Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 146

سورة الأعراف

سَاَصۡرِفُ عَنۡ اٰیٰتِیَ الَّذِیۡنَ یَتَکَبَّرُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ ؕ وَ اِنۡ یَّرَوۡا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡا بِہَا ۚ وَ اِنۡ یَّرَوۡا سَبِیۡلَ الرُّشۡدِ لَا یَتَّخِذُوۡہُ سَبِیۡلًا ۚ وَ اِنۡ یَّرَوۡا سَبِیۡلَ الۡغَیِّ یَتَّخِذُوۡہُ سَبِیۡلًا ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ کَانُوۡا عَنۡہَا غٰفِلِیۡنَ ﴿۱۴۶﴾

I will turn away from My signs those who are arrogant upon the earth without right; and if they should see every sign, they will not believe in it. And if they see the way of consciousness, they will not adopt it as a way; but if they see the way of error, they will adopt it as a way. That is because they have denied Our signs and they were heedless of them.

میں ایسے لوگوں کو اپنے احکام سے برگشتہ ہی رکھوں گا جو دنیا میں تکبر کرتے ہیں ، جس کا ان کو کوئی حق حاصل نہیں اور اگر تمام نشانیاں دیکھ لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہ لائیں اور اگر ہدایت کا راستہ دیکھیں تو اس کو اپنا طریقہ نہ بنائیں اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو اس کو اپنا طریقہ بنالیں یہ اس سبب سے ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے غافل رہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Arrogant People will be deprived of Allah's Ayat Allah said, سَأَصْرِفُ عَنْ ايَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ... I shall turn away from My Ayat those who behave arrogantly on the earth, without a right. Allah says, "I shall deprive the hearts of those who are too proud to obey Me, and arrogant with people without right, from understanding the signs and proofs that testify to My Might, Law and Commandments." And just as they acted arrogantly without justification, Allah has disgraced them with ignorance. Allah said in another Ayah, وَنُقَلِّبُ أَفْيِدَتَهُمْ وَأَبْصَـرَهُمْ كَمَا لَمْ يُوْمِنُواْ بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ And We shall turn their hearts and their eyes away (from guidance), as they refused to believe therein for the first time. (6:110) and, فَلَمَّا زَاغُواْ أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ So when they turned away (from the path of Allah), Allah turned their hearts away (from the right path). (61:5) Sufyan bin Uyaynah commented on this Ayah, سَأَصْرِفُ عَنْ ايَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ (I shall turn away from My Ayat those who behave arrogantly on the earth, without a right), "(Allah says) I shall snatch away comprehension of the Qur'an from them and turn them away from My Ayat." Ibn Jarir commented on Sufyan's statement that, "This indicates that this part of the Ayah is addressed to this Ummah." This is not necessarily true, for Ibn `Uyaynah actually meant that this occurs in every Ummah and that there is no difference between one Ummah and another Ummah in this regard. Allah knows best. Allah said next, ... وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ ايَةٍ لاَّ يُوْمِنُواْ بِهَا ... and (even) if they see all the Ayat, they will not believe in them. Allah said in a similar Ayah, إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُوْمِنُونَ وَلَوْ جَأءَتْهُمْ كُلُّ ءايَةٍ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ Truly, those, against whom the Word (wrath) of your Lord has been justified, will not believe. Even if every sign should come to them, until they see the painful torment. (10:96-97) Allah's statement, ... وَإِن يَرَوْاْ سَبِيلَ الرُّشْدِ لاَ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلً ... And if they see the way of righteousness, they will not adopt it as the way, means, even if the way of guidance and safety appears before them, they will not take it, ... وَإِن يَرَوْاْ سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلً ... but if they see the way of error, they will adopt that way, but if the way that leads to destruction and misguidance appears to them, they adopt that way. Allah explains why they do this, ... ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُواْ بِأيَاتِنَا ... that is because they have rejected Our Ayat, in their hearts, ... وَكَانُواْ عَنْهَا غَافِلِينَ and were heedless of them. gaining no lessons from the Ayat. Allah's statement,

