Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 136

سورة الأعراف

فَانۡتَقَمۡنَا مِنۡہُمۡ فَاَغۡرَقۡنٰہُمۡ فِی الۡیَمِّ بِاَنَّہُمۡ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ کَانُوۡا عَنۡہَا غٰفِلِیۡنَ ﴿۱۳۶﴾

So We took retribution from them, and We drowned them in the sea because they denied Our signs and were heedless of them.

پھر ہم نے ان سے بدلہ لیا یعنی ان کو دریا میں غرق کر دیا اور اس سبب سے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اور ان سے بالکل ہی غفلت کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The People of Fir`awn drown in the Sea; the Children of Israel inherit the Holy Land Allah tells; فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُواْ بِأيَاتِنَا وَكَانُواْ عَنْهَا غَافِلِينَ

انجام سرکشی جب یہ لوگ اپنی سرکشی اور خود پسندی میں اتنے بڑھ گئے کہ باری تعالیٰ کی بار بار کی نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی ایمان لانے سے برابر انکار کرتے رہے تو قدرت نے اپنے زبر دست انتقام میں انہیں پھانس لیا اور سب کو دریا برد کر دیا ۔ بنی اسرائیل بحکم اللہ تعالیٰ ہجرت کر کے چلے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا ان کے لئے خشک ہو گیا پھر فرعون اور اس کے ساتھی اس میں اترے تو دریا میں پھر روانی آ گئی اور پانی کا ریلہ آیا اور وہ سب ڈوب گئے ۔ یہ تھا انجام اللہ کی باتوں کو جھوٹ سمجھنے اور ان سے غافل رہنے کا ۔ پھر پروردگار نے بنو اسرائیل جیسے کمزور ناتواں لوگوں کو اس زمین کا وارث بنا دیا ۔ مشرق و مغرب ان کے قبضے میں آگیا جیسے فرمان ہے کہ ہم نے ان بےبسوں پر احسان کرنا چاہا اور انہیں امام اور وارث بنانا چاہا ۔ انہیں حکومت سونپ دی اور فرعون وہامان اور ان کے لشکریوں کو وہ نتیجہ دکھایا جس سے وہ بھاگ رہے تھے ۔ فرعونیوں سے ہرے بھرے باغات چشمے کھیتیاں ، عمدہ مقامات ، فراواں نعمتیں چھڑوا کر ہم نے دوسری قوم کے سپرد کر دیں ۔ یہ ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے ہے ۔ سر زمین شام برکت والی ہے ۔ بنی اسرائیل کا صبر نیک نتیجہ لایا فرعون اور اس کی قوم کی بنی بنائی چیزیں غارت ہوئیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

136۔ 1 اتنی بڑی نشانیوں کے باوجود وہ ایمان نہ لانے کے لئے اور خواب غفلت سے بیدار ہونے کے لئے تیار نہیں ہوئے بالآخر انہیں دریا میں غرق کردیا، جس کی تفصیل قرآن مجید کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣١] آل فرعون کی غرقابی :۔ جب بنی اسرائیل اس سمندر کے کنارے پہنچ گئے تو انہیں فرعون کے تعاقب کی خبر ہوگئی وہ سخت گھبرائے کہ اگر اب ہم ان کے ہتھے چڑھ گئے تو پھر ہماری خیر نہیں۔ ایسی پریشان کن اور نازک صورتحال میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی نازل فرمائی کہ وہ اپنا عصا سمندر پر ماریں۔ عصا سمندر پر مارنے کی دیر تھی کہ اللہ کے حکم سے ادھر کا پانی ادھر ہی تھم گیا اور ادھر کا ادھر تھم گیا جیسے ساکت و جامد پہاڑوں کے بڑے بڑے تودے کھڑے ہوں درمیان میں خشک راستہ بن گیا اس خشک راستے سے بنی اسرائیل جب سمندر کے دوسرے کنارے پر جا پہنچے تو فرعونیوں نے بھی وہاں پہنچ کر اسی خشک راستے پر اپنے گھوڑے ڈال دیئے جب یہ لشکر عین وسط میں پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ نے پانی کو حکم دیا کہ وہ مل جائے اس طرح فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت اپنے اس انجام بد کو پہنچ گیا جس کی خبر اسے موسیٰ (علیہ السلام) کئی بار دے چکے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The sixth punishment has been mentioned in the Qur&an by the Arabic word: رِجز &Rijz& which signifies plague or pestilence. The number of Egyptians killed in this plague is reported to have been more than seventy thousand. They were relieved of this punishment by the prayer of the prophet Musa (علیہ السلام) . Again they broke their promise as before. Now, when they showed no sign of understanding they were finally caught by the last punishment - the death. Leaving behind all their lands, houses and possessions they chased the prophet Musa (علیہ السلام) and his people and were drowned in the sea.

