Surat ul Mulk

Surah: 67

Verse: 29

سورة الملك

قُلۡ ہُوَ الرَّحۡمٰنُ اٰمَنَّا بِہٖ وَ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡنَا ۚ فَسَتَعۡلَمُوۡنَ مَنۡ ہُوَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۲۹﴾

Say, "He is the Most Merciful; we have believed in Him, and upon Him we have relied. And you will [come to] know who it is that is in clear error."

آپ کہہ دیجئے کہ وہی رحمٰن ہے ۔ ہم تو اس پر ایمان لاچکے اور اسی پر ہمارا بھروسہ ہے تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ صریح گمراہی میں کون ہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ هُوَ الرَّحْمَنُ امَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا ... Say: "He is the Most Gracious, in Him we believe, and upon Him we rely. meaning, `we believe in the Lord of all that exists, the Most Gracious, the Most Merciful, and upon Him we rely in all of our affairs.' This is as Allah says, فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ So worship Him and rely upon Him. (11:123) Thus, A... llah continues saying, ... فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ فِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ So, you will come to know who it is that is in manifest error. meaning, `between Us and you, and to whom the final end (ultimate victory) will be for in this life and in the Hereafter.' Reminding of Allah's Blessing by the springing of Water and the Threat of It being taken away Demonstrating how merciful He is to His creatures, Allah says;   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 یعنی وحدانیت پر، اسی لئے اس کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتے۔ 29۔ 2 کسی اور پر نہیں۔ ہم اپنے تمام معاملات اسی کے سپرد کرتے ہیں، کسی اور کے نہیں جیسے مشرک کرتے ہیں۔ یعنی تم ہو یا ہم اس میں کافروں کے لیے سخت وعید ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] ہماری عاقبت بخیر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم رحمن پر صرف ایمان ہی نہیں لائے بلکہ اپنے تمام تر امور کا انجام اسی کے سپرد کر رکھا ہے اور اسی پر ہی ہمارا بھروسہ ہے پھر وہ آخر کیوں ہمیں اپنی نعمتوں سے سرفراز نہ کرے گا۔ اور تمہیں جلد ہی اس بات کا پتہ چل جائے گا کہ گمراہی کے راستہ پر ہم پڑے ہوئے ہیں یا ... تم ہو۔ یہاں && جلد && سے مراد کافروں پر کوئی دنیوی عذاب بھی ہوسکتا ہے۔ ان کی موت کا وقت بھی اور قیامت کا دن بھی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ ھُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِہٖ ۔۔۔: یعنی وہ ہمیں ہلاک کرے یا ہم پر رحم کرے ، دونوں صورتوں میں ہماری امیدیں اسی سے وابستہ ہیں ، وہی رحمان ہے ، کوئی اور نہیں جو ہم پر رحم کرسکے۔ ہمارا اس پر ایمان اور اسی پر بھروسہ ہے ، تم جو اس کے علاوہ بھی کسی سے رحم کے امیدوار اور طلب گار ہو ، بہت جلد آنکھیں بن... د ہوتے ہی جان لو گے کہ ہم میں سے صریح گمراہ کون تھا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ ہُوَالرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِہٖ وَعَلَيْہِ تَوَكَّلْنَا۝ ٠ ۚ فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ ہُوَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝ ٢٩ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه...  «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ مبین بَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ ان سے فرما دیجیے کہ وہ بڑا مہربان ہے ہمیں بچاتا اور ہم پر رحم فرماتا ہے ہم اسی کی تصدیق کرتے ہیں اور اسی پر بھروسا کرتے ہیں۔ نزول عذاب کے وقت تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کھلے کفر میں کون گرفتار ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩{ قُلْ ہُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِہٖ وَعَلَیْہِ تَوَکَّلْنَا } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ کہیے کہ وہ تو رحمن ہے ‘ ہم اس پر ایمان لاچکے ہیں اور اسی پر ہمارا توکل ّہے۔ “ یاد رہے کہ زیر مطالعہ مکی سورتیں بالکل ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھیں ‘ اسی لیے ان میں حضور (صلی اللہ علی... ہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کے ساتھ کفار و مشرکین کی بالکل ابتدائی ردّوقدح کا عکس نظرآتا ہے ۔ اس کشمکش کا نقطہ عروج سورة الانعام ‘ سورة الاعراف اور سورة ہود میں دیکھا جاسکتا ہے۔ { فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ ہُوَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ۔ } ” تو عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کھلی گمراہی میں کون تھا ! “ آنے والا وقت واضح کر دے گا کہ ہم گمراہ تھے یا تم۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39 That is, "We have believed in God, and you are denying Him; we have put our trust in Him, and you have put your trust in yourself, your own resources and false deities besides Allah; therefore, only we deserve to be shown mercy by Allah, not you".

