Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 102

سورة الأعراف

وَ مَا وَجَدۡنَا لِاَکۡثَرِہِمۡ مِّنۡ عَہۡدٍ ۚ وَ اِنۡ وَّجَدۡنَاۤ اَکۡثَرَہُمۡ لَفٰسِقِیۡنَ ﴿۱۰۲﴾

And We did not find for most of them any covenant; but indeed, We found most of them defiantly disobedient.

اور اکثر لوگوں میں ہم نے وفائے عہد نہ دیکھا اور ہم نے اکثر لوگوں کو بے حکم ہی پایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا وَجَدْنَا لاَكْثَرِهِم ... Thus Allah does seal up the hearts of the disbelievers. And most of them We found not... meaning, We did not find most of the previous nations, ... مِّنْ عَهْدٍ وَإِن وَجَدْنَا أَكْثَرَهُمْ لَفَاسِقِينَ true to their covenant, but most of them We found to indeed be rebellious. This Ayah means, We found most of them to be rebellious, deviating away from obedience and compliance. The covenant mentioned here is the Fitrah that Allah instilled in them while still in their fathers' loins, and taking their covenant, that He is their Lord, King, and that there is no deity worthy of worship except Him. They affirmed this covenant and testified against themselves to this fact. However, they defied this covenant, threw it behind their backs and worshipped others besides Allah, having no proof or plea, nor support from rationality or by divine law. Surely, the pure Fitrah defies these actions, while all the honorable Messengers, from beginning to end, forbade them. Muslim collected the Hadith, يَقُولُ اللهُ تَعَالَى إِنِّي خَلَقْتُ عِبَادِي حُنَفَاءَ فَجَاءَتْهُمُ الشَّيَاطِينُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِينِهِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَيْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُم Allah said, "I created My servants Hunafa (monotheists), but the devils came to them and deviated them from their religion and prohibited them what I allowed them." It is recorded in the Two Sahihs, كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ وَيُمَجِّسَانِه Every child is born upon the Fitrah, it is only his parents who turn him into a Jew, a Christian or a Zoroastrian.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

102۔ 1 اس سے بعض نے عہد الست جو عالم ارواح میں لیا گیا تھا، بعض نے عذاب ٹالنے کے لئے پیغمبروں سے جو عہد کرتے تھے، وہ عہد اور بعض نے عام عہد مراد لیا ہے جو آپس میں ایک دوسرے سے کرتے تھے۔ اور یہ عہد شکنی، چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو، فسق ہی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٧] عہد کو پورا نہ کرنا فسق ہے :۔ عہد سے مراد وہ فطری عہد بھی ہوسکتا ہے جو انسان کی سرشت میں موجود ہے اور یہ عہد آیت (اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ١٧٢؀ۙ ) 7 ۔ الاعراف :172) کے نام سے مشہور ہے جس کی رو سے ہر انسان نے عہد کیا تھا کہ وہ اپنے پروردگار کے سوا کسی دوسرے کو معبود نہیں بنائے گا اور وہ عہد بھی جو انسان دوسرے انسانوں سے کرتا ہے خواہ یہ لین دین کے معاملات سے تعلق رکھتا ہو یا نکاح و طلاق کے معاملات سے، اور وہ عہد بھی جو کوئی انسان ذاتی طور پر اپنے پروردگار سے کرتا ہے یعنی عہد خواہ کسی طرح کا ہو اسے توڑنے والا فاسق ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ ۚ: ” مِّنْ عَهْدٍ ۚ“ (کوئی بھی عہد) کا لفظ نکرہ استعمال ہوا ہے، جس کا عموم ” مِن “ سے مزید بڑھ گیا ہے۔ مراد کسی بھی قسم کا عہد ہے، نہ فطری جو ” اَلست بربکم “ کے وقت کیا تھا، نہ شرعی جو پیغمبروں سے عذاب ٹالنے کی درخواست کے وقت کرتے تھے اور نہ عرفی جو وہ آپس میں ایک دوسرے سے کرتے تھے۔ لَفٰسِقِيْنَ : ” نافرمان “ یعنی کسی عہد کا پاس نہ کرنے والے پکے بےایمان۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The verse 102 has said, |"And We did not find with most of them any covenant (unbroken).|" The Companion ` Abdullah ibn Abbas (رض) has said that the covenant referred to in this verse is the Covenant called . That is, the covenant that Allah made with the spirits of all the creatures before creating them, when Allah said to them: أَلَسْتُ بِرَ‌بِّكُمْ &&Am I not your Lord?|" All the human spirits entered into a covenant by answering|" Yes|" to the question. Most of the people forgot this covenant after they came to earth, and got involved in worshipping false gods instead of worshipping Allah. The verse, therefore, has said that Allah did not find most of the people true to this covenant. (Tafsir Kabir) The respected companion ` Abdullah ibn Masud (رض) عنہما has said that the covenant referred to in this verse is the covenant of &Iman& the Faith as has been indicated in the Holy Qur&an in these words إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّ‌حْمَـٰنِ عَهْدًا |"Except the one who entered into a covenant with Rahman (Allah), the covenant in this verse signifies the covenant of Faith. The verse, therefore, implies that most of the people deviated from their covenant with Allah. We usually note that nearly every individual when he finds himself trapped in some distress, no matter how sinful he is, turns to Allah and often makes a promise in words or in his heart that he will be faithful to Allah and obey Him and avoid disobe¬dience if he is relieved from this calamity. But when they are out of the mess, they indulge in their mundane desires having no regard for their covenant with Allah. The Holy Qur&an has made mention of many of such people. It may be noted that the verse has made exception by saying &most of them& and not &all of them&. It is because there are people who are so perverted that even in their distress they do not turn to Allah, and they do not think of making any promise with Allah, while there are others who fulfill their promise and stay obedient to Him. At the end, the verse has the phrase |"We found most of them sinners.|" That is, most of the people deviate from their covenant of staying obedient to Allah. The above verses have described five events of earlier people so that present people may learn lesson from them and avoid following the course of their forefathers that led them to disaster. Of all the events of early people described in this chapter the next event is of prophet Musa (علیہ السلام) which has been described in some detail in the following verses because his miracles are larger in number and more prominent in their nature. Similarly, his people, the Israelite, were more obstinate and ignorant than other people of the world. In addition, these verses, 103-110 carry some injunctions and points of discussion.

