Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 116

سورة الأعراف

قَالَ اَلۡقُوۡا ۚ فَلَمَّاۤ اَلۡقَوۡا سَحَرُوۡۤا اَعۡیُنَ النَّاسِ وَ اسۡتَرۡہَبُوۡہُمۡ وَ جَآءُوۡ بِسِحۡرٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۱۶﴾

He said, "Throw," and when they threw, they bewitched the eyes of the people and struck terror into them, and they presented a great [feat of] magic.

۔ ( موسٰی علیہ السلام ) نے فرمایا کہ تم ہی ڈالو پس جب انہوں نے ڈالا تو لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان پر ہیبت غالب کردی اور ایک طرح کا بڑا جادو دکھلایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ أَلْقُوْاْ ... He (Musa) said: "Throw you (first)." Musa said to them, you throw first. It was said that the wisdom behind asking them to throw first, is that - Allah knows best - the people might witness the magicians' sorcery first. When the magicians had cast their spell and captured the eyes, the clear and unequivocal truth came, at a time when they all anticipated and waited ... for it to come, thus making the truth even more impressive to their hearts. This is what happened. Allah said, ... فَلَمَّا أَلْقَوْاْ سَحَرُواْ أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ ... So when they threw, they bewitched the eyes of the people, and struck terror into them, meaning, they deceived the eyes and made them think that that trick was real, when it was only an illusion, just as Allah said, فَأَوْجَسَ فِى نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَى قُلْنَا لاَ تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الاٌّعْلَى وَأَلْقِ مَا فِى يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُواْ إِنَّمَا صَنَعُواْ كَيْدُ سَاحِرٍ وَلاَ يُفْلِحُ السَّـحِرُ حَيْثُ أَتَى So Musa conceived fear in himself. We (Allah) said: "Fear not! Surely, you will have the upper hand. And throw that which is in your right hand! It will swallow up that which they have made. That which they have made is only a magician's trick, and the magician will never be successful, to whatever amount (of skill) he may attain." (20:67-69) Ibn Abbas commented that the magicians threw, "Thick ropes and long sticks, and they appeared to be crawling, an illusion that they created with their magic." ... وَجَاءوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ and they displayed a great trick.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

116۔ 1 لیکن موسیٰ (علیہ السلام) چونکہ اللہ کے رسول تھے اور اللہ کی تائید انہیں حاصل تھی، اس لئے انہیں اپنے اللہ کی مدد کا یقین تھا، لہذا انہوں نے بغیر کسی خوف اور تامل کے جادوگروں سے کہا پہلے جو تم دکھانا چاہتے ہو، دکھاؤ ! علاوہ ازیں اس میں حکمت بھی ہوسکتی ہے کہ جادوگروں کے پیش کردہ جادو کا توڑ جب ح... ضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے معجزانہ انداز میں پیش ہوگا تو یہ لوگوں کے لئے زیادہ متاثر کن ہوگا، جس سے ان کی صداقت واضح تر ہوگی اور لوگوں کے لئے ایمان لانا سہل ہوجائے گا۔ 116۔ 2 بعض آثار میں بتایا گیا ہے کہ یہ جادوگر 70 ہزار کی تعداد میں تھے۔ بظاہر یہ تعداد مبالغے سے خالی نہیں، جن میں سے ہر ایک نے ایک ایک رسی اور ایک ایک لاٹھی میدان میں پھینکی، جو دیکھنے والوں کو دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ یہ گویا بزم خویش بہت بڑا جادو تھا جو انہوں نے پیش کیا۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٧] اور موسیٰ (علیہ السلام) نے جو جواب دیا وہ ازراہ تکریم نہیں تھا نہ ہی اس لئے کہ ان کی نگاہ میں جادوگر کوئی قابل تعظیم چیز تھے بلکہ اس لیے کہ حق کی وضاحت ہو ہی اس صورت میں سکتی ہے کہ پہلے باطل اپنا پورا زور دکھا لے پھر اس کے بعد اگر حق غالب آئے تو سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ مثلاً اگر موسیٰ...  (علیہ السلام) پہلے اپنا عصا ڈال دیتے تو ممکن تھا کہ مقابلے کی نوبت ہی نہ آتی اور جادوگر پہلے ہی ہتھیار ڈال دیتے تو لوگوں میں کئی طرح کے شکوک پیدا ہوسکتے تھے یا دوبارہ مقابلے کے لیے جادوگر وقت طلب کرسکتے تھے۔ [١١٨] جادوگروں کا بہت بڑا جادو :۔ جادوگروں نے جب میدان میں اپنی لاتعداد لاٹھیاں اور رسیاں لا پھینکیں اور جادو کے ذریعے لوگوں کی نظر بندی کردی تو لوگوں کو سارا میدان متحرک سانپوں سے بھرا ہوا نظر آنے لگا لوگ دہشت زدہ ہوگئے کیونکہ اس شاہی دنگل کے لیے جادوگروں نے اتنی تیاریاں کی تھیں کہ اتنے بڑے جادو کی سابقہ ادوار میں نظیر ملنا مشکل تھی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Ibn Kathir has said that the prophet Musa (علیہ السلام) behaved with them politely by inviting them to have their turn first. The effect of this behaviour was that they accepted the faith after their defeat. Here we are faced with a question. The sorcery is an impermissible act, especially when it is used to oppose a prophet sent by Allah it becomes an act of infidelity. How then the prophet Musa ... (علیہ السلام) gave permis¬sion of magic to the sorcerers by saying &you drop&? With a little thought we can find the answer. It was certain that the sorcerers will show their magic by all means. The point of conversation was to decide who should start the contest. The prophet Musa (علیہ السلام) allowed them to begin. Another advantage of this strategy was that the people could see their performance and the sorcerers had all the time to show their art and turn the staves into snakes. Then the staff of the prophet Musa (علیہ السلام) should turn into a serpent and eat up all the snakes, thus the open defeat of magic should be exhibited before the people. (Bayan- al- Qur&an) فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُ‌وا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْ‌هَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ‌ عَظِيمٍ So, when they threw, they bewitched the eyes of the people, and made them frightened, and came out with great sorcery. (116) This verse indicates that this demonstration of their magic was just a bewitching of the eyes of the people which made them see the staffs and strings as snakes leaping on the ground, while the strings and the staffs did not change physically. It was a kind of mesmerism hypnotising the minds of the onlookers. This does not mean that sorcery is confined only in this kind and that it cannot change some-thing into another, as we do not have any proof against it. On the contrary, many forms and kinds of magic have been taken as being reality. The terms magic and sorcery are usually applied for all the acts that seem to be happening in unusual way. Sleight of hand, tele¬pathic influences and mesmerism are sometimes called magic. Trans-formation of one thing into another through magic may be a possibility but we have no valid reason or proof for or against it.  Show more