اس کے بعد ایک چھٹے عذاب کا ذکر بعد کی آیت میں رجز کے نام سے آیا ہے، یہ لفظ اکثر طاعون کے لئے بولا جاتا ہے، چیچک وغیرہ وبائی امراض کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، تفسیری روایات میں ہے کہ ان لوگوں پر طاعون کی وباء مسلط کردی گئی، جس میں ان کے ستر ہزار آدمی ہلاک ہوگئے۔ اس وقت پھر ان لوگوں نے فریاد کی اور پھر دعا کرنے پر یہ عذاب ہٹا اور پھر بدستور ان لوگوں نے عہد شکنی کی، اتنی مسلسل آزمائشوں اور مہلتوں کے بعد جب ان میں کوئی احساس پیدا ہی نہ ہوا تو اب آخری عذاب آگیا کہ سب کے سب اپنے مکان زمینیں سامان کو چھوڑ کر موسیٰ (علیہ السلام) کے تعاقب میں نکلے اور بالآخر دریائے قلزم کا لقمہ بن گئے، فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِي الْيَمِّ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِيْنَ ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنٰہُمْ فِي الْيَمِّ بِاَنَّہُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْہَا غٰفِلِيْنَ۝ ١٣٦ نقم نَقِمْتُ الشَّيْءَ ونَقَمْتُهُ : إذا أَنْكَرْتُهُ ، إِمَّا باللِّسانِ ، وإِمَّا بالعُقُوبةِ. قال تعالی: وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة/ 74] ، وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج/ 8] ، هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة/ 59] . والنِّقْمَةُ : العقوبةُ. قال : فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف/ 136] ، فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم/ 47] ، فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف/ 25] . ( ن ق م ) نقمت الشئی ونقمتہ کسی چیز کو برا سمجھنا یہ کبھی زبان کے ساتھ لگانے اور کبھی عقوبت سزا دینے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج/ 8] ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی ۔ کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة/ 74] اور انہوں نے ( مسلمانوں میں عیب ہی کو کونسا دیکھا ہے سیلا س کے کہ خدا نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا ۔ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة/ 59] تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو ۔ اور اسی سے نقمۃ بمعنی عذاب ہے قرآن میں ہے ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف/ 136] تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر ہی چھوڑا گر ان کو در یا میں غرق کردیا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم/ 47] سو جو لوگ نافر مانی کرتے تھے ہم نے ان سے بدلہ لے کر چھوڑا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف/ 25] تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔ غرق الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، ( غ ر ق ) الغرق پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔ يم اليَمُّ : البحر . قال تعالی: فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ [ القصص/ 7] ويَمَّمْتُ كذا، وتَيَمَّمْتُهُ : قصدته، قال تعالی: فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء/ 43] وتَيَمَّمْتُهُ برمحي : قصدته دون غيره . واليَمَامُ : طيرٌ أصغرُ من الورشان، ويَمَامَةُ : اسمُ امرأةٍ ، وبها سمّيت مدینةُ اليَمَامَةِ. ( ی م م ) الیم کے معنی در یا اور سمندر کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ [ القصص/ 7] تو اسے در یا میں ڈال دینا یممت کذا وتیممت قصد کرنا قرآن پاک میں ہے ۔ فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء/ 43] تو پاک مٹی لو ۔ یممتہ بر محی میں نے اسے نیزے نشان نہ بنایا ۔ الیامم جنگلی کبوتر کو کہتے ہیں اور یمامۃ ایک عورت کا نام تھا جس کے نام پر ( صوبہ یمن کے ایک شہر کا نام الیمامہ رکھا گیا تھا ۔ غفل الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] ( غ ف ل ) الغفلتہ ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

