Surat ul Mulk

Surah: 67

Verse: 19

سورة الملك

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اِلَی الطَّیۡرِ فَوۡقَہُمۡ صٰٓفّٰتٍ وَّ یَقۡبِضۡنَ ؔ ۘ ؕ مَا یُمۡسِکُہُنَّ اِلَّا الرَّحۡمٰنُ ؕ اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیۡءٍۭ بَصِیۡرٌ ﴿۱۹﴾

Do they not see the birds above them with wings outspread and [sometimes] folded in? None holds them [aloft] except the Most Merciful. Indeed He is, of all things, Seeing.

کیا یہ اپنےاوپر پر کھولے ہوئے اور ( کبھی کبھی ) سمیٹے ہوئے ( اڑنے والے ) پرندوں کو نہیں دیکھتے ، انہیں ( اللہ ) رحمن ہی ( ہوا و فضا میں ) تھامے ہوئے ہے بیشک ہرچیز اس کی نگاہ میں ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ ... Do they not see the birds above them, spreading out their wings and folding them in? meaning, sometimes they spread their wings out in the wind (gliding) and other times they gather and spread (flapping) the wings in flight. ... مَا يُمْسِكُهُنَّ ... None upholds them, meaning, in the air, ... إِلاَّ ال... رَّحْمَنُ ... except the Most Gracious. meaning, Allah holds them up in the air by subjecting the air to them out of His mercy and His gentleness. ... إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيرٌ Verily, He is the All-Seer of everything. means, with what is beneficial and suitable for all of His creatures. This is similar to His statement, أَلَمْ يَرَوْاْ إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَتٍ فِى جَوِّ السَّمَأءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلاَّ اللَّهُ إِنَّ فِى ذلِكَ لايَـتٍ لِّقَوْمٍ يُوْمِنُونَ Do they not see the birds held in the midst of the sky None upholds them but Allah. Verily, in this are clear Ayat for people who believe. (24:79)   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 پرندہ جب ہوا میں اڑتا ہے تو وہ پر پھیلاتا ہے اور کبھی دوران پرواز پروں کو سمیٹ لیتا ہے۔ یہ پھیلانا، صَف اور سمیٹ لینا قَبْض ہے۔ 19۔ 2 یعنی دوران پرواز ان پرندوں کو تھامے رکھنے والا کون ہے، جو انہیں زمین پر گرنے نہیں دیتا ؟ یہ اللہ رحمان ہی کی قدرت کا ایک نمونہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] صفت۔ صف یعنی صف بنانا، سیدھی قطار بنانا اور صف بمعنی ہر شے کی سیدھی قطار اور صف الطیر بمعنی پرندوں نے اپنی اڑان میں اپنے پروں کو قطار کی طرح سیدھا کردیا۔ نیز اس کا معنی پرندوں کا اپنے پروں کو ہوا میں پھیلا دینا اور بالکل بےحرکت بنادینا بھی ہے۔ جبکہ سب ایک ہی حالت میں ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ پرندے ہ... وا میں اڑتے ہوئے کبھی اپنے پر پھیلا بھی دیتے ہیں اور کبھی سکیڑ بھی لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ ہوا سے وزنی اجسام ہیں لیکن پھر بھی زمین پر گر نہیں پڑتے۔ نہ ہی زمین کی کشش ثقل انہیں اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ ہوا جو ایک کاغذ کا بھی بوجھ برداشت نہیں کرتی اور وہ بھی آہستہ آہستہ زمین پر آگرتا ہے۔ تو پرندوں کے وزنی اجسام کو ہوا میں کون تھامے رکھتا ہے اور زمین پر گرنے نہیں دیتا۔ آخر ان کو ہوا میں تیرتے پھرنے کا یہ طریقہ کس نے سکھایا ہے ؟ ، وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے پرندوں کے جسم کی ساخت ہی ایسی بنادی ہے کہ وہ بےتکلف ہوا میں اڑ بھی سکتے ہیں اور ٹھہر بھی سکتے ہیں۔ پر کھول کر بھی اور پر بند کرکے بھی۔ پھر انسان نے یہی اصول دریافت کرکے ہوائی جہاز ایجاد کیا جس کی شکل تک پرندوں سے ملتی جلتی ہے۔ اور وہ اپنے پر کھول بھی لیتے ہیں اور بند بھی کرلیتے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ اَوَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ فَوْقَھُمْ صٰٓفّٰتٍ ۔۔۔۔: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک اور قدرت بیان فرمائی کہ عام مشاہدے میں مادی چیزیں جو وزن رکھتی ہیں وہ نیچے کی طرف میلان رکھتی ہیں ، مگر پرندے وزن رکھنے کے باوجود فضاء میں اڑتے پھرتے ہیں ۔ اڑتے وقت اکثر وہ پر پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں ، کبھ... ی سکیڑ بھی لیتے ہیں ، انہیں تھامنے والا اس رحمان ( بےحد مہربان) کے علاوہ کوئی نہیں ۔ ” صفت “ اسم فاعل ہے جو دوام پر دلالت کرتا ہے اور ” یقبض “ فعل مضارع ہے جو تجدد پر دلالت کرتا ہے۔ فضاء کی بلندی میں اڑنے والے پرندے اکثر پر پھیلائے ہوئے اڑ رہے ہوتے ہیں ، کبھی پر مار بھی لیتے ہیں۔ ٢۔ اِنَّہٗ بِکُلِّ شّیْئٍم بَصِیْرٌ : یقینا وہ ہر چیز کو خوب دیکھنے والا ہے۔ فضاء میں اڑتے ہوئے پرندوں کو وہی تھامے ہوئے ہے ، ہوا میں معلق زمین کو گرنے سے بچانے والا وہی ہے اور آسمانوں کو ستونوں کے بغیر ان کی جگہ قائم رکھنے والا بھی وہی ہے۔ غرض اس کائنات کی ہر چیز کی مسلسل نگرانی اور دیکھ بھال وہی کر رہا ہے اور وہی اسے تھامے ہوئے ہے ، اگر وہ ایک لمحہ کے لیے توجہ ہٹا لے تو سب کچھ فنا ہوجائے ، جیسا کہ فرمایا :(اِنَّ اللہ یُمْسِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلاَج وَلَئِنْ زَالَتَآ اِنْ اَمْسَکَھُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْم بَعْدِہٖط اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا ) ( فاطر : ١٤)” بیشک اللہ ہی آسمانوں کو اور زمین کو تھامے رکھتا ہے ، اس سے کہ وہ اپنی جگہ سے ملیں اور اگر فی الواقع وہ ہٹ جائیں تو اسکے بعد کوئی نہیں جو انہیں تھام لے گا ، بیشک وہ ہمیشہ سے نہایت برد بار ، بےحد بخشنے والا ہے “۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَوَلَمْ يَرَ‌وْا إِلَى الطَّيْرِ‌ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ ۚ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّ‌حْمَـٰنُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيرٌ‌ (Have they not looked to the birds above them spreading their wings, and (at times) they fold (them) in? No one holds them up except the Rahman (the All-Merciful). Surely He is watchful of every thing...67:19) This verse invites attention to the fact th... at the birds have weight, and in terms of the law of gravity, weighty bodies should fall down on the earth, if they are released from above. Normally, it is not possible for the air to hold them up. But Allah, through His consummate power, has created these birds in such a way that they can hold themselves up in the air. Apparently, they have no intellect, but Allah has taught them the art to make the air carry their burden and to fly in it by maneuvering their wings in such a way that at times they outspread them and at other times they fold them back. In this way they subjugate the air to their benefit. It is obvious that enabling air to hold them up, designing the wings of the birds on this particular shape and teaching them the art of controlling the air, all these functions were possible only by Allah&s Supreme Creative Power. Thus far the conditions of various categories and species of existent beings were analysed and considered in order to provide evidence of Divine existence, His Oneness, His unique knowledge and power. If a fair-minded person were to consider them carefully, he will have no choice but to believe in Allah. From the next verse up to the end of the Surah, the non-believers and the unrighteous people of all categories are warned of the Divine scourge. First, they are admonished that if Allah decides to punish any nation, there is no power in the world that can stop Him. There is no fighting force or army of soldiers that can come to the support of the disbelievers and save them. Thus the next verse says:  Show more

