Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 150

سورة الأعراف

وَ لَمَّا رَجَعَ مُوۡسٰۤی اِلٰی قَوۡمِہٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ۙ قَالَ بِئۡسَمَا خَلَفۡتُمُوۡنِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ۚ اَعَجِلۡتُمۡ اَمۡرَ رَبِّکُمۡ ۚ وَ اَلۡقَی الۡاَلۡوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاۡسِ اَخِیۡہِ یَجُرُّہٗۤ اِلَیۡہِ ؕ قَالَ ابۡنَ اُمَّ اِنَّ الۡقَوۡمَ اسۡتَضۡعَفُوۡنِیۡ وَ کَادُوۡا یَقۡتُلُوۡنَنِیۡ ۫ ۖفَلَا تُشۡمِتۡ بِیَ الۡاَعۡدَآءَ وَ لَا تَجۡعَلۡنِیۡ مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۵۰﴾

And when Moses returned to his people, angry and grieved, he said, "How wretched is that by which you have replaced me after [my departure]. Were you impatient over the matter of your Lord?" And he threw down the tablets and seized his brother by [the hair of] his head, pulling him toward him. [Aaron] said, "O son of my mother, indeed the people oppressed me and were about to kill me, so let not the enemies rejoice over me and do not place me among the wrongdoing people."

اور جب موسیٰ ( علیہ السلام ) اپنی قوم کی طرف واپس آئے غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے تو فرمایا کہ تم نے میرے بعد یہ بڑی بری جانشینی کی؟ کیا اپنے رب کے حکم سے پہلے ہی تم نے جلد بازی کر لی اور جلدی سے تختیاں ایک طرف رکھیں اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر ان کو اپنی طرف گھسیٹنے لگے ۔ ہارون ( علیہ السلام ) نے کہا کہ اے میرے ماں جائے !ان لوگوں نے مجھ کو بے حقیقت سمجھا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں تو تم مجھ پر دشمنوں کو مت ہنساؤ اور مجھ کو ان ظالموں کے ذیل میں مت شمار کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells; وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا ... And when Musa returned to his people, angry and grieved, Allah states that when Musa returned to his people after conversation with his Lord, he became angry and full of regret. Abu Ad-Darda' said that; Asif, or regret, is the severest type of anger. ... قَالَ بِيْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِن بَعْدِيَ...  ... He (Musa) said: "What an evil thing is that which you have done during my absence." evil it is that which you committed after I departed and left you, by worshiping the calf, ... أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ ... Did you hasten in the matter of your Lord, Musa said, `You wanted me to rush back to you, even though (being there) this was Allah's decision!' Allah said next, ... وَأَلْقَى الالْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ ... And he threw down the Tablets and seized his brother by his head and dragged him towards him. This Ayah demonstrates the meaning of the Hadith, لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَة Information is not the same as observation. It indicates that Musa threw down the Tablets because he was angry at his people, according to the majority of scholars of early and latter times. Allah said, وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ (and seized his brother by (the hair of), his head and dragged him towards him), for Musa feared that Harun might have not tried hard enough to forbid them from their evil action. In another Ayah, Allah said, قَالَ يهَـرُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّواْ أَلاَّ تَتَّبِعَنِ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِى قَالَ يَبْنَوُمَّ لاَ تَأْخُذْ بِلِحْيَتِى وَلاَ بِرَأْسِى إِنِّى خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِى إِسْرءِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِى He (Musa) said: "O Harun ! What prevented you when you saw them going astray. That you followed me not (according to my advice to you)! Have you then disobeyed my order!" He (Harun) said: "O son of my mother! Seize (me) not by my beard, nor by my head! Verily, I feared lest you should say: `You have caused a division among the Children of Israel, and you have not respected (waited or observed) my word!"' (20:92-94) Here, Allah said that; ... قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُواْ يَقْتُلُونَنِي فَلَ تُشْمِتْ بِيَ الاعْدَاء وَلاَ تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ He (Harun) said: "O son of my mother! Indeed the people judged me weak and were about to kill me, so make not the enemies rejoice over me, nor put me among the people who are wrongdoers." Harun said, `Do not place me on the same level as they are, as if I was one of them.' Further, Harun said, `O son of my mother', so that Musa would feel more mercy and leniency towards him, even though Harun was also the son of Musa's father. When Musa was satisfied that his brother was innocent, وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَـرُونُ مِن قَبْلُ يقَوْمِ إِنَّمَا فُتِنتُمْ بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَـنُ فَاتَّبِعُونِى وَأَطِيعُواْ أَمْرِى And Harun indeed had said to them beforehand: "O my people! You are being tried in this, and verily, your Lord is (Allah) the Most Gracious, so follow me and obey my order." (20:90) this is when, قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلاَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ   Show more

موسیٰ علیہ السلام کی کوہ طور سے واپسی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چونکہ طور پر ہی اپنی قوم کا یہ کفر معلوم ہو چکا تھا اس لئے سخت غضبناک ہو کر واپس آئے اور فرمانے لگے کہ تم نے تو میرے بعد سخت نالائقی کی ۔ تم نے میرا انتظار بھی نہ کیا میری ذرا سی تاخیر میں یہ ظلم ڈھایا غصے کے مارے تختیاں ہاتھ سے پھین... ک دیں ۔ کہا گیا ہے کہ یہ زمرد یا یا قوت یا کسی اور چیز کی تھیں ۔ سچ ہے جو حدیث میں ہے کہ دیکھنا سننا برابر نہیں ، اپنی قوم پر غصے ہو کر الواح ہاتھ سے گرا دیں ۔ ٹھیک بات یہی ہے جمہور سلف و خلف کا قول بھی یہی ہے لیکن ابن جریر نے قتادہ سے ایک عجیب قول نقل کیا ہے جس کی سند بھی صحیح نہیں ۔ ابن عطیہ وغیرہ نے اس کی بہت تردید کی ہے اور واقعی وہ تردید کے قابل بھی ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ قتادہ نے یہ اہل کتاب سے لیا ہو اور ان کا کیا اعتبار ہے؟ ان میں جھوٹے ، بناوٹ کرنے والے ، گھڑ لینے والے ، بد دین ، بےدین ہر طرح کے لوگ ہیں اس خوف سے کہ کہیں حضرت ہارون علیہ السلام نے انہیں باز رکھنے کی پوری کوشش نہ کی ہو آپ نے ان کے سر کے بالوں کے بل انہیں گھسیٹ لیا اور فرمانے لگے انہیں گمراہ ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی تونے میری ما تحتی میں انہیں کیوں نہ روکا ؟ کیا تو بھی میرے فرمان کا منکر بن گیا ؟ اس پر حضرت ہارون علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھائی جان میرے سر کے اور داڑھی کے بال نہ پکڑیں میں نے تو ہر ممکن طریقے سے انہیں روکا زیادہ اس لئے نہ الجھا کہ کہیں آپ یہ نہ فرما دیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفریق ڈال دی ؟ تو نے میرا انتظار کیوں نہ کیا ؟ ورنہ میں تو ان گمراہوں سے اب تک زمین کو پاک کر چکا ہوتا ۔ انہوں نے تو مجھے کچھ بھی نہ سمجھا بلکہ میرے قتل کے درپے ہوگئے ۔ آپ مجھے ان ہی کی طرح نہ سمجھیں نہ ان میں ملائیں ۔ حضرت ہارون کا یہ فرمانا کہ اے میرے ماں جائے بھائی یہ صرف اس لئے تھا کہ حضرت موسیٰ کو رحم آ جائے ، ماں باپ دونوں کے ایک ہی تھے ۔ جب آپ کو اپنے بھائی ہارون کی برات کی تحقیق ہو گئی اللہ کی طرف سے بھی ان کی پاک دامنی اور بےقصوری معلوم ہو گئی کہ انہوں نے اپنی قوم سے پہلے ہی یہ فرما دیا تھا کہ افسوس تم فتنے میں پڑ گئے اب بھی کچھ نہیں بگڑا پروردگار بڑا ہی رحیم و کریم ہے تم میری مان لو اور پھر سے میرے تابع دار بن جاؤ تو آپ اللہ سے دعائیں کرنے لگے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ موسیٰ پر رحم کرے واقعی دیکھنے والے میں اور خبر سننے والے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ قوم کی گمراہی کی خبر سنی تو تختیاں ہاتھ سے نہ گرائیں لیکن اسی منظر کو دیکھ کر قابو میں نہ رہے تختیاں پھینک دیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

