Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 113

سورة الأعراف

وَ جَآءَ السَّحَرَۃُ فِرۡعَوۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ لَنَا لَاَجۡرًا اِنۡ کُنَّا نَحۡنُ الۡغٰلِبِیۡنَ ﴿۱۱۳﴾

And the magicians came to Pharaoh. They said, "Indeed for us is a reward if we are the predominant."

اور وہ جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوئے کہنے لگے کہ اگر ہم غالب آئے تو ہم کو کوئی بڑا صلہ ملے گا؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Magicians convene and change Their Ropes into Snakes before Musa Allah tells, وَجَاء السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالْواْ إِنَّ لَنَا لاَجْرًا إِن كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِينَ قَالَ نَعَمْ وَإَنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ

جادو گروں نے پہلے ہی فرعون سے قول و قرار لے لیا تاکہ محنت کالی نہ جائے اور اگر ہم جیت جائیں تو خالی ہاتھ نہ رہ جائیں ۔ فرعون نے وعدہ کیا کہ منہ مانگا انعام اور ہمیشہ کیلئے خاص درباریوں میں داخلہ دوں گا ۔ یہ قول و قرار لے کر میدان میں اتر آئے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْٓا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا۔۔ : جادوگروں کے سامنے کوئی بلند مقصد نہ تھا، بلکہ محض پیشہ ورانہ کمائی تھی، اس لیے انھوں نے پہلے فرعون سے بطور سوال اس کا تقاضا کیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Its diction and style so bewildered the Arabs that they instantly acknowledged a super human element in it. The sorcerers came to Pharaoh and said: إِنَّ لَنَا لَأَجْرً‌ا إِن كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِينَ |"There must be a reward for us, if we are the victors.|" (113) He said, نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّ‌بِينَ |"Yes, and of course, you will be among the closer ones.|" (114) The sorcerers were invited from all over the country. When they all came to Pharaoh they asked him of some reward if they gain victory over Musa (علیہ السلام) . He promised that in addition to their reward they shall be included among those close to him. The historical reports about the number of these sorcerers give us different information. These give us a number from nine hundred to three hundred thousand. The quantity of the staves and strings used in this contest is reported to be as great as was loaded on three hundred camels. (Qurtubi) It may be noted that the first thing the sorcerers did, was to have an assurance about the reward they will get in return of their perfor¬mance. It is because worldly people are always after worldly gains. They do nothing unless they are sure of their gains, while on the contrary, the prophets and their disciples always declare: وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ‌ ۖ إِنْ أَجْرِ‌يَ إِلَّا عَلَىٰ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٠٩﴾ I do not ask you for a reward, as my reward is with the Lord of all the worlds.& (26:109) That is, the prophets of Allah preach and convey the message of Allah only for the good and guidance of people and they seek no finan¬cial gain against it. They seek their reward from Allah alone. After this discourse with Pharaoh the sorcerers got the place and date fixed for the great encounter. An open land was chosen for the purpose and the time was fixed after the sunrise on their festival Day. It is also mentioned in a verse of the Holy Qur&an: Musa (علیہ السلام) said: قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ وَأَن يُحْشَرَ‌ النَّاسُ ضُحًى ﴿٥٩﴾ ,, your appointed day is the day of &zinah& so that people may be gathered after sunrise.|" (20:59) Some reports say that the prophet Musa (علیہ السلام) had a short conversation with the chief of the sorcerers and asked him if they would accept the faith in case he defeated them? He said that there was no question of their being defeated as they possessed such great magical powers that could not be overcome by any one. And in case &you bring defeat to us we shall declare our faith openly in the pres¬ence of the Pharaoh&. (Mazhari and Qurtubi)

وَجَاۗءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْٓا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِيْنَ ، قَالَ نَعَمْ وَاِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ ، یعنی لوگوں کے مشورہ کے مطابق ملک بھر سے جادوگروں کے جمع کرنے کا انتظام کیا گیا، اور یہ جادوگر فرعون کے پاس پہنچ گئے تو انہوں نے فرعون سے پوچھا کہ اگر ہم موسیٰ پر غالب آگئے تو ہمیں اس کی کچھ اجرت اور انعام بھی ملے گا ؟ فرعون نے کہا کہ اجرت بھی ملے گی اور اس پر مزید یہ انعام ہوگا کہ تم سب) ہمارے مقربین میں داخل ہوجاؤ گے۔ یہ جادوگر جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ کے لئے ملک بھر سے جمع کئے گئے تھے) ان کی تعداد میں تاریخی روایات مختلف ہیں۔ نو سو (900) سے لے کر تین لاکھ تک کی روایات ہیں۔ ان کے ساتھ لا ٹھیوں اور رسیوں کا ایک انبار تھا جو تین سو (300) اونٹوں پر لاد کر لایا گیا تھا ( قرطبی) فرعونی جادوگروں نے آتے ہی پہلی بات سودابازی کی شروع کی کہ ہم مقابلہ کریں اور غالب آجائیں تو ہمیں کیا ملے گا۔ وجہ یہ تھی کہ اہل باطل کے سامنے صرف دنیا کے فوائد ہوتے ہیں اس لئے کوئی بھی کام کرنے سے پہلے معاوضہ اور اجرت کا سوال سامنے آتا ہے۔ بخلاف انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے نائبین کے کہ وہ ہر قدم پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ، یعنی ہم جو پیغام حق تمہارے فائدہ کے لئے تمہیں پہنچاتے ہیں اس پر تم سے کسی معاوضہ کے طالب نہیں، بلکہ ہمارا معاوضہ صرف رب العالمن نے اپنے ذمہ لیا ہے۔ فرعون نے ان کو بتلایا کہ تم لوگ اجرت چاہتے ہو، ہم اجرت بھی دیں گے اور اس سے بڑھ کر یہ بھی کہ تمہیں شاہی دربار کا مقرب بنالیں گے۔ فرعون سے یہ گفتگو کرنے کے بعد ساحروں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ کی جگہ اور وقت کا تعین کرایا۔ چناچہ ایک کھلا میدان اور عید کے دن آفتاب بلند ہونے کے بعد کا وقت اس کام کے لئے تجویز) ہوا جیسا کہ قرآن کی دوسری آیات میں ہے، قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّيْنَةِ وَاَنْ يُّحْشَرَ النَّاسُ ضُـحًي۔ بعض روایات میں ہے کہ اس موقعہ پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ساحروں کے سردار سے گفتگو فرمائی کہ اگر میں تم پر غالب آگیا تو کیا تم مجھ پر ایمان لے آؤ گے ؟ اس نے کہا کہ ہمارے پاس ایسے جادو ہیں کہ ان پر کوئی غالب آہی نہیں سکتا۔ اس لئے ہمارے مغلوب ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہو سکتا) اور اگر بالفرض تم غالب آگئے تو ہم علی الا علان فرعون کی نظروں کے سامنے تم پر ایمان لے آئیں گے۔ ( مظہری و قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَاۗءَ السَّحَرَۃُ فِرْعَوْنَ قَالُوْٓا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِـبِيْنَ۝ ١١٣ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ غلب الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] ( غ ل ب ) الغلبتہ کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٣ (وَجَآء السَّحَرَۃُ فِرْعَوْنَ قَالُوْٓا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ I یہاں پر غیر ضروری تفاصیل کو چھوڑ کر رسالت کے مقام و منصب اور دنیا داروں کے مادہ پرستانہ کردار کے فرق کو نمایاں کیا جا رہا ہے۔ اللہ کے رسول موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے مطالبے کے مطابق انہیں نشانیاں دکھائیں مگر آپ ( علیہ السلام) کو اس سے کوئی مفاد مطلوب نہیں تھا۔ آپ ( علیہ السلام) نے فرعون اور اہل دربار کو مرعوب کر کے کسی انعام و اکرام کا مطالبہ نہیں کیا۔ جب کہ دوسری طرف جادوگروں کا کردار خالص مادہ پرستانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے آتے ہی جو مطالبہ کیا وہ مالی منفعت سے متعلق تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (113 تا 122 ) ۔ اجر (انعام) ۔ المقربین (مقربین۔ (باعزت درباری) ۔ ان تلقی (یہ کہ تو ڈالے گا) ۔ القوا (انہوں نے ڈالا۔ انہوں نے پھینکا ) ۔ سحروا (باندھ دیا ) ۔ اعین الناس (لوگوں کی آنکھوں کو) ۔ استرھبوا (انہوں نے ڈرادیا ) ۔ بسحر عظیم (بڑے جادو سے ) ۔ اوحینا (ہم نے وحی کی ) ۔ الق (ڈال دے ) ۔ عصاک (اپنی لاٹھی کو ) ۔ تلقف (نگلنے لگا ) ۔ مایا فکون (جو کچھ کہ وہ بناتے ہیں ) ۔ وقع (واقع ہوگیا۔ کھل گیا) ۔ بطل (تبا ہوگیا ) ۔ غلبوا (وہ مغلوب کردیئے گئے) ۔ ھنالک (اس جگہ) ۔ انقلبوا (وہ پلٹ گئے) ۔ صغرین (ذلیل و سوا ہونے والے ) ۔ القی (ڈال دیئے گئے۔ (القاء) ۔ سجدین (سجدہ کرنے والے) ۔ تشریح : آیت نمبر (113 تا 122 ) ۔” قدرت کو عجیب تماشا دکھانا منظور تھا اس لئے ملک کے تمام علاقوں شہروں اور قصبوں کے باکمال جادو گروں کو فرعون کے ہاتھوں ایک جگہ جمع کرادیا۔ نہ صرف ان کو جمع کردیا بلکہ ان کو پوری طرح اپنے کمالات پیش کرنے کا موقع دیا گیا اس طرح پورے ملک کے کونے کونے سے وہ لوگ سمٹ آئے جو اپنے فن میں کمال رکھتے تھے۔ انہوں نے کلی اعتماد کے ساتھ اپنے دائو پیچ پیش کئے۔ مگر ان کا اعتماد اس وقت بری طرح شکست کھا گیا جب فرعون جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ کہلواتا تھا وہ اور اس کے ملک کے تمام سرداروں کی موجودگی میں فرعون اور فرعونیوں کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے ذلیل و رسوا ہونا پڑا اور وہ تمام لوگ جن پر اور جن کے کمال فن پر فرعون کو ناز تھا وہ سب کے سب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان لے آئے۔ رب العالمین کے سامنے سجدہ میں گر گئے اور انہوں نے اس بات کی وضاحت کردی کہ ہم اس رب العالمین پر ایمان لائے ہیں جس کو موسیٰ و ہارون (علیہ السلام) اپنا رب کہتے ہیں۔ کیونکہ فرعون تو خود اپنے آپ کو رب اعلی کہلواتا تھا۔ وہی لوگ جو کچھ دیر پہلے فرعون سے بہترین انعام کے امیدوار تھے جب سچائی ان کے سامنے آئی تو انہوں نے فرعون اور اس کی طاقت ، اس کو فوج اور سلطنت کی وسعت کو نظر انداز کر کے صرف اللہ کیو قوت و طاقت پر بھروسہ کرلیا۔ یہی ایمان کی سب سے بڑی قوت و طاقت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ۔ وہ لوگ جو تن تنہا بلا جھجک جابر ترین سلطان کے سامنے کلمہ حق کہہ کر اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو صرف اور صرف زور ایمانی کے بل پر ان دنیاوی جباروں اور قہاروں سے ٹکر لیتے ہیں جب کے پاس فوج بھی ہے خزانہ بھی ہے اور جی حضوریوں تنخواہ برداروں کی جماعتیں بھی ہیں۔ وہ لوگ جو شہادت پیش کرنے کا دم خم رکھتے ہیں۔ بہارہو کر خزاں لا الہ الا اللہ کس طرح کامیاب ہوتے ہیں۔ کس طرح غیبی قوتیں ان کے قدموں کو چومتی ہیں۔ کس طرح باطل کے قلعوں پر حق کا جھنڈا لہراتے ہیں۔ تاریخ اس پر گواہ ہے کروڑوں عوامل ہیں جو واقعات کی شکل و صورت ترتیب دیتے ہیں۔ انسانی آنکھ دو چار کو دیکھ سکتی ہے۔ ظاہری عوامل کی طاقت انتہائی کم ہے۔ خفیہ اور پوشیدہ عوامل کی طاقت انتہائی زیادہ ہے طاہری عوامل کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن وہ فرعون نمرود، ہامان اور قارون کس قدر بیوقوف ہیں جو ظاہری عوامل ہی کو سب کچھ مانتے ہیں اور غیب کی طاقتوں سے لاعلم اور لا پرواہ ہیں وہ شخص کس قدر مضبوط ہے جو اپنارشتہ لا الہ الا اللہ سے ملائے ہوئے ہے۔ ان آیات میں وحی اور القا ” کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) پر وحی نازل ہوتی ہے اور القا غیر پیغمبروں کے لئے ہے اس لا سل کی، اس وائرلیس، اس ٹیلی پیتھی سے بڑا ہتھیار اور کیا ہو سکتا ہے جو انسان کے دل کی دنیا کو بدل ڈالے اور اس طرح دنیا کا دل بدل ڈالے جیسا کہ اس واقعہ سے ظاہر ہے۔ وہ چیز جسے ہم توفیق الہٰی اور نور ایمانی کہتے ہیں جو ہمیں نیا دل اور نیا دماغ دیتی ہے وہ ہے قدرت کا اسلحہ خانہ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ وہ جادو گر جو نظربندی، مسمریزم اور طلسمات ہوش ربا کے استاد تھے جو اپنی طاقتیں پیغمبر وقت کے مقابلے میں لے آئے تھے جن پر فرعون اور اسکے سرداروں کو ناز اور گھمنڈ تھا۔ ایک ہی القا، ایک ہی توفیق الہٰی اور نور ایمان میں اللہ جانے کیا سے کیا ہوگئے اور کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قرآن کریم اب درمیانی تفصیلات چھوڑ کر ایک دوسرے منظر کو پیش کرتا ہے کہ کس طرح فرعون کے ٹولے نے لوگوں کو جمع کیا اور کن کن کو جمع کیا بلکہ پردہ اٹھتے ہی جادوگر سامنے آجاتے ہیں اور یہ قرآن کریم کا بیان کردہ قصص میں نہایت ہی موثر اور پیارا اسلوب ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ ایک منظر کو لپیٹ کر دوسرا منظر سامنے لایا جاتا ہے۔ وَجَاۗءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْٓا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِيْنَ ۔ قَالَ نَعَمْ وَاِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ ۔ چناچہ جادوگر فرعون کے پاس آگئے۔ انہوں نے کہا " اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا ؟ " فرعون نے جواب دیا " ہاں ، اور تم مقرب بارگاہ ہوگے "۔ یہ لوگ پیشہ ور جادوگر تھے اور اسی طرح پیشہ ور کاہن تھے اور دونوں کاموں سے ان کا مقصد پیسے کمانا تھا۔ دنیا میں ہمیشہ پیشہ ور علمائے دین نے طاغوتی طاقتوں اور ظالم بادشاہوں کی خدمت کو اپنا فرض سمجھا ہے۔ نیز دنیا میں جب بھی اللہ کی حاکمیت کا نظام معطل ہوا ہے اور اللہ وحدہ کی بندگی ختم ہوئی ہے اس کی جگہ طاغوتی نظام قائم ہوگیا ہے اور جب طاغوتی نظام قائم ہوا ہے تو ایسے حکمرانوں کو پیشہ ور اہل دین کی ضرورت پیش آئی ہے اور ان حکمرانوں نے اہل پیشہ کو ان کے پیشے پر اجر دیا ہے اور انہوں نے دینی اعتبار سے اس طاغوتی نظام کو قبول کیا ہے۔ یوں دونوں کے درمیان باہم معاہدہ رہا ہے اور طاغوتی حکمرانوں نے ان پیشہ ور اہل دین کو پیسہ بھی دیا ہے اور مقرب بھی بنایا ہے۔ فرعون نے یقین دہانی کرائی کہ وہ اس کام پر انہیں اجرت بھی دے گا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کے مقربین میں سے بھی ہوں گے۔ یوں فرعون نے ان کو آمادہ کیا کہ وہ صرف موسیٰ کا بےجگری سے مقابلہ کریں اور سخت جدوجہد کریں۔ لیکن ان کو کیا پتہ تھا کہ معاملہ اس قدر آسان نہیں ہے کہ وہ چرب زبانی یا چالاکی سے حضرت موسیٰ کو شکست دے دیں گے یہاں تو ان کا واسطہ خدا ، خدا کے رسول ، خدائی معجزات اور خوارق عادت ، حقائق و واقعات سے تھا ، محض شعبدہ بازی اور تخیلاتی جادوگری نہ تھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

111: ملک کے مشہور اور ماہر جادوگر فرعون کے دربار میں حاضر ہوئے تو عرض کی اگر ہم مقابلے میں غالب آگئے تو ہمیں انعام تو ضرور ملے گا۔ “ قَالَ نَعَمْ الخ ” فرعون نے کہا صرف انعام ہی نہیں ملے گا بلکہ اس کے علاوہ تمہیں میرے دربار کا تقرب بھی حاصل ہوگا اور میرے یہاں تمہاری بہت زیادہ قدر و منزلت اور عزت افزائی ہوگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

113 چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آگئے اور جب سب جمع ہوگئے تو انہوں نے کہا اگر ہم موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب اگئے تو کیا ہم کو کوئی بڑا انعام ملے گا اور ہم کسی بڑے صلہ کے مستحق ہوں گے۔