Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 132

سورة الأعراف

وَ قَالُوۡا مَہۡمَا تَاۡتِنَا بِہٖ مِنۡ اٰیَۃٍ لِّتَسۡحَرَنَا بِہَا ۙ فَمَا نَحۡنُ لَکَ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳۲﴾

And they said, "No matter what sign you bring us with which to bewitch us, we will not be believers in you."

اور یوں کہتے کیسی ہی بات ہمارے سامنے لاؤ کہ ان کے ذریعے سے ہم پر جادو چلاؤ جب بھی ہم تمہاری بات ہرگز نہ مانیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah punishes the People of Fir`awn because of Their Rebellion Allah describes the rebellion, tyranny, defiance of the truth and insistence on falsehood of the people of Fir`awn, وَقَالُواْ مَهْمَا تَأْتِنَا بِهِ مِن ايَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَا فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُوْمِنِينَ They said (to Musa): "Whatever Ayat you may bring to us, to work therewith your sorcery on us, we shall never believe in you." They said, `whatever miracle, proof and evidence you bring us, we will neither accept it from you nor believe in you or what you came with.'

سیاہ دل لوگ اقرار کے بعد انکار کرتے رہے ان کی سرکشی اور ضد دیکھئے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صاف کہتے ہیں کہ آپ خواہ کتنی ہی دلیلیں پیش کریں کیسے ہی معجزے بتائیں ہم ایمان لانے والے نہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب آپ کے جادو کے کرشمے ہیں ۔ ان پر طوفان آیا ، بکثرت بارشیں برسیں جس سے پھل اور اناج تباہ ہوگئے اور اسی سے وبا اور طاعون کی بیماری پھیل پڑی ۔ اسی لئے بعض مفسرین نے کہا ہے طوفان سے مراد موت ہے ۔ بعض کہتے ہیں کوئی زبردست آسمانی آفت آئی تھی جس نے انہیں گھیر لیا تھا ۔ ٹڈیوں کی مصیبت ان پر آئی ۔ یہ ایک حلال جانور ہے ۔ عبداللہ بن ابی اونی سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا سات غزوے میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئے ہیں ۔ ہر ایک میں ہم تو ٹڈیاں کھاتے رہے ، مسند احمد اور ابن ماجہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو مردے اور دو خون ہمارے لئے حلال کئے گئے ہیں مچھلی اور ٹڈی اور کلیجی اور تلی ۔ ابو داؤد میں ہے حضور سے ٹڈی کی نسبت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا اللہ کے لشکر بہت سے ہیں جنہیں نہ کھاتا ہوں نہ حرام کہتا ہوں ۔ حضور نے جی نہ چاہنے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا جیسے کہ گو آپ نے نہیں کھایا حالانکہ دوسروں کو اس کے کھانے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ حافظ ابن عساکر رحمت اللہ علیہ نے ایک مستقل رسالہ اسی میں تصنیف فرمایا ہے اس میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضور ٹڈی نہیں کھاتے تھے اور نہ گردے کھاتے تھے اور نہ گوہ ۔ لیکن انہیں آپ نے حرام نہیں کیا ۔ ٹڈی اس وجہ سے کہ وہ عذاب ہے ، گردے اس وجہ سے کہ یہ پیشاب کے قریب ہیں اور گوہ اس وجہ سے کہ آپ کو خوف تھا کہ کہیں یہ مسخ شدہ امت نہ ہو ، پھر یہ روایت بھی غریب ہے صرف یہی ایک سند ہے ، امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ٹڈی کو بڑی رغبت سے کھایا کرتے ، تلاش کر کے منگوایا کرتے ۔ چنانچہ کسی نے آپ سے مسئلہ پوچھا کہ ٹڈی کھائی جائے؟ آپ نے فرمایا کاش کہ ایک دو پیس مل جاتیں تو کیسے مزے سے کھاتے ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ امہات المومنین تو طباقوں میں لگا کر ٹڈیاں ہدیے اور تحفے کے طور پر بھیجتی تھیں ۔ امام بغوی ایک روایت لائے ہیں کہ حضور نے فرمایا حضرت مریم بنت عمران علیہما السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ایسا گوشت مجھے کھلا جس میں خون نہ ہو اللہ تعالیٰ نے انہیں ٹڈی کھلائی آپ نے ان کے لئے دعا کی کہ اے اللہ اسے بغیر دودھ پینے کے زندگی دے اور اس کی اولاد کو بغیر آواز نکالے اس کے پیچھے لگا دے ۔ ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے ٹڈیوں کو مارو نہیں یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا لشکر ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں یہ ٹڈیاں ان کے دروازوں کی کیلیں کھا جاتی تھیں اور لکڑی چھوڑ دیتی تھیں اور زاعی کہتے ہیں میں ایک دن جنگل میں تھا کیا دیکھتا ہوں کہ ٹڈیاں بہت سی آسمان کی طرف ہیں اور ان میں سے ایک ٹڈی پر ایک شخص سوار ہے جو ہتھیار بند ہے جو جس طرف اشارہ کرتا ہے ساری ٹڈیاں اس طرف کو جھک جاتی ہیں اور وہ زبان سے برابر کہہ رہا ہے کہ دنیا باطل ہے اور اس میں جو ہے وہ بھی باطل ہے ۔ شریح قاضی فرماتے ہیں اس جانور میں سات مختلف جانوروں کی شان ہے اس کا سر گو گھوڑے جیسا ہے گردن بیل جیسی ہے سینہ شیر جیسا ہے پر گدھ جیسے ہیں پر اونٹ جیسے ہیں دم سانپ کی طرح کی ہے ۔ پیٹ بچھو جیسا ہے آیت ( اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهٗ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۚ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ 96؀ ) 5- المآئدہ:96 ) کی تفسیر میں یہ روایت گذر چکی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج یا عمرے میں جا رہے تھے تو سامنے سے ہمیں ٹڈی دل ملا ہم نے احرام کی حالت میں انہیں لکڑیوں سے مارنا شروع کیا حضور سے سوال کرنے پر آپ نے فرمایا دریائی شکار میں محرم کو کوئی حرج نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب ان ٹڈیوں کیلئے بد دعا کرتے تو فرماتے اے اللہ جتنی ان میں سے بڑی ہیں تو انہیں سب کو ہلاک کر ڈال اور جتنی چھوٹی ہیں سب کو قتل کر ڈال ان کے انڈے خراب کر دے ان کی نسل کاٹ دے ان کے منہ ہماری روزی سے روک لے ہمیں روزیاں عطا فرما بیشک تو دعاؤں کا سننے والا ہے ۔ اس پر حضرت جابر نے عرض کیا یا رسول اللہ اللہ کے ایک لشکر کے غارت و برباد ہو جانے کی آپ دعا کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو سمندر کے اندر کی مچھلیوں کا ناک جھاڑن ہے ۔ چنانچہ بعض لوگوں نے اسے مچھلی میں سے اسی طرح نکلتے دیکھا ہے ۔ جب مچھلی سمندر کے کنارے انڈے دے جاتی ہے وہاں سے جب پانی ہٹ جاتا ہے اور دھوپ پڑنے لگتی ہے تو وہ انڈے سب کے سب پھوٹ جاتے ہیں اور ان میں سے ٹڈیاں نکلتی ہیں جو پرواز کر جاتی ہیں ۔ آیت قرآن ( الاامم امثالکم ) کی تفسیر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ حدیث ہم نے بیان کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور جار سو خشکی میں ۔ سب سے پہلے ہلاکت ٹڈیوں کی ہوگی ۔ امام ابو بکر بن ابو داؤد ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لکڑی تلوار کے مقابلے پر کچھ نہیں اور درخت کی چھال ٹڈی کے مقابلے میں کچھ نہیں یہ حدیث غریب ہے ۔ قتل کے بارے میں ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ وہ سیاہ رنگ کے چھوٹے چھوٹے جانور ہیں جو گہیوں میں سے نکلتے ہیں اور قول ہے کہ یہ بھی ایک قسم کی بےپر کی ٹڈیاں ہیں ۔ سعید کہتے ہیں سیاہ رنگ کے چھوٹے سے کیڑے ہیں ۔ اس کا واحد قملہ ہے ۔ یہ جانور جب اونٹ کو چمٹ جاتے ہیں تو اسے ہلاک کر دیتے ہیں ۔ الغرض ایسے ہی موذی جانور بصورت عذاب فرعونیوں کے لئے بھیجے گئے تھے ۔ فرعون کی سرکشی اور انکار پر طوفان آیا جس سے انہیں یقین ہو گیا کہ یہ اللہ کا عذاب ہے ۔ گڑ گڑا کر حضرت موسیٰ سے عرض کرنے لگے کہ اللہ سے دعا کیجئے یہ موسلا دھار پانی رک جائے تو ہم آپ پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ کر دیں گے ۔ آپ نے دعا کی طوفان ہٹ گیا تو یہ اپنے وعدے سے پھر گئے ۔ پھر اللہ کی شان ہے کہ کھیتیاں اور باغات اس قدر پھلے کہ اس سے پہلے کبھی ایسے نہیں پھلے تھے جب تیار ہوگئے تو ٹڈیوں کا عذاب آیا اسے دیکھ کر پھر گھبرائے اور موسیٰ علیہ السلام سے عرض کرنے لگے کہ اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ عذاب ہٹا لے اب ہم پختہ وعدہ کرتے ہیں آپ کی دعا سے یہ عذاب بھی ہٹ گیا لیکن انہوں نے پھر وعدہ شکنی کی ۔ فصلیں کاٹ لائے کھلیان اٹھا لئے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا عذاب پھر اور شکل میں آیا تمام اناج وغیرہ میں کیڑا لگ گیا اس قدر بکثرت یہ جانور پھیل گئے کہ دس پیمانے لے کر کوئی شخص پسوانے نکلتا تو پسوائے تک وہ جانور سات پیمانے کھا لیتے ۔ گھبرا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئے پھر وعدے کئے آپ پھر دعا کی اللہ تعالیٰ نے اس آفت کو بھی ہٹا لیا ۔ لیکن انہوں نے پھر بے ایمانی کی ۔ نہ بنی اسرائیل کو رہا کیا نہ ایمان قبول کیا ۔ اس پر مینڈکوں کا عذاب آیا ۔ دربار میں فرعون بیٹھا ہوا ہے تو وہیں مینڈک ظاہر ہو کر ٹرانے لگا سمجھ گئے کہ یہ نئی شکل کا عذاب الٰہی ہے ۔ اب یہ پھیلنے اور بڑھنے شروع ہوئے یہاں تک کہ آدمی بیٹھتا تو اس کی گردن تک آس پاس سے اسے مینڈک گھیر لیتے ۔ جہاں بات کرنے کیلئے کوئی منہ کھولتا کہ مینڈک تڑپ کر اس کے منہ میں گھس جاتا ۔ پھر تنگ آکر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس عذاب کے ہٹنے کی درخواست کی اور اقرار کیا کہ ہم خود ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کر دیں گے آپ نے دعا کی اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت کو بھی دفع کر دیا لیکن پھر مکر گئے ۔ چنانچہ ان پر خون کا عذاب آیا تمام برتنوں میں خون کھانے پینے کی چیزوں میں خون کنویں میں سے پانی نکلایں تو خون ۔ تالاب سے پانی لائیں تو خون ۔ پھر تڑپ اٹھے فرعون نے کہا یہ بھی جادو ہے لیکن جب تنگ آ گئے تو آخر حضرت موسیٰ سے مع وعدہ درخواست کی کہ ہم تو پانی سے ترس گئے ۔ چنانچہ آپ نے قول قرار لے کھر پور دعا کی اور اللہ نے اس عذاب کو بھی ہٹا لیا لیکن یہ پھر منکر ہوگئے ۔ فرعون جب میدان سے ناکام واپس لوٹا تھا اس نے ٹھان لی تھی کہ خواہ کچھ بھی ہو میں ایمان نہ لاؤں گا ۔ چنانچہ طوفان کی وجہ سے بھوکوں مرنے لگے پھر ٹڈیوں کا عذاب آیا تو درخت تو کیا گھر کی چوکھٹیں اور دروازوں تک وہ کھا گئیں مکانات گرنے لگے پھر حضرت موسیٰ نے اللہ کے حکم سے ایک پتھر پر لکڑی ماری ۔ جس میں سے بیشمار چچڑیاں نکل پڑیں اور پھیل گئیں ۔ کھانا ، پینا ، سونا ، بیٹھنا ، سب بند ہو گیا ۔ پھر مینڈکوں کا عذاب آیا جہاں دیکھو مینڈک نظر آنے لگے ۔ پھر خون کا عذاب آیا نہریں ، تالاب ، کنویں ، مٹکے گھڑے وغیرہ غرض بجائے پانی کے خون ہی خون سب چیزیں ہو گئیں ۔ عبید اللہ بن عمرو فرماتے ہیں مینڈک کو نہ مارو یہ جب بصورت عذاب فرعونیوں کے پاس آئے تو ایک نے اللہ کی رضا جوئی کے لئے تنور میں چھلانگ ماری ۔ اللہ نے اس کے بدلے انہیں پانی کی ٹھنڈک عطا فرمائی اور ان کی آواز کو اپنی تسبیح بنایا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ خون سے مراد نکسیر پھوٹنا ہے الغرض ہر عذاب کو دیکھ کر اقرار کرتے لیکن جب حضرت موسیٰ کی دعا سے وہ ہٹ جاتا تو پھر انکار کر جاتے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