150۔ 1 جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے آکر دیکھا کہ وہ بچھڑے کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں تو سخت غضبناک ہوئے اور جلدی میں تختیاں بھی جو کوہ طور سے لائے تھے، ایسے طور پر رکھیں کہ دیکھنے والے کو محسوس ہو کہ انہوں نے نیچے پھینک دی ہیں جسے قرآن نے " ڈال دیں " سے تعبیر کیا ہے۔ تاہم اگر پھینک بھی دی ہوں تو اس...  میں سوء بےادبی نہیں کیونکہ مقصد ان کا تختیوں کی بےادبی نہیں تھا بلکہ دینی غیرت و اہمیت میں بےخود ہو کر غیر اختیاری طور پر ان سے یہ فعل سر زد ہوا۔ 150۔ 2 حضرت ہارون (علیہ السلام) و موسیٰ (علیہ السلام) آپس میں سگے بھائی تھے، لیکن یہاں حضرت ہارون نے ماں جائے ' اس لئے کہا کہ اس لفظ میں پیار اور نرمی کا پہلو زیادہ ہے۔ 150۔ 3 حضرت ہارون (علیہ السلام) نے اپنا عذر پیش کیا جس کی وجہ سے وہ قوم کو شرک جیسے جرم عظیم سے روکنے میں ناکام رہے۔ ایک اپنی کمزوری اور دوسرا بنی اسرائیل کا عناد اور سرکشی کہ انہیں قتل تک کردینے پر آمادہ ہوگئے تھے اور انہیں اپنی جان بچانے کے لئے خاموش ہونا پڑا، جس کی اجازت ایسے موقعوں پر اللہ نے دی ہے۔ 150۔ 4 میری ہی سرزنش کرنے سے دشمن خوش ہونگے، جب کہ یہ موقع تو دشمنوں کی سرکوبی اور ان سے اپنی قوم کو بچانے کا ہے۔ 150۔ 5 اور ویسے بھی عقیدہ و عمل میں مجھے کس طرح ان کے ساتھ شمار کیا جاسکتا ہے، میں نے نہ شرک کا ارتکاب کیا، نہ اس کی اجازت دی، نہ اس پر خوش ہوا، صرف خاموش رہا اور اس کے لئے بھی میرے پاس معقول عذر موجود ہے، پھر میرا شمار ظالموں (مشرکوں) کے ساتھ کس طرح ہوسکتا ہے ؟ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کے لئے مغفرت و رحمت کی دعا مانگی۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٧] سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا ہارون (علیہ السلام) پر مواخذہ اور ان کا جواب :۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو وہاں کوہ طور پر ہی بذریعہ وحی یہ اطلاع دے دی گئی تھی کہ سامری نے ایک بچھڑا تیار کیا ہے اور قوم کے بہت سے لوگ گؤ سالہ پرستی میں مبتلا ہوچکے ہیں لہذا جب واپس اپنی قوم کے پاس آئے تو غصہ اور رنج پہ... لے سے ہی طبیعت میں موجود تھا۔ آتے ہی لوگوں سے کہا کہ میرے بعد تم نے یہ کیا گل کھلا دیئے۔ کہ فوراً اپنی کفر و شرک والی زندگی تم میں عود کر آئی پھر اسی غصہ کے عالم اور دینی حمیت کے جوش میں تختیاں تو نیچے ڈال دیں اور سیدنا ہارون (علیہ السلام) کے داڑھی اور سر کے بال کھینچتے ہوئے کہا تم نے میرے قائم مقام بن کر یہ سب کچھ کیسے برداشت کرلیا ؟ اس کے مقابلہ میں سیدنا ہارون (علیہ السلام) نے نہایت پیار کے لہجہ میں اور معذرت خواہانہ انداز میں کہا : میرے ماں جائے بھائی ! ذرا میری بات سن لو میں نے انہیں سمجھانے میں کچھ کوتاہی نہیں کی مگر یہ اتنے سرکش لوگ ہیں کہ میری بات کو کچھ سمجھتے ہی نہ تھے بلکہ الٹا مجھے مار ڈالنے کی دھمکیاں دینے لگے تھے لہذا ان بدبختوں کو مجھ پر ہنسنے اور بغلیں بجانے کا موقع نہ دو اور یہ ہرگز نہ سمجھو کہ انہوں نے جو ظلم روا رکھا ہے اور شرک کیا ہے وہ میری شہ پر کیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بائیبل میں بعض انبیاء کو مختلف قسم کے شدید گناہوں میں ملوث قرار دیا گیا ہے ان میں سے ایک سیدنا ہارون (علیہ السلام) بھی ہیں جنہیں بنی اسرائیل کے اس شرک کے جرم میں شریک ہی نہیں بلکہ اس کا محرک اور اس میں معاون قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں بائیبل کی درج ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیے۔ && جب موسیٰ (علیہ السلام) کو پہاڑ سے اترنے میں دیر لگی تو بنی اسرائیل نے بےصبر ہو کر سیدنا ہارون (علیہ السلام) سے کہا کہ ہمارے لئے ایک معبود بنادو اور ہارون (علیہ السلام) نے ان کی فرمائش کے مطابق سونے کا ایک بچھڑا بنادیا جسے دیکھتے ہی بنی اسرائیل پکار اٹھے کہ اے اسرائیل ! یہی تیرا وہ خدا ہے جو تجھے ملک مصر سے نکال لایا ہے پھر ہارون (علیہ السلام) نے اس کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور اعلان کر کے دوسرے روز تمام بنی اسرائیل کو جمع کیا اور اس کے آگے قربانیاں چڑھائیں۔ && (خروج باب ٣٢ آیت ١ تا ٦) بائبل میں سیدنا ہارون (علیہ السلام) پر گؤ سالہ پرستی کا اتہام :۔ قرآن کریم نے سیدنا ہارون (علیہ السلام) کو یہود کے اس اتہام سے بالکل بری قرار دیا ہے اور وضاحت کردی کہ بچھڑا بنانے والا ہارون (علیہ السلام) نہیں بلکہ سامری تھا اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کو سابقہ تمام آسمانی کتب پر مھیمن قرار دیا ہے یعنی ان کتابوں میں جو بات قرآن کے خلاف ہوگی وہ الہامی نہیں ہوسکتی وہ یقینا دوسروں کی اختراعات ہوں گی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓي اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا : ” غَضْبَانَ “ ” فَعْلَانَ “ کے وزن پر کسی چیز سے بھرے ہوئے ہونے پر دلالت کرتا ہے، یعنی غصے سے بھرے ہوئے۔ ” اسفا ‘ صفت کا صیغہ ہے، لغت میں اس کا معنی غصے والا بھی ہے جو غضب سے بھی بڑھ کر ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَلَمَّآ اٰسَفُوْ... نَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ ) [ الزخرف : ٥٥ ] ” پھر جب انھوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا۔ “ اور اس کا معنی افسوس اور غم بھی ہوتا ہے۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ شدید غصہ اور افسوس ایک ہی چیز کی دو حالتیں ہیں، کوئی کمزور ہو تو اس پر غصہ آتا ہے اور طاقت ور ہو تو افسوس ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل میں رہ کر موسیٰ (علیہ السلام) کو ان پر غلبہ بھی حاصل تھا اور ان کی جہالتوں پر بےبس بھی تھے۔ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) غصے اور افسوس سے بھرے ہوئے واپس لوٹے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں طور پر ہی خبر دے دی تھی کہ سامری نے آپ کے بعد آپ کی قوم کو گمراہ کردیا ہے۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (٨٥) ۔ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِيْ مِنْۢ بَعْدِيْ ۚ: یعنی میں جاتے وقت تمہیں کہہ گیا تھا کہ جب تک میں نہ آؤں ہارون میرے خلیفہ ہوں گے، ان کا حکم ماننا اور مفسدوں کے پیچھے نہ لگنا، مگر میں جب مقرر میعاد (٣٠) دن تک واپس نہ آیا تو تم نے سمجھ لیا کہ میں مرگیا ہوں، اس پر تم نے بچھڑا بنا کر پوجنا شروع کردیا، اس طرح تم میرے بعد بہت برے جانشین ثابت ہوئے، یا تم نے بہت برا کام کیا ہے۔ (المنار) وَاَلْقَى الْاَلْوَاحَ وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِيْهِ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) کا شدید غصہ دو کاموں کی صورت میں ظاہر ہوا، ایک الواح کو پھینکنا اور دوسرا ہارون (علیہ السلام) کے سر کو پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دیکھنے اور سننے میں بہت فرق ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سنی ہوئی بات آنکھوں سے دیکھنے کی طرح نہیں ہوتی، اللہ عزوجل نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کی خبر دی جو ان کی قوم نے بچھڑے کے معاملے میں کیا تھا، مگر انھوں نے تختیاں نہیں پھینکیں، جب آنکھوں سے دیکھا جو کچھ انھوں نے کیا تھا تو تختیاں پھینک دیں تو وہ ٹوٹ گئیں۔ “ [ أحمد : ١؍٢٧١، ح : ٢٤٥١۔ مستدرک حاکم : ٢؍٣٢١، ح : ٣٢٥٠، عن ابن عباس وصححہ الألبانی ] ۭ قَالَ ابْنَ اُمَّ : موسیٰ (علیہ السلام) ہارون (علیہ السلام) کے سگے بھائی ہی تھے، مگر انھوں نے ان کی شفقت حاصل کرنے کے لیے ” اے میری ماں کے بیٹے “ کہا۔ ” ابْنَ اُمَّ “ اصل میں ” یَا ابْنَ أُمِّیْ “ تھا، حرف ندا یاء حذف کردیا اور ” أُمِّیْ “ کی یاء کو الف سے بدل دیا تو ” ابْنَ اُمَّا “ بن گیا، پھر مزید تخفیف کے لیے الف بھی حذف کردیا تو ” ابْنَ اُمَّ ‘ بن گیا۔ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِي۔۔ : یعنی میں نے انھیں بچھڑے کی پوجا سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی ہے۔ (دیکھیے طٰہٰ : ٩٠) مگر یہ لوگ مجھ پر پل پڑے اور قریب تھا کہ مجھے قتل ہی کردیتے۔ فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْاَعْدَاۗءَ ۔۔ : ” شَمَاتَۃٌ“ کا معنی کسی نقصان پر دشمن کا خوش ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے اس انداز غضب پر دشمن تو ضرور خوش ہوئے ہوں گے، دشمنوں سے مراد بچھڑا بنانے والے اور اس کی عبادت کی حمایت کرنے والے ہیں۔ اس لیے ہارون (علیہ السلام) نے کہا کہ اس طرح میری گرفت کرکے دشمنوں کو خوش نہ کرو۔ (وَلَا تَجْعَلْنِيْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ ) اور یہ طے نہ کرلو کہ میں بھی ان کے بچھڑا بنانے یا پوجنے کے عمل میں ان کے ساتھ شریک ہوں۔ اس سے ہارون (علیہ السلام) پر تورات کی اس تہمت کا واضح رد ہوگیا جس کا ذکر پیچھے (آیت ١٤٨) میں ہوا ہے کہ یہ بچھڑا ہارون (علیہ السلام) نے بنایا تھا۔ ہارون (علیہ السلام) کو اس بات سے بھی بہت تکلیف ہوئی کہ بھائیوں کے اختلاف سے دشمن خوش ہوں گے۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ ” شَمَاتَۃُ الْاَعْدَاءِ “ سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے، یعنی اس بات سے ہمیشہ پناہ مانگتے کہ کسی مصیبت پر دشمنوں کو خوشی حاصل ہو۔ پوری دعا اس طرح ہے : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ جَھْدِ الْبَلَاءِ وَ دَرَکِ الشَّقَاءِ وَسُوْءِ الْقَضَاءِ وَشَمَاتَۃِ الْأَعْدَاءِ ) [ بخاری، الدعوات، باب التعوذ من جہد البلاء : ٦٣٤٧ ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

