Surat ul Mulk

Surah: 67

Verse: 14

سورة الملك

اَلَا یَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَ ؕ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ﴿۱۴﴾٪  1

Does He who created not know, while He is the Subtle, the Acquainted?

کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا ؟پھر وہ باریک بین اور باخبربھی ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَلاَ يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ... Should not He Who has created know? This means, `doesn't the Creator know' ... وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ And He is the Most Kind and Courteous, All-Aware (of everything). Allah's Favor of subjugating the Earth to His Servants Then Allah mentions His favor to His creation in subjugating the earth to them, and making it subserv... ient to them. This is by His making it a stable abode and dwelling place. He placed in it mountains and caused water springs to gush forth from it. He fashioned pathways, and placed useful things in it and places fertile for the growth of fruit and vegetation. Allah says,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یعنی سینوں اور دلوں اور ان میں پیدا ہونے والے خیالات، سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے، تو کیا وہ اپنی مخلوق سے بےعلم رہ سکتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص کسی چیز کو پیدا کرتا یا بناتا یا وجود میں لاتا ہے۔ جتنا وہ اس چیز سے واقف ہوتا ہے۔ دوسرا کوئی نہیں ہوسکتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ پھر وہ انسان کے افعال و اعمال حتیٰ کہ اس کے دل کے ارادہ سے ناواقف اور بیخبر کیسے رہ سکتا ہے۔ اس کا ... دوسرا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیا اللہ کو یہ بھی علم نہیں کہ اس نے کون کون سی چیزیں پیدا کی ہیں ؟ [١٧] لطیف کا لغوی مفہوم :۔ لَطِیْفٌ۔ لطف کے معنی میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں، (١) رقت نظر اور (٢) نرمی۔ اور لطیف کے معنی میں کبھی صرف ایک ہی بات یعنی رقت نظر یا باریک بینی یا راز اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے آگاہی پائی جاتی ہے۔ اور کبھی دونوں باتیں پائی جاتی ہیں یعنی مخلوق کی چھوٹی چھوٹی تکالیف کا علم رکھنا اور پھر ازراہ مہربانی ان کا ازالہ کرتے رہنا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَ لَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۔۔۔۔: یہ ” علیم “ ہونے کی دلیل ہے کہ جو دل کا خالق اور دل میں چھپی ہوئی چیزوں کا خالق ہے ، زبان کا اور اس سے ادا ہونے والے اقوال کا خالق ہے ، کیا وہ اپنے ہی پیدا کیے ہوئے اسرار و اقوال نہیں جانے گا ؟ ” الصف “ کا مفہوم میں باریک سے باریک چیز جاننے کے ساتھ ساتھ نہایت مہربان...  ہونا بھی شامل ہے۔ اس میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کلیات کو جانتا ہے جزئیات کو نہیں جانتا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ۝ ٠ ۭ وَہُوَاللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ۝ ١٤ ۧ «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر...  نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ { هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ } ( سورة آل عمران 119) دیکھو ! تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے لطف اللَّطِيفُ إذا وصف به الجسم فضدّ الجثل، وهو الثّقيل، يقال : شعر جثل «1» ، أي : كثير، ويعبّر باللَّطَافَةِ واللُّطْفِ عن الحرکة الخفیفة، وعن تعاطي الأمور الدّقيقة، وقد يعبّر باللَّطَائِفِ عمّا لا تدرکه الحاسة، ويصحّ أن يكون وصف اللہ تعالیٰ به علی هذا الوجه، وأن يكون لمعرفته بدقائق الأمور، وأن يكون لرفقه بالعباد في هدایتهم . قال تعالی: اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری/ 19] ، إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف/ 100] أي : يحسن الاستخراج . تنبيها علی ما أوصل إليه يوسف حيث ألقاه إخوته في الجبّ ، ( ل ط ف ) اللطیف ۔ جب یہ کسی جسم کی صفت واقع ہو تو یہ جبل کی ضد ہوتا ہے جس کے معنی بھاری اور ثقیل کے ہیں کہتے ہیں شعر جبل ) یعنی زیادہ اور بھاری بال اور کبھی لطافۃ یا لطف سے خرکت حفیفہ اور دقیق امور کا سر انجام دینا مراد ہوتا ہے اور لطائف سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا ادراک انسای حواس نہ کرسکتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے لطیف ہونے کے معنی یا تو یہ ہیں کہ وہ انسانی حواس کے اور اک سے مافوق اور بالا تر ہے اور یا سے اس لئے لطیف کہا جا تا ہے کہ وہ دقیق امور تک سے واقف ہے اور یا یہ کہ وہ انسانوں کو ہدایت دینے میں نہایت نرم انداز اختیار کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری/ 19] خدا اپنے بندوں پر مہر بان ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف/ 100] بیشک میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے حسن تدبیر سے کرتا ہے میں لطیف سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کو حسن تدبیر سے سر انجام دینا ہے ۔ چناچہ دیکھے کہ یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف اکرم سے انہیں اس مرتبہ تک پہنچا دیا خبر الخُبْرُ : العلم بالأشياء المعلومة من جهة الخَبَر، وخَبَرْتُهُ خُبْراً وخِبْرَة، وأَخْبَرْتُ : أعلمت بما حصل لي من الخبر، وقیل الخِبْرَة المعرفة ببواطن الأمر، والخَبَار والخَبْرَاء : الأرض اللّيِّنة «2» ، وقد يقال ذلک لما فيها من الشّجر، والمخابرة : مزارعة الخبار بشیء معلوم، والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر «3» : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، وقیل أي : عالم ببواطن أمورکم، وقیل : خبیر بمعنی مخبر، کقوله : فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ المائدة/ 105] ، وقال تعالی: وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد/ 31] ، قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبارِكُمْ [ التوبة/ 94] ، أي : من أحوالکم التي نخبر عنها . ( خ ب ر ) الخبر ۔ جو باتیں بذریعہ خبر کے معلوم ہوسکیں ان کے جاننے کا نام ، ، خبر ، ، ہے کہا جاتا ہے ۔ خبرتہ خبرۃ واخبرت ۔ جو خبر مجھے حاصل ہوئی تھی اس کی میں نے اطلاع دی ۔ بعض نے کہا ہے کہ خبرۃ کا لفظ کسی معاملہ کی باطنی حقیقت کو جاننے پر بولا جاتا ہے ۔ الخبارو الخبرآء نرم زمین ۔ اور کبھی درختوں والی زمین پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ المخابرۃ ۔ بٹائی پر کاشت کرنا ۔ اسی سے کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے :۔ اور بعض نے کہا ہے کہ وہ تمہارے باطن امور سے واقف ہے ۔ اور بعض نے خبیر بمعنی مخیر کہا ہے ۔ جیسا کہ آیت ۔ فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ المائدة/ 105] پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تمہیں بتائیگا سے مفہوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد/ 31] اور تمہارے حالات جانچ لیں ۔ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبارِكُمْ [ التوبة/ 94] خدا نے ہم کو تمہارے سب حالات بتادئے ہیں ۔ یعنی تمہارے احوال سے ہمیں آگاہ کردیا گیا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور بھلا کیا وہ خفیہ باتوں کو نہیں جانے گا جس نے خفیہ باتوں کو پیدا کیا اور وہ باریک بین اور پورا باخبر ہے، یا یہ کہ اس کا علم نیکی اور برائی ہر ایک چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور وہ ہر ایک چیز سے باخبر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤{ اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ } ” کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے ؟ “ یہ آیت اپنے مضمون اور اسلوب کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ ہم میں سے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے دعوت کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق دی ہے ‘ انہیں ایسی آیات ازبر ہونی چاہئیں۔ ایک شخص نے اگر گھڑی بنائی ہے تو ظاہر ہے اس سے بڑھ کر ب... ھلا اور کون اس گھڑی کے بارے میں جان سکتا ہے ؟ چناچہ اللہ تعالیٰ جو انسان کا خالق ہے ‘ اس سے اس کے ظاہر اور باطن کا کوئی پہلو بھلا کیسے پوشیدہ رہ سکتا ہے ! { وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ۔ } ” اور وہ بہت باریک بین ہے ‘ ہر شے کی خبر رکھنے والا ہے۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21 Another translation can be: "Would He not know His own creatures?" In the original man khalaqa has been used, which may mean: "Who has created" as well as "whom He has created, " In both cases the meaning remains the same. This is the argument for what has been said in the preceding sentence. That is, how is it possible that the Creator should be unaware of His creation? The creation may remain...  unaware of itself, but the Creator cannot be unaware of it. He has made every vein of your body, every fibre of your heart and brain. You breathe because He enables you to breathe, your limbs function because He enables them to function, How then can anything of yours remain hidden from Him? 22 The word Latif as used in the original means the One Who works in imperceptible ways as well as the One Who knows the hidden truths and realities.  Show more