132۔ 1 یہ کفر و جحود کا ظہار ہے جس میں وہ مبتلا تھے اور معجزت و آیات الٰہی کو اب بھی وہ جادوگری باور کرتے یا کراتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٨] مصر میں قحط کا عذاب :۔ ان کی عقل پر کچھ ایسے پتھر پڑگئے تھے کہ قحط اور خشک سالی کے مصائب کو بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے جادو کا نتیجہ قرار دے رہے تھے حالانکہ جادوگر میں ایسی ہرگز کوئی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے جادو کے اثر سے کسی علاقہ پر قحط یا خشک سالی مسلط کر دے اس کے باوجود وہ یہی کہتے تھے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) ! تم ہم پر کیسا بھی جادو کردو & ہم کبھی تمہاری بات تسلیم نہیں کریں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ ۔۔ : اوپر کی آیت میں ان کی یہ جہالت بیان فرمائی کہ وہ حوادث کی نسبت اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کی طرف کرنے کے بجائے دوسرے اسباب کی طرف کرتے ہیں، اب اس آیت میں ان کی دوسری جہالت بیان فرمائی کہ اتنی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی کم بخت فرعونی موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر ہی کہتے رہے اور انھوں نے معجزات اور جادو کا فرق آخر تک تسلیم نہ کیا، بلکہ انھوں نے اپنی سرکشی اور تمرد سے بالآخر قطعی طور پر اعلان کردیا کہ تم ( موسیٰ (علیہ السلام ) جو بھی معجزہ دکھاؤ ہم اسے تمہارا جادو ہی سمجھیں گے اور تم پر کبھی ایمان نہیں لائیں گے، حالانکہ انھیں ان معجزوں کے حق ہونے کا یقین تھا۔ دیکھیے سورة نمل (١٣، ١٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