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے منشاء کو محسوس کرکے اپنے معجزہ پر مکمل اطمینان ہونے کے سبب پہلا موقعہ ان کو دے دیا اور فرمایا اَلْقُوْا یعنی تم ہی پہلے ڈالو۔ اور ابن کثیر نے فرمایا کہ جادوگروں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ادب و احترام کا معاملہ کیا کہ پہلا موقعہ ان کو دینے کی پیش کش کی، اس... ی کا یہ اثر تھا کہ ان کو ایمان کی توفیق ہوگئی۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اول تو جادو خود ہی ایک حرام فعل ہے، پھر جبکہ وہ کسی پیغمبر کو شکست دینے کے لئے استعمال کیا جائے تو بلا شبہ کفر ہے، پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے کیسے ان لوگوں کو اس کی اجازت دینے کے لئے فرمایا اَلْقُوْا یعنی تم ڈالو۔ لیکن حقیقت حال پر غور کرنے سے یہ سوال ختم ہوجاتا ہے کیونکہ یہاں تو یقینی تھا کہ یہ لوگ اپنا سحر مقابلہ پر ضرور پیش کریں گے، گفتگو صرف پہلے اور پیچھے کی تھی، اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی اولو العزمی کا ثبوت دینے کے لئے ان کو ہی موقعہ عطا فرمایا، اس کے علاوہ اس میں ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ پہلے جادوگر اپنی لاٹھیوں اور رسیوں کے سانپ بنالیں تو پھر عصاء موسیٰ کا معجزہ، صرف یہی نہیں کہ وہ بھی سانپ بن جائے بلکہ اس طرح ظاہر ہو کہ وہ جادو کے سارے سانپوں کو نگل بھی جائے تاکہ جادوگری کی کھلی شکست پہلے ہی قدم پر سامنے آجائے ( بیان القرآن) اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ ارشاد ان کو جادوگری کرنے کی اجازت کے لئے نہیں بلکہ ان کی رسوائی کو واضح کرنے کے لئے تھا کہ اچھا تم ڈال کر دیکھو کہ تمہارے جادو کا کیا انجام ہوتا ہے۔ فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ وَجَاۗءُوْ بِسِحْرٍ عَظِيْمٍ ، یعنی جب جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ڈالیں تو لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان پر ہیبت غالب کردی اور بڑا جادو دکھلا یا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کا جادو ایک قسم کی نظر بندی اور تخیل تھی جس سے دیکھنے والوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ یہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑ رہے ہیں حالانکہ وہ واقع میں اسی طرح لاٹھیاں اور رسیاں ہی تھیں سانپ نہیں بنے تھے۔ یہ ایک قسم کا مسمریزم تھا جس کا اثر انسانی خیال اور نظر کو مغلوب کردیتا ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ سحر صرف اسی قسم میں منحصر ہے، سحر کے ذریعہ انقلاب ماہیت نہیں ہو سکتا، کیونکہ کوئی شرعی یا عقلی دلیل اس کی نفی پر قائم نہیں ہے بلکہ سحر کی مختلف اقسام واقعات سے ثابت ہیں۔ کہیں تو صرف ہاتھ کی چالاکی ہوتی ہے جس کے ذریعہ دیکھنے والوں کو مغالطہ لگ جاتا ہے، کہیں صرف تخیل اور نظربندی ہوتی ہے جیسے مسمریزم سے۔ اور اگر کہیں قلب ماہیت بھی ہوجاتا ہو کہ انسان کا پتھر بن جائے تو یہ بھی کسی شرعی یا عقلی دلیل کے خلاف نہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اَلْقُوْا۝ ٠ ۚ فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوْہُمْ وَجَاۗءُوْ بِسِحْرٍ عَظِيْمٍ۝ ١١٦ عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْ... رِي بِأَعْيُنِنا[ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ رهب الرَّهْبَةُ والرُّهْبُ : مخافة مع تحرّز و اضطراب، قال : لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] ، وقال : جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص/ 32] ، وقرئ : مِنَ الرَّهْبِ ، أي : الفزع . قال مقاتل : خرجت ألتمس تفسیر الرّهب، فلقیت أعرابيّة وأنا آكل، فقالت : يا عبد الله، تصدّق عليّ ، فملأت كفّي لأدفع إليها، فقالت : هاهنا في رَهْبِي «5» ، أي : كمّي . والأوّل أصحّ. قال تعالی: وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء/ 90] ، وقال : تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] ، أي : حملوهم علی أن يَرْهَبُوا، وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [ البقرة/ 40] ، أي : فخافون، والتَّرَهُّبُ : التّعبّد، وهو استعمال الرّهبة، والرَّهْبَانِيّةُ : غلوّ في تحمّل التّعبّد، من فرط الرّهبة . قال : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید/ 27] ، والرُّهْبَانُ يكون واحدا، وجمعا، فمن جعله واحدا جمعه علی رَهَابِينَ ، ورَهَابِنَةٌ بالجمع أليق . والْإِرْهَابُ : فزع الإبل، وإنما هو من : أَرْهَبْتُ. ومنه : الرَّهْبُ «1» من الإبل، وقالت العرب : رَهَبُوتٌ خير من رحموت «2» . ( ر ھ ب ) الرھب والرھبۃ ایسے خوف کو کہتے ہیں جس میں احتیاط اور اضطراب بھی شامل ہو قرآن میں : ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] تمہاری ہیبت تو ( ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے بڑھکر ہے جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص/ 32] اور دفع ) خوف کے لئے اپنے بازو سکیڑ لو ) ۔ اس میں ایک قرآت رھب بضمہ الراء بھی ہے ۔ جس کے معنی فزع یعنی گھبراہٹ کے ہیں متقاتل کہتے ہیں کہ رھب کی تفسیر معلوم کرنے کی غرض سے نکلا دریں اثنا کہ میں کھانا کھا رہا تھا ایک اعرابی عورت آئی ۔ اور اس نے کہا اسے اللہ کے بندے مجھے کچھ خیرات دیجئے جب میں لپ بھر کر اسے دینے لگا تو کہنے لگے یہاں میری آستین میں ڈال دیجئے ( تو میں سمجھ گیا کہ آیت میں بھی ( ھب بمعنی آستین ہے ) لیکن پہلے معنی یعنی گھبراہٹ کے زیادہ صحیح ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء/ 90] ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے خوف سے ہمیں پکارتے رہتے ہیں ) تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ [ الأنفال/ 60] اس سے تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر دھاک بٹھائے رکھو گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] اور ان کو دہشت میں ڈال دیا ۔ میں استر ھاب کے معنی دہشت زدہ کرنے کے ہیں ۔ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [ البقرة/ 40] اور مجھ سے ہی ڈرو ۔ اور ترھب ( تفعیل کے معنی تعبد یعنی راہب بننے اور عبادت ہیں خوف سے کام لینے کے ہیں اور فرط خوف سے عبادت گذاری میں غلو کرنے رھبانیۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید/ 27] اور رہبانیت ( لذت دنیا کا چوڑ بیٹھنا جو انہوں نے از خود ایجاد کی تھی ۔ اور رھبان ( صومعہ لوگ واحد بھی ہوسکتا ہے اور جمع بھی جو اس کو واحد دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی جمع رھا بین آتی ہے لیکن اس کی جمع رھا بتۃ بنانا زیادہ مناسب ہے الا رھاب ( افعال ) کے اصل معنی اونٹوں کو خوف زدہ کرنے کے ہیں یہ ارھبت ( فعال کا مصدر ہے اور اسی سے زھب ہے جس کے معنی لاغر اونٹنی ( یا شتر نر قوی کلاں جثہ ) کے میں مشہور محاورہ ہے : ۔ کہ رحم سے خوف بہتر ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٦ (قَالَ اَلْقُوْا ج) جادوگروں نے اپنی جادو کی چیزیں زمین پر پھینک دیں۔ اس سلسلے میں قرآن مجید میں کسی جگہ پر رسیوں کا ذکر آیا ہے اور کہیں چھڑیوں کا۔ یعنی اپنی جادو کی وہ چیزیں زمین پر پھینک دیں جو انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کر رکھیں تھیں۔ (فَلَمَّآ ا... َلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ ) انہوں نے جادو کے زور سے حاضرین کی نظر بندی کردی جس کے نتیجے میں لوگوں کو رسیوں اور چھڑیوں کے بجائے زمین پر سانپ اور اژدھے رینگتے ہوئے نظر آنے لگے۔ (وَاسْتَرْہَبُوْہُمْ وَجَآءُ وْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ ) ۔ واقعتا انہوں نے بھی اپنے فن کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ یہاں اس قصے کی کچھ تفصیل چھوڑ دی گئی ہے ‘ مگر قرآن حکیم کے بعض دوسرے مقامات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جادوگروں کے اس مظاہرے کے بعد عارضی طور پر ڈر سے گئے تھے کہ جو معجزہ میرے پاس تھا اسی نوعیت کا مظاہرہ انہوں نے کر دکھایا ہے ‘ تو پھر فرق کیا رہ گیا ! تب اللہ نے فرمایا کہ اے موسیٰ ڈرو نہیں ‘ بلکہ تمہارے ہاتھ میں جو عصا ہے اسے زمین پر پھینک دو !   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:116) واسترھبوھم۔ انہوں نے ان کو ڈرایا۔ دہشت زردہ کردیا۔ استرھاب (استفعال) سے ماضی جمع مذکر غائب۔ ھم ضمیر جمع مذکر غائب الناس کے لئے ہے۔ الرھب۔ الرھبۃ ایسے خوف کو کہتے ہیں جس میں احتیاط اور اضطراب بھی ہو جیسے لانتم اشد رھبۃ (59:13) تمہاری ہیبت تو (ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے) بڑھ کر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 دوسری آیت میں ہے کہ انہوں نے اپنی لاٹھیا اپنی لاٹھیاں اور رسیاں زمین پر پھینک دیں جس سے زمین پر سانپ ہی سانپ دوڑتے معلوم ہونے لگے یخیل الیہ من سحر ھم انھا تسعی، اس سے معلوم ہوا کہ جادو سے کسی چیز کی حقیقت نہیں بد جاتی صرف دیکھتے میں وہ ایک دوسری چیز نظر آتی ہے اس کے بر عکس معجزہ چونکہ اللہ تعالی... ٰ کے حکم سے ہوتا ہے اس لیے اس میں ایک چیز کی حقیقت بھی بدل سکتی ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ جس سے وہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ کی شکل میں لہراتی نظر آنے لگیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جس طرح حضرت موسیٰ اچانک صورت حالات سے دو چار ہوے ، سیاق کلام اور انداز بیان ایسا ہے کہ ہر قاری اچانک ایک خوفناک صورت حال سے دو چار ہوجاتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بڑی لاپرواہی سے جواب دے رہے ہیں لیکن اچانک انہیں بھی ایک نہایت ہی خوفناک اور مرعوب کن صورت حال سے دوچار ہونا پڑا ہے جسے دیکھ کر انسان...  خائف ہوجاتے ہیں اور کانپ اٹھتے ہیں۔ قَالَ اَلْقُوْا ۚ فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ وَجَاۗءُوْ بِسِحْرٍ عَظِيْمٍ ۔ انہوں نے جو اپنے آلچھر پھینکے تو نگاہوں کو مسحور اور دلوں کو خوفزدہ کردیا اور بڑٓ ہی زبردست جادو بنا لائے۔ ہمارے لئے یہ بات کافی ہے کہ ان لوگوں کے فن کے بارے میں قرآن کریم نے بھی سحر عظیم کا لفظ استعمال کیا اور اس سے ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا جادو کس قدر عظیم تھا۔ انہوں نے لوگوں کی نگاہوں کو مسحور کردیا اور لوگوں کے دلوں کو رعب سے بھر دیا اور ماحول پر خوف کی فضا طاری ہوگئی۔ لفظ استرھب کے استعمال سے ماحول کا ایک نقشہ سامنے آجاتا ہے یعنی انہوں نے لوگوں کے اندر خائف ہونے کا تاثر پیدا کردیا۔ اس طرح کہ وہ ڈرنے پر مجبور ہوگئے۔ اور سورت طہ میں تو یہ بھی بتایا گیا کہ حضرت موسیٰ بھی دل ہی دل میں خائف ہوگئے تے۔ ان تمام الفاظ سے ان لوگوں کی خوفناک جادوگری کے بارے میں یقین آجاتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کا جادو گر بتانا اور مقابلہ کے لیے جادو گروں کو بلانا، اور جادو گروں کا ہار مان کر اسلام قبول کرلینا جب فرعون اور اس کی جماعت نے یدبیضاء دیکھا اور لاٹھی کو دیکھا کہ وہ اژدھا بن گئی تو انہوں نے ان دونوں معجزوں کو جادو پر محمول کیا، سورة الذاریات میں فرمایا ہے (کَذٰلِکَ م... َا اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ) (اسی طرح سے ان سے (یعنی امت محمدیہ) پہلے جو بھی کوئی رسول آیا لوگوں نے کہا یہ جادو گر ہے یا دیوانہ ہے) حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے مخالفین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ ان کے معجزات کو دیکھ کر ایمان لانے کی بجائے یہ کہہ کر ٹال دیتے تھے کہ یہ شخص جادو گر ہے یا دیوانہ ہے۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے سمجھا کہ ابھی تو شاہی دربار میں یہ دونوں باتیں سامنے آئی ہیں کہ یکایک ان کا ایک ہاتھ بہت زیادہ روشن اور چمکدار ہوگیا اور ان کی لاٹھی اژدھا بن گئی اگر انہوں نے اسی طرح کا کوئی مظاہرہ عوام کے سامنے کردیا تو لوگ انہیں کے معتقد ہوجائیں گے اور ہماری ساری حکومت جاتی رہے گی اور اس سر زمین میں انہی دونوں بھائیوں (موسیٰ اور ہارون) کا راج ہوجائے گا۔ (فرعون کا دعویٰ تو خدائی کا بھی تھا۔ لیکن دنیاوی حکومت کے ہی باقی رہنے کے لالے پڑگئے خدائی تو بہت دور کی چیز ہے) لہٰذا اس سے پہلے کہ عوام پر ان کا کوئی اثر ہو ان کا علاج کردینا چاہیے۔ لہٰذا آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ کیا کیا جائے۔ فرعون کے درباریوں نے کہا کہ جادو کا کاٹ جادو ہوگا۔ یہ بڑا ماہر جادو گر ہے۔ اپنی حدود مملکت سے تمام ماہر جادو گروں کو جمع کر کے مقابلہ کرا دیا جائے۔ جب لوگوں نے یہ رائے دی تو یہ بات فرعون کی سمجھ میں آگئی کہ ہاں یہ بڑا ماہر جادو گر ہے، جیسا کہ سورة شعراء میں ہے۔ (قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ) درباریوں نے کہا کہ ابھی اس شخص کو اور اس کے بھائی کو مہلت دیدی جائے اور جادو گروں کے فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے۔ چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ حضرت ہارون (علیہ السلام) بھی وہاں موجود تھے اور ان کو بھی نبوت دی گئی تھی اور فرعون کی طرف وہ بھی مبعوث تھے جیسا کہ سورة طہٰ میں ہے (اِذْھَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی) اس لیے مشورہ میں ان کا نام بھی شامل کرلیا گیا (کہ موسیٰ اور ان کے بھائی کو مہلت دو ) چناچہ اول تو مقابلہ کا وقت مقرر کیا گیا جس کا ذکر سورة طہٰ میں ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ان لوگوں نے کہا (فَاجْعَلْ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُہٗ نَحْنُ وَ لَآ اَنْتَ مَکَانًا سُوًی) (کہ ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو جس کی خلاف ورزی نہ ہم کریں گے نہ تم کرنا، کوئی ہموار میدان مقرر کرلو) (قَالَ مَوْعِدُکُمْ یَوْمُ الزِّیْنَۃِ وَ اَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًی) (موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تمہارے لیے میلہ کا دن مقرر ہے اور یہ بات بھی کہ چاشت کے وقت لوگ جمع کیے جائیں) مقابلہ کے لیے دن اور وقت مقرر ہوگیا اور فرعون کے درباریوں نے فرعون سے کہا کہ اپنے اہلکاروں کو شہروں میں بھیج دے جو بڑے بڑے جادو گروں کو لے کر آئیں۔ سورة شعراء میں ہے۔ (فَجُمِعَ السَّحَرَۃُ لِمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ وَقِیْلَ للنَّاسِ ھَلْ اَنْتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَ لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَۃَ اِِنْ کَانُوْا ھُمُ الْغَالِبِیْنَ ) (سو جمع کیے گئے جادو گر مقررہ دن میں جو معلوم تھا اور لوگوں سے کہا گیا کہ تم جمع ہو گے تاکہ ہم جادو گروں کا اتباع کریں اگر وہ غالب ہوجائیں) چناچہ شہروں میں اہل کار بھیجے گئے اور فرعون کی قلم رو سے جادو گر جمع کئے گئے اہل دنیا، دنیا ہی کے لیے سوچا کرتے ہیں ان کو اپنی حکومت کی فکر پڑگئی اور حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کی دعوت توحید اور ان کی محنت کو حکومت چھیننے اور خود اپنی حکومت قائم کرنے پر محمول کیا۔ کما فی سورة یونس (وَ تَکُوْنَ لَکُمَا الْکِبْرِیَآءُ فِی الْاَرْضِ ) جادو گروں نے بھی (جو اس وقت دنیا کے طالب تھے) اپنی دنیا بنانے کی بات سوچی اور فرعون سے کہا کہ ہم غالب ہوگئے تو کیا ہمیں کوئی انعام دیا جائے گا اور کیا ہمارے عمل پر کوئی صلہ ملے گا ؟ فرعون نے کہا ہاں ضرور ملے گا اور صرف انعام ہی نہیں ملے گا بلکہ تم میرے مقربین میں ہوجاؤ گے ! مقابلہ کے لیے جادو گر میدان میں آئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ ہم اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں یا پہلے آپ ڈالیں گے۔ کما فی سورة طہٰ (قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّآ اَنْ نَّکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰی) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا القوا (پہلے تم ہی ڈالو) چناچہ ان لوگوں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ڈالیں اور فرعون کی عزت کی قسم کھا کر کہنے لگے کہ ہم ضرور غالب ہوں گے (کما فی سورة الشعراء) ان کی لاٹھیاں اور رسیاں لوگوں کی نظروں کے سامنے سانپ بن کر دوڑنے لگیں، یہ رسیاں کثیر تعداد میں تھیں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی بھیجی کہ تم اپنی لاٹھی ڈالو انہوں نے لاٹھی ڈالی تو اژدھا بن گئی۔ ان لوگوں نے نظر بندی کی تھی جس کی وجہ سے ان کی لاٹھیاں اور رسیاں سانپ معلوم ہو رہی تھیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ اژدھا ان سب کو نگلنے لگا اور ساحروں نے جو کھیل بنایا تھا جس کے ذریعہ لوگوں کو خوف زدہ کردیا تھا وہ سب کھیل بنا بنایا ختم ہوگیا۔ اسی کو فرمایا (فَاِذَا ھِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِکُوْنَ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَ بَطَلَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) (سو حق ثابت ہوگیا اور جو کچھ وہ لوگ کر رہے تھے، سب باطل ہوگیا) (فَغُلِبُوْا ھُنَالِکَ وَ انْقَلَبُوْا صٰغِرِیْنَ ) (سو وہ لوگ وہاں پر مغلوب ہوگئے اور ذلیل ہوگئے) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

113: جب جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں ڈالیں تو لوگوں کی آنکھوں میں جادو چل گیا اور حاضرین کو یوں معلوم ہونے لگا کہ پوری وادی خطرنکا سانپوں سے بھر گئی ہے۔ جادوگروں کے اس عظیم فریب کو دیکھ کر لوگ دہشت زدہ ہوگئے۔ “ سَحَرُوْا اَعْیُنَ النَّاسِ ” اور “ یُخَیَّلُ اِلَیْهِ مِنْ سَحْرِھِمْ اَ... نَّھَا تَسْعٰی ”(طٰہٰ رکوع 3) ۔ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یوں محسوس ہونے لگا گویا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں دوڑ رہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جادوگروں کی لاٹھیوں اور رسیوں کی حقیقت میں کوئی انقلاب نہیں آیا تھا اور وہ حقیقت میں سانپ نہیں بنی تھیں بلکہ یہ محض ایک فریب نظر تھا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ جادوگروں نے رسیوں اور لاٹھیوں کے اوپر کے حصے پر مختلف رنگوں سے سانپوں جیسے نقش و نگار بنا رکھتے تھے۔ رسیوں کے اوپر پارہ لگا تھا اور لاٹھیاں اندر سے خالی تھیں اور ان کے خلا میں پارہ بھرا ہوا تھا جب ان کو میدان میں پھینکا گیا تو سورج کی گرمی کی وجہ سے ان میں حرکت پیدا ہوگئی اور وہ ایک دوسری پر لوٹ پوٹ ہونے لگیں اور دیکھنے والوں کو یوں محسوس ہونے لگا کہ پوری وادی سانپوں سے بھر گئی ہے۔ “ و یقال انھم طلوا تلک الجبال بالزئیق ولونوھا و جعلوا داخل العصی زئیقا ایضاً والقوھا علی الارض فلما اثر حر الشمس فیھا تحرکت والتوی بعضھا علی بعض حتی تخیل للناس انھا حیات ”(روح ج 9 ص 35) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

116 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا تم ہی پہلے ڈال دو اور اپنا کرتب دکھانے میں تم ہی پہل کرو پھر جب ان جادوگروں نے ڈالا تو لوگوں کی آنکھوں کو مسحور کردیا اور انہوں نے لوگوں کو خوف زدہ کردیا اور وہ بڑا بھاری جادوبناکر لائے یعنی اول تو موسیٰ (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ آپ پہلے اپنا عصا ڈال دیں...  یا ہم اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ڈال دیں تو وہ دیکھنے والوں کو سانپ اور اژد ہے دکھائی دینے لگے اور ان جادوگروں نے حاضرین کی دید بند کردی اور لوگ ڈرنے لگے اور بڑا بھاری جادو پیش کیا۔  Show more