تیسری آیت میں ارشاد فریا وَمَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ یعنی ان میں سے اکثر لوگوں کو ہم نے ایفائے عہد کرنے والا نہ پایا۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ عہد سے مراد عہد الست ہے جو ازل میں تمام مخلوقات کے پیدا کرنے سے پہلے ان سب کی روحوں کو پیدا فرما کرلیا گیا تھا، جس میں حق تعالیٰ نے فرمایا الست بربکم یعنی کیا میں تمہارا پروردگار نہیں، اس وقت تمام ارواح انسانی نے اقرار اور عہد کے طور پر جواب دیا بلی یعنی ضرور آپ ہمارے رب ہیں، دنیا میں آکر اکثر لوگ اس عہد ازل کو بھول گئے خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر مخلوق پرستی کی لعنت میں گرفتار ہوگئے، اس لئے اس آیت میں فرمایا کہ ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں میں عہد نہ پایا، یعنی عہد کی پاسداری اور ایفاء نہ پایا۔ (کبیر) اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ عہد سے مراد عہد ایمان ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا، اس میں عہد سے عہد ایمان وطاعت مراد ہے، تو آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر نے ایمان وطاعت کا عہد ہم سے باندھا تھا پھر اس کی خلاف ورزی کی، عہد باندھنے سے مراد یہ ہے کہ عموما انسان جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس وقت کتنا ہی فاسق فاجر ہو اس کو بھی خدا ہی یاد آتا ہے اور اکثر دل یا زبان سے عہد کرتا ہے کہ اس مصیبت سے نجات مل گئی تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت میں لگ جاؤں گا نافرمانی سے بچوں گا جیسا کہ قرآن کریم میں بہت سے لوگوں کا یہ حال ذکر کیا گیا ہے، لیکن جب ان کو نجات ہوجاتی ہے اور آرام و راحت ملتی ہے تو پھر ہویٰ و ہوس میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اس عہد کو بھول جاتے ہیں۔ آیت مذکورہ میں لفظ اکثَرَ سے اس کی طرف اشارہ بھی پایا جاتا ہے، کیونکہ بہت سے لوگ تو ایسے شقی ہوتے ہیں کہ مصیبت کے وقت بھی انہیں خدا یاد نہیں آتا اور اس وقت بھی وہ ایمان وطاعت کا عہد نہیں کرتے تو ان سے بد عہدی کی شکایت کے کوئی معنی نہیں، اور بہت سے لوگ وہ بھی ہیں جو عہد کو پورا کرتے ہیں، ایمان و اطاعت کے حقوق ادا کرتے ہیں اس لئے فرمایا وَمَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ یعنی ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں میں ایفائے عہد نہ پایا اس کے بعد فرمایا وَاِنْ وَّجَدْنَآ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِيْنَ یعنی ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں کو اطاعت و فرماں برداری سے خارج پایا۔ یہاں تک پچھلے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی قوموں کے پانچ واقعات کا بیان کرکے موجودہ لوگوں کو ان سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے لئے تنبیہات فرمائی گئی ہیں۔ اس کے بعد چھٹا قصہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تفصیل کے ساتھ بیان ہوگا، جس میں واقعات کے ضمن میں سینکڑوں احکام و مسائل اور عبرت و نصیحت کے بیشمار مواقع ہیں، اور اسی لئے قرآن کریم میں اس واقع کے اجزاء بار بار دھرائے گئے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِہِمْ مِّنْ عَہْدٍ۝ ٠ ۚ وَاِنْ وَّجَدْنَآ اَكْثَرَہُمْ لَفٰسِقِيْنَ۝ ١٠٢ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ عهد العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً. قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] ( ع ھ د ) العھد ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔ فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٢) اکثر لوگوں میں ابتداء ہی سے وفائے عہد نہیں دیکھا بلکہ سب کو ہم نے عہد شکن ہی پایا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٢ (وَمَا وَجَدْنَا لِاَکْثَرِہِمْ مِّنْ عَہْدٍ ج) ۔ دُنیا میں جب بھی کوئی قوم ابھری ‘ اپنے رسول کے سہارے ابھری۔ ہر قوم کے علمی و اخلاقی ورثے میں اپنے رسول کی تعلیمات اور وصیتیں بھی موجود رہی ہوں گی۔ ان کے رسول نے ان لوگوں سے کچھ عہد اور میثاق بھی لیے ہوں گے ‘ لیکن ان میں سے اکثر نے کبھی کسی عہد کی پاسداری نہیں کی۔ (وَاِنْ وَّجَدْنَآ اَکْثَرَہُمْ لَفٰسِقِیْنَ ) اب انباء الرسل کے سلسلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر آ رہا ہے۔ اس سے پہلے ایک رسول کا ذکر اوسطاً ایک رکوع میں آیا ہے لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر سات آٹھ رکوعوں پر مشتمل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورتیں ہجرت سے متصلاً قبل نازل ہوئی تھیں اور ہجرت کے فوراً بعد قرآن کی یہ دعوت براہ راست اہل کتاب (یہود مدینہ) تک پہنچنے والی تھی۔ لہٰذا ضروری تھا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) مدینہ پہنچنے سے پہلے یہود سے مکالمہ کرنے کے لیے ذہنی اور علمی طور پر پوری طرح تیار ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے واقعات ان سورتوں میں بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