while the verse 150 describes the events followed by the arrival of the Prophet Musa (علیہ السلام) from the mount of Sinai. It described that the Prophet Musa (علیہ السلام) was extremely angry when he saw his people in this state of ignorance. It is reported that Allah had informed him of their perversion on the mount of Sinai. Now seeing them in this state with his own eyes filled him with indign... ation. First, he turned to his people and said: بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِن بَعْدِي |"How bad is the thing you have done in my absence|". أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ‌ رَ‌بِّكُمْ |"How did you act in haste against the command of your Lord?|" That is, you must have waited until the book of Allah came to you. Some of the commentators have said that it meant that they hastily decided that the Prophet Musa (علیہ السلام) was dead. Then he turned to the Prophet Harun (علیہ السلام) whom he has left among them as his deputy. He wanted to free his hand in order to grab him. He quickly put down the tablets of the Torah and grabbed the head of his brother. This has been termed as having dropped. The Arabic word used here is: القاء Ilga& which signifies dropping or throwing. This gives rise to a doubt that the Prophet Musa (علیہ السلام) showed disrespect to the tablets of the Torah by throwing or dropping them down. It is obvious that throwing the tablets of the Torah was great sin, and equally obvious is the fact that all the Prophets (علیہم السلام) are innocent and free of all sins. The implication of the verse, therefore, is that he put away the Tablets as quickly in order to free his hands, as seemed like having been dropped. The Holy Qur&an has described it by using this word as a gesture of warning. (Bayern a1-Qur&an)   Show more

پانچویں آیت میں اس واقعہ کی تفصیل ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور سے تورات لے کر واپس آئے اور قوم کو گوسالہ پرستی میں مبتلا دیکھا تو اگرچہ قوم کی اس گمراہی کی خبر حق تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور ہی پر کردی تھی، لیکن سننے اور دیکھنے میں فرق ہوتا ہے جب ان لوگوں کو دیکھا کہ گائے ... کی پوجا پاٹ کر رہے تو غصہ کی انتہا نہ رہی۔ پہلے اپنی قوم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِيْ مِنْۢ بَعْدِيْ یعنی تم نے میرے بعد یہ بڑی نامعقول حرکت کی ہے اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْ کیا تم نے اپنے رب کا حکم آنے سے جلد بازی کی، یعنی اللہ کی کتاب تورات کے آنے کا انتظار تو کرلیتے، تم نے اس سے جلد بازی کرکے یہ گمراہی اختیار کرلی، اور بعض مفسرین نے اس جملہ کا یہ مطلب قرار دیا ہے کہ کیا تم نے جلد بازی کرکے یہ قرار دے لیا تھا کہ میری موت آگئی۔ اس کے بعد حضرت ہارون (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے کہ ان کو اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے انہوں نے اس گمراہی سے ان لوگوں کو کیوں نہ روکا، ان کی طرف ہاتھ بڑھانے کے لئے ہاتھ کو خالی کرنے کی فکر ہوئی تو تورات کی تختیاں جو ہاتھ میں لئے ہوئے تھے جلدی سے رکھ دیں اسی کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا وَاَلْقَى الْاَلْوَاحَ ، القاء کے لغوی معنی ڈال دینے کے ہیں، اور الواح، لوح کی جمع ہے جس کے معنی ہیں تختی، یہاں لفظ القاء سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے غصہ کی حالت میں تورات کی تختیوں کی بےادبی کی کہ ان کو ڈال دیا۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ الواح تورات کو بےادبی کے ساتھ ڈال دینا گناہ عظیم ہے اور انبیاء (علیہم السلام) سب گناہوں سے معصوم ہیں، اس لئے مراد آیت کی یہی ہے کہ اصل مقصود حضرت ہارون (علیہ السلام) کو پکڑنے کے لئے اپنا ہاتھ خالی کرنا تھا اور غصہ کی حالت میں جلدی سے ان کو رکھا، جس سے دیکھنے والا یہ سمجھے کہ ڈال دیا، اس کو قرآن کریم نے بطور تنبیہ کے ڈالنے کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ (بیان القرآن)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓي اِلٰى قَوْمِہٖ غَضْبَانَ اَسِفًا۝ ٠ ۙ قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِيْ مِنْۢ بَعْدِيْ۝ ٠ ۚ اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْ۝ ٠ ۚ وَاَلْقَى الْاَلْوَاحَ وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِيْہِ يَجُرُّہٗٓ اِلَيْہِ۝ ٠ ۭ قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِيْ وَكَادُوْا يَقْتُلُوْن... َنِيْ ۝ ٠ ۡۖ فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْاَعْدَاۗءَ وَلَا تَجْعَلْنِيْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِــمِيْنَ۝ ١٥٠ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] غضب الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] ، قيل : هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ : الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» . ( غ ض ب ) الغضب انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔ أسِف الأَسَفُ : الحزن والغضب معاً ، وقد يقال لکل واحدٍ منهما علی الانفراد، وحقیقته : ثوران دم القلب شهوة الانتقام، فمتی کان ذلک علی من دونه انتشر فصار غضبا، ومتی کان علی من فوقه انقبض فصار حزنا، ولذلک سئل ابن عباس عن الحزن والغضب فقال : مخرجهما واحد واللفظ مختلف فمن نازع من يقوی عليه أظهره غيظاً وغضباً ، ومن نازع من لا يقوی عليه أظهره حزناً وجزعاً ، وقوله تعالی: فَلَمَّا آسَفُونا انْتَقَمْنا مِنْهُمْ [ الزخرف/ 55] أي : أغضبونا . ( ا س ف ) الاسف ۔ حزن اور غضب کے ممواعہ کو کہتے ہیں کبھی آسف کا لفظ حزن اور غضب میں سے ہر ایک پر انفراد ابھی بولا جاتا ہے اصل میں اس کے معنی جذبہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ کیفیت اپنے سے کمزور آدمی پر پیش آئے تو پھیل کر غضب کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور اگر اپنے سے قوی آدمی پر ہو تو منقبض ہوکر حزن بن جاتی ہے اس لئے جب حضرت ابن عباس سے حزن اور غضب کی حقیقت دریافت کی گئی تو انہوں نے فرمایا : لفظ دو ہیں مگر ان کی اصل ایک ہی ہے جب کوئی شخص اپنے سے کمزور کے ساتھ جھگڑتا ہے تو غیظ و غضب کا اظہار کرتا ہے اور جب اپنے سے قوی کے ساتھ جھگڑتا ہے تو واویلا اور غم کا اظہار کرتا ہے اور آیت کریمہ :۔ { فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ } ( سورة الزخرف 55) کے معنی یہ ہیں کہ جب انہوں نے ہمیں غضب ناک کیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا ۔ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے خلف والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر/ 39] ، ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ لوح اللَّوْحُ : واحد أَلْوَاحِ السّفينة . قال تعالی: وَحَمَلْناهُ عَلى ذاتِ أَلْواحٍ وَدُسُرٍ [ القمر/ 13] وما يكتب فيه من الخشب ونحوه، وقوله تعالی: فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ [ البروج/ 22] فكيفيّته تخفی علینا إلا بقدر ما روي لنا في الأخبار، وهو المعبّر عنه بالکتاب في قوله : إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] واللُّوحُ : العَطَشُ ، ودابّة مِلْوَاحٌ: سریع العطش، واللُّوحُ أيضا، بضمّ اللام : الهواء بين السماء والأرض، والأکثرون علی فتح اللام إذا أريد به العطش، وبضمّه إذا کان بمعنی الهواء، ولا يجوز فيه غير الضّمّ. ولَوَّحَهُ الحرّ : غيّره، ولَاحَ الحرّ لَوْحاً : حصل في اللوح، وقیل : هو مثل لمح . ولَاحَ البرق، وأَلَاحَ : إذا أومض، وأَلَاحَ بسیفه : أشار به . ( ل و ح ) اللوح ۔ تختہ ( کشتی وغیرہ کا ) اس کی جمع الواح ہے ۔ قرآن میں ہے : وَحَمَلْناهُ عَلى ذاتِ أَلْواحٍ وَدُسُرٍ [ القمر/ 13] اور ہم نے نوح کو ایک کشتی پر جو تختوں اور میخوں سے تیار کی گئی تھی سوار کرلیا ۔ اور لوح لکڑی وغیرہ کی اس تختی کو بھی کہتے ہیں جس پر کچھ لکھا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ [ البروج/ 22] لوح محفوظ میں ۔ میں لوح محفوظ کی اصل کیفیت کو ہم اسی قدر جان سکتے ہیں اور احادیث میں مروی ہے اسی کو دوسری آیت میں کتاب سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] بیشک یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے بیشک یہ کسب خدا کو آسان ہے ۔ اللوح کے معنی پیاس کے ہیں ۔ اور جس جو پایہ کو جلدی پیاس لگتی ہوا سے دابۃ ملواح کہا جاتا ہے ۔ اور لوح ( ضمہ لام کے ساتھ ) آسمان اور زمین کے درمیانی خلا کو بھی کہتے ہیں لیکن اکثر علمائے لغت کے نزدیک فتحہ لام کے ساتھ بمعنی پیاس کے ہے اور ضمہ لام کے ساتھ زمین وآسمان کے درمیانی خلا کے معنی میں آتا ہے گو اس میں فتحہ لام بھی جائز ہے ۔ لوحہ الحرا سے گرمی نے جھلس دیا ۔ لاح الحرلوحا گرمی فضا میں پھیل گئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ لمح کی طرح ہے اورا لاح بسیفہ کے معنی ہیں اس نے تلوار سے اشارہ کیا ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ رأس الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه . ( ر ء س ) الراس سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔ یجرہ ۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ جر مصدر ( باب نصر) ہ ضمیر مفعول اس کو کھینچتے ہوئے۔ ابن ام ۔ یا حرف ندا محذوف۔ ابن ام مضاف مضاف الیہ مل کر منادیٰ ۔ یا ابن ام میں بعض نے میم کو کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اصل میں ابن امی تھا ۔ ی کو تخفیفاً ساقط کردیا گیا۔ میم کو مفتوح پڑھنے والوں کے نزدیک بھی میم پر فتح زیادہ تخفیف کی وجہ سے ہے۔ اسْتَضْعَفْ واسْتَضْعَفْتُهُ : وجدتُهُ ضَعِيفاً ، قال وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء/ 75] ، قالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 97] ، إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف/ 150] ، وقوبل بالاستکبار في قوله : قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ/ 33] استضعفتہ ۔ میں نے اسے کمزور سمجھا حقیر جانا ۔ قران میں ہے : ۔ وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا[ القصص/ 5] اور ہم چاہتے تھے کہ جنہیں ملک میں کمزور سمجھا گیا ہے ان پر احسان کریں : وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء/ 75] اور ان بےبس مردوں عورتوں اور بچوں قالوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 97] تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز اور ناتوان تھے ۔ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف/ 150] کہ لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ/ 33] اور کمزور لوگ برے لوگوں سے کہیں گے ۔ میں استضاف استکبار کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے كَادَ ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] ، تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس . ( ک و د ) کاد ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] شمت الشَّمَاتَةُ : الفرح ببليّة من تعاديه ويعاديك، يقال : شَمِتَ به فهو شَامِتٌ ، وأَشْمَتَ اللہ به العدوّ ، قال عزّ وجلّ : فَلا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْداءَ [ الأعراف/ 150] ( ش م ت ) الشماتۃ کے معنی دشمن کی مصیبت پر خوش ہونے کے ہیں اور یہ شمت بہ فھو شامت کا مصدر ہے اور اشمت اللہ بہ العدو کے معنی ہیں اللہ اسے مصیبت پہنچائے جس سے اس کے دشمن خوش ہوں قرآن میں ہے ۔ فَلا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْداءَ [ الأعراف/ 150] تو ایسا نہ کیجئے کہ دشمن مجھ پر ہنسیں ۔ تشمت کے معنی چھیکنے والے کو دعا دینے کے ہیں ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

عجلت اور سرعت کا فرق قول باری ہے اعجلتم امرربکم۔ کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوسکا کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کرلیتے) عجلت کسی کام کو اس کے وقت سے پہلے کرلینے کا نام ہے جب کہ سرعت کام کو اس کے اول وقت میں کرلینے کو کہتے ہیں۔ اس لئے عجلت قابل مذمت چیز بن گئی۔ بعض دفعہ وقت کے اندر ایک کام کی انجام دہی میں...  جلد بازی دکھائی جاتی ہے جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ سردیوں میں ظہر کی نماز تعجیل کے ساتھ ادا کرتے تھے اور گرمیوں میں سے ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے۔ قول باری ہے واخذبراس اخیہ یجرہ الیہ۔ اور اپنے بھائی (ہارون) کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ناراضی کے اظہار کے طور پر ایسا کیا تھا ۔ تذلیل اور اہانت کے طور پر یہ نہیں کیا تھا۔ نیز ایسے اقدامات کی حیثیتیں عادات اور رسم و رواج کی بنا پر مختلف زبانوں میں مختلف ہوتی ہیں ہوسکتا ہے کہ سر کے بال پکڑ کر کھینچنا اس زمانے میں تذلیل اور اہانت کی بنا پر نہ ہوتا ہو اور نہ ہی کوئی اسے اہانت سمجھتا ہو۔ ایک قول ہے کہ اس کی حیثیت وہی ہے جس طرح کوئی شخص غصے میں آکر اپنی داڑھی کے بالوں کو مٹھی میں لے لیتا ہے یا اپنے ہونٹ یا انگوٹھا چبانے لگ جاتا ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٠) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس فتنہ کا شور وشغف سن کر غمگین اور پریشان واپس آئے تو کہنے لگے میرے پہاڑ پر جانے کے بعد اس بچھڑے کی پوجا کرکے تم نے بہت ہی غلط کام کیا ہے، کیا اپنے رب کا حکم آنے سے پہلے ہی تم لوگوں نے اس بچھڑے کی پوجا شروع کردی اور بہت تیزی سے اپنے ہاتھ سے تختیاں رکھیں، جن میں وہ ٹوٹ...  گئیں، اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے بال پکڑ کر کھینچنے لگے، ہارون (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے بھائی لوگوں نے مجھے کمزور سمجھا اور ان کی مخالفت پر قریب تھا کہ یہ مجھے قتل کردیں، آپ مجھ پر سختی کرکے دشمنوں کو مت ہنسواؤ اور ان بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کے ساتھ مجھے شریک نہ سمجھو۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٠ (وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓی اِلٰی قَوْمِہٖ غَضْبَانَ اَسِفًالا) غَضْبَان ‘ رَحْمٰنکی طرح فعلان کے وزن پر مبالغے کا صیغہ ہے۔ یعنی آپ ( علیہ السلام) نہایت غضبناک تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مزاج بھی جلالی تھا اور قوم کے جرم اور گمراہی کی نوعیت بھی بہت شدید تھی۔ پھرا للہ تعالیٰ نے کوہ طور ... پر ہی بتادیا تھا کہ تمہاری قوم فتنہ میں پڑچکی ہے لہٰذا ان کا غم و غصہ اور رنج و افسوس بالکل بجا تھا۔ (قَالَ بِءْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْم بَعْدِیْ ج) ۔ یہ خطاب حضرت ہارون (علیہ السلام) سے بھی ہوسکتا ہے اور اپنی پوری قوم سے بھی۔ (اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّکُمْ ج) یعنی اگر سامری نے فتنہ کھڑا کر ہی دیا تھا تو تم لوگ اس قدر جلد بغیر سوچے سمجھے اس کے کہنے میں آگئے ؟ کم از کم میرے واپس آنے کا ہی انتظار کرلیتے ! (وَاَلْقَی الْاَلْوَاحَ ) کوہ طور سے جو تورات کی تختیاں لے کر آئے تھے وہ ابھی تک آپ ( علیہ السلام) کے ہاتھ میں ہی تھیں ‘ تو آپ ( علیہ السلام) نے ان تخیتوں کو ایک طرف زمین پر رکھ دیا۔ (وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْہِ یَجُرُّہٗٓ اِلَیْہِ ط) ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے غصے میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کو سر کے بالوں سے پکڑکر اپنی طرف کھینچا اور کہا کہ میں تمہیں اپنا خلیفہ بنا کر گیا تھا ‘ میرے پیچھے تم نے یہ کیا کیا ؟ تم نے قوم کے لوگوں کو اس بچھڑے کی پوجا کرنے سے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟ (قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَکَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ ز) میں نے تو ان لوگوں کو ایسا کرنے سے منع کیا تھا ‘ لیکن انہوں نے مجھے بالکل بےبس کردیا تھا۔ اس معاملے میں ان لوگوں نے اس حد تک جسارت کی تھی کہ وہ میری جان کے درپے ہوگئے تھے۔ (فَلاَ تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ ) شماتتِ اَعداء کا محاورہ ہمارے ہاں اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے ‘ یعنی کسی کی توہین اور بےعزتی پر اس کے دشمنوں کا خوش ہونا اور ہنسنا۔ حضرت ہارون نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے درخواست کی کہ اب اس طرح میرے بال کھینچ کر آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں۔ (وَلاَ تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) ۔ آپ مجھے ان ظالموں کے ساتھ شمار نہ کیجیے۔ میں اس معاملے میں ہرگز ان کے ساتھ نہیں ہوں۔ میں تو انہیں اس حرکت سے منع کرتا رہا تھا ۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