And they said, مَهْمَا تَأْتِنَا بِهِ مِنْ آيَةٍ لِّتَسْحَرَ‌نَا بِهَا فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ &Whatever sign you bring to us in order to enchant us therewith, we are not going to believe in you.|"

اور بالاخر قوم فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام معجزات کو سحر کہہ کر نظر انداز کرتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰيَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَا ۙ فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤ ْمِنِيْنَ ، یعنی آپ کتنی ہی علامتیں اپنی نبوت کی پیش کرکے ہم پر اپنا جادو چلانا چاہیں تو سن لیجئے، ہم کبھی آپ پر ایمان لانے والے نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا مَہْمَا تَاْتِنَا بِہٖ مِنْ اٰيَۃٍ لِّتَسْحَرَنَا بِہَا۝ ٠ ۙ فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِيْنَ۝ ١٣٢ مھما ۔ جو کوئی بھی۔ جو کچھ بھی۔ جب کبھی۔ مھما تفعل افعل۔ جو کچھ تم کرو گے میں بھی کروں گا۔ مھما تاتنا من ایۃ۔ تو کوئی بھی نشانی لائے گا۔ تو جب کبھی بھی کوئی نشانی لائے گا۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٢) اور یہ لوگ کہتے تھے، اے موسیٰ (علیہ السلام) خواہ کوئی بھی دلیل لا کر ہم پر جادو کردو، ہم تمہاری رسالت کی تصدیق کرنے والے نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٢ (وَقَالُوْا مَہْمَا تَاْتِنَا بِہٖ مِنْ اٰیَۃٍ لِّتَسْحَرَنَا بِہَالا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْنَ ) ۔ وہ تحدی کے انداز میں کہتے کہ اے موسیٰ ! یہ جو تم اپنے جادو کے زور سے ہم پر مصیبتیں لا رہے ہو تو تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم تمہارے جادو کے زیراثر اپنے عقائد سے برگشتہ ہوجائیں گے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ! ہم تمہاری بات ماننے والے نہیں ہیں !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

94. Pharaoh's courtiers obstinately persisted in branding Moses' signs as sorcery although they knew well that sorcery had nothing in common with the miraculous signs granted to Moses. Even a fool would not he ready to believe that the country-wide famine and the consistent decrease in agricultural output could have been caused by magic. It is for this reason that the Qur'an says: But when Our signs, which should have opened their eyes, came to them they said: 'This is clear sorcery! And they rejected those signs out of iniquity and arrogance even though they were inwardly convinced of it' (al-Naml 27: 13-14).

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :94 یہ انتہائی ہٹ دھرمی و سخن پروری تھی کہ فرعون کے اہل دربار اس چیز کو بھی جادو قرار دے رہے تھے جس کے متعلق وہ خود بھی بالیقین جانتے تھے کہ وہ جادو کا نتیجہ نہیں ہو سکتی ۔ شاید کوئی بے وقوف آدمی بھی یہ باور نہ کرے گا کہ ایک پورے ملک میں قحط پڑ جانا اور زمین کی پیداوار میں مسلسل کمی واقع ہونا کسی جادو کا کرشمہ ہو سکتا ہے ۔ اسی بناء پر قرآن مجید کہتا ہے کہ فَلَمَّا جَآءَ تْھُمْ اٰیٰتُنَا مُبْصِرَةً قَا لُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِینٌ وَّجَحَدُوا بِھَا و ا ستَیْقَنَتھَٓا اَنفُسُھُمْ ظُلْمًاوَّ عُلُوًّا ( النمل ۔ آیات ١۳ ۔ ١٤ ) یعنی”جب ہماری نشانیاں علانیہ ان کی نگاہوں کے سامنے آئیں تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے ، حالانکہ ان کے دل اندر سے قائل ہوچکے تھے ، مگر انہوں نے محض ظلم اور سرکشی کی راہ سے ان کا انکار کیا ۔ “

