Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 103

سورة الأعراف

ثُمَّ بَعَثۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ مُّوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ فَظَلَمُوۡا بِہَا ۚ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۱۰۳﴾

Then We sent after them Moses with Our signs to Pharaoh and his establishment, but they were unjust toward them. So see how was the end of the corrupters.

پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو اپنے دلائل دے کر فرعون اور اس کے امرا کے پاس بھیجا ، مگر ان لوگوں نے ان کا بالکل حق ادا نہ کیا ۔ سو دیکھئے ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Story of Prophet Musa, upon him be Peace, and Fir`awn Allah said, ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم ... Then after them We sent, after the Messengers whom We mentioned, such as Nuh, Hud, Salih Lut and Shu`ayb (may Allah's peace and blessings be on them and the rest of Allah's Prophets), We sent, ... مُّوسَى بِأيَاتِنَا ... Musa with Our signs, proofs and clear evidences, ... إِلَى فِرْعَوْنَ ... to Fir`awn, who was ruler of Egypt during the time of Musa, ... وَمَلَيِهِ ... and his chiefs, the people of Fir`awn, ... فَظَلَمُواْ بِهَا ... but they wrongfully rejected them, they denied and disbelieved in the signs, out of injustice and stubbornness on their part. Allah said about them in another Ayah, وَجَحَدُواْ بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَأ أَنفُسُهُمْ ظُلْماً وَعُلُوّاً فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَـقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ And they belied them (those Ayat) wrongfully and arrogantly, though they were themselves convinced thereof. So see what was the end of the evildoers. (27:14) The Ayah says, `those who hindered from the path of Allah and belied in His Messengers, look how We punished them, We caused them to drown, all of them, while Musa and his people were watching.' Public drowning added disgrace to the punishment that Fir`awn and his people suffered, while adding comfort to the hearts of Allah's party, Musa and those people who believed in him. ... فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ So see how was the end of the mischief-makers!

نابکار لوگوں کا تذکرہ ۔ انبیاء اور مومنین پر نظر کرم جن رسولون کا ذکر گذر چکا ہے یعنی نوح ، ہود ، صالح ، لوط ، شعیب صلوات اللہ و سلامہ علیھم وعلی سائر الانبیاء اجمعین کے بعد ہم نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کو اپنی دلیلیں عطا فرما کر بادشاہ مصر ( فرعون ) اور اس کی قوم کی طرف بھیجا ۔ لیکن انہوں نے بھی جھٹلایا اور ظلم و زیادتی کی اور صاف انکار کر دیا حالانکہ ان کے دلوں میں یقین گھر کر چکا تھا ۔ اب آپ دیکھ لو کہ اللہ کی راہ سے رکنے والوں اور اس کے رسولوں کا انکار کرنے والوں کا کیا انجام ہوا ؟ وہ مع اپنی قوم کے ڈبو دیئے گئے اور پھر لطف یہ ہے کہ مومنوں کے سامنے بےکسی کی پکڑ میں پکڑ لئے گئے تاکہ ان کے دل ٹھنڈے ہوں اور عبرت ہو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

103۔ 1 یہاں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر شروع ہو رہا ہے جو مذکورہ انبیاء کے بعد آئے جو جلیل القدر پیغمبر تھے، جنہیں فرعون مصر اور اس کی قوم کی طرف دلائل و معجزات دے کر بھیجا تھا۔ 103۔ 2 یعنی انہیں غرق کردیا گیا، جیسا کہ آگے آئے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٨] یعنی مذکورہ پانچ معروف پیغمبروں کے حالات بیان کرنے کے بعد پھر وہی سلسلہ شروع ہو رہا ہے اور اس کا آغاز سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے تفصیلی حالات سے ہو رہا ہے۔ درمیان میں انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت اور منکرین دعوت کے انجام کے درمیانی مراحل اور ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ کا ذکر کیا گیا جو ان سب انبیاء (علیہم السلام) کے حالات میں قدر مشترک کے طور پر پائی جاتی ہے۔ [١٠٩] اللہ کی آیات سے فرعون کی ناانصافی :۔ ناانصافی کی بات یہ تھی کہ انہوں نے ان معجزات کو جادو کے کرشمے کہہ دیا۔ اور یہ ناانصافی ویسی ہی تھی جیسے قریش مکہ نے قرآن سن کر یہ کہہ دیا تھا کہ یہ تو کسی دوسرے آدمی کی تصنیف ہے اور اس جیسا کلام ہم بھی پیش کرسکتے ہیں پھر جب انہیں قرآن نے اس بات کا باقاعدہ طور پر چیلنج کردیا تو اپنی سر توڑ کوششوں کے باوجود ان کے فصیح وبلیغ ادیبوں سے کچھ بھی بن سر نہ آیا بالکل اسی طرح فرعون اور اس کے درباریوں نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو جادو کے کرشمے سمجھ کر اپنے ملک کے بلند پایہ جادوگروں کو آپ سے مقابلے کے لیے لاکھڑا کیا۔ پھر جب ان جادوگروں نے عصائے موسیٰ کی کیفیت دیکھی تو برملا اعتراف کرلیا کہ یہ جادو سے بالاتر کوئی چیز ہے اگر یہ جادو ہوتا تو ناممکن تھا کہ وہ ہماری دسترس سے باہر ہوتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ : وہ سب کے سب غرق کردیے گئے اور ان کی ساری شان و شوکت خاک میں ملا دی گئی۔ یہ چھٹا قصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں بیان فرمایا ہے اور اسے جس تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے دوسرے کسی قصے کو اس طرح بیان نہیں فرمایا۔ وجہ یہ ہے کہ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات ان تمام انبیاء سے بڑھ کر تھے اسی طرح ان کی امت بھی جہالت اور سرکشی میں سب سے بڑھی ہوئی تھی۔ البتہ یہاں ان کی زندگی کے ابتدائی حالات کے بجائے دوسرے انبیاء کی طرح دعوت کے آغاز سے بات شروع فرمائی۔ بعض علماء نے فرمایا، اس آیت میں موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجنے کا ذکر فرمایا ہے، فرعون اور اس کی قوم کا ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ سارا اختیار فرعون کے ہاتھ میں تھا، اگر وہ ایمان لے آتا تو اس کی قوم بھی ایمان لے آتی اور اس جبر و قہر میں اس کے سردار اس کے معاون تھے۔ اس ظالم نے بنی اسرائیل کے علاوہ اپنی قوم کو بھی اتنا بےوقعت بنادیا تھا کہ ان کے پاس فرعون کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہا تھا۔ دیکھیے سورة زخرف (٥٨) گویا اس کی اپنی قوم بھی اس کے ہاتھوں مظلوم تھی مگر بنی اسرائیل پر ظلم تو انھیں غلام بنا کر رکھنے، ملک سے نکلنے کی ممانعت اور ان کی اولاد کے قتل کی حد تک پہنچ چکا تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The verse 103, has said that after the prophets Nuh, Hud, Salih, Lut and Shu&aib (علیہ السلام) ، We sent Musa with Our signs towards Pharaoh and his people. The &signs& may refer to the verses of the Torah or to the miracles of the prophet Musa (علیہم السلام) . The word Pharaoh was the title of Egyptian kings. The Pharaoh of Musa&s time is said to be Mernephtah. The phrase فَظَلَمُوا بِهَا &&they did injustice to them (signs) |" here means that they showed indifference to the verses of Allah, instead of being grateful to Him and having faith in them they rejected His verses. The word ظلم rendered as wrong or injustice, in fact, signi¬fies the use of something for a purpose opposite to what it was created for. Further it said فَانظُرْ‌ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ |"So look how was the fate of mischief-makers.|" Again the people are invited to take lesson from these events and think of their own fate.