60: فرعون اور اس کے غرق ہونے کا واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۂ یونس، سورۂ طہ اور سورۃ ٔشعراء میں آنے والا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(136 ۔ 137) ۔ جب ان پانچوں چھٹوں عذاب ان پر ایک کے بعد ایک۔ ایک ایک ہفتہ کے فاصلہ سے آتے گئے اور موسیٰ ( علیہ السلام) ان کو پہلے جاکر کہہ آتے تھے کہ فلاں عذاب تم پر آویگا اور وہی عذاب ان پر آتا تھا اور آخر موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کرنے سے وہ بلا ٹلتی بھی گئی لیکن یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو ایک روز آدھی رات کو سارے شہر میں وبا پھیل گئی اور ہر شخص کا اکلوتا بیٹا مرنے لگا یہ لوگ مردوں کے غم میں اور اپنی جانوں کی فکر میں تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم بنی اسرائیل کو لے کو شہر سے نکل گئے جب فرعون کو اس کی خبر ہوئی تو لشکر تیار کر کے ان کے پیچھے بھاگا اور مو سے (علیہ السلام) کو مع بنی اسرائیل کے دریائے قلزم کی طرف جاتے دیکھا یہ بھی مع لشکر کے وہاں پہنچا موسیٰ (علیہ السلام) مع اپنی قوم کے دریا میں گھس گئے دریا نے خدا کے حکم سے بارہ رستے بنائے اور یہ سب کے سب ان رستوں سے دریا کے پار ہوگئے فرعون بھی اپنے لشکر کے دریا میں گھس پڑا جب بیچوں بیچ میں پہنچا تو دریا دونوں طرف سے آکر مل گیا اور یہ لوگ اول سے آخر تک ڈوب کر ہلاک ہوگئے اس کو اللہ پاک نے بیان فرمایا کہ یہ لوگ ہماری آیتوں اور نشانیوں کو جھٹلایا کرتے اور ایمان لانے سے غفلت کرتے رہے اس لئے ہم نے اس کا بدلہ ان سے لیا سارے کافروں کو دریا میں غرق کردیا پھر فرمایا کہ ان کی جگہ بنی اسرائیل کو دی جن کو فرعون اور اس کی قوم قبط ذلیل و خوار سمجھے ہوئے تھے ان ہی کا مصر اور شام کے چاروں طرف کے ملک پر قبضہ کرا دیا اور اس ملک میں ایسی برکت دی کہ وہاں کے پھل میوے اور کھیتی بڑے زوروں پر ہونے لگی اور بعض مفسروں نے مشارق اور مغارب ارض سے تمام روئے زمین کو مراد لیا ہے کیونکہ داؤد وسلیمان (علیہما السلام) تمام روئے زمین کے مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک مالک ہوگئے تھے اور یہ دونوں نبی قوم بنی اسرائیل میں سے تھے پھر اللہ پاک نے اپنے ایفائے وعدہ کا ذکر کیا کہ ہم نے جو وعدہ کیا تھا کہ دشمنوں کو غارت کردیا جاویگا اور ان کی جگہ ملک پر تم لوگوں کو قبضہ اور دخل دیا جاویگا اللہ تعالیٰ نے وہ بات پوری کردی کہ فرعون اور اس کی قوم کی کچھ پیش نہ چلی سب کے سب ہلاک ہوئے اور ان کے باغ اور مکانات اور سب تیاریاں باغ اور مکانوں کی بالکل نیست ونابود کردیں مکی سورتوں میں اس قصہ کے ذکر فرمانے سے یہ مقصد ہے کہ اس سورة کے نازل ہونے تک اہل مکہ میں سے جو لوگ اللہ کے رسول کی مخالفت کے درپے ہیں انکو معلوم ہوجاوے کہ رسول وقت کی مخالفت کا یہی نتیجہ ہونے والا ہے جو نتیجہ فرعون اور اس کی قوم کا ہوا اسی طرح رسول وقت کے فرمانبردار لوگوں کا وہی نتیجہ ہوگا جو نتیجہ بنی اسرائیل کا ہوا۔ اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے بدر کی لڑائی کے وقت اس مقصد کا جو ظہور ہوا اس کا ذکر اس لڑائی کے قصہ میں گذر چکا ہے اس بدر کی لڑائی کے حال میں جو حدیثیں گذر چکیں وہ ان آیتوں کے مقصد کی گویا تفسیر ہیں خصوصا صحیح بخاری ومسلم کی انس بن (رض) مالک کی حدیث کہ اس لڑائی میں مسلمانوں کا غلبہ ہوا اور بڑے بڑے مخالف اسلام نہایت ذلت سے مارے گئے :۔ ١ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ٥٦٦ باب قتل ابی جہل۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:136) فانتقمنا۔ ماضی جمع مذکر متکلم۔ پس ہم نے انتقام لیا۔ بدلہ لیا۔ الیم۔ اسم جنس۔ دریا ۔ یم۔ مصدر۔ دریا میں ڈالنا۔ دریا کا ساحل پر چڑھ آنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 الیم کے معنی گہرے سمندر کے ہیں جب بکرا وہ مرات عذاب دور کرنے کے بعد بھی وہ اپنے کفر اور جہالت سے باز نہ آئے اور عذاب کا مقرر وقت آپہنچا ( کبیر) چناچہ ایک رات حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اپنی قوم فرعون پیچھے لگا۔ بحر قلزم پر جاپکڑا وہاں یہ قوم سلامت گزری گئی اور فرعون ساری قوم سمیت غرق ہو۔ کذافی المو ضح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اللہ کی سنت کے مطابق قدرتی انجام سامنے آتا ہے۔ ان لوگوں کو مشکلات میں مبتلا کرکے بھی آزمایا گیا ، انہیں فراوانی دے کر بھی آزمایا گیا لیکن وہ باز نہ آئے۔ اب وہ واقعہ پیش آتا ہے جو یقین بنا۔ فرعون اور اس کے حاشیہ نشین ہلاک ہوتے ہیں۔ اب ان کی مہلت ختم ہے اور جس انجام تک انہوں نے پہنچنا تھا ، وہ قریب آگیا ہے۔ اور ضعفاء اور صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ کا جو عہد ہوتا ہے اس کا وقت بھی آپہنچا ہے لہذا سر کشوں اور جابروں کو ہلاک کردیا جاتا ہے۔ فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِي الْيَمِّ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِيْنَ ۔ وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ بِمَا صَبَرُوْا ۭوَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهٗ وَمَا كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ ۔ تب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کردیا کیونکہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے بےپرواہ ہوگئے تھے۔ اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے ، اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا۔ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدہ خیر پورا ہوا کیونکہ انہوں نے صبر سے کام لیا تھا اور ہم نے فرعون اور اس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کردیا جو وہ بناتے اور چڑھاتے تھے " یہاں سیاق کلام میں فرعون کی غرق یابی کے واقعہ کو مختصراً بیان کردیا گیا ہے اور اس کی وہ تفصیلات نہیں دی گئیں جو دوسرے مقامات میں دی گئی ہیں۔ اس لیے کہ یہاں مضمون صرف یہ ہے کہ اللہ سرکشوں کو مہلت کے بعد پکڑتا ہے۔ لہذا اس موضوع کو قصوں کی تفصیلات کی ضرورت نہیں تھی اور ایسے موقعے میں محض اشارات زیادہ اثر انگیز ہوتے ہیں اور احساس پر ایسے واقعات کا زیادہ اچھا اثر ہوتا ہے۔ فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِي الْيَمِّ ۔ " تب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کردیا " ایک ہی وار میں ان کا کام تمام کردیا۔ وہ سرکش ، دست دراز اور متکبر تھے۔ اللہ نے انہیں سمندر کی تہہ میں ڈال کر یہ دکھایا کہ تم اب پستیوں سے بھی پست ہو۔ اور یہ تمہارے لیے مناسب جزا ہے۔ یہ کیوں ؟ اس لیے بانہم کذبو بایتنا وکانو عنہا غافلین کیونکہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے بےپرواہ ہوگئے تھے "

