Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 11

سورة الأعراف

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنٰکُمۡ ثُمَّ صَوَّرۡنٰکُمۡ ثُمَّ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ ٭ۖ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ لَمۡ یَکُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ ﴿۱۱﴾

And We have certainly created you, [O Mankind], and given you [human] form. Then We said to the angels, "Prostrate to Adam"; so they prostrated, except for Iblees. He was not of those who prostrated.

اور ہم نے تم کو پیدا کیا ، پھر ہم نے تمہاری صورت بنائی پھر ہم ہی نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Prostration of the Angels to Adam and Shaytan's Arrogance Allah informs the Children of Adam about the honor of their father and the enmity of Shaytan, who still has envy for them and for their father Adam. So they should beware of him and not follow in his footsteps. Allah said, وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَليِكَةِ اسْجُدُواْ لادَمَ فَسَجَدُواْ ... And surely, We created you and then gave you shape; then We told the angels, "Prostrate yourselves to Adam," and they prostrated, This is like His saying, وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَـيِكَةِ إِنِّى خَـلِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَـلٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِى فَقَعُواْ لَهُ سَـجِدِينَ And (remember) when your Lord said to the angels: "I am going to create a man from dried (sounding) clay of altered mud. So, when I have fashioned him completely and breathed into him the soul (which I created for him), then fall (you) down prostrating yourselves unto him." (15:28-29) After Allah created Adam with His Hands from dried clay of altered mud and made him in the shape of a human being, He blew life into him and ordered the angels to prostrate before him, honoring Allah's glory and magnificence. The angels all heard, obeyed and prostrated, but Iblis did not prostrate. ... إِلاَّ إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ except Iblis (Shaytan), he refused to be of those who prostrated. We explained this subject in the beginning of Surah Al-Baqarah. Therefore, the Ayah (7:11) refers to Adam, although Allah used the plural in this case, because Adam is the father of all mankind. Similarly, Allah said to the Children of Israel who lived during the time of the Prophet, وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى And We shaded you with clouds and sent down on you manna and the quail, (2:57) This refers to their forefathers who lived during the time of Moses. But, since that was a favor given to the forefathers, and they are their very source, then the offspring have also been favored by it. This is not the case in: وَلَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَـنَ مِن سُلَـلَةٍ مِّن طِينٍ And indeed We created man out of an extract of clay (water and earth). (23:12) For this merely means that Adam was created from clay. His children were created from Nutfah (mixed male and female sexual discharge). This last Ayah is thus talking about the origin of mankind, not that they were all created from clay, and Allah knows best.

ابلیس ، آدم علیہ السلام اور نسل آدم انسان کے شرف کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ تمہارے باپ آدم کو میں نے خود ہی بنایا اور ابلیس کی عداوت کو بیان فرما رہا ہے کہ اس نے تمہارے باپ آدام کا حسد کیا ۔ ہمارے فرمان سے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر اس نے نافرمانی کی پس تمہیں چاہئے کہ دشمن کو دشمن سمجھو اور اس کے داؤ پیچ سے ہوشیار رہو اسی واقعہ کا ذکر آیت ( وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ28 ) 15- الحجر ) میں بھی ہے ۔ حضرت آدم کو پروردگار نے اپنے ہاتھ سے مٹی سے بنایا انسانی صورت عطا فرمائی پھر اپنے پاس سے اس میں روح پھونکی پھر اپنی شان کی جلالت منوانے کیلئے فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کے سامنے جھک جاؤ سب نے سنتے ہی اطاعت کی لیکن ابلیس نہ مانا اس واقعہ کو سورۃ بقرہ کی تفسیر میں ہم خلاصہ وار لکھ آئے ہیں ۔ اس آیت کا بھی یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ نے بھی پسند فرمایا ہے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ انسان اپنے باپ کی پیٹھ میں پیدا کیا جاتا ہے اور اپنی ماں کے پیٹ میں صورت دیا جاتا ہے اور بعض سلف نے بھی لکھا ہے کہ اس آیت میں مراد اولاد آدم ہے ۔ ضحاک کا قول ہے کہ آدم کو پیدا کیا پھر اس کی اولاد کی صورت بنائی ۔ لیکن یہ سب اقوال غور طلب ہیں کیونکہ آیت میں اس کے بعد ہی فرشتوں کے سجدے کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ سجدہ حضرت آدام علیہ السلام کے لئے ہی ہوا تھا ۔ جمع کے صیغہ سے اس کا بیان اس لئے ہوا کہ حضرت آدم تمام انسانوں کے باپ ہیں آیت ( وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى ۭ كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ ۭ وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ57 ) 2- البقرة ) اسی کی نظیر ہے یہاں خطاب ان بنی اسرائیل سے ہے جو حضور کے زمانے میں موجود تھے اور دراصل ابر کا سایہ ان کے سابقوں پر ہوا تھا جو حضرت موسیٰ کے زمانے میں تھے نہ کہ ان پر ، لیکن چونکہ ان کے اکابر پر سایہ کرنا ایسا احسان تھا کہ ان کو بھی اس کا شکر گذار ہونا چاہئے تھا اس لئے انہی کو خطاب کر کے اپنی وہ نعمت یاد دلائی ۔ یہاں یہ بات واضح ہے اس کے بالکل برعکس آیت ( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْن 12 ) 23- المؤمنون ) ہے کہ مراد آدم ہیں کیونکہ صرف وہی مٹی سے بنائے گئے ان کی کل اولاد نطفے سے پیدا ہوئی اور یہی صحیح ہے کیونکہ مراد جنس انان ہے نہ کہ معین ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 خَلَقْنَاکُمْ میں ضمیر اگرچہ جمع کی ہے لیکن مراد ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] تخلیق آدم اور نظریہ ارتقاء :۔ اس آیت سے جو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا آدم (علیہ السلام) کو فرشتوں کے سجدہ کرنے کے حکم سے پہلے ہی انسانوں کی تخلیق ہوچکی تھی اور شکل و صورت بھی بنادی گئی تھی تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس وقت سیدنا آدم (علیہ السلام) کی پشت سے قیامت تک پیدا ہونے والی اولاد کی ارواح پیدا کی گئی تھیں اور ان روحوں کو وہی صورت عطا کی گئی تھی جو اس دنیا میں آنے کے بعد اس روح کے جسم کی ہوگی اور انہیں ارواح ہی سے اللہ تعالیٰ نے عہد آیت (اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ١٧٢؀ۙ ) 7 ۔ الاعراف :172) لیا تھا۔ جسم میں روح کی یا روح کے جسم میں موجود ہونے کی مثال یوں دی جاتی ہے جیسے زیتون کے درخت میں روغن زیتون یا کوئلہ میں آگ یا جلنے والی گیس۔ اور بعض دوسرے علماء کا قول یہ ہے کہ سیدنا آدم (علیہ السلام) کو اپنی تمام اولاد کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے یہاں && کم && کی ضمیر بطور جمع مذکر مخاطب استعمال ہوئی ہے یعنی اس وقت صرف سیدنا آدم (علیہ السلام) کو بنا کر پھر اسے صورت عطا کر کے فرشتوں کو یہ حکم دیا تھا۔ اس مقام پر یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں میں بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے قائل ہیں اور انسان کو اسی ارتقائی سلسلہ کی آخری کڑی قرار دیتے ہیں وہ اسی آیت سے اپنے نظریہ کے حق میں استدلال کرتے ہیں اور ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں جمع کا صیغہ اس بات کی دلیل ہے کہ آدم سے پہلے بنی نوع انسان موجود تھی کیونکہ آدم کو ملائکہ کے سجدہ کا ذکر بعد میں ہوا ہے۔ نیز اسی سورة کی اگلی آیات (١١ سے ٢٥ تک) کی طرف توجہ دلاتے ہیں جہاں کہیں تو آدم (علیہ السلام) اور اس کی بیوی کے لیے تثنیہ کا صیغہ آیا ہے لیکن اکثر مقامات پر جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اس کا ایک جواب تو اوپر دیا جا چکا ہے کہ آدم کے سجدہ کرنے سے پیشتر ارواح کی تخلیق کی گئی۔ انہیں صورتیں دی گئیں اور انہی سے وعدہ الست لیا گیا تھا اور یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے اور ان حضرات کے لیے دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر وہ سورة اعراف کی ان آیات کے ساتھ سورة بقرہ کی آیات نمبر ٣٠ تا ٣٦ دوبارہ ملاحظہ فرما لیں تو اس تثنیہ کے صیغہ کی حقیقت از خود معلوم ہوجائے گی۔ نیز اس مقام پر ابتداء میں دور نبوی کے تمام موجود انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ && اپنے پروردگار کی طرف سے نازل شدہ وحی کی اتباع کرو۔ && پھر آگے چل کر آدم (علیہ السلام) ، آپ کی بیوی اور ابلیس وغیرہ کا قصہ مذکور ہے، تو قرآن میں حسب موقع و محل صیغوں کا استعمال ہوا ہے ان آیات کے مخاطب آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد ہے نہ کہ آدم (علیہ السلام) اور اس کی بیوی کے آباؤ اجداد یا بھائی بند۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کے بعد اللہ نے فرشتوں سے اسے سجدہ کروایا پھر اس سے حوا (علیہا السلام) کو پیدا کیا پھر انہیں جنت میں آباد کیا۔ اگر آدم سلسلہ ارتقاء کے نتیجہ میں پیدا ہوئے تھے تو اس وقت ان کے آباؤ اجداد یا بھائی بند کہاں تھے ؟ اب چونکہ اس مسئلہ ارتقاء کے قائلین کی بحث چھڑ ہی گئی ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دوسرے قرآنی دلائل کا بھی جائزہ لے لیا جائے تاکہ حقیقت نکھر کر سامنے آجائے۔ دوسری دلیل اور اس کا جواب : ان حضرات کی دوسری دلیل سورة نساء کی پہلی آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ && لوگو ! اپنے اس پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثیر مرد اور عورتیں (پیدا کر کے روئے زمین پر) پھیلائے۔ && (٤ : ١) یہ آیت اپنے مطلب میں صاف ہے کہ نفس واحدہ سے مراد آدم (علیہ السلام) اور ان کے زوج سے مراد ان کی بیوی حوا (علیہا السلام) ہے مگر ہمارے یہ دوست نفس واحدہ سے مراد پہلا جرثومہ حیات لیتے ہیں جو سمندر کے کنارے کائی سے پیدا ہوا تھا۔ اس جرثومہ حیات کے متعلق نظریہ یہ ہے کہ وہ کٹ کردو ٹکڑے ہوگیا پھر ان میں سے ہر ایک ٹکڑا بڑا ہو کر پھر کٹ کردو دو ٹکڑے ہوتا گیا اس طرح زندگی میں وسعت پیدا ہوتی گئی جو جمادات سے نباتات، نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے انسان تک پہنچی ہے۔ یہ دلیل اس لحاظ سے غلط ہے کہ آیت (خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً ۝) 4 ۔ النسآء :1) کے الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ اس جوڑے سے آئندہ نسل توالد و تناسل کے ذریعہ سے چلی تھی جبکہ جرثومہ حیات کی صورت یہ نہیں ہوتی آج بھی جراثیم کی پیدائش و افزائش اسی طرح ہوتی ہے کہ ایک جرثومہ کٹ کردو حصے بن جاتا ہے اسی طرح افزائش تو ہوتی چلی جاتی ہے مگر ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ نہیں ہوتا لہذا وہ ایک جرثومہ کے دو ٹکڑے تو کہلا سکتے ہیں زوج نہیں کہلا سکتے۔ تیسری دلیل اور اس کا جواب : ان حضرات کی تیسری دلیل سورة علق کی دوسری آیت ہے کہ && اللہ نے انسان کو علق سے پیدا کیا && (٩٦ : ٤) علق کے لغوی معنی جما ہوا خون یا خون کی پھٹکی بھی ہے اور جونک بھی۔ ہمارے یہ دوست اس سے دوسرے معنی مراد لیتے ہیں اور اسے رحم مادر کی کیفیت قرار نہیں دیتے بلکہ اس سے ارتقائی زندگی کے سفر کا وہ دور مراد لیتے ہیں جب جونک کی قسم کے جانور وجود میں آئے تھے اور کہتے ہیں کہ انسان بھی جانداروں کی ارتقائی شکل ہے۔ اس اشکال کو کہ آیا یہ رحم مادر کا قصہ ہے یا ارتقائی زندگی کے سفر کی داستان ہے سورة مومنوں کی آیت ١٤ دور کردیتی ہے جو یہ ہے۔ && پھر ہم نے نطفہ سے علقۃ (لوتھڑا، جما ہوا خون، خون کی پھٹکی) بنایا پھر لوتھڑے سے بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اس انسان کو نئی صورت میں بنادیا تو اللہ سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے۔ && (٢٣ : ١٤) انسان کی پیدائش کے یہ تدریجی مراحل صاف بتلا رہے ہیں کہ یہ رحم مادر میں ہونے والے تغیرات ہیں کیونکہ ارتقائے زندگی کے مراحل ان پر منطبق نہیں ہوتے۔ نیز یہ بھی کہ قرآن کریم نے علق سے مراد جما ہوا خون ہی لیا ہے۔ اس سے ارتقائی مراحل کی جونک مراد نہیں۔ اب ہم اپنی طرف سے نظریہ ارتقاء کے ابطال پر چند دلائل پیش کرتے ہیں :۔ پہلی دلیل مراحل تخلیق : قرآن نے آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے جو سات مراحل بیان فرمائے ہیں وہ درج ذیل ہیں :۔ (١) تراب بمعنی خشک مٹی (٤٠ : ١٧) ۔ (٢) ارض بمعنی عام مٹی یا زمین (٧١ : ١٧) (٣) طین بمعنی گیلی مٹی یا گارا (٦ : ٢) ۔ (٤) طین لازب (٣٧ : ١١) ۔ (٥) آیت (حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 26؀ۚ ) 15 ۔ الحجر :26) بمعنی بدبودار کیچڑ (١٥ : ١٦) ۔ (٦) صلصال بمعنی ٹھیکرا، حرارت سے پکائی ہوئی مٹی (١٥ : ١٦) ۔ (٧) آیت (صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ 14 ۝ ۙ ) 55 ۔ الرحمن :14) یعنی ٹن سے بجنے والی ٹھیکری (٥٥ : ١٤) یہ ساتوں مراحل بس جمادات ہی میں پورے ہوجاتے ہیں۔ مٹی میں پانی کی آمیزش ضرور ہوئی لیکن بعد میں وہ بھی پوری طرح خشک کردیا گیا۔ غور فرمائیے اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسان کے جو سات مراحل بیان فرمائے ہیں وہ سب کے سب ایک ہی نوع (جمادات) سے متعلق ہیں ان میں کہیں نباتات اور حیوانات کا ذکر آیا ہے ؟ اگر انسان کی تخلیق نباتات اور حیوانات کے راستے سے ہوتی تو ان کا بھی کہیں تو ذکر ہونا چاہیے تھا۔ سیدنا آدم کی تخلیق میں دو باتیں خصوصی نوعیت رکھتی ہیں ایک یہ کہ سیدنا آدم کا پتلا اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور قرآن کے الفاظ آیت (لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ 75؀) 38 ۔ ص :75) اس کا ثبوت ہیں اور دوسرے پتلا تیار ہوجانے کے بعد اس میں اللہ تعالیٰ کا اپنے روح سے پھونکنا & جس کی وجہ سے انسان میں قوت ارادہ و اختیار اور قوت تمیز و عقل پیدا ہوئی جو دوسرے کسی جاندار میں نہیں ہے ہمارے یہ دوست عموماً اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے مراد دست قدرت یا قوت لے لیا کرتے ہیں مگر سوچنے کی بات تو صرف یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت اور قوت ہی سے پیدا کیا ہے پھر صرف آدم کی تخلیق سے متعلق خصوصی ذکر کی کیا ضرورت تھی کہ میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنایا۔ دوسرے انسان میں جو قوت ارادہ و اختیار ہے وہ تسلسل ارتقاء کی صورت میں کب اور کیسے پیدا ہوگئی ؟ ٩ ہجری میں نجران کے عیسائی مدینہ میں آپ سے مناظرہ کرنے آئے۔ موضوع الوہیت مسیح تھا۔ ان کا طرز استدلال یہ تھا کہ جب تم مسلمان خود تسلیم کرتے ہو کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ نہیں تھا اور یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ وہ مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے تو بتاؤ کہ اگر وہ اللہ کے بیٹے نہ تھے تو ان کا باپ کون تھا ؟ اس دوران یہ آیت نازل ہوئی && اللہ کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال آدم (علیہ السلام) کی سی ہے آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اس سے کہا کہ ہوجا تو آدم ایک جیتا جاگتا انسان بن گیا۔ (٣ : ٥٩) یعنی عیسائیوں کو جواب یہ دیا گیا کہ اگر باپ کا نہ ہونا الوہیت کی دلیل بن سکتا ہے تو پھر آدم الوہیت کے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ ان کی باپ کے علاوہ ماں بھی نہ تھی مگر انہیں تم اللہ یا اللہ کا بیٹا نہیں کہتے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کیسے اللہ یا اس کا بیٹا ہوسکتے ہیں ؟ الوہیت مسیح کی تردید میں یہ دلیل اللہ تعالیٰ نے اس لیے دی تھی کہ عیسیٰ کے بن باپ پیدا ہونے میں عیسائی اور مسلمان دونوں متفق تھے لیکن آج مسلمانوں کا ایک طبقہ تو ایسا ہے جو معجزات کا منکر ہے وہ آدم (علیہ السلام) کی بغیر ماں باپ پیدائش کو تو تسلیم کرتا ہے مگر عیسیٰ (علیہ السلام) کی بن باپ پیدائش کو تسلیم نہیں کرتا۔ دوسرا فرقہ قرآنی مفکرین کا وہ ہے جو ارتقائی نظریہ کے قائل ہونے کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) کی بھی بن باپ پیدائش کے قائل نہیں۔ مندرجہ بالا آیت میں ان فرقوں کا رد موجود ہے وہ یوں کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کو آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے مثل قرار دیا ہے، جس کی ممکنہ صورتیں یہ ہوسکتی ہیں۔ ١۔ دونوں کی پیدائش مٹی سے ہے یہ توجیہ اس لیے غلط ہے کہ تمام بنی نوع انسان کی پیدائش مٹی سے ہوئی اس میں آدم (علیہ السلام) و عیسیٰ کی (علیہ السلام) کوئی خصوصیت نہیں۔ ٢۔ دونوں کی پیدائش ماں باپ کے ذریعہ سے ہوئی یہ توجیہ بھی غلط ہے کیونکہ انسان کی پیدائش کے لیے یہ عام دستور ہے آدم (علیہ السلام) و عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس میں کوئی خصوصیت نہیں کہ اللہ صرف ان دونوں کی پیدائش کو ایک دوسرے کی مثل قرار دیتے۔ لامحالہ دونوں کی پیدائش غیر فطری طریق سے ہوئی۔ ٣۔ اب تیسری صورت صرف یہ باقی رہ جاتی ہے کہ دونوں کے باپ کا نہ ہونا تسلیم کیا جائے اور یہی ان دونوں میں مثلیت کا پہلو نکل سکتا ہے جس میں دوسرے انسان شامل نہیں گویا یہ آیت بھی نظریہ ارتقاء کو باطل قرار دیتی ہے (نظریہ ارتقاء کی مزید تفصیلات کے لیے سورة حجر کی آیت نمبر ٣٩ کا حاشیہ نمبر ١٩ اور اس کے علاوہ میری تصنیف && عقل پرستی اور انکار معجزات && ملاحظہ فرمائیے۔ [ ١٠] ابلیس کی حقیت سمجھنے کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت نمبر ٣٤ کا حاشیہ نمبر ٤٧)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ : ” خَلَقَ “ کا اصل معنی جس چیز کا وجود نہ ہو اس کا صحیح خاکہ بنانا اور وجود میں لانا ہے۔ اس معنی میں خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ہاں، کسی چیز سے کوئی خاکہ تیار کرنے کو بھی ” خَلَقَ “ کہہ لیتے ہیں، یہ مخلوق بھی کرسکتی ہے، سورة مائدہ (١١٠) میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں آتا ہے : (ۚ وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ ) (راغب) ” خلق، برأ “ اور تصویر، پیدائش کے تین مراحل ہیں، سورة حشر (٢٤) میں فرمایا : (هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ ) تینوں الفاظ میں سے اکیلا کوئی بھی لفظ آئے تو پیدا کرنے کے معنی میں ہوتا ہے، اکٹھے آئیں تو کچھ فرق ہے، یعنی ہم نے تمہارا خاکہ بنایا، پھر تمہیں صورت بخشی : ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ڰ اس سجدے سے مراد مطلق تعظیم ہے یا حقیقی سجدہ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٣٤)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور ہم نے تم کو پیدا (کرنے کا سامان شروع) کیا (یعنی آدم (علیہ السلام) کا مادّہ بنایا، اسی مادّے سے تم سب لوگ ہو) پھر (مادہ بنا کر) ہم نے تمہاری صورت بنائی (یعنی اس مادّے میں آدم (علیہ السلام) کی صورت بنائی، پھر وہی صورت ان کی اولاد میں چلی آرہی ہے، یہ نعمت ایجاد ہوئی) پھر (جب آدم (علیہ السلام) بن گئے اور علوم اسماء سے مشرف ہوئے تو) ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو (اب) سجدہ کرو (یہ نعمت اکرام ہوئی) تو سب فرشتوں نے سجدہ کیا، بجز ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا، حق تعالیٰ نے فرمایا تو جو سجدہ نہیں کرتا تجھ کو اس سے کونسا امر مانع ہے، جب کہ میں (خود) تجھ کو سجدہ کا حکم دے چکا، کہنے لگا (وہ مانع یہ ہے کہ) آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس (آدم) کو آپ نے خاک سے پیدا کیا ہے (یہ شیطانی استدلال کا پہلا مقدمہ ہے، اور دوسرا مقدمہ جس کا ذکر نہیں کا وہ یہ ہے کہ آگ بوجہ نورانی ہونے کے خاک سے افضل ہے، تیسرا مقدمہ یہ ہے کہ افضل کی فرع اور اولاد بھی غیر افضل کی فرع سے افضل ہوتی ہے، چوتھا مقدمہ یہ ہے کہ افضل کا سجدہ کرنا غیر افضل کو نامناسب ہے، ان چاروں مقدمات کو ملا کر شیطان نے اپنے سجدہ نہ کرنے کی یہ دلیل بنائی کہ میں افضل ہوں اس لئے غیر افضل کو سجدہ نہیں کیا، مگر پہلے مقدمہ کے سوا سارے ہی مقدمات غلط ہیں، اور پہلا مقدمہ بھی عام انسانوں کے حق میں اس معنی سے صحیح ہے کہ انسان کی تخلیق میں جزو غالب مٹی کا ہے، باقی مقدمات دلیل کا غلط ہونا کھلا ہوا ہے، کیونک آگ کا خاک پر افضل ہونا ایک جزوی فضیلت تو ہو سکتی ہے، کلی طور پر اس کو افضل کہنا دعویٰ بےدلیل ہے، اسی طرح افضل کی فرع اور اولاد کا افضل ہونا بھی مشکوک ہے، ہزاروں واقعات اس کے خلاف سامنے آئے ہیں، کہ نیک کی اولاد بد اور بد کی اولاد نیک ہوجاتی ہے، اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ افضل کو مفضول کے لئے سجدہ نامناسب ہے، بعض اوقات مصالح کا تقاضا اس کے خلاف ہونا مشاہد ہے) حق تعالیٰ نے فرمایا (جب تو ایسا نافرمان ہے) تو آسمان سے نیچے اتر، تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ تو تکبر کرے، (خاص کر) آسمان میں رہ کر (جہاں سب فرمانبرداروں ہی کا مقام ہے) تو (یہاں سے) نکل (دور ہو) بیشک تو (اس تکبر کی وجہ سے) ذلیلوں میں شمار ہونے لگا، وہ کہنے لگا کہ بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو (بحکم تکوین) گمراہ کیا ہے قسم کھاتا ہوں کہ میں ان (کے یعنی آدم اور اولاد آدم کی رہزنی کرنے) کے لئے آپ کی سیدھی راہ پر (جو کہ دین حق ہے جاکر) بیٹھ جاؤں گا پھر ان پر (ہر چار طرف سے) حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی پیچھے سے بھی اور ان کی داہنی جانب سے بھی اور بائیں جانب سے بھی (یعنی ان کے بہکانے میں کوشش کا کوئی پہلو باقی نہ چھوڑوں گا تاکہ وہ آپ کی عبادت نہ کرنے پاویں) اور (میں اپنی کوشش میں کامیاب ہوں گا، چنانچہ) آپ ان میں سے اکثروں کو (آپ کی نعمتوں کا) احسان ماننے والا نہ پاویں گے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہاں (آسمان) سے ذلیل و خوار ہو کر نکل جا (اور تو جو اولاد آدم کو بہکانے کو کہتا ہے تو جو تیرا جی چاہے کرلے میں سب سے بےنیاز ہوں نہ کسی کے راہ راست پر آنے سے میرا کوئی فائدہ ہے نہ گمراہ ہونے سے کوئی نقصان) جو شخص ان میں سے تیرا کہنا مانے گا میں ضرور تم سے (یعنی ابلیس اور اس کی بات ماننے والوں سے) جہنم کو بھر دوں گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ۝ ٠ ۤۖ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝ ٠ ۭ لَمْ يَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ۝ ١١ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے صور الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران/ 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» وقوله تعالی: فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع . ( ص و ر ) الصورۃ : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں ) بلس الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم/ 12] ، وقال تعالی: أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام/ 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم/ 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» . ( ب ل س ) الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم/ 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام/ 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم/ 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١) اور ہم نے حضرت آدم (علیہ السلام) کا پتلا مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان بنایا، پھر ہم نے سب فرشتوں کو سجدہ تعظہمی کرنے کا حکم دیا مگر شیطان نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ق) نظریۂ ارتقاء (Evolution Theory) کے حامی اس آیت سے بھی کسی حد تک اپنی نظریاتی غذا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن حکیم میں انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل کے بارے میں مختلف نوعیت کی تفصیلات ملتی ہیں۔ ایک طرف تو انسان کو مٹی سے پیدا کرنے کی بات کی گئی ہے۔ مثلاً سورة آل عمران آیت ٥٩ میں بتایا گیا ہے کہ انسانِ اوّل کو مٹی سے بنا کر کُنْ کہا گیا تو وہ ایک زندہ انسان بن گیا (فَیَکُوْن) ۔ یعنی یہ آیت ایک طرح سے انسان کی ایک خاص مخلوق کے طور پر تخلیق کی تائید کرتی ہے۔ جب کہ آیت زیر نظر میں اس ضمن میں تدریجی مراحل کا ذکر ہوا ہے۔ یہاں جمع کے صیغے ( وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ) سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس سلسلہ کی کچھ انواع (species) پہلے پیدا کی گئی تھیں۔ گویا نسل انسانی پہلے پیدا کی گئی ‘ پھر ان کی شکل و صورت کو finishing touches دیے گئے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدم تو ایک تھا ‘ پھر یہ جمع کے صیغے کیوں استعمال ہو رہے ہیں ؟ اس سوال کے جواب کے لیے سورة آل عمران کی آیت ٣٣ بھی ایک طرح سے ہمیں دعوت غور و فکر دیتی ہے ‘ جس میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو بھی اللہ تعالیٰ نے چنا تھا : (اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفآی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) ۔ گویا یہ آیت بھی کسی حد تک ارتقائی عمل کی طرف اشارہ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ بہر حال اس قسم کی (رض) heories کے بارے میں جیسے جیسے جو جو عملی اشارے دستیاب ہوں ان کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ‘ اور آنے والے وقت کے لیے اپنے options کھلے رکھنے چاہیں۔ ہوسکتا ہے جب وقت کے ساتھ ساتھ کچھ مزید حقائق اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت سے انسانی علم میں آئیں تو ان آیات کے مفاہیم زیادہ واضح ہو کر سامنے آجائیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10. These verses should he read in conjunction with al-Baqarah 2: 30-9. The words in which the command to prostrate before Adam is mentioned may give rise to the misapprehension that it was Adam as such who is the object of prostration. This misapprehension should be removed by what has been said here. The text makes it very clear that prostration before Adam was in his capacity, as the representative of all mankind and not in his personal capacity. The successive stages of man's creation mentioned in the present verse ('We initiated your creation, then We gave you each a shape'), means that God first planned the creation of man, made ready the necessary materials for it, and then gave those materials a human form. Then, when man had assumed the status of a living being, God asked the angels to prostrate before him. The Qur'an says: And recall when your Lord said to the angels: 'I am about to create man from clay. When I have fashioned him (in due proportion) and breathed into him of My spirit then fall You down in prostration before him' (Sad 38: 71-2). Mention has been made in these verses, though in a difterent way, of the same three stages of creation: man's creation from clay; giving him a proportionate human shape; and bringing Adam into existence by breathing into him God's spirit. The following verses also have the same import: And recall when your Lord said to the angels: 'I am about to create man, from sounding clay moulded into shape from black mud. When I have fashioned him (in due proportion) and breathed into him of My spirit, fall you all down in prostration before him'(al-Hijr 15: 28-9). It is quite difficult for one to appreciate fully the details of the origin of man's creation. We cannot fully grasp how man was created out of the elements drawn from the earth; how he was given a form and a well-proportioned one at that and how God's Spirit was breathed into him. It is quite obvious, though, that the Qur'anic version of man's creation is sharply at odds with the theory, of creation propounded by Darwin and his followers in our time. Darwinism explains man's creation in terms of his evolution from a variety of non-human and sub-human stages culminating in homo sapiens. It draws no clear demarcation line that would mark the end of the non-human stage of evolution and the beginning of the species called 'man'. Opposed to this is the Qur'anic version of man's creation where man starts his career from the very beginning as an independent species, having in his entire history no essential relationship at all with any non-human species. Also, man is conceived as having been invested by God with full consciousness and enlightenment from the very start of his life. These are two different doctrines regarding the past of the human species. Both these doctrines give rise to two variant conceptions about man. If one were to adopt the Darwinian doctrine, man is conceived as essentially a species of the animal genre. Acceptance of this doctrine leads man to derive the guiding principles of his life, including moral principles, from the laws governing animal life. Given the basic premises of such a doctrine, animal-like behaviour is to be considered quite natural for man. The only, difference between man and animal lies in the fact that animals act without the help of the tools and instruments used by humans, and their behaviour is devoid of culture. Were one to accept the other doctrine, man would be conceived as a totally, distinct category. Man is no longer viewed simply as a talking or gregarious animal. He is rather seen as God's Vicegerent on earth. What distinguishes man from other animals, according to this doctrine, is not his capacity to speak or his gregariousness but the moral responsibility and trust with which he has been invested. Thus, one's whole perspective with regard to man and everything relating to him is changed. Rather than looking downwards to species of being lower than the human, man will turn his gaze upwards. It is claimed by some that however dignified the Qur'anic doctrine might be from a moral and psychological point of view, Darwinism should still be preferred on the basis of its being scientifically established. However, the very claim that Darwinism has been scientificaly established is itself questionable. Only those who have a very superficial acquaintance with modern science can entertain the misconception that the Darwinian theory of evolution has been scientifically, established. Those who know better are fully, aware that despite the vast paraphernalia of evidence in its support, it remains merely a hypothesis. The arguments marshalled in support of this theory at best succeed in establishing it as a possibility, but certainly not as an incontrovertible fact. Hence at the most what can he said is that the evolution of the species is as much a possibility as its direct creation.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :10 تقابل کےلیے ماحظہ ہو سورہ بقرہ ۔ آیات۳۰تا ۳۹ ۔ سورہ بقرہ میں حکم سجدہ کا ذکر جن الفاظ میں آیا ہے ان سے شبہ ہو سکتا تھا کہ فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم صرف آدم علیہ السلام کی شخصیت کے لیے دیا گیا تھا ۔ مگر یہاں وہ شبہ دور ہو جاتا ہے ۔ یہاں جو اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کو جو سجدہ کرایا گیا تھا وہ آدم ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ نوع انسانی کا نمائندہ فرد ہونے کی حیثیت سے تھا ۔ اور یہ جو فرمایا کہ” ہم نے تمہاری تخلیق کی ابدا کی ، پھر تمہیں صورت بخشی ، پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو ، “اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے پہلے تمہاری تخلیق کا منصوبہ بنایا اور تمہار مادہ آفرینش تیار کیا ، پھر اس مادے کو انسانی صورت عطا کی ، پھر جب ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے انسان وجود میں آگیا تو اسے سجدہ کرنے کے لیے فرشتوں کو حکم دیا ۔ اس آیات کی یہ تشریح خود قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہوئی ہے ۔ مثلاً سورہ صٓ میں ہے اِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَا ئِکَةِ اِنِّیْ خَالِق ٌۢبَشَرًامِّنْ طِیْنٍ° فَاِذَا سَوَّیْتُہ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رّ ُوْحِیْ فَقَعُوْالَہ سٰجِدِیْنَ° ( آیات ۷١ ۔ ۷۲ ) ”تصور کرو اس وقت کا جب کہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک بشر مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں ، پھر جب میں اسے پوری طرح تیار کرلوں اور اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ میں گر جانا ۔ “اس آیت میں وہی تین مراتب ایک دوسرے انداز میں بیان کیے گئے ہیں ، یعنی پہلے مٹی سے ایک بشر کی تخلیق ، پھر اس کا تسویہ ، یعنی اس کی شکل و صورت بنانا اور اس کے اعضاء اور اس کی قوتوں کا تناسب قائم کرنا ، پھر اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک کہ آدم کو وجود میں لے آنا ۔ اسی مضمون کو سورہ حِجْر میں بایں الفاظ ادا کیا گیا ہے ، وَاِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَا ئِکَةِ اِنِّیْ خَالِق ٌۢبَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ° فَاِذَا سَوَّیْتُہ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رّ ُوْحِیْ فَقَعُوْالَہ سٰجِدِیْنَ° ( آیات ۲۸ ۔ ۲۹ ) ”اور تصور کرو اس وقت کا جب کہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کے گارے سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں ، پھر جب میں اسے پوری طرح تیار کرلوں اور اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا ۔ “ تخلیقِ انسانی کے اس آغاز کو اس کی تفصیلی کیفیّت کے ساتھ سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے ۔ ہم اس حقیقت کا پوری طرح ادراک نہیں کر سکتے کہ موادِ ارضی سے بشر کس طرح بنایا گیا ، پھر اس کی صورت گری اور تعدیل کیسے ہوئی ، اور اس کے اندر روح بیان کرتا ہے جو موجودہ زمانہ میں ڈاروِن کے متبعین سائنس کے نام سے پیش کرتے ہیں ۔ ان نظریات کی رو سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچتا ہے اور اس تدریجی ارتقاء کے طویل خط میں کوئی نقطہ خاص ایسا نہیں ہو سکتا جہاں سے غیر انسانی حالت کو ختم قرار دے کر ”نوعِ انسانی “کا آغاز تسلیم کیا جائے ۔ بخلاف اس کے قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہوا ہے ، اس کی تاریخ کسی غیر انسانی حالت سے قطعاً کوئی رشتہ نہیں رکھتی ، وہ اوّل روز سے انسان ہی بنایا گیا تھا اور خدا نے کامل انسانی شعور کے ساتھ پوری روشنی میں اس کی ارضی زندگی کی ابتدا کی تھی ۔ انسانیت کی تاریخ کے متعلق یہ دو مختلف نقطہ نظر ہیں اور ان سے انسانیت کے وہ بالکل مختلف تصوّر پیدا ہوتے ہیں ۔ ایک تصور کو اختیار کیجیے تو آپ کو انسان اصلِ حیوانی کی ایک فرع نظر آئے گا ۔ اس کی زندگی کے جملہ قوانین حتٰی کہ اخلاقی قوانین کےلیے بھی آپ بنیادی اصول ان قوانین میں تلاش کریں گے جن کے تحت حیوانی زندگی چل رہی ہے ۔ اس کے لیے حیوانات کا سا طرزِ عمل آپ کو بالکل ایک فطری طرزِ عمل معلوم ہوگا ۔ زیادہ سے زیادہ جو فرق انسانی طرز عمل اور حیوانی طرز عمل میں آپ دیکھنا چاہیں گے وہ بس اتنا ہی ہوگا کہ حیوانات جو کچھ آلات اور صنائع اور تمدنی آرائشوں اور تہذیبی نقش و نگار کے بغیر کرتے ہیں انسان وہی سب کچھ ان چیزوں کے ساتھ کر لے ۔ اس کے برعکس دوسرا تصوّر اختیار کرتے ہی آپ انسان کو جانور کے بجائے”انسان“ہونے کی حیثیت سے دیکھیں گے ۔ آپ کی نگاہ میں وہ ” حیوانِ ناطق “یا ”متمدن جانور“نہیں ہوگا بلکہ زمین پر خدا کا خلیفہ ہوگا ۔ آپ کے نزدیک وہ چیز جو اسے دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے اس کا نطق یا اس کی اجتماعیت نہ ہوگی بلکہ اس کی اخلاقی ذمہ داری اور اختیارات کی وہ امانت ہوگی جسے خدا نے اس کے سپرد کیا ہے اور جس کی بنا پر وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہے ۔ اس طرح انسانیت اور اس کے جملہ متعلقات پر آپ کی نظر پہلے زاویہ نظر سے یک سر مختلف ہو جائے گی ۔ آپ انسان کے لیے ایک دوسرا ہی فلسفہ حیات اور ایک دوسرا ہی نظام اخلاق و تمدّن و قانون طرب کرنے لگیں گے اور اس فلسفے اور اس نظام کے اصول و مبادی تلاش کرنے کے لیے آپ کی نگاہ خود بخود عالم اسفل کے بجائے عالم بالا کی طرف اُٹھنے لگے گی ۔ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہ دوسرا تصور انسان چاہے اخلاقی اور نفسیاتی حیثیت سے کتنا ہی بلند ہو مگر محض اس تخیل کی خاطر ایک ایسے نظریہ کو کس طرح رد کر دیا جائے جو سائنٹیفک دلائل سے ثابت ہے“ لیکن جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع ڈاروینی نظریہ ارتقاء سائنٹیفک دلائل سے”ثابت ہو چکا ہے؟ سائنس سے محض سرسری واقفیت رکھنے والے لوگ تو بے شک اس غلط فہمی میں ہیں کہ یہ نظریہ ایک ثابت شدہ علمی حقیقت بن چکا ہے ، لیکن محققین اس بات کو جانتے ہیں کہ الفاظ اور ہڈیوں کے لمبے چوڑے سرو سامان کے باوجود ابھی تک یہ صرف ایک نظریہ ہی ہے اور اس کے جن دلائل کو غلطی سے دلائل ثبوت کہا جاتا ہے وہ دراصل محض دلائل اِمکان ہیں ، یعنی ان کی بنا پر زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ڈاروینی ارتقاء کا ویسا ہی امکان ہے جیسا براہِ راست عمل تخلیق سے ایک ایک نوع کے الگ الگ وجود میں آنے کا امکان ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: اس واقعے کی کچھ تفصیلات سور بقرہ (34:2 تا 39) میں گذری ہیں۔ ان آیتوں پر جو حواشی ہم نے لکھے ہیں، ان میں واقعے سے متعلق کئی سوالات کا جواب آگیا ہے۔ انہیں ملاحظہ فرما لیا جائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:11) صورناکم۔ ماضی جمع متکلم کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ صور یصور (باب تفعیل) تمہاری شکل و صورت بنائی۔ یہاں خطاب تو حاضرین کو ہے لیکن مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں یعنی ہم نے آدم کو پیدا کیا اس کو اچھی صورت بخشی اور پھر مرشتوں کو اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ اسلوب بیان قرآن میں عام ہے مثلاً حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمعصر یہودیوں کو فرمایا گیا واذ نجینکم من ال فرعون (2:49) اور یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے تم کو آل فرعون سے نجات دلائی۔ اس میں حالانکہ خطاب رسول اکرم کے زمانہ کے یہودیوں سے ہے لیکن مراد ان کے اسلاف ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہو گزرے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 وپر کی آیت میں تخویف وتر غیب کے ساتھ لوگوں کو انبیا کی دعوت قبول کرنے کی ترغیب دی اور ترغیب میں کثرت نعم کی طرف اشارہ تھا۔ اب یہاں سے انعامات کے بیان کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور خلق آدم سے اس سلسلہ کا آغاز فرمایا (کبیر) مطلب یہ ہے کہ پہلے آدم کا ہیولی بنایا اور پھر اس کی شکل و صورت بنائی۔3 اس سجدہ سے مراد مطلق تعظیم ہے یا حقیق طور پر سجدہ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة بقرہ آیت 24)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 2 ۔ آیات نمبر 11 تا 25: اسرار و معارف : انسانی زندگی محض ایک حادثہ نہیں اور نہ نیک و بد کی آویزش محض کھیل ہے اس کا ایک پس منظر ہے جو تمہاری بھلائی کے لیے بیان کردیا جاتا ہے مقصد سامنے آجائے گا تو کامیابی اور ناکامی کا اندازہ کرنا تمہیں آسان ہوگا اب تو صرف مادی ترقی کو کمال سمجھ رہے ہو پھر جان سکو گے کہ اول ضرورت روحانی ترقی کی ہے مادی کمالات اس کے تابع ہیں اگر روحانی ارتقا سے آدمی محروم ہوجائے تو مادی انکشافات دکھوں میں اضافہ ہی کرتے ہیں ان میں سے بھی بھلائی اور بہتری کا پہلو رخصت ہوجاتا ہے۔ اصل بات یوں ہے۔ انانیت : کہ ہم نے تمہیں یعنی تمہارے جد آدم (علیہ السلام) کو اس طرح پیدا فرمایا کہ ان کا مادہ تخلیق فرمایا پھر سے یجا کرکے ایک بہترین صورت عطا کی پھر اسے کائنات کے بارے علوم عطا فرمائے اور یوں مدتوں پہلے سے پیدا شدہ نوری اور اطاعت شعار مخلوق یعنی فرشتوں پر بھی اسے اس قدر برتری بخشی کہ انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا سب نے سر تسلیم خم کردیا مگر ایک ابلیس جو جنوں میں تھا مگر اپنی عباد و مجاہدے سے فرشتوں کے ساتھ دینے کا درجہ پا لیا تھا وہ نہ جھکا اور سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ فرمایا پوچھا گیا کہ جب بارگاہ صمدیت سے حکم تھا تو تجھے کونسی بات مانع ثابت ہوئی کیوں تعمیل ارشاد سے محروم رہا۔ تو پکار اٹھا اللہ میں اس سے بہتر ہوں۔ اسی کو انانیت کہا گیا ہے کہ آدمی جب ان اوصاف یا کمالات کو دیکھتا ہے جو اس کی ذات میں واقعی موجود ہوں تو بجائے اللہ کا شکر ادا کرنے کے ان پر اکڑ جاتا ہے اور خود کو اس کا اہل سمجھنا شروع کردیتا ہے چونکہ یہ سخت ترین گناہ اور ایسا جرم ہے جس پر ابلیس بھی رد ہوا لہذا وہ کوشش کرتا ہے کہ جو آدمی بھی قابو آئے اسے اسی گناہ میں مبتلا کرے تاکہ وہ ہلاکت و بربادی میں اس کا ساتھی بن جائے اگر غور کریں تو دنیا میں سب خرابیوں کی جڑ ہی جملہ ہے۔ انا خیر منہ۔ میں اس سے بہتر ہوں۔ اعاذنا اللہ منہا۔ اور اس پر دلیل یہ دی کہ آپ نے مجھے آگ سے پیدا فرمایا اور آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے۔ جاہل کہیں کا یہ کیسے ثابت ہے کہ آگ مٹی سے بہتر ہے لیکن اس بحث کی ضرورت بھی کیا ہے جب خود یہ اقرار کر رہا ہے کہ خالق آپ ہی ہیں آپ ہی نے مجھے آگ سے اور انہیں مٹی سے پیدا فرمایا ہے تو یہ کیوں نہ جان سکا کہ حکم بھی تو وہی ہستی دے رہی ہے لہذا کون بہتر ہے اور کون نہیں وہ خوب جانتا ہے مگر تکبر جو اس کے اندر تھا اس نے اسے اندھا کردیا۔ تکبر کے باوجود ترقی ہوتی ہے مگر پائیدار نہیں : ارشاد ہوا یہاں سے یعنی آسمانوں سے نیچے چلے جاؤ تمہیں یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ ان رفعتوں پہ تکبر کا اظہار کرو نکل جاؤ کہ تم ذلیل ہو۔ یہی حال بعض طالبوں کا ہوتا ہے کسی شیخ کامل کی صحبت نصیب ہو تو مراقبات اور درجات روحانی طے کرتے جاتے ہیں اگرچہ اندر اپنی بڑائی کا خیال ہی چھپا ہوا و مگر ایسے لوگ آخر کار اظہار تکبر پر یک لخت گر کر تباہ ہوجاتے ہیں اور لوگوں کی گمراہی اور تباہی کا سبب بنتے ہیں یاد رہے مخلصین کو گمراہ نہیں کرسکتے انہیں کو ساتھ ملاتے ہیں جن میں یہ مادہ ہو کہنے لگا اللہ مجھے یوم حشر تک زندہ رہنے دے تو اللہ نے ایک خاص وقت مہلت عطا فرما دی۔ اللہ قادر ہے دنیا میں کافر کی دعا بھی قبول کرلے تو اسے کوئی مانع نہیں مگر آخرت میں کافر کی دعا قبول نہ فرمائے گا یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے ابلیس نے تو حشر تک مہلت بخشی اور تھوڑی سی تبدیلی سے دعا قبول فرمائی حدیث شریف میں وضاحت ہے کہ جب دنیا فنا ہوگی یعنی پہلا نفخہ ہوگا تو ابلیس کو موت آئے گی۔ کافر کی دعا : کہنے لگا جس طرح تو نے مجھے گمراہ کردیا میں بھی تیری راہ میں ڈیرہ ڈالوں گا اور اولاد آدم (علیہ السلام) کو ہر طرف سے گھیرنے کی اور راستے سے بھٹکانے کی پوری کوشش کروں گا اور اے اللہ تو دیکھ لے گا کہ اکثر تیری ناشکری کریں گے اور میری بات مانیں گے۔ گناہ کی نسبت تقدیر کی طرف کرنا شیطانی کام ہے : فرمایا دفع ہوجا اور رد ہو کر تیرا ٹھکانہ تو جہنم ہے یہی جو تیری اطاعت کریں گے ان کو بھی تیرے ہمراہ کردوں گا یہ حالت تب ہوتی ہے جب گناہ سے دل سیاہ ہوجائے تو آدمی برائی کو تقدیر کا اثر بتا کر اللہ کے ذمہ کرنے لگتا ہے اور بارگاہ الہی میں شیطان کی طرح بےباک ہوجاتا ہے۔ آدم (علیہ السلام) کو حکم دیا آپ اور آپ کی زوجہ مھترمہ دونوں جنت میں رہو اور جو چاہو کھاؤ پیو مگر اس ایک درخت کے قریب مت جانا ورنہ غلط کام کر بیٹھو گے۔ ابلیس کو یہ خبر تھی کہ اس غذا سے انسانی توالد و تناسل کے آلات اپنا کام کرنے لگیں گے اور ظاہر ہوجائیں گے جن سے ابھی آدم (علیہ السلام) آگاہ نہ تھے کمال قدرت دیکھئے جہان کی اشیاء کا علم عطا کردیا مگر اپنے وجود کے اسرار سے ابھی واقف نہ تھے لہذابلیس نے وسوسے القا کرنے شروع کردئیے اور کہنے لگا اگر تم یہ کھالو تو فرشتوں کی طرح ہوجاؤ گے اور یہیں ہمیشہ رہنے لگو گے پھر تمہیں زمین پر جانے کی ضرورت پیش نہیں آئیگی اس پر اللہ کی قسمیں دیں کہ صرف آپ کی بھلائی کے لیے کہہ رہا ہوں وہ دھوکے میں آگئے ان کے دل تو شفاف تھے وہ یہ بھی نہ کرسکے کہ کوئی جھوٹ پر بھی اللہ کی قسم کھا سکتا ہے مگر ابلیس کا دل سیاہ تھا ان کے سامنے قسمیں دیں تو جب انہوں نے وہ پھل چکھا ہی تھا کہ ان کی شرمگاہیں ظاہر ہوگئیں تب وہ جنت کے بڑے بڑے پتوں سے جسم ڈھانپنے لگے تو ارشاد ہوا کیا اس پھل کے کھانے سے روکا نہیں گیا تھا اور یہ بتا نہیں دیا تھا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے اگرچہ ان سے دھوکا ہوا مگر حکم الہی کے خلاف تو صادر ہوا تھا لہذا پکار اٹھے اے ہمارے پروردگار اے ہماری امیدوں کے مرکز ہم اپنی جانوں پہ زیادتی کرچکے اب اگر تیری رحمت و مغفرت ہمیں تھام نہ لے تو ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں فرمایا ٹھیک ہے اب تم جاؤ زمین پہ رہو بسو وہیں تمہاری دنیا کی زندگی ہے اور وہیں تمہیں اور تمہاری نسل کو موت آئے گی لیکن یہ بات یاد رکھو کہ اب یہ دشمنی تمہارے درمیان چلتی رہے گی لہذا اس سے غافل نہ ہوجانا کہ تمہیں پھر سے زندہ ہو کر اپنی اس منزل یعنی جنت میں ہپنچنا ہے ایسا نہ ہو کہ دشمن انسانیت تمہیں پھر دھوکا دے کر ایسے افعال میں مبتلا کردے کہ اصل راہ سے بھٹک کر منزل سے محروم ہوجاؤ ۔ خطاب اگر آدم (علیہ السلام) کو ہے مگر مراد ساری نسل آدم ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 11 تا 18 : صورنا ( ہم نے صورت شکل بنائی) اسجدوا (تم سجدہ کرو) ابلیس (شیطان) الا تسجد ( یہ کہ تو نے سجدہ نہیں کیا) امرت ( میں نے حکم دیا تھا) ‘ اناخیر ( میں زیادہ بہتر ہوں) خلقتنی ( تو نے مجھے پیدا کیا) نار (آگ) طین (مٹی) اھبط ( اترجا) ان تتکبر ( یہ کہ تو بڑائی کرے۔ تکبر کرے) اخرج ( تو نکل جا) الصغرین ( صاغر) ذلیل۔ رسوائی والے) انظرنی ( تو مجھے مہلت دے دے) یبعثون ( وہ اٹھائے جائیں گے) المنظرین ( مہلت دیئے گئے) ‘ اغویتنی ( تو نے مجھے گمراہ کیا) اقعدن ( میں ضرور بیٹھوں گا) ‘ اتین ( میں ضرور آؤں گا) بین ایدی (سامنے) خلف ( پیچھے) ایمان (داہنی جانب) شمائل ( بائیں جانب) لاتجدو تو نہیں پائے گا) مذموما ( ذلیل کیا گیا) مدحورا ( دھر) نکالا گیا۔ مردود) ‘ املئن ( میں بھردوں گا) ۔ تشریح : آیت نمبر 11 تا 18 : ہر وہ شخص جو قرآن کریم کا غور وفکر کے ساتھ مطالعہ کرتا ہے ‘ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کسی بھی واقعہ کو قصہ کہانی کا رنگ نہیں دیا ہے بلکہ عبرت و نصیحت کے ہر پہلو کو اس طرح اجاگر کر کے پیش کیا ہے کہ وہ کفار و مشرکین کے لئے ایسا آئینہ بن گیا ہے جس میں ان کی اپنی شکل و صورت خاص جھلکتی نظر آتی ہے آدم (علیہ السلام) اور شیطان کے متعلق ان آیات میں عبرت و نصیحت کا یہی پہلو نمایاں ہے۔ قرآن کریم میں حضرت اذآدم (علیہ السلام) کی عظمت ‘ شیطان کی نافرمانی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ذکر متعدد مقامات پر کیا گیا ہے اور ہر جگہ ایک نئی شان سے عبرت و نصیحت کے لئے نئے نئے پہلوؤں کو پیش فرمایا ہے۔ (1) ایک طرف آدم (علیہ السلام) ‘ ان کی ذریت کی تخلیق اور ان کے اور حضرت حوا کے جنت میں قیام کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ 2) دوسری طرف شیطان کے غرور ‘ تکبر ‘ اپنی ذات کی بڑائی کا گمنڈ ‘ ضد ‘ ہٹ دھرمی اور نافرمانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ 3) اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت ‘ حلم و تحمل ‘ برداشت اور مہلت پر مہلت دینے کی شان بیان کی گئی ہے جس سے اس کی رحمت کا ملہ کا اظہار ہوتا ہے۔ قرآن کریم کے سب سے پہلے مخاطب مکہ مکرمہ کے کفار و مشرکین ہیں جن کے سامنے اس سچائی کو رکھا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا ‘ ان کی شکل و صورت بنائی علم کے ذریعہ فرشتوں اور پوری کائنات پر ان کو فضیلت و عظمت کا مقام عطا فرمایا ‘ ان کو جنت کی راحتوں میں رکھ کر ہر طرح ہر چیز کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی مگر صرف ایک درخت سے روک دیا گیا کہ اس کے قریب بھی مت جانا۔ ابلیس جو حسد کی بنا پر آدم (علیہ السلام) سے بدلہ لینا چاہتا تھا ۔ ان کے خیر خواہ کے بھیس میں ان کو بہکانے میں کامیاب ہوگیا اور حضرت آدم و حوا نے وہ اجتہادی غلطی کردی جس سے منع کیا گیا تھا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو جنت کی راحتیں سے محروم کر کے اس دنیا میں بھیج دیا اور فرمایا کہ اب تمہیں ایک خاص مدت تک اس دنیا میں رہنا ہے اور اپنے نیک اعمال کے بعد پھر تمہیں اسی جنت میں واپس آنا ہے۔ آدم (علیہ السلام) وحوا کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے ضد اور ہٹ دھرمی کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا ‘ معافی کے لئے ندامت کے آنسو بہانا شروع کردیئے۔ عرض کیا۔ ” اے ہمارے پروردگار ہم نے واقعی اپنے اوپر بہت ظلم و زیادتی کی ہے اگر آپ نے ہمیں معاف نہ کیا تو ہم کہیں کے نہ رہیں گے “۔ اللہ تعالیٰ کو انپے بندے کی اس ادا پر بہت پیار آتا ہے جب وہ غلطی کرنے کے بعد اس پر اپنی شرمندگی کا اظہار کرتا ہے اور ندامت کے آنسو بہاتا ہے ‘ آدم (علیہ السلام) کے اس اقرار و اعتراف کے بعد اللہ تعالیٰ خود ہی ان کو ایسے جملے سکھادیئے جن کو ادا کرنے کے بعد اللہ نے ان کو اس خطا کو معاف کردیا۔ بات صرف اتنی ہے کہ آدم (علیہ السلام) سے خطا ہوئی انہوں نے اس پر معافی مانگ لی ‘ اللہ نے اسی وقت انکو معاف کردیا ان کو غلطی اور معافی ان کی ذات تک محدودرہی۔ فرمایا جارہا ہے کہ اب انسانوں کی یہ کتنی بڑی بد قسمتی ہے کہ وہ عقل و فکر کا راستہ چھوڑ کر جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں اور آدم (علیہ السلام) کی غلطی کو کائنات کے ہر انسان کا گناہ بنا رہے ہیں۔ فرمایا کہ یہ تصور ہی غلط ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے ایک گناہ کیا۔ اور وہ گناہ ان کی نسلوں میں چلتارہا اور (نعوذ باللہ) ساری دنیا کے وہ انسان جنہوں نے اس زمین پر قدم رکھا تو وہ آدم کے گناہ اپنے سر پر لے کر آتے رہے بقول ان کے اللہ کو اپنے بندوں پر پیار آیا تو اس نے اپنا بیٹا (نعوذ باللہ) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا اور وہ آدم (علیہ السلام) اور سارے انسانوں کی گناہ اپنی گردن پر لے کر سولی پر چڑھ گئے سوال یہ ہے کہ خطا ایک نے کی گناہ گار ساری دنیا ہوگئی خطا آدم (علیہ السلام) نے کی اور نعوذ باللہ اللہ نے اپنا بیٹا بھیجا اور انہوں نے پھانسی کا پھندا اپنے گلے میں ڈال لیا یہ بھی خوب ہے کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی ‘ کیا آج کی مہذب دنیا اس بات کا کوئی جواب دے سکتی ہے کہ قتل کوئی کرتا ہے اور اس کی سزا دوسرے کو دے دی جاتی ہے۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے تو پھر یہ کون سی عقل کی بات ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی غلطی کو اللہ اپنے بیٹے کے ذریعہ دور کررہے ہیں۔ فرمایا کہ بات صرف اتنی ہے کہ جو غلطی کرتا ہے جب وہ اس پر شرمندہ ہو کر اللہ سے معافی مانگتا ہے تو اللہ اس کو معاف کردیتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی متعدد احادیث میں اس بات کو واضح فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ جب اللہ کا کوئی بندہ نادانی سے کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے اور پھر وہ اس پر ہٹ دھرمی اور ضد کا انداز اختیار نہیں کرتا تو اللہ اس کو معاف فرما دیتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کو وہ شخص بہت پسند ہے جو کسی گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے لیکن اس کو جیسے ہی اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو وہ سچے دل سے توبہ کرلیتا ہے اور پختہ ارادہ کرلیتا ہے کہ اب وہ اس گناہ کو نہیں کرے گا پھر کبھی اس سے غلطی ہوتی ہے اور بھولے سے کوئی گناہ کرلیتا ہے اور بار بار ایسا کرتا ہے اور بار بار معافی مانگ لیتا ہے اور سچے دل سے توبہ کرلیتا ہے تو اللہ اس کو معاف فرماتارہتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو گناہ پر گناہ کئے جاتے ہیں اور بےحسی سے ان کے دل تاریک ہوجاتے ہیں اور پھر نہ تو وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں اور نہ اس احساس کو زندہ رہنے دیتے ہیں ایسے لوگوں کا انجام سوائے دنیا و آخرت کی بربادی کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ اور ایسے عادی گناہگاروں کے ساتھ نرمی کا کوئی معاملہ نہیں کیا جاتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) وحوا سے ایک لغزش ہوئی ‘ انہوں نے معافی مانگ لی ‘ اللہ نے معاف کردیا۔ ان آیات میں اس طرح طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ جب اللہ نے بات کی پوری طرح وضاحت کردی۔ اب اس بات پر جم کر اس کو عقیدہ بنالینا کہ نعوذ بااللہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں یہ بھی ایک ضد اور ہٹ دھرمی ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ 2) دوسری طرف ابلیس ہے جو اس گمان میں مبتلا تھا کہ آدم (علیہ السلام) کے مقابلے میں وہ ہر طرح باعظمت ہے کیونکہ اس کے وجود کو آگ سے اور آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے آگ کا کام سربلندی اور روشنی ہے جب کہ مٹی میں تاریکی اور پستی ہے۔ حالانکہ یہاں بات آگ اور مٹی کی نہیں تھی۔ بات تھی حکم کی تعمیل کی تمام فرشتوں نے انسان کی عظمت کا اعتراف کرلیا اور سجدہ میں گر پڑے جب کہ شیطان اپنی ہٹ دھرمی پر جمارہا اور اس نے اللہ کے حکم کی تعمیل نہیں کی ‘ اس نے توبہ نہیں کی ‘ کسی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا اسے اپنی اس حرکت پر نہ کوئی صدمہ تھا اور نہ افسوس ‘ ڈھٹائی اور ضد کا انداز اختیار کیا ‘ اس نے اللہ سے قیامت تک مہلت مانگی جو اس کو دے دی گئی۔ شیطان نے کہا کہ میں ثابت کردوں گا کہ انسان بہت کمزور ہے اس کو میں ہر طرف سے گھیروں گا ‘ اس کے ہر نیک راستے اور ارادہ کی روکاوٹ بن جاؤں گا۔ اے اللہ آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے اکثر آپ کے نافرمان اور ناشکرے ہوں گے۔ اللہ نے فرمایا کہ اے شیطان تجھے تیری خواہش کے مطابق قیامت تک مہلت دی جاتی ہے لیکن اس بات کو یاد رکھنا کہ تیرے فریب میں صرف وہی لوگ آئیں گے جو بد نصیب اللہ کے نافرمان ہوں گے۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں سے میں جہنم کو بھردوں گا اور جہنم ہی ان کا ٹھکانا ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ١١ تا ١٨۔ یہ پہلا منظر ہے اس قصے کا ۔ نہایت ہی دلچسپ ‘ نہایت ہی اہم ۔ ہم اس قصے کے مناظر اس کی تفسیر سے پہلے پیش کریں گے ۔ ان مناظر سے فارغ ہونے کے بعد ہم اس قصے کے اشارات واثرات پیش کریں گے ۔ آیت ” وَلَقَدْ خَلَقْنَاکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآئِکَۃِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ لَمْ یَکُن مِّنَ السَّاجِدِیْنَ (11) ” بیشک ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتداء کی ‘ پھر تمہاری صورت بنائی ‘ پھر فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو ‘ اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا ۔ لفظ خلق کبھی تو محض وجود میں لانے کے لئے آتا ہے ۔ اسی طرح تصویر کا مفہوم کبھی یہ ہوتا ہے کہ کسی چیز کو شکل و صورت اور خصائص دینا ۔ اس اعتبار سے خلق وتصویر کی تخلیق کے دو مرحلے نہیں ہوتے بلکہ بیک وقت کسی تخلیق میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ لازمی نہیں ہے کہ ثم کا لفظ ہمیشہ ترتیب زمانی کے لئے استعمال ہو ۔ یہ معنوی ترقی کے مفہوم میں بھی آتا ہے ۔ معنوی اعتبار سے محض وجود کے مقابلے میں مصور ہونا زیادہ ترقی یافتہ شکل ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ محض مادے پر بھی وجود کا اطلاق ہوتا ہے ۔ البتہ تصویر کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں مجرد وجود ہی نہیں بخشا گیا بلکہ ایک ترقی یافتہ مصور اور صاحب خصائص و کمالات وجود دیا گیا ہے ۔ دوسری جگہ آیت ” الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی “۔ جس نے ہر چیز کو اس کا وجود بخشا اور پھر ہدایت دی “۔۔۔۔ ۔۔ اس لئے کہ اللہ نے ہر چیز کو اس کے خصائص اور اس کے مقاصد وفرائض اسی وقت دے دیئے تھے جس وقت انہیں پیدا کیا تھا اور تخلیق کے وقت ہی ہدایت کردی تھی کہ اپنے ان وظائف وفرائض کے لئے کام کرو ‘ اور تخلیق اور ہدایت کے درمیان کوئی زمانی فاصلہ نہ تھا ۔ اگر ہدایت سے مراد رب کی طرف ہدایت لی جائے تب بھی مفہوم میں کوئی فرق نہیں آتا کیونکہ تخلیق کرتے ہی اللہ نے انسان کو ہدایت کردی تھی ۔ اسی طرح آدم کو بھی خصائص انسانیت تخلیق کے وقت ہی دے دیئے گئے تھے ۔ اور ثم کا لفظ یہاں ترقی اور مرتبہ کی بڑائی کے معنوں میں ہے ۔ زمانہ ماقبل یا مابعد کے معنی میں نہیں ہے ۔ ہمارے خیال میں یہی مفہوم درست ہے ۔ بہرحال خلق آدم کے بارے میں جس قدر نصوص وارد ہیں اور اس کرہ ارض کے اوپر نسل انسانی کے بارے میں جس قدر آیات آئی ہیں ان سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ انسان کو اس کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کے انسانی خصائص اور فرائض منصبی دے دیئے گئے تھے اور انسانی تاریخ میں جو ترقی نظر آتی ہے وہ صرف ان صلاحتیوں کے ظہور میں ہوئی ہے انسان کے تجربے اور اس کی مہارت میں اضافہ بہرحال ہوتا ہے ۔ یہ ترقی انسان کے وجود اور اس کی ذہنی صلاحیت میں نہیں ہوئی لہذا یہ فلسفہ بالکل غلط ہے جو ڈارون نے گھڑا ہے کہ انسان کی ساخت میں ترقی ہوتی رہی ہے۔ ڈارون کا یہ نظریہ کہ حیوانات کے انواع میں ترقی ہوتی رہی ۔ آثار قدیمہ اور پتھروں کی کھدائی پر مبنی ہے ۔ اور محض ظن وتخمین ہے ۔ طبقات الارض کے لحاظ سے بھی پتھروں اور پہاڑوں کی عمر کا تعین کوئی یقین امر نہیں ہے ۔ یہ محض ظنی اور تخمینی فیصلے ہیں۔ مثلا شعاعوں کے ذریعے ستاروں کی عمر معلوم کرنا ۔ یہ علوم جو محض ظن وتخمین اور مفروضوں پر مبنی ہیں۔ ان کے مقابلے میں دوسرے مفروضے بھی ہوسکتے ہیں جو ان سے زیادہ معقول ہو سکتے ہیں ۔ اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ پتھروں اور چٹانوں کی عمر یقینی طور پر متعین ہوگئی ہے تب بھی یہ ممکن ہے کہ قدیم زمانوں سے حیوانات کی مختلف اقسام اپنی موجودہ شکل میں تھیں ۔ ان ادوار میں ان کے لئے حالات ساز گار تھے لیکن بعد میں ان کے لئے حالات ساز گار نہ رہے اور ان کی نوع دنیا سے ختم ہوگئی ۔ لیکن اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ ان میں سے ایک نوع دوسری نوع کی ترقی یافتہ شکل ہے ۔ ہم دونوں کو مستقل انواع مان سکتے ہیں ۔ ڈارون کی کھدائیاں اور اس کے بعد دریافت ہونے والے انواع اس سے زیادہ کچھ ثابت نہیں کرسکتے ۔ ان چٹانی تصاویر سے صرف یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی ایک نوع سے زیادہ ترقی یافتہ نوع فلاں وقت میں موجود تھی اور اس بات کی تاویل کی جاسکتی ہے کہ اس وقت اس نوع کے وجود کے لئے حالات سازگار تھے اور بعد میں حالات ناساز گار ہونے کے باعث وہ نوع ختم ہوگئی اور اس کی جگہ دوسری قسم کے حیوانات وجود میں آگئے اور ترقی کر گئے ۔ اس لئے ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نوع انسانی روز اول سے ایسی ہی ہے جس طرح کہ آج ہے اور اسے اللہ تعالیٰ زمین پر اس وقت وجود میں لائے جب یہاں کے حالات انسان کے لئے ساز گار بنا دیئے گئے ۔ تمام قرآنی نصوص اسی بات کی تائید کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ انسانی طبیعیاتی ‘ عضویاتی اور عقلی و روحانی اعتبار سے اس قدر منفرد ہے کہ دور جدید کے ڈارونی بھی اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے مجبور ہوگئے ہیں کہ انسان کسی دوسری نوع کی ترقی پذیر نوع نہیں ہے اور وہ کسی دوسری نوع کے ساتھ عضویاتی مماثلت نہیں رکھتا ۔ حالانکہ ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو سرے سے ذات باری کے قائل ہی نہیں ہیں اور ان کی جانب سے یہ ایک قسم کا اعتراف ہے کہ انسان کا وجود اور اس کی نشوونما بالکل منفرد ہے ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا اعلان فرشتوں کے اجتماع میں کیا اور یہ اجتماع عالم بالا میں منعقد ہوا ۔ آیت ” ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآئِکَۃِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ لَمْ یَکُن مِّنَ السَّاجِدِیْنَ (11) پھر ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو ‘ اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا ۔ ملائکہ اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مستقل مخلوق ہے اور ان کے اپنے خصائص وفرائض ہیں ۔ ہم ان کے بارے میں اسی قدر جانتے ہیں جس قدر اللہ نے ہمیں بتایا ہے ۔ ظلال القرآن میں ہم اس سے قبل فرشتوں کے بارے میں ایک نوٹ دے آئے ہیں ۔ اسی طرح ابلیس بھی ایک مستقل نوع کی مخلوق سے تعلق رکھتا ہے ۔ قرآن میں کہا گیا ہے کان من الجن نفسق عن امر ربہ ” یہ جنوں میں سے تھا ‘ اس نے اپنے رب کی حکم عدولی کی “۔ جنات فرشتوں سے الگ ایک مخلوق ہیں۔ ان کے بارے میں بھی ہم اسی قدر جانتے ہیں جس قدر ہمیں اللہ نے بتایا ہے ۔ ان کے بارے میں بھی ہم نے ایک مجمل حاشیہ اسی پارے میں دے دیا ہے ۔ اس سورة میں آگے جا کر یہ بات آئے گی کہ ابلیس آگ سے پیدا ہوا اس لئے وہ ملائکہ سے الگ ایک مخلوق سے وابستہ ہے ۔ ابلیس کو بھی حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا گیا تھا اس لئے کہ یہ زمرہ ملائکہ میں شامل تھا اور اس وقت وہ عالم بالا کی اس محفل میں موجود تھا ‘ جہاں تخلیق آدم کی تقریب ہوئی ۔ رہے فرشتے تو وہ تو ایسی مخلوق ہیں جو اللہ کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور انہیں جو حکم دیا جائے اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں اس لئے انہوں نے مطیع فرمان ہو کر سجدہ کردیا اور اللہ کے حکم کی تعمیل کردی ۔ کیونکہ وہ کسی معاملے میں نہ تردد کرتے ہیں نہ تکبر کرتے ہیں اور نہ وہ اللہ کی نافرمانی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں ‘ چاہے کوئی سبب اور کوئی جواز ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ان کا مزاج ہے ۔ یہ اطاعت شعاری ان کی خصوصیت ہے اور یہ انکے فرائض منصبی میں شامل ہے ۔ اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت انسان کی ذات کس قدر مکرم ہے اور یہ بھی عیاں ہوجاتا ہے کہ فرشتے اللہ کے مطیع مطلق ہیں ۔ رہا ابلیس تو اس نے امتثال امرنہ کیا اور نافرمانی کردی۔ یہ بات آگے آرہی ہے کہ کس وجہ سے اس کے دل میں خلجان پیدا ہوا ۔ اس پر کیا خیالات چھاگئے جس کی وجہ سے اس نے نافرمانی کی جرات کی ؟ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اللہ رب العالمین ہے اور خود اس کا بھی خالق ہے ۔ وہ اس کے امور اور خود اس کے وجود کا بھی مالک ہے ‘ اسے ان معاملات میں کوئی شک نہیں تھا ۔ اس منظر میں اللہ کی مخلوقات کے تین نمونے پائے جاتے ہیں ۔ ایک نمونہ وہ ہے جو ہر لحاظ سے مطیع فرمان ہے اور اس کی فطرت میں تعمیل امر ہے ۔ دوسرا نمونہ ہے جو مکمل طور پر نافرمان ہے اور اس کی فطرت میں استکبار اور نافرمانی ہے۔ تیسری مخلوق انسانی مخلوق ہے ۔ اس کی صفات ‘ اس کی کمزوریوں اور کمالات پر بھی عنقریب بات ہوگی ۔ پہلی قسم کی مخلوق خالص الہی مخلوق ہے اور انہوں نے اپنا فرض اس محفل ہی میں پوری طرح ادا کردیا ۔ دوسری دو قسم کی مخلوقات کے بارے میں عنقریب تفصیلات آئیں گی کہ ان کے رجحانات کیا ہیں ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ابلیس کا آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کرنا اور اللہ رب العزت پر اعتراض : پھر فرشتوں سے فرمایا ان کو سجدہ کرو (جیسا کہ سورة بقرہ میں گزر چکا) سب فرشتوں نے سجدہ کرلیا (یہ سجدہ تعظیمی تھا سجدہ عبادت نہیں تھا) وہیں ابلیس بھی تھا۔ یہ تھا تو جنات میں سے لیکن زیادہ عبادت کرنے کی وجہ سے وہیں فرشتوں کے ساتھ آسمان میں رہتا تھا۔ اس کو بھی حکم دیا تھا کہ آدم کو سجدہ کر، اس نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ حکم عدولی کی بلکہ باری تعالیٰ شانہٗ نے جب سوال فرمایا کہ میں نے تجھے ان کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو تو نے سجدہ کیوں نہ کیا ؟ اس پر وہ کٹ حجتی کرنے لگا اور اللہ تعالیٰ کے حکم ہی کو غلط بتادیا وہ کہنے لگا کہ (اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ) (کہ میں اس سے بہتر ہوں) جو بہتر ہے اسے حکم دینا کہ اپنے سے کم تر کو سجدہ کرے یہ تو حکمت کے خلاف ہے۔ پھر بہتر ہونے کی یہ دلیل بیان کی کہ مجھے آپ نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے پیدا کیا اور آگ مٹی سے بہتر ہے لہٰذا میں اس سے افضل ہوں اس نے غلط دلیل دی کیونکہ آگ کی طبیعت میں فساد ہے اور اس کا زیادہ تر کام یہی ہے اور مٹی کی طبیعت میں تعمیر ہے اس میں آباد کاری کی طبیعت ہے تواضع ہے اس کے اندر غذائیں ہیں معا دن ہیں، اشجار ہیں اور بہت ہی خوبی کی صفات ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10: یہ دوسرے دعوے کی تمہید ہے جو اس پورے رکوع میں ذکر کی گئی ہے۔ اس میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم، ابلیس کی نافرمانی اس کے ملعون و مطرود ہونے اور آدم و حواعلیہما السلام سے اس کی عداوت اور اس کی وجہ سے جنت میں ان کے برہنہ ہوجانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ “ ثُمَّ قُلْنَا الخ ”“ ثُمَّ ” یہاں تعقیب ذکری کے لیے ہے ورنہ ماقبل سے مرتبط نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کا حکم اولاد آدم کی پیدائش سے پہلے ہوا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ واقعہ بھی اس کے بعد بیان کرو۔ لہذا اس سے یہ مطلب نکالنا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے پہلے بھی دنیا میں انسان موجود تھے۔ سراسر باطل ہے اور کج فہمی پر مبنی ہے۔ بعض مفسرین نے “ خَلَقْنٰکُمْ ” اور “ صَوَّرْنٰکُمْ ” میں مضاف مقدر مانا ہے۔ خلقنا اباکم ادم (علیہ السلام) طینا غیر مصور ثم صورناہ الخ (روح ج 8 ص 86) ۔ لیکن ثم کو تعقیب ذکری پر محمول کرنے کی صورت میں اس تقدیر کی ضرورت نہیں رہتی۔ 11: ابلیس فرشتوں میں سے نہیں تھا لیکن سجدہ کرنے کا حکم اسے بھی ہوا تھا مطلب یہ ہوگا کہ فرشتوں کو حکم دیا تو وہ مان گئے اور ابلیس کو بھی حکم ہوا مگر وہ نہیں مانا۔ عرف عام میں ایسے موقعوں پر حذف سے کام لیا جاتا ہے مثلاً کہا جاتا ہے فلاں شہر والوں کو وعظ کیا وہ مان گئے لیکن فلاں شہر والوں نے نہیں مانا یعنی ان کو بھی وعظ کیا تھا لیکن وہ نہیں مانے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 1 اور بالتحقیق ہم ہی نے تم کو یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو بنایا۔ پھر ہم نے تمہاری صورت بنائی یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کی شکل و صورت بنائی پھر ہم نے تمام فرشتوں سے کہا کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کرو پس سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے سجدہ نہیں کیا اور وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہیں ہوا۔ یعنی ابتداً حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور مٹی سے ان کی لگدی بنائی گئی پھر اس لگدی میں آدم (علیہ السلام) کی شکل و صورت بنائی گئی پھر آدم (علیہ السلام) کو اشیاء کے نام کی تعلیم دینے کے بعد ان کی اشرفیت اور ان کی فوقیت کے اظہار کے لئے سجدے کا حکم دیا گیا۔ اس حکم کی سوائے ابلیس کے سب نے تعمیل کی مگر وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہیں ہوا۔