Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 101

سورة الأعراف

تِلۡکَ الۡقُرٰی نَقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآئِہَا ۚ وَ لَقَدۡ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ ۚ فَمَا کَانُوۡا لِیُؤۡمِنُوۡا بِمَا کَذَّبُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ کَذٰلِکَ یَطۡبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۰۱﴾

Those cities - We relate to you, [O Muhammad], some of their news. And certainly did their messengers come to them with clear proofs, but they were not to believe in that which they had denied before. Thus does Allah seal over the hearts of the disbelievers.

ان بستیوں کے کچھ کچھ قصے ہم آپ سے بیان کر رہے ہیں اور ان سب کے پاس ان کے پیغمبر معجزات لے کر آئے پھر جس چیز کو انہوں نے ابتدا میں جھوٹا کہہ دیا یہ بات نہ ہوئی کہ پھر اس کو مان لیتے اللہ تعالٰی اسی طرح کافروں کے دلوں پر بند لگا دیتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

After narrating the stories of the people of Prophets Nuh, Hud, Salih, Lut and Shu`ayb, destroying the disbelievers, saving the believers, warning these nations by explaining the truth to them with the evidence sent in the words of His Messengers, may Allah's peace and blessings be on them all, Allah said; تِلْكَ الْقُرَى نَقُصُّ عَلَيْكَ ... Those were the towns that We relate to you (... O Muhammad), ... مِنْ أَنبَأيِهَا ... their story, (and news), ... وَلَقَدْ جَاءتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ... And there came indeed to them their Messengers with clear proofs, and evidences of the truth of what they brought them. Allah said in other Ayah, وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً And We never punish until We have sent a Messenger (to give warning). (17:15) and, ذَلِكَ مِنْ أَنْبَأءِ الْقُرَى نَقُصُّهُ عَلَيْكَ مِنْهَا قَأيِمٌ وَحَصِيدٌ وَمَا ظَلَمْنَـهُمْ وَلَـكِن ظَلَمُواْ أَنفُسَهُمْ That is some of the news of the towns which We relate unto you; of them, some are standing, and some have been reaped. We wronged them not, but they wronged themselves. (11:100-101) Allah said ... فَمَا كَانُواْ لِيُوْمِنُواْ بِمَا كَذَّبُواْ مِن قَبْلُ ... but they were not such who would believe in what they had rejected before. According to the Tafsir of Ibn Atiyyah, meaning they would not have later on believed in what the Messengers brought them, because they denied the truth when it first came to them (although they recognized it), This explanation is sound, and is supported by Allah's statement, وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَأ إِذَا جَأءَتْ لاَ يُوْمِنُونَ وَنُقَلِّبُ أَفْيِدَتَهُمْ وَأَبْصَـرَهُمْ كَمَا لَمْ يُوْمِنُواْ بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ And what will make you perceive that if it came, they will not believe. And We shall turn their hearts and their eyes away (from guidance), as they refused to believe therein for the first time. (6:109-110) This is why Allah said here, ... كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللّهُ عَلَىَ قُلُوبِ الْكَافِرِينَ   Show more

عہد شکن لوگوں کی طے شدہ سزا پہلے قوم نوح ، ہود ، صالح ، لوط اور قوم شعیب کا بیان گذر چکا ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان سب کے پاس ہمارے رسول حق لے کر پہنچے ، معجزے دکھائے ، سمجھایا ، بجھایا ، دلیلیں دیں لیکن وہ نہ مانے اور اپنی بد عادتوں سے ... باز نہ آئے ۔ جس کی پاداش میں ہلاک ہوگئے ، صرف ماننے والے بچ گئے ۔ اللہ کا طریقہ اسی طرح جاری ہے کہ جب تک رسول نہ آ جائیں ، خبردار نہ کر دیئے جائیں عذاب نہیں دیئے جاتے ، ہم ظالم نہیں لیکن جبکہ لوگ خود ظلم پر کمر کس لیں تو پھر ہمارے عذاب انہیں آ پکڑتے ہیں ۔ ان سب نے جن چیزوں کا انکار کر دیا تھا ان پر باوجود دلیلیں دیکھ لینے کے بھی ایمان نہ لائے ۔ آیت ( بما کذبوا ) میں ب سببیہ ہے جیسے آیت ( واذا سمعوا ) کے پارے کے آخر میں فرمایا ہے کہ تم کیا جانو؟ یہ لوگ تو معجزے آنے پر بھی ایمان نہ لائیں گے ، ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے جیسے کہ یہ اس قرآن پر پہلی بار ایمان نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں بھٹکتے ہوئے جھوڑ دیں گے ، یہاں بھی فرمان ہے کہ کفار کے دلوں پر اسی طرح ہم مہریں لگا دیا کرتے ہیں ۔ ان میں سے اکثر بد عہد ہیں بلکہ عموماً فاسق ہیں ۔ یہ عہد وہ ہے جو روز ازل میں لیا گیا اور اسی پر پیدا کئے گئے اسی فطرت اور جبلت میں رکھا گیا اسی کی تاکید انبیاء علیہم السلام کرتے کرتے رہے ۔ لیکن انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا یا مطلق پروا نہ کی اور اس عہد کے خلاف غیر اللہ کی پرستش شروع کر دی ۔ اللہ کو مالک خالق اور لائق عبادت مان کر آئے تھے لیکن یہاں اس کے سراسر خلاف کرنے لگے اور بےدلیل ، خلاف عقل و نقل ، خلاف فطرت اور خلاف شرع ، اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت میں لگ گئے ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد اور یکطرفہ پیدا کیا لیکن شیطان نے آ کر انہیں بہکا دیا اور میری حلال کردہ چیزین ان پر حرام کر دیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اسے اس کے ماں باپ یہودی نصرانی مجوسی بنا لیتے ہیں ۔ خود قرآن کریم میں ہے ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول بھیجے تھے سب کی طرف یہی وحی کی تھی کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔ اے دنیا کے لوگو تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے رہو ۔ اور آیت میں ہے تو اپنے سے پہلے کے رسولوں سے دریافت کر لو کیا ہم نے اپنے سوا اور معبود ان کے لئے مقرر کئے تھے؟ اور فرمان ہے آیت ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلٰلَةُ ۭ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ 36؀ ) 16- النحل:36 ) ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو صرف اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ اس جملے کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ چونکہ پہلے ہی سے اللہ کے علم میں یہ بات مقرر ہو گئی تھی کہ انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا ۔ یہی ہو کر رہا کہ باوجود دلائل سامنے آ جانے کے ایمان نہ لائے ۔ میثاق والے دن گو یہ ایمان قبول کر بیٹھے لیکن ان کے دلوں کی حالت اللہ جل شانہ کو معلوم تھی کہ ان کا ایمان جبراً اور ناخوشی سے ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ یہ اگر دوبارہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تو پھر بھی وہی کام نئے سرے سے کرنے لگیں گے جن سے انہیں روکا گیا ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

(1) جس طرح گزشتہ صفحات میں چند انبیاء کا ذکر گزرا۔ بینات سے مراد دلائل وبراہین اور معجزات دونوں ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ رسولوں کے ذریعے سے جب تک ہم نے حجت تمام نہیں کردی ہم نے انہیں ہلاک نہیں کیا۔ کیونکہ جب تک ہم رسول نہیں بھیجتے عذاب نازل نہیں کرتے۔ 101۔ 1 اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ یوم میثاق کو جب عہد...  لیا گیا تھا تو یہ اللہ کے علم میں ایمان لانے والے نہ تھے اس لئے جب ان کے پاس رسول آئے تو اللہ کے علم کے مطابق ایمان نہیں لائے، کیونکہ ان کی تقدیر میں ہی ایمان نہیں تھا جسے اللہ نے اپنے علم کے مطابق لکھ دیا تھا۔ جس کو حدیث میں تعبیر کیا گیا ہے دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب پیغمبر ان کے پاس آئے تو اس وجہ سے ان پر ایمان نہیں لائے کہ وہ اس سے قبل حق کی تکذیب کرچکے تھے۔ گویا ابتدا میں جس چیز کی تکذیب کرچکے تھے، یہی گناہ ان کے عدم ایمان کا سبب بن گیا اور ایمان لانے کی توفیق ان سے سلب کرلی گئی، اسی کو اگلے جملے میں مہر لگانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ( وَمَا يُشْعِرُكُمْ ۙ اَنَّهَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ 109۔ وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ ) 6 ۔ الانعام :109) اور تمہیں کیا معلوم ہے یہ تو ایسے (بدبخت) ہیں کہ ان کے پاس نشانیاں بھی اجائیں تب بھی ایمان نہ لائیں اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (تو) جیسے یہ اس (قرآن) پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے (ویسے پھر نہ لائیں گے) ۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٥] یعنی سیدنا نوح (علیہ السلام) سیدنا ہود (علیہ السلام) & سیدنا صالح (علیہ السلام) & سیدنا لوط (علیہ السلام) اور سیدنا شعیب (علیہ السلام) کے علاقہ ہائے تبلیغ رسالت۔ [١٠٦] دل پر مہر کب اور کیسے لگتی ہے ؟ آیت کے اس حصہ میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ دل پر مہر کب اور کیسے لگتی ہے ؟ او... ر دوسرے یہ کہ اس مہر لگنے کی نسبت اللہ کی طرف کس لحاظ سے ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کے دل پر مہر یوں لگتی ہے کہ وہ جس بات کا ایک دفعہ انکار کردیتا ہے یا اسے جھٹلا دیتا ہے پھر اسے کوئی نشانی دیکھنے سے یا کسی کے سمجھانے سے حقیقت سمجھ میں آ بھی جائے تو محض اس لیے اپنے پہلے سے کیے ہوئے انکار پر ڈٹ جاتا ہے کہ اس سے اس کی انامجروح ہوتی ہے۔ جب کوئی انسان اس حالت کو پہنچ جائے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے دل پر اللہ کی مہر لگنے کا وقت آگیا ہے اور آئندہ وہ حق بات تسلیم کرنے کے قابل ہی نہ رہے گا۔ مہر لگنے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں ؟ اور مہر لگانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لیے ہے کہ اسباب کو اختیار کرنا انسان کے اپنے بس میں ہے اور اسی وجہ سے اسے سبب اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے اعمال کی جزا و سزا کا دار و مدار بھی اسباب کو اختیار کرنے کی بنا پر ہے۔ لیکن ان اسباب کے مسببات یا نتائج حاصل کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہے یہ نتائج اکثر اوقات تو اختیار کردہ اسباب کے مطابق ہی برآمد ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھار ان کے خلاف بھی برآمد ہوسکتے ہیں لہذا نتائج کی نسبت اسباب اختیار کرنے والے کی طرف بھی ہوسکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف بھی۔ اور قرآن میں یہ نسبت دونوں طرح سے استعمال ہوئی ہے۔ بہرحال یہ نسبت اگر اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہو تو بھی یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کسی سبب اختیار کرنے والے مجرم کے عمل کے نتیجے میں ہے۔ اور حقیقتاً مجرم وہ ہے جس نے ایسے اسباب اختیار کیے تھے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تِلْكَ الْقُرٰي۔۔ : یہاں ” القرٰی “ سے مراد گزشتہ پانچ اقوام (قوم نوح، عاد، ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب) کی بستیاں ہیں۔ آپ کو ان کے کچھ حالات سنانے کا مقصد یہ ہے کہ کفار مکہ جو ان بستیوں میں رہنے والوں کی طرح آپ کی مخالفت کر رہے ہیں، عبرت حاصل کریں۔ فَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِن... ْ قَبْلُ : یعنی ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کے رسولوں کے پاس اپنے سچا ہونے کے دلائل نہیں تھے، یا وہ دلائل اتنے واضح اور روشن نہیں تھے کہ قائل کرسکیں، بلکہ اس کا سبب ان کی قوم کا پہلے سے طے کرلینا تھا کہ ہم نے ماننا ہی نہیں۔ اب پہلے جھٹلا دینے کے بعد وہ ایمان لے آتے تو ان کی جھوٹی عزت نفس پر حرف آتا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَاِذَا قِيْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُ ۭ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ ) [ البقرۃ : ٢٠٦ ] ” اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر تو اس کی عزت اسے گناہ میں پکڑے رکھتی ہے، سو اسے جہنم ہی کافی ہے اور یقیناً وہ برا ٹھکانا ہے۔ “ یہی گناہ (یعنی دلائل دیکھنے کے باوجود پہلے ہی جھٹلا دینا اور اس پر اصرار کرنا) ان کے دلوں پر مہر کا باعث بن گیا، دیکھیے سورة انعام (١٠٩، ١١٠) ۔ كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِ الْكٰفِرِيْنَ : یعنی جس طرح پہلی امتوں کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے دلوں کی صلاحیتیں سلب کرلی گئی تھیں اور انھیں ایمان نصیب نہیں ہوا تھا اسی طرح ان کے دل بھی مسخ ہوچکے ہیں اور ان میں ایمان کی صلاحیت باقی نہیں رہی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The verse 101 has contained the phrase تِلْكَ الْقُرَ‌ىٰ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَائِهَا |"these are stories of the towns that We narrate to you.