خلاصہ تفسیر پھر ان (مذکور پیغمبروں) کے بعد ہم نے (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے دلائل (یعنی معجزات) دے کر فرعون کے اور اس کے امراء کے پاس (ان کی ہدایت و تبلیع کے لئے) بھیجا سو (جب موسیٰ (علیہ السلام) نے وہ دلائل ظاہر کئے تو) ان لوگوں نے ان (معجزات) کا بالکل حق ادا نہ کیا (کیونکہ ان کا حق اور مقتضا یہ تھا کہ ایمان لے آتے) سو دیکھئے ان مفسدوں کا کیا (برا) انجام ہوا (جیسا اور جگہ ان کا غرق اور ہلاک ہونا مذکور ہے۔ یہ تو تمام قصہ کا اجمال تھا آگے تفصیل ہے یعنی) اور ( موسیٰ (علیہ السلام) نے (فرعون کے پاس بحکم الہی جاکر) فرمایا کہ میں رب العالمین کی طرف سے (تم لوگوں کی ہدایت کے واسطے) پیغمبر (مقرر ہوا) ہوں (جو مجھ کو کاذب بتلائے اس کی غلطی ہے کیونکہ) میرے لئے یہی شایان ہے کہ بجز سچ کے خدا کی طرف کوئی بات منسوب نہ کروں (اور میں رسالت کا خالی دعوی ہی نہیں کرتا بلکہ) میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل (یعنی معجزہ) بھی لایا ہوں (جو طلب کے وقت دکھلا سکتا ہوں) سو (جب میں رسول مع الدلیل ہوں تو میں جو کہوں اس کی اطاعت کر۔ چناچہ منجملہ ان امور کے ایک یہ کہتا ہوں کہ) تو بنی اسرائیل کو (اپنی بیگار سے خلاصی دے کر) میرے ساتھ (ملک شام کو جو ان کا اصلی وطن ہے) بھیج دے فرعون نے کہا کہ اگر آپ (من جانب اللہ) کوئی معجزہ لے کر آئے ہیں تو اس کو اب پیش کیجئے اگر آپ (اس دعوی میں) سچے ہیں، بس آپ نے (فورا) اپنا عصا (زمین پر) ڈال دیا سو دفعة وہ صاف ایک اژدھا بن گیا (جس کے اژدھا ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوسکتا تھا) اور ( دوسرا معجزہ یہ ظاہر کیا کہ) اپنا ہاتھ (گریبان کے اندر بغل میں دباکر) باہر نکال لیا سو وہ یکایک سب دیکھنے والوں کے روبرو بہت ہی چمکتا ہوا ہوگیا (کہ اس کو بھی سب نے دیکھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جو یہ معجزات عظیمہ ظاہر ہوئے تو فرعون نے اہل دربار سے کہا کہ یہ شخص بڑا جادوگر ہے اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو سے تم لوگوں پر غالب آکر یہاں کا رئیس ہوجائے اور تم کو یہاں آباد نہ رہنے دے سو اس بارے میں تمہارا کیا مشورہ ہے۔ چناچہ سورة شعراء میں یہ قول فرعون کا منقول ہے اس کو سن کر جیسا کہ مصاحبین سلاطین کی عادت ان کی ہاں میں ہاں ملانے کی ہوتی ہے فرعون کے قول کی تصدیق و موافقت کے لئے) قوم فرعون میں جو سردار (اور اہل دربار) لوگ تھے انہوں نے (ایک دوسرے سے) کہا کہ واقعی (جیسا ہمارے بادشاہ کہتے ہیں کہ) یہ شخص بڑا جادوگر ہے (ضرور) یہ (ہی) چاہتا ہے کہ (اپنے جادو کے زور سے خود مع بنی اسرائیل کے رئیس ہوجائے اور) تم کو (بوجہ اس کے کہ بنی اسرائیل کی نظر میں خار ہو) تمہاری (اس) سر زمین سے باہر کر دے سو تم لوگ (جیسا کہ بادشاہ دریافت کررہے ہیں) کیا مشورہ دیتے ہو۔ معارف و مسائل اس سورت میں جتنے قصص اور واقعات انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں کے ذکر کئے گئے ہیں یہ ان میں سے چھٹا قصہ ہے، اس کو زیادہ تشریح و تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کا سبب یہ بھی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات بہ نسبت دوسرے انبیاء سابقین کی تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور قوت ظہور میں بھی۔ اسی طرح اس کے بالمقابل ان کی قوم بنی اسرائیل کی جہالت اور ہٹ دھرمی بھی پچھلی امتوں کے مقابلہ میں زیادہ اشد ہے اور یہ بھی ہے کہ اس قصہ کے ضمن میں بہت سے معارف و مسائل اور احکام بھی آئے ہیں۔ پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ ان کے بعد یعنی نوح اور ہود اور لوط اور شعیب (علیہم السلام) کے یا ان کی قوموں کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی آیات دے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ آیت سے مراد تورات کی آیات بھی ہوسکتی ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات بھی۔ اور فرعون اس زمانہ میں ہر باشاہ مصر کا لقب ہوتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کے فرعون کا نام قابوس بیان کیا جاتا ہے (قرطبی) فَظَلَمُوا بِھَا کی ضمیر مجرور آیات کی طرف راجع ہے، یعنی یہ ہیں کہ ان لوگوں نے ہماری آیات پر ظلم کیا، اور آیات الہی پر ظلم کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان لوگوں نے آیات الہی کی قدر نہ پہچانی، ان پر شکر کے بجائے ناشکری، اقرار کے بجائے انکار، ایمان کے بجائے کفر اختیار کیا۔ کیونکہ ظلم کے اصلی معنی ہی یہ ہیں کہ کسی چیز کو اس کے محل اور موقع کے خلاف استعمال کرنا۔ پھر فرمایا فانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ ، یعنی دیکھو تو سہی کہ پھر ان فساد کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔ مراد یہ ہے کہ ان کے حالات اور انجام بد پر غور کرو اور عبرت حاصل کرو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِہِمْ مُّوْسٰي بِاٰيٰتِنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہٖ فَظَلَمُوْا بِہَا۝ ٠ ۚ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِيْنَ۝ ١٠٣ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا پس بعث دو قمخ پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ ملأ المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] ( م ل ء ) الملاء ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٣۔ ١٠٤۔ ١٠٥) ان رسولوں کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نو معجزات دے کر بھیجا گیا، انہوں نے (یعنی بنی اسرائیل نے) معجزات کا انکار کیا تو ان مفسدوں کا انجام ہلاکت وتباہی ہوا فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا، میرے لیے یہی شایان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بغیر سچ کے اور کچھ منسوب نہ کروں، بنی اسرائیل کو بمع تمام مال کے میرے ساتھ بھیج دے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٣ (ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْم بَعْدِہِمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَاءِہٖ ) اب تک جن پانچ قوموں کا ذکر ہوا ہے وہ جزیرہ نمائے عرب ہی کے مختلف علاقوں میں بستی تھیں ‘ لیکن اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے بنی اسرائیل کا ذکر ہوگا جو مصر کے باسی تھے۔ مصر بر اعظم افریقہ کے شمال مشرقی کونے میں واقع ہے۔ اس قصے میں صحرائے سینا کا بھی ذکر آئے گا ‘ جو مثلث شکل میں ایک جزیرہ نما (Sinai Peninsula) ہے ‘ جو مصر اور فلسطین کے درمیان واقع ہے۔ مصر میں اس وقت فراعنہ ( فرعون کی جمع) کی حکومت تھی۔ جس طرح عراق کے قدیم بادشاہ نمرود کہلاتے تھے اسی طرح مصر میں اس دور کے بادشاہ کو فرعون کہا جاتا تھا۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو براہ راست اپنے وقت کے بادشاہ (فرعون) کے پاس بھیجا گیا تھا۔ (فَظَلَمُوْا بِہَاج فانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ ) یعنی ہماری نشانیوں کا انکار کر کے ان کی حق تلفی کی اور انہیں جادوگری قرار دے کر ٹالنے کی کوشش کی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

