ‘ اور تیری ہی توفیق اور مشیت سے کیا۔ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں معلوم ہے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے ہم کوشش ‘ محنت ‘ ایثار اور قربانی کا حق ادا نہیں کرسکے ! لیکن ہم سے جو ہوسکا وہ ہم نے پوری دیانت داری اور اخلاص سے کیا۔ پروردگار ! ہم نے اپنی سالہاسال کی محنت کو آج اس میدان میں تیرے حضور پیش کردیا ہے ! اے گناہوں کو معاف کرنے والے ! تو ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور ہماری کوتاہیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ہماری اس حقیر سی کمائی کو قبول فرما لے …! اگر یہ دعائیں مذکورہ تمام مراحل طے کرنے کے بعد مانگی جائیں گی تو ضرور قبول ہوں گی ‘ تب اللہ کی مدد بھی آئے گی ‘ فرشتے بھی اتریں گے اور دنیوی کامیابی بھی نصیب ہوگی۔ لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کاروبار بھی چلتا رہے ‘ معیارِ زندگی بھی برقرار رہے ‘ معمولاتِ زندگی میں بھی خلل نہ پڑے ‘ مال و جان بھی محفوظ رہے ‘ بچوں کے کیریئرز بھی بن جائیں اور ہمارے ہی ہاتھوں سے اقامت دین کا ” کارنامہ “ بھی انجام پا جائے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے۔ ایسے لوگ کسی جماعت کے اراکین کی فہرست میں نام لکھوا کر سمجھتے ہیں کہ بس انہوں نے اپنا فرض ادا کردیا ہے ۔ اس کے بعد وہ انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ اب اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی ‘ دین غالب ہوجائے گا اور اس کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کے مستحق ٹھہریں گے۔ گویا اللہ تعالیٰ کو تو معلوم ہی نہیں کہ کس نے کیا قربانی دی ہے ‘ کس نے کتنا وقت لگایا ہے ‘ کس نے کس مرحلے پر کس مہم میں کتنا حصہ ڈالا ہے۔ نہیں ! یہ کوئی اندھیر نگری نہیں ! اللہ کے ہاں ہرچیز اور ہر انسان کے ہر عمل کا حساب موجود ہے ! قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا اس نے ہرچیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے !   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8 These words clearly show that the instructions given above are in the nature of advice and not law. If a matt pronounces divorce against the approved method as explained above, or fails to reckon the waiting-period accurately. or expels the wife from the house without a good reason, or returns to her at the end of the waiting-period only to harass her, or sends her away after a quarrel, or fails...  to call the men to witness the divorce, reconciliation, or separation, if will not affect the legal effects of divorce or reconciliation or separation at all. However, his acting against Allah's advice would be a proof that his heart was devoid of the taste faith in Allah and the Last Day. That is why he adopted a course which a true believer would never adopt. 9 The context itself shows that here "fearing Allah in whatever one does" means to pronounce divorce in accordance with the approved method taught by the Sunnah to reckon the waiting-period accurately, to avoid turning the wife out of the house, to take the wife back if one decides to keep her, at the expiry of the waiting-period with the intention of keeping her equitably and to send her away in a fait; manner if one decides to part with her, and to call two just men to witness the divorce, reconciliation or separation, as the case be. In respect of this, Allah says that whoever acts in fear of Him, He will open for him a way out of the difficulties This automatically gives the meaning That whoever does not fear Allah in these matters, will create for himself such