108. The above Qur'anic verse absolves Aaron of the charge levelled against him by the Jews. According to the Biblical version of the story of calf-worship, however, it was Aaron who had made the golden calf for the people of Israel. To quote: When the people saw that Moses delayed to come down from the mountain, the people gathered themselves together to Aaron, and said to him, 'Up, make up gods...  who shall go before us; as for this Moses, the man who brought us up out of the land of Egypt, we do not know what has become of him.' And Aaron said to them, 'Take off the rings of gold which are in the ears of your wives, your sons, and your daughters, and bring them to me.' So all the people took off the rings of gold which were in their ears, and brought them to Aaron. And he received the gold at their hand, and fashioned it with a graving tool, and made a molten calf; and they said, 'These are your gods, O Israel, who brought you up out of the land of Egypt.' When Aaron saw this, he built an altar before it; and Aaron made proclamation and said, 'Tomorrow shall be a feast to the Lord.' And they rose up early on the morrow, and offered burnt offerings and brought peace offerings; and the people sat down to eat and drink, and rose up to play (Exodus 32: 1--6). The Qur'an, however, refutes the above account at many places and points out that it was Samiri the rebel of God rather than Aaron the Prophet who committed that heinous sin. (For details see Ta Ha 20: 90 ff.) Strange though it may appear, the Israelites maligned the characters of those very people whom they believed to be the Messengers of God. The accusations they hurled at them included such heinous sins as polytheism, sorcery, fornication, deceit and treachery. Needless to say, indulgence in any of these sins is disgraceful for even an ordinary believer and decent human being, let alone Prophets. In the light of the history of Israeli morals, however, it is quite understandable why they maligned their own Prophets. In times of religious and moral degeneration when both the clergy and laity were steeped in sin and immorality, they tried to seek justification for their misdeeds. In order to sedate their own consciences they ascribed the very sins of which they were guilty to their Prophets and then their own inability to refrain from sins on the grounds that not even the Prophets could refrain. The same characteristic is evident in Hinduism. When the Hindus reached the lowest point in their moral degeneration, they produced a literature which presents a very perverted image of Hindu ideals. This literature portrayed their gods, hermits and monks as crass sinners. In doing so, they suggested that since such noble people could not refrain from indulging in grave sins, ordinary mortals are inevitably bound to commit them. Moreover, a person's indulgence in immoral acts should not make him remorseful for the same acts were committed earlier by their monks and hermits.  Show more

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :108 یہاں قرآن مجید نے ایک بہت بڑے الزام سےحضرت ہارون کی براءت ثابت کی ہے جو یہودیوں نے زبردستی ان پر چسپاں کر رکھا تھا ۔ بائیبل میں بچھڑے کی پرستش کا واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ کو پہاڑ سے آنے میں دیر لگی تو بنی اسرائیل نے بے صبر ہو کر حضرت ہارون سے ... کہا کہ ہمارے لیے ایک معبود بنا دو ، حضرت ہارون نے ان کی فرمائش کے مطابق سونے کا ایک بچھڑا بنا دیا جسے دیکھتے ہی بنی اسرائیل پکار اُٹھے کہ اے اسرائیل ، یہی تیرا وہ خدا ہے جو تجھے ملک مصر سے نکال کر لایا ہے ۔ پھر حضرت ہارون نے اس کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور اعلان کر کے دوسرے روز تمام بنی اسرائیل کو جمع کیا اور اس کے آگے قربانیاں چڑھائیں ( خروج ۔ باب۳۲ ۔ آیت١ ۔ ٦ ) ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بصراحت اس غلط بیانی کی تردید کی گئی ہے اور حقیقت واقعہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس جرم عظیم کا مرتکب خدا کا نبی ہارون نہیں بلکہ خدا کا باغی سامری تھا ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ طہٰ ، آیات ۹۰ ۔ ۹٤ ) ۔ بظاہر یہ بات بڑی حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل جن لوگوں کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں ان میں سے کسی کی سیرت کو بھی انہوں نے داغدار کیے بغیر نہیں چھوڑا ہے ، اور داغ بھی ایسے سخت لگائے ہیں جو اخلاق و شریعت کی نگاہ میں بدترین جرائم شمار ہوتے ہیں ، مثلاً شرک ، جادوگری ، زنا ، جھوٹ ، دغا بازی اور ایسے ہی دوسرے شدید معاصی جن سے آلودہ ہونا پیغمبر تو درکنار ایک معمولی مومن اور شریف انسان کے لیے بھی سخت شرمناک ہے ۔ یہ بات بجائے خود نہایت عجیب ہے لیکن بنی اسرائیل کی اخلاقی تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ فی الحقیقت اس قوم کے معاملہ میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ یہ قوم جب اخلاقی و مذہبی انحطاط میں مبتلا ہوئی اور عوام سے گزر کر ان کے خواص تک کو ، حتٰی کہ علماء و مشائخ اور دینی منصب داروں کو بھی گمراہیوں اور بد اخلاقیوں کا سیلاب بہالے گیا تو ان کے مجرم ضمیر نے اپنی اس حالت کے لیے عذرات تراشنے شروع کیے اور اسی سلسلہ میں انہوں نے وہ تمام جرائم جو یہ خود کرتے تھے ، انبیاء علیہم السلام کی طرف منسوب کر ڈالے تا کہ یہ کہا جا سکے کہ جب نبی تک ان چیزوں سے نہ بچ سکے تو بھلا اور کون بچ سکتا ہے ۔ اس معاملہ میں یہودیوں کا حال ہندوؤں سے ملتا جلتا ہے ۔ ہندوؤں میں بھی جب اخلاقی انحطاط انتہا کو پہنچ گیا تو وہ لٹریچر تیار ہوا جس میں دیوتاؤں ، رشیوں ، مُنیوں اور اوتاروں کی ، غرض جو بلند ترین آئیڈیل قوم کے سامنے ہو سکتے تھے ان سب کی زندگیاں بد اخلاقی کے تارکول سے سیاہ کر ڈالی گئیں تا کہ یہ کہا جا سکے کہ جب ایسی ایسی عظیم الشان ہستیاں ان قبائح میں مبتلا ہو سکتی ہیں تو بھلا ہم معمولی فانی انسان ان میں مبتلا ہوئے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں ، اور پھر جب یہ افعال اتنے اُونچے مرتبے والوں کے لیے بھی شرمناک نہیں ہیں تو ہمارے لیے کیوں ہوں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