(آیت) اَوَلَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ الآیتہ، یعنی کیا وہ پرندوں کو اپنے سروں پر اڑتے ہوئے نہیں دیکھتے جو کبھی اپنے بازؤں کو پھیلا دیتے ہیں اور بکھی سیمٹ لیتے ہیں۔ ان میں غور کرو کہ یہ وزنی جسم میں عام قاعدہ کیر و سے وزنی جسم جب اوپر چھوڑا جائے تو اسے زمین پر گجانا چاہئے ہو ان وزنی جسموں کو عام طو... ر پر نہیں روک سکتی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ان پرندوں جانوروں کو ایسی وضع پر بنایا ہے کہ وہ ہوا پر ٹھہر سکیں اور ہوا پر اپنے جسام کا بوجھ ڈالنے اور اس میں تیرتے ہوئے پھرنے کے لئے حق تعالیٰ نے اس بظاہر بےعقل و شعور جانور کو یہ سلیقہ سکھا دیا ہے کہ وہ اپنے پروں کو پھیلانے اور سمیٹنے کے ذریعہ ہوا کو مسخر کرلیتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہوا میں یہ صلاحیت پیدا کرنا، پرندوں کے پروں کو اس وضع پر بنانا پھر ان کو اپنے پروں کے ذریعہ ہوا پر کنٹرول کرنے کا سلیقہ سکھانا یہ سب حق تعالیٰ ہی کی قدرت کاملہ سے ہے۔ یہاں تک ممکنات و موجودات کی مختلف اصناف کے حالات میں غور و فکر کے ذریعہ حق تعالیٰ کے وجود اور توحید اور بےنظیر علم وق درت کے دلائل جمع فرمائے گئے جن میں ذرا بھی غرو و فکر کرنیوالے کو حق تعالیٰ پر ایمان لانے کے سوا چارہ نہیں رہتا، آگے ختم سورت تک کفار و فجار منکرین اور بدعمل لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرایا گیا ہے۔ پہلے اس پر تنبیہ کی گئی کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل کرنا چاہیں تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو نہیں روک سکتی، تمہارے لشکر اور سپاہی اس سے تم کو نہیں بچا سکتے،   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ فَوْقَہُمْ صٰۗفّٰتٍ وَّيَقْبِضْنَ۝ ٠ ؔۘ ۭ مَا يُمْسِكُـہُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ بِكُلِّ شَيْءٍؚبَصِيْرٌ۝ ١٩ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : أ... لف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں طير الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] ( ط ی ر ) الطائر ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ صف الصَّفُّ : أن تجعل الشیء علی خط مستو، کالناس والأشجار ونحو ذلك، وقد يجعل فيما قاله أبو عبیدة بمعنی الصَّافِّ قال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف/ 4] ، ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه/ 64] ، يحتمل أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الصَّافِّينَ ، وقال تعالی: وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات/ 165] ، وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات/ 1] ، يعني به الملائكة . وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر/ 22] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] ، فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج/ 36] ، أي : مُصْطَفَّةً ، وصَفَفْتُ كذا : جعلته علی صَفٍّ. قال : عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور/ 20] ، وصَفَفْتُ اللّحمَ : قدّدته، وألقیته صفّا صفّا، والصَّفِيفُ : اللّحمُ المَصْفُوفُ ، والصَّفْصَفُ : المستوي من الأرض كأنه علی صفٍّ واحدٍ. قال : فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً [ طه/ 106] ، والصُّفَّةُ من البنیان، وصُفَّةُ السَّرج تشبيها بها في الهيئة، والصَّفُوفُ : ناقةٌ تُصَفُّ بين مَحْلَبَيْنِ فصاعدا لغزارتها، والتي تَصُفُّ رجلَيْها، والصَّفْصَافُ : شجرُ الخلاف . ( ص ف ف ) الصف ( ن ) کے اصل معنی کسی چیز کو خط مستوی پر کھڑا کرنا کے ہیں جیسے انسانوں کو ایک صف میں کھڑا کرنا یا ایک لائن میں درخت وغیرہ لگانا اور بقول ابوعبیدہ کبھی صف بمعنی صاف بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ نَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف/ 4] جو لوگ خدا کی راہ میں ایسے طور پر ) پرے جما کر لڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بیشک محبوب کرو گار ہیں ۔ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه/ 64] پھر قطار باندھ کر آؤ ۔ وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر/ 22] اور فرشتے قطار باندھ کر آموجود ہوں گے ۔ میں صفا مصدر بھی ہوسکتا ہے اور بمعنی صافین ( اسم فاعل ) بھی اور آیات : ۔ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات/ 165] اور ہم صف باندھتے رہتے ہیں ۔ وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات/ 1] قسم ہے صف بستہ جماعتوں ن کی میں صافون اور صافات سے مراد فرشتے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] اور پرند بازو پھیلائے ہوئے ۔ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج/ 36] تو ( قربانی کرنے کے وقت قطار میں کھڑے ہوئے اونٹوں پر خدا کا نام لو ۔ اور صففت کذا کے معنی کسیچیز کی صف لگانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور/ 20] صف میں لگائے تختوں پر ۔ صفقت اللحم کے معنی گوشت کے پار چوں کو بریاں کرنے کے لئے سیخ کشیدہ کرنے کے ہیں اور سیخ کشیدہکئے ہوئے پار چوں کو صفیف کہا جاتا ہے : ۔ الصفصف ہموار میدان گویا وہ ایک صف کی طرح ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً [ طه/ 106] اور زمین کو ہموار میدان کر چھوڑے گا جس میں نہ تم کجی ( اور پستی ) دیکھو گے اور نہ ٹیلا ) اور نہ بلندی ۔ الصفۃ کے معنی سایہ دار چبوتر ہ یا بر آمدہ کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر زین کی گدی کو صفۃ السراج کہا جاتا ہے ۔ الصفوف وہ اونٹنی جو زیادہ دودھ دینے کی وجہ سے دو یا تین برتن بھرے یا وہ جو دودھ دوہنے کے وقت اپنی ٹانگوں کو ایک قطار میں رکھ کر کھڑی ہوجائے ۔ الصفصاف بید کا درخت ۔ قبض القَبْضُ : تناول الشیء بجمیع الکفّ. نحو : قَبَضَ السّيفَ وغیرَهُ. قال تعالی: فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] ، فَقَبْضُ الید علی الشیء جمعها بعد تناوله، وقَبْضُهَا عن الشیء جمعها قبل تناوله، وذلک إمساک عنه، ومنه قيل لإمساک الید عن البذل : قَبْضٌ. قال : يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة/ 67] ، أي : يمتنعون من الإنفاق، ويستعار الْقَبْضُ لتحصیل الشیء وإن لم يكن فيه مراعاة الكفّ ، کقولک : قَبَضْتُ الدّار من فلان، أي : حزتها . قال : تعالی: وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] ، أي : في حوزه حيث لا تمليك لأحد . وقوله : ثُمَّ قَبَضْناهُ إِلَيْنا قَبْضاً يَسِيراً [ الفرقان/ 46] ، فإشارة إلى نسخ الظّلّ الشمس . ويستعار القَبْضُ للعدو، لتصوّر الذي يعدو بصورة المتناول من الأرض شيئا، وقوله : يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] ، أي : يسلب تارة ويعطي تارة، أو يسلب قوما ويعطي قوما، أو يجمع مرّة ويفرّق أخری، أو يميت ويحيي، وقد يكنّى بِالْقَبْضِ عن الموت، فيقال : قَبَضَهُ الله، وعلی هذا النّحو قوله عليه الصلاة والسلام : «ما من آدميّ إلّا وقلبه بين أصبعین من أصابع الرّحمن» «2» أي : اللہ قادر علی تصریف أشرف جزء منه، فكيف ما دونه، وقیل : راعٍ قُبَضَةٌ: يجمع الإبلَ والِانْقِبَاضُ : جمع الأطراف، ويستعمل في ترک التّبسّط . ( ق ب ض ) القبض ( ض ) کے معنی چٹکی سے کوئی چیز لینے کے ہیں اور جو چیز چٹکی سے لی گئی ہو اسے قبض وقبیصۃ کہا جاتا ہے اس لئے قمیص حقیر چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] تو میں نے ایک مٹھی بھر لی ۔ میں ایک قرات فقبضت قبصۃ ( صاد مہلہ ) کے ساتھ بھی ہے ۔ قبوص سبک رفتار اور چست گھوڑا جو دوڑتے وقت صرف سم ہی زمین پر لگائے ۔ اور تیز رفتار گھوڑے پر اس کا اطلاق مجازی سرعت رفتاری کے لئے قبض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ ( ق ب ض ) القبض کے معنی کسی چیز کو پورے پنجے کے ساتھ پکڑنے کے ہیں جیسے قبض السیف وغیرہ تلوار کو پکڑنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] تو میں نے فرشتے کے نقش پا سے مٹی کی ایک مٹھی میں لے لینے کے ہیں اور قبضھا عن الشئی کے منعی کسی چیز کو پکڑنے سے ہاتھ سکیڑ لینے کے ہیں اسی مفہوم کے لحاظ سے مال خرچ کرنے سے ہاتھ روک لینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة/ 67] اور خرچ کرنے سے ہاتھ بند کئے رہتے ہیں ۔ یعنی خرچ نہیں کرتے ۔ اور استعارہ کے طور پر کیس چیز کے حاصل کرلینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے اگر چہ اسے ہاتھ سے نہ پکڑا جائے جیسے محاورہ ہے : ۔ قبضت الدر من فلان یعنی اسے اپنے تصرف میں لے لیا قرآن میں ہے ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی یعنی اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہوگی اور کسی کا ملک نہیں ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ قَبَضْناهُ إِلَيْنا قَبْضاً يَسِيراً [ الفرقان/ 46] پھر ہم اس کو آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ۔ میں سورج کے سایہ کو نقل کرنے کی طرف اشارہ ہے اور استعارہ کے طور پر قبض کے معنی تیز دوڑنے کے بھی آتے ہیں اس لحاظ سے کہ گویا دوڑ نے والا زمین سے کسی چیز کو پکڑتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] اور خدا ہی روزی کو تنگ کرتا اور اسے وہی کشادہ کرتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ کبھی چھین لیتا ہے اور کبھی عطا کردیتا ہے ۔ یا ایک قوم سے چھین لیتا ہے اور دوسری کو عطا کردیتا ہے اور یا اس کے معنی زندہ کرنے اور مارنے کے ہیں کیونکہ کبھی قبض موت سے کنایہ ہوتا ہے چناچہ محاورہ ہے : ۔ قبضہ اللہ اللہ نے اس کی روح قبض کرلی اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا |" ما من آدميّ إلّا وقلبه بين أصبعین من أصابع الرّحمن»کہ ہر آدمی کا دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان میں ہے یعنی انسان کے سب سے اشرف جزء پر اللہ تعالیٰ کو تصرف حاصل ہے تو دوسرے اعضاء پر بالا ولٰی تصرف حاصل ہوگا ۔ راعی قبضۃ منتظم چرواہا الا نقباض کے معنی اطراف یعنی ہاتھ پاؤں سمیٹ لینے کے ہیں اور ترک تبسط یعنی بےتکلفی چھوڑ دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ مسك إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] ، أي : يحفظها، واستمسَكْتُ بالشیء : إذا تحرّيت الإمساک . قال تعالی: فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف/ 43] ، وقال : أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف/ 21] ، ويقال : تمَسَّكْتُ به ومسکت به، قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة/ 10] . يقال : أَمْسَكْتُ عنه كذا، أي : منعته . قال : هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر/ 38] ، وكنّي عن البخل بالإمساک . والمُسْكَةُ من الطعام والشراب : ما يُمْسِكُ الرّمقَ ، والمَسَكُ : الذَّبْلُ المشدود علی المعصم، والمَسْكُ : الجِلْدُ الممسکُ للبدن . ( م س ک ) امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہستہ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے ۔ استمسکت اشئی کے معنی کسی چیز کو پکڑنے اور تھامنے کا ارداہ کرنا کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف/ 43] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اسے مضبوط پکرے رہو ۔ أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف/ 21] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے ( سند ) پکڑتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ کیس چیز کو پکڑنا اور تھام لینا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة/ 10] اور کافر عورتوں کی ناموس قبضے میں نہ رکھو ( یعنی کفار کو واپس دے دو ۔ امسکت عنہ کذا کسی سے کوئی چیز روک لینا قرآن میں ہے : ۔ هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر/ 38] تو وہ اس کی مہر بانی کو روک سکتے ہیں ۔ اور کنایہ کے طور پر امساک بمعنی بخل بھی آتا ہے اور مسلۃ من الطعام واشراب اس قدر کھانے یا پینے کو کہتے ہیں جس سے سد رہق ہوسکے ۔ المسک ( چوڑا ) ہاتھی دانت کا بنا ہوا زبور جو عورتیں کلائی میں پہنتی ہیں المسک کھال جو بدن کے دھا نچہ کو تھا مے رہتی ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بصیر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة : بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔ اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر پرندوں پر نظر نہیں کی کہ پر پھیلائے ہوئے اڑتے پھرتے ہیں اور کبھی اسی حالت میں پر سمیٹ لیتے ہیں، اللہ کے سوا ان کو کون تھامے ہوئے ہے اور وہ سب کو دیکھ رہا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

یعنی اس کائنات کی ایک ایک مخلوق اور ایک ایک چیز جس قانونِ طبعی پر چل رہی ہے وہ اللہ ہی کا وضع کردہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29 That is, each bird that flies in the air, dces so in the protection of the AII-Merciful God. He it is Who has given to each bird the form and structure by which it became able to fly; He it is Who has taught each bird the method to fly; He it is Who has made the air obey the laws by which it became possible for the heavier than air bodies to fly in it; and He it is Who upholds every bird in the...  air; otherwise the moment AIIah withdraws His protection from it, it drops to the ground. 30 That is, this is not confined only to birds, but whatever exists in the world, exists because of Allah's keeping and guardianship. He alone provides the . means necessary for the existence of everything, and He alone keeps watch that everything created by Him is provided with the necessities of life.  Show more

