Surat ut Tehreem

Surah: 66

Verse: 4

سورة التحريم

اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اِلَی اللّٰہِ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوۡبُکُمَا ۚ وَ اِنۡ تَظٰہَرَا عَلَیۡہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوۡلٰىہُ وَ جِبۡرِیۡلُ وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَعۡدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ ﴿۴﴾

If you two [wives] repent to Allah , [it is best], for your hearts have deviated. But if you cooperate against him - then indeed Allah is his protector, and Gabriel and the righteous of the believers and the angels, moreover, are [his] assistants.

۔ ( اے نبی کی دونوں بیویو ! ) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو ( تو بہت بہتر ہے ) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی پس یقیناً اس کا کار ساز اللہ ہے اور جبرائیل ہیں اور نیک اہل ایمان اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

but if you help one another against him, then verily, Allah is his Protector, and Jibril, and the righteous among the believers; and after that the angels are his helpers. I said, `Messenger of Allah, have you divorced them?' He said, `No.' I stood at the door of the Masjid and called out at the top of my voice, `The Messenger of Allah has not divorced his wives.' It was on this ... occasion that this Ayah was revealed, وَإِذَا جَأءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الاٌّمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُوْلِى الاٌّمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ When any matter pertaining to peace or alarm comes to them, they broadcast it; whereas, if they would refer it to the Messenger and those who have been entrusted with authority among them, those of them who are engaged in obtaining intelligence would indeed know (what to do with) it. (4:83) It was I who understood (and properly investigated) this matter." Similar was said by Sa`id bin Jubayr, Ikrimah, Muqatil bin Hayyan, Ad-Dahhak and others. The Ayah, وَصَالِحُ الْمُوْمِنِينَ (and the righteous among the believers); refers to Abu Bakr and `Umar. Al-Hasan Al-Basri added Uthman to them. Layth bin Abi Sulaym said from Mujahid: وَصَالِحُ الْمُوْمِنِينَ (and the righteous among the believers); includes Ali bin Abi Talib also. Al-Bukhari recorded that Anas said, "Umar said, `The wives of the Prophet were all jealous for his affection, and I said to them, عَسَى رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ (Maybe his Lord, if he divorces you, will give him instead of you, wives better than you). Thereafter, this Ayah was revealed."' عَسَى رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّوْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَايِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَايِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یا تمہاری توبہ قبول کرلی جائے گی یہ شرط ان تتوبا کا جواب محذوف ہے۔ 4۔ 2 یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں اور وہ ہے ان کا ایسی چیز پسند کرنا جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ناگوار تھی (فتح القدیر) 4۔ 3 یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں تم جتھہ بندی کروگی تو نبی کا کچھ نہیں بگاڑ سکو...  گی، اس لئے کہ نبی کا مددگار تو اللہ بھی ہے اور مومنین اور ملائکہ بھی۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] سیدہ عائشہ (رض) اور حفصہ (رض) کی خطا۔ ١۔ نبی کے لیے حلال و حرام بنانے پر ایکا & ٢۔ افشائے راز :۔ سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر (رض) سے پوچھا : امیرالمومنین ! یہ دو عورتیں کون کون تھیں، جنہوں نے رسول اللہ کو ستانے کے لیے ایکا کیا تھا ؟ ابھی میں نے بات پوری بھی نہیں کی تھ... ی کہ انہوں نے کہہ دیا : && وہ عائشہ (رض) اور حفصہ (رض) تھیں && (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة تحریم) ان پر اللہ کی طرف سے جو گرفت ہوئی اور کہا گیا کہ تم راہ راست سے ہٹ چکی ہو تو اس کی وجوہ دو تھیں کہ انہوں نے آپس میں باہمی رقابت کی بنا پر رسول اللہ کو ایک ایسی بات پر مجبور کردیا جو ان کے شایان شان نہ تھی اور اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب بھی نازل ہوا اور اس کا سبب یہی دونوں بنی تھیں اور دوسری یہ کہ انہوں نے نبی کی راز کی بات کو افشا کرکے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ کیونکہ وہ کسی عام آدمی کی بیویاں نہ تھیں بلکہ اس ہستی کی بیویاں تھیں جسے اللہ تعالیٰ نے انتہائی اہم ذمہ داری کے منصب پر مامور فرمایا تھا اور جسے ہر وقت کفار و مشرکین اور منافقین کے ساتھ ایک مسلسل جہاد سے سابقہ درپیش تھا۔ آپ کے ہاں بیشمار ایسی راز کی باتیں ممکن تھیں کہ اگر وقت سے پہلے افشا ہوجاتیں تو اس کار عظیم کے مقصد کو شدید نقصان پہنچ سکتا تھا جو آپ کے ذمہ ڈالا گیا تھا۔ اور اس غلطی پر انہیں ٹوکا اس لیے گیا تھا کہ ازواج مطہرات، بلکہ معاشرہ کے تمام ذمہ دار افراد کی بیویوں کو رازوں کی حفاظت کی تربیت دی جائے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ اِنْ تَتُوْبَآ اِلَی اللہ ِ ۔۔۔۔: اس آیت میں خطاب عائشہ اور حفصہ (رض) سے ہے ۔ عبد اللہ بن عباس (رض) عنہانے فرمایا :(لم ازل حریصا ان اسال عمر عن المراتین من ازواج النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللتین قال اللہ تعالیٰ :( ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما) ( حتیٰ حج عمر و حججت معہٗ فلما کنا ببعض ال... طریق عدل عمر و عدلت معہ بالا دواۃ فتبر ز ثم الانی فسکبت علی یدیہ فتوضا فقلت یا امیر المومنین ! من المر من ازوج النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللتان قال اللہ عزوجل لھما :( ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما) ؟ قال عمر واعجبا لک یا ابن عباس ! ھی حفصۃ و عائشۃ) (مسلم ، الطلاق ، باب فی الایلائ۔۔۔۔: ٣٤، ١٤٧٩)” مجھے ہمیشہ خواہش رہی کہ میں عمر بن خطاب (رض) سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں میں سے ان دوعورتوں کے بارے میں پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :(ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما) یہاں تک کہ انہوں نے حج کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا ، ایک جگہ وہ راستے سے ہٹ کر ( قضائے حاجت کے لیے) ایک طرف کو گئے تو میں بھی پانی کا لوٹا لے کر ان کے ساتھ اس طرف کو چلا گیا ۔ پھر وہ فارغ ہو کر آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا ، انہوں نے وضو کیا تو میں نے کہا :” اے امیر المومنین ! نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں میں سے وہ دو عورتیں کون ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :( ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما) ” انہوں نے فرمایا :” ابن عباس ! تم پر تعجب ہے ، وہ دونوں حفصہ اور عائشہ (رض) ہیں “۔ ٢۔ فقد صغت قلوبکما : ” صغا یصغو صغوا “ ( ن) اور ” صغی یصغی صغیا “ ( س) مائل ہونا ، ایک طرف جھک جانا ۔ اس سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان دو بیویوں کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ تھا ، جن کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہد اور ماریہ (رض) سے اجتناب کی قسم کھائی تھی ، اب انہیں مخاطب کر کے توبہ کی تلقین فرمائی ہے۔ اس آیت کی تفسیر تقریباً تمام قدیم مفسرین نے یہ کی ہے کہ اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ کروتو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور تمہیں توبہ کرنی ہی چاہیے ، کیونکہ تمہارے دل درست بات سے دوسری مائل ہوگئے ہیں اور تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی پسندیدہ چیزوں شہد اور ماریہ (رض) سے اجتناب کی قسم تک پہنچا کر درست کام نہیں کیا ۔ لفظوں کے تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ آیت کا یہی مفہوم طبری ، قرطبی ، رازی ، ابن جزی ، ابن عطیہ ، ابوالسعود ، بغوی ، ابن جوزی ، سمر قندی اور دوسرے جلیل القدر مفسرین نے بیان فرمایا ہے اور ظاہر بھی یہی ہے ، کیونکہ ان ازواج مطہرات کی دلی خواہش کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زینب (رض) کے ہاں شہد نہ پئیں اور اپنی ام ولد ماریہ (رض) کے پاس نہ جائیں ، کسی طرح بھی درست قرار نہیں دی جاسکتی ۔ خود اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر محبت آمیز عتاب فرمایا۔ موجودہ دور کے بعض حضرات نے اس معنی کو ان ازواج مطہرات کی توہین قرار دے کر اس کا انکار کردیا ، ان کے خیال میں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان ازواج مطہرات کے دل حق سے ہٹے ہوئے تھے ، حالانکہ کسی ایک بات میں کسی شخص کے دل کا میلان نادرست بات کی طر ف ہوجائے تو اسے پورے راہ صواب سے ہٹا ہوا نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی کسی مفسر کے کسی حاشیہ خیال میں امہات المومنین کے متعلق کوئی ایسی بات ہے اور یہاں تو امہات المومنین نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر سر تسلیم خم کیا اور سچے دل سے توبہ کی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں ان کے لیے ازواج رسول ہونے کا شرف برقرار رکھا ، پھر ان کے متعلق کون کہہ سکتا ہے کہ ان کے دل راہ صواب سے ہٹے ہوئے تھے ؟ ایک مطلب آیت کا یہ ہے اور بعض حضرات نے اسی کو درست اور دوسرے ہر مطلب کو غلط قرار دیا ہے کہ ” اگر تم اللہ کی طرف توبہ کرو تو تم سے کچھ بعید نہیں ، کیونکہ تمہارے دل پہلے ہی توبہ کی طرف مائل ہوچکے ہیں “۔ مفسر قرطبی نے پہلے معنی کے علاوہ اس معنی کا ذکر بھی کیا ہے ۔ مگر اسی کو درست اور دوسرے معنی کو غلط اور لغت عرب سے ناواقفیت قرار دینا اہل علم کا شیوہ نہیں ۔ اہل علم کا شیوہ تو وہ ہے جو قرطبی نے اختیار فرمایا ہے کہ دونوں معنی ذکر فرما دیے ، جو راجح تھا اسے پہلے ذکر فرمایا مگر دوسرے کا انکار نہیں کیا ۔ یہ بات تسلیم کہ ” صغا یصغو “ اور ” صغی یصغی “ کے الفاظ کسی چیز کی طرف مائل ہونے کے لیے آتے ہیں ، مگر اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ یہ حق ہی کی طرف مائل ہونے کے لیے آتے ہیں ، ناحق کی طرف مائل ہونے کے لیے نہیں آتے ۔ ناحق کی طرف مائل ہونے کا مفہوم حق سے ہٹنے کے سوا کیا ہوسکتا ہے ؟ سورة ٔ انعام کی آیت (١١٣) (وَلِتَصْغٰٓی اِلَیْہِ اَفْئِدَۃُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ ) میں جن لوگوں کا ذکر ہوا ہے اس میں ان کے دل حق کی طرف مائل ہونے کا نہیں بلکہ ناحق ہی کی طرف مائل ہونے کا ذکر ہے۔ اس لیے شاہ ولی اللہ ، شاہ عبد القادر ، شاہ رفیع الدین ، احمد علی لاہوری ، فتح محمد جالندھری اور دوسرے مترجمین نے پہلے مفہوم والا ترجمہ ہی کیا ہے، حتیٰ کہ ایک مترجم صاحب جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت کا بہت بلند بانگ دعویٰ رکھتے ہیں اور اہل توحید کو گستاخ اور بےادب قرار دیتے نہیں تھکتے ، انہوں نے بھی یہ ترجمہ کیا ہے :” نبی کی دونوں بیویو ! اگر اللہ یک طرف تم رجوع کرو تو ضرور تمہارے دل راہ حق سے کچھ ہٹ گئے ہیں “۔ تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے نزدیک ازواج مطہرات کے دل راہ حق سے کچھ ہٹے ہوئے تھے ؟ ٣۔ وَاِنْ تَظٰہَرَا عَلَیْہِ :” تظھرا “ باب تفاعل سے فعل مضارع ہے جو اصل میں ” تنظاھران “ تھا ، ایک تاء تخفیف کے لیے حذف کردی گئی اور حرف شرط ” ان “ کی وجہ سے نون اعرابی گرگیا ۔ اس کا مادہ ” ظھر “ (پشت) ہے۔ باب تفاعل میں تشارک کا معنی ہوتا ہے ، ایک دوسرے کی پشت پناہی کرنا ، ایک دوسرے کی مدد کرنا ۔ ” تظھرا “ کے بعد ” علیہ “ کا معنی ہے ، اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو۔ ٤۔ فَاِنَّ اللہ ہُوَ مَوْلٰـہُ :” مولیٰ “ کا معنی مالک بھی ہے اور مدد گار بھی ۔ اگر مالک معنی کریں تو یہ جملہ ” مولہ “ پر مکمل ہوگیا اور ” جبریل “ سے ” ظھیر “ تک الگ جملہ ہے ، کیونکہ مالک صرف اللہ ے اور کوئی مالک نہیں ، جب کہ مدد اللہ کی طرف سے بھی ہوتی ہے اور بندوں کی طرف سے بھی ، جیسا کہ فرمایا :(ھُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ ) (الانفال : ٦٢)” وہی ہے جس نے تجھے اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ قوت بخشی “۔ اور فرمایا :(اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہ ُ ) ( التوبۃ :)” اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلا شبہ نے اس کی مد کی ۔ “ اور فرمایا :(وَّیَنْصُرُوْنَ اللہ وَرَسُوْلَہٗ ط) ( الحشر : ٨)” اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں “۔ اور فرمایا :( مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللہ ِ ) ( آل عمران : ٥٢)” کون ہیں جو اللہ کی طرف میرے مدد گار ہیں ؟ “ یعنی اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ کرو تو بہتر ہے اور اگر تم دونوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو تو ہمارے رسول کو تمہاری کچھ پرواہ نہیں ، کیونکہ اللہ اس کا مالک ہے اور جبریل اور صالح مومنین اور اس کے بعد تمام فرشتے اس کی مدد گار اور پشت پناہ ہیں ۔ اور اگر ” مولیٰ “ کا معنی مدد گار کریں تو پہلا جملہ ” صالح المومنین “ پر پورا ہوگا اور دوسرا جملہ ” والملئکۃ “ ( مبتدائ) سے شروع ہو کر ” ظھیر “ پر ختم ہوگا ۔ یعنی اگر تم دونوں اس کے خلاف ایک دوسری کی مدد کرو تو یقینا اللہ اور جبریل اور صالح مومنین اس کے مدد گار ہیں اور اس کے بعد تمام فرشتے اس کے پشت پناہ اور مدد گار ہیں ۔ یہ دوسرا معنی راجح ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ مالک تو ہر ایک کا ہے ، صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نہیں ، ہاں ! خاص نصرت اس کی اپنے رسولوں اور ایمان والوں کے ساتھ ہے ، کفار کے ساتھ نہیں ، جیسا کہ فرمایا :(اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰـوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ لا) ( المومن : ٥١)” بیشک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے “۔ ٥۔ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْن :” صالح “ اسم جنس ہے جو واحد و جمع سب پر بولا جاتا ہے ، اس لیے جمع کا لفظ ” صالحو المومنین “ بولنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ٦۔ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ : یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ مبتدائ ” المکئکۃ “ جمع کی خبر ” ظھیر “ واحد کیوں ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ ” فعیل “ کا وزن واحد ، تثنیہ ، جمع اور مذکور و مؤنث سب کے لیے یکساں استعمال ہوتا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّـهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا [ 0 two wives of the Prophet,] If both of you repent to Allah, then [ your conduct calls for it, because ] your hearts have diverted....66:4). The reference here is made to two of his blessed wives who, as mentioned above in brief, contrived to draw the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) into swearing an oath and making the aforementioned ... promise to abstain from honey. Who are they? Bukhari and other collections of Traditions record a lengthy Tradition about this on the authority of Ibn ` Abbas (رض) who narrates that he was always on the look-out to enquire of Sayyidna ` Umar (رض) as to who were the two wives to whom reference had been made in the above verse. So, when Sayyidna ` Umar (رض) was on his way to pilgrimage, the former joined him. One day, in the course of the journey, the latter went to answer the call of nature. When he returned, the former had arranged water for the latter&s ablution. He poured water on his hands. Whilst pouring the water for ablution, he enquired as to who were the two wives to whom reference is made in the dual verb اِن تَتُوبَآ (If both of you repent) Sayyidna ` Umar (رض) asked him in surprise: &Do you not know who they were?& Ibn ` Abbas (رض) said: &No!& Sayyidna ` Umar (رض) said they were Hafsah and &A&ishah (رض) and then proceeded to recount a lengthy story related to this incident which also contained some incidents that took place earlier. The details of the incident are available in Tafsir Mazhari. This verse addresses the two blessed wives of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and requires them to turn to Allah as their hearts have deviated, albeit what they did, stem from their love for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، but in the process they, in consultation with one another, adopted a way that hurt the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . This is a sin for which repentance was necessary. وَإِن تَظَاهَرَ‌ا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِ‌يلُ (And if you back each other against him [ the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ], then Allah is his supporter, and Jibra&l (علیہ السلام) and righteous believers and, after all that, angels are his helpers....66:4). The current verse warns the wives that if they do not repent and please the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، they will not cause any loss to him, because Allah is his Protector, and so are Jibril, every right-acting believer and, furthermore, the other angels too will come to his support, and it will be the wives themselves who will suffer loss.  Show more

