Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 149

سورة الأعراف

وَ لَمَّا سُقِطَ فِیۡۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ رَاَوۡا اَنَّہُمۡ قَدۡ ضَلُّوۡا ۙ قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ یَرۡحَمۡنَا رَبُّنَا وَ یَغۡفِرۡ لَنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۱۴۹﴾

And when regret overcame them and they saw that they had gone astray, they said, "If our Lord does not have mercy upon us and forgive us, we will surely be among the losers."

اور جب نادم ہوئے اور معلوم ہوا کہ واقعی وہ لوگ گمراہی میں پڑ گئے تو کہنے لگے کہ اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ کرے اور ہمارا گناہ معاف نہ کرے تو ہم بالکل گئے گزرے ہوجائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَمَّا سُقِطَ فَي أَيْدِيهِمْ ... And when they regretted, and felt sorrow for their action, ... وَرَأَوْاْ أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّواْ قَالُواْ لَيِن لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ and saw that they had gone astray, they said: "If our Lord have not mercy upon us and forgive us, we will certainly become among the losers." or among the destroyed ones. This was their recognition of their sin and their way of seeking salvation from Allah the Most Mighty and Majestic.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

149۔ 1 سقط فی أیدھم۔ محاورہ ہے جس کے معنی نادم ہونا ہیں۔ یہ ندامت موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی کے بعد ہوئی، جب انہوں نے آکر اس پر لعنت ملامت کی۔ جیسا کہ سورة طٰہ ٰمیں ہے۔ یہاں اسے مقدم اس لئے کردیا گیا ہے کہ ان کا فعل اور قول اکٹھا ہوجائے۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٥] حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عدم موجودگی میں بنی اسرائیل کی گؤسالہ پرستی :۔ موسیٰ (علیہ السلام) تو اللہ تعالیٰ کے مقررہ وعدہ اور وقت کے مطابق کوہ طور پر چلے گئے، اور بنی اسرائیل کی قیادت سیدنا ہارون (علیہ السلام) کے سپرد کر کے یہ تاکید کردی تھی کہ یہ بگڑی ہوئی قوم ہے۔ ان کی اصلاح کے لیے خصوصی دھیان رکھنا اور یہ بات موسیٰ (علیہ السلام) نے اس وجہ سے کہی تھی کہ ایک مرتبہ پہلے وہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) سے کہہ چکے تھے کہ ہمیں بھی ایک معبود بنا دیجئے اور موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سرزنش بھی کی تھی حالانکہ انہیں ایمان لائے کافی مدت گزر چکی تھی دوسری بات یہ تھی کہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) خود جلالی طبیعت کے مالک اور رعب داب رکھنے والے پیغمبر تھے اور اس بگڑی ہوئی قوم پر انہیں کنٹرول رکھنے کا سلیقہ آتا تھا ان کے مقابلہ میں ہارون (علیہ السلام) اگرچہ ان کے حقیقی بھائی اور عمر میں بھی تین سال بڑے تھے تاہم نرم طبیعت انسان تھے انہیں سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اپنا قائم مقام بنا کر جا رہے تھے ان حالات میں موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں جو خدشہ تھا بالکل بجا تھا اور انہی وجوہ کی بنا پر آپ نے پر زور تاکید کی تھی۔ چناچہ وہی کچھ ہوا جس کا خطرہ تھا۔ بنی اسرائیل نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی عدم موجودگی کو غنیمت جانا اور جس کام کی خواہش ان کے دلوں میں رہ رہ کر انگڑائیاں لے رہی تھی وہ انہوں نے پوری کرلی۔ ایک بچھڑا بنایا اور اس کی پرستش شروع کردی اس بچھڑے کو سامری نے بنایا اپنے جیسے گؤ سالہ پرستی کی خواہش رکھنے والے لوگوں سے سونے کے زیورات اکٹھے کیے اور انہیں پگھلا کر سونے کے بچھڑنے کا پتلا بنادیا اور اس کی پوجا پاٹ کرنے لگے ہرچند سیدنا ہارون (علیہ السلام) نے انہیں منع کیا مگر وہ ان سے کہاں باز آنے والے تھے ؟۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) تو ان کے لیے ایسے احکام و ہدایات لانے کے لیے گئے تھے جس سے ان کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں مگر ان عقل کے اندھوں کو اتنی بھی سمجھ نہ آئی جو معبود انہوں نے گھڑ لیا ہے وہ جب کوئی بات ہی نہیں کرتا تو ان کی رہنمائی کیا کرے گا اس کے باوجود انہوں نے اسے معبود قرار دے لیا تو اس سے بڑھ کر بھی کوئی بےانصافی، ظلم اور شرک کی بات ہوسکتی ہے ؟ [١٤٦] وہ لوگ کب شرمسار ہوئے اور اللہ نے ان کی توبہ کس شرط پر قبول کی، اس کی تفصیل سورة بقرہ کی آیت نمبر ٥٤ میں گزر چکی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا سُقِطَ فِيْٓ اَيْدِيْهِمْ : یہ عربی زبان کا محاورہ ہے، جس کا معنی ہے کہ جب وہ نادم اور پشیمان ہوئے۔ رہی یہ بات کہ یہ محاورہ کیسے بنا تو ظاہر ہے کہ یہاں ان کے ہاتھوں میں گر پڑنے والی چیز مجہول رکھی گئی ہے، گویا ندامت کی وجہ سے ان کے منہ ہاتھوں میں آ گرے اور اس پشیمانی میں انھوں نے اپنے چہرے ہاتھوں میں چھپا لیے۔ یا انسان جب پشیمان اور نادم ہوتا ہے تو وہ دانتوں سے ہاتھ کاٹتا ہے، گویا اس کا منہ اور دانت ہاتھوں میں آ گرتے ہیں، یعنی بےاختیار پہنچ جاتے ہیں۔ یعنی جب انھیں کچھ ہارون (علیہ السلام) کے سمجھانے سے اور کچھ موسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری پر ان کے غیظ و غضب سے احساس ہوا کہ ہم کتنا بڑا غلط کام کر بیٹھے ہیں تو انھوں نے یہ دعا کی۔ سورة بقرہ (٥٤) کی تفسیر میں ان کی توبہ، ایک دوسرے کو قتل کرنے اور توبہ کی قبولیت کا ذکر گزر چکا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The verse 149 speaks of their remorse on this guilt and their repen¬tance,

