The Arabic word &Mala|" is used for influential chiefs. After seeing these miracles they said to the people he was a great sorcerer. Being ignorant of divine powers of Allah they could say nothing else as they believed Pharaoh to be their god and had seen nothing but the magical charms of the sorcerers in their life. They, however, added the word |"alim& signifying the one who knows, showing their impression that the miraculous acts of Musa (علیہ السلام) were of the kind that could not be performed by an ordinary magician. So, they said that he was a sorcerer of great knowledge. The difference between miracle and sorcery The miracles and sorcery are so distinct in their nature and effect that they do not require any explanation to any one applying common sense. The sorcerers usually live in impurity and, the more they are unclean and impure the more they are successful in their sorcery. The prophets, on the other hand, are by nature the most clean and pure people. Another obvious distinction is that a sorcerer is never successful when he makes claim to prophethood. Besides, the acts performed under the effect of sorcery do have physical causes as other things have, with the only difference that their causes remain hidden to common people. The people, therefore, take them to be happening without the help of any cause. On the contrary, the miracles are directly a manifestation of Allah&s power and have nothing to do with physical causes. This is why the miracles have been ascribed directly to Allah and not to the prophets in the Holy Qur&an. The Qur&an said |"but Allah threw the pebbles|" (while these pebbles were thrown by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in the battle of Badr) In short, the miracles and sorcery are totally different from each other. The people of knowledge have no confusion about it. In order to eliminate any possible confu¬sion of a common individual, Allah has provided with obvious distinc¬tions between the two. Even the people of the Pharaoh found the miracles of the prophet Musa (علیہ السلام) somehow different from the normal acts of sorcerers. Therefore, even while accusing him of sorcery they admitted that he was &of great knowledge& meaning that his act was not comparable with the acts of the normal sorcerers.
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ، لفظ ملاء کسی قوم کے بااثر سرداروں کے لئے بولا جاتا ہے۔ معنی یہ ہیں کہ قوم فرعون کے سردار یہ معجزات دیکھ کر اپنی قوم کو خطاب کر کے کہنے لگے کہ یہ تو بڑا جادوگر ہے وجہ یہ تھی کہ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست ان بیچاروں کو خدائے تعالیٰ اور اس کی قدرت کاملہ کی کیا خبر تھی جنہوں نے ساری عمر فرعون کو اپنا خدا اور جادوگروں کو اپنا رہبر سمجھا اور جادوگروں کے شعبدوں ہی کو دیکھا تھا، وہ اس حیرت انگیز واقعہ کو دیکھ کر اس کے سوا کہہ ہی کیا سکتے تھے کہ یہ بھی کوئی بڑا جادو ہے لیکن ان لوگوں نے بھی یہاں ساحر کے ساتھ علیم کا لفظ بڑھا کر یہ ظاہر کردیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کے متعلق یہ احساس ان کو بھی ہوگیا تھا کہ یہ کام عام جادوگروں کے کام سے ممتاز اور مختلف ہے اسی لئے اتنا اقرار کیا کہ یہ بڑے ماہر جادوگر ہیں۔ معجزہ اور جادو میں فرق : اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات کو اسی انداز سے ظاہر فرماتے ہیں کہ اگر دیکھنے والے ذرا بھی غور کریں اور ہٹ دھرمی اختیار نہ کریں تو معجزہ اور سحر کا فرق خود بخود سمجھ لیں۔ سحر کرنے والے عموما ناپاکی اور گندگی میں رہتے ہیں اور جتنی زیادہ گندگی اور ناپاکی میں ہوں اتنا ہی ان کا جادو زیادہ کامیاب ہوتا ہے، بخلاف انبیاء (علیہم السلام) کے کہ طہارت ونظافت ان کی طبیعت ثانیہ ہوتی ہے، اور یہ بھی کھلا ہوا فرق من جانب اللہ ہے کہ نبوت کا دعوی کرنے کے ساتھ کسی کا جادو چلتا بھی نہیں۔ اور اہل بصیرت تو اصل حقیقت کو جانتے ہیں کہ جا دو سے جو چیزیں ظاہر کی جاتی ہیں وہ سب دائرہ اسباب طبعیہ کے اندر ہوتی ہیں، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اسباب عام لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتے، بلکہ فخفی اسباب ہوتے ہیں، اس لئے وہ یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ یہ کام بغیر کسی ظاہری سبب کے ہوگیا، بخلاف معجزہ کے کہ اس میں اسباب طبعیہ کا مطلق کوئی دخل نہیں ہوتا، وہ براہ راست قدرت حق کا فعل ہوتا ہے، اسی لئے قرآن کریم میں اس کو حق تعالے کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ ولکن اللہ رمی۔ اس سے معلوم ہوا کہ معجزہ اور سحر کی حقیقتیں بالکل مختلف اور متباین ہیں، حقیقت شناس کے لئے تو کوئی التباس کی وجہ ہی نہیں عوام کو التباس ہوسکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس التباس کو دور کرنے کے لئے بھی ایسے امتیازات رکھ دیئے ہیں کہ جس کی وجہ سے لوگ دھوکہ سے بچ جائیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ قوم فرعون نے بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کو اپنے جادوگروں کے افعال سے کچھ ممتاز و مختلف پایا، اس لئے اس پر مجبور ہوئے کہ یہ کہیں کہ یہ بڑا ماہر جادوگر ہے کہ عام جادوگر اس جیسے کاموں کا مظاہرہ نہیں کرسکتے