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :39 یعنی ہم خدا پر ایمان لائے ہیں اور تم اس سے انکار کر رہے ہو ، ہمارا بھروسا خدا پر ہے اور تمہارا اپنے جتھوں اور اپنے وسائل اور اپنے معبودان غیر اللہ پر ۔ اس لیے خدا کی رحمت کے مستحق ہم ہو سکتے ہیں نہ کہ تم ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(67:29) قل ھو الرحمن امنا بہ : ای قل یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھو (یعنی اللہ) ۔ الرحمن : یعنی اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کفار سے فرما دیجئے کہ وہ اللہ جس کے اختیار میں ہماری ہلاکت یا پناہ ہے وہ بہت ہی رحم کرنے والا ہے۔ (ھو ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع آیت مندرجہ بالا ان اہلکن... ی اللہ ۔۔ الخ میں اللہ ہے امنا بہ (ہم اسی پر ایمان رکھتے ہیں) وعلیہ توکلنا (اور اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں) یہ دونوں جمع الرحمن کی صفت ہیں۔ یا ھو ضمیر شان ہے۔ اور امنا بہوعلیہ توکلنا خبر ہے الرحمن کی۔ ضمیر شان کا فائدہ یہ ہے کہ مخبر عنہ (الرحمن) کی تعظیم اور بڑائی پر دلالت کرتی ہے اس طرح کہ پہلے اس کا مبہم طریقہ سے ذکر کرکے پھر اس کی تشریح کی جائے۔ علیہ کو توکلنا سے مقدم ذکر کرنا حصر پر دلالت کرتا ہے (اسی پر ہمارا بھروسہ ہے) حیصر کا مفہوم ھو الرحمن سے بھی مستفاد ہوتا ہے مبتدا اور خبر جب دونوں معرفہ ہوں تو مفید حصر ہوتے ہیں۔ (وہی رحمن ہے) اس جملہ سے اس کی تائید ہوتی ہے گویا یہ جملہ سابق دونوں جملوں کی تاکید کر رہا ہے۔ حقیقت میں اس آیت کا مفہوم نتیجہ ہے ان دلائل کا جو پہلے بیان کئے گئے ہیں اور اسی پر مؤمنوں اور کافروں کے آئندہ حکم کی بنا ہے اسی لئے اگلے جملے میں ف سببیت کی لائی گئی ہے۔ (تفسیر المظہری) فستعلمون من ھو فی ضلال مبین ۔ ف سببیت کی ہے (جیسا کہ ابھی اوپر گزرا) س مجارع پر داخل ہوکر اس کو خالص مستقبل کے معنی میں کردیتا ہے اور مستقبل قریب کے معنی دیتا ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ پس تم کو جلد معلوم ہوجائے گا کہ کون صریح گمراہی میں پڑا ہوا ہے۔ من استفہامیہ محل نصب میں ہے کیونکہ تعلمون کا مفعول ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ پس ایمان کی برکت سے تو وہ ہم کو آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھے گا، اور توکل کی برکت سے حوادث دنیویہ کو دفع یا سہل کردے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل ھو ................ مبین ” یہاں اللہ کی جگہ رحمن کی صفت اس لئے لائی گئی ہے کہ اللہ نبی اور اس کے مٹھی بھر ساتھیوں کو ہلاک نہیں کرتا بلکہ وہ ان پر رحیم وکریم ہے ، جس طرح کہ تمہاری تمنائیں ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ساتھیوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے موجودہ تعلق کو مضبو... ط کرو ، اعلان کردو۔ امنا بہ (٧٦ : ٩٢) ” ہم اس پر ایمان لائے ہیں “۔ صرف اللہ پر۔ انداز کلام اس کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ مسلمانوں کے بہت ہی قریب ہے۔ ان کے درمیان اعتماد کا تعلق ہے۔ وعلیہ توکگنا (٧٦ : ٩٢) ” اور اس پر ہمارا بھروسہ ہے “ صرف اس پر۔ اللہ تعالیٰ نبی کو حکم دیتا ہے کہ اس فضل وکرم کا اعلان کردیں۔ آپ کو گویا کہا جاتا ہے کہ ان کفار کی تمناﺅں اور اقوال سے نو ڈریں۔ میں تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے ساتھ ہوں۔ لہٰذا یہ اعلان کردیں اور یہ اللہ کی جانب سے نبی اور دوستان نبی کے ساتھ دوستی کا اعلان ہے۔ جس میں ان کے لئے اعزاز ہے۔ اور فریق مخالف کو بالاواسطہ دھمکی دی جاتی ہے۔ فستعلمون ................ مبین (٧٦ : ٩٢) ” عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ صریح گمراہی میں پڑا ہوا کون ہے “۔ یہ بھی ایک انداز ہے جو ہٹ دھرمی اور اصرار کے قلعوں میں دراڑیں ڈال دیتا ہے اور مخاطب کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی پوزیشن پر غور کرے کہ کہیں وہ خود تو گمراہ نہیں ہے۔ کہیں وہ خود تو عذاب کا مستحق نہیں ہورہا ہے۔ فمن یجیر .................... الیم (٧٦ : ٩٢) ” کون ہوگا جو کافروں کو عذاب الیم سے پناہ دے گا “۔ لیکن اس پوری گفتگو میں اللہ ان کو یہ نہیں کہتا کہ تم کافر ہوتا کہ وہ ضد میں نہ آجائیں۔ یہ دعوت کا اسلوب ہے جو زیادہ تر حالات میں مفید رہتا ہے۔ اور اب عقل وخر کی تاروں پر آخری شدید ضرب جن سے زمزمہ اٹھتا ہے۔ یہ اشارہ دیا جاتا ہے کہ خبردار یہ تو ہے اخروی عذاب۔ لیکن اللہ نافرمانوں کو اس دنیا میں بھی عذاب دیا کرتا ہے۔ آج ہی اگر اللہ پانی بند کردے تو سوچو تمہاری حالت کیا ہوجائے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ ” قل ھو الرحمن “ طریق تبلیغ دوم۔ فرما دیجئے عذاب سے پناہ دینے والا رحمن ہی ہے، اس لیے ہم اس کی توحید پر ایمان لائے ہیں اور مصائب و مشکلات میں اسی پر ہمارا بھروسہ ہے۔ اے مشرکین تمہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ ہدایت پر کون ہے، کیونکہ جب اللہ کا عذاب تم پر نازل ہوگا تو تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(29) آپ کہہ دیجئے وہ اللہ تعالیٰ رحمان ہے یعنی بڑا رحم کرنے والا ہے ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے اس پر توکل اور بھروسہ اور اعتماد کررکھا ہے سو عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا کہ کون صریح گمراہی میں مبتلا ہے یعنی تم مبتلا ہو یا ہم مبتلا ہیں۔