تکبر کا پھل محرومی تکبر کا نتیجہ ہمیشہ جہالت ہوتا ہے ایسے لوگوں کو حق سمجھنے ، اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی ۔ ان کے بے ایمانی کی وجہ سے ان کے دل الٹ جاتے ہیں ، آنکھ کان بیکار ہو جاتے ہیں ۔ ان کی کجی ان کے دلوں کو بھی کج کر دیتی ہے ۔ علماء کا مقولہ ہے کہ متکبر اور پوچھنے سے جی چرانے والا کبھی عالم نہیں ہو سکتا ۔ جو شخص تھوڑی دیر کے لئے علم کے حاصل کرنے میں اپنے آپ کو دوسرے کے سامنے نہ جھکائے وہ عمر بھر ذلت و رسوائی میں رہتا ہے ۔ متکبر لوگوں کو قرآن کی سمجھ کہاں؟ وہ تو رب کی آیتوں سے بھاگتے رہتے ہیں ۔ اس امت کے لوگ ہوں یا اور امتوں کے سب کے ساتھ اللہ کا طریقہ یہی رہا ہے کہ تکبر کی وجہ سے حق کی پیروی نصیب نہیں ہوتی چونکہ یہ لوگ اللہ کے عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں اگرچہ یہ بڑے بڑے معجزے بھی دیکھ لیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا ۔ گو نجات کے راستے ان پر کھل جائیں لیکن اس راہ پر چلنا ان کے لئے دشوار ہے ۔ ہاں بری راہ سامنے آتے ہی یہ بےطرح اس پر لپکے ۔ اس لئے کہ ان کے دلوں میں جھٹلانا ہے اور اپنے اعمال کے نتیجوں سے بےخبر ہیں ۔ جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلائیں ، آخرت کا یقین نہ رکھیں ، اسی عقیدے پر مریں ان کے اعمال اکارت ہیں ۔ ہم کسی پر ظلم نہیں کرتے بدلہ صرف کئے ہوئے اعمال کا ہی ملتا ہے ۔ بھلے کا بھلا اور برے کا برا ، جیسا کر وگے ویسا بھرو گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

146۔ 1 تکبر کا مطلب ہے اللہ کی آیات و احکام کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور لوگوں کو حقیر گرداننا۔ یہ تکبر انسان کے لئے زیبا نہیں دیتا، کیونکہ اللہ خالق ہے اور وہ اس کی مخلوق۔ مخلوق ہو کر، خالق کا مقابلہ کرنا اور اس کے احکام و ہدایات سے اعراض و غفلت کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کو تکبر سخت ناپسند ہے۔ اس ایت میں تکبر کا نتیجہ بتلایا گیا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایات الہی سے دور ہی رکھتا ہے اور پھر وہ اتنے دور ہوجاتے ہیں کہ کسی طرح کی بھی نشانی انہیں حق کی طرف لانے میں کامیاب نہیں ہوتی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا (ترجمہ) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوگئ وہ ایمان نہیں لائیں گے چاہے ان کے پاس ہر طرح کی نشانی آجاوے حتی کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ 146۔ 2 اس میں احکام الٰہی سے اعراض کرنے والوں کی ایک عادت یا نفسیات کا بیان ہے کہ ہدایت کی کوئی بات ان کے سامنے آئے تو اسے تو نہیں مانتے، البتہ گمراہی کی کوئی چیز دیکھتے ہیں تو اسے فوراً اپنا لیتے اور راہ عمل بنا لیتے ہیں قرآن کریم کی بیان کردہ اس حقیقت کا ہر دور میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ آج ہم بھی ہر جگہ اور ہر معاشرے میں حتٰی کہ مسلمان معاشروں میں بھی دیکھ رہے ہیں کہ نیکی منہ چھپائے پھر رہی ہے اور بدی انسان لپک لپک کر اختیار کر رہا ہے۔ 146۔ 3 یہ اس بات کا سبب بتلایا جا رہا ہے کہ لوگ نیکی کے مقابلے میں بدی کو اور حق کے مقابلے میں باطل کو کیوں زیادہ اختیار کرتے ہیں ؟ یہ سبب ہے آیات الٰہی کی تکذیب اور ان سے غفلت اور اعراض کا۔ یہ ہر معاشرے میں عام ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٣] تکبر کی تعریف اور علامات :۔ تکبر کی جامع تعریف درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہو۔ && ایک شخص نے کہا : ہر انسان اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اس کی جوتی اچھی ہو (کیا یہ تکبر ہے ؟ && ) آپ نے فرمایا && اللہ خوب صورت ہے، خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، تکبر تو یہ ہے کہ تو حق کو ٹھکرا دے اور لوگوں کو حقیر سمجھے && (مسلم، کتاب الایمان۔ باب تحریم الکبروبیانہ ) یعنی تکبر کی ایک علامت تو یہ ہوتی ہے کہ متکبر انسان اللہ کے احکام کی کچھ پروا نہیں کرتا اور اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کے مقام سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے جیسے نہ تو وہ اللہ کا بندہ ہے اور نہ ہی اللہ اس کا پروردگار ہے اور دوسری علامت یہ ہے کہ اپنے آپ کو عام لوگوں سے کوئی بالاتر مخلوق سمجھنے لگتا ہے اور دوسروں کو اپنے سے فروتر سمجھ کر ان سے ویسا ہی سلوک کرتا ہے حالانکہ اس کی اس خودسری کے لیے کوئی وجہ جواز نہیں اللہ کی زمین پر رہتے ہوئے اور اس کا رزق کھاتے ہوئے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کا نافرمان اور متکبر بن کر رہے اسی لیے اللہ نے یہاں بغیر الحق کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ [ ١٤٣۔ الف ] تکبرکا اثر انسانی طبائع پر :۔ پورے جملہ کا مفہوم یہ ہوگا کہ بلاوجہ تکبر کرنے والوں کی نگاہیں اللہ کی آیات کی طرف اٹھتی ہی نہیں۔ خواہ پوری کی پوری کائنات اللہ کی ایسی نشانیوں سے بھری ہوئی ہو اور ایسی ہی بیشمار آیات ان کے اپنے جسم کے اندر بھی موجود ہوں یا انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سنائی جائیں تو ان کے دل کوئی اثر قبول نہیں کرتے اور اگر کوئی خرق عادت معجزہ بھی دیکھ لیں تو اس کی تاویلات و توجیہات تلاش کرنے پر تو تیار ہوجاتے ہیں لیکن راہ راست پر آنے کا نام نہیں لیتے ہاں اگر کوئی گمراہی کی بات ہو اپنے خواہشات نفس کی پیروی کی بات ہو اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا جا رہا ہو یا کمزور مسلمانوں پر پھبتیاں کسی جا رہی ہوں تو ایسی باتیں ان کو بہت راس آتی ہیں اور بھلی معلوم ہوتی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰتِيَ ۔۔ : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر کبر ہوگا۔ “ ایک آدمی نے کہا : ” آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، اس کا جوتا اچھا ہو (کیا یہ بھی کبر ہے) ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، تکبر تو بڑا بنتے ہوئے حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر اور بےوقعت جاننے کا نام ہے۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ٩١، عن ابن مسعود (رض) ] اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی آیات سن کر جو لوگ اپنی بڑائی اور برتری کے زعم میں حق قبول نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ بھی انھیں اپنی آیات قبول کرنے سے دفع دور کردیتا ہے۔ یہاں فرمایا : ” میں اپنی آیات سے ان لوگوں کو پھیر دوں گا۔۔ “ یعنی انھیں یہ سزا دوں گا کہ وہ میری عظمت، شریعت اور احکام کو سمجھ نہ سکیں گے اور پھر جاہل رہنے کی وجہ سے دنیا و آخرت دونوں میں ذلیل ہوں گے۔ (نیز دیکھیے انعام : ١١٠) اس لیے بعض سلف کا قول ہے : ” متکبر شخص علم حاصل نہیں کرسکتا اور جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے ایک ساعت کی ذلت گوارا نہیں کرسکتا وہ جاہل رہ کر ہمیشہ کی ذلت مول لیتا ہے۔ “ (ابن کثیر) ” ِ بِغَيْرِ الْحَقِّ “ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں حق بنتا ہو وہاں بڑا بن کے دکھانا درست ہے، مثلاً کفار کے مقابلے میں میدان جنگ کے اندر اللہ تعالیٰ کو متکبرانہ انداز کی چال بھی محبوب ہے جو عام حالات میں اسے سخت ناپسند ہے۔ وَكَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِيْنَ : یعنی یہ سب ان کے اپنے کیے کی سزا ہوگی، جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : ( اَزَاغ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ۭ ) [ الصف : ٥ ] ” جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا کرو۔ “ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” الواح (تختیاں) دے کر یہ بھی فرمایا کہ قوم کو تقید (پابند) کرو کہ عمل کریں اور یہ بھی فرما دیا کہ جو بےانصاف ہیں اور حق پرست نہیں ان کے دل میں پھیر دوں گا، اس پر عمل نہیں کریں گے، یعنی ان حکموں کی توفیق نہ ہوگی اور جو اپنی عقل سے کریں گے وہ قبول نہ ہوگا۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The verse 146 spoke of the arrogant people as showing arrogance unjustly. The word without truth or unjustly indicates that assuming arrogance in response to the arrogant people is a justified act, since it is the act of arrogance in appearance, and not in reality. It is a known dictum: اَلتَّکَبُّرُ مَعَ المُتَّکبِّرِینَ تواضُعُ |"Showing arrogance to the arrogant is an act of humbleness|". (Masail as-Suluk). The effects of Arrogance By saying, |"I shall keep away from My verses those who show arro¬gance,|" the verse implies that the people who have an offensive sense of superiority over others are deprived of knowledge and understanding. They are rendered incapable of benefitting themselves from the signs of Allah. The term &Signs of Allah&, may have a reference to the revealed verses of the Torah, Evangel and the Qur&an, as well as to the signs inherent in all the things of the heavens and the earth. The false sense of superiority is, therefore, the worst habit which keeps man away from deliberations in the signs of Allah and getting awareness of the truth. We find it stated in Ruh-al-Bayan that arrogance is such a wicked habitude as raises a wall between man and the knowledge from Allah. Since divine knowledge comes only through the mercy of Allah, and the mercy of Allah visits those who are humble. The spiritual leader Sheikh Rumi has said: ھر کجا آب پستی آب آنجا رود ھر کجا مشکل جواب آنجا رود |"Water flows down towards the slope, and solution goes where difficulty appears.|"

خلاصہ تفسیر (اب ترغیب اطاعت کے بعد ترہیب مخالفت کے لئے ارشاد ہے کہ) میں لوگوں کو اپنے احکام سے برگشتہ ہی رکھوں گا جو دنیا میں (احکام ماننے سے) تکبر کرتے ہیں جس کا ان کو کوئی حق حاصل نہیں (کیونکہ اپنے کو بڑا سمجھنا حق اس کا ہے جو واقع میں بڑا ہو، اور وہ ایک خدا کی ذات ہے) اور (برگشتگی کا ان پر یہ اثر ہوگا کہ) اگر تمام (دنیا بھر کی) نشانیاں ( بھی دیکھ لیں تب بھی ( غایت قسادت سے) ان پر ایمان نہ لاویں اور اگر ہدایت کا راستہ دیکھیں تو اس کو اپنا طریقہ نہ بنائیں اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو اس کو اپنا طریقہ بنالیں ( یعنی حق کے قبول نہ کرنے سے پھر دل سخت ہوجاتا ہے اور برگشتگی اس حد تک پہنچ جاتی ہے) یہ ( اس درجہ کی برگشتگی) اس سبب سے ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو ( تکبر کی وجہ سے) جھوٹا بتلایا اور ان (کی حقیقت میں غور کرنے) سے غافل رہے ( یہ سزا تو دنیا میں ہوئی کہ ہدایت سے محروم رہے) اور ( آخرت میں یہ سنرا ہوگی کہ) یہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو اور قیامت کے پیش آنے کو جھٹلایا ان کے سب کام ( جن سے ان کو توقع نفع کی تھی) غارت گئے ( اور انجام اس خبط کا جہنم ہے) ان کو وہی سزا دی جائے گی جو کچھ یہ کرتے تھے اور ( جب موسیٰ (علیہ السلام) طور پر تورات لانے تشریف لے گئے تو) موسیٰ ( علیہ السلام) کی قوم ( یعنی بنی اسرائیل) نے ان کے ( جانے کے) بعد اپنے ( مقبوضہ) زیوروں کا ( جو کہ قبطیوں سے مصر سے نکلتے وقت یہ بہانہ شادی کے مانگ لیا تھا) ایک بچھڑا ( بناکر جس کا قصہ سورة طہ میں ہے، اس کو معبود) ٹھہرایا جو کہ ( صرف اتنی حقیقت رکھتا تھا کہ) ایک قالب تھا جس میں ایک آواز تھی ( اور اس میں کوئی کمال نہ تھا، جس سے کسی عاقل کو اس کی معبودیت کا شبہ ہو سکے) کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ ( اس میں آدمی کے برابر بھی تو قدرت نہ تھی چنانچہ) وہ ان سے بات تک نہیں کرتا تھا اور نہ ان کو ( دنیا یا دین کی) کوئی راہ بتلاتا تھا ( اور خدا کی سی صفات تو اس میں کیا ہوتیں، غرض یہ کہ) اس لئے (بچھڑے) کو انہوں نے معبود قرار دیا اور ( چونکہ اس میں اصلا کوئی شبہ کی وجہ نہ تھی اس لئے انہوں نے) بڑا ڈھنگا کام کیا اور ( بعد رجوع موسیٰ (علیہ السلام) کے جس کا قصہ آگے آتا ہے ان کے تنبیہ فرمانے سے) جب ( متنبہ ہوئے اور اپنی اس حرکت پر) نادم ہوئے اور معلوم ہوا کہ واقعی وہ لوگ گمراہی میں پڑگئے تو ( ندامت سے بطور معذرت) کہنے لگے کہ اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ کرے اور ہمارا ( یہ) گناہ معاف نہ کرے تو ہم بالکل گئے گزرے۔ چناچہ خاص طریقہ سے ان کو تکمیل توبہ کا حکم ہوا جس کا قصہ سورة بقرہ آیت فاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ میں گزرا ہے) اور ( موسیٰ (علیہ السلام) کو متنبہ فرمانے کا قصہ یہ ہوا کہ) جب موسیٰ ( علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف ( طور سے) واپس آئے غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے (کیونکہ ان کو وحی سے یہ معلوم ہوگیا تھا، طہ میں ہے فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا۔ الخ) تو ( اول قوم کی طرف متوجہ ہوئے) فرمایا کہ تم نے میرے بعد یہ بڑی نامعقول حرکت کی، کیا اپنے رب کے حکم (آنے) سے پہلے ہی تم نے ( ایسی) جلد بازی کرلی ( میں تو احکام ہی لینے گیا تھا اس کا انتظار تو کیا ہوتا) اور ( پھر حضرت ہارون (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے اور دینی حمیت کے جوش میں) جلدی سے ( توریت کی) تختیاں ( تو) ایک طرف رکھیں ( اور جلدی میں ایسے زور سے رکھی گئیں کہ دیکھنے والے کو اگر غور نہ کرے تو شبہ ہو کہ جیسے کسی نے پٹک دی ہوں) اور ( ہاتھ خالی کرکے) اپنے بھائی ( ہارون (علیہ السلام) کا سر (یعنی بال) پکڑ کر ان کو اپنی طرف گھسیٹنے لگے ( کہ تم نے کیوں پورا انتظام نہ کیا اور چونکہ غلبہ غضب میں ایک گونہ بےاختیاری ہوگئی تھی اور غضب بھی دین کے لئے تھا اس لئے اس بےختیاری کو معتبر قرار دیا جائے گا اور اس اجتہادی لغزش پر اعتراض نہ کیا جائے گا) ہارون ( علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے ماں جائے ( بھائی میں نے اپنی کوشش بھر بہت روکا لیکن) ان لوگوں نے مجھ کو بےحقیقت سمجھا اور ( بلکہ نصیحت کرنے پر) قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں تو تم مجھ پر ( سختی کرکے) دشمنوں کو مت ہنسواؤ اور مجھ کو ( برتاؤ سے) ان ظالم لوگوں کے ذیل میں مت شمار کرو ( کہ ان کی سی ناخوشی مجھ سے بھی برتنے لگو) موسیٰ ( علیہ السلام) نے (اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور) کہا کہ اے میرے رب میری خطا ( گو وہ اجتہادی ہو) معاف فرمادے اور میرے بھائی کی بھی ( کوتاہی جو ان مشرکین کے ساتھ معاملہ متارکت میں شاید ہوگئی ہو جیسا اس قول سے معلوم ہوتا ہے، مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَيْتَهُمْ ضَلُّوْٓا۔ الایہ) اور ہم دونوں کو اپنی رحمت ( خاص) میں داخل فرمایئے اور آپ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں ( اس لئے ہم کو قبول دعا کی امید ہے) معارف ومسائل پہلی آیت میں جو ارشاد فرمایا کہ |" میں پھیر دوں گا اپنی آیتوں سے ان لوگوں کو جو بڑے بنتے ہیں زمین میں بغیر حق کے |"۔ اس میں بِغَيْرِ حَقِّ سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ تکبر کرنے لوگوں کے مقابلہ میں تکبر کرنا حق ہے وہ برا اور گناہ نہیں، کیونکہ وہ صرف صورت کے ( اعتبار سے تکبر ہوتا ہے حقیقت کے اعتبار سے نہیں ہوتا، جیسا کہ مشہور ہے التکبر مع المتکبرین تواضع ( مسائل السلو ک) تکبر انسان کو فہم سلیم اور علوم الہیہ سے محروم کردیتا ہے : اور تکبر کرنے والوں یعنی بڑے بننے والوں کو اپنی آیتوں سے پھیر دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے آیات الہیہ کے سمجھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق سلب ہوجاتی ہے۔ اور آیات الہیہ بھی اس جگہ عام مراد ہو سکتی ہیں، جن میں آیات منزلہ تورات و انجیل کی یا قرآن کریم کی بھی داخل ہیں اور آیات تکوینیہ جو تمام زمین و آسمان اور ان کی مخلوقات میں پھیلی ہوئی ہیں، اس لئے خلاصہ مضمون آیت کا یہ ہوا کہ تکبر یعنی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا اور افضل سمجھنا ایسی مزموم اور منحوس خصلت ہے کہ جو شخص اس میں مبتلا ہوتا ہے اس کی عقل وفہم سلیم نہیں، اسی لئے وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے سمجھنے سے محروم ہوجاتا ہے نہ اس کو قرآنی آیات صحیح سمجھنے کی توفیق باقی رہتی ہے اور نہ آیات قدرت میں غور و فکر کرکے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے میں اس کا ذہن چلتا ہے۔ روح البیان میں ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ تکبر اور نخوت ایک ایسی بری خصلت ہے جو علوم ربانیہ کے لئے حجاب بن جاتی ہے کیونکہ علوم ربانیہ صرف اس کی رحمت سے حاصل ہوتے ہیں اور رحمت خداوندی تواضع سے متوجہ ہوتی ہے، مولانا رومی نے خوب فرمایا ہے ہر کجا پستی ست آب آنجا رود ہر کجا مشکل جواب آنجا رود پہلی دو آیتوں میں یہ مضمون ارشاد فرمانے کے بعد پھر موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کا باقی قصہ اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ :

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰــتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ۝ ٠ ۭ وَاِنْ يَّرَوْا كُلَّ اٰيَۃٍ لَّا يُؤْمِنُوْا بِہَا۝ ٠ ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوْہُ سَبِيْلًا۝ ٠ ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوْہُ سَبِيْلًا۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْہَا غٰفِلِيْنَ۝ ١٤٦ صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر ف ) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( اسعاے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ رشد الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] ( ر ش د ) الرشد والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ غوی الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] ( غ و ی ) الغی ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلط اعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے غفل الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] ( غ ف ل ) الغفلتہ ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

متکبہ لو گ حق سے محروم ہیں قول باری ہے ساصرف عن ایاتی الذین یتکبرون فی الارض بغیر الحق۔ میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کی نگاہیں پھیردوں گا جو بغیر کسی حق کے زمین میں پڑے بنتے ہیں) ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں۔ میرے عزوشرف کی وہ نشانیاں جو دلالت کے ذریعے معلوم کی جاتی ہیں اور ان کا علم دنیا اور آخرت دونوں میں ترقی درجات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ انہیں میری آیات کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے سے روک دیا جائے گا یعنی یہ لوگ ان آیات کو جھٹلا نہیں سکیں گے اور نہ ہی لوگوں کے سامنے انہیں ظاہر ہونے سے روک سکیں گے۔ آیت کا یہ مفہوم لینا درست نہیں کہ میں انہیں ان آیات پر ایمان لانے سے روک دوں گا۔ اس لئے کہ یہ بات نہیں ہوسکتی کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایمان لانے کا حکم دے اور پھر انہیں اس سے روک بھی دے ایسا اقدام تو نادانی اور مذاق کی نشاندہی کرتا ہے جس سے اللہ کی ذات مبرا اور پاک ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٦) اور میں اپنی آیات کے اقرار سے ایسے لوگوں کو برگشتہ رکھوں گا جو ناحق تکبر کیا کرتے تھے یا یہ معنی ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں عنقریب گنہگاروں کو ان کی جگہ اور قیام دکھاؤں گا جو مقام بدر ہے یا مکہ مکرمہ اور فرعون اور اس کی قوم یا ابوجہل اور اس کے ساتھی تمام نشانیاں دیکھ کر بھی ان پر ایمان نہ لائیں گے۔ اور اگر اسلام اور نیکی کا راستہ دیکھ لیں تو اسے اپنا راستہ نہ بنائیں اور اگر کفر وشرک کا راستہ دیکھ لیں تو اسے اپنا لیں، اور یہ برگشتگی اس بنا پر ہے کہ انہوں نے ہماری کتاب اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی اور وہ اس کے منکرہی تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٦ (سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط۔ یہاں ایک اصول بیان فرما دیا گیا کہ جن لوگوں کے اندر تکبر ہوتا ہے ہم خود ان کا رخ اپنی آیات کی طرف سے پھیر دیتے ہیں ‘ چناچہ وہ ہماری آیات کو سمجھ ہی نہیں سکتے ‘ ان پر غور کر ہی نہیں سکتے۔ اس لیے کہ تکبر اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند ہے۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (اَلْکِبْرِیَاءُ رِدَاءِیْ ) (١) یعنی تکبر میری چادر ہے ‘ اگر کوئی انسان تکبر کرتا ہے تو وہ گویا میری چادر میرے شانے سے گھسیٹ رہا ہے ‘ لہٰذا ایسے ہر انسان کے خلاف میرا اعلان جنگ ہے۔ ایک اور حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ کِبْرٍ ) (٢) وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہے۔ چناچہ آیت زیر نظر کا مفہوم یہ ہے کہ جن لوگوں کے اندر تکبر ہے ہم خود انہیں اپنی آیات سے برگشتہ کردیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہم اس لائق ہی نہیں سمجھتے کہ وہ ہماری آیات کو دیکھیں اور سمجھیں۔ ایسے مغرور لوگوں کو ہم سیدھی راہ کی طرف توجہ مرکوز کرنے ہی نہیں دیتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

104. It is God's law that evil-doers do not and cannot take any lesson from the otherwise instructive events which they observe. The arrogance mentioned here refers to man's delusion that he is on a higher plane than God's creatures and servants. It is this which prompts him to disregard God's command and to adopt an attitude which suggests that he neither considers himself God's servant, nor God his Lord. Such egotism has no basis in fact; it is sheer vanity. For as long as man live on God's earth, what can justify his living as a servant of anyone other than the Lord of the universe? It is for this reason that the Qur'an declares this arrogance to be 'without any right'.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :104 یعنی میرا قانون فطرت یہی ہے کہ ایسے لوگ کسی عبرت ناک چیز سے عبرت اور کسی سبق آموز شے سے سبق حاصل نہیں کر سکتے ۔ ”بڑا بننا“یا ”تکبّر کرنا“ قرآن مجید اس معنی میں استعمال کرتا ہے کہ بندہ اپنے آپ کو بندگی کے مقام سے بالا تر سمجھنے لگے اور خدا کے احکام کی کچھ پروا نہ کرے ، اور ایسا طرزِ عمل اختیار کرے گویا کہ وہ نہ خدا کا بندہ ہے اور نہ خدا اس کا رب ہے ۔ اس خودسری کی کوئی حقیقت ایک پندار غلط کے سوا نہیں ہے ، کیونکہ خدا کی زمین میں رہتے ہوئے ایک بندے کو کسی طرح یہ حق پہنچتا ہی نہیں کہ غیر بندہ بن کر رہے ۔ اسی لیے فرمایا کہ ”وہ بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں ۔ “