complications and difficulties from which he will find no way out. A study of these words clearly shows that the view of those who hold that the irregular (bid i) form of divorce does not take place at all, and of those who regard a triple divorce pronounced at once or during the same period of purity as a single divorce, is not correct. For if an irregular form of divorce does not take place at alI, it does not create any complication from which one may have to find a way out; and if only a single divorce takes place when one has pronounced three divorces at once, then also there arises no need for a person to seek a way out of a difficulty or complication. 10 It means: "Keeping the divorced wife in the house during the waitingperiod, to maintain her and to pay her the dower, or something in addition, at departure certainly burdens a man financially. To spend on a woman whom one has already decided to send away because of strained relations will surely be irksome, and if the man is also poor, this expenditure will further pinch him. But a man who fears AIIah, should endure all this gracefully. Allah is not niggardly as the people are. If a person spends his wealth in accordance with His law, He will provide for him in a manner beyond alI expectations." 11 That is, there is no power that can prevent Allah's decree from enforcement.  Show more

سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :10 مراد یہ ہے کہ عدت کے دوران میں مطلقہ بیوی کو گھر میں رکھنا ، اس کا خرچ برداشت کرنا ، اور رخصت کرتے ہوئے اس کو مہر یا متعہ طلاق دے کر رخصت کرنا بلا شبہ آدمی پر مالی بار ڈالتا ہے ۔ جس عورت سے آدمی دل برداشتہ ہو کر تعلقات منقطع کر لینے پر آمادہ ہو چکا ہو ، اس پر مال ... خرچ کرنا تو اسے ضرور ناگوار ہو گا ۔ اور اگر آدمی تنگ دست بھی ہو تو یہ خرچ اسے اور زیادہ کَھلے گا ۔ لیکن اللہ سے ڈرنے والے آدمی کو یہ سب کچھ برداشت کرنا چاہیے ۔ تمہارا دل تنگ ہو تو ہو ، اللہ کا ہاتھ رزق دینے کے لیے تنگ نہیں ہے ۔ اس کی ہدایت پر چل کر مال خرچ کرو گے تو وہ ایسے راستوں سے تمہیں رزق دے گا جدھر سے رزق ملنے کا تم گمان بھی نہیں کرسکتے ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :11 یعنی کوئی طاقت اللہ کے حکم کو نافذ ہونے سے روکنے والی نہیں ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: یعنی جو شخص اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ کرے، اﷲ تعالیٰ اُس کا کام بنا دیتا ہے، لیکن کام بنانے کی نوعیت اور اس کا وقت اﷲ تعالیٰ خود مقر فرماتا ہے، کیونکہ اس نے ہر چیز کا ایک نپا تُلا اندازہ طے فرما رکھا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(65:3) ویرزقہ من حیث لا یحتسب : اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے اور یہ بھی جواب شرط ہے۔ وہ اس کو رزق دیتا ہے (اس میں ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع ہے اور ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب من یتق اللہ میں من کی طرف راجع ہے) من حرف جار اور حیث (بمعنی جہاں۔ جس جگہ) اسم ظرف مکان مبنی برضمہ ہے۔ من حیث ایسی جگہ س... ے، جہاں سے ۔ لایحتسب مضارع منفی مجزوم (بوجہ جواب شرط) صیغہ واحد مذکر غائب احتساب (افتعال) مصدر۔ (جہاں سے ) وہ گمان بھی نہیں کرتا۔ علامہ ثناء اللہ پانی پتی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔ ” میں کہتا ہوں کہ :۔ رفتار آیت حضرت عوف کے قصہ کے موافق ہے اور سیاق عبارت کے مناسب حکم عام ہے۔ (یعنی مودر خاص اور حکم عام) اور جملہ معترضہ ہے۔ جملہ سابق حکم کی تائید کر رہا ہے ۔ اس صورت میں آیت کا مطلب اس طرح ہوگا۔ جو مرد اللہ سے ڈرتا ہے اللہ کو بلا قصور نہیں ستاتا اور ظلم نہیں کرتا۔ اگر عورت کی بدزبانی بد مزاجی اور نافرمانی کی وجہ سے طلاق دے دے۔ اور یہ طلاق حیض کی حالت میں بھی نہ ہو بلکہ طہر کی حالت میں دی گئی ہو اور عورت کی عدت لمبی کرکے اس کو ضرر پہنچانا بھی مقصود نہ ہو۔ (کہ جب عدت کے ختم ہونے کا وقت آجائے تو رجوع کرلے اور پھر طلاق دیدے اور پھر ختم عدت ک کے وقت رجوع کرلے اور پھر طلاق دیدے) اور عورت کو ایام عدت میں گھر سے نہ نکالے اور اللہ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز نہ کرے تو اللہ اس کے لئے گناہ سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اس بدزبان عورت ، بد مزاج، نافرمان عورت کے بدلے فرمانبردار، نیک ، پرہیزگار ، بی بی عنایت فرما دیتا ہے جو اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو عورت اللہ سے ڈرے اور خاوند کی حق تلفی نہ کرے بدزبانی سے پیش نہ آوے بےوجہ طلاق کی خواستگار نہ ہو بلکہ شوہر اگر اس کو دکھ پہنچاتا ہو تو صبر کرے اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرے تو اللہ اس کے لئے راہ نجات نکال دیتا ہے اور اس کو بیگمان طریقہ سے رزق عطا فرماتا ہے اور ظالم و بدمزاج شوہر کے بجائے نیک حق شناس شوہر مرحمت فرما دیتا ہے “۔ فائدہ : بغوی نے بروایت مقاتل بیان کیا ہے کہ عوف بن مالک اسجعی کے بیٹے کے ہاتھ (دشمن کی کچھ) بکریاں اور سامان لگ گیا۔ وہ بکریاں اور سامان لے کر اپنے والد کے پاس واپس آگئے۔ حضرت عوف نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر واقعہ عرض کردیا اور دریافت کیا کہ کیا یہ چیزیں میرے لئے حلال ہیں جو بیٹا لے کر آیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ہاں (حلال ہیں) اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ (اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے) جملہ شرط ہے فھو حسبہ جواب شرط ہے (تو وہ اس کو بس ہے، اس کو کافی ہے) ۔ حسبہ۔ مضاف مجاف الیہ۔ ہ ضمیر من کی طرف راجع ہے اور ھو کا مرجع اللہ ہے ۔ حسب : حسب یحسب (باب نصر) کا مصدر ہے بمعنی فاعل آیا ہے۔ بس ہے کافی ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ وان یریدوا ان یخدعون فان حسبک اللہ (8:62) اور اگر یہ چاہیں کہ تم کو فریب دیں تو خدا تمہیں کفایت کرے گا۔ (یعنی خدا تمہارے لئے کافی ہے۔ اور واذا قیل لہ اتق اللہ اخذتہ العزۃ بالاثم فحسبہ جھنم (2:206) اور جب اس سے کہا جاتا ہے ہے کہ خدا سے خوف کر۔ تو غرور اس کو گناہ میں پھنسا دیتا ہے سو ایسے کو (بطور سزا) جہنم ہی کافی ہے ان اللہ بالغ امرہ : ان حرف مشبہ بالفعل ۔ اللہ اسم ان بالغ امرہ ، ان کی خبر امرہ مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف الیہ بالغ مضاف، بالغ بلوغ (باب نصر) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ پہنچنے والا۔ پالنے والا۔ ترجمہ ہوگا :۔ بیشک اللہ تعالیٰ اپنے کام تک پہنچ کر رہتا ہے یعنی پورا کرکے رہتا ہے کوئی اس کی تکمیل ارادہ سے نہیں روک سکتا۔ قدرا : بمعنی اندازہ، طاقت ، گنجائش، فراخی (قاموس) آیت میں وقتی اندازہ یعنی مقررہ وقت مراد ہے (بیضاوی) قدر یقدر (باب ضرب) سے قد (مصدر) بمعنی اندازہ کرنا۔ اندازہ لگانا۔ قد ریقدر (باب نصر) قد بمعنی کسی چیز پر قادر ہونا۔ اس کی طاقت رکھنا۔ اور اسی مصدر سے باب ضرب و نصر سے بمعنی خدا کا رزق تنگ کرنا ہے۔ آیت ہذا میں بمعنی کسی چیز کا اندازہ مقرر کرنا۔ وقت مقرر کرنا ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ (1) اور خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے (مولنا فتح محمد جالندھری و تفسیر حقانی) (2) خدا نے ہر چیز کا وقت مقرر کر رکھا ہے جس میں کوئی تغیر وتبدل ممکن نہیں ہے (بیضاوی، روح المعانی) (3) مقرر کر رکھا ہے اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک اندازہ (ضٰیاء القرآن) (4) طلاق، عدت وغیرہ کی بابت ایک حد۔ ایک وقت مقرر۔ ایک اندازہ کر رکھا ہے۔ (السیر التفاسیر)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں۔ شعبی اور ضماک کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ جو شخص مسنون طریقہ سے طلاق دیتا ہے اللہ تعالیٰمدت میں رجوع کے لئے اس پر راستہ کھول دیتا ہے یا مصیبت میں صبر پر دوزخ سے بچ کر جنت میں داخل ہونے کا راستہ بنا دیتا ہے۔ اول کلبی کا ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ حرام کام... وں سے بچنے کا راستہ نکال دیتا ہے وغیرہ آیت اپنے عموم کے اعتبار سے ان تمام اقوال کو شامل ہے۔ (شوکانی)9 حضرت عمر سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰپر صحیح بھروسا کرو تو وہ تمہیں پرندوں کی طرح روزی دے جو صبح کو خالی پیٹ نکالتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر پلٹتے ہیں۔ (ترمذی)10 ینی کوئی بھروسا کرے یا نہ کرے بہرحالت قدیر کا نوشتہ پورا ہو کر رہے گا پھر توکل کا ثواب کیوں کھویا جائے۔11 یعنی خوشحالی ہو یا تنگدستی بہرحال اس کی ایک انتہا ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اگر ضرر و نفع و رزق اخروی لیا جاوے تب تو یہ معنی ہوں گے کہ عذاب سے نجات دے گا، اور جنت کا رزق دے گا اور اگر ضرر و نفع دنیوی مراد ہے تو اس کے تحقق کی دو صورتیں ہیں، ایک حسا کہ اکثری ہے کہ وہ بلا ٹل جاوے اور رزق وغیرہ کی فراخی ہوجاوے، دوسرے بطنا کہ کلی ہے کہ اس بلا پر صبر ہوجاوے کہ یہ بھی حکما مثل ... رزق حسی کے ہے اثر سکون و طمانینت میں اور اس کو لا یحتسب کہنا بایں معنی ہوگا کہ ظاہرا تو سکون نفس کا طریقہ فراخی رزق ہے قناعت سے سکون من حیث لا یحتسب ہے۔ 5۔ یعنی اپنی کفایت کا اثر خاص اصلاح مہمات ظاہر فرماتا ہے۔ 6۔ آگے پھر عود ہے احکام کی طرف۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ومن .................... یحتسب (٥٦ : ٣) ” جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لئے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو “۔ وہ دنیا اور آخرت کی تنگیوں سے انہیں نکال دے گا۔ اور رزق ایسے ذرائع سے اسے دے گا جدھر کا اسے گمان ... بھی نہ ہوگا۔ یہ ایک عام فیصلہ اور دائمی حقیقت ہے۔ لیکن یہاں ان اصولوں کو احکام طلاق پر منطبق کیا جاتا ہے۔ اشارہ یہ ہے کہ ان احکام پر پورا پورا عمل کرو۔ خدا خوفی ایک ایسا ضابطہ ہے جو ایسے معاملات میں سب سے زیادہ کارگر ہے۔ خوف خدا ہی انسان کے لئے ایک اچھا نگراں ہے ورنہ قانونی ضوابط میں سے لوگ اپنے لئے راہیں نکال لیتے ہیں صرف تقویٰ ہی انسان کو صحیح عمل پر گامزن کرسکتا ہے۔ ومن یتوکل ............................ لاغ امرہ (٥٦ : ٣) ” جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لئے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے “۔ اس معاملے میں سازشوں کی بڑی گنجائش ہوتی ہے ، اور بعض اوقات سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے سازش کرنی پڑتی ہے ، یہاں کہا جاتا ہے کہ ایسی سازشیں نہ کرو ، اللہ پر بھروسہ کرو ، اور جو لوگ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں وہ ان کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اللہ اپنے کام کرکے رہتا ہے ، وہ جو فیصلے کرچکا ہے وہ واقع ہوکر رہتا ہیں۔ لہٰذا اللہ اور اس کے فیصلوں پر بھروسہ کرنا ، جبکہ وہ بڑی قوت ہے اور جو چاہتا ہے ، کرتا ہے ۔ کامیابی کا بڑا ذریعہ ہے۔ یہ آیت عام ہے۔ مقصد یہ ہے کہ دلوں کے اندر ایمان اور بھروسے کی صحیح کیفیت پیدا کی جائے۔ اللہ کے ارادے اور اللہ کی تقدیر کے حوالے سے۔ لیکن یہاں چونکہ یہ عام بات طلاق کے حوالے سے آئی ہے تو اس کا یہاں خاص طلاق کی طرف بھی اشارہ ہے ، کیونکہ یہ بھی اللہ کے فیصلوں میں سے ایک فیصلہ ہے۔ قد جعل ................ قدرا (٥٦ : ٣) ” اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک تقدیر مقرر کررکھی ہے۔ “۔ ہر چیز اس کی مقدر ہے ، اس کے زیر نگین ہے ، ہر واقعہ کی ایک جگہ ، ایک مقام ہے۔ اس کے حالات ، اس کے اسباب اور نتائج اس کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ کوئی چیز از خود وجود میں نہیں آتی۔ نہ یہ معاملات یونہی چلتے ہیں جس طرح کوئی چلائے۔ یہ پوری کائنات ، نفس انسانی اور اس کی زندگی کے تمام واقعات ، اسی عظیم حقیقت کے نتیجے میں نمودار ہوتے ہیں یعنی مطابق تقدیر الٰہی۔ (اس پر ہم نے آیت۔ ) وخلق ................ تقدیرا کے ضمن میں تفصیل سے بات کی ہے دیکھئے سورة الفرقان : ٢) یہاں مقصد یہ ہے کہ یہ طلاق اور یہ رجوع ، عدت ، شہادت ، ادائیگی شہادت وغیرہ سب احکام اللہ کے ہاں مقدر ہیں۔ اور یہ اس طرح ہوتے چلے جاتے ہیں جس طرح کائنات میں سنت الٰہیہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس طرح انسان ان معاملات کو یوں سمجھتا ہے جس طرح اللہ کے ہاں فیصلے ہوتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ﴾ (اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے رزق ملنے کا خیال بھی نہ ہو) اس میں مومن بندوں کے لیے بہت بڑی تعلیم ہے جو شخص فرمانبرداری کرے گا نیک اعمال میں لگے گا گناہوں سے بچے گا اور احکام شرعیہ پر عمل کرے گا (خواہ طلاق یا رجعت سے متعلق ہوں جن کا یہاں ذکر ہے۔ خو... اہ زندگی کے دوسرے شعبوں سے متعلق) ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی ہے۔ تقویٰ مومن بندوں کے لیے دنیا و آخرت میں فلاح کا ذریعہ ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ والوں سے دو وعدے کیے ہیں اول یہ کہ جو شخص تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی مخرج یعنی مشکلات سے نکلنے کا راستہ نکال دے گا۔ دنیا میں مشکلات تو پیش آتی ہی رہتی ہیں۔ لوگ ان کے لیے تدبیریں کرتے رہتے ہیں بعض لوگ گناہوں کے ذریعہ ان کو دفع کرنا چاہتے ہیں لیکن پھر بھی مشکلات میں پھنسے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے وعدہ فرمایا کہ جو شخص تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا فرما دے گا۔ حضرت ابن عباس (رض) کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں (کیا رجوع کرنے کی کوئی صورت ہے) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ تم لوگ حماقت کا کام کرتے ہو پھر کہتے ہو اے ابن عباس، اے ابن عباس، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ٠٠٢﴾ اور اے سائل تو اللہ سے نہیں ڈرا۔ میں تیرے لیے کوئی مخرج یعنی مشکل سے نکلنے کا راستہ نہیں پاتا، تو نے اللہ کی نافرمانی کی تیری عورت تجھ سے جدا ہوگئی۔ (رواہ ابو داؤد صفحہ ٢٩٩) دوسرا وعدہ یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے والے کو اللہ ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اس کا دھیان بھی نہ ہوگا۔ دونوں وعدے دنیا سے متعلق ہیں اور آخرت سے بھی، تقویٰ اختیار کرنے والے کے لیے دنیا میں بھی خیر ہے مشکلات سے چھٹکارہ ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق ملتا ہے جہاں سے خیال بھی نہ ہو۔ یہ باتیں آزمائی ہوئی ہیں۔ حضرت ابوذر (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بیشک میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں اگر لوگ اس پر عمل کرلیں تو ان کے لیے کافی ہوجائے۔ وہ آیت یہ ہے : ﴿ وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ٠٠٢ وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ﴾ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٥٣) ﴿وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ ١ؕ﴾ (اور جو شخص اللہ پر بھروسہ کرے سو اللہ اس کے لیے کافی ہے) اس سے پہلے متقی کے لیے غیبی مدد اور خیر و خوبی اور رزق کا وعدہ فرمایا اور اس جملہ میں توکل کرنے والوں سے خیر کا وعدہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لیے کافی ہے یہ بھی بہت بڑی بشارت ہے اور اللہ کی طرف سے مدد اور نصرت کا اعلان ہے۔ تقویٰ اور توکل دونوں بڑی اہم چیزیں ہیں مومن کی گاڑی کے پہیے ہیں۔ کوئی دونوں کو اختیار کر کے تو دیکھے پھر دونوں چیزوں کی برکات بھی دیکھ لے۔ حضرت عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ انسان کا دل ہر وادی میں کچھ نہ کچھ مشغول رہتا ہے سو جس شخص نے اپنے دل کو ان سب مشغولیتوں میں لگا دیا اس کے بارے میں اللہ کوئی پرواہ نہیں کرے گا کہ اسے کس وادی میں ہلاک کر دے اور جو شخص اللہ پر توکل کرے اللہ اس کے سب کاموں کی کفایت فرمائے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٥٣) حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تم اللہ پر توکل کرتے جیسا کہ توکل کا حق ہے تو وہ تمہیں اس طرح رزق دیتا جیسے پرندوں کو رزق دیتا ہے وہ صبح کو خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ واپس آجاتے ہیں۔ توکل کے درجات ہیں ترک اسباب بھی ایک درجہ ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی کو اختیار فرمایا کہ میری طرف یہ وحی نہیں کی گئی کہ مال جمع کروں اور تاجروں میں سے ہوجاؤں بلکہ میری طرف یہ وحی کی گئی ہے۔ ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَۙ٠٠٩٨ وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ (رح) ٠٠٩٩﴾ (اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کیجئے اور سجدہ کرنے والوں میں سے رہیے اور موت آنے تک اپنے رب کی عبادت کیجئے) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٤٤) اسباب اختیار کرتے ہوئے بھی بندہ متوکل ہوسکتا ہے بشرطیکہ اسباب پر بھروسہ نہ ہو بھروسہ اللہ پر ہی ہو اور حقیقی رازق اسی کو سمجھتا ہو جب یہ بات حاصل ہوجائے تو بندہ اسباب اختیار کرنے میں بھی گناہ سے بچتا ہے اور رزق حاصل کرنے کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کرتا جس میں گناہ کو اختیار کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا انداز مقرر فرمایا ہے : ﴿اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ ١ؕ﴾ (بیشک اللہ اپنا کام پورا کر ہی دیتا ہے) وہ جو ارادہ فرمائے گا اس کے ارادہ کے مطابق ہو کر رہے گا اور احکام تشریعیہ میں جو حکم دینے کا ارادہ کرے گا وہ حکم دے ہی دے گا اس کے ارادہ کو کوئی روکنے والا نہیں۔ ﴿ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ٠٠٣﴾ (بےشک اللہ نے ہر چیز کو ایک انداز مقرر میں رکھا ہے) ۔ اسی کے مطابق تکوینی اور تشریعی احکام نافذ ہوتے رہتے ہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کو خیال بھی نہیں ہوتا اور جو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہوتا ہے بیشک اللہ تعالیٰ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنا کام پورا کرلیتا ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کررکھا ہے۔ میاں...  بیوی کے تعلقات میں چونکہ تقویٰ اور پرہیزگاری کا بڑا دخل ہے کیونکہ اس کے بغیر حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کا امکان ہے اس لئے تقوے کی تاکید کرتے ہوئے اوپر فرمایا تھا کہ پرہیزگاروں کے لئے مخلصی اور کشائش کی راہ نکال دی جاتی ہے۔ اب فرمایا رزق رسانی بھی بیگمان ہوتی ہے اور جو شخص اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام امور میں کافی ہوجاتا ہے یعنی متوکل کی تمام ضرورتوں اور حاجتوں کا ذمے دار ہوتا ہے بشرطیکہ توکل صحیح ہو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایسا توکل کرو جو توکل کرنے کا حق ہے تو اللہ تعالیٰ اس طرح تم کو رزق دے جس طرح پرندوں کو روزی دیتا ہے کہ وہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس ہوتے ہیں یہ جو فرمایا اللہ تعالیٰ اپنا کام پورا کرلیتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے کام پر پوری طرح قابو یافتہ ہے۔ سورہ یوسف میں فرمایا تھا واللہ غالب علی امرہ یہاں غالب کو مقلوب کرکے فرمایا بالغ امرہ اللہ تعالیٰ نے ہر شئی کا اندازہ مقررکررکھا ہے یعنی جو چیز نازل فرماتا ہے وہ اندازے کے ساتھ نازل فرماتا ہے اگرچہ ہر شئی کے خزانے موجود ہیں آگے ان عورتوں کی عدت کو فرمایا جن کو حیض نہیں آتا۔  Show more