(آیت) اِنْ تَتُوْبَآ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا، ازواج مطہرات میں سے جن دو کا اجمالی ذکر اوپر آیا ہے کہ انہوں نے باہم مشورہ کرکے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شہد پینے پر ایسا طرز اختیار کیا جس سے آپ نے شہد پینے سے قسم کھالی اور پھر آپ نے اسکے اخفاء کے لئے فرمایا تھا وہ اخفاء ن... ہیں کیا بلکہ ایک نے دوسری پر بات کھول دی۔ یہ دو کون ہیں انکے متعلق صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابن عباس کی ایک طویل روایت ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ عرصہ تک میرے دل میں یہ خواہش تھی کہ میں ان دو عورتوں کے متعلق عمر بن خطاب سے دریافت کروں جن کے متعلق قرآن میں آیا ہے اِنْ تَتُوْبَآ اِلَى اللّٰهِ ، یہاں تک ایک موقع آیا کہ عمر بن خطاب حج کے لئے نکلے اور میں بھی شریک سفر ہوگیا۔ دوران سفر میں ایک روز عمر بن خطاب قضاء حاجت کے لئے جنگل کی طرف تشریف لے گئے اور واپس آئے تو میں نے وضو کے لئے پانی کا انتظام کر رکھا تھا میں نے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ اور وضو کراتے ہوئے میں نے سوال کیا کہ یہ دو عورتیں جن کے متعلق قرآن میں ان تتوبا آیا ہے کون ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا آپ سے تعجب ہے کہ آپ کو خبر نہیں یہ دونوں عورتیں حفصہ اور عائشہ ہیں۔ اسکے بعد حضرت عمر نے اپنا ایک طویل قصہ اس واقعہ سے متعلق ذکر فرمایا جس میں اس واقعہ کے پیش آنے سے پہلے کے کچھ حالات بھی بیان فرمائے جن کی پوری تفصیل تفسیر مظہری میں ہے۔ آیت میں مذکورہ میں ان دونوں ازواج مطہرات کو مستقل خطاب کرکے ارشاد فرمایا کہ اگر تم توبہ کرو جیسا کہ اس واقعہ کا تقاضا ہے کہ تمہارے دل حق سے مائل ہوگئے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت اور آپکی رضا جوئی ہر مومن کا فرض ہے مگر تم دونوں نے باہم مشورہ کرکے ایسی صورت اختیار کی جس سے آپ کو تکلیف پہنچی یہ ایسا گناہ ہے کہ اس سے توبہ کرنا ضروری ہے اور آگے فرمایا۔ وَاِنْ تَظٰهَرَا عَلَيْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَجِبْرِيْلُ الآیة، اس میں یہ بتلادیا کہ اگر تم نے توبہ کرکے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو راضی نہ کیا تو یہ نہ سمجھو کہ آپ کو کوئی نقصان پہنچے گا کیونکہ آپ کا تو اللہ مولیٰ اور کفیل ہے اور جبرئیل امین اور سب نیک مسلمان اور ان کے بعد سب فرشتے، جس کی رفاقت واعانت پر سب لگے ہوں اس کو کوئی کیا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ نقصان وضرر جو کچھ ہے تمہارا ہی ہے آگے انہیں کے متعلق فرمایا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ تَتُوْبَآ اِلَى اللہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا۝ ٠ ۚ وَاِنْ تَظٰہَرَا عَلَيْہِ فَاِنَّ اللہَ ہُوَمَوْلٰىہُ وَجِبْرِيْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٠ ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَہِيْرٌ۝ ٤ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه :...  إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ صغا الصَّغْوُ : المیل . يقال : صَغَتِ النّجومُ ، والشمس صَغْواً مالت للغروب، وصَغَيْتُ الإناءَ ، وأَصْغَيْتُهُ ، وأَصْغَيْتُ إلى فلان : ملت بسمعي نحوه، قال تعالی: وَلِتَصْغى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ [ الأنعام/ 113] ، وحكي : صَغَوْتُ إليه أَصْغُو، وأَصْغَى، صَغْواً وصُغِيّاً ، وقیل : صَغَيْتُ أَصْغَى، وأَصْغَيْتُ أُصْغِي وصَاغِيَةُ الرّجلِ : الذین يميلون إليه، وفلانٌ مُصْغًى إناؤُهُ أي : منقوص حظّه، وقديكنّى به عن الهلاك . وعینه صَغْوَاءُ إلى كذا، والصَّغْيُ : ميل في الحنک والعین . ( ص غ و ی ) الصغو ( ن ) کے معنی جھکنے اور مائل ہونے کے ہیں مثلا صغت النجوم والشمش ( ستاروں یا سورج کا مائل یہ غروب ہوتا ۔ صغیت الاناء و اصغیتۃ میں نے بر تن کو مائل کردیا ۔ جھکا دیا اصغیت الیٰ فلان میں نے اس کی طرف کان لگایا ۔ اس کی بات سننے کے لئے مائل ہوا قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَصْغى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ [ الأنعام/ 113] اور ( وہ ایسے کام ) اسلئے بھی ( کرتے تھے ) کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ۔ ان کے دل اس کی طرف مائل رہیں ۔ اور کلام عرب میں صغوت الیہ اصغو صغوا وصغیت اصغی صغیا ( دونوں طرح ) منقول ہے اور بعض نے اصغیت اضغی یعنی باب افعال بھی استعمال کیا ہے اور جو لوگ کسی کے طر فداری اور حمایتی ہوں ۔ انہیں صاغیۃ الرجل کہا جاتا ہے فلان مضغی اناءہ فلاں بد نصیب ہے اور کبھی یہ ہلاکت سے بھی کنایہ ہوتا ہے ۔ عنیہ صغواء الیٰ کذا وہ فلاں چیز کی طرف مائل ہے اور اصغی کے معنی تالو یا آنکھ میں کجی کے ہیں ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ ظَاهَرَ ( مدد) وَظَهَرَ عليه : غلبه، وقال : إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف/ 20] ، وظاهَرْتُهُ : عاونته . قال تعالی: وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة/ 9] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ [ التحریم/ 4] ، أي : تعاونا، تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة/ 85] ، وقرئ : ( تَظَّاهَرَا) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ ظھر علیہ کے معنی ہیں وہ اس پر غالب آگیا قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف/ 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں ۔ ظاھرتہ : میں نے اس کی مدد کی ( اور ظاھر علیہ کے معنی ہیں اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی ) قرآن پاک میں ہے : ۔ وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة/ 9] اور انہوں نے تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ [ التحریم/ 4] اور اگر پیغمبر کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کروگی ۔ ایک قرات میں تظاھر ا ہے ( یعنی تار کو ظاء میں ادغام کیسا تھ ) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ [ الأحزاب/ 26] اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے ان کی مدد کی ۔ تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة/ 85] تم ان کے خلاف گناہ اور زیادتی سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو ۔ إِنَّ وأَنَ إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ [ التوبة/ 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة/ 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات . وأَنْ علی أربعة أوجه : الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت . والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق . والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص/ 6] أي : قالوا : امشوا . وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة/ 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان/ 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية/ 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر/ 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود/ 54] . والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد ( ان حرف ) ان وان ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ { إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ } ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ { إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ } ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔ ( ان ) یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا { فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ } ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ { وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ } ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ { إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ } ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ { إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا } ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ { إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا } ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) { إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ } ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) { إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ } ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ ولي والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔ صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ فرشته الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج/ 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك . ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا } ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔ ظھیر ، وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ/ 22] ، أي : معین «3» . فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص/ 86] ، وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم/ 4] ، وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان/ ] ، أي : معینا للشّيطان علی الرّحمن . وقال أبو عبیدة «1» : الظَّهِيرُ هو المَظْهُورُ به . أي : هيّنا علی ربّه کا لشّيء الذي خلّفته، من قولک : ظَهَرْتُ بکذا، أي : خلفته ولم ألتفت إليه . ظھیر الظھیر۔ مدد گار ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ/ 22] اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے ۔ فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص/ 86] تو تم ہر گز کافروں کے مددگار نہ ہونا ۔ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم/ 4] اور ان کے علاوہ اور فرشتے بھی مددگار ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان/اور کافر اپنے پروردگار کی مخالفت میں بڑا زورمارتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ کافر خدائے رحمٰن کی مخالفت میں شیطان کا مددگار بنا ہوا ہے ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ یہاں ظھیر کے معنی ہیں پس پشت ڈالا ہوا اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافر کی مثال اس چیز کی سی ہے جسے بےوقعت سمجھ کر پس پشت ڈال دیا جائے اور یہ ظھر ت بکذا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور درخواعتناء نہ سمجھا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے حفصہ اور عائشہ تم نے جو رسول اکرم کو ایذا پہنچائی ہے اور آپ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے اس سے تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو تو بہتر ہے کیونکہ تمہارے دل حق کی طرف سے مائل ہو رہے ہیں۔ اور اگر اسی ایذا رسانی اور نافرمانی پر تم دونوں جمی رہیں تو سمجھ لو کہ پیغمبر کا تمہارے مقابلہ میں معین و مددگار ا... ور محافظ اللہ ہے اور جبریل ہیں اور خلفائے راشدین اور تمام مسلمان ہیں اور ان کے علاوہ فرشتے آپ کے مددگار ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤{ اِنْ تَـتُوْبَآ اِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا } ” اگر تم دونوں اللہ کی جناب میں توبہ کرو تو (یہی تمہارے لیے بہتر ہے ‘ کیونکہ) تمہارے دل تو مائل ہو ہی چکے ہیں۔ “ اس آیت کی تعبیر میں اہل تشیع کا نقطہ نظر یقینا انتہا پسندانہ ہے ‘ لیکن مقام حیرت ہے کہ ہمارے بعض مترجمین اور مفسرین نے...  بھی انہی کی روش اختیار کی ہے۔ البتہ مولانا حمید الدین فراہی (رح) نے عربی اسلوب کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کی جو وضاحت کی ہے میری رائے میں وہ بہت جامع اور بالکل درست ہے۔ اس حوالے سے میں ذاتی طور پر خود کو مولانا صاحب کا احسان مند مانتا ہوں کہ ان کی اس تحریر کی بدولت مجھے قرآن کے اس مقام کا درست فہم اور شعور نصیب ہوا۔ اہل تشیع کے ہاں { فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا } کا ترجمہ یوں کیا جاتا ہے کہ تم دونوں کے دل ٹیڑھے ہوچکے ہیں۔ دراصل صََغَتْ ایسا لفظ ہے جس میں منفی اور مثبت دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ جیسے مَالَ اِلٰی کے معنی ہیں کسی طرف میلان یا توجہ ہونا جبکہ مَالَ عَنْ کے معنی ہیں کسی سے نفرت ہوجانا۔ اسی طرح لفظ رَغِبَ اِلٰی راغب ہونا ‘ محبت کرنا اور رَغِبَ عَنْ ناپسند کرنا کے معنی دیتا ہے۔ صَغٰی کا معنی ہے جھک جانا ‘ مائل ہوجانا۔ جب ستارے ڈوبنے لگتے ہیں تو عرب کہتے ہیں : صَغَتِ النُّجُوم ۔ چناچہ یہاں اس لفظ کا درست مفہوم مائل ہوجانا ہی ہے کہ اب تمہارے دل میں تو یہ بات آ ہی چکی ہے اور تمہارے دل تو خطا کو تسلیم کر ہی چکے ہیں ‘ بس اب تم زبان سے بھی اس کا اعتراف کرلو۔ جیسے حضرت آدم (علیہ السلام) کو اپنی خطا کا احساس ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ (علیہ السلام) کو اعتراف اور توبہ کے الفاظ بھی سکھا دیے : { فَتَلَقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَـیْہِط } (البقرۃ : ٣٧) اور آپ (علیہ السلام) نے سکھائے ہوئے طریقے سے توبہ کرلی۔ اس بارے میں عام رائے یہ ہے کہ مذکورہ بات حضرت حفصہ (رض) نے حضرت عائشہ (رض) کو بتائی تھی۔ چونکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) کو دربارِ رسالت میں خصوصی مقام و مرتبہ حاصل تھا اسی نسبت سے حضرت عائشہ (رض) اور حضرت حفصہ (رض) بھی ازواجِ مطہرات (رض) میں ممتاز تھیں۔ { وَاِنْ تَظٰھَرَا عَلَیْہِ } ” اور اگر تم دونوں نے ان کے خلاف گٹھ جوڑ کرلیا ہے “ یہ بہت سخت الفاظ ہیں۔ قرآن مجید کے ایسے مقامات کو سمجھنے کے لیے بنیادی طور پر یہ اصول ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اَلرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلَ ‘ وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی ۔ اور یہ بھی کہ جن کے مراتب جتنے بلند ہوں ان کا ہلکا سا سہو بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل گرفت ہوجاتا ہے۔ جیسے عربی کا مقولہ ہے : حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْن یعنی عام لوگوں کے لیے جو کام بڑی نیکی کا سمجھا جائے گا ہوسکتا ہے کہ وہی کام اللہ تعالیٰ کے مقربین اولیاء اور محبوب بندوں کے لیے تقصیر قرار پائے اور ان کے مرتبہ کے اعتبار سے قابل ِگرفت شمار ہوجائے۔ اسی قاعدہ اور اصول کے تحت یہاں یہ سخت الفاظ آئے ہیں کہ اگر آپ لوگوں نے ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کوئی متحدہ محاذ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے تو سن لو : { فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ مَوْلٰــٹہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَج وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَھِیْرٌ ۔ } ” ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پشت پناہ تو خود اللہ ہے اور جبریل اور تمام صالح مومنین ‘ اور مزید برآں تمام فرشتے بھی ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مددگار ہیں۔ “ لہٰذا بہتر تو یہ ہے کہ تم لوگ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جو بھی معاملہ کرو ان کے مقام و مرتبے کی مناسبت سے کیا کرو۔ تمہارا میاں بیوی کا رشتہ اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت کسی لمحہ بھی نظر انداز نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور تم سب لوگ امتی ہو۔ تمہارا ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بنیادی تعلق یہی ہے۔ اس تعلق کے مقابلے میں تمہارے باقی تمام رشتوں کی حیثیت ثانوی ہے۔ اس کے بعد آگے مزید سخت الفاظ آ رہے ہیں :  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7 The word saghat in the original is from Baghy which means to swerve and to become crooked. Shah Waliyullah and Shah Rafi'uddin have translated this sentence thus: "Crooked have become your hearts." Hadrat 'Abdullah bin Mas'ud, 'Abdullah bin 'Abbas, Sufyan Thauri and Dahhak have given this meaning of it: "Your hearts have swerved from the right path." Imam Razi explains it thus: "Your hearts have...  swerved from what is right, and the right implies the right of the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) ." And 'Allama Alusi's commentary is Although it is incumbent on you that you should approve what the Holy Messenger (upon whom he peace) approves and disapprove what he disapproves, yet in this matter your hearts have swerved from conformity with him and turned in opposition to him. " 8 The word tazahur means to cooperate mutually in opposition to another person, or to be united against another person. Shah Waliyullah has translated this sentence, thus: "If you mutually join together to cause distress to the Prophet. " Shah 'Abdul Qadir's translation is: "If you both overwhelm him." Maulana Ashraf 'AII Thanwi's translation urns: "And if you both continued to work thus against the Prophet. " And Maulana Shabbir Ahmad 'Uthmami has explained it thus: ,"lf you two continued to work and behave thus (against the Prophet) ." The verse is clearly addressed to two ladies and the context shows that these ladies arc from among the wives of the Holy Prophet (upon whom be peace) for in vv. 1-5 of this Surah the affairs concerning the Holy Prophet's wives only have been discussed continuously, and this becomes obvious from the style of the Qur'an itself. .As for the question who were the wives, and what was the matter which caused Allah's displeasure, the details are found in the Hadith. In Musnad Ahmad, Bukhari, Muslim, Tirmidhi and Nasa'i, a detailled tradition of Hadrat 'Abdullah bin 'Abbas has been related, which describes the