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(132 ۔ 133) ۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے فرعون اور اس کی قوم کے کفر اور سرکشی کا حال بیان کیا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے کہتے تھے کہ تم معجزہ کے طور پر جو نشانی لاؤ گے ہم اس کو نہیں مانیں گے یہ جو تم عجائبات دکھلاتے ہو خدا کا دیا ہوا معجزہ نہیں ہے تم ایک جادوگر ہو ہم پر جادو کرتے ہو اور ہماری نظر بندی کردیتے ہو جس سے یہ تماشے دکھلائی دیتے ہیں اللہ پاک نے طوفان بھیج دیا اتنا مینہ آسمان سے برسا کہ راستوں اور گلیوں کا تو کیا ذکر گھروں میں پانی پانی ہوگیا ہر شخص کے گلے تک پانی تھا جو کوئی اس پانی میں کھڑا رہا اس کی جان بچ گئی جو گھر آکر بیٹھ گیا وہ غرق ہوا یہ پانی سات روز برابر برستا رہا لوگ چلنے پھرنے کہیں آنے جانے سے مجبور ہوگئے آخر عاجز آ کر ان لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اپنے خدا سے دعا کرو کہ پانی کھل جاوے ہم بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی پانی کھل گیا غلے میوے پھر پیدا ہونے لگے رستے خشک ہوگئے ایک میہنہ تک اسی حال میں رہے پھر موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے ہم تم پر ایمان نہیں لاویں گے اور نہ بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ بھیجیں گے اللہ پاک نے ٹڈیوں کو حکم کردیا وہ ان کے شہر میں آکر کھیتیوں کو نقصان پہنچانے لگیں جس درخت پر بیٹھ گئیں اس کو صاف کردیا ان کے مکانوں پر بیٹھ کر چھتوں کی کڑیاں اور چوکھٹوں کو کھانے لگیں مکان گرنے لگے پھر انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے التجا کی کہ آپ اپنے خدا سے دعا کریں کہ یہ بلا ہم سے دور کر دے ہم آپ پر ایمان لاویں گے اور بنی اسرائیل کو چھوڑدیں گے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے دعا کی کہ ٹڈیاں سب دفع ہوگئیں پھر یہ لوگ۔ ایمان لائے اور نہ بنی اسرائیل کو چھوڑا اور غلے گھروں میں جمع کر کے کہنے لگے ہم نے اپنا بندوبست کرلیا ہے اللہ پاک نے گھن کو بھیج دیا اس نے سارے غلہ کو کھو کھلا کردیا اور ہر جگہ گھن کے کیڑے نظر آنے لگے پھر مجبور ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کو کہا آپ نے دعا کی اللہ پاک نے گھن کو رفع دفع کردیا پھر یہ لوگ نہ ایمان لائے اور نہ بنی اسرائیل کو ساتھ کیا اللہ پاک نے مینڈک بھیج دئے پانی میں مینڈک کھانے پینے کی سب چیزوں میں مینڈک برتنوں میں مینڈک آدمیوں کی ٹھوڑیوں تک مینڈک کا انبار ہوگیا لوگوں کو منہ کھولنا مشکل تھا اگر بات کرنی بھی چاہتے تو مینڈک منہ میں چلا جاتا آخر حضرت موسیٰ سے دعا کا کہا ان کی دعا سے مینڈکوں کو بھی اللہ پاک نے دفع کردیا مگر پھر یہ لوگ ایمان نہیں لائے اور نہ بنی اسرائیل کو چھوڑا تو اللہ پاک نے ان کے واسطے دریا نہروں اور کنووں کے پانی کو خون کردیا لوگوں نے فرعون سے شکایت کی ہم کو پانی نہیں ملتا اس نے کہ کہ موسیٰ ( علیہ السلام) نے ہم پر جادو کردیا ہے کہنے لگے کہ جادو کیسا ہم مٹکوں میں پانی بھر کر رکھتے ہیں اور پھر وہ سارا پانی خون ہوجاتا ہے ناچار پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جا کر دعا کے طلب گار ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی یہ آفت بھی ٹل گئی مگر وہ لوگ ایمان نہ لانا تھا نہ لائے اور نہ بنی اسرائیل کو جانے دیا اپنے کفر اور نخوت میں پڑے رہے اپنے اقرار اور وعدہ توڑ توڑ کر مجرم ہوئے ترمذی ابوداؤد وغیرہ کے حوالہ سے حضرت عمر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث اوپر گذر چکی ہے کہ علم ازلی میں جو لوگ دوزخی ٹھہر چکے ہیں ان کو انبیاء کی نصیحت انبیاء کے معجزے کوئی چیز راہ راست پر نہیں لاسکتے یہ حدیث ان آیتوں کو گویا تفسیر ہے کیونکہ آیتوں اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ فرعون اور اس کی قوم کے لوگ ازلی دوزخی تھے اس لئے اگرچہ پے درپے وہ معجزے دیکھے جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے لیکن اس پر بھی وہ لوگ راہ راست پر نہ آئے اور آخر غرق ہو کر بڑی خرابی سے مرے اور سیدھے جہنم کو چلے گئے :۔ ١ ؎ جلد ہذاص ٢٨٠