82. The statement that 'We did not find most of them true to their covenants' signifies the general propensity of people not to honour their commitments. They are neither faithful to the primordial covenant which they made with God (see al-A'raf 7: 172) which is binding on every mortal as God's servant and creature, nor faithful to the collective covenant which is binding on every human being as a member of the human fraternity. Nor are men generally faithful to the commitments which they make to God in hours of distress or in moments when their moral instincts are awake and astir. Violation of any of these covenants has been termed fisq (transgression).

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :82 ”کوئی پاس عہد نہ پایا“ یعنی کسی قسم کے عہد کا پاس بھی نہ پایا ، نہ اس فطری عہد کا پاس جس میں پیدائشی طور پر ہر انسان خدا کا بندہ اور پروردہ ہونے کی حیثیّت سے بندھا ہوا ہے ، نہ اس اجتماعی عہد کا پاس جس میں ہر فرد بشر انسانی برادری کا ایک رکن ہونے کی حیثیّت سے بندھا ہوا ہے ، اور نہ اس ذاتی عہد کا پاس جو آدمی اپنی مصیبت اور پریشانی کے لمحوں میں یا کسی جذبہ خیر کے موقع پر خدا سے بطور خود باندھا کرتا ہے ۔ انہی تینوں عہدوں کے توڑنے کو یہاں فسق قرار دیا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:102) فما وجدنا ۔۔ من عھد۔ اور ہم نے ان سے اکثر کو عہد کا پابند نہ پایا۔ ما نافیہ ہے۔ ان مخففہ ہے ان سے۔ انا وجدنا ضرور پایا ہم نے۔ فاسقین۔ حکم عدولی کرنے والے۔ نافرمانی کرنے والے۔ حدود شریعت سے نکل جانے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 من عھد ( کوئی بھی اقرار) کا لفظ نکرہ استعمل ہوا ہے اس لیے اس سے مراد ہر قسم کا اقرار ہے چا ہے وہ فطری ہو یا شرعی یا عرفی4 نافرمان یعنی کسی قرار کا پاس نہ کرنے والے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کے دلوں پر مہر ثبت ہونے اور ان کی ہلاکت کا سبب، اللہ کے ساتھ ان کی عہد شکنی تھی۔ کفار کی ہلاکت اور ان کی گمراہی کا سبب بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہوا کہ ہم نے ان کی اکثریت کو نافرمان اور بد عہد پایا تھا۔ عہد سے مراد وہ ازلی عہد ہے جو روز آفرینش اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان سے لیا تھا کہ کیا میں تمہارا رب ہوں یا نہیں ؟ جس کی تفسیر اسی سورة کی آیت ١٧٢ میں بیان کی جائے گی انشاء اللہ عہد سے مراد وہ اقرار اور عہد ہے جو آدمی ایمان لاتے ہوئے کلمۂ شہادت کے الفاظ میں اقرار کرتا ہے۔ جس کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ کلمہ پڑھنے والا اقرار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا میرا کوئی خالق، مالک اور معبود نہیں، محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے رہنما اور مقتدا ہیں، میں انھی کی اتباع میں زندگی بسر کروں گا۔ اس عہد کے تحت وہ عہد و اقرار بھی شامل ہیں جو ہم ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں یہ تین قسم کے عہد و اقرار ہیں جن پر پورا اترنا انسان کی ذمہ داری ہے اگر کوئی جان بوجھ کر عہد شکنی کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے باز پرس ہوگی۔ یہاں انسانوں کی اکثریت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے ان کو عہد شکن اور نافرمان ہی پایا ہے۔ جو لوگ جمہوریت کو حق و باطل، صحیح اور غلط کا معیار قرار دیتے ہیں۔ انھیں اس اصول پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ کیونکہ حق و باطل، غلط اور صحیح کا معیار لوگوں کی اکثریت نہیں بلکہ اس کا معیار مسلمہ اقدار اور قرآن و سنت کے اصول ہیں۔ لوگوں کی اکثریت تو لکیر کی فقیر ہوا کرتی ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَّا قَالَ لَا إِیمَانَ لِمَنْ لاَّ أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دینَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ )[ رواہ أحمد ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہر خطبے میں یہ فرماتے جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو عہد کی پاسداری نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔ “ مسائل ١۔ لوگوں کی اکثریت گمراہ اور فاسق ہوا کرتی ہے۔ ٢۔ گمراہوں کا انجام آخرت میں بد ترین ہوگا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں جس عہد کا ذکر ہے وہ فطرت انسانی کا عہد بھی ہوسکتا ہے جس کا ذکر اس سورة کے آخر میں ہوا ہے (واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظہورہم ذریتہم واشہدہم علی انفسہم الست بربکم قالوا بلی شہدنا) " اے نبی لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی ادم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا : " کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ " انہوں نے کہا : " ضرور آپ ہمارے رب ہیں۔ " ہم اس پر گواہی دیتے ہیں "۔ اس عہد سے وہ عہد بھی مراد ہوسکتا ہے جو ان لوگوں کے اسلاف نے اپنے رسولوں سے کیا تھا کہ وہ ایمان لائیں گے مگر بعد میں آنے والے لوگ اس سے منحرف ہوگئے جیسا کہ ہر جاہلیت میں یہی ہوتا رہا ہے کہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اہل ایمان جاہلیت کی طرف بڑھتے رہتے ہیں اور آخر کار پوری طرح جاہلیت میں داخل ہوجاتے ہیں۔ بہرحال عہد سے مراد جو بھی ہو ، لیکن ہلاک ہونے والوں کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ کسی عہد و پیمان کے پابند نہ تھے ، نہ وہ کسی بات پر قائم رہتے تھے۔ یہ لوگ اپنی ذاتی خواہشات کے ساتھ بدلتے رہتے تھے۔ ان کا مزاج بھی ایسا ہوگیا تھا کہ وہ اپنی بات پر جمتے نہ تھے اور نہ سچا طرز عمل اختیار کرتے تھے۔ بلکہ اکثر کو فاسق پایا گیا یعنی اپنے دین سے منحرف پایا گیا۔ اور یہ اس لئے کہ وہ ہر وقت بدلتے رہتے تھے اور کسی عہد کا پاس نہ رکھتے تھے بلکہ وہ اغراض کے بندے ہوگئے تھے جو قوم اللہ کے ساتھ اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی اور اپنے دین اور راہ ہدایت پر قائم نہیں رہتی اور اللہ سے ہدایت اخذ نہیں کرتی تو ظاہر ہے کہ ایسی قوم تتر بتر ہوجاتی ہے۔ راہ حق سے منحرف ہوجاتی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ فاسق بن جاتی ہے چناچہ ان بستیوں والوں کی یہی حالت ہوگئی تھی اس لئے ان کا یہ انجام ہوا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ مَا وَجَدْنَا لِاَکْثَرِھِمْ مِّنْ عَھْدٍ ) (اور ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں میں عہد کا پورا کرنا نہ پایا) انسان کا یہ عجیب مزاج ہے کہ جب مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ کو یاد کرتا ہے اور بہت پکا مشرک بھی اپنے باطل معبودوں کو بھول جاتا ہے اور یہ وعدے کرنے لگتا ہے کہ یہ مصیبت دور ہوگئی تو ایمان قبول کرلوں گا اور شرک سے پرہیز کروں گا لیکن مصیبت دور کرنے کے بعد وہ اپنے عہد کو بھول جاتا ہے اور پھر شرک اور کفر پر ہی جما رہتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم نے ان میں سے اکثر میں عہد کی پاسداری نہیں پائی۔ پھر فرمایا (وَ اِنْ وَّجَدْنَآ اَکْثَرَھُمْ لَفٰسِقِیْنَ ) (اور بیشک ہم نے ان میں سے اکثر کو فاسق پایا) جو اطاعت و فرمانبر داری سے دور ہی رہے۔ لفظ ” اکثر “ سے معلوم ہوا کہ بعض لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے ایمان قبول کیا اور اپنے عہد کو پورا کیا۔ عہد کو پورا نہ کرنا اور بار بار توڑ دینا، اس کا کچھ بیان فرعون اور اس کی قوم کی بد عہدیوں کے ذیل میں دو رکوع کے بعد مذکور ہے۔ وَ ھو قولہ تعالیٰ (لَءِنْ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ اِلٰی قولہ اِذَا ھُمْ یَنْکُثُوْنَ ) جو لوگ مصیبتوں کو اللہ کی طرف سے سمجھتے ہی نہیں بلکہ یوں کہتے ہیں کہ دنیا میں ایسا ہی ہوتا رہتا ہے ہمارے باپ دادا بھی تکلیفوں میں مبتلا رہے ہیں۔ ان کا بیان اس رکوع سے پہلے رکوع میں تھا۔ یہ لوگ اللہ کی طرف سے مصائب کو سمجھتے تو وعدے کرتے، اس رکوع میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو مصائب کے وقت وعدے کرتے ہیں پھر مصیبت ٹل جانے کے بعد وعدہ فراموش ہوجاتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

106: حضرت حسن فرماتے ہیں عہد سے عہد توحید مراد ہے جو امم سابقہ سے انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعے لیا گیا۔ العہد الذی عہد الیھم مع الانبیاء (علیہم السلام) ان یعبدوہ ولا یشرکوا بہ شیئا (قرطبی ج 7 ص 255) ۔ یعنی ان میں اکثر بد عہد ثابت ہوئے اور انہوں نے توحید کو چھوڑ کر شرک اختیار کرلیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

102 اور ہم نے ان منکرین کو اکثر وفائے عہد کا پابند نہ پایا اور عہد کا پورا نہ پایا اور ہم نے تو ان میں سے اکثر کو بےحکم اور نافرمان ہی پایا یعنی جب ان پر کوئی بلائے ناگہانی آجاتی ہے تو یہ لوگ اس وقت اطاعت و فرماں برداری کا عہد کرلیتے ہیں اور پھر ان میں کے اکثر اس عہد کو توڑ دیتے ہیں ہوسکتا ہے کہ عہد الست کا مراد ہو اگر وہ عہد مراد ہو تب بھی اکثریت نے اس عہد کو توڑا ہے۔ بہرحال عہد کو پورا کرنے والی سعید روحیں بہت کم ہیں۔