Surat ul Haaqqaa

Surah: 69

Verse: 5

سورة الحاقة

فَاَمَّا ثَمُوۡدُ فَاُہۡلِکُوۡا بِالطَّاغِیَۃِ ﴿۵﴾

So as for Thamud, they were destroyed by the overpowering [blast].

۔ ( جس کے نتیجے میں ) ثمود تو بیحد خوفناک ( اور اونچی ) آواز سے ہلاک کر دیئے گئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Thamud denied through their transgression. As for Thamud, they were destroyed by the Taghiyah! It is the cry which will silence them, and the quake that will silence them. Qatadah said similar to this when he said, "At-Taghiyah is the shout." Mujahid said, "At-Taghiyah means the sins." This was also said by Ar-Rabi` bin Anas and bin Zayd. They said that it means transgression. After mentioning this, Ibn Zayd recited the following Ayat as proof for his statement, كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَةِ (Thamud denied through their transgression). Then Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 اس میں قیام کو کھڑکا دینے والی کہا ہے، اس لئے کہ یہ اپنی ہولناکیوں سے لوگوں کو بیدار کر دے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] قوم ثمود پر کس قسم کا عذاب آیا تھا ؟ ثمود کو کون سے عذاب سے ہلاک کیا گیا تھا ؟ اس کے لیے مختلف مقامات پر مختلف الفاظ آئے ہیں۔ سورة اعراف آیت ٨٧ میں اس کو الرَّجْفَۃُ (زبردست زلزلہ) کہا گیا ہے۔ سورة ہود کی آیت نمبر ٦٧ میں الصَّیْحَۃُ (زبردست دھماکہ یا ہیبت ناک چیخ) کا لفظ آیا ہے اور سورة حم السجدہ کی آیت نمبر ١٧ میں (صَاعِقَۃُ الْعَذَابِ ) (یعنی گرنے والی بجلی کا عذاب) کا لفظ آیا ہے اور یہاں الطَّاغِیَۃَ کا لفظ آیا ہے۔ جس سے عذاب میں سخت سرکشی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یہ ایک ہی واقعہ کی مختلف کیفیتوں کا بیان ہے۔ اور وہ عذاب یہ تھا کہ ارضی اور سماوی دونوں قسم کے عذاب قوم ثمود پر یک دم آتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فاما ثمود فاھلکوا بالظاغیۃ :” الطاغیۃ “” طغی یطغی “ (ف) سے اسم فاعل ہے، یہ ” عافیۃ “ کی طرح مصدر بھی ہوسکتا ہے۔ اسم فاعل ہو تو ” الطاغیۃ “ کا معنی ” حد سے بڑھنے والی “ ہے اور یہ ” الرجفتہ “ یا ” الصیحۃ “ یا ” الصعقۃ “ کی صفت ہوگی، یعنی ثمود اس زلزلے سے یا آواز سے یا بجلی کی کڑک سے ہلاک ک دیئے گئے جو آوازوں کی حد سے بہت بڑھی ہوئی تھی۔ یہ فرشتے کی آواز تھی یا بجلی کی کڑک تھی جس کے ساتھ زلزلہ بھی تھا، یا زلزلے کے ساتھ آنے والی خوفناک آواز تھی۔” الرجفتہ “ کے لئے دیکھیے سورة اعراف (٧٨) ، ” الصیحۃ “ کے لئے دیکھیے سورة ہود (٦٧) اور ” الصعقۃ “ کے لئے دیکھیے حم سجدہ (١٧) ۔ مصدر ہو تو معنی ” حد سے بڑھنا “ ہے،” بائ “ سیبہ ہوگی :” ای یطغیانھم “ یعنی ثمود اپنے حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے ہلاک کردیئے گئے، جیسے فرمایا :(کذبت ثمود بطغوھآ) (الشمس : ١١)” قوم ثمود نے اپنی سرکشی کی وجہ سے (صالح (علیہ السلام) کو) جھٹلا دیا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُہْلِكُوْا بِالطَّاغِيَۃِ۝ ٥ «أمَّا» و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف/ 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ } ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥۔ ٦) قوم ثمود کو تو ان کی سرکشی اور شرک کی وجہ سے ہلاک کیا گیا یا یہ کہ ان کی سرکشی نے ان کو جھٹلانے پر آمادہ کیا تاآنکہ وہ ہلاک ہوگئے اور عاد جو تھے سو وہ ایک تیز تند ٹھنڈی ہوا سے ہلاک کیے گئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُہْلِکُوْا بِالطَّاغِیَۃِ ۔ } ” پس ثمود تو ہلاک کردیے گئے ایک حد سے بڑھ جانے والی آفت سے۔ “ الطاغیۃ کے لغوی معنی حد سے گزر جانے والی چیز کے ہیں ۔ یعنی انتہائی شدت والی چیز ۔ اس کے لیے قرآن حکیم کے مختلف مقامات پر الرَّجفۃ (زبردست زلزلہ) ‘ الصَّیحۃ (زور کا دھماکہ یا کڑک) ‘ صَاعِقَۃ (گرج) الفاظ مذکور ہیں ‘ جو عذاب کی مختلف کیفیات کو بیان کرتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 In Surah Al-A'raf: 78, it has been called ar-rajfah (a terrible earthquake) ; in Surah Hud: 67 as-sayhah (a violent blast) ; in Surah Ha Mim As-Sajdah: 17, it has been said: "They were overtaken by sa`iqa-tul-'adhab (a humiliating scourge) ; and here the same punishment has been described as at-taghiyah (a violent catastrophe) . These words describe different aspects of the same calamity.

سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :5 سورہ اعراف ، آیت 78 میں اس کو الرجفہ ( زبردست زلزلہ ) کہا گیا ہے ۔ سورہ ہود ، آیت 67 میں اس کے لیے الصیحہ ( زور کے دھماکے ) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ سورہ حمٰ السجدہ ، آیت 17 میں فرمایا گیا ہے کہ ان کو صاعقۃ العذاب ( عذاب کے کڑکے ) نے آ لیا ۔ اور یہاں اسی عذاب کو الطاغیہ ( حد سے زیادہ سخت حادثہ ) سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔ یہ ایک ہی واقعہ کی مختلف کیفیات کا بیان ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: سورۂ اعراف (۷:۷۳) میں قوم ثمود کا تعارف گزرچکا ہے۔ انہیں حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلانے کی وجہ سے ایک زبردست چنگھاڑ کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا جس سے اُن کے کلیجے پھٹ گئے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(69:5) فاما ثمور فاہلکوا بالطاغیۃ : یہ جملہ کذبت پر معطوف ہے۔ فاما میں فاء سببیہ ہے اور اما سے مجمل کی تفصیل کی گئی ہے اصل کلام یوں تھا :۔ ثمود اور عاد نے قیامت کی تکذیب کی اس لئے تباہ کر دئیے گئے۔ ثمود تو طاغیہ کی وجہ سے ہلاک ہوئے (اور عاد کو سخت ٹھنڈی یا سخت شور انگیز ہوا سے ہلاک کردیا گیا ۔ آیت 6) اھلکوا۔ ماضی مجہول جمع مذکر غائب اہلاک (افعال) مصدر سے ۔ وہ ہلاک کئے گئے۔ بالطاغیۃ۔ سخت کڑک سے۔ طاغیۃ غیر معمولی چیز سے بالاتر۔ قتادہ نے یہی فرمایا ہے اور یہی صحیح ہے۔ صورت یہ ہوئی کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے ایک چیخ اتنی بلند ماری کہ سب مر کر رہ گئے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آسمان کی طرف سے ایک ایسی چیخ پیدا ہوئی تھی جس میں ہر تڑک ہر کڑک اور ہر زمینی چیز کی آواز تھی۔ جس سے سینوں کے اندر دل پار ہ پارہ ہوگئے۔ اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ :۔ طاغیۃ، عافیۃ کی طرح مصدر ہے طغیان کا ہم معنی ہے یعنی ثمود اپنے طغیان (گناہوں میں حد سے آگے بڑھ جانے) کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ اس صورت میں باء سببیہ ہوگی۔ پیغمبر کی تکذیب کی، اونٹنی کو قتل کیا وغیرہ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ طاغیۃ میں تا مبالغہ کی ہے بڑا سرکش، اس سے مراد حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کا قاتل قذار بن سالف ہے۔ یہ بھی ایک قول ہے کہ :۔ طاغیۃ میں تاء تانیث ہے (اور) اس سے مراد وہ جماعت ہے جس نے اونٹنی کے قتل پر اتفاق کیا اور قذار کو اس فعل پر آمادہ کیا تھا ۔ یہی جماعت پوری قوم کی تباہی کا سبب بنی تھی۔ یہ تاویل یعنی طاغیۃ کو مصدر کہنا یا جماعت مراد لینا یا صرف قذار مراد لینا اور تاء کو مبالغہ کے لئے قرار دینا آئندہ آیت کے مناسب نہیں ہے کیونکہ آئندہ آیت میں فرمایا ہے :۔ فاھلکو بریح کہ عاد کو طوفان ہوا سے ہلاک کیا گیا (یعنی ذریعہ ہلاکت بیان فرمایا ہے باعث ہلاکت بیان نہیں فرمایا۔ پس طاغیۃ سے مراد بھی ذریعہ ہلاکت یعنی ہولناک چیخ ہونی چاہیے۔ (تفسیر مظہری) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 یا ” وہ اپنے کفر و سرکشی کی بدلوت تباہ کردیئے گئے۔ لفظ ” طاغیہ “ کے یہ دونوں مفہوم ہوسکتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاما ................ بالطاغیة (٩٦ : ٥) ” ثمودایک بڑے حادثہ سے ہلاک کیے گئے “۔ جیسا کہ دوسری سورتوں میں آیا ہے۔ ثمود شمالی حجاز کے علاقہ حجر میں رہتے تھے ، حجاز اور شام کے درمیان۔ یہ ایک سخت دھماکے کی آواز سے ہلاک کیے گئے۔ دوسری جگہوں پر اس کے لئے الصیحہ کا لفظ آیا ہے ، لیکن یہاں اسے الطاغیہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ الطاغیہ کے معنی ہیں ایک ایسا حادثہ جس پر کنٹرول نہ کیا جاسکتا ہو ، اور یہاں اس سورت کی فضا میں ہوگنا کی اور خوفناکی کے اظہار کے لئے بھی لفظ الطاغیہ موزوں تھا اور جو قافیہ سابقہ آیات کا چلا آرہا تھا اس کے لئے بھی یہ تبدیلی ضروری تھی ، اس لئے الصحیہ کی جگہ الطاغیہ کا لفظ آیا۔ ثمود کا قصہ صرف اس ایک آیت سے تمام کردیا گیا۔ دفتر لپیٹ لیا گیا ، وہ ڈوب گئے اور ہوا نے ان کی خاک بھی اڑادی اور الطاغیہ نے انہیں یوں روندا کہ ان کا سایہ تک باقی نہ رہا۔ لیکن عاد کی تباہی کو ذرا تفصیل اور طوالت سے لیا جاتا ہے۔ یہ اس لئے کہ ان کا عذاب بھی سات راتیں اور آٹھ دنوں تک مسلسل جاری رکھا گیا تھا۔ جبکہ ثمود ایک چیخ ، ایک کڑک کے ساتھ چشم زدن میں تباہ ہوگئے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” فاما ثمود “ الطاغیۃ، موصوف مقدر کی صفت ہے ای بالصیحۃ الطاغیۃ، یعنی ایسی سخت چنگھاڑ جو شدت و فظاعت میں حد سے گذر چکی ہو۔ ای بالصیحۃ المجاوزۃ للحد فی الشدۃ (جلالین) ۔ ” واما عاد فاھلکوا “ یہ قوم عاد کی ہلاکت کی تفصیل ہے۔ ” صرصر “ سخت ٹھنڈی، شدت برودت سے جلانے والی۔ ” عاتیۃ “ شخت تند و تیز اور قابو سے باہر۔ ” حسوم “ متواتر یا جڑوں سے اکھاڑنے والی یا اس کے منعی ہیں مشئوم یعنی نحس بدلیل فی ایام نحسات (حم السجدہ رکوع 2) مطلب یہ ہوگا کہ یہ ایام اس قوم کے حق میں نحس تھے، کیونکہ تمام دن برابر ہیں ان میں سعدو نحس کی کوئی تفریق نہیں۔ ” خاویۃ “ بوسید، کھوکھلی، اندر سے خالی۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ” کانہم اعجاز نخل منقعر “ (القمر رکوع 1) ۔ قوم عاد کو ایسی تند و تیز ہوا سے ہلاک کیا گیا جو سخت ٹھنڈی اور بےقابو تھی اور سات راتیں اور آٹھ دین ان پر مسطل رہی۔ وہ لوگ مردہ ہو کر زمین پر اس طرح گر پڑے جس طرح کھجوروں کے بوسیدہ اور کھوکھلے تنے زمین پر گرے پڑے ہوں ان میں سے کوئی زندہ نہ بچ سکا۔ باقیۃ ای نفس باقیۃ یا بمعنی مصدر ہے۔ ای بقاء۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) پس بہرحال ثمود تو ایک شخص ہولناک آواز سے تباہ کردیئے گئے۔ یعنی ان منکرین قیامت کو دنیا میں جو سزا دے گئی وہ یہ کہ ثمود تو ایک تند آواز اور چیخ سے ہلاک کئے گئے۔ طاغیۃ : کے معنی سے گزر جانے والی بعض نے صحیۃ طاغیۃ کہا ہے بعض نے رجفعۃ طاغیۃ فرمایا ہے بہرحال کڑاکے کی آواز بھی تھی اور زلزلہ بھی تھا۔