Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 115

سورة الأعراف

قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِمَّاۤ اَنۡ تُلۡقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ نَّکُوۡنَ نَحۡنُ الۡمُلۡقِیۡنَ ﴿۱۱۵﴾

They said, "O Moses, either you throw [your staff], or we will be the ones to throw [first]."

ان ساحروں نے عرض کیا اے موسٰی! خواہ آپ ڈالئے اور یا ہم ہی ڈالیں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Magicians convene and change Their Ropes into Snakes before Musa The magicians challenged Musa, when they said, قَالُواْ يَا مُوسَى إِمَّا أَن تُلْقِيَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ They said: "O Musa! Either you throw (first), or shall we have the (first) throw (before you). In another Ayah, they said, وَإِمَّأ أَن نَّكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَى Or we be the first to throw. (20:65)

جادوگروں سے مقابلہ جادوگروں کو اپنی قوت پر بڑا گھمنڈ تھا وہ سب فی الحقیقت اپنے اس فن کے لاجواب استاد تھے اس لئے انہوں نے آتے ہی حضرت موسیٰ کو چیلنج دیا کہ لو ہوشیار ہو جاؤ تمہیں اختیار ہے میدان میں اپنے کرتب پہلے دکاؤ اور اگر کہو تو پہل ہم کر دیں ۔ آپ نے فرمایا بہتر ہے کہ تمہارے حوصلے نکل جائیں اور لوگ تمہارا کمال فن دیکھ لیں اور پھر اللہ کی قدرت کو بھی دیکھ لیں اور حق و باطل میں دیک بھال کر فیصلہ کر سکیں وہ تو یہ چاہتے ہی تھے انہوں نے جھٹ سے اپنی رسیاں اور لکڑیاں نکال نکال کر میدان میں ڈالنی شروع کر دین ادھر وہ میدان میں پڑتے ہی چلتی پھرتی اور بنی بنائی سانپ معلوم ہونے لگیں ۔ یہ صرف نظر بندی تھی ۔ فی الواقع خارج میں ان کا وجود بدل نہیں گیا تھا بلکہ اس طرح لوگوں کو دکھائی دیتی تھیں کہ گویا زندہ ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے دل میں خطرہ محسوس کرنے لگے ۔ اللہ کی طرف سے اسی وقت وحی آئی کہ خوف نہ کر تو ہی غالب رہے گا ۔ اپنے دائیں ہاتھ کی لکڑی ڈال تو سہی ان کا کیا دھرا یہ تو سب ہڑپ کر جائے گی ۔ یہ سب تو جادوگری کا کرشمہ ہے بھلا جادو والے بھی کبھی کامیاب ہوئے ہیں؟ بڑی موٹی موٹی رسیاں اور لمبی لمبی لکڑیاں انہوں نے ڈالی تھیں جو سب چلتی پھرتی دوڑتی بھاگتی معلوم ہو رہی تھیں ، یہ جادوگر پندرہ ہزار یا تیس ہزار سے اوپر اوپر تھے یا ستر ہزار کی تعداد میں تھے ، ہر ایک اپنے ساتھ رسیاں اور لکڑیاں لایا تھا صف بستہ کھڑے تھے اور لوگ چاروں طرف موجود تھے ہر ایک ہمہ تن شوق بنا ہوا تھا فرعون اپنے لاؤ لشکر اور درباریوں سمیت بڑے رعب سے اپنے تخت پر بیٹھا ہوا تھا ادھر وقت ہوا ادھر سب کی نگاہوں نے دیکھا کہ ایک درویش صفت اللہ کا نبی اپنے ساتھ اپنے بھائی کو لئے ہوئے لکڑی ٹکاتے ہوئے آ رہے ہیں ۔ یہ تھے جن کے مقابلے کی یہ دھوم دھام تھی ۔ آپ کے آتے ہی جادوگروں نے صرف یہ دریافت کر کے کہ ابتدا کس کی طرف سے ہونی چاہئے خود ابتدا کر دی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پھر فرعون کی پھر تماشائیوں کی آنکھوں پر جادو کر کے سب کو ہیبت زدہ کر دیا ۔ اب جو اپنی اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں تو ہزار ہا کی تعداد میں پہاڑوں کے برابر سانپ نظر آنے لگے جو اوپر تلے ایک دوسرے سے لپٹ رہے ہیں ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں میدان بھر گیا ہے انہوں نے اپنے فن کا پورا مظاہرہ کر دکھایا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

