Surat ut Tehreem

Surah: 66

Verse: 9

سورة التحريم

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الۡکُفَّارَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۹﴾

O Prophet, strive against the disbelievers and the hypocrites and be harsh upon them. And their refuge is Hell, and wretched is the destination.

اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command for Jihad against the Disbelievers and the Hypocrites Allah command's the Prophet! يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ ... O Prophet! Strive hard against the disbelievers and the hypocrites, Allah the Exalted orders His Messenger to perform Jihad against the disbelievers and hypocrites, the former with weapons and armaments and the later...  by establishing Allah's legislated penal code, ... وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ... and be severe against them, meaning, in this life, ... وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِيْسَ الْمَصِيرُ their abode will be Hell, and worst indeed is that destination. that is, in the Hereafter. The Disbeliever shall never benefit from His Believing Relative on the Day of Resurrection Allah the exalted said,   Show more

تحفظ قانون کے لئے حکم جہاد اللہ تعالیٰ اپنے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ کافروں سے جہاد کر ہتھیاروں کے ساتھ اور منافقوں سے جہاد کر حدود اللہ جاری کرنے کے ساتھ ، ان پر دنیا میں سختی کرو ، آخرت میں بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بدترین باز گشت ہے ، پھر مثال دے کر سمجھایا کہ کافروں کا مسلم... انوں سے ملنا جلنا خلط ملط رہنا انہیں ان کے کفر کے باوجود اللہ کے ہاں کچھ نفع نہیں دے سکتا ، دیکھو دو پیغمبروں کی عورتیں حضرت نوح علیہ السلام کی اور حضرت لوط علیہ السلام کی جو ہر وقت ان نبیوں کی صحبت میں رہنے والی اور دن رات ساتھ اٹھنے بیٹھنے والی اور ساتھ ہی کھانے پینے بلکہ سونے جاگنے والی تھیں ، لیکن چونکہ ایمان میں ان کی ساتھی نہ تھیں اور اپنے کفر پر قائم تھیں ، پس پیغمبروں کی آٹھ پہر کی صحبت انہیں کچھ کام نہ ئی ، انبیاء اللہ انہیں آخروی نفع نہ پہنچا سکے اور نہ آخروی نقصان سے بچا سکے ، بلکہ ان عورتوں کو بھی دوزخیوں کے ساتھ جہنم میں جانے کو کہہ دیا گیا ۔ یہ یاد رہے کہ خیانت کرنے سے مراد بدکاری نہیں ، انبیاء علیہم السلام کی حرمت و عصمت اس سے بہت اعلیٰ اور بالا ہے کہ ان کی گھر والیاں فاحشہ ہوں ، ہم اس کا پورا بیان سورہ نور کی تفسیر میں کر چکے ہیں ، بلکہ یہاں داد خیانت فی الدین یعنی دین میں اپنے خاوندوں کی خیانت کی ان کا ساتھ نہ دیا ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ان کی خیانت زنا کاری نہتھی بلک ہیہ تھی کہ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی تو لوگوں سے کہا کرتی تھی کہ یہ مجنوں ہیں اور لوط علیہ السلام کی بیوی جو مہمان حضرت لوط کے ہاں آتے تو کافروں کو خبر کر دیتی تھیں ، یہ دونوں بد دین تھیں نوح علیہ السلام کی راز داری اور پوشیدہ طور پر ایمان لانے والوں کے نام کافروں پر ظاہر کر دیا کرتی تھیں ، اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی بھی اپنے خاوند اللہ کے رسول علیہ السلام کی مخالف تھیں اور جو لوگ آپ کے ہاں مہمان بن کر ٹھہرتے یہ جا کر اپنی کافر قوم کو خبر کر دیتی جنہیں بد عمل کی عادت تھی ، بلکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کسی پیغمبر کی کسی عورت نے کبھی بدکاری نہیں کی ، اسی طرح حضرت عکرمہ حضرت سعید بن جیر حضرت ضحاک وغیرہ سے بھی مروی ہے ، اس سے استدلال کر کے بعض علماء نے کہا ہے کہ وہ جو عام لوگوں میں مشہور ہے کہ حدیث میں ہے جو شخص کسی ایسے کے ساتھ کھائے جو بخشا ہوا ہو اسے بھی بخش دیا جاتا ہے ، یہ حدیث بالکل ضعیف ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ حدیث محض بے اصل ہے ، ہاں ایک بزرگ سے مروی ہے کہ انہوں نے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور پوچھا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں لیکن اب میں کہتا ہوں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 کفار کے ساتھ جہاد، و قتال کے ساتھ اور منافقین سے، ان پر حدود الٰہی قائم کرکے، جب وہ ایسے کام کریں جو موجب حد ہوں۔ 9۔ 