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :29 یعنی ایک ایک پرندہ جو ہوا میں اڑ رہا ہے ، خدائے رحمن کی حفاظت میں اڑ رہا ہے ۔ اسی نے ہر پرندے کو وہ ساخت عطا فرمائی جس سے وہ اڑنے کے قابل ہوا ۔ اسی نے ہر پرندے کو اڑنے کا طریقہ سکھایا ۔ اسی نے ہوا کو ان قوانین کا پابند کیا جن کی بدولت ہوا سے زیادہ بھاری جسم رکھنے وا... لی چیزوں کا اس میں اڑنا ممکن ہوا ۔ اور وہی ہر اڑنے والے کو فضا میں تھامے ہوئے ہے ، ورنہ جس وقت بھی اللہ اپنی حفاظت اس سے ہٹا لے وہ زمین پر آ رہے ۔ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :30 یعنی کچھ پرندوں ہی پر موقوف نہیں ، جو چیز بھی دنیا میں موجود ہے اللہ کی نگہبانی کی بدولت موجود ہے وہی ہر شے کے لیے وہ اسباب فراہم کر رہا ہے جو اس کے وجود کے لیے درکار ہیں ، اور وہی اس بات کی نگرانی کر رہا ہے کہ اس کی پیدا کردہ ہر مخلوق کو اس کی ضروریات بہم پہنچیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(67:19) اولم یروا الی الطیر فوقھم۔ ہمزہ استفہامیہ واؤ عاطفہ جس کا عطف کلام مقدرہ پر ہے ای اغفلوا ولم ینظروا ۔۔ کیا وہ بھول گئے اور اپنے اوپر پرندوں کو نہیں دیکھا۔ طیر طائر کی جمع ہے جیسے صاحب کی صحب جمع ہے۔ اور راکب کی جمع رکب ہے ابو عبیدہ اور مطرب کا بیان ہے کہ لفظ طیر واحد اور جمع دونوں کے لئے ... آتا ہے جیسے آیت ہذا میں بمعنی جمع آیا ہے ۔ اور آیت شریفہ فیکون طیرا باذن اللہ (3:49) تو وہ ہوجاوے اڑتا ہوا (جانور) پرندہ اللہ کے حکم سے۔ میں طیر کا اطلاق واحد پر ہوا ہے۔ ابن الانباری نے کہا ہے کہ طیر جمع ہی ہے اور اس کی تانیث بہ نسبت تذکیر کے زیادہ مستعمل ہے اور واحد کے لئے طیر نہیں بلکہ طائر ہے۔ فوقھم مضاف مضاف الیہ۔ ان کے اوپر۔ صفت : پرا باندھے۔ صف بستہ۔ پر کھولے ہوئے صف (باب نصر) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مؤنث۔ صافۃ کی جمع ہے ویقبضن واؤ عاطفہ یقبضن مضارع جمع مؤنث غائب ۔ قبض (باب ضرب) مصدر۔ وہ (پر) سمیٹتے ہیں۔ اس کا عطف صفت پر ہے۔ ہر دو صفت و یقبضن : حال ہیں الطیر سے۔ ترجمہ ہوگا :۔ کیا انہوں نے اپنے اوپر پرندوں کو نہیں دیکھا بحالیکہ وہ (اڑنے میں) پروں کو کھولتے اور بند کرتے ہیں۔ ما یمسکھن : ما نافیہ ، یمسکہن مضارع منفی واحد مذکر غائب ھن ضمیر جمع مؤنث غائب ، امساک (افعال) مصدر ، بمعنی روکے رکھنا، تھامے رکھنا۔ ھن کا مرجع الطیر ہے۔ یہ جملہ مستانفہ بھی ہوسکتا ہے اور یقبضن کے ضمیر فاعل سے حال بھی۔ مایمسکہن الا الرحمن یعنی فضا میں پرندوں کو ان کی فطرت کے خلاف (کہ بھاری چیز ہمیشہ فضا میں زمین کی طرف گرتی ہے) صرف رحمن ہی روکے رکھتا ہے۔ انہ بکل شیء بصیر : یعنی وہ صرف پرندوں کو ہی ہوا میں اڑنے میں ان کی نگہبانی نہیں کرتا بلکہ کائنات میں ہر عجیب و غریب مخلوق کی تخلیق اور تدبیر سے واقف ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی اپنی کسی مخلوق سے بیخبر نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی ایک اور قدرت جس پر لوگوں کو غور کرنا چاہیے۔ ” اللہ “ ہی وہ ذات ہے جس نے زمین کو فرش کے طور پر بچھایا اور پھیلایا اور اس میں کشش اتصال پیدا فرمائی۔ اسی وجہ سے فضا میں ایک حد تک پھرنے والی چیز کو زمین اپنی طرف کھینچتی ہے۔ بیشک بندوق کی گولی ہو یا یا سکڈ میزائل بال... آخر وہ زمین پر آتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے پرندوں میں ایسی قوت اور شعور پیدا کیا ہے جس بنا پر وہ فضا میں اپنی مرضی کے مطابق اڑتے اور پھرتے ہیں۔ کبھی دونوں پَر کبھی ایک پر ہلاتے ہیں، کبھی دونوں پَر پھیلا کر فضا میں تیر رہے ہوتے ہیں اور کبھی دونوں پروں کو بند کرلیتے ہیں انہیں یہ قوت اور شعور دینے والی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس لیے ارشاد فرمایا ہے کہ اپنے سروں پر اڑنے والے پرندوں پر غور کرو کہ جو کبھی پروں کو پھیلاتے ہیں اور کبھی انہیں سکیڑلیتے ہیں۔ الرّحمن کے سوا کوئی ایسی ذات اور طاقت نہیں جو انہیں تھام سکتی ہو۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو انہیں تھامتی ہے اور ہر چیز کو دیکھنے والی ہے۔ آج جس قدر فضاء میں ہوائی جہاز پرواز کررہے ہیں ان کی تکنیک کسی نہ کسی پرندے کی اڑان سے سیکھی گئی ہے۔ کچھ جہاز ایسے ہیں جنہیں لمبے رن وے (Run way) کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ ایسے ہیں جو ایک ہی جگہ پر کھڑے اوپراٹھتے ہیں۔ یہی پرندوں کی کیفیت ہے کہ کچھ پرندے آگے دوڑ کر اڑتے ہیں اور کچھ اپنے قدموں پر ہی اٹھ کر فضاء میں اڑنا شروع کردیتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ ہی پرندوں کو فضا میں اڑانے اور تھامنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بڑا رحمن اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کے احاطہ قدرت میں ہے : (النساء : ١٢٦) (النساء : ١٠٨) (ھود : ٩٢) (آل عمران : ١٢٠) (الطلاق : ١٢) (البقرۃ : ٢٥٥) (البقرۃ : ١١٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اولم یروا .................... بصیر یہ خارق العادت معجزہ جو ہر وقت واقع ہوتا رہتا ہے۔ یہ چونکہ بار بار واقع ہوتا ہے اس لئے ہم اسے اہم نہیں سمجھتے۔ اور اس کے اندر اللہ کی جو قدرت کام کررہی ہے اسے بھی ہم بھول جاتے ہیں۔ خصوصاً جبکہ وہ صف بندی میں اڑتے ہیں اور پروں کو پھیلاتے ہیں اور سکیڑ لیتے ہیں۔ دو... نوں صورتوں میں وہ سف بستہ اڑتے ہیں۔ اور یہ پرندے بعض اوقات ایسے کرتب دکھاتے ہیں ، جن سے ان کی تخلیق کی خوبصورتی ظاہر ہوتی ہے۔ انسان دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ اللہ کی عجیب و غریب مخلوقات کا یہ ایک عجیب تماشا ہے۔ جس کے اندر کمال اور جمال باہم یکجا نظر آتے ہیں۔ اس منظر کی طرف قرآن کا اشارہ یہ ہے ! اولم .................... ویقبضن (٧٦ : ٩١) ”” کیا یہ لوگ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو پر پھیلائے اور سکیڑتے نہیں دیکھتے ؟ “ اس کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کو کس نے ڈیزائن کیا ہے ؟۔ ما یمسکھن الا الرحمن (٧٦ : ٩١) ” رحمن کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھامے ہوئے ہو ؟ “۔ اور رحمن نے ان کو ہوا میں ان قوانین قدرت کے مطابق رکھا ہوا ہے جو ہوا کے بارے میں اللہ نے یہاں رکھے ہوئے ہیں اور ان قوانین کے اندر ایک عجیب ترتیب ہے اور ان قوانین کے مطابق اللہ ان پرندوں کی تخلیق کی ہے جس میں ایک ایک خلیے اور ایک ایک ذرے کا حساب محلوظ ہے۔ یہ وہ قوانین ہیں جن کے مطابق فضا کے اندر ہزاروں مساواتی فارمولے چلتے ہیں تاکہ ہوا میں پرندوں کی اڑان کا عمل مکمل ہو۔ اور یونہی انتظام کے ساتھ چلتا رہے۔ اور رحمن نے ان پرندوں کو اس حالت میں اپنی قدرت قادرہ کے ذریعے یوں رکھا ہوا ہے اور ان پر اس کی نظر اور نگرانی ہر وقت حاضر ہے اور کسی بھی وقت دور نہیں ہوتی۔ یہ اللہ ہی ہے کہ جو ان قوانین اور فارمولوں کو اس جہاں میں ہر وقت قائم ، متوازن اور منظم رکھتا ہے۔ یہ اصول کسی بھی وقت ٹوٹتے نہیں۔ ان میں کبھی خلل نہیں آتا۔ کبھی ان میں اضطراب نہیں آتا۔ ایک پلک جھپکنے کے لئے بھی ، ہر وقت۔ ما یمسکھن الا الرحمن (٧٦ : ٩١) ” صرف رحمان ہی انہیں اس طرح تھامے ہوئے ہے “۔ کہ ہر پرندے اور ہر پر کو اللہ نے تھام رکھا ہے۔ اور یہ پرندہ جب ہوا میں پروں کو سیکڑلیتا ہے تو پھر فضا میں معلق ہوتا ہے ، اللہ اسے وہاں رکھ رہا ہوتا ہے۔ انہ بکل ................ بصیر (٧٦ : ٩١) ” وہی ہر چیز کا نگہبان ہے “۔ وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے ، ہر چیز کی خبر رکھتا ہے۔ اس کے لئے حالات زندگی تیار رکھتا ہے ، اسے قوت دیتا ہے اور ہر لمحہ اس کی ضروریات ، روز مرہ کی ضروریات مہیا رکھتا ہے۔ جس طرح کوئی خبیر وبصیر رکھتا ہے۔ پرندوں کو فضا میں اسی طرح رکھتا ہے جس طرح تمام حیوانات کو زمین پر رکھتا ہے ، جو فضا میں اڑتے ہیں۔ جس طرح اس فضائے کائنات میں اس نے بڑے بڑے اجرام فلکی روک رکھے ہیں۔ جنہیں یوں روکنے والا اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ لیکن قرآن کریم لوگوں کو پکڑ کر ان کی آنکھوں اور دلوں کو ان تمام مناظر کی طرف کھینچ کر لاتا ہے جن کو وہ دیکھ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں۔ اور ان کے دلوں پر ان مناظر کے اشارات اور اثرات بٹھاتا ہے۔ ورنہ اللہ کی ہر صنعت میں اعجاز ہے اور اللہ کی ہر مخلوق میں اس کے آثار ہیں۔ اور ہر تن اور ہر نسل اس سے اپنی عقل کے مطابق دیکھ سکتی ہے۔ ایک بدوی کہتا تھا : البعرة تدل علی البعیر ” اونٹ کی مینگنی دلالت کرتی ہے کہ اونٹ گزرا ہے “۔ اور آ کا انسان اپنے مشاہدات کے ذریعہ توفیق الٰہی سے سب کچھ جانتا ہے یا بہت کچھ جانتا ہے۔ اب قرآن دوبارہ ان کو ان کے ان حالات کی طرف لاتا ہے جن میں وہ بےبس ہوتا ہے ، طوفان ، زلزلوں ، آتش فشانی میں اور سنگ باری میں۔ فضا میں تیرنے والے پرندے کو دیکھ لیں کہ وہ تو فضائے کائنات میں اللہ کی توفیق سے امن میں ہیں تو دوبارہ ان کو ان کے مشکل لمحات یاد دلائے جاتے ہیں اور اسکی تکرار کا بہت اثر ہوتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد پرندوں کا حال بیان فرما کر اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ بیان فرمائی اور فرمایا : ﴿اَوَ لَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صٰٓفّٰتٍ وَّ يَقْبِضْنَ ١ؕۘؔ﴾ (کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو ان کے اوپر ہوا میں اپنے بازو پھیلائے ہوئے اڑتے ہیں اور وہ اپنے بازوؤں کو پھیلانے کے بعد سکیڑ لیتے...  ہیں اور دونوں حالتوں میں وہ فضا میں موجود رہتے ہیں اور باوزن ہونے کے باوجود فضا میں پھرتے رہتے ہیں زمین پر نہیں گرتے) ۔ ﴿ مَا يُمْسِكُهُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ﴾ (رحمٰن کے علاوہ انہیں کوئی تھامے ہوئے نہیں ہے) ۔ ﴿اِنَّهٗ بِكُلِّ شَيْءٍۭ بَصِيْرٌ٠٠١٩﴾ (بلاشبہ وہ ہر چیز کو دیکھنے والا ہے) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر استدلال کرنے کے لیے پرندوں کا فضا میں پر پھیلائے ہوئے اڑتے پھرنا بلکہ بعض مرتبہ پروں کو سکیڑ کر بھی فضا میں رہنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر ایک بڑی دلیل ہے۔ یہی بازو جو جانوروں کے ہیں اس طرح کے بازو اگر پرندوں کے علاوہ دوسرے جانداروں کو لگا دیئے جائیں تو وہ نہیں اڑ سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے جس کو چاہا جس خصوصیت سے نواز دیا، آسمان میں سب تصرفات اللہ تعالیٰ کے ہیں جسے ﴿وَ لَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَآء الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ ﴾ میں بیان فرمایا اور زمین میں بھی اس کا تصرف ہے جسے ﴿هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا ﴾ میں ذکر فرمایا اور آسمان اور زمین کے درمیان جو فضا ہے اس میں بھی اس قادر مطلق کا تصرف ہے جسے ﴿اَوَ لَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ ﴾ میں بیان فرمایا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” اولم یروا “ یہ پانچویں دلیل عقلی خاص۔ مدار کلام ” صٰفت ویقبضن “ کیا وہ دیکھتے نہیں کہ فضاء میں پرندے صف در صف پرواز کر رہے ہیں، کبھی پروں کو پھیلا لیتے ہیں اور کبھی سمیٹ لیتے ہیں، فضا میں ان کو تھامنا بھی اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت کا کرشمہ ہے اور پھر کوئی چیز اس کی نگاہوں سے اوجھل نہیں۔ جب یہ سا... رے کام اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے تو برکات دہندہ بھی وہی ہے اور کوئی نہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر اڑتے پرندوں کے حال پر نظر نہیں کی جو اپنے بازو اور پر پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں اور کبھی کبھی سمیٹ لیتے ہیں ان پرندوں کے سوائے رحمن کے اور کوئی گرنے سے نہیں روکتا۔ بیشک وہ ہر چیز کو دیکھنے والا ہے اور ہر چیز اس کی نگاہ میں ہے۔ یعنی زمین کا ذکر فرمایا آسمان کا ذکر اب درمیان... ی بات کی طرف اشارہ فرمایا جیسا کہ سورة نحل میں گزر چکا ہے یعنی جو کی طرف اشارہ ہے کہ صدہا پرندے اڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ان کے ثقل اور ان کے خاکی ہونے کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ زمین پر گرپڑیں اور زمین کی قوت جاذبہ ان کو کھینچ لے لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ دو دو چار چار آسمان و زمین کے درمیان اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں کبھی تو غول کے غول اڑتے پھر یہ بھی نہیں کہ ہمیشہ ان کے پر کھلے رہیں بلکہ کبھی کبھی اپنے پروں کو بند بھی کرلیتے ہیں ان کے ثقل اور زمین کی کشش کے باوجود ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں تو ان کے سوائے رحمان کے کوئی اور نہیں جو زمین پر گرنے سے روکتا ہو یہ اسی کی قدرت بالغہ ہے اور اس کی قدرت کا اثر ہے کہ پرندے ہوا میں اس طرح پھرتے ہیں جس طرح دریا میں مچھلیاں تیرتی ہوتی ہیں ان کے پروں کی ساخت اور ان کے بازوئوں کی بناوٹ اس انداز پر رکھی ہے کہ ان کو ہوا میں اڑتے پھر ناایسا ہی سہل ہے جیسے ہم کو زمین پر چلنا پھرنا۔ بلا شبہ ہر چیز اس کی نگاہ میں ہے اور وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے یعنی تمام غلوق کے حالات اس کی نگاہ میں ہیں اور وہ کسی سے غافل نہیں ہے۔  Show more