Surat ul Mulk

Surah: 67

Verse: 7

سورة الملك

اِذَاۤ اُلۡقُوۡا فِیۡہَا سَمِعُوۡا لَہَا شَہِیۡقًا وَّ ہِیَ تَفُوۡرُ ۙ﴿۷﴾

When they are thrown into it, they hear from it a [dreadful] inhaling while it boils up.

جب اس میں یہ ڈالے جائیں گے تو اس کی بڑے زور کی آوازیں سنیں گے اور وہ جوش مار رہی ہوگی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِذَا أُلْقُوا فِيهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا ... When they are cast therein, they will hear its Shahiq, Ibn Jarir said, "This means the sound of shouting." ... وَهِيَ تَفُورُ while it is simmering. Ath-Thawri said, "It will boil them just as a small number of seeds are boiled in a lot of water." Then Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 شَھِیْق، اس آواز کو کہتے ہیں جو گدھا پہلی مرتبہ نکالتا ہے، یہ قبیح ترین آواز ہوتی ہے۔ جہنم بھی گدھے کی طرح چیخ اور چلا رہی اور آگ پر رکھی ہوئی ہانڈی کی طرح جوش مار رہی ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] شَھِیْقًا۔ زفیر اور شھیق گدھے کے ہینگنے کے وقت اس آواز کی ابتدائی اور آخری حالت کا نام ہے۔ زفر بمعنی لمبا سانس باہر نکالنا اور زفیر گدھے کے ہینگنے کی ابتدائی آواز جو آہستہ سے اونچی ہونا شروع ہوجاتی ہے اور جب گدھا ہینگنے کے عمل کو ختم کرنے لگے تو وہ آواز جو اونچی آواز سے پست ہونا شروع ہوتی ہے اسے شَھِیِْقٌ کہتے ہیں۔ پھر یہ گدھے کی آواز قرآن کی تصریح کے مطابق سب سے زیادہ مکروہ اور کانوں کو ناگوار محسوس ہونے والی ہوتی ہے۔ ایسی ہی مکروہ آواز دوزخ کی پیدا ہو رہی ہوگی۔ پھر اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ایسی آواز جہنم کے جوش مارنے سے پیدا ہوگی۔ دوسرے یہ کہ دوزخ میں جو لوگ پہلے پڑے ہوں گے۔ وہ اس قسم کی مکروہ آوازیں نکالیں گے۔ [١٢] تفور کا لغوی مفہوم :۔ تَفُوْرُ ۔ فار الماء بمعنی پانی کا جوش مارنا اور ابلنا۔ اور اس جوش مارنے یا ابلنے کی وجہ حرارت کی شدت نہیں ہوتی بلکہ پانی کا دباؤ ہوتا ہے۔ نیچے سے پانی کا دباؤ زیادہ ہو اور سوراخ تنگ ہو تو پانی بڑے جوش سے اوپر کو اچھلتا ہے۔ لفظ فوارہ اسی سے مشتق ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذَآ اُلْقُوْا فِیْہَا سَمِعُوْا لَہَا شَہِیْقًا وَّہِیَ تَفُوْرُ :” شھیق “ گدھے کے ہینگنے کے آخر کی آواز اور ” زقیر “ شروع کی آواز۔ (قاموس) سورة ٔ فرقان (١٢) میں فرمایا کہ جہنم جب انہیں دور سے دیکھے گی تو وہ جہنم کے سخت غصے کی اور گدھے کی طرح چلانے کی آواز سنیں گے۔ ساتھ ہی جہنمیوں کے چیخنے چلانے کی جو آوازیں آرہی ہوں گی وہ بھی گدھے کی آوازوں جیسی ہوں گی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَہُمْ فِیْہَا زَفِیْرٌ وَّشَہِیْقٌ ) ( ھود : ١٠٦)” تو وہ لوگ جو بدبخت ہوئے سو وہ آگ میں ہوں گے ، ان کے لیے گدھے کی طرح آواز کھینچنا اور نکالنا ہے “۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذَآ اُلْقُوْا فِيْہَا سَمِعُوْا لَہَا شَہِيْقًا وَّہِىَ تَفُوْرُ۝ ٧ ۙ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ شهق الشَّهِيقُ : طول الزّفير، وهو ردّ النّفس، والزّفير : مدّه . قال تعالی: لَهُمْ فِيها زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ [هود/ 106] ، سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان/ 12] ، وقال تعالی: سَمِعُوا لَها شَهِيقاً [ الملک/ 7] ، وأصله من جبل شَاهِقٍ. أي : متناهي الطّول . ( ش ھ ق ) الشھیق ۔ کے معنی لمبی سانس کھینچناکے ہیں لیکن شھیق سانس لینے اور زفیر سانس چھوڑنے پر بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے لَهُمْ فِيها زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ [هود/ 106] اس میں ان چلانا اور دھاڑنا ہوگا ۔ سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان/ 12] اور چیخنے چلانے کو سنیں گے ۔ اصل میں یہ لفظ جبل شاھق سے ماخوذ ہے جس کے معنی انتہائ بلند پہاڑ کے ہیں ۔ فور الفَوْرُ : شِدَّةُ الغَلَيَانِ ، ويقال ذلک في النار نفسها إذا هاجت، وفي القدر، وفي الغضب نحو : وَهِيَ تَفُورُ [ الملک/ 7] ، وَفارَ التَّنُّورُ [هود/ 40] ( ف و ر ) الفور ( کے معنی سخت جوش مارنے کے ہیں یہ لفظ آگ کے بھڑک اٹھنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور ہانڈی اور غصہ کے جوش کھانے پر بھی ۔ قرآن میں ہے ۔ وَهِيَ تَفُورُ [ الملک/ 7] اور وہ جوش مار رہی ہوگی وفارَ التَّنُّورُ [هود/ 40] اور تنور جوش مارنے لگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧{ اِذَآ اُلْقُوْا فِیْہَا سَمِعُوْا لَہَا شَہِیْقًا وَّہِیَ تَفُوْرُ ۔ } ” جب وہ اس میں جھونکے جائیں گے تو اسے سنیں گے دھاڑتے ہوئے اور وہ بہت جوش کھا رہی ہوگی۔ “ جہنم انہیں دیکھ کر غصے سے دھاڑرہی ہوگی جیسے کوئی بھوکا بھیڑیا اپنے شکار پر جھپٹتے ہوئے غراتا ہے۔ سورة قٓ میں جہنم کے غیظ و غضب کی ایک کیفیت یوں بیان ہوئی ہے : { یَوْمَ نَـقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ ۔ } ” جس دن کہ ہم پوچھیں گے جہنم سے کہ کیا تو بھر گئی ؟ اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 The word shahiq is used for producing a cry like the ass's braying. The sentence may also mean that it could be the sound of Hell itself, as well as that it would be the sound coming from Hell, where the people already flung into it would be screaming and crying. This second meaning is supported by Surah Hud: 106, where it has been said: "Therein they will pant and hiss (because of thirst) ", and the first meaning is confirmed by AI-Furgan: 12, which says: "When the Hell will see them from afar, they will hear the sounds of its raging and roaring." On this basis, the correct meaning is that it would be the noise made both by Hell and by the dwellers of Hell.

