Surat ul Mulk

Surah: 67

Verse: 6

سورة الملك

وَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ عَذَابُ جَہَنَّمَ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۶﴾

And for those who disbelieved in their Lord is the punishment of Hell, and wretched is the destination.

اور اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والوں کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور وہ کیا ہی بری جگہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Description of Hell and Those Who will enter into it Allah the Exalted says, وَ ... and, meaning, `and We have prepared,' ... لِلَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَبِيْسَ الْمَصِيرُ for those who disbelieve in their Lord is the torment of Hell, and worst indeed is that destination. This means that this will be the worst end and a terrible destiny.

جہنم کا داروغہ سوال کرے گا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے ، وہ جہنمی ہے اس کا انجام اور جگہ بد سے بد ہے ۔ یہ بلند اور مکروہ گدھے کی سی آوازیں مارنے والی اور جوش مارنے والی جہنم ہے جو ان پر جل رہی ہے اور جوش اور غضب سے اس طرح کچ کچا رہی ہے کہ گویا ابھی ٹوٹ پھوٹ جائے گی ، اور دوزخیوں کو زیادہ ذلیل کرنے اور آخری حجت قائم کرنے اور اقبالی مجرم بنانے کے لئے داروغہ جہنم ان سے پوچھتے ہیں کہ بدنصیبو! کیا اللہ کے رسولوں نے تمہیں اس سے ڈرایا نہ تھا ؟ تو یہ ہائے وائے کرتے ہوئے اپنی جانوں کو کوستے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ آئے تو تھے لیکن وائے بدنصیبی کہ ہم نے انہیں جھوٹا جانا اور اللہ کی کتاب کو بھی نہ مانا اور پیغمبروں کو بےراہ بتایا ، اب عدل اللہ صاف ثابت ہو چکا ہے اور فرمان باری پورا اترتا ہے جو اس نے فرمایا آیت ( وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا 15؀ ) 17- الإسراء:15 ) ترجمہ ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( وَسِيْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا ۭ حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَــتُهَآ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَتْلُوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا ۭ قَالُوْا بَلٰى وَلٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ 71؀ ) 39- الزمر:71 ) ترجمہ الخ جب جہنمی جہنم کے پاس پہنچ جائیں گے اور جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور داروغہ جہنم ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے؟ جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے تو کہیں گے ہاں آئے تو تھے اور ڈرا بھی دیا تھا لیکن کافروں پر کلمہ عذاب حق ہو گیا ، اب اپنے آپ کو ملامت کریں گے اور کہیں گے کہ اگر ہمارے کان ہوتے اگر ہم میں عقل ہوتی تو دھوکے میں نہ پڑے رہتے ، اپنے خالق مالک کے ساتھ کفر نہ کرتے ، نہ رسولوں کو جھٹلاتے ، نہ ان کی تابعداری سے منہ موڑتے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اب تو انہوں نے خود اپنے گناہوں کا اقرار کر لیا ان کے لئے لعنت ہو دوری ہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگ جب تک دنیا میں اپنے آپ میں غور کریں گے اور اپنی برائیوں کو آپ دیکھ لیں گے ہلاک نہ ہوں گے ( مسند احمد ) اور حدیث میں ہے کہ قیامت والے دن اس طرح حجت قائم کی جائے گی کہ خود انسان سمجھ لے گا کہ میں دوزخ میں جانے کے ہی قابل ہوں ( مسند احمد )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] یعنی جہنم کا عذاب ان شیطانوں کے لئے بھی ہے جو ملاء اعلیٰ کی باتیں چوری چھپے سننے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر وہاں پہنچنے سے پہلے شہاب ثاقب کی زد میں آجاتے ہیں اور ان کافروں کے لئے بھی جو اللہ کی آیات سے اور ان کی تعمیل سے انکار کردیتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ ۔۔۔