115۔ 1 جادوگروں نے یہ اختیار اپنے آپ پر مکمل اعتماد کرنے کی وجہ سے دیا۔ انہیں پورا یقین تھا کہ ہمارے جادو کے مقابلے میں موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ جسے وہ ایک کرتب ہی سمجھتے تھے، کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور اگر موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلے اپنے کرتب دکھانے کا موقع دے بھی دیا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، ہم اس کے کرتب کا توڑ بہر صورت مہیا کرلیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٦] جادوگروں کو چونکہ یہی بتلایا گیا تھا کہ ان کا ایک بڑے جادوگر سے مقابلہ ہے لہذا سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی عزت و تکریم کی خاطر یہ بات موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھی جیسا کہ ایسے مقابلے کے وقت یہی دستور رائج تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ : ” اَرْھَبَ یُرْھِبُ “ کا معنی ہے ڈرانا، خوف زدہ کرنا، ” وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ “ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے ترجمہ ” سخت خوف زدہ “ کیا ہے۔ جادوگروں نے اپنے غلبے کے یقینی اور موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے کو لوگوں کے سامنے بےوقعت ظاہر کرنے کے لیے پوچھا کہ تم پہلے اپنا معجزہ پیش کرو گے یا ہم اپنے جادو کے ہتھیار پیش کریں ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے بڑھ کر شان بےنیازی سے فرمایا کہ تمہیں جو کچھ پیش کرنا ہے سب پیش کرلو۔ چونکہ مقابلے میں جس کی پہل ہو اسے ایک قسم کی برتری پہلے ہی حاصل ہوتی ہے، تم اس برتری سے فائدہ اٹھا لو، چناچہ انھوں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں زمین پر پھینک دیں تو ہر طرف زمین پر سانپ ہی سانپ دوڑتے ہوئے معلوم ہونے لگے، فرمایا : ( فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰي) [ طٰہٰ : ٦٦ ] ” تو اچانک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں، اس کے خیال میں ڈالا جاتا تھا ان کے جادو کی وجہ سے کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔ “ یہاں بھی فرمایا کہ ” انھوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور انھیں سخت خوف زدہ کردیا اور وہ بہت بڑا جادو لے کر آئے۔ “ درحقیقت وہ زمانہ ہی جادو کے کمال کا تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسا معجزہ دیا جس کے سامنے جادو بےبس ہو۔ سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ : اس سے معلوم ہوا کہ جادو سے کسی چیز کی حقیقت نہیں بدل جاتی، صرف دیکھنے میں وہ چیز دوسری نظر آتی ہے اور اس کا اثر محض خیال پر ہوتا ہے، چونکہ انسان کا جسم دماغ کے تابع ہے، اس لیے خیال کا نقصان یا فائدہ بعض اوقات جسم کو بھی ہوتا ہے، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی ان کا جادو دیکھ کر خوف محسوس کیا، فرمایا : (فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْس)[ طٰہٰ : ٦٧ ] ” تو موسیٰ نے اپنے دل میں ایک خوف محسوس کیا۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی لبید بن اعصم کے جادو کی وجہ سے کچھ عرصہ بیمار رہے۔ اس لیے جادو کی تاثیر سے انکار درست نہیں۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے جادو کو بہت بڑا قرار دیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

They said, قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِمَّا أَن تُلْقِيَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ ﴿١١٥﴾ |"0 Musa either you throw (first) or shall we be the ones to throw.|" The Arabic word:&& اِلقَا ‘ ء ! &ilga& means to drop something down. On the day of encounter the sorcerers asked the prophet Musa (علیہ السلام) if he would drop down his staff first or should they throw theirs first? This question of the sorcerers was perhaps to show their complacency about their art, though the mode of their sentence indicated that they wanted to start first, but for giving an impression of power to their opponent they put that question. Since-the prophet Musa (علیہ السلام) had nothing to fear about, he invited them saying &you drop.&