|" The word: نَبَا &naba& in Arabic is used to denote some great news. With the word: مِن &min& the verse has indicated that the events described in these verses are only some of a large number of events bearing the same lesson. The vers... e has further said, |"And surely, their messengers came to them with clear signs, but they were not to believe in what they had belied earlier.|" It brings out their obstinate attitude towards the prophets who came to them with clear signs or miracles which are a definite means to decide between right and wrong but they obstinately rejected the truth, only because they had once belied them. We know from this verse that miracles were given to all the prophets. The miracles of some prophets have been mentioned while the miracles of most of the prophets have not been referred to in the Holy Qur&an. This does not allow one to infer that the prophets not mentioned in the Qur&an were not given any miracles. As for the statement of the people of the prophet Hud (علیہ السلام) ، appearing in Surah Hud مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ |"you did not bring any clear sign|", this verse has clearly indicated that their statement was simply out of their obstinacy or, maybe they thought his miracles were of less significance. Another point to be noted is that the present verse is speaking of the peculiarity of the disbelieving people who rigidly and obstinately followed the path of ignorance, only to prove that what they had once said was true, with no regard to all the clear signs and proofs of the truth. Most of the Muslims, even some &Ulama& (the religious scholars) are seen to have the same habit of supporting their wrong statements in the face of clear proofs of the truth. This condition is a usual cause of incurring Allah&s wrath. (&Masail al Suluk& ) Thereafter, the verse said كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْكَافِرِ‌ينَ |"This is how Allah stamps upon the hearts of the disbelievers|" that is, Allah seals the hearts of those who disbelieve and reject the truth, making them unable to accept good as good.  Show more

اس کے بعد فرمایا وَلَقَدْ جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بالْبَيِّنٰتِ ۚ فَمَا كَانُوْا لِيُؤ ْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ یعنی ان سب لوگوں کے انبیاء ورسل ان کے پاس معجزات لے کر پہنچے جن کے ذریعہ حق و باطل کا فیصلہ ہوجاتا ہے، مگر ان کی ضدا اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم تھا کہ جس چیز کے متعلق ایک مرتبہ ... ان کی زبان سے یہ نکل گیا تھا کہ یہ غلط اور جھوٹ ہے پھر اس کے حق وصدق ہونے پر کتنے ہی معجزات، دلائل اور حجتیں سامنے آگئیں مگر وہ اس کی تصدیق و اقرار کے لئے آمادہ نہ ہوئے۔ اس آیت سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ معجزات تمام انبیاء ورسل کو عطا فرمائے گئے ہیں جن میں سے بعض انبیاء کے معجزات کا قرآن میں ذکر آیا ہے، بہت سوں کا نہیں آیا، اس سے یہ سمجھنا صحیح نہیں ہوسکتا کہ جن کے معجزات کا قرآن میں ذکر نہیں آیا ان سے کوئی معجزہ ثابت ہی نہیں، اور سورة ہود میں جو حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم کا یہ قول مذکور ہے کہ ما جئتنا ببینة یعنی آپ کوئی معجزہ نہیں لائے، اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان کا یہ قول محض عناد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر تھا یا یہ کہ ان کے معجزات کو معمولی سجھ کر ایسا کہا۔ دوسری بات یہ قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں ان لوگوں کا جو حال بتلایا گیا ہے کہ غلط بات زبان سے نکل گئی تو اس کی سخن پروری کرتے رہے، یہ خدا کی منکر اور کافر قوموں کا حال ہے جس میں بکثرت مسلمان بلکہ بعض علماء و خواص بھی مبتلا پائے جاتے ہیں کہ کسی چیز کو اول وہلہ میں غلط یا جھوٹ کہہ دیا تو اب اس کی سچائی کے ہزاروں دلائل بھی سامنے آجائیں تو اپنی غلط بات کی پیروی کرتے رہیں، یہ حالت قہر خداوندی اور غضب الہی کا موجب ہے ، ( ازمسائل السلوک) اس کے بعد فرمایا ۭكَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِ الْكٰفِرِيْنَ ، یعنی جس طرح ان لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، اسی طرح عام کافر ومنکر لوگوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتے ہیں کہ پھر نیکی قبول کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تِلْكَ الْقُرٰي نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗىِٕہَا۝ ٠ ۚ وَلَقَدْ جَاۗءَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَيِّنٰتِ۝ ٠ ۚ فَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِ الْكٰفِرِيْنَ۝ ١٠١ قصص الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : ال... أثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] ( ق ص ص ) القص کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠١) جن بستیوں والوں کو ہم نے ہلاک کیا ہے ان کی ہلاکت کے کچھ واقعات بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) ہم آپ کو سنا رہے ہیں، ان سب کے پاس رسول، اوامرو نواہی اور علامات نبوت لے کر آئے مگر میثاق سے پہلے جس کی تکذیب کردی تھی پھر اس کی تصدیق نہیں کی، یا یہ کہ پہلی قوموں نے جن باتوں کی تکذیب کی تھی، بعد وا... لی امتوں نے ان کو تسلیم نہیں کیا، اسی طرح اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے دلوں کو جو علم الہی میں مشرک ہیں بند کردیتا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠١ (تِلْکَ الْقُرٰی نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآءِہَاج۔ انباء الرسل کے سلسلے میں اب تک پانچ رسولوں یعنی حضرت نوح ‘ حضرت ہود ‘ حضرت صالح ‘ حضرت لوط اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کا ذکر ہوچکا ہے۔ آگے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر آرہا ہے جو قدرے طویل ہے۔ (وَلَقَدْ جَآءَ تْہُمْ رُسُلُہُمْ بالْب... َیِّنٰتِ ج فَمَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا کَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ ط) یعنی جسے ایمان لانا ہوتا ہے وہ جیسے ہی حق منکشف ہوتا ہے اسے قبول کرلیتا ہے۔ جسے قبول نہیں کرنا ہوتا اس کے لیے نصیحتیں ‘ دلیلیں ‘ نشانیاں اور معجزے سب بےاثر ثابت ہوتے ہیں۔ یہی نکتہ سورة الانعام (آیت ١١٠) میں اس طرح بیان ہوا ہے : ( وَنُقَلِّبُ اَفْءِدَتَہُمْ وَاَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ) یعنی ہم ان کے دلوں اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیتے ہیں ‘ جیسے کہ وہ پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے تھے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

81. The purpose behind the 'sealing of hearts' mentioned in the preceding verse is also explained in the present verse. It is clear from the two verses that the 'sealing of hearts' means that man's capacity to hear and understand the truth is seriously, impaired because of the operation of natural, psychological laws. Because of these laws, once a person turns away from the truth because of his ir... rational prejudices and the dominance of lust, he becomes enmeshed in his own obstinacy and adamance. With the passage of time this adamance is compounded to such an extent that despite all rational and empirical evidence in support of the truth, he continues to reject it.  Show more

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :81 پچھلی آیت میں جو ارشاد ہوا تھا کہ” ہم ان کے دلوں پر مُہر لگا دیتے ہیں ، پھر وہ کچھ نہیں سنتے “ ، اس کی تشریح اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خود فرمادی ہے ۔ اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دلوں پر مہر لگانے سے مراد ذہنِ انسانی کا اس نفسیاتی قانون کی زد میں آجانا ... ہے جس کی رُو سے ایک دفعہ جاہلی تعصبات یا نفسانی اغراض کی بنا پر حق سے مُنہ موڑ لینے کے بعد پھر انسان اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے اُلجھاؤ میں اُلجھتا ہی چلا جاتا ہے اور کسی دلیل ، کسی مشاہدے اور کسی تجر بے سے اس کے دل کے دروازے قبول ِ حق کے لیے نہیں کُھلتے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(101 ۔ 102) ۔ اوپر حضرت نوح ( علیہ السلام) کی امت کا حال تھا کہ انہوں نے نبی وقت کا کہنا نہ مانا آخر طوفان سے ہلاک ہوگئے اسی طرح حضرت ہود (علیہ السلام) کی امت قوم عاد سخت آندھی سے اور حضرت صا ( علیہ السلام) لح کی امت قوم ثمود کڑک کی سخت آواز اور زلزلہ سے اور حضرت لوط ( علیہ السلام) کی امت پتھروں کے ... مینہ سے اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی امت زلزلہ اور انگارے برسنے سے جو ہلاک ہوئی ان سب کا حال بیان فرما کر اس آیت میں آنحضرت کی تسکین اور قریش کی تنبیہ خدا تعالیٰ نے جو فرمائی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کر قریش بھی نبی وقت کی نصیحت نہ مانیں گے تو جس طرح گذشتہ امتوں کی بستیاں غارت ہوگئی ہیں اسی طرح یہ بھی غارت ہوجاویں گے غرض اوپر کئی رکوع میں جو قصے پچھلے انبیاء اور پچھلی امتوں کے اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائے یہ آیت ان سب قصوں کا نتیجہ ہے فما کانوالیومنوا بما کذبوا من قبل اس کا مطلب یہ ہے کہ علم ازلی الہی میں پہلے ہی یہ معلوم ہوچکا تھا کہ یہ لوگ ایمان نہ لاویں گے اس واسطے باوجود انبیاء کی نصیحت کے یہ لوگ ایمان نہ لائے اور یوم الیشاق میں اللہ کی توحید کا اقرار جو انہوں نے کیا تھا اس عہد پر قائم نہ رہے حضرت آدم (علیہ السلام) کی اور اولاد آدم ( علیہ السلام) کی پشت سے دنیا میں پیدا ہونے والی سب ارواحوں سے اللہ تعالیٰ نے توحید کا عہد لیا تھا جس کا ذکر اس سورة میں آگے آوے گا اسی عہد کے دن کو یوم الیشاق کہتے ہیں اس عہد کے موافق اللہ تعالیٰ ہر ایک روح کو اسلام پر پیدا کرتا ہے پیدا ہونے کے بعد جس نے سچے دل سے وہ عہد کیا تھا وہ علم ازلی الہی میں اس کا اسلام کی حالت میں مرنا معلوم ہوچکا تھا وہ اسلام پر قائم رہتا ہے ورنہ کوئی شیطان کے بہکانے یا کافر ماں باپ کی صحبت سے سرے سے ایمان ہی نہیں لاتا اور کوئی عارضی طور پر ایمان لاکر اخیر کو اسی حالت کفر کے عمل کر کے مرتا ہے جو حالت علم ازلی الٰہی میں پہلے سے معلوم ہوچکی ہے اسی واسطے شریعت میں خاتمہ کا اعتبار ہے بیچ کی عارضی حالت کا اعتبار نہیں ہے اور آخری حالت کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کے دل پر اللہ نے مہر لگادی ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث کی مثال اچھی بری زمین کی فرمائی ہے اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ بہت لوگ ساری عمر رمل جنت کے کام کرتے ہیں یہاں تک کہ جنت میں اور ان میں کچھ فرق رہ جاتا ہے آخر کو وہ لوگ مرتے ہیں اسی طرح بہت لوگ تمام عمر اہل دوزخ کے کام کرکے جنتی ہو کر مرتے ہیں صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ہر بچہ کو اللہ تعالیٰ اسلام کی خصلت پر پیدا کرتا ہے پیدا ہونے کے بعد اس بچہ کے ماں باپ اس کو اپنے جیسا یہودی یا نصرانی یا آتش پرست بنالیتے ہیں مسلم میں حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں ہر ایک بچہ کو خصلت اسلام اور توحید پر پیدا کرتا ہوں پھر اس کے بڑے ہونے پر شیطان اس کو کسی اور راستہ سے لگا دیتا ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے یوم الیشاق میں توحید کا عہد لیا ہے اسی طرح تسلیم رسالت ہر نبی وقت کا بھی عہد لیا ہے اور روحوں سے اسی روز فرمایا ہے کہ دیکھوں اس یوم الیشاق کا عہد یاد دلانے کو انبیاء تمہارے پاس آویں گے ان کی اطاعت ضرور کرنا لوگوں نے اس کا اقرار بھی اللہ کے روبرو کرلیا ہے اس لئے جو بچہ چھوٹی عمر میں مرجاتا ہے اور دوسرے عہد کے پانے کی نوبت اس کو نہیں پہنچتی اور تکلیفات شرعیہ اور اطاعت نبی وقت کے حاصل کرنے کا موقعہ اس کو میسر نہیں آتا بلکہ اس موقعہ کے میسر آنے کے پہلے وہ مرجاتا ہے اس کی نجات کے لئے پہلا یوم المیثاق کا عہد کافی ہوجاتا ہے اور جو شخص تمیز کی عمر پانے کے بعد نبی وقت کی اطاعت نہ کرے۔ اس کا پہلے کا عہد بھی جھوٹا اور نام کافی متصور ہو کر اس سے مؤاخذہ کیا جاتا ہے تفسیر ابن جریر میں روایت ہے ضحاک بن مزاحم کا چھ روز کا ایک لڑکا مرگیا اس لڑکے کو قبر میں اتارتے وقت ضحاک نے لوگوں سے کہا اس لڑکے کے کفن کا بندہن کھول دینا تاکہ سوال کے وقت اس کو بیٹھنے میں آسانی ہو لوگوں نے کہا اتنے چھوٹے بچے سے کیا سوال ہوگا ضحاک نے کہا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اتنے چھوٹے بچوں سے میثاق کی توحید کا قبر میں سوال ہوتا ہے اتنے عمر والے بچوں کو جو اطاعت نبی کا موقعہ نہ پاویں جس کو دوسرا میثاق کہتے ہیں یہ پہلا میثاق کافی ہے اور جو میثاق ثانی کا