incident with sane variation in wording. Ibn 'Abbas says: "I had been thinking a long time to ask Hadrat 'Umar as to who were the two of the Holy Prophet's wives, who had joined each other against him, and about whom Allah sent down this verse: In tatuba.....; but I could not muster courage because of his awe-inspiring personality until he left for Hajj and I accompanied him. On our way back while helping him to perform ablutions for the Prayer at one place I had an opportunity to ask him this question. He replied: they were 'A'ishah and Hafsah. Then he began to relate the background, saying: "We, the people of Quraish, were used to keeping our women folk under strict control. Then. when we came to Madinah, we found that the people here were under the control of their wives, and the women of Quraish too started learning the same thing from them. One day when I became angry with my wife, I was amazed to see that she argued with me. I felt badly about her conduct. She said, 'Why should you feel so angry at my behaviour? By God, the wives of the Holy Prophet (upon whom be peace) answer him back face to face,' (the word in the original is li yuraji nahu) and some one of them remains angrily apart from hire for the whole day. (According to Bukhari: the Holy Prophet remains angry and- apart from her the whole day) . Hearing this I came out of my house and went to Hafsah (who was Hadrat `Umar's daughter and the Holy Prophet's wife) . I asked her. Do you answer back to the Holy Prophet (upon whom be peace) face to face? She said: Yes. asked: And does one of you remain apart from him for the whole day (According to Bukhiiri: the Holy Prophet remains angry and apart from her for the entire day) . She said: Yes. I said: Wretched is the one from among you, who behaves thus. Has one of you become so fearless of this that AIIah should afflict her with His wrath because of the wrath of His Prophet and she should perish? So, do not be rude to the Prophet (here also the words are: la turaji-'i) , nor demand of him anything, but demand of me whatever you desire. Do not be misled by this that your neighbor (i.e. Hadrat `A'ishah) is more beautiful and dearer to the Holy Prophet. After this I left her house and went to the house of Umm Salamah, who was related to me, and talked to her on this subject. She said: Son of Khattab, you are a strange man: you have meddled in every matter until you are now interfering in the affair between Allah's Messenger and his wives. She discouraged me. Then it so happened that an Ansari neighbor came to my house at night and he called out to me. We used to sit in the Holy Prophet's assembly by turns and each used to pass on to the other the news of the day of his turn. It was the time when we were apprehending an attack by the Ghassanids any time. On his call when I came out of my house, he said that something of grave significance had happened. 1 said: Have the Ghassanids launched an attack? He said: No, but something even more serious! The Holy Prophet (upon whom be peace) has divorced his wives. I said: Doomed is Hafsah (the words in Bukhari are: Raghima anfu Hafsah wa `Aishah) . I already had a premonition of this." We have left out what happened after this, how next morning Hadrat 'Umar went before the Holy Prophet and tried to appease his anger. We have described this incident by combining the traditions of Musnad Ahmad and Bukhari. In this the word muraj`at which Hadrat `Umar has used cannot be taken in its literal sense, but the context shows that the word has been used in the sense of answering back face to face and Hadrat `Umar's saying to his daughter: La turaji- `I Rasul Allah clearly has the meaning: Do not be impudent to the Messenger of Allah, Some people say that this is a wrong translation, and their objection is: Although it is correct to translate muraja `at as answering hack, or answering hack face to face, yet it is not correct to translate it as "bing impudent" . These objectors do not understand that if a person of a lower rank or position answers back or retorts to a person of a higher rank and position, or answers him back face to face this very thing is described as impudence. For example, if a father rebukes his son for something or feels angry at his behaviour, and the son instead of keeping quiet or offering an excuse, answers back promptly this could only he described as impudence. Then, when the matter is not between a father and a son, but between the Messenger of Allah and an individual of his community, only a foolish person could say that it was not impudence. Some other people regard this translation of ours as disrespectful, whereas it could be disrespectful in case we had had the boldness to use such words in respect of Hadrat Hafsah from ourselves. We have only given the correct meaning of the words of .Hadrat 'Umar, and these words he had used while scolding and reproving his daughter for her error. Describing it as disrespectful would mean that either the father should treat his daughter with due respect and reverence even when scolding and rebuking her or else the translator should render his rebuke and reproof in a way as to make it sound respectful and reverent. Here, what needs to be considered carefully is that if it was such an ordinary and trivial matter that when the Holy Prophet said something to his wives they would retort to Him, why was it given so much importance that in the Qur'an AIIah administered a severe warning directly to the wives themselves? And why did Hadrat 'Umar take it as such a grave matter that first he reproved his own daughter, then visited the house of the other wives and asked them to fear the wrath of Allah? And, about alI, was the Holy Prophet (upon whom be peace) also so sensitive that he would take offence at minor things and become annoyed with his wives, and was he, God forbid, so irritable that once having been annoyed at such things he had severed his connections with all his wives and retired to his private apartment in seclusion? If a person considers these questions deeply, he will inevitably have to adopt one of the two views in the explanation of these verses Either on account of his excessive concern for reverence for the holy wives he should not at aII mind if a fault is imputed to AIIah and His Messenger, or else he should admit in a straightforward way that at that time the attitude and behaviour of these holy wives has actually become so objectionable that the Holy Prophet (upon whom be peace) was justified in becoming annoyed over it, and more than that, AIIah Himself was justified that He should administer a severe warning to the wives on their unseemly behaviour and attitude. 9 That is, "You would only harm yourselves if you upheld and supported each other against the Messenger of AIlah (upon whom be Allah's peace) , for none could succeed against him whose Protector was Allah and who had Gabriel and the angels and alI the righteous Believers on his side. "  Show more

سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :7 اصل الفاظ ہیں فقد صغت قلوبکما ۔ صغو عربی زبان میں مڑ جانے اور ٹیڑھا ہوجانے کے معنی میں بولا جاتا ہے ۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس فقرے کا ترجمہ کیا ہے: ہر آئینہ کج شدہ است دل شما ۔ اور شاہ رفیع الدین صاحب کا ترجمہ ہے : کج ہو گئے ہیں دل تمہارے ۔ عبداللہ ... بن مسعود ، عبداللہ بن عباس سفیان ثوری اور ضحاک رحمہم اللہ نے اس کا مفہوم بیان کیا ہے زاعت قلوبکما یعنی تمہارے دل راہ راست سے ہٹ گئے ہیں ۔ امام رازی اس کی تشریح میں کہتے ہیں عدلت ومالت عن الحق و ھو حق الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘ حق سےہٹ گئے ہیں ، اور حق سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے اور علامہ آلوسی کی تشریح یہ ہے:مالت عن الواجب من موافقتہ صلی اللہ علیہ وسلم ما یحبہ و کراھۃ یارھہ الی مخالفتہ یعنی تم پر واجب تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ پسند کریں اسے پسند کرنے میں اور جو کچھ آپ ناپسند کریں اسے ناپسند کرنے میں آپ کی موافقت کرو ۔ مگر تمہارے دل اس معاملہ میں آپ کی موافقت سے ہٹ کر آپ کی مخالفت کی طرف مڑ گئے ہیں ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :8 اصل الفاظ میں وان تظاھرا علیہ تظاھر کے معنی ہیں کسی کے مقابلہ میں باہم تعاون کرنا یا کسی کے خلاف ایکا کرنا ۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس فقرے کا ترجمہ کیا ہے: اگر باہم متفق شوید بر رنجایندرن پیغمبر ۔ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ ہے : اگر تم دونوں چڑھائی کروگیاں اس پر ۔ اور مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے: اگر تم دونوں اس طرح کی کارروائیاں اور مظاہرے کرتی رہیں ۔ آیت کا خطاب صاف طور پر دو خواتین کی طرف ہے ، اور سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواتین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے ہیں ، کیونکہ اس سورے کی پہلی آیت سے پانچویں آیت تک مسلسل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے معاملات ہی زیر بحث آئے ہیں ۔ اس حد تک تو بات خود قرآن مجید کے انداز بیان سے ظاہر ہورہی ہے ۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ دونوں بیویاں کون تھیں ، اور وہ معاملہ کیا تھا جس پر یہ عتاب ہوا ، اس کی تفصیل ہمیں حدیث میں ملتی ہے ۔ مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ترمذی اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس کی ایک مفصل روایت نقل ہوئی ہے جس میں کچھ لفظی اختلافات کے ساتھ یہ قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں: میں ایک مدت سے اس فکر میں تھا کہ حضرت عمر سے پوچھوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوں میں سے وہ کون سی دو بیویاں تھیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں جتھہ بندی کر لی تھی اور جن کے متعلق اللہ تعالی نے یہ آیت ارشاد فرمائی کہ ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما ۔ لیکن ان کی ہیبت کی وجہ سے میری ہمت نہ پڑتی تھی ۔ آخر ایک مرتبہ وہ حج کے لیے تشریف لے گئے اور میں ان کے ساتھ گیا ۔ واپسی پر راستہ میں ایک جگہ ان کو وضو کراتے ہوئے مجھے موقع مل گیا اور میں نے یہ سوال پوچھ لیا ۔ انہوں نے جواب دیا وہ عائشہ اور حفصہ تھیں ۔ پھر انہوں نے بیان کرنا شروع کیا کہ ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں کو دباکر رکھنے کے عادی تھے جب ہم مدینہ آئے توہمیں یہاں ایسے لوگ ملے جن پر ان کی بیویاں حاوی تھیں اور یہی سبق ہماری عورتیں بھی ان سے سیکھنے لگیں ۔ ایک روز میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو کیادیکھتا ہوں کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے رہی ہے ( اصل الفاظ ہیں فاذا ھی تراجعنی ) ۔ مجھے یہ بہت ناگوار ہوا کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے ۔ اس نے کہا آپ اس بات پر کیوں بگڑتے ہیں کہ میں آپ کو پلٹ کر جواب دوں؟ خدا کی قسم رسول اللہ کی بیویاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دو بدو جواب دیتی ہیں ( اصل لفظ ہے لیراجعنہ ) اور ان میں سے کوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دن دن بھر روٹھی رہتی ہے ۔ ( بخاری کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے دن بھر ناراض رہتے ہیں ) ۔ یہ سن کر میں گھر سے نکلا اور حفصہ کے ہاں گیا ( جو حضرت عمر کی بیٹی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں ) ۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تو رسول اللہ کو دو بدو جواب دیتی ہے؟ اس نے کہا ہاں ۔ میں نے پوچھا اور کیا تم میں سے کوئی دن دن بھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روٹھی رہتی ہے؟ ( بخاری کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دن بھر اس سے ناراض رہتے ہیں ) ۔ اس نے کہا ہاں ۔ میں نے کہا نامراد ہو گئی اور گھاٹے میں پڑ گئی وہ عورت جو تم میں سے ایسا کرے ۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات سے بے خوف ہو گئی ہے کہ اپنے رسول کے غضب کی وجہ سے اللہ اس پر غضبناک ہو جائے اور وہ ہلاکت میں پڑ جائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی زبان درازی نہ کر ( یہاں بھی وہی الفاظ ہیں لا تراجعی ) اور نہ ان سے کسی چیز کا مطالبہ کر ، میرے مال سے تیرا جو جی چاہیے مانگ لیا کر ۔ تو اس بات سے کسی دھوکے میں نہ پڑ کہ تیری پڑوسن ( مراد ہیں حضرت عائشہ ) تجھ سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب ہے ۔ اس کے بعد میں وہاں سے نکل کر ام سلمہ کے پاس پہنچا جو میری رشتہ دار تھیں ، اور میں نے اس معاملہ میں ان سے بات کی ۔ انہوں نے کہا ، ابن خطاب تم بھی عجیب آدمی ہو ۔ ہر معاملہ میں تم نے دخل دیا یہاں تک کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی بیویوں کے معاملے میں بھی دخل دینے چلے ہو ۔ ان کی اس بات نے میری ہمت توڑ دی ۔ پھر ایسا ہوا کہ میرا ایک انصاری پڑوسی رات کے وقت میرے گھر آیا اور اس نے مجھے پکارا ۔ ہم دونوں باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے اور جو بات کسی کی باری کے دن ہوتی تھی وہ دوسرے کو بتا دیا کرتا تھا ۔ زمانہ وہ تھا جب ہمیں غسان کے حملے کا خطرہ لگا ہوا تھا ۔ اس کے پکارنے پر جب میں نکلا تو اس نے کہا ایک بڑا حادثہ پیش آ گیا ہے میں نے کہا غسانی چڑھ آئے ہیں؟ اس نے کہا نہیں ، اس سے بھی زیادہ بڑا معاملہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ۔ میں نے کہا برباد ہوئی نامراد ہو گئی حفصہ ، ( بخاری کے الفاظ ہیں رغم انف حفصہ و عائشۃ ) ، مجھے پہلے ہی اندیشہ تھا کہ یہ ہونے والی بات ہے ۔ اس کے آگے کا قصہ ہم نے چھوڑ دیا ہے جس میں حضرت عمر نے بتایا ہے کہ دوسرے روز صبح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا کر انہوں نے کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ۔ اس قصے کو ہم نے مسند احمد اور بخاری کی روایات جمع کر کے مرتب کیا ہے ۔ اس میں حضرت عمر نے مراجعت کا لفظ جو استعمال کیا ہے اسے لغوی معنی میں نہیں لیا جا سکتا بلکہ سیاق خود بتا رہا ہے کہ یہ لفظ دو بدو جواب دینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، اور حضرت عمر کا اپنی بیٹی سے یہ کہنا کہ لا ترجعی رسول اللہ صاف طور پر اس معنی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زبان درازی نہ کیا کر ۔ اس ترجمے کو بعض لوگ غلط کہتے ہیں اور انکا اعتراض یہ ہے کہ مراجعت کا ترجمہ پلٹ کر جواب دینا ، یا دو بدو جواب دینا تو صحیح ہے ، مگر اس کا ترجمہ زبان درازی صحیح نہیں ہے ۔ لیکن یہ معترض حضرات اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اگر کم مرتبے کا آدمی اپنے سے بڑے مرتبے کے آدمی کو پلٹ کر جواب دے ، یا دو بدو جواب دے تو اسی کا نام زبان درازی ہے ۔ مثلا باپ بیٹے کو کسی بات ڈانٹے یا اس کے کسی فعل پر ناراضی کا اظہار کرے اور بیٹا اس پر ادب سے خاموش رہنے یا معذرت کرنے کے بجائے پلٹ کر جواب دینے پر اتر آئے ، تو اس کو زبان درازی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ پھر جب یہ معاملہ باپ اور بیٹے کے درمیان نہیں بلکہ اللہ کے رسول اور امت کے کسی فرد کے درمیان ہو تو صرف ایک غبی آدمی ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کا نام زبان درازی نہیں ہے ۔ بعض دوسرے لوگ ہمارے اس ترجمے کو سوء ادب قرار دیتے ہیں ، حالانکہ یہ سوء ادب اگر ہو سکتا تھا تو اس صورت میں جبکہ ہم اپنی طرف سے اس طرح کے الفاظ حضرت حفصہ کے متعلق استعمال کرنے کی جسارت کرتے ۔ ہم نے تو حضرت عمر کے الفاظ کا صحیح مفہوم ادا کیا ہے ، اور یہ الفاظ انہوں نے اپنی بیٹی کو اس کے قصور پر سرزنش کرتے ہوئے استعمال کیے ہیں ۔ اسے سوء ادب کہنے کے معنی یہ ہیں کہ یا تو باپ اپنی بیٹی کو ڈانٹتے ہوئے بھی ادب سے بات کرےٗ یا پھر ڈانٹ کا ترجمہ کرنے والا اپنی طرف سے اس کو با ادب کلام بنا دے ۔ اس مقام پر سوچنے کے قابل بات دراصل یہ ہے کہ اگر معاملہ صرف ایسا ہی ہلکا اور معمولی سا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اپنی بیویوں کو کچھ کہتے تھے اور وہ پلٹ کر جواب دے دیا کرتی تھیں ، تو آخر اس کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے براہ راست خود ان ازواج مطہرات کو شدت کے ساتھ تنبیہ فرمائی؟ اور حضرت عمر نے اس معاملہ کو کیوں اتنا سخت سمجھا کہ پہلے بیٹی کو ڈانٹا اور پھر ازواج مطہرات میں سے ایک ایک کے گھر جا کر ان کو اللہ کے غضب سے ڈرایا ؟ اور سب سے زیادہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کے خیال میں ایسے ہی زودرنج تھے کہ ذرا ذرا سی باتوں پر بیویوں سے ناراض ہو جاتے تھے اور کیا معاذ اللہ آپ کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تنگ مزاجی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ ایسی باتوں پر ناراض ہو کر آپ ایک دفعہ سب بیویوں سے مقاطعہ کر کے اپنے حجرے میں عزلت گزیں ہو گئے تھے؟ ان سوالات پر اگر کوئی شخص غور کرے تو اسے لامحالہ ان آیات کی تفسیر میں دو ہی راستوں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑے گا ۔ یا تو اسے ازواج مطہرات کے احترام کی اتنی فکر لاحق ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر حرف آ جانے کی پروا نہ کرے ۔ یا پھر سیدھی طرح یہ مان لے کہ اس زمانہ میں ان ازواج مطہرات کا رویہ فی الواقع ایسا ہی قابل اعتراض ہو گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ناراض ہو جانے میں حق بجانب تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر خود اللہ تعالی اس بات میں حق بجانب تھا کہ ان ازواج کو اس رویہ پر شدت سے تنبیہ فرمائے ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :9 مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں جتھہ بندی کر کے تم اپنا ہی نقصان کرو گی ، کیونکہ جس کا مولی اللہ ہے اور جبریل اور ملائکہ اور تمام صالح اہل ایمان جس کے ساتھ ہیں اس کے مقابلہ میں جتھہ بندی کر کے کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: یہ خطاب حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو ہو رہا ہے، اور اس کا مطلب اکثر مفسرین نے یہ بتایا ہے کہ : ’’تم دونوں کے دل حق سے مائل ہوگئے ہیں، یعنی حق طریقے سے ہٹ گئے ہیں‘‘ لیکن بعض مفسرین نے اس کی تفسیر کی ہے کہ تمہارے دِل توبہ کی طرف مائل تو ہو ہی گئے ہیں، اس لئے اب تمہیں توبہ کرلینی چ... اہئیے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(66:4) ان تتوبا الی اللہ جملہ شرط ہے۔ جس کا جواب محذوف ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے۔ ان تتوبا الی اللہ فھو الواجب۔ اگر تم دونوں بیبیاں اللہ کے حضور توبہ کرلو تو یہ تمہارے لئے واجب ہے۔ فقد صغت قلوبکما : ف تعلیلیہ ہے۔ دک کی کجی موجب ہے گناہ کی اور گناہ کے بعد توبہ واجب ہے۔ قد ماضی پر داخل ہوکر تحقیق کے معنی...  دیتا ہے اور فعل کو حال کے قریب تر لے آتا ہے۔ صغت : ماضی واحد مؤنث غائب صغو، صغی (باب نصر۔ و فتح) جھک جانا ، جھک پڑنا۔ مائل ہوجانا۔ کیونکہ تمہارے دل (سیدھی راہ سے) ہٹ ہی گئے ہیں۔ صاحب تفہیم القرآن تحریر فرماتے ہیں :۔ اصل الفاظ ہیں فقد صغت قلوبکما صغو عربی زبان میں مڑجانے اور ٹیڑھا ہوجانے کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے اس جملہ کا ترجمہ کیا ہے : ” ہر آئینہ کج شدہ است دل شما “۔ حضرت شاہ رفیع الدین (رح) تعالیٰ صاحب کا ترجمہ ہے ” کج ہوگئے ہیں دل تمہارے۔ حضرات عبد اللہ بن مسعود (رض) ، عبد اللہ بن عباس (رض) سفیان ثوری رحمۃ اللہ تعالیٰ اور ضحاک نے اس کا مفہوم بیان کیا ہے۔ زاغت قلوبکما تمہارے دل راہ راست سے ہٹ گئے ہیں۔ امام رازی (رح) اس کی تشریح میں کہتے ہیں ۔ عدلت ومالت عن الحق وھو حق الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق سے ہٹ گئے ہیں اور حق سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق ہے۔ اور علامہ آلوسی (رح) کی تشریح یہ ہے :۔ مالت عن الواجب من موافقۃ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یحب ما یحبہ ، کراھۃ مایکرہہ الی مخالفۃ یعنی تم پر واجب تو یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ پسند کریں اسے پسند کرنے میں اور جو کچھ ناپسند کریں اسے ناپسند کرنے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موافقت کریں۔ مگر تمہار دل اس معاملہ میں آپ کی موافقت سے ہٹ کر آپ کی مخالفت کی طرف مڑ گئے ہیں۔ (تفہیم القرآن جلد ششم) وان تظاھرا علیہ۔ جملہ شرطیہ۔ تظاہرا۔ مضارع کا صیغہ تثنیہ مؤنث حاضر۔ اصل میں تتظاھران تھا۔ ایک تاء حذف ہوگئی اور نون اعرابی ان شرطیہ کے آنے سے ساقط ہوگیا۔ اگر تم دونوں (بیبیاں) آپ کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کروگی۔ آپ کے خلاف ایکا کروگی۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کروگی۔ تظاھر (تفاعل) مصدر۔ فان اللہ ھو مولہ۔ جملہ جواب شرط۔ (تو خوب جان لو) کہ اللہ تعالیٰ آپ کا مددگار اور سازگار ہے ۔ (نیز ملاحظہ ہو 66:2 متذکرۃ الصدر) ۔ مولی کا معنی یہاں ناصر ہے اور تمام کے لئے یہی معنی درست ہے۔ لامانع من ان یکون المولی فی الجمیع بمعنی الناصر (روح المعانی) یعنی اللہ تعالیٰ بھی حضور کا مددگار ہے جبریل اور صالح المؤمنین بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مددگار ہیں۔ صالح بظاہر واحد ہے لیکن اس سے مراد جنس ہے جس کا قلیل اور کثیر سب پر اطلاق ہوتا ہے۔ بعض کا یہ قول ہے کہ اصل میں صالحون ۔ جمع تھا۔ اضافت کی وجہ سے ن گرگیا۔ صالح المؤمنین ہوگیا۔ لیکن یہاں واؤ کا تلفظ بھی نہیں کیا جاتا اس لئے کاتبان قرآن نے واؤ کی کتابت بھی ترک کردی اور صالح المؤمنین لکھنے پر اکتفاء کیا۔ اس قسم کے شواہد قرآن کریم میں بکثرت موجود ہیں۔ سورة نبی اسرائیل کی آیت نمبر 11 میں ویدع الانسان مکتوب ہے اصل میں ویدعو ہے لیکن چونکہ واؤ کا تلفظ نہیں ہے اس لئے کتابت بھی ترک کردی گئی ۔ صالح نیک ، اچھا۔ بھلا۔ صلاح سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ صالح المؤمنین اضافت عہدی ہے مراد اس سے انبیاء (علیہم السلام) ہیں۔ ذھب غیر واحد الی ان الاضافۃ للعہد فقیل : المراد بہ الانبیاء (علیہم السلام) (روح المعانی) ۔ لیکن بعض کے نزدیک اس سے مراد حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ بعض کے نزدیک حضرت ابوبکر اور بعض کے نزدیک حضرت عمر اور بعض کے نزدیک اس سے مراد جملہ خلفاء اربعہ ہیں۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ اور بعض نے کہا ہے کہ صالح المؤمنین سے مراد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام متبعین اور اعوان اور آپ کے اردگرد جمع ہونے والے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رفیق اور ساتھی ہیں۔ بعض نے اس سے مراد مخلص مومن لئے ہیں جو منافق نہیں ہیں :۔ واللہ اعلم : ظھیرـ پشتیبان ۔ یاور۔ مددگار۔ مظاھرۃ (مفاعلۃ) مصدر سے بروزن فعیل بمعنی فاعل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ سید مرتضی زبیدی تاج العروس میں لکھتے ہیں :۔ ظھیر : بروزن امیر بمعنی معین و مددگار ہے واحد اور جمع دونوں میں اس کا استعمال یکساں ہے اور ظھر کی جمع اس لئے نہیں بنائی کہ فعیل اور فعول دونوں میں مذکر و مؤنث اور جمع کا استعمال یکساں طور پر ہوتا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے :۔ انا رسول رب العلمین (26:16) بلاشبہ ہم دونوں رب العالمین کے فرستادہ ہیں۔ اور والملئکۃ بعد ذلک ظھیر (66:4) ۔ اگر فان اللہ ھو مولہ پر وقف کیا جائے تو اگلے جملہ میں جبریل مبتداء اور و صالح المؤمنین والملئکۃ دونوں معطوف جن کا عطف جبریل پر ہوگا ۔ اور ظھیر سب کی خبر۔ اور بعد ذلک متعلق خبر۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی اللہ تعالیٰنے4 یعنی تمہارے دل راہ اعتدال سے ہٹ کر ایک طرف جھک گئے ہیں۔5 ” لہٰذا تم اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مطلب یہ کہ تمہاری ان سازشوں سے آپ کا کوئی ضرر نہیں ہے بلکہ تمہارا ہی ضرر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب یہاں انداز کلام حاکیت سے خطاب کی طرف آجاتا ہے ، اور جن دو ازواج نے یہ کام کیا تھا ، ان سے خطاب کیا جاتا ہے۔ گویا بات ان کے سامنے ہورہی ہے۔ ان تتوبا ........................ ذلک ظھیر (٦٦ : ٤) ” اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں۔ ... اور اگر نبی کے مقابلے میں تم نے جتھ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرائیل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں “۔ آغاز خطاب میں ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ توبہ کریں تاکہ ان کے دل اللہ کی طرف مائل ہوجائیں کیونکہ ان کے دل اللہ سے دور ہوگئے تھے۔ جب یہ دعوت دے دی جاتی ہے تو پھر ان پر ایک خوفناک تنقید کی جاتی ہے۔ نہایت رعب دار آواز میں : اس زبردست تنقید سے معلوم ہوتا ہے کہ حادثہ اور واقعہ جو بھی تھا مگر رسول اللہ کے قلب مبارک پر اس کا گہرا اثر تھا۔ چناچہ اللہ کو اعلان کرنا پڑا کہ اللہ ، ملائکہ اور صالح مومنین اس کے لئے کافی طرفدار ہیں۔ اس اعلان سے ، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غبار خاطر دور ہوجاتا ہے اور آپ مطمئن ہوجاتے ہیں۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ واقعہ جو بھی ہو ، لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس واقعہ کا گہرا اثر تھا۔ حضور اپنے گھروں میں اس قسم کے ماحول کی توقع نہ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر (رض) کے پڑوسی انصاری نے ، اس واقعہ کی جو رپورٹ دی ، ہ اس قدر خوفناک تھی کہ اس کے قول کے مطابق غسانیوں کے حملے سے بھی بڑی بات ہوگئی ہے۔ غسانیوں کی اس وقت شام پر حکومت تھی۔ اور وہ سلطنت روم کے موالی تھے۔ ان کے ان کے ساتھی دوستی کے معاہدے تھے۔ اس دور میں مدینہ پر غسانیوں کا حملہ آور ہونا بہت خطرناک بات تھی۔ لیکن مسلمانوں کے لئے رسول اللہ کا پریشان اور بےقرار ہونا غسانیوں کے حملے سے بھی بڑی بات تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ علیہ وسلم کے گھرنے کی سلامتی سب سے بڑی بات تھی۔ اور آپ کا اضطراب لوگوں کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خیر القرون کے یہ لوگ معاملات کو کس زاویہ سے دیکھتے تھے۔ جس طرح اس انصاری نے اس واقعہ کو ایک عظیم واقعہ سمجھا۔ اسی طرح اللہ نے بھی اسے سمجھا ان حضرات کی سوچ خدا اور رسول کی سوچ کی سمت اختیار کرچکی تھی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعض ازواج سے خطاب یہ دو آیتوں کا ترجمہ ہے پہلی آیت میں سیّدہ حفصہ اور سیّدہ عائشہ (رض) کو توبہ کی طرف متوجہ فرمایا ہے ارشاد فرمایا کہ اگر تم اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرلو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ تمہارے دل صحیح راہ سے ہٹ گئے تھے تمہاری باتوں سے متاثر ہو...  کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہد پینے اور اپنی جاریہ سے متمتع ہونے سے اجتناب کرنے کا ارادہ فرما لیا تھا اور اس کے بارے میں قسم کھالی تھی حالانکہ آپ کو یہ چیزیں پسند تھیں ان باتوں سے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچی اس کی وجہ اللہ تعالیٰ نے توبہ کرنے کی طرف متوجہ فرمایا۔ دوسری آیت میں آپ کی ازواج مطہرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو طلاق دے دیں تو ان کا پروردگار عنقریب تمہارے بدلہ تم سے اچھی عورتیں عطا فرما دے گا یہ عورتیں اسلام والی، ایمان والی، فرمانبرداری کرنے والی، توبہ کرنے والی، عبادت کرنے والی، روزہ رکھنے والی ہوں گی، جن میں بیوہ بھی ہوں گی اور کنواری بھی، پھر ایسا واقعہ پیش نہیں آیا، نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں طلاق دی اور نہ ان کے بدلہ دوسری بیویاں عطا کی گئیں۔ مزید فرمایا کہ اگر تم دونوں آپس میں کسی ایسے امر پر ایک دوسرے کی مدد کرتی رہو گی جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچ سکتی ہو تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے ضرر نہیں پہنچے گا کیونکہ اللہ ان کا مولیٰ ہے اور جبرائیل بھی اور مومنین بھی، اور اس کے بعد فرشتے بھی مددگار ہیں، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ہو اور فرشتوں کی خاص کر جبرائیل اور صالح مومنین کی مدد ہو، اسے تمہارے مشورے کیا نقصان دے سکتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عمر (رض) سے دریافت کیا وہ دونوں کون سی عورتیں ہیں جن کے بارے میں ﴿ وَ اِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ ﴾ فرمایا ہے ابھی میری بات پوری نہ ہوئی تھی حضرت عمر (رض) نے جواب دیا کہ اس سے عائشہ اور حفصہ (رض) مراد ہیں۔ (صحیح بخاری صفحہ ٧٣١: ج ٢) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایلاء فرمانے کا ذکر : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ ناراض ہو کر ایک ماہ کا ایلاء کرلیا تھا یعنی یہ قسم کھالی تھی کہ بیویوں کے پاس نہیں جائیں گے اس زمانہ میں آپ نے ایک بالاخانہ میں رہائش اختیار فرما لی۔ صحابہ (رض) میں یہ مشہور ہوگیا کہ آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی۔ حضرت عمر (رض) اس بات کا پتہ چلانے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس سے پہلے سمجھانے کے طور پر حضرت عائشہ اور اپنی بیٹی حفصہ (رض) اور حضرت ام سلمہ (رض) کے پاس تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکر (رض) پہلے سے حاضر خدمت ہوچکے تھے۔ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! عورتوں کے بارے میں آپ کو کیا پریشانی ہے اگر آپ نے ان کو طلاق دے دی ہے تو آپ کے ساتھ اللہ اور جبریل اور میکائل اور میں اور ابوبکر اور دوسرے مومنین ہیں اللہ تعالیٰ نے میری تصدیق فرمائی اور آیت کریمہ ﴿ عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا ﴾ اور آیت کریمہ ﴿ وَ اِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِيْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ ١ۚ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِيْرٌ٠٠٤﴾ نازل فرمائی۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا مومنین بیٹھے ہیں اور یوں کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے آپ نے فرمایا نہیں، میں نے عرض کیا آپ کی اجازت ہو تو میں انہیں بتادوں کہ طلاق نہیں دی آپ نے فرمایا اگر چاہو تو بتادو۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالا خانے سے نیچے اتر آئے، ابھی آپ کو انتیس دن ہوئے تھے۔ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا کہ ابھی ٢٩ دن ہوئے ہیں آپ نے تو قسم کھائی تھی کہ ایک ماہ بیویوں کے پاس نہیں جائیں گے، آپ نے فرمایا یہ انتیس کا مہینہ ہے۔ (راجع صحیح مسلم صفحہ ١٧٨ الی ٤٨٢)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” ان تتوبا “ جزاء شرط محذوف ہے اور ” فقد صغت “ ما قبل کی علت ہے قائم مقام جزاء۔ جزاء محذوف یا تو کان خیرا لکما ہے (قرطبی) یا ” تقبلا “ (جلالین) یا یمح اثمکما یا فقہ ادیتما ما یبج علیکما او اتیتما بما یحق لکما (روح) ۔ یا فذلک یلیق بکما (حضرت شیخ قدس سرہ) ۔ ” فقد صغت قلوبکما “ کیونکہ تمہارے دل حق ... بات سے ہٹ چکے ہیں یعنی تم نے اس چیز کو پسند کیا ہے جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناپسند فرماتے تھے، مراد ہے شہد سے اجتناب۔ یا ” صغت قلوبکما “ کے معنی ہیں تہارے دل توبہ کی طرف حق یا حق کی طر فمائل ہوچکے ہیں۔ حضرت عائشہ اور حفصہ (رض) کو اپنی غلطی اور کوتاہی کا احساس ہوگیا اور ان کے دلوں میں اس غلطی سے توبہ کرنے اور آئندہ کے لیے اداء حق واجب کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ وقیل فقد مالت قلوبکما الی التوبۃ (قرطبی ج 18 ص 188) ۔ 6:۔ ” ان تظاھرا “ لیکن اگر تم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرضی کے خلاف مشورے کرتی رہو گی اور اس کام میں باہم تعاون کرتی ر ہوگی، تو آپ کو کوئی ضرر نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہے جبرائیل امین، خیار المومنین اور تمام فرشتے آپ کے حامی اور معاون ہیں۔ صالح المومنین سے جنس مراد ہے اور اس سے خیار المومنین مراد ہیں جن میں خلفاء راشدین بطریق اولی داخل ہیں۔ والمراد بالصالح الجنس ولذلک عم بالاضافۃ (بیضاوی ج 2 ص 384) ۔ وان اقول العموم اولی، وھما (ابو بکر وعمر) وکذا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ یدخلون دخولا اولیا (روح ج 28 ص 154) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) اے پیغمبر کی دونوں بیویو ! اگر تم دونوں اللہ تعالیٰ کے روبرو توبہ کرو اور اللہ تعالیٰ کی جناب میں رجوع کرو تو بہتر ہے کیونکہ تمہارے دل مائل ہورہے ہیں اور تمہارے دل کج ہورہے ہیں اور اگر تم پیغمبر کے مقابلہ میں ایک دوسرے کی مددگار بنوگی اور اس کے خلاف مظاہر ہ کرو گی تو یقین مانو کہ پیغمبر کارفیق ا... ور حامی اللہ تعالیٰ ہے اور جبرئیل (علیہ السلام) ہے اور نیک مسلمان ہیں اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مددگار ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دونوں بیویو ! تم کو اللہ تعالیٰ کی جناب میں رجوع ہونا چاہیے اور اس کی جناب میں توبہ کرنی چاہیے بلا شبہ تمہارے دل جادہ اعتدال سے ہٹ گئے ہیں اور تمہارے دل کج اور ٹیڑھے ہوگئے ہیں کیونکہ اول تو پیغمبر کے راز کو پوشیدہ نہ رکھ سکیں پھر پیغمبر کو دوسری بیویوں کی طرف سے ہٹا کر اپنی طرف مائل کرنا چاہتی ہو اور دوسروں کے حقوق تلف کرنا چاہتی ہو اور دوسری بیویوں کی دل شکنی کرنا چاہتی ہو اور پیغمبر کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کرنا چاہتی ہو، لہٰذا تم توبہ کرلو تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم دونوں اسی قسم کی سازتیں کرتی رہیں اور اس قسم کا مظاہرہ کرتی رہیں جو پیغمبر کو پسند نہیں تو پیغمبر کو کوئی ضرر نہ ہوگا بلکہ اس قسم کی ہلکی اور قابل اعتراض باتوں سے تم کو ہی نقصان پہنچے گا کیونکہ پیغمبر کا تو اللہ تعالیٰ رفیق و حامی ہے اور جبرئیل ہے اور نکوکار مسلمان ہیں۔ مراد اس سے ہر مخلص مسلمان ہے یا حضرت ابوبکر (رض) وعمر (رض) مراد ہیں یا حضرت علی (رض) یا تمام صحابہ کرام (رض) ۔ بہرحال ان کی رفاقت اور حمایت کے علاوہ تمام ملائکہ بھی اس کے مددگار ہیں جہاں اتنے مددگار اور رفیق ہوں وہاں ظاہر ہے کہ ان کے مقابلے میں تم دو عورتوں کی کیا چلے گی لہٰذا تم کو تائب ہوکر پیغمبر کی خوشنودی حاصل کرنی چاہیے اور آئندہ کسی راز میں خیانت نہیں کرنی چاہیے۔ نہ دوسری بیویوں کی حق تلفی کے درپے ہونا چاہیے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جھک کر پڑے ہیں تمہارے دل یعنی توبہ ضرور ہے اور اس آیت کا ترجمہ فتح الرحمان میں یوں ہے اگر رجوع کرو اللہ تعالیٰ کی طرف تو بہتر ہو تحقیق کج ہوا ہے دل تمہارا۔ آگے ایک اور ان کے شبہے اور گھمنڈ کا جواب ہے کیونکہ بسا اوقات عورت کو یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر خاوند نے طلاق دے دی تو اس کا گھر برباد ہوجائے گا اور مجھ جیسی عورت نہیں ملے گی اسی قسم کے خیالات آگے کی آیت میں جواب دیا گیا ہے کہ اگر خدانخواستہ کہیں ایسی صورت پیش آگبی تو اس صورت میں بھی تم کو ہی نقصا پہنچے گا پیغمبر کا کچھ نہیں بگڑے گا چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔  Show more