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :21 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا وہ اپنی مخلوق ہی کو نہ جانے گا ؟ اصل میں من خلق استعمال ہوا ہے ۔ اس کے معنی جس نے پیدا کیا ہے بھی ہو سکتے ہیں ، اور جس کو اس نے پیدا کیا ہے بھی ۔ دونوں صورتوں میں مطلب ایک ہی رہتا ہے ۔ یہ دلیل اس بات کی جو اوپر...  کے فقرے میں ارشاد ہوئی ہے ۔ یعنی آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ خالق اپنی مخلوق سے بے خبر ہو؟ مخلوق خود اپنے آپ سے بے خبر ہو سکتی ہے ، مگر خالق اس سے بے خبر نہیں ہو سکتا ۔ تمہاری رگ رگ اس نے بنائی ہے ۔ تمہارے دل و دماغ کا ایک ایک ریشہ اس کا بنایا ہوا ہے ۔ تمہارا ہر سانس اس کے جاری رکھنے سے جاری ہے ۔ تمہارا ہر عضو اس کی تدبیر سے کام کر رہا ہے ۔ اس سے تمہاری کوئی بات کیسے چھپی رہ سکتی ہے؟ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :22 اصل میں لفظ لطیف استعمال ہوا ہے جس کے معنی غیر محسوس طریقے سے کام کرنے والے کے بھی ہیں اور پوشیدہ حقائق کو جاننے والے کے بھی ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(67:14) الا یعلم من خلق یہ استفہام انکاری ہے۔ الا خبردار ہوجاؤ۔ جان لو، سن رکھو۔ ذہن نشین کرلو۔ یعلم من خلق اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) یعلم فعل بافاعل من خلق موصول اور صلہ مل کر یعلم کا مفعول ۔ ترجمہ ہوگا :۔ اللہ جانتا ہے جس کو اس نے پیدا کیا۔ اس صورت میں الا حرف تنبیہ ہے۔ (2) من خلق فاعل...  ہے یعلم فعل۔ مفعول محذوف : ای من خلق یعلم ما خلق جس نے پیدا کیا وہ جانتا ہے اس نے کیا پیدا کیا۔ اس صورت میں الا حرف استفہام ہے۔ بہرحال کلام سابق کی یہ تاکید ہے۔ وھو الطیف الخبیر : یہ جملہ خلق کی ضمیر فاعل سے حال ہے یعنی اللہ تعالٰٰ کا علم ہر چیز تک رسائی رکھتا ہے۔ خواہ وہ چیز ظاہر ہو یا پوشیدہ۔ لطیف صیغہ صفت مشبہ حالت رفع۔ باریک بین۔ دقیقہ رس۔ امور دقیقہ کو جاننے والا۔ وقت نظر اور حسن تدبیر سے کام لینے والا۔ بندوں پر مہربان ۔ نیکیوں کی توفیق دینے والا۔ کسی جس کے لطیف ہونے کے معنی ہیں نازک ہونا۔ باریک ہونا۔ کسی بات کے لطیف ہونے کے معنی ہیں باریک ہونا دقیق ہونا۔ کسی حرکت کے لطیف ہونے کے معنی ہیں سبک ہونا۔ ہلکا ہونا۔ لطف نرمی۔ لطف الٰہی اس کی رحمت۔ خبیر : خبردار۔ دانا۔ خبیر بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے اللہ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔ اور قرآن مجید میں یہ صرف ذات باری تعالیٰ کے لئے ہی مستعمل ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” جس نے پیدا کیا کیا وہ جانتا نہیں ہے ؟ “ پہلا صحیحہ ” من “ کو مفعول اور دوسرا ترجمہ فاعل ماننے کی صورت میں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الا یعلم من خلق (٧٦ : ٤١) ” کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا “۔ وھو ................ الخبیر (٧٦ : ٤١) ” حالانکہ وہ باریک بین اور باخبر ہے “۔ اس کا علم بہت ہی باریکی اور تاریکی تک پہنچا ہواہوتا ہے۔ ہر خقی ومستور بھی اس کے علم میں ہے۔ جو لوگ اپنی کوئی حرکت اللہ سے چھپاتے ہیں ، یا باتیں اللہ سے چھپاتے ... ہیں ، یا دل کی نیت کے بارے میں یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ تو نیت ہے ، وہ ایک مضحکہ خیز سوچ رکھتے ہیں۔ جس ضمیر میں وہ بات چھپاتے ہیں وہکس کے ہاتھ میں ہے ؟ وہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اس کے اندر ابھرنے والی سوچ کی تمام لہروں کو وہ جانتا ہے۔ نیت و ارادہ بھی اللہ کی مخلوقات کا حصہ ہے۔ اور اس کو بھی وہ جانتا ہے کہ کون کیا ارادہ رکھتا ہے۔ لوگ کیا چھپاتے ہیں اور کیا نہیں چھپاتے۔ قرآن انسان قلب میں یہ حقیقت بٹھانا چاہتا ہے اس لئے کہ اس طرح وہ حقیقت کبریٰ کا صحیح ادراک کرسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ ان کے اندر بیداری اور تقویٰ کا احساس بڑھتا ہے ، جس کا تعلق اس عظیم ذمہ داری کے ساتھ ہے ، جو انہوں نے اس جہاں میں اٹھائی ہے یعنی دنیا میں صحیح نظریہ حیات پھیلانا ، عدالت کا قیام ، اور نیت اور عمل میں خلوص کا حصول اور یہ مقام کوئی انسان اس وقت تک نہیں پاسکتا جب تک وہ ظاہر و باطن میں خدا سے نہ ڈرتا ہو ، اور اللہ بہت ہی لطیف وخبیر ہے۔ جب ایک مومن اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو وہ خفیہ نیت میں بھی اللہ سے ڈرتا ہے اور دل میں پوشیدہ وسوسہ کے بارے میں بھی ڈرتا ہے اور ظاہری قول اور قعل سے بھی ڈرتا ہے اگر وہ اللہ کی مرضی کے خلاف ہو ، کیونکہ اللہ تو وسوسہ سے خبردار ہے۔ اس کے بعد اب روئے سخن انسان کے نفوس اور ان کی نگرانی کے موضوع سے ، زمین کی طرف پھرتا ہے کہ اس کی تخلیق انسان کے لئے ہوئی ہے اور اس زمین کو تمہارے زیر نگیں بنایا گیا اور سب چیزیں تمہارے لئے پیدا کی ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا فرمایا : تیسری آیت میں فرمایا کہ تم اس بات کا اقرار کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہی سب کو پیدا فرمایا، اللہ تعالیٰ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے جب وہ ہر چیز کا خالق ہے تو اپنی ہر مخلوق کو کیسے نہ جانے گا تمہارے احوال و اقوال بھی اس کی مخ... لوق ہیں اسے ان سب کا علم ہے زور سے یا آہستہ سے بات کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اسے ظاہر اور باطن کا اور ہر چیز ہر قول ہر فعل کا علم ہے اس کے احاطہ علمی سے کوئی چیز باہر نہیں تمہارا یہ خیال کرنا کہ آہستہ بات کریں گے تو وہ نہ سنے گا اور اسے ہماری بات کا علم نہ ہوگا تو ہماری گرفت بھی نہ ہوگی یہ سب تمہاری جہالت اور ضلالت یعنی گمراہی ہے۔ وہ تمہارے عقائد اور اعمال پر ضرور سزا دے گا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) بھلا جس نے پیدا کیا ہے وہ اپنی مخلوق کے حالات سے بیخبر ہوسکتا ہے حالانکہ وہ بڑا باریک بیں اور پوری طرح باخبر ہے۔ یعنی بھلا جس نے پیدا کیا ہے وہ نہ جانے بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ جو خالق اور مختار ہو وہ خالق و مختار جس چیز کو پیدا کرے یہ ضروری ہے کہ اس کو پورا علم اس کا حاصل ہو ورنہ پیداکرن... ا ممکن نہیں بھلا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس نے بنایا وہی نہ جانے وہ نہایت لطیف اور ہر بھید سے واقف ہے۔ حقائق نفس الامریہ کے ادراک کے لئے وہاں کوئی چیز مانع نہیں کائنات کا کوئی ذرا ایسا نہیں کہ جس کے احوال سے وہ باخبر نہ ہو آگے اپنے بعض انعامات اور دلائل توحیدکا بیان فرمایا۔  Show more