83. The stories narrated in the Qur'an bring home unmistakenly the point that people who reject God's Message are not spared; rather they are destroyed. In narrating at length the story of Moses, Pharaoh and the Israelites, the Qur'an provides some important lessons for the unbelieving Quraysh, the Jews, and also the believers. The Quraysh are advised that the apparently large differences in the numerical strength of the forces of truth and falsehood in the early phase of the Islamic movement should not lead them to entertain any, kind of illusion. History, provides ample testimony that the Message of truth has always had a very humble beginning. That its proponent, initially, is in the hopelessly small minority of one; in fact, one in the whole world. He then proceeds, despite his resource lessness, to challenge the hegemony of falsehood, to declare war against it, despite the fact that falsehood is backed by powerful states and empires. And ultimately the truth triumphs. The Quraysh are also reminded that all conspiracies hatched against the Prophets and all the means employed to suppress the Message of truth are ultimately foiled. They are further told that God grants long terms of respite to the evil-doing nations so that they might mend their ways and reform themselves. But when they persistently disregard all warnings and learn no lesson from instructive events, He smites them with an exemplary punishment. Some further lessons are meant to be conveyed to those who believed in the Prophet (peace be on him). First, that they should not feel disheartened by the paucity of resources, nor be overawed by the impressive numerical strength, pomp and grandeur of their enemies. Nor should they lose heart if they find that God's help does not come at the expected hour. Second, that those who follow in the footsteps of the Jews are bound, ultimately, to be seized by the same curse which afflicted the Jews. As for the Israelites, they are warned against the evil effects of clinging to falsehood. Illustrations of this were provided by important events in their own history. They are also asked to purge the Message of the earlier Prophets of all accretions and distortions and to restore it to its original purity. 84. 'They dealt with Our signs unjustly' refers to their rejection of God's signs and to the fact that they dismissed them as sheer sorcery. If a person scoffs at a beautiful couplet, and dubs it as amateurish rhyming, this amounts to committing an offence against poetry itself. Likewise, to brand those extraordinary acts of God as sorcery and magic - even though magicians declared that those acts were beyond their ability - constitutes a serious offence not only against God's signs but also against common sense and truth.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :83 اوپر جو قصے بیان ہوئے ان سے مقصود یہ ذہن نشین کرانا تھا کہ جو قوم خدا کا پیغام پانے کے بعد اسے رد کر دیتی ہے اسے پھر ہلاک کیے بغیر نہیں چھوڑا جاتا ۔ اس کے بعد اب موسی و فرعون اور بنی اسرائیل کا قصہ کئی رکوعوں تک مسلسل چلتا ہے جس میں اس مضمون کے علاوہ چند اور اہم سبق بھی کفار قریش ، یہود اور ایمان لانے والے گروہ کر دیے گئے ہیں ۔ کفار قریش کو اس قصے کے پیرائے میں یہ سمجھا نے کی کوشش کی گئی ہے کہ دعوت حق کے ابتدائی مرحلوں میں حق اور باطل کی قوتوں کا جو تناسب بظاہر نظر آتا ہے ، اس سے دھوکا نہ کھاناچاہیے ۔ حق کی تو پوری تاریخ ہی اس بات پر گواہ ہے کہ وہ ایک فی قوم بلکہ ایک فی دنیا کی اقلیت سے شروع ہوتا ہے اور بغیر کسی سروسامان کے اس باطل کےخلاف لڑائی چھیڑ دیتا ہے جس کی پشت پر بڑی بڑی قوموں اور سلطنتوں کی طاقت ہوتی ہے ، پھر بھی آخر کار وہی غالب آکر رہتا ہے ۔ نیز اس قصے میں ان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ داعی حق کے مقابلہ میں جو چالیں چلی جاتی ہیں اور جن تدبیروں سے اس کی دعوت کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ کس طرح اُلٹی پڑتی ہیں ۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ منکریں حق کی ہلاکت کا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے ان کو کتنی کتنی طویل مدّت تک سنبھلنے اور درست ہونے کے مواقع دیتا چلا جاتا ہے اور جب کسی تنبیہ کسی سبق آموز واقعے اور کسی روشن نشانی سے بھی وہ اثر نہیں لیتے تو پھر وہ انہیں کیسی عبرتناک سزا دیتا ہے ۔ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے ان کو اس قصے میں دوہرا سبق دیا گیا ہے ۔ پہلا سبق اس بات کا کہ اپنی قلت و کمزوری کو اور مخالفین حق کی کثرت و شوکت کو دیکھ کر ان کی ہمت نہ ٹوٹے اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوتے دیکھ کر وہ دل شکستہ نہ ہوں ۔ دوسرا سبق اس بات کا کہ ایمان لانے کے بعد جو گروہ یہودیوں کی سی روش اختیار کرتا ہے وہ پھر یہودیوں ہی کی طرح خدا کی لعنت میں گرفتار بھی ہوتا ہے ۔ بنی اسرائیل کے سامنے ان کی عبرتناک تاریخ پیش کرکے انہیں باطل پرستی کے برے نتائج پر متنبہ کیا گیا ہے اور اس پیغمبر پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے جو پچھلے پیغمبروں کے لائے ہوئے دین کو تمام آمیزشوں سے پاک کر کے پھر اس کی اصلی صورت میں پیش کر رہا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :84 نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا ، یعنی ان کو نہ مانا اور انہیں جادو گری قرار دے کر ٹالنے کی کوشش کی ۔ جس طرح کسی ایسے شعر کو جو شعریت کا مکمل نمونہ ہو : تک بندی سے تعبیر کرنا اور اس کا مذاق اڑانا نہ صرف اس شعر کے ساتھ بلکہ نفس شاعری اور ذوق شعری کے ساتھ بھی ظلم ہے ، اسی طرح وہ نشانیاں جو خود اپنے من جانب اللہ ہونے پر صریح گواہی دے رہی ہوں اور جن کے متعلق کوئی صاحب عقل آدمی یہ گمان تک نہ کر سکتا ہو کہ سحر کے زور سے بھی ایسی نشانیاں ظاہر ہو سکتی ہیں ، بلکہ جن کے متعلق خود فن سحر کے ماہرین نے شہادت دے دی ہو کہ وہ ان کے فن کی دسترس سے بالا تر ہیں ، ان کو سحر قرار دینا نہ صرف ان نشانیوں کے ساتھ بلکہ عقل سلیم اور صداقت کے ساتھ بھی ظلم عظیم ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