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :13 اصل میں لفظ شھیق استعمال ہوا ہے ۔ جو گدھے کی سی آواز کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اس فقرے کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ خود جہنم کی آواز ہو گی ، اور یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ آواز جہنم سے آ رہی ہو گی جہاں ان لوگوں سے پہلے گرے ہوئے لوگ چیخیں مار رہے ہوں گے ۔ اس دوسرے مفہوم کی تائید سورہ ہود کی آیت 106 سے ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ دوزخ میں یہ دوزخی لوگ ہانپیں گے اور پھنکارے ماریں گے ۔ اور پہلے مفہوم کی تائید سورۃ فرقان آیت 12 سے ہوتی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ دوزخ میں جاتے ہوئے یہ لوگ دور ہی سے اس کے غضب اور جوش کی آوازیں سنیں گے ۔ اس بنا پر صحیح یہ ہے کہ یہ شور خود جہنم کا بھی ہو گا اور جہنمیوں کا بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(67:7) اذا القوا فیہا : اذا ظرف زمان ہے (شرطیہ) جب، جسوقت۔ القوا ماضی مجہول جمع مذکرغائب۔ القاء (افعال) مصدر۔ بمعنی ڈالنا۔ فیہا میں ضمیر ھا واحد مؤنث غائب کا مرجع جہنم ہے۔ یعنی جب کافروں کو جہنم میں ڈالا جائے گا۔ سمعوا لہا شھیقا : جواب شرط۔ لہا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع جہنم ہے لہا حال ہے شھیقا سے جو سمعوا کے مفعول ہونے کے منصوب ہے۔ شھیقا نکرہ تھا اس لئے حال کو اس سے پہلے مقد کردیا۔ (تفسیر المظہری) شھیق گدھے کی آواز۔ یعنی گدھے جیسی آواز جہنم کی آگ سے نکلتی ہوئی سنیں گے یہ آگ کی آواز ہوگی یا ان لوگوں کی جو ان داخل ہونے والوں سے پہلے جہنم میں جا چکے ہوں گے یا خود ان کی ہوگی (المظہری) وہی تفور : یہ جملہ لہا کی ضمیر سے حال ہے یا فیہا کی ضمیر سے حال ہے ہی ای جھنم : تفور : مضارع واحد مؤنث غائب۔ فور (باب نصر) مصدر سے بمعنی اچھلنا۔ جوش مارنا۔ فور کا استعمال آگ کے، ہنڈیا کے اور غصہ کے جوش مارنے اور ابلنے کے لئے ہوتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 گدھے کی آواز کافروں کو جب دوزخ میں جھونکا جائیگا تو وہ اس میں سے ایسی آواز سنیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اذا القوا .................... الغیظ (٧٦ : ٨) ” جب وہ اس میں پھینکے جائیں گے تو اس کے دہاڑنے کی ہولناک آواز سنیں گے اور وہ جوش کھارہی ہوگی ، شدت غضب سے پھٹی جاتی ہوگی “۔ ذرا جہنم کو دیکھو ، یہ زندہ مخلوق کی طرح ہے۔ اسے غصہ آرہا ہے اور وہ اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے اور اس کی سانس پھول رہی ہے اور اس طرح اس کی سانس شدت غضب سے پھنکار کی شکل اختیار کررہی ہے۔ اس پر اس کے غصے ، کراہت اور نفرت کی وجہ سے اس قدر دباﺅ ہے کہ قریب ہے کہ وہ پھٹ پڑے۔ بظاہر تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انداز بیان ایک مجازی تصویر کشی کا انداز ہے لیکن ہم اس کائنات کا جس قدرگہرا مطالعہ کریں گے ، معلوم ہوگا کہ اللہ کی مخلوقات میں سے ہر مخلوق زندہ ہے اور اس کی ایک مخصوص روح ہے۔ اور ہر مخلوق اپنے رب کو جانتی ہے۔ اور اس کی حمدوثنا کرتی ہے اور اللہ کی ہر مخلوق جب دیکھتی ہے کہ انسان رب تعالیٰ کا کفر کرتا ہے تو تمام مخلوقات خوفزدہ ہوجاتی ہیں کیونکہ ہر چیز کو اپنے خالق کی معرفت حاصل ہے اور ہر چیزمطیع فرمان ہے ، لہٰذا ہر چیز کو نافرمان مخلوق پر غصہ آتا ہے اور مخلوقات کی روح تمام منکرین سے نفرت کرتی ہے۔ قرآن کریم میں آتا ہے۔ تمسبح لہ………….. تسبیحھم (٧١ : ٤٤) ” اس کی پاکی کو ساتوں آسمان و زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کررہی ہیں جو آسمان اور زمین میں ہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کررہی ہو ، مگر تم اس کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو “۔ اور اسی طرح حضرت داﺅد (علیہ السلام) کے بارے میں ہے۔ یجبال……………. والطیر (٤٣ : ٠١) ”(ہم نے حکم دیا) اے پہاڑو ! اس کے ساتھ ہم آہنگی کرو اور یہی حکم ہم نے پرندوں کو دیا “۔ اور دوسری جگہ بھی صراحت کے ساتھ وارد ہے : ثم استوی………….. طائعین (١٤ : ١١) ” پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا ، اس نے آسمان اور زمین سے کہا وجود میں آجاﺅ تم چاہو یا نہ چاہو ، دونوں نے کہا : ہم آگئے فرماں برداروں کی طرح “۔ یہ تمام چیزیں ، جس حقیقت کی طرف اشارہ کررہی ہیں وہ یہ ہے کہ ہر چیز رب تعالیٰ پر ایمان لاتی ہے ، اس کی تسبیح کرتی ہے ، تعریف کرتی ہے اور جب یہ چیزیں دیکھتی ہیں کہ انسان خالق کائنات کی نافرمانی کرتا ہے تو یہ دہشت زدہ ہوجاتی ہیں۔ جب انسان ایک مختلف رویہ اختیار کرتا ہے تو یہ چیزیں غضب الٰہی کے خوف سے کانپ اٹھتی ہیں۔ اور ان کو اس قدر غصہ آتا ہے کہ شدت غضب کی وجہ سے قریب ہے کہ یہ ایک دھماکے کے ساتھ انسان پر حملہ آور ہوجائیں۔ جس طرح کوئی کسی شریف اور عزت نفس رکھنے والے شخص کو برا بھلا کہے۔ غضب کے مارے اس کا گلا گھٹ جاتا ہے اور سانس پھول جاتی ہے اور وہ بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو پاتا ہے اور اسی طرح کی حالت جہنم کی بتائی گئی۔ وھی ……………. من الغیظ (٧٦ : ٨) ” وہ جوش کھارہی ہوگی اور شدت غضب سے پھٹی جارہی ہوگی “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) جب یہ پروردگار کی توحید کے منکر اس جہنم میں ڈالے جائیں گے تو یہ اس کی خوفناک اور ناپسندیدہ آوازیں سنیں گے اور وہ دوزخ جوش مارہی ہوگی۔