Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 106

سورة الأعراف

قَالَ اِنۡ کُنۡتَ جِئۡتَ بِاٰیَۃٍ فَاۡتِ بِہَاۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۱۰۶﴾

[Pharaoh] said, "If you have come with a sign, then bring it forth, if you should be of the truthful."

فرعون نے کہا اگر آپ کوئی معجزہ لے کر آئے ہیں تو اس کو اب پیش کیجئے! اگر آپ سچے ہیں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

(Fir`awn) said: "If you have come with a sign, show it forth, if you are one of those who tell the truth." Fir`awn said, `I will not believe in what you have said nor entertain your request'. Therefore, he said, `if you have proof, then produce it for us to see, so that we know if your claim is true.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰيَةٍ ۔ : فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کی شرافت و نجابت اور ان کے صدق و امانت سے پوری طرح واقف تھا، کیونکہ ان کی پرورش اسی کے گھر میں ہوئی تھی، مگر اس نے ان کی رسالت اور صدق کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی معجزہ پیش کرنے کا مطالبہ کردیا، تاکہ انکار کا کوئی بہانہ مل سکے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Pharaoh, out of his obstinacy, did not listen to anything, but demanded saying, “ If you have come with a sign, bring it out, if you are among the truthful,|" إِن كُنتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ.

فرعون نے اور کسی بات پر تو کان نہ دھرا، معجزہ دیکھنے کا مطالبہ کرنے لگا اور کہا اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰيَةٍ فَاْتِ بِهَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ، یعنی اگر تم واقعی کوئی معجزہ لائے ہو تو پیش کرو اگر تم سچ بولنے والوں میں سے ہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰيَۃٍ فَاْتِ بِہَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۝ ١٠٦ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ صدق والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ( ص دق) الصدق ۔ الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٦ تا ١٢٢) وہ کہنے لگا کہ اپنے رسول ہونے پر دلیل لاؤ چناچہ پہلی نشانی ڈالی تو وہ بہت بڑا زرد رنگ کا اژدہا بن گیا اور پھر اپنی بغل سے ہاتھ نکالا تو وہ خوب چمکتا ہوا ہوگیا۔ سردار کہنے لگے یہ تو بہت بڑا جادوگر ہے۔ تو فرعون نے ان سے کہا پھر ان کے بارے میں تم لوگ کیا مشورہ دیتے ہو، وہ کہنے لگے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون کو مہلت دو اور ابھی ان کو قتل مت کرو، یہاں تک کہ سب ماہر جادوگر آجائیں، چناچہ ستر جادوگر بلائے گئے اور انہوں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم نے موسیٰ کو ہرا دیا تو ہمیں بڑا انعام ملے گا ؟ فرعون نے کہا ہاں ! میں تمہیں بہت بڑا انعام دوں گا۔ وہ جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ پہلے آپ ڈالتے ہیں یا ہم، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا جو کچھ تمہیں ڈالنا ہے تم ہی پہلے ڈالو، چناچہ انہوں نے ستر لاٹھیاں اور ستر رسیاں ڈالیں اور جادو سے سب لوگوں کی نظر بندی کرکے انکو سخت خوفزدہ کردیا اور ایک طرح کا بڑا جادودکھایا۔ پھر حضرت (علیہ السلام) نے اپنا عصا ڈالا، اس نے گرتے ہی ان کی تمام لاٹھیوں اور رسیوں کو نگلنا شروع کردیا چناچہ یہ چیز واضح ہوگئی کہ سچائی اور حق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس ہے اور ان کا جادو سب کمزور اور باطل ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان پر غالب آگئے اور وہ ذلیل و خوار ہو کر واپس لوٹ گئے، اور وہ بلائے گئے جادوگر پروردگار کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے، فرعون نے اپنے دل میں سوچا کہ مجھے قہر ہے ! تو انہوں نے صفت بیان کردی کہ جو موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کا پروردگار ہے اس پر ایمان لائے ہیں اور وہ سجدہ میں اتنی جلدی گرے گویا کہ سجدہ میں ڈال دیے گئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فرعون اور اس کے ٹولے نے بھی اس اعلان کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اللہ کی ربوبیت کے اعلان کا مفہوم کیا ہے ؟ یہ بات ان کی نظروں سے اوجھل نہ تھی۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اس دعوت کے نتیجے میں ان کی حکومت خاتمہ یقینی ہے۔ اس دعوت سے ایک عظیم انقلاب برپا ہوجائے گا۔ اس کی حکومت کے قانونی جواز کے لیے یہ اعلان ایک چیلنج ہے اور یہ کھلی بغاوت اور مخالفت ہے۔ لیکن انہوں نے سوچا کہ وہ موسیٰ کو جھوٹا ثابت کرسکتے ہیں کہ وہ رسول رب العالمین ہیں اس لئے انہوں نے فی الفور معجزات کا مطالبہ کردیا۔ قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰيَةٍ فَاْتِ بِهَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ۔ فرعون نے کہا " اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر " فرعون نے مطالبہ معجزات کا راستہ اس لئے اختیار کیا کہ اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ حضرت موسیٰ رب العالمین کے رسول نہیں اور جھوٹا دعویٰ کر رہے ہیں تو آپ کی دعوت یہاں ہی ختم ہوجائے گی اور آپ کی ہوا اکھڑ جائے گی اور جن لوگوں کو یقین ہی نہ رہے گا تو پھر جو چاہیں کہتے پھریں۔ وہ ایک بےدلیل دعویٰ کے مدعی ہوں گے اور اس کے لئے کوئی خطرہ نہ ہوں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

109: فرعون نے کہا اگر واقعی تم اپنے دعوے میں سچے ہو اور اپنی نبوت پر واقعی کوئی دلیل اور معجزہ لائے ہو تو پیش کرو۔ “ فَاَلْقٰي عَصَاہُ الخ ” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی زمین پر پھینک دی جو گرتے ہی سانپ بن گئی اور پھر گریبان میں ہاتھ ڈال کر باہر نکلا تو وہ روشن اور درخشاں تھا یعنی میری نبوت کا پہلا گواہ تو یہ سانپ والا معجزہ ہے یہ بھی دیکھ لو اور دوسرا یہ نور ہے اسے بھی دیکھ لو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

106 فرعون نے کہا اگر واقعی تو کوئی نشانی لایا ہے تو اس کو پیش کر اگر تو واقعی سچا ہے۔