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓي اِمَّآ اَنْ تُلْقِيَ وَاِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِيْنَ ۔ القاء کے معنی ڈالنے کے ہیں، مراد یہ ہے کہ جب میدان مقابلہ میں پہنچے تو جادوگروں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ یا تو آپ پہلے ڈالیں یا ہم پہلے ڈالنے والوں میں سے ہوجائیں۔ جادوگروں کا یہ کہنا اپنی بےفکری اور بڑائی جتانے کے لئے تھا کہ ہمیں اس کی پرواہ نہیں کہ ابتداء ہماری طرف سے ہو، کیونکہ ہم ہر حالت میں اپنے فن پر اطمینان رکھتے ہیں۔ ان کے انداز بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ چاہتے تو یہی تھے کہ پہلا وار ان کا ہو مگر اظہار قوت کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ پہل آپ کرنا چاہتے ہو یا ہم کریں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓي اِمَّآ اَنْ تُلْقِيَ وَاِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِيْنَ۝ ١١٥ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:115) اما۔ یہ کئی معنی دیتا ہے۔ (1) حرف تفصیل ہوتا ہے جیسے انا ھدینہ السبیل اما شاکرا واما کفروا (76:3) ہم نے انسان کو راستہ دکھلا دیا۔ اب وہ شکرگزار بندہ بنے یا ناشکرا۔ (2) شک و ابہام کے موقع پر بھی آتا ہے جیسے جاء اما زید واما عمرو۔ یا تو زید آیا ہے یا عمرو گویا یہ معلوم نہیں کہ ان دونوں میں سے کون آیا ہے۔ (3) اباحت اور تخییر کے معنی بھی دیتا ہے۔ جیسے آیۃ ۃذا۔ نیز ملاحظہ ہو 7:35

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جادوگر اجر کے بارے میں مطمئن ہوگئے اور فرعون کی ہمنشینی کی لالچ میں ان کی گردنیں بلند ہوگئیں اور مقابلے کے لئے تیار ہوگئے۔ اب یہ حضرت موسیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور آپ کو چلینج دیتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں وہ اس مقام بلند تک جا پہنچتے ہیں جو اللہ نے ان کے لئے مقرر کیا تھا اور جس کے بارے میں انہیں تصور بھی نہ تھا اور وہ اس اجر کے مستحق قرار پائے جس کی انہیں توقع ہی نہ تھی۔ قَالُوْا يٰمُوْسٰٓي اِمَّآ اَنْ تُلْقِيَ وَاِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِيْن۔ پھر انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں ؟ موسیٰ نے جواب دیا۔ تم ہی پھینکو۔ انہوں نے اختیار حضرت موسیٰ کو دے دیا کہ چاہو تو تم اپنا عصا کو پھینکو یا ہم پھینکیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت اعتماد سے چیلنج کر رہے تھے۔ ان کو اپنی کامیابی کا پورا یقین تھا اور اپنی فنکاری پر اعتماد تھا۔ اس کے مقابلے میں حضرت موسیٰ بھی نہایت ہی پر اعتماد تھے اور انہوں نے لاپرواہی سے جواب دیا۔ تم پھینکو۔ انہوں نے صرف ایک لفظ میں جواب دیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ان کے کرتب کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔ حضرت موسیٰ کے نفس کے اندر پورا یقین و اطمینان تھا۔ یہ امور اور یہ معانی قرآن کریم کے طریقہ کلام کے مطابق الفاظ کے استعمال سے ظاہر ہوتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

112: جب مقررہ تاریخ پر متعینہ جگہ میں حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) اور فرعون مع امراء و مقربین اور تمام جادوگر پہنچ گئے اور مقابلہ شروع ہونے لگا تو جادوگروں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا پہلے آپ لاٹھی پھینکیں گے یا ہم پہلے اپنا کمال پیش کریں۔ “ قَالَ اَلْقُوْا ” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا پہلے تم پھینکو جو کچھ تمہارے پاس ہے۔ چونکہ وہ جادوگروں کے مکر و فریب کا ابطال چاہتے تھے اور وہ اسی صورت میں زیادہ مؤثر تھا کہ وہ اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پہلے ڈالتے۔ اس لیے فرمایا پہلے تم اپنا جوہر دکھاؤ۔ انہ (علیہ الصلوۃ والسلام) کان یردی ابطال ما اتوا بہ من السحر وابطالہ ما کان یمکن الا باقدامھم علی اظھارہ فاذن لھم فی الاتیان بذالک (کبیر ج 4 ص 400) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

115 اس ابتدائی گفتگو کے بعد اہل شہر کا اجتماع ہوا موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوگر مقابلہ میں آئے تو جادوگروں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اے موسیٰ (علیہ السلام) یا تو آپ پہلے جو کچھ ڈالناہو ڈال دیجئے یا ہم پہلے ڈال دیں یعنی یا تو آپ اپنا کر تب دکھانے کی ابتداء کریں یا ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم پہل کریں۔