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَانْتَقَمْنَا مِنْھُمْ فَاَغْرَقْنٰھُمْ فِی الْیَمِّ ) (پھر ہم نے ان سے انتقام لیا سو ہم نے ان کو سمندر میں ڈبو دیا) ۔ (بِاَنَّھُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا) (اس وجہ سے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا) (وَ کَانُوْا عَنْھَا غٰفِلِیْنَ ) (اور وہ لوگ ان سے غافل تھے) یعنی جو نشانیاں ان کے پاس آتی تھیں ان سے غفلت برتتے تھے اور ان کے ساتھ بےپرواہی کا معاملہ کرتے تھے نہ فکر مند ہوتے نہ نصیحت حاصل کرتے۔ بنی اسرائیل کے نجات پانے اور قوم کے غرق ہونے کا تذکرہ ( سورة بقرہ رکوع ٦) میں گزر چکا ہے نیز سورة شعراء (رکوع ٤) اور سورة قصص (رکوع ١) اور سورة دخان (رکوع ١) میں بھی مذکور ہے اور سورة شعراء میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

128: آخر ان کے مسلسل عناد و استکبار کی وجہ سے ہم نے ان سے بدلہ لیا اور فرعون اور اس کی قوم کو دریائے نیل میں غرق کردیا۔ “ بِانَّھُمْ ” میں باء سببیہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

136 الغرض ! ہم نے ان سے پوری طرح انتقال لیا اور ان کو دریا میں غرق کردیا کیونکہ وہ ہماری نشانیوں کی تکذیب اور ہمارے احکام کو جھٹلایا کرتے تھے اور ان آیات خداوندی سے غفلت و بےپروائی برتا کرتے تھے۔ یعنی یہ سب بلائیں ان پر آئیں ایک ایک ہفتہ کے فرق سے اول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کو کہہ آتے کہ اللہ تم پر یہ بلا بھیجے گا وہی بلا آتی پھر مضطر ہوتے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خوشامد کرتے ان کی دعا سے دفع ہوتی پھر منکر ہوجائے آخرکار وبا پڑی نصف شب کے سارے شہر میں ہر شخص کا پہلا بیٹا مرگیا وہ لگے مردوں کے غم میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو لیکر شہر سے نکل گئے۔ پھر کئی روز کے بعد فرعون پیچھے لگا دریائے قلزم پر جاپکڑا وہاں یہ قوم سلامت گزر گئی اور فرعون ساری فوج سمیت غرق ہوا۔ 12 یہ بلائیں سات 7 نشانیاں تھیں ان کو اور دو نشانیاں عصا اور ید بیضا یہ سب نو 9 نشانیاں تھیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئیں تھیں جس کا ذکر قرآن کریم میں کئی جگہ ہے۔