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:132) مھما۔ جو کوئی بھی۔ جو کچھ بھی۔ جب کبھی۔ مھما تفعل افعل۔ جو کچھ تم کرو گے میں بھی کروں گا۔ مھما تاتنا من ایۃ۔ تو کوئی بھی نشانی لائے گا۔ تو جب کبھی بھی کوئی نشانی لائے گا۔ زمخشری (رح) نے اس آیت کی تشریح میں لکھا ہے کہ بہ کی ضمیر لفظ کی رعایت سے اور بھا کی مؤنث ضمیر معنی کے لحاظ سے لائی گئی ہے۔ ہر دو میں ضمیر آیۃ کی طرف راجع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اور پر کی آیت میں ان کی یہ جہالت بیان فرمائی کہ وہ حوادث کو اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر کی طرف نسبت کرنے کی بجائے دوسرے اسباب کو طرف منسوب کرتے ہیں۔ اب اس آیت میں ان کی دوسری جہالت بیان فرمائی کہ اتنی نشانیاں دیکھ لینے کے بعد بھی کم بخت حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو جادوگر ہی کہتے رہے اور معجزات اور جادو میں آخر دم تک تمیز نہ کرسکے بلکہ انہوں نے اپنی سرکشی اور تمرد سے بآلا خر قطعی پر یہ اعلان کردیا کہ تم مو سیٰ ( علیہ السلام) جو بھی معجزہ دکھا و ہم کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذرا آگے بڑھیے : فرعون اور اس کے حواری اپنی سرکشی میں آگے بڑھ رہے ہیں ، عزت نفس کے مجروح ہوجانے کی وجہ سے بہت ہی طیش میں ہیں اور غصے اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ کہتے ہیں : وَقَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰيَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَا ۙ فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِيْنَ ۔ انہوں نے موسیٰ سے کہا کہ " تو ہمیں مسحور کرنے کے لیے خواہ کوئی نشانی لے آئے ، ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں ہیں " یہ وہ حیوانی خود سری ہے جسے سدھایا نہیں جاسکتا ، جس پر نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا ، جسے کسی دلیل سے رد نہیں کیا جاسکتا ، وہ نہ فکر و نظر جانتی ہے اور نہ غور و تدبر سے کام لیتی ہے ، دلیئل کا سانا کرنے سے بھی پہلے وہ بات کو رد کردیتی ہے ، وہ دلیل کا راستہ ہی روک دیتی ہے۔ یہ وہ نفسیاتی حالت ہے جس میں ہر وہ شخص مبتلا ہوجاتا ہے جو جابرانہ انداز میں اور اپنی مصلحتوں کے لیے اقتدار میں ہوتا اور جسے دلیل نے شکست دے دی ہوتی ہے بلکہ دلیل وبرہان اس کا پیچھا کر رہے ہوتے ہیں لیکن اپنی مصلحتوں کی وجہ سے سچائی دلیل اور ثبوت کا سامنا نہیں کرسکتا۔ جب ایسے حالات ہوں تو پھر قادر مطلق اپنے خاص وسائل کام میں لاتا ہے

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

125: یہ قوم فرعون کا مقولہ ہے۔ یعنی ہمیں مرعوب و مسحور کرنے کے لیے یہ جو تو جادو کھیل اور بزعم خویش معجزات دکھا رہا ہے ہم ان سے ہرگز متاثر ہونے والے نہیں اور نہ تیری نبوت پر ایمان لانے کو تیار ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

132 اور فرعون والوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا خواہ تو کوئی نشانی اور کیسی ہی عجیب بات ہمارے پاس اور ہمارے روبرو اس لئے لے آئے کہ تو اس نشانی کی وجہ سے ہم کو مسحور کردے لیکن پھر بھی ہم تجھ پر ایمان لانے والے نہیں اور ہم تجھ کو ہرگز نہ مانیں گے یعنی آپ کوئی معجزہ بھی دکھادیں مگر ہم آپ کی مخالفت سے باز نہ آئیں گے۔