2 یعنی دعوت و تبلیغ میں سختی اور احکام شریعت میں درشتی اختیار کریں کیونکہ یہ لاتوں کے بھوت ہیں جو باتوں سے ماننے والے نہیں ہیں اس کا مطلب ہے کہ حکمت تبلیغ کبھی نرمی کی متقاضی ہوت... ی ہے اور کبھی سختی کی ہر جگہ نرمی بھی مناسب نہیں اور ہر جگہ سختی بھی مفید نہیں رہتی تبلیغ ودعوت میں حالات وظروف اور اشخاص و افراد کے اعتبار سے نرمی یا سختی کرنے کی ضرورت ہے۔ 9۔ 3 یعنی کافروں اور منافقوں دونوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠] اس آیت کے پورے پورے الفاظ سورة توبہ کی آیت نمبر ٧٣، جیسے ہی ہیں۔ لہذا اس کی تشریح سورة توبہ کے حاشیہ نمبر ٨٨ کے تحت ملاحظہ کی جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یٰـاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰـفِقِیْنَ ۔۔۔۔۔: پچھلی آیات میں ایمان والوں کا ٹھکانہ بتایا تھا، اب دنیا اور آخرت میں کفار کے معاملے کا ذکر فرمایا کہ دنیا میں ان کے ساتھ جہاد کرنا ہے اور ان پر سختی کرنی ہے ، کسی قسم کی مداہنت یا چشم پوشی سے کام نہیں لینا ، تا کہ اسلام کا کلمہ سر ... بند رہے اور یہ لوگ اس کے سامنے سر جھکا کر زندگی بسر کریں اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ منافقین کے ساتھ جہاد سے کیا مراد ہے ، اس کے لیے دیکھئے سورة ٔ توبہ ( ٧٣) کی تفسیر۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ جَاہِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْہِمْ۝ ٠ ۭ وَمَاْوٰىہُمْ جَہَنَّمُ۝ ٠ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝ ٩ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة،...  أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» «1» . والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» «2» . ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ونَيْفَقُ السَّرَاوِيلِ معروفٌ نا فقاء الیربوع ہے یعنی جنگلی چوہے کا بل جس کے دود ھا نے ہوں نافق الیر بوع ونفق جنگی چوہیا اپنے مل کے دہانے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل گئی اور اسی سے نفاق ہے جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَالنَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ نیفق السراویل پا جامے کا نیفہ غلظ الغِلْظَةُ ضدّ الرّقّة، ويقال : غِلْظَةٌ وغُلْظَةٌ ، وأصله أن يستعمل في الأجسام لکن قد يستعار للمعاني كالكبير والکثير . قال تعالی: وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة/ 123] ، أي : خشونة . وقال : ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان/ 24] ، مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود/ 58] ، وجاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [ التوبة/ 73] ، واسْتَغْلَظَ : تهيّأ لذلک، وقد يقال إذا غَلُظَ. قال : فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] . ( ع ل ظ ) الغلظۃ ( غین کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ ) کے معنی موٹاپا یا گاڑھازپن کے ہیں یہ رقتہ کی ضد ہے اصل میں یہ اجسام کی صفت ہے ۔ لیکن کبیر کثیر کی طرح بطور استعارہ معانی کے لئے بھی استعمال ہوتاز ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة/ 123] چاہئے کہ وہ تم میں سختی محسوس کریں میں غلظتہ کے معنی سخت مزاجی کے ہیں ۔ نیز فرمایا۔ ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان/ 24] پھر عذاب شدید کی طرف مجبور کر کے لیجائیں گے ۔ مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود/ 58] عذاب شدید سے ۔ وجاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [ التوبة/ 73] کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو ۔ استغلظ کے معنی موٹا اور سخت ہونے کو تیار ہوجانا ہیں اور کبھی موٹا اور سخت ہوجانے پر بھی بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی ۔ أوى المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف/ 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود/ 43] ( ا و ی ) الماویٰ ۔ ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے { إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے { قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ } ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے صير الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] . و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال . ( ص ی ر ) الصیر کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

