Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 109

سورة الأعراف

قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِ فِرۡعَوۡنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۰۹﴾ۙ

Said the eminent among the people of Pharaoh, "Indeed, this is a learned magician

قوم فرعون میں جو سردار لوگ تھے انہوں نے کہا کہ واقعی یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Fir`awn's People say that Musa is a Magician! Allah tells; قَالَ الْمَلُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ إِنَّ هَـذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ يُرِيدُ أَن يُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُمْ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ

درباریوں سے مشورے ہوئے!٭٭ جب ڈر خوف جاتا رہا فرعون پھر سے اپنے تخت پر آ بیٹھا اور درباریوں کے اوسان درست ہوگئے تو فرعون نے کہا بھئی مجھے تو یہ جادوگر لگتا ہے اور ہے بھی بڑا استاد ۔ ان لوگوں نے اس کی تائید کی اور کہا حضور درست فرما رہے ہیں ۔ اب مشورے کرنے لگے کہ اگر یہ معاملہ یونہی رہا تو لوگ اس کی طرف مائل ہو جائیں گے اور جب یہ قوت پکڑے گا تو ہم سے بادشاہت چھین لے گا ہمیں جلاوطن کر دے گا بتاؤ کیا کرنا چاہئے ؟ اللہ کی شان ہے جس سے خوف کھایا وہی سامنے آیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

109۔ 1 معجزے دیکھ کر، ایمان لانے کی بجائے، فرعون کے درباریوں نے اسے جادو قرار دیکر یہ کہہ دیا یہ تو بڑا ماہر جادوگر ہے جس سے اس کا مقصد تمہاری حکومت کو ختم کرنا ہے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ کے زمانے میں جادو کا بڑا زور تھا اور اس کا عام چلن تھا، اس لئے انہوں نے معجزات کو بھی جادو سمجھا جس میں سرے سے انسان کا دخل ہی نہیں ہوتا۔ خالص اللہ کی معشیت سے ظہور میں آتے ہیں تاہم درباریوں کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرعون کو بہکانے کا موقع مل گیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ ۔۔ : یہاں یہ ذکر ہوا ہے کہ فرعون کی قوم کے سرداروں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر قرار دیا۔ سورة شعراء (٣٤) میں مذکور ہے کہ فرعون نے اپنے سرداروں سے یہ بات کہی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے کو بےاثر بنانے کے لیے دو بہتان گھڑے، ایک تو یہ کہ یہ ماہر جادوگر ہے اور دوسرا یہ کہ یہ حکومت پر قبضہ کرکے تمہیں سرزمین مصر سے نکالنا چاہتا ہے۔ دیکھیے سورة شعراء (٣٤، ٣٥) اس کی قوم جسے اس نے اس حد تک بیوقوف اور بےوقعت بنایا تھا کہ وہ اسے اپنا معبود اور اس کی بات کو اپنے رب کی بات ماننے لگ گئے تھے ( دیکھیے زخرف : ٥٤) اس قوم نے بھی اسی کی بات کو دہرا دیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Arabic word &Mala|" is used for influential chiefs. After seeing these miracles they said to the people he was a great sorcerer. Being ignorant of divine powers of Allah they could say nothing else as they believed Pharaoh to be their god and had seen nothing but the magical charms of the sorcerers in their life. They, however, added the word |"alim& signifying the one who knows, showing their impression that the miraculous acts of Musa (علیہ السلام) were of the kind that could not be performed by an ordinary magician. So, they said that he was a sorcerer of great knowledge. The difference between miracle and sorcery The miracles and sorcery are so distinct in their nature and effect that they do not require any explanation to any one applying common sense. The sorcerers usually live in impurity and, the more they are unclean and impure the more they are successful in their sorcery. The prophets, on the other hand, are by nature the most clean and pure people. Another obvious distinction is that a sorcerer is never successful when he makes claim to prophethood. Besides, the acts performed under the effect of sorcery do have physical causes as other things have, with the only difference that their causes remain hidden to common people. The people, therefore, take them to be happening without the help of any cause. On the contrary, the miracles are directly a manifestation of Allah&s power and have nothing to do with physical causes. This is why the miracles have been ascribed directly to Allah and not to the prophets in the Holy Qur&an. The Qur&an said |"but Allah threw the pebbles|" (while these pebbles were thrown by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in the battle of Badr) In short, the miracles and sorcery are totally different from each other. The people of knowledge have no confusion about it. In order to eliminate any possible confu¬sion of a common individual, Allah has provided with obvious distinc¬tions between the two. Even the people of the Pharaoh found the miracles of the prophet Musa (علیہ السلام) somehow different from the normal acts of sorcerers. Therefore, even while accusing him of sorcery they admitted that he was &of great knowledge& meaning that his act was not comparable with the acts of the normal sorcerers.

قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ، لفظ ملاء کسی قوم کے بااثر سرداروں کے لئے بولا جاتا ہے۔ معنی یہ ہیں کہ قوم فرعون کے سردار یہ معجزات دیکھ کر اپنی قوم کو خطاب کر کے کہنے لگے کہ یہ تو بڑا جادوگر ہے وجہ یہ تھی کہ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست ان بیچاروں کو خدائے تعالیٰ اور اس کی قدرت کاملہ کی کیا خبر تھی جنہوں نے ساری عمر فرعون کو اپنا خدا اور جادوگروں کو اپنا رہبر سمجھا اور جادوگروں کے شعبدوں ہی کو دیکھا تھا، وہ اس حیرت انگیز واقعہ کو دیکھ کر اس کے سوا کہہ ہی کیا سکتے تھے کہ یہ بھی کوئی بڑا جادو ہے لیکن ان لوگوں نے بھی یہاں ساحر کے ساتھ علیم کا لفظ بڑھا کر یہ ظاہر کردیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کے متعلق یہ احساس ان کو بھی ہوگیا تھا کہ یہ کام عام جادوگروں کے کام سے ممتاز اور مختلف ہے اسی لئے اتنا اقرار کیا کہ یہ بڑے ماہر جادوگر ہیں۔ معجزہ اور جادو میں فرق : اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات کو اسی انداز سے ظاہر فرماتے ہیں کہ اگر دیکھنے والے ذرا بھی غور کریں اور ہٹ دھرمی اختیار نہ کریں تو معجزہ اور سحر کا فرق خود بخود سمجھ لیں۔ سحر کرنے والے عموما ناپاکی اور گندگی میں رہتے ہیں اور جتنی زیادہ گندگی اور ناپاکی میں ہوں اتنا ہی ان کا جادو زیادہ کامیاب ہوتا ہے، بخلاف انبیاء (علیہم السلام) کے کہ طہارت ونظافت ان کی طبیعت ثانیہ ہوتی ہے، اور یہ بھی کھلا ہوا فرق من جانب اللہ ہے کہ نبوت کا دعوی کرنے کے ساتھ کسی کا جادو چلتا بھی نہیں۔ اور اہل بصیرت تو اصل حقیقت کو جانتے ہیں کہ جا دو سے جو چیزیں ظاہر کی جاتی ہیں وہ سب دائرہ اسباب طبعیہ کے اندر ہوتی ہیں، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اسباب عام لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتے، بلکہ فخفی اسباب ہوتے ہیں، اس لئے وہ یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ یہ کام بغیر کسی ظاہری سبب کے ہوگیا، بخلاف معجزہ کے کہ اس میں اسباب طبعیہ کا مطلق کوئی دخل نہیں ہوتا، وہ براہ راست قدرت حق کا فعل ہوتا ہے، اسی لئے قرآن کریم میں اس کو حق تعالے کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ ولکن اللہ رمی۔ اس سے معلوم ہوا کہ معجزہ اور سحر کی حقیقتیں بالکل مختلف اور متباین ہیں، حقیقت شناس کے لئے تو کوئی التباس کی وجہ ہی نہیں عوام کو التباس ہوسکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس التباس کو دور کرنے کے لئے بھی ایسے امتیازات رکھ دیئے ہیں کہ جس کی وجہ سے لوگ دھوکہ سے بچ جائیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ قوم فرعون نے بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کو اپنے جادوگروں کے افعال سے کچھ ممتاز و مختلف پایا، اس لئے اس پر مجبور ہوئے کہ یہ کہیں کہ یہ بڑا ماہر جادوگر ہے کہ عام جادوگر اس جیسے کاموں کا مظاہرہ نہیں کرسکتے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ۝ ١٠٩ ۙ فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٩ (قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ ) انہوں نے کہا ہوگا کہ یہ جو یہاں سے جان بچا کر بھاگ گیا تھا اور کئی سال بعد واپس آیا ہے تو کہیں سے بہت بڑا جادو سیکھ کر آیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 14 ۔ آیات 109 تا 126 ۔ اسرار و معارف : جادو اور معجزہ میں فرق : جب امراء دربار نے دیکھا جن میں مذہبی پیشوا اور دنیاوی سردار سب شامل تھے تو کہہ اٹھے کہ انہیں فن جادوگری میں کمال حاصل ہے کم از کم اتنا ضرور مان گئے کہ یہ کمال آج تک کسی جادوگر سے دیکھا نہ سنا چونکہ ان کے قلوب اس قدر سیاہ اور تباہ ہوچکے تھے کہ قبول حق کی استعداد ہی نہ تھی ورنہ جادوگروں پر موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کی برتری تو سامنے تھی نیز جادو اور معجزہ میں کئی طرح سے فرق ہوتا ہے سب سے پہلے تو افراد ہی مختلف طرح کے ہوتے ہیں جادوگر کا شیطان سے رابطہ ہوتا ہے لہذا وہ غلیظ اور بدکار ہوتا ہے جبکہ نبی کا رابطہ ذات باری سے ہوتا ہے لہذا عقائد اور اعمال میں پاکیزگی ہوتی ہے دوسرا یہ کہ جاو کا اظہار ذاتی بڑائی یا اپنی بات منوانے کے لیے کیا جاتا ہے جبکہ معجزہ کا اظہار عظمت باری کو منوانے کے لیے ہوتا ہے تیسرا فرق یہ ہوتا ہے کہ جادو سے چیز کی اصل تبدیل نہیں ہوتی صرف انسانی آنکھیں دھوکا کھاتی ہیں مگر معجزہ شے کی حقیقت کو بدل دیتا ہے اور جو کچھ نظر آتا ہے وہ واقعی ہوتا بھی ہے یہی پہچان کرامت ولی اور شعبدہ میں بھی ہے کہ کرامت در اصل نبی کا معجزہ ہی ہے جو کامل اتباع کے طفیل ولی کے ہاتھ پہ ظاہر ہوا۔ تو کہنے لگے کہ اس کا سبب ہماری سمجھ میں تو یہی آتا ہے کہ یہ قوم فرعون سے اس کی سلطنت اور وطن چھیننا چاہتا ہے ہے اور محض اقتدار کی خاطر یہ اپنے کمال کا اظہار کر رہا ہے اب سب ایوان مل کر رائے دیں کہ اس کے بارے کیا کریں۔ جادو سے ڈرنا نہ چاہئے : بالآخر سب نے یہ طے کیا کہ۔ فرعون کو چاہئے اسے مہلت دے اور اس کے جادو کا مقابلہ اپنے قوم کے جادوگروں سے کرایا جائے تاکہ یہ شکست کھا کر اپنے انجام کو پہنچے بھلا یہ کی امشکل ہے آخرت ہمارے پاس بھی تو ایک سے ایک ماہر جادوگر ہے چناچہ جادوگروں کو جمع کرنے کے لیے تمام شہروں میں قاصد روانہ کردئیے جائیں۔ چناچہ ہر طرف سے جادور جمع ہونا شروع ہوگئے جن کی تعداد بعض روایات کے مطابق سینکڑوں میں تھی اور سینکڑوں اونٹوں پر لاٹھیوں اور رسوں کے انبار لاد کر لائے گئے اور مقابلے کی تیار شروع ہوگئی انہوں نے آتے ہی فرعون سے درخواست کی کہ ہم مقابلہ جیت گئے تو ہمیں انعام بھی ملنا چاہئے۔ صاحب تفسیر کبیر نے یہاں استدلال فرمایا ہے کہ اگر جادو کے زور سے کچھ ہوسکتا تو انہیں فرعون سے مانگنے کی ضرورت نہ تھی مٹی کو سنا بنا لیتے یا دنیا کے بادشاہ بن جاتے مگر جادو صرف نظر کا دھوکا ہوتا ہے شئے کی حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتا اس لیے جادوگر سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں وہ دیکھ رہے تھے کہ فرعون خود عاجز اور ذلیل ہے تب ان سے مدد کا طلب گار ہے پھر بھی اس سے مانگ رہے تھے لہذا اس نے وعدہ کرلیا کہ نہ صرف انعام دوں گا بلکہ تمہیں میرا قرب عطا کیا جائے گا۔ میرے درباری اور مقرب بن ادئیے جاؤگے۔ طے شدہ وقت اور مقام پر مقابلے کے لیے پہنچے ایک طرف فرعونی تکبر اور نمود و نمائش لاؤ لشکر اور تماشائی تھے جادوگروں کی فوج تھی دوسری طرف اللہ کا اولوالعزم رسول اپنے بھائی کے ساتھ بالوں کے کمبل کا لباس اور کچے چمڑے کی جوتی ، ہاتھ میں عصا ، بظاہر اکیلا و تنہا مگر تائید مالک الملک کے ساتھ جلوہ افروز ہوا۔ ادب کا ثمرہ : جادوگر الوہیت اور نبوت کے تصور سے آشنا نہ تھے مگر موسیٰ (علیہ السلام) کی عظمت کے قائل ضرور ہوگئے کہ ضرور کوئی صاحب کمال ہے جس نے فرعون کو پریشان کردیا ہے لہذا ادب کا اظہار کیا اور کہا آپ پہلے لاٹھی ڈالنا پسند فرمائیں گے یا ہمیں اجازت ہے کہ ہم ڈالیں علامہ ابن کثیر نے بھی یہی استدلال فرمایا کہ جادوگروں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے ادب کا معاملہ کیا تو اللہ کریم نے انہیں ہدایت نصیب فرما دی اور فرعون نے تکبر کیا لہذا محروم رہا۔ اور بھی بہت سی مثالوں کے علاوہ خود آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جن لوگوں نے اگرچہ اطاعت نہیں کی بلکہ کفر و شرک کی طرف سے اسلام کے خلاف جنگوں میں بھی شریک ہوئے مگر اخلاقی اعتبار سے آپ سے گستاخی کے مرتکب نہیں ہوئے انہیں توبہ کی توفیق نصیب ہوگئی اور جو لوگ اخلاقاً گستاخ اور بےادب تھے محرومی و حسرت کی موت کا شکار ہوئے اور کبھی ہدایت نہ پا سکے یہی حال اہل اللہ کا ہوتا ہے با ادب مستفید ہوتا ہے اور بےادب محروم رہتا ہے۔ چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) سے اجازت پا کر جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں پھینک دیں مگر لوگوں کی نگاہوں پہ جادو کردیا اور لوگوں کو ڈرایا بھی۔ تفسیر کبیر میں ہے کہ جگہ جگہ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ہر آدمی اپنی حفاظت کا خود خیال رکھے اس طرح انہوں نے جادو کا بہت بڑا یعنی دو کام کیے قوت متخیلہ پر مسمریزم کی طرح گرفت کرکے اور ساتھ لوگوں کو پریشان کرکے پنا کام نکالا کہ جب آدمی خوفزدہ اور پریشان ہوتا ہے تو اس کی قوت متخیلہ کو متاثر کرنا آسان ہوجاتا ہے اور وہ پریشانی کی وجہ سے دفاع نہیں کرسکتا۔ اللہ کریم نے اسے سحر عظیم فرمایا جس سے ثابت ہے کہ اصل شئے تبدیل نہیں ہوتی ہاں دیکھنے والوں کو ویسی نظر آتی ہے جیسے جادوگر دکھانا چاہتا ہے مثلاً جاودوگر کسی انسان کو گدھا بنا دے تو وہ واقعی گدھا نہیں بنے گا مگر لوگوں کو بھی اور اپنے آپ کو بھی ایسا ہی پائے گا اور ایسی ہی حرکات شروع کردے گا لیکن اگر مرگیا تو حساب انسانوں ہی کے ساتھ دے گا جانوروں میں شمار نہ ہوگا۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) کو ارشاد ہوا ذرا آپ بھی لاٹھی ڈال دیں ہزاروں بڑے بڑے شہتیر اور رسے میدان میں اژدہوں کی صورت میں پھنکارتے پھرتے تھے جنہیں گرداگرد سے جادوگر بمشکل روک رہے تھے اور لوگوں کو بچنے اور ہوشیار رہنے کی تلقین ہو رہی تھی کہ اللہ کریم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے دل پر القا فرمایا اب اس ہماہمی اور جادو کے اظہار کے عین شباب کے وقت لاٹھی ڈال دیں۔ لاٹھی کا ڈالنا تھا کہ ایک عظیم اژدہا بن گیا اتنا بڑا کہ ان سب کو نگلنے لگا اور سانپوں اژدہوں کی عادت ہے اپنے سے چھوٹے کو کھاجاتے ہیں میدان بھرا ہوا تھا لاکھوں کی تعداد تھی اور بڑے بڑے اژد ہے تھے مگر لاٹھی سب سے بڑا اژدھا بن گئی اور ان سب کو نگل گیا اور ان سے میدان خالی کردیا مگر بھوک سے منہ پھیلائے پھنکار رہا تھا۔ یہ حق کی فتح تھی موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگروں پہ عظیم فتح حاصل ہوئی اور جتنا رعب انہوں نے بنایا تھا ختم ہوگیا اور لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ ان کی اور ان کے جادو کی کوئی حیثیت نہیں۔ نہ صرف مغلوب ہوئے بلکہ بہت رسوائی ہوئی اور حق کو عزت ملی۔ مگر اس کے ساتھ ہی وہ سجدے میں گر گئے اور اعلان کردیا کہ ہم پروردگار عالم پہ ایمان لائے وہ پروردگار جسے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) اپنا رب مانتے ہیں یہ شاندار معجزہ فرعون نے بھی اور اس کی تمام قوم نے بھی دیکھا تھا مگر ایمان لانے کی توفیق صرف جادوگروں کو نصیب ہوئی یہ نبی کے ادب کرنے کا صلہ تھا جو اللہ کریم نے عطا فرما دیا۔ اور جب جادوگر ایمان لائے تو لوگوں کی اکثریت بھی اس طرف مائل ہوگئی اور لاکھوں لوگوں نے اعلان کردیا کہ حق موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہے۔ مگر فرعون نے بھی فوراً پانسہ پھینکا اور کہنے لگا اچھا تو یہ ملک کے خلاف سازش تھی میں اب سمجھاتم سب نے مل کر موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ سازش تیار کی ہے کہ اس طرح سے لوگوں کو خوفزدہ کرکے اقتدار پر قابض ہوجاؤ پھر تو موسیٰ (علیہ السلام) لوگوں کو شہروں سے نکال باہر کریں گے اور اپنی غریب قوم کو وہاں آباد کردیں گے یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے آج ہر سیاست دان جب کام اس کی مرضی کے خلاف ہو تو ملک کے لیے سخت خطرے کا اعلان کردیتا ہے اس بات کا موجد فرعون تھا جادوگروں کا کمال اور لوگوں کا متاثر ہونا پھر موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ اور اس کے نتیجے میں جادوگروں کا ایمان لانا جو پہلے سے بھی بڑا معجزہ تھا اس تمام کام کو ایک سیاسی سازش کہہ کر لوگوں سے اس کا حقیقی اثر زائل کرنا چاہا اور کہنے لگا ابھی تمہاری اس حرکت کی سزا دے کر تمہارا بھرم کھول دیتا ہوں میں تمہیں ایسی سخت سزا دوں گا کہ ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں کٹوا دوں گا پھر تمہارے اس آدھے بدن کو سولی پر لٹکایا جائے گا۔ حصول علم کا سب سے اعلی ذریعہ : دین اور آخرت کا علم یا ذات باری اور صفات باری کی بات عقل نہیں دل سیکھتا ہے اور اس کے سیکھنے کا صرف ایک ذریعہ ہے کہ قلب نبوت سے رابطہ استوار کرلے تو بغیر لبوں کی جنبش کے اور بغیر تقریر و تحریر کے خالص اور کھرے علوم اس تک پہنچ جاتے ہیں۔ ابھی توھری دیر پہلے جو جادوگر کافر تھے اور ساری امیدوں کا مرکز فرعون کو بنا رکھا تھا اب مومن ہیں اور ذرا ذوق شہادت دیکھئے اور علم کا اندازہ کریں کہ کہنے لگے اگر تم ہمیں سولی دوگے تو بہت مزہ آئے گا کہ ہم اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچ جائیں گے گویا وہ نہ صرف عظمت باری کو پا گئے بلکہ حیات موت ما بعد الموت اور ان تمام باتوں کو جان گئے۔ شیخ کے ساتھ تعلق کا کمال بھی یہی ہے کہ دل زندہ ہو کر ان علوم کو حاصل کرلے۔ فرمانے لگے کہ اللہ کی آیات پہ ایمان لانے کی اگر یہ سزا ہے تو کوئی بات نہیں یہ جان تو اسی مقصد پہ نثار ہونی چاہئے ہاں ہم از خود کچھ بھی تو نہیں لہذا اے ہمارے رب ہم پر صبر انڈیل دے ایسا صبر عطا کر کہ کافر ایذا دے کر شرمندہ ہو اس کے کان ہماری آہ نہ سن سکیں اور ہمیں اسلام پر موت نصیب فرما۔ سبحان اللہ زندگی اور اس کی تمام لذتوں سے بڑھ کر اسلام عزیز ہے اور صبح کے سورج نے جنہیں فرعون کا جادوگر دیکھا تھا شام کے ڈھلتے سورج نے انہیں موسیٰ کے شہداء کے روپ میں دیکھا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معجزہ کا مطالبہ، معجزہ سامنے آنے پر فرعون کے ساتھیوں کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو گر ہونے کا الزام اور ان کا چیلنج۔ سورۃ الشعراء کی آیت ١٦ تا ٣٣ میں بیان ہوا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو اپنی نبوت کا ثبوت دیا اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا تو فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) پر اخلاقی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا تو نہیں جانتا کہ ہم نے تیری پرورش کی اور تو عرصہ درازتک ہمارے ہاں ٹھہرا اور پھر تو نے ایک ایسا کام کیا جو تجھے اچھی طرح یاد ہے یعنی تو نے ہمارے ایک شخص کو قتل کیا۔ کیا ہمارے احسانات کا تو انکار کرتا ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت بردباری اور بہترین انداز میں جواب دیتے ہوئے فرمایا ہاں ! نادانستہ طور پر مجھ سے آدمی مرگیا تھا۔ جس کی وجہ سے میں تمہارے خوف سے بھاگ نکلا۔ اب اللہ نے مجھے تمہارے پاس رسول بناکر بھیجا ہے۔ جہاں تک آپ کے مجھ پر احسان کا تعلق ہے کیا اس کا بدلہ یہ ہے کہ آپ میری پوری قوم کو غلام بنا رکھیں ؟ موسیٰ (علیہ السلام) سے فرعون نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے دلائل طلب کیے جس کا جواب دیتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس رب کی بات کر رہا ہوں جو زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اس کو پیدا کرنے والا اور ہر جاندار کو اس کی روزی مہیا کرنے والا ہے وہ تمہارا اور تم سے پہلے لوگوں کا رب ہے بشرطیکہ تم توحید کو سمجھنے کے لیے اپنی عقل استعمال کرو۔ اس پر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کا استہزاء اڑاتے ہوئے اپنے درباریوں کو کہا کہ جو تمہارے پاس رسول بنا کر بھیجا گیا ہے وہ تو پاگل ہے۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو الٰہ مانا تو میں تجھے جیل خانہ میں ڈال دوں گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کیا واضح دلائل کے باوجود تم ایسا کرو گے تو اس نے مجبور ہو کر کہا اچھا پھر اپنی صداقت کی دلیل پیش کرو۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی صداقت کی تائید میں عصا اور یدبیضاء کے معجزے پیش فرمائے۔ جس پر فرعون اور اس کے درباریوں نے کہا کہ تم تو بہت بڑے جادو گر ہو اور جادو کے ذریعے تم ہمیں اقتدار اور ہمارے ملک سے بےدخل کرنا چاہتے ہو۔ ہم تمہارے مقابلہ میں اپنے جادوگر لائیں گے۔ سورة طٰہٰ ، آیت : ٥٨ تا ٦٠ میں بیان ہوا ہے کہ مقابلہ کے لیے انھوں نے قومی تہوار کا دن اور صبح کا وقت مقرر کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اس عہد کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔ سورة الشعراء، آیت : ٣٦ تا ٤٤ میں تفصیل یہ ہے کہ پھر انھوں نے ملک کے تمام شہروں سے ماہر جادوگروں کو اکٹھا کیا۔ جب جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں اکٹھے ہوئے تو انھوں نے فرعون کے حق میں پرزور نعرے بازی کی کہ ” فرعون کی جے “ (فرعون زندہ باد) اور اس کے ساتھ ہی جادوگروں نے فرعون سے مطالبہ کیا کہ ہم موسیٰ پر غالب آگئے تو ہمیں کیا انعام ملے گا۔ فرعون نے انھیں یقین دہانی کروائی کہ انعام پانے کے ساتھ میرے مقرب ہوجاؤ گے۔ (الاعراف : ١١٤) ۔ یعنی اجر تو معمولی بات ہے۔ تم ہمیشہ کے لیے میرے اقتدار میں شریک ہوگے۔ یہی دین اور دنیا دار کی سوچ میں فرق ہے جس کا جادوگروں نے مظاہرہ کیا کہ ہمیں دنیا میں کیا ملے گا ؟ پھر اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ ہم اپنے علم و ہنر کا مظاہرہ کریں یا آپ کرتے ہیں ! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ پہلے تم کرو جو کچھ کرنا چاہتے ہو۔ انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر ڈالیں جو ایک سے ایک بڑھ کر سانپ اور اژدہا بن کر دوڑ نے لگیں۔ جس سے لوگ زبردست خوف زدہ ہوئے۔ کیونکہ قرآن بیان کر رہا ہے کہ انھوں نے سحر عظیم کا مظاہرہ کیا جس سے لوگوں کی آنکھیں حیرت زدہ ہوگئیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جوابی حملہ اور جادوگروں کا ایمان لانا : سورۃ طٰہٰ ، آیت : ٦٧ تا ٦٩ میں بیان ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خوف زدہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ ڈرنے کی ضرورت نہیں اپنا عصا زمین پر پھینک یہ سب کو کھاجائے گا اور جادو گرجہاں بھی ہوں کامیاب نہیں ہوں گے۔ یہاں بیان فرمایا کہ ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ آپ اپنا عصا زمین پر پھینکیں جو نہی عصا زمین پر پھینکا گیا تو اس نے ان کے کیے دھرے کو نگل لیا۔ اس طرح حق ثابت اور بلند وبالا ہوا اور باطل ناکام اور نامراد ہو کر ذلیل ہوگیا۔ جادوگر موسیٰ (علیہ السلام) کی حق و صداقت دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوئے کیونکہ ملک بھر کے نامی گرامی جادوگروں کو شکست دینا کسی عام آدمی کے بس کی بات نہ تھی۔ جادوگر یہ حقیقت پوری طرح سمجھ گئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جس رب کے فرستادہ ہیں وہی خالق کل اور مالک حقیقی ہے۔ اسی کے سامنے آدمی کو سجدہ ریز ہونا چاہیے۔ لہٰذا انھوں نے اسی بات کا اقرار اور اظہار کیا کہ ہم رب العالمین پر ایمان لائے مزید وضاحت بھی کردی کہ فرعون پر نہیں جو رب ہونے کا جھوٹا دعوے دار بلکہ موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لائے جو پوری کائنات کا رب ہے۔ تاکہ ان کے ایمان پر کسی کو ہرگز شبہ نہ رہے۔ مسائل ١۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف ملک بھر کے جادوگر اکٹھے کیے۔ ٢۔ جادو گروں کے سامنے دین کا مشن نہیں تھا اس لیے انھوں نے دنیا کے اجر کا مطالبہ کیا۔ ٣۔ جادو سب سے پہلے انسان کی نظر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ٤۔ حق ہمیشہ دلائل کی بنیاد پر بلند وبالا رہتا ہے۔ ٥۔ آدمی کو حقیقت سمجھ آجائے تو اسے کھلم کھلا اس کا اعتراف اور اظہار کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) پر جادو گر ہونے کا الزام : ١۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کھلے دلائل لے کر آئے تو قوم نے ان پر جادو گر ہونے کا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٢۔ کفار کے سامنے جب حق آیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (سباء : ٤٣) ٣۔ فرعون کے سرداروں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (الاعراف : ١٠٩) ٤۔ جب کفار کے پاس حق بات آئی تو انھوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو گر ہونے کا الزام لگایا۔ (یونس : ٧٦) ٥۔ کفار نے کہا یہ نبی نہیں جادو گر ہے۔ (یونس : ٢) ٦۔ کفار نے کہا یہ نبی جھوٹا اور جادوگر ہے۔ (ص : ٤) ٧۔ ظالموں نے کہا کیا ہم جادوگر کی اتباع کریں ؟ (الفرقان : ٨) ٨۔ آپ سے پہلے جو بھی نبی آیا اسے جادوگر کہا گیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٩۔ مشرکین قرآن مجید کو جادو قرار دیتے تھے۔ (الاحقاف : ٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فرعون اور اس کا ٹولہ اس قدر بیوقوف نہ تھا کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اعلان اور مطالبے کے نتائج سے با خبر نہ ہو بلکہ وہ واضح طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کے اعلان کو سمجھ جاتے ہیں اور اس کا اعلان کردیتے ہیں۔ لیکن اس انداز میں کہ لوگوں کی نظریں حضرت موسیٰ کے معجزانہ دلائل سے پھرجائیں۔ چناچہ فرعوان اور اس کے ٹولے نے حضرت موسیٰ پر یہ الزام لگایا کہ وہ ایک عظیم جادوگر ہیں۔ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ۔ يُّرِيْدُ اَنْ يُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ ۚ فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ ۔ اس پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ " یقینا یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے " تمہیں تمہاری زمین سے بےدخل کرنا چاہتا ہے۔ اب کہو کیا کہتے ہو ؟ "۔ وہ چلا چلا کر کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے جو دعوی کیا ہے وہ کس قدر دور رس نتائج کا حامل ہے اور کس قدر خطرناک ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ہمیں سرزمین مصر سے نکالنا چاہتا ہے ، حکومت چھیننا اس کا مطلب ہے۔ وہ ہمارے نظام حکومت کے خلاف سازش کر رہا ہے بلکہ وہ انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے۔ دور جدید میں اسے یہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ زمین اللہ کی ہے ، عوام الناس اللہ کے پیدا کردہ ہیں ، اگر اللہ کی سرزمین پر اللہ کے بندوں پر حکومت بھی اللہ کی قائم ہوجائے تو وہ تمام طاغوتی حکمرانیاں خود بخود ختم ہوجاتی ہیں جو اللہ کی شریعت کے برعکس قائم ہوں۔ اور ان لوگوں کا اقتدار خود بخود ختم ہوجاتا ہے جو از خود لوگوں کے خدا بنے ہوئے ہیں اور ان لوگوں کا اقتدار بھی خود بخود ختم ہوجاتا ہے جنہیں ان طاغوتی حکمرانوں نے صاحب منصب اور اہلکار بنا رکھا ہے۔ اس طرح فرعون اور اس کے ٹولے نے معلوم کرلیا کہ حضرت موسیٰ کی دعوت کس قدر خطرناک ہے۔ اور یہی بات تمام طاغوتی قوتیں ہر دور میں اچھی طرح جان لیتی ہیں۔ ایک عرب نے اپنے فطری فہم و ادراک کی اساس پر یہ کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو لوگوں کو (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کی دعوت دیتے ہیں یہ ایک ایسی دعوت ہے جسے بادشاہ پسند نہیں کرتے۔ اور ایک دوسرے عرب دانشور نے اپنی فطری معاملہ فہمی کی اساس پر یہ کہا اگر تم نے اس دعوت کو جاری رکھا تو عرب و عجم تمہارے ساتھ برسر پیکار ہوجائیں گے۔ یہ دونوں عرب دانشور در اصل عربی زبان کے مفاہم کو اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ (لا الہ الا اللہ) کا اعلان حکمرانوں کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ کیونکہ وہ عربی کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ وہ جانتے کہ ایک دل میں ایک سرزمین پر کلمہ طیبہ کی شہادت اور پھر غیر اللہ کی اور خلاف شریعت حکمرانی قائم نہیں ہوسکتی۔ اس وقت کے عرب کلمہ شہادت کو اس طرح نہ سمجھتے تھے جس طرح آج کے نام نہاد مسلمان اسے سمجھتے ہیں۔ آج کے لوگوں کا مفہوم کلمہ شہادت بہت ہی ناقص ، کم درجے کا اور کمزور درجے کا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

110: یہ دیکھ کر قوم فرعون کے درباری امراء اور اہل حل و عقد بول اٹھے کہ یہ تو کوئی بہت بڑا ماہر جادوگر ہے اور تمہیں ملک مصر سے نکال کر اس پر خود قابض ہونا چاہتا ہے۔ اس پر فرعون نے کہا “ فَمَا ذَا تَامُرُوْنَ ” تو پھر اس کے معاملے میں تمہارا کیا مشورہ ہے۔ “ قَالُوْا اَرْجِهْ ” انہوں نے کہا اس کے معاملے میں آپ جلدی نہ کریں بلکہ اس کو اور اس کے بھائی کو مہلت دے دیں اور اپنے ملک کے تمام شہروں میں اپنے آدمی بھیج دیں وہ ملک کے تمام ماہر جادوگروں کو آپ کے دربار میں لا حاضر کریں تاکہ ان دونوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

109 اس عظیم الشان واقعہ کے بعد فرعون نے اپنے امراء اور مشیرانِ خاص سے دریافت کیا جیسا کہ دوسری سورتوں سے معلوم ہوتا ہے اس پر ان امراء اور رئوسا نے اپنی رائے ظاہر کی فرعون کی قوم کے امرا اور رئوسا نے کہا بیشک یہ موسیٰ (علیہ السلام) بڑا ماہر اور حاذق جادوگر ہے۔