: پہلی پانچ آیات میں اللہ تعالیٰ نے توحید اور قیامت کے دلائل بیان فرمائے ہیں ، اب ان لوگوں کا انجام ذکر ہو رہا ہے جنہوں نے اکیلے اللہ کو اپنا رب نہیں مانا کہ ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے ۔” للذین کفروا “ خبر پہلے آنے کی وجہ سے ترجمہ ” خاص ان لوگوں کے لیے “ کیا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ۝ ٠ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝ ٦ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے صير الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] . و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال . ( ص ی ر ) الصیر کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦۔ ٩) جب یہود و نصاری مجوسی اور مشرکین عرب میں سے لوگ دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو دوزخ کی گدھے کی طرح ایک بڑے زور کی آواز سنیں گے اور وہ اس طرح جوش مارتی ہوگی کہ ابھی کفار پر غصہ کے مارے پھٹ پڑے گی۔ جب دوزخ میں ان مذکورہ کافروں کا کوئی گروہ ڈالا جائے گا تو دوزخ کے محافظ ان لوگوں سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا پیغمبر نہیں آیا تھا تو وہ کہیں گے کہ واقعی ہمارے پاس ڈرانے والا پیغمبر آیا تھا۔ تو ہم لوگوں نے اسے جھٹلایا اور کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی کتاب نازل نہیں کی اور نہ ہماری طرف کسی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور ہم نے رسولوں سے یوں کہہ دیا کہ تم بڑی غلطی میں پڑے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦{ وَلِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ عَذَابُ جَہَنَّمَط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ۔ } ” اور جو لوگ اپنے رب کا کفر کریں (چاہے وہ انسان ہوں یا جنات) ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے ‘ اور وہ بہت ہی ُ برا ٹھکانہ ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 That is, the fate of all those,whether men or Satans, who disbelieve in their Lord. (For the explanation of the meaning of disbelieving in the Lord (Rabb) , see E.N 161 of AI-Baqarah, E.N. 178 of An-Nisa', E.N. 39 of Al-Kahf, E,N. 3 of Al-Mu'min

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :12 یعنی انسان ہوں ، یا شیطان ، جن لوگوں نے بھی اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کا یہ انجام ہے ( رب سے کفر کرنے کے مفہوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 121 ، النساء ، حاشیہ 178 ، جلد سوم ، الکہف ، حاشیہ 39 ، جلد چہارم ، المومن ، حاشیہ ، 3 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦۔ ١١۔ اللہ تعالیٰ نے کتابیں نازل فرما کر اپنے رسولوں کی معرفت یہ سب لوگوں کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ یہ لوگ شیطان کو اپنا دشمن جانیں اور اس کے بہکاوے میں ہرگز نہ آئیں ‘ ورنہ جو شیطان کے بہکاوے میں آ کر اللہ کی مرضی کے برخلاف کام کرے گا ایسے نافرمان آدمیوں اور شیطان اور اس کے شیاطینوں سے دوزخ کو بھر دیا جائے گا اس قدر انتظام کے بعد بھی جب بہت سے نافرمان لوگ شیطان اور اس کے شیاطینوں کے ساتھ دوزخ میں جائیں گے تو دوزخ کے تعیناتی والے فرشتوں کو اس بات کا بڑا تعجب ہوگا کہ باوجود ایسے بڑے انتظام کو اتنے بہت سے آدمی دوزخ میں کیونکہ آن پڑے۔ اس لئے وہ فرشتے ان دوزخی آدمیوں سے پوچھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے انتظام کے موافق کیا اللہ کے رسولوں نے اس دن کی آفت سے تم لوگوں کو نہیں ڈرایا۔ وہ دوزخی جواب دیں گے کہ اللہ کے رسولوں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو ہم کو ڈرایا تھا مگر ہم نے اپنی کم بختی کے سبب سے اللہ کے رسولوں کی نصیحت کو نہیں مانا بلکہ ان سے یہ کہہ دیا کہ تم خود بہکے ہوئے ہو جو ہم کو ہمارے باپ دادا کے طریقہ سے جدا طریقہ سکھاتے ہو پھر پچھتا کر یہ بھی کہیں گے کہ اگر دنیا میں ہم رسولوں کی نصیحت کو مان لیتے اور شیطان کے بہکاوے کے وقت کچھ خدا کی دی ہوئی عقل سے کام لیتے تو آج ہم اس بلا میں نہ پڑتے مگر اس وقت کا پچھتانا اور گناہوں کا اقرار کرنا ان کے کچھ کام نہ آئے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے یہ پھٹکار ملے گی کہ اے کم بختو دور ہو اللہ کی رحمت سے ‘ ایسے نافرمان دوزخ کے مستحق ہیں جن کا اس وقت کا پچھتانا اور گناہوں کا اقرار کرنا اللہ کی جناب میں ہرگز قابل قبول نہیں۔ مصیر کے معنی اتجام کے ہیں۔ شھیق کے معنی خوفناک آواز کے ‘ یہ دوزخ کا دھاڑنا اور خوفناک آوازوں کا نکالنا اس وقت ہوگا جب اس کو ستر ہزار لگا میں لگا کر محشر میدان میں لایا جائے گا جس کا ذکر عبد اللہ بن مسعود (رض) کی روایت سے صحیح ١ ؎ مسلم ترمذی وغیرہ میں ہے۔ مسند ٢ ؎ امام احمد مستدرک حاکم وغیرہ میں ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب شیطان کو مردود ٹھہرا کر آسمان پر سے اتاراجانے لگا تو اس نے قسم کھا کر خدا تعالیٰ کے رو برو یہ بات کہی کہ جب تک بنی آدم کے دم میں دم ہے میں ہر طرح ان کے بہکانے میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے جاہ و جلال کی قسم کھا کر اس مردود سے فرمایا کہ تیرے بہکانے سے گناہ کرکے جب تک وہ خالص دل سے توبہ استغفار کریں گے میں بھی ان کے گناہوں کے بخش دینے میں کبھی کوتاہی نہ کروں گا۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ غرض شیطان کی دشمنی تو ایسی پکی ہے کہ وہ اس دشمنی پر خدا کے رو برو حلف اٹھا چکا ہے ایسے پکے دشمن کے پھندے میں پھنس کر باقتضائے بشریت آدمی سے جب کوئی گناہ ہوجائے تو اس مرض کی اس دوا سے جس کا ذکر اس حدیث میں ہے آدمی کو ہرگز غافل نہ رہنا چاہئے تاکہ بغیر توبہ کے گناہ پر گناہ کرتے کرتے دل پر اس کے زنگ لگ جانے کی نوبت نہ آجائے جس کا ذکر ویل للمطففین میں آتا ہے جس زنگ سے دل بالکل مرجاتا ہے اور بغیر موت کے آنکھوں کے سامنے آجانے کے ایسے مردہ دل آدمیوں کو توبہ کی توفیق ہرگز نہیں ہوتی۔ اور یہ تو سورة نساء میں گزر چکا ہے ایسی ناامیدی کے وقت کی توبہ بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہوتی۔ (١ ؎ صحیح مسلم باب جھنم اعاذنا اللہ منھا ص ٣٨١ ج ٢۔ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ شریف باب فی الاستفغار والتوبۃ فصل ثانی ص ٢٠٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(67:6) وللذین کفروا بربھم عذاب جھنم : عذاب جھنم مضاف مضاف الیہ مل کر مبتدائ۔ للذین کفروا بربھم خبر مقدم۔ جھنم غیر منصرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ وبئس المصیر : جملہ حالیہ ہے یا جملہ معترضہ تذییلی ہے۔ اور وہ برا ٹھکانا ہے (نیز ملاحظہ ہو (66:9)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : شیاطین جن میں سے ہوں یا انسانوں سے ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ جو لوگ شیاطین کا کردار اختیار کرتے ہیں، حقیقت میں وہ اپنے رب کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔ ان کے لیے جہنم تیار کی گئی ہے جو نہایت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ جہنم کی آگ اس قدر جوش مار رہی ہوگی کہ اس سے مختلف قسم کی خوفناک آوازیں نکلیں گی۔ دیکھنے اور سننے والوں کو یوں لگے گا جیسے جہنم اپنے جوش اور زور سے پھٹ جائے گی۔ جب جہنمی کو گروہ در گروہ جہنم میں ڈالا جائے گا تو جہنم کے داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس جہنم سے ڈرانے والے نہیں آئے تھے ؟ جہنمی اقرار کریں گے کیوں نہیں ! ہمارے پاس ڈرانے والے آئے تھے لیکن ہم نے انہیں جھٹلایا اور کہا کہ تم سب کچھ اپنی طرف سے کہتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بات نازل نہیں کی، یہاں تک کہ ہم نے انہیں یہ بھی کہا کہ تم خود کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو، جہنم کے عذاب میں مبتلا ہوں گے تو آہ و بکا کرتے ہوئے کہیں گے کہ کاش ! ہم ڈرانے والوں کی بات توجہ سے سنتے اور اس پر غور کرتے اور آج جہنمیوں میں شامل نہ ہوتے۔ باربار اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کے باوجود وہ اللہ کی رحمت سے دور رہیں گے ان کے لیے جہنم سے نجات کی کوئی صورت نہیں ہوگی، کیونکہ وہ اپنے رب کے ساتھ کفر و شرک کیا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ ہدایت پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول کی بات کو توجہ سے سنے اور اس پر غوروفکر کرے تاکہ وہ صراط مستقیم پر گامزن ہوجائے، ہدایت پانے کے لیے یہ شرط ہے۔ (اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ) (قٓ: ٣٧) ” اس میں عبرت کا سبق ہے ہر اس شخص کے لیے جو دل رکھتا ہو، یا جو بات کو توجہ سے سننے والا ہو۔ “ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان پر توجہ نہیں دیتے، قرآن مجید نے انہیں چوپاؤں سے بدتر قرار دیا ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ ) (الاعراف : ١٧٩) ” اور بلاشبہ ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے پیدا کیے ہیں ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں یہی ہیں جو بالکل غافل ہیں۔ “ (الاعراف : ١٧٩) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) ( رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک ہزار سال تک دوزخ کی آگ کو بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک جلایا گیا تو وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک جلایا گیا یہاں تک کہ وہ سیاہ ہوگئی اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔ “ (اِِنَّہَا تَرْمِی بِشَرَرٍ کَالْقَصْرِ ) (المرسلات : ٣٢) ” اس آگ کے محلات جیسی بڑی بڑی چنگاریاں پھینکے گی۔ “ مسائل ١۔ جوش کی وجہ سے جہنم کی آگ سے مختلف قسم کی آوازیں نکلیں گی۔ ٢۔ جہنم کی آگ میں اس قدر تیزی اور جوش ہوگا کہ دیکھنے والے کو یوں لگے گا جیسے جہنم ابھی پھٹ جائے گی۔ ٣۔ جہنم کے داروغوں کے سوال کے جواب میں جہنمی اعتراف کریں گے کہ ہمارے پاس جہنم سے ڈرانے والے آئے تھے۔ ٤۔ جہنمی لوگ دنیا میں انبیاء اور علماء کو گمراہ قرار دیتے تھے۔ ٥۔ جہنمی اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے کہ کاش ! ہم جہنم سے ڈرانے والوں کی بات کو توجہ سے سنتے اور اس پر غور کرتے۔ ٦۔ کفار اور مشرکین اپنے رب کی رحمت سے ہمیشہ ہمیش کے لیے دور ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن عقل وفکر کی حیثیت اور جہنمی کا اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا : ١۔ حق پہچاننے کے لیے آفاق پر غور کرنے کی دعوت۔ (حٰمٓ السجدۃ : ٥٣) ٢۔ اپنی ذات پر غور وفکر کی دعوت۔ (الذاریات : ٢١) ٣۔ رات کے سکون پر غور کرنے کی دعوت۔ (القصص : ٧٢) ٤۔ دن رات کے بدلنے میں غور و خوض کی دعوت۔ (المومنون : ٨٠) ٥۔ شہد کی بناوٹ پر غور کرنے کی دعوت۔ (النحل : ٦٩) ٦۔ ہم نے بابرکت کتاب نازل کی تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں۔ (ص : ٢٩) ٧۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جہنمیوں سے فرمائے گا کیا آج کا عذاب برحق نہیں ہے ؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں۔ (الاحقاف : ٣٤) ٨۔ ہر جہنمی کی خواہش ہوگی کہ دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : ٢٧ تا ٢٨) ٩۔ اے رب ہمارے ! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ١٠۔ اے رب ہمارے ! ہم کو یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المؤمنون : ١٠٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وللذین ............................ المصیر (٧٦ : ٦) ” اور جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے لئے جہنم کا عذاب اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے “۔ اس کے بعد جہنم کے ایک منظر کی تفصیلات دی جاتی ہیں جس میں جہنم نہایت ہی غیض وغضب اور نہایت انتقامی حالت میں نظر آتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کا دوزخ میں داخلہ، دوزخ کا غیظ و غضب، اہل دوزخ سے سوال و جواب اور ان کا اقرار کہ ہم گمراہ تھے گزشتہ آیت میں بتایا کہ شیاطین کے لیے جلتی ہوئی آگ کا عذاب تیار فرمایا ہے۔ ان آیات میں کافروں کے عذاب کا تذکرہ فرمایا جو کفر میں شیاطین کے ہمنوا ہیں اور شیاطین کے ترغیب دینے اور کفر پر جمانے سے کفر کو اختیار کیے ہوئے ہیں، فرمایا کہ جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور جہنم بری جگہ ہے اور برا ٹھکانہ ہے پھر فرمایا کہ جب یہ لوگ دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو دوزخ کی سخت دہشت ناک اور وحشت ناک آواز سنیں گے وہ جوش مارتی ہوگی اس کے جوش کا یہ عالم ہوگا کہ گویا ابھی غصے کی وجہ سے پھٹ پڑے گی یہ غصہ اسے اللہ تعالیٰ کے دشمنوں پر آئے گا۔ سورة الفرقان میں فرمایا ہے ﴿ اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۭ بَعِيْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَيُّظًا وَّ زَفِيْرًا ٠٠١٢﴾ جب دوزخ انہیں دور سے دیکھے گی تو غصے میں بھری ہوئی اس کے جوش کی آواز سنیں گے۔ ﴿ كُلَّمَاۤ اُلْقِيَ فِيْهَا فَوْجٌ ﴾ (الآیات) جب بھی کافروں کی کوئی جماعت دوزخ میں ڈالی جائے گی تو جھڑکنے اور ڈانٹنے کے طور پر دوزخ کے محافظین ان سے دریافت کریں گے (کہ تمہیں یہاں آنا کیسے ہوا) کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا یعنی اللہ تعالیٰ نے جو بنی آدم کی طرف اپنے رسول بھیجے تھے ان میں سے کوئی رسول تمہارے پاس نہیں پہنچا تھا جس نے تمہیں منکرین کے عذاب سے باخبر کیا اور جھٹلانے والوں کی سزا بیان فرمائی ؟ کافر یہ سن کر جواب دیں گے کہ ہاں ڈرانے والا تو آیا تھا لیکن ہم نے ان کو جھٹلایا اور یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا اور صرف جھٹلایا ہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں ہی کو بڑی گمراہی میں بتادیا کافر لوگ ساتھ ہی یوں بھی کہیں گے کہ اگر ہم سمجھنے کے طور پر ان حضرات کی بات سنتے اور ان کی بات کو سمجھتے تو آج ہم جلنے کے عذاب میں نہ ہوتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” وللذین کفروا “ تخویف اخروی۔ جو لوگ اپنے رب سے کفر کرتے ہیں یعنی اللہ کے سوا اپنے خود ساختہ معبودوں کو برکات دہندہ سمجھتے ہیں ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے جو نہایت ہی برا انجام ہے۔ جب ان کفار و مشرکین کو جہنم میں ڈالا جائیگا تو وہ سخت جوش میں آجائے گی اور اس کی ہیبتناک غراہٹ ہوگی۔ وہ دشمنان خدا پر اس قدر غضبناک ہوگی کہ قریب ہوگا کہ غیظ و غضب سے پھٹ جائے۔ ” کلام القی فیہا فوج “ جب بھی مشرکین کی کوئی جماعت جہنم میں ڈالی جائیگی تو خازنان جہنم ان سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے ؟ جنہوں نے تمہیں آج کے عذاب سے خبردار کیا ہو۔ ” قالوا بلی “ جواب دیں گے کیوں نہیں ؟ ہمارے پاس ڈرانے والے آئے مگر ہم نے ان کو جھٹلایا اور صاف صاف کہہ دیا کہ اللہ نے تمہیں کوئی حکم دے کر نہیں بھیجا اور تمہارا دعوئے نبوت صحیح نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) اور جو لوگ اپنے پروردگار کی توحیدکا انکار کرتے اور جو اپنے پروردگار کے ساتھ کافرانہ شیوہ رکھتے ہیں تو ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور وہ جہنم باز گشت بہت بری جگہ ہے۔ یعنی اپنے پروردگار کی توحید کا انکار کرتے ہیں اور دین حق کے منکر ہیں تو ان کا حشر بھی وہی ہوگاجو شیاطین کا ہوگا۔