52:: یہاں سے آیت نمبر : ١٦٢ تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعے کے کچھ اہم حصے تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں، اس سورت میں فرعون کے ساتھ آپ کی گفتگو اور مقابلے اور اس کے غرق ہونے کی تفصیل، نیز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا ہونے کے واقعات آرہے ہیں، آپ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی چوتھی پشت میں آتے ہیں، سورۂ یوسف میں قرآن کریم نے بتایا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) جب مصر کے وزیر خزانہ بن گئے توانہوں نے اپنے والدین اور بھائیوں کو فلسطین سے مصر بلالیا تھا، اسرائیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی ساری اولاد جو بنو اسرائیل کہلاتی ہے پھر وہیں آباد ہوگئی تھی، اور مصر کے بادشاہ نے ان کو شہری آبادی سے الگ ایک علاقہ دے دیا تھا، مصر کے ہر بادشاہ کو فرعون کہا جاتا تھا، حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وفات کے بعد رفتہ رفتہ مصر کے بادشاہوں نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام سمجھنا شروع کردیا اور دوسری طرف تکبر میں آکر انہی میں کا ایک فرعون (جس کا نام جدید تحقیق کے مطابق منفتاح تھا) خدائی کا دعوے دار بن بیٹھا، ان حالات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغمبر بناکر اس کے پاس بھیجا گیا، ان کے پیدائش، مدین کی طرف ہجرت، اور پھر نبوت عطا ہونے کے واقعات توانشاء اللہ سورۃ طہ (سورہ نمبر : ٢٠) اور سورۃ قصص (سورہ نمبر : ٢٨) میں آئیں گے، اس کے علاوہ مزید ٣٥ سورتوں میں آپ کے واقعات کے مختلف حصے بیان فرمائے ہیں ؛ لیکن فرعون کے ساتھ ان کے جو واقعات پیش آئے ان کا تدکرہ یہاں ہورہا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(103 ۔ 126) ۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ( علیہ السلام) اور ہود ( علیہ السلام) اور صالح ( علیہ السلام) اور لوط ( علیہ السلام) اور شعیب ( علیہ السلام) کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں حضرت موسیٰ اور ان کے معجزوں کا ذکر فرمایا ہے معجزہ ایک ایسی عادت سے باہر عاجز کرنے والی چیز کو کہتے ہیں جس کا ظہور بدوں تائید غیبی کے نہ ہو سکے اور خلقت اس جیسی چیز کے ظاہر کردینے سے عاجز ہو معجزہ اور جادو میں یہ فرق ہے کہ معجزہ میں عادت سے باہر جو چیز خدا تعالیٰ انبیاء کی تصدیق کے طور پر پیدا کرتا ہے وہ اصلی چیز ہوتی ہے مثلا حضرت صالح کے معجزہ سے جو اونٹنی پتھر میں سے پیدا ہوئی وہ دراصل اونٹنی ہی تھی لوگوں نے مدت تک اس کا دودھ پیا اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) جو مردہ کو زندہ کرتے تھے وہ درحقیقت وہی مردہ شخص ہوتا تھا اور حضرت کی انگلیوں سے جو پانی کا چشمہ بہا وہ دراصل پانی ہی تھا لوگوں نے پیا اور ان کی پیاس بجھی۔ جادو میں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی غریب جادوگر ٹھیکریوں کے روپے بناوے تو درحقیقت وہ روپے ہوجاویں ایسا ہوتا تو کوئی جادوگر دنیا میں تنگ حال کیوں نظر آتا اور یہ جادوگر محتاجوں کی طرح فرعون سے اپنے جادو کے کام کا مزدوری کیوں مانگتے جادور کی اصل اتنی ہی ہے کہ لوگوں کے دیکھنے میں جادو کے اثر سے ٹھیکریاں روپے نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ ٹھیکریاں ہی رہتی ہیں۔ جس طرح حضرت نوح ( علیہ السلام) کے معجزے سے چند آدمیوں کے سوا ساری دنیا طوفان سے ہلاک ہوگئی حضرت ہود ( علیہ السلام) کے معجزہ سے آندھی نے اور حضرت صالح ( علیہ السلام) کے معجزہ سے زلزلہ نے اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے معجزہ سے سنگ باری نے شہر کے شہر غارت کردئے یہ اثر اور زور جادو میں ہوتا تو بادشاہاں زمانہ کی فوج کو ہلاک کر کے بہت سے جادوگر شہنشاہ بن جاتے غرض کئی سو اونٹوں پر اپنی لکڑیاں اور سامان لاد کر فرعون کے وقت کے جادو گر جو لائے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ کی ایک لکڑی نے ان کا سب جادو درہم برہم کردیا اور یہ بھی انہوں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ کی لکڑی کا اثر جادونما ہوتا تو وہ کئی سو اونٹ کے بوجھ کی اصل لکڑیاں اور رسیاں تو آخر باقی رہ جائیں جب ان سب کو اس لکڑی نے نگل لیا تو یہ جادو کے اثر سے بڑھ کر ایک چیز ہے اس لئے فورا وہ سب جادوگر ایسے پکے مسلمان ہوگئے کہ پھر فرعون کے ڈرانے سے بھی نہ ڈرے یہ بھی ایک حکمت الہی ہے کہ اس وقت کی قوم میں جس چیز کا کمال مشہور تھا نبی وقت کو اسی قسم کا معجزہ دے کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا تاکہ نبی کی نبوت کا لوگوں کو جلدی یقین ہوجائے مثلا فرعون کے زمانہ میں جادو کا بڑا زور تھا جادو سیکھنے کی جاگیریں لوگوں کو فرعون دیتا تھا یہ وہی جاگیردار جادوگر تھے جن کو دیہات سے فرعون نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے مقابلہ کے لئے بلوایا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو اسی قسم کا معجزہ دیا حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانہ میں یونانی طب کا بڑا زور تھا اس لئے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو کوڑھی۔ مادرزا داندھے کے اچھا کرنے مردے کے جلانے کا معجزہ دیا جس سے حکیم عاجز ہوگئے حضرت کے وقت میں فصاحت وبلاغت عرب کا بڑا زور تھا اس لئے قرآن شریف میں وہی معجزہ رکھا گیا پہلے اہل عرب سے کہا گیا کہ دس سورتیں قرآن شریف کی فصاحت اور بلاغت کے موافق بناؤ جب دس سورتوں سے وہ عاجز ہوگئے تو ایک ہی سورة کے بنانے کو کہا گیا تھا آخرعاجز ہوگئے اور کچھ نہ بن سکا حاصل کلام یہ ہے کہ ان آیتوں کی شروع میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نبی ہونے کا اور ان کو معجزات کے دئے جانے کا ذکر ہے اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون سے مناظرہ ہو کر اس مناظرہ میں فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معجزہ کا جو طلب گار ہوا ہے اس کا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کے اژدہا بن جانے کا اور یدبیضا کا معجزہ جب فرعون کو دکھایا اور اس نے اس کو جادو بتلایا اس کا پھر جادوگروں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ کا اور جادوگروں کا مقابلہ سے عاجز ہو کر شریعت موسوی کے تابع ہوجانے کا یہ سب ذکر ان آیتوں میں مختصر طور پر ہے سورة طہ اور سورة شعراء میں اس قصہ کی تفصیل زیادہ آوے گی۔ سورة بقر میں گذر چکا ہے کہ اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اور بنی اسرائیل ان کی اولاد کو کہتے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ سے چار سو برس پہلے اولاد یعقوب میں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وفات کے بعد بنی اسرائیل مصر میں ذلیل حالت سے رہتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ کا حکم حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو یہ تھا کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) مصر سے بنی اسرائیل کو نکال کر ان کے قدیمی وطن نیک شام میں انہیں آباد کریں اسی واسطے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جہاں فرعون سے اور باتیں کیں وہاں یہ بھی فرمایا فارسل معی بنی اسرائیل جس کا مطلب اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے حکم کی تعمیل ہے جس کا ذکر اوپر گذرا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:103) فظلموا بھا۔ فکفروا عنھا۔ انہوں نے ان آیات سے انکار کردیا۔ ظلم کہتے ہیں کسی شے کو اس کی مخصوص جگہ سے ہٹا کر نقصان کے ساتھ یا زیادتی کے ساتھ یا وقت بدل کر یا جگہ بدل کر بےجگہ رکھ دینے کو ۔ یہاں ظلم اس لئے استعمال ہوا کہ بجائے ان آیات پر ایمان لانے کے انہوں نے انکار کردیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 سب کے سب غرق کردیئے گئے اور ان کی سرای شان و شوکت خاک میں ملادی گئی یہ چھٹا قصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے دبسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے دوسرے کسی قصے کو اس طرح بیان نہیں کیا، وجہ یہ ہے کہ جس طرح مو سیٰ ( علیہ السلام) کے معجزات تمام ابنیا سے اقویٰ تھے اسی طرح ان کی امت بھی جہالت اور سرکشی میں سب سے بڑھی ہوئی تھی۔ ( رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (103 تا 106 ) ۔ بعثنا (ہم نے بھیجا) ۔ ظلموا (انہوں نے ظلم کیا) ۔ حقیق (سچی بات یہ ہے) ۔ لا اقول (میں نہیں کہتا) ۔ ارسل (بھیج دے ) ۔ معی (میرے ساتھ ) ۔ فات بھا (پھر تو لے آ ) ۔ تشریح : آیت نمبر (103 تا 06ٍ 1 ) ۔ ” حضرات انبیاء کرام حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت ہود (علیہ السلام) ، حضرت صالح (علیہ السلام) ، حضرت لوط (علیہ السلام) اور حضرت شعیب علیھم السلام اور ان کی قوموں کے واقعات کی طرف اشاروں کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے متعلق ارشاد فرمایا جا رہا ہے۔ فرعون ایک زبردست ڈکٹیٹر اور آمر مطلق تھا جو جاہ و جلال، دولت کی کثرت کے غرور میں اپنے آپ کو رب اعلیٰ کہلواتا تھا اور لوگوں کو حکم دیتا تھا کہ اس کو رب مان کر اس کے سامنے اپنی گردن کو جھکا کرر کھیں۔ فرعون اور اس کے سرداروں نے پیغمبر وقت کا انکار کیا اور بالآخر گناہوں کے سمندر میں اس طرح غرق ہوگئے کہ آج ان کی زندگیاں عبرت کا نمونہ بنی ہوئی ہیں۔ فرعون کسی شخص کا نام نہیں بلکہ مصر کے بادشاہوں کا لقب ہے فراعین مصر کے انیس خاندان گذرے ہیں اور انہوں نے مصر پر تقریباً تین ہزار سال تک حکومت کی ہے ان دنوں ان کی تجارت پوری دنیا سے جاری تھی۔ ایک طرف ایشیا اور افریقہ سے تھی دوسری طرف یورپ اور دیگر ممالک تک ان کی تجارت پھیلی ہوئی تھی۔ ہزاروں سال سے بین الاقوامی تجارت نے فراعنہ مصر کو انتہائی دولت من بنا دیا تھا۔ دوسری طرف وہ عوام کا خون چوسنے سے بھی باز نہیں آتے تھے ایک ہی خاندان کی حکوت نے تمام اقتداران کے ہاتھ میں مرکوز کردیا تھا۔ اور وہ ظلم و ستم اور گرور وتکبر میں انتہا سے زیادہ آگے بڑھ گئے تھے یہاں تک کہ فرعون ” رب اعلیٰ “ کا دعویٰ کر بیٹھا۔ فرعون کے معنی ہیں ” رع “ کی اولاد اور رغ کے معنی ہیں سورج۔ جس چیز سے انسان سب سے زیادہ خوف زدہ متحیر اور متاثر رہا ہے وہ ہے سورج۔ چناچہ قدیم ترین زمانے سے دنیا کے تمام حصوں میں ” سورج دیوتا “ کی پرستش اور عبادت و بندگی ہوتی چلی آرہی ہے عقلمند بادشاہوں بیوقوف رعایا کو احمق بنانے کے لئے اپنے آپ کو ” سورج بنسی “ یعنی سورج کی اولاد کہلوانا شروع کردیا۔ اور اس طرح حکومت اور تقدس ایک جگہ جمع ہوگئے اور دنیا کے تمام اختیارات کے ساتھ ساتھ روحانی طاقتیں بھی بادشاہوں کے ہاتھوں میں جمع ہوگئیں۔ اور یہ حال صرف مصر ہی میں نہ تھا بلکہ ایران، ہندوستان چین اور تقریباً ساری دنیا مین یہی حال تھا۔ مصر میں جب ظلم و ستم اور کفر وشرک کی زیادتی بہت بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت، معجزات اورد یگردلائل نبوت دے کر اس قوم میں مبعوث فرمایا۔ انہیں فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا کیونکہ ہر ملک میں فتنوں اور فسادات کی جڑ وہ خواص ہوا کرتے ہیں جو اقتدار کی کرسیوں پر قبضہ جما کر بیٹھتے ہیں۔ تمام پیغمبران ہی خواص سے معاملہ کرتے اور غریبوں اور بےکسوں کی اصلاح کرتے ہیں چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سیدھے فرعون کے پاس آئے۔ یہ وہی فرعون ہے جس کے (یا جس کے باپ کے) پاس انہوں نے پرورش پائی تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بالکل صاف سیدھے اور سچے لہجے میں یہ فرمایا کہ ” میں رب العالمین “ کی طرف سے نبی بن کر آیا ہوں اور میرے پاس اس کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ رب العالمین کے لفظ سے فرعون چونک اٹھا کیونکہ وہ تو ” رب اعلیٰ “ کا گھمنڈ اپنی ذات کے لئے رکھتا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے کہا کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ بالکل حق اور سچ ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں، میں تجھ سے یہی کہوں گا کہ بنی اسرائیل کو میرے ہمراہ مصر سے لے جانے کی اجازت دیدے۔ یہ اعلان درحقیقت فرعون کے اقتدار پر بھر پور حملہ تھا کیونکہ اس کا سارا اقتدار اور حکومت کا ڈھانچہ تو بنی اسرائیل پر ہی قائم تھا۔ اس کی حکومت نے ” تقسیم کرو اور حکومت کرو “ کے اصول پر مصر کے تمام باشندوں کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا ” قبطی اور یہودی “ ان میں بنی اسرائیل (یہودی) مظلوم اور محکوم تھے جن کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا تھا یہ ان کے غلام تھے جو فرعونیوں کی خفمت کرتے تھے ان سے بہت ادنیٰ اور گھٹیا کام لئے جاتے تھے۔ ان کے بچے ذبح کئے جاتے اور ان کی لڑکیاں اور عورتیں چھین لی جاتی تھیں ہر محنت و مشقت کا کام ان سے لیا جاتا تھا۔ فرعونیوں کی سوچ یہ تھی کہ اگر بنی اسرائیل چلے گئے تو مزروروں کے کام کون کرے گا۔ اس لئے اس نے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی نبوت کے دلائل اور معجزات پیش کرو۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی معجزات۔ 3۔ یہ تو تمام قصہ کا اجمال تھا آگے تفصیل ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑنے والی اقوام میں آل فرعون سرفہرست تھے۔ جنھوں نے نہ صرف اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کی بار بار وعدہ خلافی کی بلکہ قوم کے مزاج اور مشرکانہ عقائد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرعون نے ” اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی “ کا دعویٰ کیا تھا۔ فرعون مصر کے حکمران کا اصلی نام نہیں بلکہ اس کا یہ سرکاری لقب تھا۔ قدیم تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یمن کا حکمران تبع، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، روم کا حکمران قیصر، ایران کا فرمانروا کسریٰ کہلواتا اور ہندوستان کے حکمران اپنے آپ کو راجا کہلوانا پسند کرتے تھے۔ جس طرح آج کل صدارتی نظام میں حکمران پریذیڈنٹ اور پارلیمانی نظام رکھنے والے ممالک میں وزیر اعظم اور جرمن کا حکمران چانسلر کہلواتا ہے اسی طرح ہی مصر کا بادشاہ سرکاری منصب کے حوالے سے فرعون کہلواتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا جس فرعون سے واسطہ پڑا اس کا نام قابوس یا رعمیس تھا۔ یہ فرعون اپنے آپ کو خدا کا اوتار سمجھتے ہوئے لوگوں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوا۔ کہ اگر میں خدا کا اوتار نہ ہوتا تو دنیا کی سب سے بڑی مملکت کا فرمانروا نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر اس نے لوگوں کے مزاج اور مشرکانہ عقائد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو رب اعلیٰ قرار دیا۔ قوم اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے دعویٰ کیا کہ زمین و آسمان میں مجھ سے بڑھ کر کوئی رب نہیں ہے میں ہی سب دیوتاؤں سے بڑا دیوتا اور سب سے اعلیٰ اور اولیٰ کائنات کا رب ہوں۔ اس کی جھوٹی خدائی کے پرخچے اڑانے اور اس کی کذب بیانی کا پول کھولنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی کے گھر میں پرورش پانے والے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول منتخب فرمایا۔ جن کی پیدائش کا تفصیلی تذکرہ سورة القصص کی ابتدائی ٣٢ آیات میں کیا گیا ہے جس کی ابتدا اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی۔ ” اے نبی یہ کتاب مبین کی آیات ہیں جن میں ہم آپ کے سامنے فرعون اور موسیٰ کا واقعہ ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں فرعون زمین پر بڑا بن بیٹھا اور اس نے اپنی قوم کو طبقاتی کشمکش میں مبتلا کردیا تھا۔ ایک طبقہ کو مراعات یافتہ اور دوسرے کو غلامی اور پسپائی کی گھاٹیوں میں دھکیل رکھا تھا۔ ان حالات میں ہم نے فیصلہ کیا کہ کمزور لوگوں کو زمین میں فرمانروائی سے سرفراز کیا جائے تاکہ فرعون اور اس کے لشکروسپاہ کو وہ کچھ دکھایا جائے جس کے دیکھنے سے ڈرتے تھے۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے بنی اسرائیل کو اس لیے دبا رکھا تھا کہیں یہ لوگ قوت حاصل کرکے ہمارے خلاف برسر پیکار نہ ہوجائیں۔ “ بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کی ابتدا۔ یوں ہوئی کہ فرعون کے درباریوں نے اسے یہ بتلایا کہ بنی اسرائیل کے ہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو تیری خدائی کو چیلنج کرے گا۔ فرعون نے اس بنا پر بنی اسرائیل کے نومولود بچوں کو قتل کروانا شروع کیا لیکن یہ سوچ کر اپنے قانون میں ترمیم کی۔ اس طرح تو ہماری خدمت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا لہٰذا ایک سال بچوں کو قتل کیا جائے اور دوسرے سال کے بچوں کو باقی رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیے کہ اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی والدہ ماجدہ کے ہاں اس سال جنم لیتے ہیں جس سال بچوں کو قتل کیا جا رہا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو ان کی والدہ انتہائی خوفزدہ ہوئیں کہ جونہی حکومت کے کار پر دازوں کو میرے ہاں پیدا ہونے والے بچے کا علم ہوگا تو وہ میرے لخت جگر کو قتل کردیں گے۔ سورة القصص کی آیت ٧ میں موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے اسے القا کیا کہ جب بیٹے کی جان کا خطرہ محسوس کرو تو اسے دریا کی لہروں کے سپرد کردینا لیکن ڈرنے کی ضرورت نہیں ہم نہ صرف اسے تیرے پاس لے آئیں گے بلکہ آپ کا بیٹا انبیاء (علیہ السلام) کی جماعت کا ایک فرد ہوگا۔ “ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے اپنے بیٹے کو دریا کے سپرد کیا جسے آل فرعون نے اٹھا لیا۔ جب فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے لگا تو اس کی بیوی نے اسے سمجھایا کہ اتنے پیارے بچے کو قتل نہ کرو ممکن ہے بڑا ہو تو ہم اسے اپنا بیٹا بنالیں۔ جب دودھ پلانے کا مرحلہ آیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے غیر عورتوں کا دودھ پینے سے انکار کردیا۔ جس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے موسیٰ پر سب عورتوں کا دودھ حرام قرار دیا تھا۔ بالآخر مجبور ہو کر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو ہی انجانے میں اس کی دایہ مقرر کردیا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) بھرپور جوان ہوئے تو ان کے ہاتھوں آل فرعون کا ایک فرد سہواً قتل ہوگیا۔ جس کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر سے ہجرت فرمائی اور وہ مدین میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ہاں آٹھ، دس سال داماد بن کر زیر تربیت رہے۔ پھر مصر واپس آتے ہوئے راستہ میں انھیں نبوت عطا ہوئی اور اس کے ساتھ ہی انھیں دو عظیم معجزے عطا کیے گئے۔ جس لاٹھی کے ساتھ وہ بکریاں ہانکا کرتے تھے۔ اس میں معجزانہ قدرت پیدا کی گئی کہ وہ حسب ضرورت بہت بڑا اژدہا بن جاتی اور دوسرا معجزہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ عطا کیا گیا کہ جب وہ اپنا دایاں ہاتھ بائیں بغل میں دبا کر باہر نکالتے تو اس کے سامنے چاند اور سورج کی روشنی بھی مدہم دکھائی دیتی تھی۔ یہاں انھی دو معجزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورة القصص، آیت : ٣٤ میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اپنا معاون بنانے کی دعا کی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بھائی اور معجزات کے ساتھ فرعون کے دربار میں پہنچے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا خطاب : آل فرعون انتہائی ظالم لوگ تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مجھے رب العالمین کی طرف سے رسول بنایا گیا ہے اور میں وہی بات کہوں گا جس کے کہنے کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے میں تمہارے پاس اپنے رب کی ربوبیت اور وحدت کے ٹھوس اور واضح دلائل لایا ہوں۔ اس لیے تمہیں اپنی خدائی چھوڑ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا رب ماننا چاہیے اس کے ساتھ میرا یہ مطالبہ ہے کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردیا جائے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا جواب دیتے ہوئے کہا اگر تو واقعی اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کرو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فی الفور اپنا عصا زمین پر پھینکا جو بہت بڑا اژدہا بن کر لہرانے لگا۔ جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ اتنا بڑا اژدہا بن کر سامنے آیا کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنے جبڑوں میں سب کو نگل لے گا۔ یہ دیکھتے ہی فرعون اور اس کے درباری اپنی جان بچانے کے لیے دوڑتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) سے فریادیں کرنے لگے کہ ہمیں اس سے بچائیں۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو پکڑ لیا جو پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ اپنی بغل میں ہاتھ دبا کر باہر نکالا تو اس کے سامنے تمام روشنائیاں ماند پڑگئیں۔ ہاتھ دیکھنے والے حیران اور ششد ررہ گئے کہ یہ تو سورج اور چاند سے زیادہ روشن ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کے سامنے سورج کی روشنی ماند پڑتی دکھائی دیتی تھی۔ (روح المعانی و جامع البیان) مسائل ١۔ فرعون اور اس کے ساتھی بدترین قسم کے ظالم تھے۔ ٢۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کی پالیسی اور ان کے کردار سے ملک میں فساد پھیل چکا تھا۔ ٣۔ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے سچے رسول تھے۔ ٤۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اللہ کی توحید کے دلائل دیے اور اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ ٥۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے لاٹھی اور ید بیضاء کے دو عظیم معجزے عطا فرمائے۔ تفسیر بالقرآن نافرمان اور فساد کرنے والوں کا انجام : ١۔ دیکھیں فساد کرنے والوں کا انجام کیا ہوا۔ (الاعراف : ١٠٣) ٢۔ دیکھیں ظالموں کا انجام کیسا ہوا۔ (یونس : ٣٩) ٣۔ دیکھیں نافرمانوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الاعراف : ٨٤) ٤۔ زمین میں چل کر دیکھیں مجرموں کا انجام کیسے ہوا۔ (النمل : ٦٩) ٥۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیکھیں جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ (الزخرف : ٢٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 79 ایک نظر میں اس سبق میں فرعون اور اس کے درباریوں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات و واقعات بیان کئے گئے ہیں ، ان واقعات کی وہ کڑیاں جو اس کے دعوائے ربوبیت اور اس کے لشکر سمیت اس کی غرق یابی کے واقعات پر مشتمل ہیں۔ ان کڑیوں کی درمیانی کڑیاں مثلاً جادوگروں کے ساتھ مقابلہ اور حق کا باطل پر غالب آنا ، جادوگروں کا ایمان لانا ، اور ان کے الفاظ کے ساتھ کہ ہم رب موسیٰ اور رب ہارون پر ایمان لاتے ہیں ، پھر فرعون کی جانب سے انہیں سخت عذاب کی دھمکی ، اور ان کے دل و دماغ میں ایمان و اسلام کی سر بلندی کا مظاہرہ اور ان کی جانب سے اپنی زندگی کے مقابلے میں ایمان و اسلام کو ترجیح دینا ، اس کے بعد بنی اسرائیل پر فرعون کی جانب سے مظالم کا ذکر ، پھر اللہ کی جانب سے آل فرعون اور اہل مصر پر خشک سالی وغیرہ کے عذاب کا نزول اور ہر قسم کی پیداوار کی تباہی ، پھر طوفان ، پسوؤں اور مینڈکوں کے حملے اور خون کی بارش اور ہر باران کی کی جانب سے حضرت موسیٰ کی روحانی قوت کے سامنے جھکنا کہ وہ رب العالمین سے سوال کریں تاکہ انہیں اس عذاب سے نجات ملے۔ لیکن جب ان پر سے یہ مصیبت دور کی جاتی تو جلد ہی وہ لوگ دوبارہ اپنی اصلی حالت کی طرف لوٹ جاتے اور اعلان کردیتے کہ جس قدر آیات و معجزات بھی وہ دکھائیں ہم اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ چناچہ ان بار بار کی بدعملیوں کی وجہ سے ان پر حجت تمام ہوجاتی ہے اور وہ غرق کردئیے جاتے ہیں کیونکہ وہ معجزات کو جھٹلاتے ہیں اور اس آزمائش میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ تمام امور سنت جاریہ کے مطابق انجام پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان پر سختی کرکے اور مصائب میں مبتلا کرکے بھی آزماتے ہیں اور ان کو خوشحالی اور فراوانی عطا کرکے بھی آزماتے ہیں۔ اس کے بعد وہ واقعات آتے ہیں کہ جب قوم موسیٰ ان آزمائشوں میں پوری اترتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو خلافت فی الارض عطا فرماتے ہیں اور غلامی کی اس شدت اور مصیبت کے بعد خلافت فی الارض عطا کرکے پھر ان کو آزمایا جاتا ہے اور فراوانی عطا کی جاتی ہے۔ ہم نے مذکورہ بالا واقعات پر مشتمل ایک سبق تجویز کیا ہے اور اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی قوم کی جانب سے جو واقعات درپیش ہوئے اسے دوسرا درس بنایا ہے کیونکہ دونوں کا موضوع مختلف ہے۔ یہ قصہ یہاں جس انداز سے شروع کیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس قصے کو لانے کے مقاصد کیا ہیں ؟ اس کا آغاز ان الفاظ سے کیا جاتا ہے۔ ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰي بِاٰيٰتِنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهٖ فَظَلَمُوْا بِهَا ۚ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ ۔ " پھر ان قوموں کے بعد (جن کا ذکر اوپر کیا گیا) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا۔ مگر انہوں نے ہماری نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا ، پس دیکھو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا ؟ " یہ تصریح کی جاتی ہے کہ یہاں اس قصے کو لانے کی غرض وغایت کیا ہے۔ یعنی یہ کہ اس دنیا میں ہمیشہ مفسدین کا انجام ایک ہی جیسا ہوتا رہا ہے۔ چناچہ قصے کی غرض وغایت کے اظہار کے بعد اس کے ضروری مضمون و موضوع کے ساتھ مناسب حلقے پے در پے لائے جاتے ہیں۔ اس قصے میں زندہ اور متحرک مناظر بھی دکھائے گئے ہیں۔ ان میں حرکت بھی ہے اور مکالمات بھی ہیں۔ تاثرات بھی ہیں اور مختلف لوگوں اور کرداروں کے خدوخال اور ان کی شناخت بھی ہے۔ اس کے درمیان جگہ جگہ ہدایات و اشارات بھی ہیں اور عبرت آموزی بھی ہے اور اس بات کی صفائی بھی ہے کہ دعوت الی اللہ کے خدوخال کیا ہوتے ہیں اور دعوت الی الطاغوت کا مزاج کیا ہوتا ہے اور یہ کہ تمام طاغوتی قوتیں در اصل ربوبیت اور حاکمیت کی مدعی ہوتی ہیں اور دعوت الی رب العالمین کی تڑپ جس نفس میں گہرائی تک بیٹھ جاتی ہے ، اس نفس سے طاغوتی قوتوں کا خوف یکسر غائب ہوجاتا ہے۔ پھر وہ اس راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں اور کسی وعدہ و وعید کو خاطر میں نہیں لاتے۔ درس نمبر 79 ۔ تشریح آیات 103 ۔ تا ۔ 137 ۔۔۔ اس سے پہلے اس سورت میں جن بستیوں کا ذکر ہوا تھا ، ان کے اہالیان نے دعوت حق کی تکذیب کی تھی اور ان کو ہلاک کیا گیا تھا ، ان کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے۔ قصے کا آغاز اس مقام سے ہوتا ہے جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون ایک دوسرے کے آمنے سامنے آتے ہیں اور خلاصہ یہاں دے دیا جاتا ہے کہ فرعون اور اس کا ٹولہ دعوت حق کا استقبال کس طرح کرتا ہے اور اس انجام کی طرف بھی اشارہ کردیا جاتا ہے جس تک وہ پہنچے۔ انہوں نے ان آیات و معجزات کے ساتھ ظلم اس طرح کیا کہ ان کا انکار کردیا۔ یعنی انہوں نے کفر و شرک کا ارتکاب کیا۔ قرآن کریم میں بارہا کفر کے لئے فسق کا لفظ اور شرک کے لئے ظلم کا لفظ استعمال ہوتا ہے کیونکہ کفر و شرک سے بڑا ظلم اور بڑا فسق اور نہیں ہے جو لوگ کفر کرتے ہیں یا شرک کرتے ہیں وہ در اصل ایک عظیم سچائی کے ساتھ ظلم کرتے ہیں یعنی اللہ کی حاکمیت اور عقیدہ توحید کے ساتھ۔ اور یہ لوگ در اصل خود اپنے آپ پر بھی ظلم کرتے ہیں کیونکہ اپنے آپ کو یہ لوگ ہلاکت و بربادی کا مستحق ٹھہراتے ہیں ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ پھر ایسے لوگ عوام الناس پر یہ ظلم کرتے ہیں کہ انہیں ایک اللہ وحدہ کی غلام اور بندگی سے نکال کر مختلف طاغوتی طاقتوں کے بندے بناتے ہیں اور ان کو رب اور مقتدر اعلیٰ تسلیم کرتے ہیں اور اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے ؟ چناچہ کفر ظلم ہے اور کافرون ظالمون ہیں جیسا کہ قرآن کریم ایسا انداز بیان اختیار کرتا ہے نیز جو شخص کفر اور ظلم اختیار کرتا ہے وہ راہ مستقیم کو چھوڑ کر غلط راستوں پر چلتا ہے اور مختلف بےراہ رویوں میں پڑ کر فاسق اور بدکار بن جاتا ہے اور آخر کار جنت کے بجائے جہنم کا مستحق قرار پاتا ہے۔ فرعون اور اس کے ٹولے نے آیات الٰہی کے ساتھ ظلم کیا یعنی ان کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس لئے وہ برے انجام تک پہنچے۔ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ " پس دیکو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا ؟ " ہر وہ طاغوتی نظام جس میں اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر کسی دوسرے قانون کی اطاعت کی جاتی ہو وہ فسادی نظام ہے اور اسی کے بارے میں اللہ کا حکم ہے کہ ایسی طاغوتی قوتیں مصلحین میں نہیں ہوسکتیں بلکہ یہ فسادی قوتیں ہوتی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون کے پاس تشریف لے جانا اور اس کو معجزے دکھانا سیدنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سر فراز فرمایا اور ان کو معجزات دے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا جن میں اس کی قوم کے سردار بھی تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سب کو توحید کی دعوت دی اور فرعون سے یہ بھی فرمایا تو میرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے، فرعون نے حضرت موسیٰ سے بےتکی جاہلانہ باتیں کیں اور مختلف قسم کے سوالات کیے اس مکالمہ کا ذکر سورة طہٰ ع ٢ اور سورة شعراء ع ٢ میں ہے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے خطاب کیا اور اپنا نبی ہونا ظاہر کیا تو فرمایا (یٰفِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) (اے فرعون بیشک میں رب العالمین کی طرف سے پیغمبر ہوں) (حَقِیْقٌ عَلٰٓی اَنْ لَّآ اَقُوْلَ عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ ) (میرے لیے یہی شایان شان ہے کہ سچ کے علاوہ کسی چیز کی نسبت اللہ کی طرف نہ کروں) (قَدْ جِءْتُکُمْ بِبَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ ) (میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں) ۔ اس دلیل یعنی معجزہ کو سمجھ لو دیکھ لو میری نبوت کا اقرار کرو۔ (فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ) (اے فرعون بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے) تاکہ یہ قوم قبط کے مظالم سے چھوٹ جائیں اور اپنے وطن سابق میں جا کر آباد ہوجائیں (قَالَ اِنْ کُنْتَ جِءْتَ بِاٰیَۃٍ فَاْتِ بِھَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ) (فرعون نے کہا اگر تو کوئی نشانی لے کر آیا ہے تو اس کو پیش کر دے اگر تو سچا ہے) (فَاَلْقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ھِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ) (سو انہوں نے اپنی لاٹھی ڈال دی سو وہ اچانک بالکل واضح طور پر اژدھا بن گئی) یہ ایک معجزہ ہوا۔ (وَّ نَزَعَ یَدَہٗ فَاِذَا ھِیَ بَیْضَآء للنّٰظِرِیْنَ ) (اور انہوں نے اپنا ہاتھ نکالا تو یکایک دیکھنے والوں کو سفید نظر آ رہا ہے) ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ پہلے گریبان میں ڈالا پھر گریبان سے نکالا تو خوب روشن اور چمکدار ہو کر نکلا۔ روح المعانی (ص ٢١ ج ٩) میں لکھا ہے : ای بیضاء بیاضا نورانیاً...... غلب شعاعہ شعاع الشمس کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو فرعون کو اپنا ہاتھ دکھایا وہ اس وقت اتنا زیادہ روشن ہوگیا تھا کہ اس کی شعاعیں سورج کی شعاعوں پر غالب آگئیں۔ دونوں معجزے دیکھ کر فرعون اور اس کی قوم کے سردار ایمان نہ لائے اور سیدنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جادو گر بتانے لگے اور جادو گروں کو بلا کر مقابلہ کرایا جس کے نتیجہ میں جادو گر ہار مان گئے اور مسلمان ہوگئے۔ جس کا تذکرہ ابھی آئندہ آیات میں آ رہا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

107: یہ چھٹا واقعہ ہے اور پہلے دعوے سے متعلق ہے اور یہاں سے شروع ہو کر رکوع 20 کے آخر میں “ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا کَانُوْا یَظْلِمُوْن ” پر ختم ہوتا ہے۔ اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی کے مختلف آٹھ واقعات ذکر کیے گئے ہیں جن میں سے ہر واقعہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عزیمت اور ان کے استقلال کی زندہ تصویر ہے۔ ان کے ذکر سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشجیع مقصود ہے۔ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح آپ بھی جرات اور بہادری سے مسئلہ توحید کی تبلیغ کریں اور اس کی وجہ سے آنے والے مصائب و مشکلات کا استقلال سے سامنا فرمائیں۔ پہلا واقعہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون کے پاس جا کر اس کو توحید کی دعوت دینا۔ بنی اسرائیل پر طلم کرنے سے منع کرنا، اسے معجزے دکھانا اور پھر فرعون کا ان کے مقابلے کے لیے جادوگروں کو جمع کرنا وغیرہ۔ 108: یعنی انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام معجزات کا انکار کیا “ حَقِیْقٌ الخ ” ای واجب (کبیر، خازن وغیرہ) یعنی مجھ پر فرض اور لازم ہے کہ میں اللہ کی طرف کوئی غلط بات منسوب نہ کروں یا “ حَقِیْقٌ” بمعنی “ جَدِیْرٌ” ہے (بحر، روح وغیرہ) ۔ یعنی میں اللہ کا رسول ہوں اس لیے میری شان یہی ہے اور میرے لیے یہی لائق اور زیبا ہے کہ میں اللہ کی طرف صرف سچی بات ہی کی نسبت کروں اس لیے سن لو میں اللہ کا سچا رسول ہوں اور اللہ کی طرف سے معجزات لے کر آیا ہوں۔ لہذا میری دعوت کو قبول کرلو اور بنی اسرائیل کو ظلم وستم سے رہا کردو۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں۔ “ حَقِیْقٌ اَيْ ثَابِتٌ” یعنی میں اس بات پر ثابت اور قائم ہوں کہ اللہ کی طرف صرف سچی بات کی ہی نسبت کروں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

103 پھر ہم نے ان مذکورہ پیغمبروں کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے دلائل اور اپنے نشان دیکر فرعون اور اس کے سردار اور مشیر کاروں کے پاس بھیجا مگر ان لوگوں نے ان دلائل کے ساتھ سوقیانہ برتائو کیا اور معجزات و نشانات کا حق ادا نہ کیا اور بڑی ناانصافی کی۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پھر دیکھئے ان فسادیوں اور ناسپاسی کرنے والو کا انجام کیا ہوا یعنی سب شرارت کرنے والے دریائے قلزم میں غرق کردیئے گئے اور بنی اسرائیل کو ان کے مظالم سے نجات دی۔