چوتھی آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تنبیہ کے بعد بنی اسرائیل نادم ہو کر توبہ کرنے کا ذکر ہے، اس میں سُقِطَ فِيْٓ اَيْدِيْهِمْ کے معنی عربی محاورہ کے موافق نادم و شرمندہ ہونے کے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا سُقِطَ فِيْٓ اَيْدِيْہِمْ وَرَاَوْا اَنَّہُمْ قَدْ ضَلُّوْا۝ ٠ ۙ قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝ ١٤٩ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ سقط السُّقُوطُ : طرح الشیء، إمّا من مکان عال إلى مکان منخفض کسقوط الإنسان من السّطح، قال تعالی: أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة/ 49] ، وسقوط منتصب القامة، وهو إذا شاخ وکبر، قال تعالی: وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور/ 44] ، وقال : فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] ، والسِّقَطُ والسُّقَاطُ : لما يقلّ الاعتداد به، ومنه قيل : رجل سَاقِطٌ لئيم في حَسَبِهِ ، وقد أَسْقَطَهُ كذا، وأسقطت المرأة اعتبر فيه الأمران : السّقوط من عال، والرّداءة جمیعا، فإنه لا يقال : أسقطت المرأة إلا في الولد الذي تلقيه قبل التمام، ومنه قيل لذلک الولد : سقط «1» ، وبه شبّه سقط الزّند بدلالة أنه قد يسمّى الولد، وقوله تعالی: وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 149] ، فإنه يعني النّدم، وقرئ : تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم/ 25] «2» ، أي : تسّاقط النّخلة، وقرئ : تُساقِطْ «3» بالتّخفیف، أي : تَتَسَاقَطُ فحذف إحدی التاء ین، وإذا قرئ ( تَسَاقَطْ ) فإنّ تفاعل مطاوع فاعل، وقد عدّاه كما عدّي تفعّل في نحو : تجرّعه، وقرئ : يَسَّاقَطْ عليك «4» أي : يسّاقط الجذع . ( س ق ط ) السقوط ( ن ) اس کے اصل معنی کسی چیز کے اوپر سے نیچے گرنے کے ہیں مثلا کسی انسان کا چھت سے گر پڑنا یا اس کا بوڑھا ہو کر نیچے جھک جانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور/ 44] اور اگر یہ آسمان ( سے عذاب ) کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا گراؤ اور اس کے معنی قدر و قیمت اور مرتبہ کے لحاظ سے گر جانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة/ 49] دیکھو یہ آفت میں پڑے گئے ۔ السقط والسقاطۃ ناکاری اور ردی چیز کو کہتے ہیں اور اسی سے رجل ساقط ہے جس کے معنے کمینے آدمی کے ہیں ۔ اسقطہ کذا : فلاں چیز نے اس کو ساقط کردیا ۔ اور اسقط المرءۃ ( عورت نے نا تمام حمل گرا دیا ) میں اوپر سے نیچے گرنا اور ردی ہونا دونوں معنی اکٹھے پائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ اسقطت المرءۃ اس وقت بولتے ہیں جب عورت نا تمام بچہ گرا دے اور اسی سے نا تمام بچہ کو سقط یا سقط کہا جاتا ہے ۔ پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر چقماق کی ہلکی سی ( ناقص ) چنگاری کو سقط الزند کہا جاتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کبھی اس کے ساتھ بچہ کو بھی موسوم کیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 149] اور جب وہ نادم ہوئے ۔ میں پشیمان ہونا مراد ہے ۔ اور آیت : ۔ تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم/ 25] تم پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی ۔ میں ایک قراءت تساقط بھی ہے اور اس کا فاعل نخلۃ ہے اور ایک قراءت میں تساقط ہے جو اصل میں تتساقط فعل مضارع کا صیغہ ہے اس میں ایک تاۃ محذوف ہے اس صورت میں یہ باب تفاعل سے ہوگا اور یہ اگرچہ فاعل کا مطاوع آتا ہے لیکن کبھی متعدی بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ تجرعہ میں باب تفعل متعدی ہے ۔ اور ایک دوسری قرات میں یساقط ( صیغہ مذکر ) ہے اس صورت میں اس کا فاعل جذع ہوگا ۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٩) مگر اس کی پوجا سے وہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہے تھے، جب وہ اس بچھڑے کی پوجا پر شرمندہ ہوئے اور سمجھ گئے اور یقین ہوگیا کہ وہ حق اور ہدایت سے گمراہ ہوگئے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٩ (وَلَمَّا سُقِطَ فِیْٓ اَیْدِیْہِمْ وَرَاَوْا اَنَّہُمْ قَدْ ضَلُّوْالا) (قَالُوْا لَءِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَیَغْفِرْ لَنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ) اس معاملے میں وہ لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ قوم کا ایک بڑا حصہ وہ تھا جو اس گناہ میں بالکل شریک نہیں ہوا۔ دوسرے گروہ میں وہ لوگ تھے جو کچھ دیر کے لیے اس گناہ میں شریک ہوئے ‘ لیکن فوراً انہیں احساس ہوگیا کہ ان سے غلطی ہوگئی ہے۔ تیسراگروہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی تک اس شرک پر اڑا رہا۔ یہاں درمیانی گروہ کے لوگوں کا ذکر ہے کہ غلطی کے بعد وہ نادم ہوئے اور انہیں سمجھ آگئی کہ وہ گمراہی کا ارتکاب کر بیٹھے ہیں ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:149) سقط۔ گرا دیا گیا۔ (باب نصر) سقوط سے جس کے معنی گر پڑنے کے ہیں۔ سقط فی ایدیہم۔ محاورہ ہے۔ جس کے معنی ہیں وہ نادم ہوئے۔ اصل میں تھا سقط الندم فی ایدیہم۔ ندامت ان کے ہاتھوں میں ڈال دی گئی۔ ولما سقط فی ایدیہم۔ جب حقیقت پاکر کہ نہ تو وہ عجل بات کرسکتا ہے اور نہ کوئی راہ ہدایت دکھا سکتا ہے۔ وہ اپنے کئے پر پشیمان ہوئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی نادم ہوئے، یہ موسیٰ ( علیہ السلام) کے میقات سے لوٹنے کے بعد کا وقعہ ہے۔ ( قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ چناچہ خاص طریقہ سے ان کو تکمیل توبہ کا حکم ہوا جس کا قصہ سورة بقرہ میں گزرا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آخر میں جب جوش و خروش ختم ہوا اور لوگوں کے حواس بحال ہوئے اور حقیقت سامنے آگئی اور انہوں نے جان لیا کہ وہ تو گمراہ ہوگئے اور انہوں نے کھلے شرک کا ارتکاب کرلیا تو وَلَمَّا سُقِطَ فِيْٓ اَيْدِيْهِمْ وَرَاَوْا اَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوْا ۙ قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ۔ پھر جب ان کی فریب خوردگی کا طلسم ٹوٹ گیا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ درحقیقت وہ گمراہ ہوگئے ہیں تو کہنے لگے کہ " اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہم سے درگزر نہ کیا تو ہم برباد ہوجائیں گے " سقط فی یدہ اس وقت کہا جاتا ہے جب کسی کا حیلہ اور تدبیر اس کے سامنے فیل ہوجائے۔ جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ وہ جس گمراہی میں ملوث ہوگئے اب تو وہ اس سے صاف نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ جو ہونا تھا وہ ہوچکا ، تو ایسے حالات میں ببے بس ہو کر انہوں نے کہا :" اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہم سے درگزر نہ کیا تو ہم برباد ہوجائیں گے " اس بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک ان میں اصلاح پذیری کا مادہ بہرحال موجود تھا۔ اور ان کے دل اس قدرت سخت نہ ہوگئے تھے جس طرح بعد میں ہوئے کہ قرآن مجید کو کہنا پڑا کہ وہ پتھر بن گئے یا پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہوگئے۔ بہرحال اس وقت جب انہیں معلوم ہوگیا کہ وہ غلطی پر ہیں اور اللہ کی رحمت اور مغفرت کے سوا ان کے لیے فلاح کا اور کوئی راستہ نہیں ہے تو انہوں نے اس طرح توبہ کی اور اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس دور میں یہ لوگ قابل اصلاح تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بنی اسرائیل کا نادم ہونا اور توبہ کرنا : (وَ لَمَّا سُقِطَ فِیْٓ اَیْدِیْھِمْ وَ رَاَوْا اَنَّھُمْ قَدْ ضَلُّوْا) (الآیۃ) جن لوگوں نے گؤ سالہ پرستی کرلی تھی انہیں اپنی گمراہی کا احساس ہوا اور توبہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس میں سب سے بڑا دخل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دار وگیر اور سختی کا تھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو ان کے تشریف لانے سے ہی اپنی گمراہی کا احساس ہوگیا ہو۔ یہ لوگ کہنے لگے کہ اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ فرمائے اور ہماری بخشش نہ فرمائے تو ہم تباہ کاروں میں سے ہوجائیں گے۔ لیکن ان کی توبہ کی قبولیت کے لیے اللہ پاک کی طرف سے یہ حکم نازل ہوا کہ اپنی جانوں کو قتل کریں۔ جیسا کہ سورة بقرہ (رکوع ٦) کی آیت (وَ اِذْقَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَکُمْ باتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ ) کے ذیل میں تفصیل سے بیان ہوچکا ہے (انوار البیان جلد ١) ان کی توبہ کی صورت میں یہ تجویز ہوئی تھی کہ جنہوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی تھی وہ ان کو قتل کریں جنہیں نے یہ حرکت کی تھی چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