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اللہ پاک نے اس آیت میں ذکر کیا کہ جو لوگ ایسی بات پر اڑے ہوئے ہیں جو حق نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنے ناحق دین پر غش میں ہیں ان کے دل کو ہم اپنی نشانیوں کے سمجھنے سے پھیر دیں گے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیں گے یہاں تک کہ اگر ہزارہا نشانیاں اور معجزے بھی وہ دیکھیں گے تو ان کو اختیار نہیں کریں گے اور اگر گمراہی کی راہ دیکھ پاویں گے تو جھٹ اس کو اختیار کرلیں گے پھر فرمایا کہ ان کا گمراہ رہنا اور ہدایت کا نہ اختیار کرنا صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور ان سے بالکل غافل ہیں مفسروں کے اس آیت کی تفسیر میں کئی قول ہیں بعضوں کا قول یہ ہے کہ آیات سے مراد قرآن پاک ہے گویا اللہ جل شانہ نے یہ فرمایا ہے کہ قرآن کے سمجھنے سے ان کے دلوں کو پھیردیں گے اور بعضے کہتے ہیں کہ زمین و آسمان اور کل مخلوق جو اس کی وحدانیت پر ظاہر ثبوت ہے وہ مراد ہے اور کسی نے یہ کہا ہے کہ ایمان سے پھیر دیوں گے وہ ہرگز ان آیات کی تصدیق نہیں کریں گے۔ ترمذی وغیرہ کی ابوہریرہ (رض) کی صحیح حدیث گذر چکی ہے کہ کثرت گناہوں سے آدمی کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے جس کے سبب سے کسی نصیحت کا اثر اس کے دل پر نہیں ہوتا یہ حدیث نیک کام سے دل کے پھرجانے کی گویا تفسیر ہے اور آیت سے مراد سب نیک باتیں ہیں :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:146) ساصرف۔ میں عنقریب پھیردوں گا۔ فعل بافاعل۔ الذین یتکبرون مفعول فی الارض بغیر الحق۔ الذین یتکبرون سے حال۔ عن ایاتی۔ متعلق فعل ۔ جو لوگ زمین پر بغیر حق کے تکبر و نخوت سے کام لیتے ہیں عنقریب میں ان کو (اس پاداش میں) اپنی آیات (کی پیروی) سے پھیردوں گا۔ اور تصریف کیا ہوگی ؟ اس کا بیان وان یروا کل ایۃ ۔۔ سبیل الغی یتخذوہ سبیلا۔ میں کیا گیا ہے کہ اگر وہ تمام معجزات و حقائق کو دیکھ بھی لیں تو بھی ایمان نہ لاویں۔ اور اگر ہدایت کا راستہ دیکھ بھی لیں تو اختیار نہ کریں۔ (اس کے برعکس) اگر گمراہی کا راستہ دیکھیں تو جھٹ اپنا لیں (وائے محرومی) ذلک۔ اشارۃ ہے تصریف کی طرف ۔ یعنی یہ تصریف اس لئے ہے کہ بانھم ۔۔ غفلین۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی انہیں یہ سزا دوں گا کہ وہ میری عظمت شریعت اور احکام کو سمجھ نہ سکیں گے اور پھر جاہل سے رہنے کی وجہ سے دنیا آخرت دونوں میں ذلیل ہوں گے نیز۔ دیکھئے، ( سورة الانعام آیت 110) اسی لیے بعض سلف کا قول ہے کہ متکبر شخص علم حاصل نہیں کرسکتا اور جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے ایک ساعت کی ذلت گوارا نہیں کرسکتا وہ جاہل رہ کر ہمیشہ کی ذلت مول لیتا ہے۔ ( ابن کثیر) یعنی یہ سب اس کے اپنے کئے سزا ہوگی جیسا کہ دوسری آیت فرمایا ی فلما زاوغوا اذاغ اللہ قلو بھم، جب وہ خود ٹیڑہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں ٹیڑھا کردیا۔ (صف آیت 5) معلوم ہوا کہ ہدایت و ضلالت اور اسی طرح جنت و دوزخ دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں ( ) موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ کیونکہ اپنے کو بڑا سمجھنا حق اس کا ہے جو واقع میں بڑا ہو اور وہ ایک خدا کی ذات ہے۔ 3۔ یعنی حق کے قبول نہ کرنے سے پھر دل سخت ہوجاتا ہے اور برگشتگی اس حدتک پہنچ جاتی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ تورات کو اچھی طرح پکڑے رکھیں مگر انھوں نے اس حکم کی پرواہ نہ کی جس کا انجام بیان کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں انسان کی دنیا وآخرت کی بہتری کے لیے بڑے ہی مؤثر اور دل نشین انداز میں ہدایات فرمائی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جو شخص یا قوم اللہ تعالیٰ کی نصیحت اور اس کی خیر خواہانہ رہنمائی کو اپنی رعونت اور تکبر سے ٹھکرا دیتا ہے۔ اس کی دنیا میں یہ سزا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے ہدایت کو دور کردیتا ہے ایسے شخص یا قوم کے پاس کوئی بھی نشانی اور معجزہ آئے تو وہ اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اگر انھیں ہدایت کے راستہ کی طرف بلایا جائے تو وہ اس پر چلنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔ ان کا مزاج اس قدر بگڑ جاتا ہے کہ وہ ہر برائی اور گمراہی کے راستہ پر چلنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اپنی رعونت اور تکبر کے سبب اللہ تعالیٰ کے احکام کو جھٹلاتے ہوئے تغافل کرتے ہیں۔ جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے احکام جھٹلائیں اور آخرت کی جواب دہی کا انکار کریں ان کے سب کے سب اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو جھٹلاتے اور آخرت کی جواب دہی کے منکر تھے۔ یہاں متکبرین کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم انھیں اپنی آیات سے پھیر دیتے ہیں یہ مضمون مختلف الفاظ میں پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ اللہ ہی ہدایت دینے والا اور گمراہ کرنے والا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرتا جب مجرم ہدایت کو اپنی رعونت کی وجہ سے قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی ہدایت کیوں مسلط کرے گا۔ یہاں آیات سے پھیر دینے کا یہی مطلب لینا چاہیے۔ جہاں تک آخرت میں متکبرین اور مکذبین کو دنیا کی کسی نیکی کے صلہ سے محروم رکھنے کا تعلق ہے وہ اس لیے ہے کہ ایسا شخص اگر کوئی نیکی کا کام کرتا ہے تو محض اپنی طبیعت کے سکون اور دنیا کی ناموری اور فائدے کے لیے کرتا ہے۔ اسے اچھی شہرت اور کسی نہ کسی شکل میں دنیا میں اس کا صلہ مل جاتا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس لیے اس کی نیکی کا آخرت میں بدلہ نہیں دیا جائے گا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِینَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لَا یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیءَتِی یَوْمَ الدِّینِ )[ رواہ مسلم : کتاب الایمان ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا اے اللہ کے رسول ابن جدعان جاہلیت کے زمانے میں صلہ رحمی اور مساکین کو کھانا کھلایا کرتا۔ تو کیا قیامت کے دن اسے یہ چیز فائدہ دے گی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں کیونکہ اس نے کبھی یہ بات نہیں کہی تھی اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف فرمانا۔ “ یعنی وہ قیامت کے دن پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب متکبر لوگ کرتے ہیں۔ ٢۔ کافر ہدایت کی بجائے گمراہی کے راستے پر چلتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن کن لوگوں کے اعمال ضائع ہونگے : ١۔ آخرت کا انکار کرنے والوں کے اعمال ضائع ہوجا تے ہیں۔ (الاعراف : ١٤٧) ٢۔ مشرکین کے اعمال ضائع کردئیے جائیں گے۔ (التوبۃ : ١٧) ٣۔ ایمان کے ساتھ کفر اختیار کرنے والوں کے اعمال ضائع کر دئیے جاتے ہیں۔ (المائدۃ : ٥) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنے والوں کے اعمال برباد کردئیے جاتے ہیں۔ (محمد : ٣٣) ٥۔ وہ لوگ جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ان کے اعمال غارت کر دئیے جائیں گے۔ (آل عمران : ٢١۔ ٢٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اس منظر کے آخر میں اور موسیٰ اور رب موسیٰ کے مکالمے کے اختتام پر ان لوگوں کے انجام کے بارے میں بتایا جاتا ہے جو متکبر ہیں ، جو اللہ کے معجزات و ہدایات سے منہ موڑتے ہیں۔ اور بتایا جاتا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کی کیا خصوصیات ہوتی ہیں اور ان لوگوں کی تصویر کشی بڑے واضح رنگ اور قرآن کریم کے انداز تصویر کشی کے عین مطابق۔ اللہ تعالیٰ یہاں ان لوگوں کے بارے میں اپنی مشیت کا اعلان فرماتے ہیں جو اس زمین میں بغیر جواز کے تکبر کرتے ہیں اور بڑے بنتے ہیں۔ یہ لوگ کس قسم کے ہوتے ہیں ؟ ایسے کہ چاہے جو معجزانہ استدلال ان کے سامنے پیش کیا جائے وہ ماننے والے نہیں ہیں۔ ان کو کسی اچھے کام کی دعوت دی جائے تو اس پر لبیک نہیں کہتے ، اگر وہ برائی کا کوئی کام بھی دیکھیں اس کی طرف لپکیں لہذا ایسے لوگوں کا صحیح علاج یہ ہے کہ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور ایسے لوگوں پر کام کیا جائے جو مانتے ہیں ، یہ تو ماننے والے نہیں ، آیات و دلائل جو اس کائنات میں ظاہر و باہر ہیں اور وہ آیات و دلائل جو اللہ کی کتابوں میں ہیں ، اس لیے کہ انہوں نے پہلے سے تکذیب کا فیصلہ کرلیا ہے اور اعراض کا فیصلہ کرلیا ہے۔ قرآن کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ لوگ کیسے ہوں گے ان کی حرکات اور ان کی صفات یہ ہیں : الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۔ جو بغیر کسی حق کے زمین پر بڑے بنتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ کے بندوں میں سے کسی بندے کا حق نہیں ہے کہ وہ اللہ کی زمین پر خود بڑا بنے۔ بڑائی تو اللہ کی صفت ہے ، اور کبریائی میں اللہ کسی کو شریک نہیں کرتا کیونکہ یہ اللہ کی چادر ہے۔ لہذا کوئی انسان جو اس کرہ ارض پر بڑا بنتا ہے وہ بغیر جواز کے تکبر کرتا ہے اور سب سے بڑا تکبر یہ ہے کہ کوئی اس سرزمین پر قانون سازی کا حق اپنے لیے مخصوص کرلے اور اللہ کے بندوں پر اللہ کے بجائے اپنا اقتدار اعلیٰ استعمال کرے۔ اور لوگوں سے اپنے قوانین پر عمل کرائے۔ اس تکبر اور بڑائی سے تمام دوسری برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ تمام شرارتوں کی بنیاد ہے اور ہر قسم کا فساد اس سے برپا ہوتا ہے اور اس کے بعد دوسری صفات ایسے لوگوں کی یہ آتی ہیں۔ وَاِنْ يَّرَوْا كُلَّ اٰيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوْا بِهَا ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا ۔ اگر سیدھا راستہ سامنے آئے تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ٹیڑھا راستہ نظر آئے تو اس پر چل پڑیں۔ ان کی یہ فطرت ہے کہ سیدھے راستے کو دیکھ کر ہی اس سے ایک طرف ہوجاتے ہیں اور ٹیڑھے راستے کو دیکھتے ہی اس پر روانہ ہوجاتے ہیں اور یہ ان کی فطرت کا حصہ ہے۔ اور اس کے خلاف وہ نہیں جاسکتے۔ یہ ہے ان کی صفت۔ قرآن کریم اس انداز میں اس کی تعبیر کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اللہ کی مشیت نے ایسے لوگوں کو سزا دینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ سزا یہ ہے کہ ہدایت کے دروازے ان کے لیے بند کردیے گئے ہمیشہ کے لیے۔ اس قسم کے لوگ ہمیں ہر معاشرے میں ملتے رہتے ہیں۔ یوں نظر آتا ہے کہ یہ لوگ حق سے اجتناب کرتے ہیں اور باطل کی طرف سخت میلان رکھتے ہیں اور بغیر تدبیر اور بغیر سوچے باطل کی طرف لپکتے ہیں۔ سچائی کا مستقیم راستہ ان کو مشکل اور باطل کا ٹیڑھا راستہ ان کو آسان نظر آتا ہے اور ایسے لوگ اللہ کی آیات و دلائل اور معجزات سے دور بھاگتے ہیں ، ان پر غور و فکر نہیں کرتے ، ان کے ذرائع فہم و ادراک پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اور نہ فطرت اور حق کے اشارات ان پر اثر کرتے ہیں۔ سبحان اللہ ، اس عجیب قرآنی ہدایات کی ان جھلکیوں سے اس قسم کے لوگ ممتاز طور پر نظر آتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کو اپنے ماحول اور معاشرے میں دیکھتے ہی ایک قاری کہہ اٹھتا ہے۔ ہاں ہاں اس قسم کے لوگوں کو میں جانتا ہوں۔ فلاں فلاں شخص ان قرآنی کلمات کا مصداق ہے۔ اس قسم کے لوگوں کو ایسی ایسی تباہ کن اور مہلک سزا دے کر اللہ تعالیٰ ان پر کوئی ظلم نہیں کرتا۔ نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ یہ وہ سزا و جزا ہے جس کے وہ لوگ ٹھیک طور پر مستحق ہیں جو آیات الہیہ کی تکذیب کرتے ہیں۔ اور ان کے بارے میں غفلت برتتے ہیں اور زمین میں بغیر حق اپنی بڑائی جماتے ہیں۔ ان کی روش یہ ہے کہ ہر اس راستے سے ایک طرف ہوجاتے ہیں جو ہدایت کا راستہ ہو اور ہر اس راستے کی طرف لپکتے ہیں جو گمراہی کا راستہ ہو ، ایسے لوگوں کو تو ان کے عمل کی سزا مل رہی ہے اور یہ لوگ اپنے طرز عمل کی جہ سے ہلاکت کے دروازے تک آپہنچے ہیں۔ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِيْنَ ۔ اس لیے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے بےپرواہی کرتے رہے " ا

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جب توریت شریف تختیوں پر لکھی ہوئی یکجا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مل گئی تو آپ ان تختیوں کو لے کر اپنی قوم میں تشریف لائے۔ قوم کا مزاج عجیب تھا۔ اطاعت اور فرمانبر داری سے دور تھے اس لیے (سَاُورِیْکُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ ) کے بعد مزید یوں فرمایا کہ (سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ) (کہ میں اپنی آیات سے ایسے لوگوں کو برگشتہ رکھوں گا جو دنیا میں شرعی احکام پر عمل کرنے سے تکبر کرتے ہیں اور ان کا یہ تکبر ناحق ہے) ۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ آیات سے برگشتہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی جائے گی وہ آیات میں تفکر نہ کریں گے اور تکبر و تجبر کی وجہ سے کوئی عبرت حاصل نہ کریں گے ان کے بر گشتہ ہونے اور برگشتہ رہنے کا سبب ان کا تکبر ہے یہ لوگ اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے آیات الٰہیہ سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔ و ھٰذا قولہ تعالیٰ (فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ ) اس کے بعد متکبرین کی مزید بد حالی بیان فرمائی۔ (وَ اِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِھَا) (اور اگر ہر نشانی کو دیکھ لیں خواہ انبیاء کے معجزات ہوں یا آیات تکوینیہ ہوں۔ وہ ایمان نہیں لاتے) (وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًا) (اور اگر ہدایت کا راستہ دیکھتے ہیں تو اس راستے کو اختیار نہیں کرتے) (وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًا) اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھتے ہیں تو اسے اختیار کرلیتے ہیں اور اسی پر چلتے ہیں) اس میں متکبرین کو نصیحت ہے کہ وہ تکبر پر رہتے ہوئے آیات الٰہیہ سے منتفع نہ ہو سکیں گے اور ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی میں لگے رہیں گے۔ پھر فرمایا (ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ کَانُوْا عَنْھَا غٰفِلِیْنَ ) (کہ ان لوگوں کا تکبر کرنا اور آیات پر ایمان لانا اور راہ ہدایت سے اعراض کرنا اس سبب سے ہے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان آیات کی طرف سے غافل رہے) لاپرواہی اختیار کی اور ان آیات میں تفکر نہ کیا اور تدبر سے کام نہ لیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

138: یہاں بنی اسرائیل کو عناد و استکبار کے انجام بد سے ڈرایا۔ یعنی جو لوگ تکبر و غرور کرتے ہیں۔ میری آیتوں کا ضد وعناد کی وجہ سے انکار کرتے ہیں میں ان کے دلوں کو پھیر دوں گا اور ان کے دلوں پر مہر جباریت لگا دوں گا۔ ان کے دل حق سے بیزار اور باطل کی طرف مائل ہوجائیں گے یہاں تک کہ اگر وہ تمام معجزے بھی دیکھ لیں تو بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ ہدایت کی راہ سے دور بھاگیں گے اور گمراہی کی طرف دوڑ کر جائیں گے۔ 139:“ بِاَنَّھُمْ ” میں باء سببیہ ہے۔ یعنی ان کے ساتھ یہ معاملہ اس لیے کیا گیا کہ انہوں نے اللہ کی توحید کے دلائل کو محض ضد وعناد کی وجہ سے جھٹلایا۔ “ بسبب انھم کذبوا بایات اللہ الدالة علی التوحید ”(خازن ج 2 ص 238) ۔ “ وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا الخ ” یہ تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

146 میں عنقریب ایسے لوگوں کو اپنی آیات سے برگشتہ رکھوں گا اور اپنی آیات کو سمجھنے کی توفیق نہ دوں گا جو بلاوجہ زمین میں متکبرانہ برتائو کرتے ہیں اور ایسا ناحق تکبر کرتے پھرتے ہیں جس تکبر اور بڑائی کا ان کو حق نہیں ہے اس تکبر اور اس کی پاداش میں برگشتہ کرنے کا ان پر یہ اثر ہوگا اور ان کی یہ حالت ہوجائے گی کہ اگر وہ ہر قسم کی نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی ان پر ایمان نہ لائیں اور اگر ہدایت کی راہ صاف اور واضح طور پر دیکھ لیں تب بھی اس راہ کو اختیار نہ کریں اور اس سیدھی راہ کو اپنا طریقہ نہ بنائیں اور اس پر چلنے کو آمادہ نہ ہوں اور اگر گمراہی اور کج روہی کا کوئی راستہ دیکھ لیں تو اس کو اپنا طریقہ بنالیں اور اس گمراہی کے راستہ پر چل کھڑے ہوں۔ یہ کج روی اور قسادت قلبی ان میں اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو ازراہ ِ تکبر جھوٹا بتایا اور ہماری آیتوں کی تکذیب کی اور ہماری ان آیتوں سے غفلت کا برتائو کرتے رہے۔ یعنی جب کوئی مجرمانہ حرکات کا خوگر اور عادی ہوجاتا ہے تو اس کا انجام اور اس کی قسادت قلبی کا یہی حال ہوجاتا ہے۔