کفارو منافقین سے نرم رویہ نہ رکھا جائے قول باری ہے (یایھا النبی جاھد الکفارو المنافقین واغلظ علیھم وماواھم جھنم۔ اے نبی ! کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آئو، ان کا ٹھکانہ جہنم ہے) ۔ حسن کا قول ہے کہ اس زمانے میں حدود کی سزائیں سب سے زیادہ منافقین کو ملتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ن... ے حدود قائم کرنے کے سلسلے میں ان کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا حکم دیا۔ ایک قول کے مطابق منافقین کے ساتھ زبان سے جہاد ہوتا ہے اور کافروں کے ساتھ جنگ کے ذریعے جہاد ہوتا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت میں اس امر پر دلالت موجود ہے کہ کفار ومنافقین کے ساتھ سختی سے پیش آنا واجب ہے، نیز ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ان کا قرب اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ ” اگر تمہیں فاجر شخص کو نکیر کرنے کی قدرت نہ ہو تو کم از کم اس سے تیوری چڑھا کر ملو۔ “  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے نبی کریم کفار مکہ سے تلوار کے ساتھ اور منافقین مدینہ سے جہاد باللسان کیجیے تاکہ یہ لوگ مسلمان ہوجائیں اور ان پر قول و فعل کے ساتھ سختی کیجیے ان سب کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩{ یٰٓـاَیـُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ } ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) جہاد کیجیے کافروں سے بھی اور منافقوں سے بھی اور ان پر سختی کیجیے۔ “ یہ آیت جوں کی توں سورة التوبہ میں (آیت ٧٣ کے طور پر) بھی آچکی ہے۔ منافقین چونکہ بظاہر کلمہ گو اور ... قانونی لحاظ سے مسلمان تھے ‘ اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے مسلمانوں جیسا سلوک روا رکھتے تھے ۔ اس کے علاوہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی نرم مزاجی کی وجہ سے ان کی بہت سی شرارتوں کو نظرانداز بھی فرماتے رہتے تھے۔ چناچہ اپنی مسلسل سازشوں پر جوابدہی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے۔ یہاں تک کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں گستاخانہ جملے بھی کستے رہتے تھے ۔ مثلاً کہتے : { ھُوَ اُذنٌ} (التوبہ : ٦١) کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو نرے کان ہیں۔ ہر بات سن لیتے ہیں ‘ سمجھتے کچھ بھی نہیں (معاذ اللہ ! ) ۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان لوگوں پر سختی کرنے کا کہا جا رہا ہے ۔ { وَمَاْوٰٹھُمْ جَھَنَّمُط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ۔ } ” ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ‘ اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23 For explanation, see E. N . , 82 of Surah At-Taubah.

سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :23 تشریح کےلیےملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، التوبہ ، حاشیہ 82 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: جہاد کے معنیٰ در اصل جد و جہد کے ہیں۔ اس میں پُر امن جد و جہد بھی داخل ہے جس کے ذریعے کسی کو دِین کی دعوت دی جائے، اور دِین کی نشر و اشاعت اور اُس کی تنفیذ کے لئے کام کیا جائے، اور مسلح جد و جہد بھی داخل ہے جس کے ذریعے دُشمن کا مقابلہ کیا جائے، مگر یہ مسلح جد و جہد کافروں ہی کے مقابلے میں ہوسکتی...  ہے، منافق چونکہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں، اس لئے دُنیا میں ان کے ساتھ مسلمانوں ہی کا سا معاملہ کیا جاتا ہے، اور عام حالات میں اُن سے لڑائی نہیں کی جاتی، اِلاَّ یہ کہ وہ بغاوت پر اُتر آئیں۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(66:9) جاھد الکفار : جاھد امر کا صیغہ مذکر حاضر۔ مجاھدۃ (مفاعلۃ) مصدر تو جہاد کر۔ تو لڑائی کر۔ مجاھدۃ کے معنی دشمن کی مدافعت میں مقدور بھر کوشش و طاقت صرف کرنا۔ جہاد کی تین قسمیں ہیں :۔ (1) ظاہری دشمن سے جہاد۔ (2) شیطان سے جہاد۔ (3) اپنے نفس سے جہاد۔ یہاں جہاد نمبر (1) مراد ہے۔ اور جگہ قرآن مجی... د میں ہے :۔ وتجاھدون فی سبیل اللہ باموالکم وانفسکم (61:11) اور خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو۔ یہاں تینوں قسموں کا جہاد مراد ہے۔ الکفار مفعول بہٖ والمنفقین مفعول ثانی۔ (جہاد کرو کفار اور منافقین سے) ۔ واغلظ علیہم : واؤ عاطفہ اغلظ : امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ غلظۃ (باب نصر) مصدر بمعنی سختی کرنا۔ کسی کے خلاف تندخو ہونا۔ علیہم میں ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع الکفار والمنفقین ہیں۔ ماوہم : مضاف مضاف الیہ ماوی اسم ظرف ومصدر۔ قیام کرنا۔ رہنا۔ سکونت پذیر ہونا۔ مقام ۔ سکونت، ٹھکانا، اوی یاوی۔ ماضی و مضارع (باب ضرب) اوی بھی مصدر ہے اگر صلہ میں الی ہو تو پناہ پکڑنے اور فروکش کا معنی ہوگا ۔ لیکن اگر اس کے بعد لام آئے تو مہربانی اور رحم کرنے کے معنی ہوں گے۔ باب افعال سے اوی یؤوی ایوائ۔ متعدی ہے بمعنی کسی کو جگہ دینا۔ ماوھم ان کا ٹھکانہ۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع الکفار والمنفقین ہے۔ بئس المصیر : بئس فعل ذم ہے اس کی گردان نہیں آتی۔ اصل میں بئس تھا۔ بروزن سمع عین کلمہ کے اتباع میں اس کے فا کلمہ کو کسرہ دیا گیا پھر تخفیف کے لئے عین کلمہ کو ساکن کرلیا گیا بئس ہوگیا۔ المصیر باسم ظرف لوٹنے کی جگہ، صار یصیر سے نیز صار یصیر کا مصدر بھی (مصدر میمی) بمعنی لوٹنا۔ بئس المصیر بری جگہ ہے لوٹنے کی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی ان کے مقابلہ میں نرمی کا رویہ اختیار نہ کریں (دیکھیے سورة الفتح 29)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار اور منافقین کی ہر دم کوشش تھی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو ناکام اور رسوا کیا جائے، جس وجہ سے کفار اور منافقین پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان کی سزا جہنم بیان کی گئی ہے۔ اس سے پہلی آیت میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور اس کے ایماندا... ر ساتھیوں کو رسوا نہیں کرے گا، وہ ایمانداروں کو جنت میں داخل فرمائے گا اور ان کا ایمان جنت کے راستے میں ان کے لیے روشنی ثابت ہوگا۔ ان کے مقابلے میں کفار اور منافقین کی سزا جہنم ہوگی جو نہایت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتال فی سبیل اللہ کا حکم آنے سے پہلے بےحد صبر اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے دن رات کوشش فرمائی کہ کافر اور منافق صراط مستقیم پر گامزن ہوجائیں لیکن وہ لوگ کسی صورت بھی صراط مستقیم پر آنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان کے جرائم کے مطابق ان پر سختی کی جائے تاکہ وہ اپنے عقیدہ اور کردار پر نظر ثانی کرنے پر غور کریں۔ سختی یہ بھی ہے کہ ان کے مقابلے میں مسلمانوں کو ترجیح دی جائے، اور حالت جنگ میں انہیں قتل کیا جائے۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ جَاہِدُوا الْمُشْرِکِینَ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ وَأَلْسِنَتِکُمْ ) (رواہ ابوداؤد : باب کَرَاہِیَۃِ تَرْکِ الْغَزْوِ ) ” حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے مالوں، جانوں اور زبانوں کے ساتھ مشرکین سے جہاد کرو۔ “ مسائل ١۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار اور منافقین پر سختی کرنے کی تلقین کی گئی۔ ٢۔ کفار اور منافقین کا ٹھکانہ جہنم ہے جو رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ تفسیر بالقرآن کفار اور منافقین کا انجام : ١۔ منافق اللہ کو دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں۔ (النساء : ١٤٢) ٢۔ منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ (النساء : ١٤٥) (التوبہ : ٧٣، التحریم : ٩) (التوبہ : ٦٨)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مدینہ میں مسلمانوں نے ایسی ہی جماعت بنائی تھی ، اور ایسا ہی انقلاب برپا کردیا تھا ، اس لئے یہاں اس کے بچانے کی ہدایت کی جاتی ہے ، کیونکہ کفار اور منافقین اس کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ یایھا النبی .................... المصیر (٦٦ : ٩) ” اے نبی کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آﺅ۔ ا... ن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے “۔ پہلے یہ حکم دیا گیا کہ مسلمان اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم سے بچائیں ، خالص توبہ کریں جس کی وجہ سے ان کے گناہ معاف ہوں گے۔ اور وہ جنتوں میں داخل ہوں گے ، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں۔ اب حکم یہ ہے کہ کفار ومنافقین کے ساتھ جنگ کرو ، اس لئے کہ وہ اس قسم کی اسلامی سوسائٹی کے قیام سے خائف ہیں ، جس میں اسلام کے شیدائی تیار ہوں۔ وہ اس قسم کی سوسائٹی پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ جیسا کہ مدینہ میں بھی کفار اور منافقین کا یہی ہدف تھا اور آج بھی یہی ہے اور آئندہ بھی یہی ہوگا۔ یہاں کفار اور منافقین دونوں کے ساتھ جہاد اور سختی کا حکم دیا گیا ہے۔ کیونکہ دونوں اسلامی سوسائٹی کے انہدام کے لئے ایک ہی جیسے مقاصد رکھتے ہیں۔ لہٰذا دونوں پر سختی کی ضرورت ہے۔ وماوھم ................ المصیر (٦٦ : ٩) ” ان کا ٹھانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے “۔ یوں ان دونوں باتوں کے درمیان ربط ہوجاتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں اور منافقوں سے جہاد کرنے کا حکم : چوتھی آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب فرمایا کہ اے نبی آپ کافروں سے اور منافقوں سے جہاد کریں اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آئیں اور یہ بھی فرمایا کہ ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔ علامہ قرطبی (رح) لکھتے ہیں کہ اس آیت میں کافروں ... سے جہاد بالسیف کا اور منافقوں پر حجت قائم کرنے کا حکم فرمایا ہے انہیں یہ بتانا کہ آخرت میں تمہاری بدحالی ہوگی اور تمہارے ساتھ نور نہ ہوگا اور مومنین کے ساتھ پل صراط پر نہ گزر سکو گے یہ سب ان کے ساتھ جہاد کرنے اور سختی کا معاملہ کرنے کو شامل ہے پھر حضرت حسن سے نقل کیا ہے کہ سختی کا معاملہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر حدود قائم كیجئے کیونکہ وہ ایسے کام کرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے ان پر حد جاری کی جاتی تھی۔ صاحب روح المعانی نے بھی حضرت حسن (رح) سے یہ بات نقل کی ہے۔ ان حضرات نے جو کچھ فرمایا وہ بھی ٹھیک ہے، احقر کے خیال میں ﴿ وَ اغْلُظْ عَلَيْهِمْ﴾ کا مصداق یہ بھی ہے کہ منافقوں کی حرکتیں ایک عرصہ تک برداشت کرنے کے بعد انہیں ذلت کے ساتھ نام لے لے کر پکڑ پکڑ کر مسجد نبوی سے نکال دیا گیا تھا۔ كما ذکرناہ فی تفسیر سورة البقرة۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” یا ایہا النبی جاھد “ مضمون جہاد کا ذکر ہے جو سورة حدید کا دوسرا مضمون ہے۔ کفار اور منافقین دونوں فریقوں سے جہاد کا حکم فرمایا مگر دونوں کے ساتھ جہاد کی کیفیت مختلف ہے کافروں کے ساتھ سیف وسنان سے جہاد کرو اور منافقین سے حجت وبرہان سے (بیضاوی، مظہری، روح) ۔ جہاد اوراقامتِ حجت میں جہاں سختی اور ... شدت کی ضرورت ہو وہاں ان پر سختی بھی کریں۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو نہایت بری جگہ ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) اے نبی کفار کے اور منافقین کے ساتھ جہاد کیجئے اور ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیجئے ان سب کافروں اور منافقوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ جہنم بہت بری جگہ ہے۔ یعنی کافروں کے ساتھ جہاد تلوار سے اور منافقوں کے ساتھ جہاد زبان سے دنیا میں یہ اس کے مستحق ہیں اور آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو ٹھکانے اور...  پھرجانے کی بہت بری جگہ ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت کا خلق یہاں تک ہے کہ اللہ صاحب اوروں کو فرماتا ہے تحمل کرو ان کو فرماتا ہے سختی کرنا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عام شفقت اور رحمت مشہور ہے اس لئے کافروں کے خلاف سخت گیری کا حکم دیا یہ جہاد فرض ہونے کے بعد کی باتیں ہیں حضرت موسیٰ کے مزاج چونکہ سختی اور درشتی زیادہ تھی اس لئے ان کو فرعون کے مقابلے میں تحمل اور نرمی کا حکم دیا شاید شاہ صاحب (رح) کا اشارہ اسی طرح ہو آگے اللہ تعالیٰ چن عورتوں کا بیان فرماتا ہے۔ چونکہ اوپر قوا انفسکم والھیکم نارا، فرمایا تھا اس لئے بعض واقعات بیان فرمائے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ اصلاح حال کی ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے نیک لوگوں کا تلبس بھی جب ہی مفید ہوسکتا ہے جب خودبھی صلاحیت موجود ہو جس طرح اگر عورت میں خود صلاحیت موجود ہو تو تلبس بالفساق بلکہ کفار کا تلبس بھی ضرررساں نہیں۔ جیسا حضرت آسیہ (رض) زوجہ فرعون کا واقعہ بہرحال ارشاد ہوتا ہے۔  Show more