موقعہ پاکر اس کا پابند نہ ہو اس کا میثاق اولیٰ کافی اور جھوٹا ہے اس باب میں ابن جریر نے چند آثار صحابہ نقل کر کے بعض آثار کو بعض سے قوت دی اور صحیح کہا ہے اور یہ ایک مسئلہ ہے کہ ایسے مسائل میں آثار صحابہ کو مرفوع حدیث کا حکم ہے غرض اس عہد کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اکثر لوگوں کو ہم نے بدعہد پایا جس کا مطلب اوپر کی حدیثوں کے موافق یہ ہے کہ بعضے لوگ تو سرے سے باوجود انبیاء کی نصیحت کے ایمان ہی نہیں لائے اور بعضے لوگ آخری عمر میں بدعہد ہو کر مرگئے تفسیر سدی میں ہے کہ جس دن روحوں سے اللہ تعالیٰ نے عہدالیا اس دن ان روحوں نے جو اللہ کے علم میں ایمان دار ٹھہر چکی تھیں تہہ دل سے اللہ کی توحید کا اقرار کیا اور جو روحیں اللہ کے علم میں دنیا میں آنے کے بعد ایمان دار نہیں ٹھہریں تھیں انہوں نے اوپر کے دل سے اور روحوں کے دیکھا دیکھی منافقوں کے ایمان کی طرح توحید کا اقرار کرلیا وہی لوگ دنیا میں آن کر باوجود انبیاء کی نصیحت کے ایمان نہ لائے یا لائے تو منافق رہے معتبر سند سے ترمذی ابوداؤد وغیرہ میں حضرت عمر (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس وقت اللہ تعالیٰ نے یوم المیثاق میں آدم اور اولاد آدم کی پشت سے روحوں کو نکالا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق جنتی اور دوزخی روحوں کو الگ الگ کر کے یہ فرما دیا تھا کہ ان سب روحوں میں اس قدر روحیں جنتی لوگوں کی ہیں اور اس قدر روحیں دوزخی لوگوں کی اس حدیث سے سدی کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ علم ازلی میں جو لوگ دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے دوزخی ٹھہرے اس حدیث کے موافق ان کا یوم المیثاق کا عہد علم الٰہی میں سچا عہد نہیں تھا یہی مطلب سدی کے قول کا ہے دل پر زنگ کی مہر لگ جانے کی ابوہریرہ (رض) کی حدیث اوپر گذر چکی ہے وہی حدیث ان آیتوں کے مہر کے ذکر کی تفسیر ہے جن ضحاک بن مزاحم کا ذکر اوپر گزرا یہ ضحاک طبقہ اعمش کی تابعیوں میں ہیں تقریب میں ان کو صدوق لکھا ہے اور امام احمد (رح) نے ان ضحاک کو ثقہ کہا ہے تفسیر کے باب میں ان ضحاک کا شمار سعید بن جبیر مجاہد عکرمہ کے طبقہ میں کیا جاتا ہے۔ سفیان ثوری کہا کرتے تھے کہ سعید بن جبیر مجاہد عکرمہ اور ضحاک تفسیر کے ماہر لوگوں میں ہیں ان چاروں سے تفسیر کی روایتیں لینی چاہئیں اگرچہ بعضے سلف کا قول ہے کہ ان ضحاک کو عبداللہ بن عباس (رض) سے ملاقات کا موقعہ نہیں ملا مگر اس بات پر سلف کا اتفاق ہے کہ سعید بن جبیر اور ان ضحاک سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے تفسیر کے باب کی روایتیں سعید بن جبیر سے حاصل کیں اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور ضحاک میں اگر واسطہ ہے تو سعید بن جبیر کا ایک ثقہ واسطہ ہے اسی واسطے سفیان ثوری نے ان ضحاک کو حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے شاگردوں کی ذیل میں رکھا ہے :۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:101) ابنائھا۔ ابنائ۔ بنأ کی جمع ہے۔ خبریں۔ بنأ اس خبر کو کہتے ہیں جس سے بڑا فائدہ اور یقین یا ظن غالب حاصل ہو۔ جس خبر میں یہ باتیں نہ ہوں اس کو بنأ نہیں کہتے۔ کوئی خبر اس وقت تک بنأ کہلانے کی مستحق نہیں ہوتی۔ جب تک کہ شائبہ کذب سے پاک نہ ہو۔ جیسے وہ خبر جو بطریق تواتر ثابت ہو۔ یا جس کو اللہ ا... ور اللہ کے رسول نے بیان فرمایا ہو۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب القری کی طرف راجع ہے۔ بستیوں سے یہاں مراد حضرت نوح۔ لوط۔ ہود۔ شعیب علیہم الاسلام کی قوموں کی بستیاں ہیں۔ فما کانوا لیؤمنوا۔ لام تاکید کے لئے۔ اور ہرگز نہ ہوا یہ کہ وہ ایمان لاتے۔ یعنی وہ ہرگز ایمان نہ لائے۔ (اس پر جس کو وہ پہلے جھٹلا چکے تھے) نیز ملاحظہ ہو 7:89 ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یہاں القرٰ سے مراد گذشتہ اقوام خمسہ نوح ( علیہ السلام) عاد، ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب ( علیہ السلام) کی بستیاں ہیں۔ 1 کیونکہ کفرو شرک ان کی سرشت اور خمیر میں پڑگیا تھا اور وہ اسے کسی حال میں چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے،2 یعنی جس طرح پہلی امتوں کو ضد اور ہٹ دھرمی کی کی وجہ سے ان کے دلو کی صلاحتیں...  سلب کرلی گئی تھیں اور انہیں ایمان نصیب نہیں ہو اتھا اسی طرح ان کے دل مسخ ہوچکے تھے اور ان میں ایمان کی صلاحیت باقی نہیں رہی (رازی )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ قصے اللہ کی جانب سے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کا کوئی علم نہ تھا۔ آپ کو یہ قصے بذریعہ وحی تعلیم کئے گئے تھے۔ وَلَقَدْ جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ " ان کے رسول ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے " لیکن ان نشانیوں کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ بدستور رسولوں کو جھ... ٹلاتے رہے جس طرح وہ ان نشانیوں سے پہلے بھی جھٹلاتے تھے۔ یہ نشانیاں اور معجزات بھی ان کو ایمان تک نہ پہنچا سکے۔ یہ نہ تھا کہ ان کے سامنے دلائل کی کمی تھی بلکہ حقیقی صورت حالات یہ تھی کہ ان کے دلوں کو تالے لگے ہوئے تھے ، ان کا احساس مردہ ہوگیا تھا ، اور ہدایت کی طرف وہ متوجہ ہی نہ تھے۔ جس چیز کی کمی تھی وہ یہ تھی کہ ان کی فطرت مر چکی تھی ، وہ متاثر ہی نہ ہوتے تھے ، لہذا وہ دعوت کو قبول ہی نہ کرتے تھے۔ جب ان کے دل دلائل ایمان کی طرف متوجہ ہی نہ تھے اور ہدایت کے اشارات ان تک پہنچ ہی نہ پا رہے تھے تو اللہ نے بھی انہیں اس حال پر چھوڑ کر ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور ان کے لئے قبولیت حق کے تمام راستے بند ہوگئے۔ كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِ الْكٰفِرِيْنَ " دیکھو اس طرح اللہ تعالیٰ منکرین حق کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں "۔ یہ مزاج ان میں سے اکثریت کا تھا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(تِلْکَ الْقُرٰی نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآءِھَا) (یہ بستیاں ہیں جن کے قصے ہم آپ کو سناتے ہیں) (وَ لَقَدْ جَآءَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بالْبَیِّنٰتِ ) (اور ان کے پاس ان کے پیغمبر واضح معجزات لے کر آئے) (فَمَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا کَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ ) (اور وہ ایسے نہ تھے کہ جس چیز کو انہوں ... نے پہلے جھٹلا دیا تھا اس پر ایمان لے آتے) ان کے پاس حق آیا تو اس کی تکذیب جو پہلے کردی تھی اسی تکذیب پر جمے رہے لہٰذا ایمان نہ لائے۔ (کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِ الْکٰفِرِیْنَ ) (ایسے ہی اللہ تعالیٰ کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے) اس مہر لگانے کا سبب اوپر بیان ہوا ہے۔ اس مہر کے سبب اپنے کفر پر اڑے رہتے ہیں۔ کافر اقوام کا یہی طریقہ ہے کہ جب پہلی بار منکر ہوگئے تو ضد، عناد اور ہٹ دھرمی کے باعث حق کو ہرگز قبول نہیں کرتے۔ اگرچہ دلائل عقلیہ سمعیہ اور آیات تکوینیہ کھل کر سامنے آجائیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

105:“ اَلْقُرٰي ” سے تمام مذکورہ بستیوں کی طرف اشارہ ہے۔ جن کے انبیاء (علیہم السلام) اور جن کی قوموں کے واقعات پہلے مذکور ہوچکے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ اس اشارہ کا محسوس مبصر ہی کے لیے استعمال ہونا ضروری نہیں بلکہ معہود فی الذہن کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے۔ لہذا “ ماتقول فی ھذا الرجل ” س... ے مبتدعین کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قبر میں حاضر ہونے پر استدلال غلط ہے۔ “ بِمَا کَذـَ بُوْا ” میں با سببیہ ہے اور “ کَذٰلِکَ ” میں کاف بمعنی لام ہے۔ یعنی جب ان کے پاس اللہ کے پیغمبر آئے تو انہوں نے ان کی تکذیب کر ڈالی اس لیے جب انہوں نے معجزات پیش کئے تو بھی وہ ایمان نہ لائے اور کفر پر اڑے رہے اس لیے ان کے عناد و انکار کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر جباریت ثبت کردی گئی اور ان سے توفیق ایمان سلب کرلی گئی۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

10 1 اے پیغمبر ! یہ چند بستیاں تھیں جن کے بعض احوال و واقعات آپ کو ہم نے سنائے ہیں اور ان بستیوں کی بعض خبروں سے آپ کو آگاہ کررہے ہیں ان بستیوں کے رہنے والے لوگوں کے پاس ان کے رسول کھلے معجزے اور واضح دلائل لے کر آئے تھے مگر ان کی ضد کا یہ عالم تھا کہ جس چیزکو ابتدائً جھٹلا چکے تھے اور پہلے ہی مرتب... ہ جس چیز پر منہ سے نہیں نکل چکی تھی اس کو آخر تک مان کر ہی نہیں دیا اور آخر تک اپنی ہٹ پر قائم رہے جس طرح یہ لوگ نافرمانی میں سنگ دل تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ نہ ماننے والوں کے دلوں پر مہر کردیا کرتا ہے۔  Show more