141: یہ انتہائی ندامت اور پشیمانی سے کنایہ ہے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس آئے تو انہوں نے اس احمقانہ اور مشرکانہ فعل پر قوم کی ملامت کی اور ان کو سمجھایا تو وہ بہت نادم ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا اور اپنے فعل سے تائب ہوگئے۔ “ اي بعد عود موسیٰ من المیقات یقال للنادم المتحیر قد سقط فی یدہ ” (قرطبی ج 7 ص 285) ۔ قوم کے نادم ہونے کا واقعہ اصل میں اس وقت پیش آیا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے گوسالہ کو جلا کر اس کی راکھ اڑا دی اس واقعے کی اصل ترتیب سورة طٰہٰ میں اس طرح مذکور ہے۔ میقات سے واپسی پر سب سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم سے خطاب کر کے ان کو ملامت کی۔ “ فَرَجَعَ مُوْسٰی اِلٰی قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا۔ قَالَ یٰقَوْمِ اَ لَمْ یَعِدْکُمْ رَبُّکُمْ الخ ”(طٰہٰ رکوع 4) ۔ قوم کا جواب سننے کے بعد آپ ہارون (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے۔ “ قَالَ یٰھٰرُوْنُ مَامَنَعَکَ الخ ” (طٰہٰ رکوع 5) ۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) سے حقیقت حال معلوم کرنے کے بعد سامری سے خطاب کر کے فرمایا “ مَا خَطْبُکَ یٰسَامِرِيُّ الخ ”(طٰہٰ رکوع 5) اسکے بعد قوم کے سامنے گوسالے کو جلا دیا تو ان پر اپنی غلطی کھلی کہ انہوں نے شرک کر کے بڑا ظلم کیا اور نادم ہوئے۔ لہذا یہاں “ وَلَمَّا سُقِطَ ” میں واؤ مطلق جمع کے لیے ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

149 اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کی قو م کے لوگ اپنی اس حرکت پر سخت نادم ہوئے اور وہ یہ سمجھ گئے کہ وہ صحیح راہ سے بھٹک گئے تو وہ کہنے لگے کہ اگر ہمارے پروردگار نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہم کو نہ بخشا تو یقیناً ہم بڑے زیاں کار ہوں گے اور بڑے نقصان میں پڑجائیں گے۔ یعنی جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) توریت لے کر آئے تب ان لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور شرمندہ ہوکر معافی خواہ ہوئے۔