70: یہ تورات کی تختیاں تھیں جو وہ کوہ طور سے لائے تھے ’’ پھینکنے‘‘ سے یہاں مطلب یہ ہے کہ انہوں نے جلدی میں انہیں اس طرح ایک طرف رکھا کہ دیکھنے ولا اسے پھینکنے سے تعبیر کرسکتا تھا، خدا نخواستہ ان کی بے حرمتی مقصود نہیں تھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(150 ۔ 151) ۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے کوہ طور پر یہ بات اللہ پاک نے کہہ دی تھی کہ وہاں قوم کو سامری نے بگاڑ ڈالا اور ایک گوسالہ بنا کر آپ بھی پوجنے لگا اور بنی اسرائیل کو بھی اس میں شریک کرلیا۔ اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) غیط وغضب میں بھرے ہوئے آئے کہ قوم اتنی نشانیاں اللہ پاک کی دیکھ چکی ہے اس پر کفر... و شرک سے باز نہ آئی جھٹ بت بنالیا اور پوجنے لگے مفسروں نے اس کے معنے یہ بیان کئے ہیں کہ یہ بھی ایک قسم کا غضب ہے جو غضب سے کہیں بڑھا ہوا ہے بہر حال موسیٰ (علیہ السلام) نے آتے ہی ان لوگوں سے یہ کہا کہ یہ کیا بری حرکت تم نے میرے جانے کے بعد کی کہ گوسالہ بنا کر پوجنے لگے خدا کا وعدہ جو میرے ساتھ ایک چلہ کا تھا اس کو پورا بھی نہ ہونے دیا اور ایسی جلدی کی اور یہ کہتے ہوئے وہ تختیاں جو اللہ پاک نے ان کو مرحمت فرمائی تھیں جس میں دین کے احکام کی تفصیل تھی ان کو ہاتھ سے زمین پر پھنک دیا یہ تختیاں زمرد کی تھیں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب لوح مو سے (علیہ السلام) نے زمین پر ڈالی دی تو وہ ٹوٹ کر اس کے چھ ٹکڑے ہوگئے ایک ٹکڑا رہ گیا اور باقی پانچ ٹکڑے اللہ پاک نے اٹھا لئے دوسرا قول ان کا یہ ہے کہ ساتواں حصہ دنیا میں رہ گیا اور باقی چھ حصے اٹھا لئے گئے مجاہد یہ کہتے ہیں کہ اخبار غیب چلے گئے اور دین کے چند اور احکام باقی رہ گئے اور ابن جریج یہ کہتے ہیں کہ لوح نو عدد تھے دو اٹھالی گئیں اور سات دنیا میں رہ گئیں پھر موسیٰ (علیہ السلام) غصہ کی حالت میں اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) نے اپنا عذر ظاہر کیا کہ بھائی میرا کچھ اس میں تصور نہیں ہے لوگوں نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ یہ مجھے قتل کر ڈالیں آپ میرے ساتھ وہ کام نہ کیجے جس کو دیکھ کر دشمن خوش ہوں اور مجھ پر ہنسیں اور مجھے آپ اس قوم گنہگار میں نہ شمار کریں میں ان سے بالکل الگ ہوں موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بات سن کر اللہ پاک سے اپنے اور اپنے بھائی کے لئے مغفرت چاہی گویا اس فعل پر شرمسار ہوئے بعض مفسروں نے ہارون (علیہ السلام) کے متعلق یہ بیان کیا ہے کہ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کے بیٹے تھے تین برس موسیٰ ( علیہ السلام) سے بڑے تھے اپنی ماں کے ساتھ آئے تھے اس لئے ہارون (علیہ السلام) نے موسیٰ کو ابن ام ماں کے بیٹے بھائی کہا اور بعض مسروں نے یہ بیان کیا ہے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) اور ہارون ( علیہ السلام) دونوں سگے بھائی تھے ایک ماں باپ سے۔ ابن ام کہنے کی یہ وجہ تھی کہ اس لفظ سے زیادہ محبت جوش میں آتی ہے اور ماں کے نام سے دل زیادہ نرم ہوجاتا ہے طبرانی ‘ کبیر اوسط اور مسند امام احمد میں ابی امامہ (رض) کی حدیث ہے جس میں ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایمان کی نشانی پوچھی آپ نے فرمایا جب آدمی کو اچھے کام سے خوشی اور برے کام سے رنج ہو تو یہ اس کے ایمان کی نشانی ہے اس سے معلوم ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون (علیہ السلام) پر جو دست درازی کی وہ جوش ایمانی میں بےقابو ہو کر کی۔ مسند امام احمد کی سند میں اگرچہ کچھ ضعف ہے لیکن طبرانی کی کبیر اور اوسط میں یہ حدیث اچھی سند سے ہے :۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:150) غضبان۔ صیغہ مبالغہ۔ سخت غضبناک۔ غضبان وہ شخص جس کے غصہ میں شدت ہو۔ غضبۃ وہ شخص جس کو جلد غصہ آجائے۔ اسفا۔ مصدر ہے ۔ افسوس کرنا ۔ پچھتاوا۔ شدید الغضب (شدید غصہ میں) ۔ حرینا متاسف۔ بئسما۔ برا ہے جو کچھ ۔ بری ہے وہ چیز۔ ما بمعنی شیٔ کے تمیز ہے بئس کے فاعل مضمر کی یا ما موصولہ ہے بمعنی الذی اور ... بئس کا فاعل ہے۔ خلفتمونی۔ تم نے میری جانشینی کی۔ تم نے میرے بعد کیا۔ اعجلتم۔ اَ استفہامیہ۔ عجلتم ماضی جمع مذکر حاضر۔ تم نے جلدی کی۔ تم نے جلد بازی کی۔ عجل اور عجلۃ سے۔ اعجلتم امر ربکم۔ کیا تم نے اپنا رب کا حکم آنے سے پہلے ہی یہ جلدی کر ڈالی ۔ یعنی میں جو اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس کے احکام وصول کرنے کے لئے گیا ہوا تھا ۔ تاکہ تمہارت پاس لاؤں اور تم ان احکام کے مطابق عمل کرو۔ لیکن تم نے اس کا انتظار کئے بغیر اتنی شتابی سے ایک گوسالہ کو خدا بنا ڈالا۔ یجرہ۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ جر مصدر (باب نصر) ہ ضمیر مفعول اس کو کھینچتے ہوئے۔ ابن ام۔ یا حرف ندا محذوف۔ ابن ام مضاف مضاف الیہ مل کر منادیٰ ۔ یا ابن ام میں بعض نے میم کو کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اصل میں ابن امی تھا ۔ ی کو تخفیفاً ساقط کردیا گیا۔ میم کو مفتوح پڑھنے والوں کے نزدیک بھی میم پر فتح زیادہ تخفیف کی وجہ سے ہے۔ استضعفونی۔ انہوں نے مجھے کمزور سمجھا۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ باب استفعال۔ ن وقایہ۔ ی ضمیر مفعول واحد متکلم۔ لاتشمت بی۔ تو نہ ہنسا۔ تو نہ خوش کر۔ الشماتہ کے معنی دشمن کی مصیبت پر خوش ہونے کے ہیں۔ اشمت اللہ بہ العدو۔ کے معنی ہیں۔ اللہ اسے مصیبت پہنچائے جس سے اس کے دشمن خوش ہوں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو طور پر خبر دے دی تھی کا سامری نے آپ کے بعد کی قوم کو گمراہ کردیا ہے۔ ( دیکھئے سورة طہ ٰ آیت 85)2 یعنی میں جاتے وقت تم کو کہہ گیا تھا کہ جب تک میں واپس نہ آؤں میری نصیحتوں پر کار بند رہنا اور کوئی نئی حرکت نہ کر بیٹھنا میں اللہ کی طرف سے احکام لے...  آؤں گا مگر جب میں مقررہ میعاد ( 30) دن تک واپس نہ آیا تو تم نے سمجھ لیا کہ میں مر کھپ گیا ہوں اس پر تم نے دین میں ایک بد عت ایجاد کرلی کہ خدا پر ایمان کے ساتھ بچھڑے کی بھی پوجا کرنے لگے اس طرح میرے بعد تم بہت برے خلیفہ ثاتب ہوئے ہو یا تم نے بہت براکام کیا ہے۔ ( المنار، کبیر)3 حضرت مو سیٰ ( علیہ السلام) حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے سگے بھائی ہی تھے مگر حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے سگے بھائی ہی تھے مگر حضرت ہارون ( علیہ السلام) نے ان کی سفقت حاصل کرنے کے لیے یا بن امر) کہا ہے4 یعنی میں نے ان کے بچھڑے کی پوجا سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی ہے ( دیکھئے سورة طحہٰ آیت 90) مگر یہ لوگ مجھے مانے پر پل پڑے اور خطرہ لاحق ہوگیا کہ کہیں یہ مجھے قتل ہی نہ کر ڈالیں5 یعنی یہ نہ سمجھو کہ میں بھی ان کے جرم میں شریک ہوں۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شماتت اعدا یعنی اس بات سے ہمیشہ پناہ مانگتے کہ کسی مصیبت پر دشمنوں کو خوشی حاصل ہو۔ ( بخاری )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشرح آیات نمبر 150 تا 153 جب حضری موسیٰ (علیہ السلام) طور پر اعتکاف کی حالت میں تھے تو اسی وقت اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی کردی تھی کہ تمہارے پیچھے تمہاری قوم نے سونے چاندی کا بچھرا بنالیا ہے اور اسکی پوجا کرنے لگے ہیں ( یہ سارا کام ایک جادوگر سامری کی زیر ہدایت ہوا) ۔ یہ سن کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام)...  کا دل پہلے ہی کھول رہا تھا جب واپس لوٹے اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ قوم نے ایک اللہ کو چھوڑکر بچھڑے کی پوجا کر رہی ہے تو اور بھی غصہ سے بپھر گئے۔ پہلے اپنی قوم والوں کو ملامت کی کہ تمہیں اللہ نے خلافت ارضی بخشی تھی کیا تمہاری کارکردگی کا یہی نمونہ ہے ؟ کہ ہمارے غائبانہ میں تم نے اللہ کو چھوڑ کر بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ میں تو تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات لینے گیا تھا۔ تم کچھ انتظار کرلیتے۔ پھر وہ گرم جذبات میں بھرے ہوئے اپنی بھائی ہارون کی بڑھے جن کو انہوں نے اپنا جانشین بنای اتھا۔ اگرچہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے چند سال بڑے تھے لیکن نبوت کے کام میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ماتحت تھے وجہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) رسول بھی ہیں اور نبی بھی جبکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) صرف نبی ہیں رسول نہیں ہیں۔ بنی ہمیشہ رسول کے تابع ہوا کرتا ہے ۔ بہر حال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس واقعہ پر اتنا غم و غصہ تھا کہ انہوں نے ہاتھ خالی کرنے کے لئے توریت کی تختیوں کو ایک طرف رکھا اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے سرکے اور ڈاڑھی کے بال پکڑ کے کھینچتے ہوئے کہنے لگے کہ جب کہ میں تمہیں اپنا جانشین بنایا تھا تمہاری موجودگی میں ایسا کیوں ہوا ؟ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے اپنے دفاع میں کہا اے میرے بھائی میں زیادہ سے زیادہ منع ہی کرسکتا تھا یعنی ان کو اس برے فعل اور بت پرستی سے روک ہی سکتا تھا۔ تو میں نے ان کو ہر طرح سمجھایا لیکن سامری کے بہکائے میں آکر یہ لوگ بت پرستی کی طرف اس شدت سے لپکے کہ خود مجھے اپنی جان کی خیر منانی پڑی۔ اے میرے بھائی ہرگز گناہ گار نہیں ہوں اور آپ ایس بات نہ کیجئے جس لوگ ہمارا مذاق اڑائیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب حضرت ہارون (علیہ السلام) کی باتیں سنیں تو ان کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور انہوں نے اپنے لئے اور اپنے بھائی کے لئے مغفرت کی دعائیں کیں۔ اس جگہ ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کی زبان سے جو جملے نقل فرمائے ہیں وہ درحقیقت ان کی معصومیت اور نیک فطرت کی طرف اشارہ ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ موجودہ بائبل نے حضرت ہارون (علیہ السلام) پر بڑے بڑے الزامات لگائے ہیں اسے نے الزام لگایا ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کوہ طو پر جانے کے بعد ایک قربان گاہ بنائی تمام بنی اسرائیل کو جمع کیا اور ان کے سامنے سنہرے بچھڑے پر چڑھاوے چڑھائے۔ دوسری جگہ بائبل میں ہے کہ یہ وہی تھے جنہوں نے سونے کا بچھڑا بنایا ہے جسے دیکھتے ہی بنی اسرائیل پکارا اٹھے کہ یہی وہ معبود ہے جو ہمیں فرعونیوں کے ظلم سے چھڑا ک لایا ہے۔ اصل میں یہ سارے الزامات ہیں جو حضرت ہارون (علیہ السلام) لگائے گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کے الفاظ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعائے مغفرت کو اس لئے نقل کیا ہے تاکہ سب کو معلوم ہوجائے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے یہ جرم نہیں کیا تھا بلکہ سامری نے لوگوں کو بہکا کر حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بےبس کردیا تھا اور پوری قوم سامری کے بہکائے میں آگئی تھی حضرت ہارون (علیہ السلام) اس سے بری تھے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ کیونکہ ان کو وحی سے یہ معلوم ہوگیا تھا۔ 1۔ اور جلدی میں ایسے زور سے رکھی گئیں کہ دیکھنے والے اگر غور نہ کرے توشبہہ ہو کر جیسے کسی نے پٹک دی ہوں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر مطلع فرمایا کہ تیری قوم نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی ہے۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) واپس تشریف لائے۔ ادھر موسیٰ (علیہ السلام) کی مدت اعتکاف پوری ہوئی اور انھیں تورات عنایت فرما دی گئی۔ اُدھر ان کی قوم نے بچھڑے کی پر... ستش شروع کردی۔ جس کی موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں اطلاع دی کہ ” اے موسیٰ ٰتمہارے یہاں آنے کے بعد ہم نے تمہاری قوم کی آزمائش کی اور انھیں سامری نے گمراہ کردیا ہے۔ “ (طٰہٰ ، آیت : ٨٤) اب موسیٰ (علیہ السلام) غم و غصہ کی حالت میں قوم کی طرف واپس پلٹے اور اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو فرمایا کہ تم نے میری جانشینی کا حق ادا نہیں کیا تم برے جانشین ثابت ہوئے ہو۔ پھر بنی اسرائیل سے مخاطب ہو کر فرمایا اے لوگو ! تم نے اپنے رب کا حکم آنے سے پہلے جلد بازی کا مظاہرہ کیا پھر تورات کی تختیاں ایک طرف پھینک دیں غم و غصہ کی حالت میں اپنے بھائی کے سر کے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے جس کے جواب میں حضرت ہارون (علیہ السلام) نے نہایت عاجزانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے مادر زاد بھائی میری قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ وہ مجھے جان سے مار دیتی آپ ترس کھائیں اور مجھ پر دشمنوں کو خوش ہونے کا موقع نہ دیں اور نہ ہی مجھے ظالموں کا ساتھی سمجھیں۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) کے جذبات ٹھنڈے ہوئے اور انھوں نے اس حرکت پر نہ صرف اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کی بلکہ اپنے بھائی کے لیے بھی مغفرت کی دعا کی کہ اے میرے رب ہمیں معاف فرما کر اپنی رحمت کے دامن میں لے لیجیے۔ تو سب سے بڑا مہربان ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے غیرت توحید میں آکر حضرت ہارون (علیہ السلام) پر ہاتھ اٹھایا جس پر انھوں نے اپنے رب کے حضور معافی مانگی اور حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں مظلوم تھے پھر ان کے لیے جناب موسیٰ نے کیوں ان کے لیے بخشش کی دعا مانگی۔ اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) قوم کے مقابلے میں کمزور واقع ہوئے اور قوم ان کے سامنے شرک میں مبتلا ہوگئی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی خطا پر معافی مانگنے کے ساتھ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اس کمزوری پر بھی اللہ سے معافی طلب کی کیونکہ انسان سے گناہ دانستہ طور پر سرزد ہو یا غیر دانستہ طور پر اسے بہرحال اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہونا چاہیے۔ یہی قرآن مجید اور سنت سے ثابت ہے کہ انسان کو بھول چوک اور دانستہ کیے ہوئے گناہوں کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) کے لیے معافی مانگنے کی وجہ ان کی دل جوئی بھی ہوسکتی ہے تاکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کو یقین ہوجائے کہ بھائی مجھ پر دلی طور پر راضی ہوچکے ہیں۔ حضرت موسیٰٰٰٗ ( علیہ السلام) مرتبہ کے لحاظ سے بڑے تھے۔ بزرگ دعا مانگتے ہیں اور چھوٹے آمین کہتے ہیں۔ تختیوں کے بارے میں بعض مفسرین نے بنی اسرائیل کی من گھڑت روایات کی بنیاد پر یہاں تک لکھ دیا ہے کہ سات میں سے چھ ٹوٹ گئیں جن میں دین کے متعلق مکمل تفصیلات تھیں انھیں آسمان پر اٹھا لیا گیا اور باقی جو بچی تھیں اس میں صرف عبادات کے مسائل تھے۔ اللہ تعالیٰ سے بھول چوک کی بھی معافی مانگنا چاہیے : ( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِینَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ ) [ البقرۃ : ٢٨٦] ” اے ہمارے رب اگر ہم سے بھول چوک ہوجائے تو اس پر گرفت نہ کرنا اے ہمارے رب ہم پر اتنا بھاری بوجھ نہ ڈال جتنا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے ہمارے رب جس بوجھ کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے وہ ہم پر نہ ڈال ہم سے در گزر فرما، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا مولا ہے لہٰذا کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔ “ (عَنْ فَرْوَۃَ بْنِ نَوْفَلٍ الْأَشْجَعِیِّ (رض) قَالَ سَأَلْتُ عَاءِشَۃَ (رض) عَمَّا کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْعُو بِہِ اللّٰہَ قَالَتْ کَانَ یَقُول اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء ] ” حضرت فروہ بن نوفل اشجعی (رض) فرماتے ہیں میں نے ام المومنین حضرت عائشہ (رض) سے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعائیں جو وہ اللہ تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے ان کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے فرمایا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے اے اللہ میں نے جو عمل کیا اور جو نہیں کیا اس سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ “ مسائل ١۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی قوم گمراہ ہونے پر اللہ تعالیٰ نے مطلع فرمایا۔ ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے غیرت توحید میں آکر اپنے بھائی کے سرکے بال کھینچے۔ ٣۔ اپنے اور مسلمان بھائیوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا مانگنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ظالموں کا ساتھی نہیں بننا چاہیے : ١۔ اے رب ہمارے ہمیں ظالم قوم سے بچا ئیو۔ (الاعراف : ٤٧) ٢۔ اے میرے رب مجھے ظالم قوم سے بچائیو۔ (المومنون : ٩٤) ٣۔ اے اللہ ہمیں ظالم قوم سے بچائیو۔ (یونس : ٨٥) ٤۔ اے میرے رب مجھے ظالم قوم سے نجات دے۔ (تحریم : ١١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ واقعات اس وقت ہوئے جب حضرت موسیٰ رب ذوالجلال کے دربار میں کھڑے تھے ، اور اللہ سے ہمکلام تھے۔ آپ کو معلوم نہ تھا کہ ان کے پیچھے ان کی قوم کیا کر رہی ہے۔ اگر اللہ ان کو بتاتے تو انہیں اس وقت علم ہوجاتا ، بہرحال اب حضرت موسیٰ کی واپسی پر گیا ہواں منظر سامنے آتا ہے۔ ۔۔۔ وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓي اِل... ٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا۔ ادھر سے موسیٰ غصے اور رنج میں بھرا ہوا اپنی قوم کی طرف پلٹا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس آئے تو ان حالات کو دیکھ کر آگ بگولا ہوگئے۔ آپ کے اقوال اور آپ کے اقدامات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سخت غصے میں تھے۔ اور آپ کے غصے کا اظہار ان الفاظ سے ہوتا ہے۔ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِيْ مِنْۢ بَعْدِيْ ۚ اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْ ۔ آتے ہی اس نے کہا " بہت بری جانشینی کی تم لوگوں نے میرے بعد ! کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوا کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کرلیتے " اسی طرح آپ کے اقدامات سے بھی غصہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے بھائی کو داڑھی سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِيْهِ يَجُرُّهٗٓ اِلَيْهِ. اور اپنے بھائی (ہارون) کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچا۔ حضرت موسیٰ کا یہ غصہ بالکل برحق تھا۔ اس لیے کہ وہ اچانک ایسی صورت حال سے دوچار ہوگئے تھے جن کی انہیں توقع نہ تھی۔ یہ ایک انقلابی صورت حالات تھی۔ بئسما خلفتمونی من بعدی۔ بہت بری جانشینی کی تم لوگوں نے میرے بعد۔ میں تمہیں ٹھیک راستے پر چھوڑ کر گیا تھا ، تم نے اسے ضلالت سے بدل دیا۔ میں تمہیں اس حال میں چھوڑ کر گیا کہ تم خدا کی عبادت کر رہے تھے اور جب واپس ہوا تو تم بچھڑے کی عبادت کر رہے تھے حالانکہ وہ صرف ایک جس تھا اور بیل جیسی آواز نکال رہا تھا۔ اعجلتم امر ربکم۔ کیا تم سے اس قدر صبر نہ ہوا کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کرلیتے۔ یعنی تم نے اپنے رب کے فیصلے کا انتظار نہ کیا ، اس کے عذاب کا انتظار نہ کیا اور اس نے جس عرصے کے لیے مجمع بلایا تھا اس کا انتظار نہ کیا۔ والقی الالواح واخذ براس اخیہ یجرہ الیہ۔ اس نے تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچا۔ اس اقدام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ سخت مشتعل تھے۔ اس لیے کہ ان تختیوں میں اللہ کا کلام تھا ، اور ان کے پاس ادب کا تقاضا یہ تھا کہ آپ ان کو زمین پر نہ پھینکتے لیکن اس وقت آپ سخت غصے میں تھے اور آپ ضبط نہ کرسکے۔ بھائی کو بھی بالوں سے پکڑ کر کھینچا حالانکہ ان کے بھائی عبد صالح اور پیغمبر تھے۔ حضرت ہارون نے برادرانہ جذبات سے اپیل کی تاکہ آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے اور آپ موافقانہ رویہ اختیار کریں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی صفائی پیش کی اور یہ بتایا کہ انہوں نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ قال ابن امر ان القوم استضعفونی وکادوا یقتلوننی۔ ہارون نے کہا " اے میری ماں کے بیٹے ، ان لوگوں نے مجے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے۔ اب میری ماں کے بیٹے کے الفاظ استعمال کرکے حضرت ہارون ان کے جذبہ کی طرف نہایت ہی جوش و خروش سے لپک رہے تھے۔ اور ایسے حالات موجود تھے کہ اگر حضرت ہارون ان کی زیادہ مزاحمت کرتے تو وہ تشدد پر اتر آتے اور اس صورت حال کی تصویر وہ اس طرح کھینچتے ہیں " قریب تھا کہ وہ مجھے مار ڈالتے " اس لیے وہ بےقصور تھے۔ فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْاَعْدَاۗءَ وَلَا تَجْعَلْنِيْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ ۔ پس تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اس ظالم گروہ کے ساتھ مجھے نہ شامل کر " اس دوسرے فقرے سے بھی حضرت ہارون اپنے بھائی کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر دونوں بھائیوں کے مشترکہ دشمن ہوں تو بھائی ایک دوسرے کی پوزیشن کا خیال رکھتے ہیں۔ اور تیسری بات یہ کہ وہ کہتے ہیں کہ آپ مجھے اور ظالموں کو ایک صف میں کھڑا نہ کریں۔ ظالم وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور میں نے تو ان کے ساتھ ظلم میں شرکت نہیں کی۔ میں تو بری الذمہ ہوں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ اَلْقَی الْاَلْوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْہِ یَجُرُّہٗٓ اِلَیْہِ ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کا بھی مواخذہ فرمایا توحید کے خلاف جو منظر دیکھا تو غیرت دینی کے جوش میں توریت شریف کی تختیاں ایک طرف کو ڈال دیں اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھین... چ لیے۔ انہیں یہ گمان ہوا کہ ہارون (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کی تعلیم میں کوتاہی کی، سورة طہٰ میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کی ڈاڑھی پکڑنے کا بھی ذکر ہے۔ توریت تشریف کی تختیوں کا ڈالنا اور بھائی کے سر کے بالوں کو پکڑنا شدت غضب کی وجہ سے پیش آیا۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے جواب میں کہا کہ اے میرے ماں جائے آپ میرے سر اور ڈاڑھی کے بالوں کو نہ پکڑیں۔ بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کر ڈالیں۔ لہٰذا آپ مجھ پر سختی کر کے دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دیں اور مجھے ظالموں میں شمار نہ کریں۔ (میں ان کے کام میں ان کے ساتھ نہیں ہوں، لہٰذا میرے ساتھ برتاؤ بھی وہ نہ ہونا چاہئے جو ظالموں کے ساتھ کیا جاتا ہے) ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو احساس ہوا کہ واقعی مجھ سے خطا ہوئی (اگرچہ خطا اجتہادی تھی) لہٰذا بار گاہ خداوندی میں عرض کیا کہ اے میرے رب میری مغفرت فرما دے اور میرے بھائی کی بھی اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما دے اور آپ ارحم الراحمین ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) گاؤ سالہ پرستی دیکھ کر دینی حمیت کے جوش میں اور غضب و تاسف میں تھے اس لیے اپنے بھائی سے دارو گیر کرتے ہوئے ان کی ڈاڑھی اور سر کے بال پکڑ لیے تھے پھر جب احساس ہوا تو اپنے لیے اور بھائی کے لیے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں دعا کرنے لگے۔ ظلم اور زیادتی کی معافی مانگنا : اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی پر زیادتی ہوجائے تو جہاں اس کی تلافی کا یہ طریقہ ہے کہ اس سے معافی مانگ لی جائے۔ یہ طریقہ بھی ہے کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے۔ لیکن ہر حال میں اس کو راضی کرنا ضروری ہے، بعض مرتبہ اس سے معافی مانگنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی اس لیے کہ وہ پہلے ہی دل سے معاف کرچکا ہوتا ہے اور بعض مرتبہ تعلقات کی وجہ سے نا گواری ہوتی ہی نہیں، لیکن جس کی طرف سے زیادتی ہوگئی ہو اسے پھر بھی اپنے لیے اور اس کے لیے دعائے مغفرت کر دینی چاہئے۔ لیس الخبر کالمعاینۃ : امام احمد نے اپنی مسند میں (ص ٢٧١ ج ١) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خبر دیکھنے کی طرح نہیں ہے (دیکھنے سے انسان جتنا متاثر ہوتا ہے خبر سے متاثر نہیں ہوتا) بلاشبہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو (پہلے ہی) خبر دے دی تھی کہ تمہاری قوم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا ہے۔ اس وقت تو توریت کی تختیوں کو نہ پھینکا پھر جب اپنی آنکھ سے ان کی حرکت کو دیکھا تو تختیوں کو ڈال دیا جس کی وجہ سے ٹوٹ گئیں۔ القاء الواح پر سوال و جواب : یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا بھی احترام کرنا چاہئے تھا۔ توریت شریف کی تختیوں کو ڈال دینا ایک طرح کی سوء ادبی ہے۔ اس کے جواب میں مفسرین کرام نے دو باتیں لکھی ہیں۔ اول : یہ کہ ان تختیوں کو جلدی میں اس طرح سے رکھ دیا تھا کہ جیسے کوئی شخص کسی چیز کو ڈال دے۔ دوم : یہ کہ دینی حمیت اور شدت غضب سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایسے بےاختیار ہوئے کہ وہ تختیاں ان کے ہاتھ سے گرپڑیں۔ اگرچہ گری تھیں بلا اختیار لیکن بےاحتیاطی کی وجہ سے اس کو القاء اختیاری کا درجہ دے دیا گیا۔ اس لیے القی الالواح سے تعبیر فرمایا۔ فان حسنات الابرار سیئات المقربین۔ (کیونکہ نیک لوگوں کی نیکیاں مقربین کے لیے برائیاں ہیں) ۔ (من روح المعانی ص ٦٧ ج ٩) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

142: یہ چھٹا واقعہ ہے۔ “ غَضْبَانَ اَسِفًا ” دونوں “ رَجَعَ ” کی ضمیر سے مترادف یا متداخل حال ہیں۔ “ غَضْبَانَ ” ناراض، غضبناک۔ “ اَسِفًا، شَدِیْدُ الْغَضَبِ ” یعنی بہت غضبناک جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) میقات سے واپس آئے تو قوم کو گوسالہ پرستی میں دیکھ کر سخت غضبناک ہوگئے اور فرمایا میرے بعد تم نے ... یہ جو حرکت کی ہے وہ بہت بری ہے۔ جب کہ میں تمہیں توحید کی تعلیم دے چکا تھا اور شرک کا رد کرچکا تھا۔ “ اي بئسما فعلتم بعد غیبتی حیث عبدتم العجل بعد ما رایتم منی من توحید اللہ تعالیٰ ونفی الشرکاء عنه سبحانه واخلاص العبادة له جل جلاله ” (روح ج 9 ص 66) ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اس قدر غضبناک ہونا غیرت دینی کی وجہ سے تھا۔ چونکہ آپ کے دل میں غیرت دینی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی اس لیے جوش غضب بھی شدید تھا۔ 143: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایسے جلیل القدر پیغمبر سے یہ تو متصور ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ اللہ کی کتاب کو اس طرح زمین پر پھینک دے۔ اس لیے یہاں “ القاء ” محض صورۃً ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ دینی حمیت و غیرت کی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس قدرت شدت غضب میں آخر بےبس ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑگئی اور الواح تورات زمین پر گر پڑیں۔ “ والصوات ان یقال انه علیه السلام لفرط حمیته الدینیة و شدید غضبه لله تعالیٰ لم یتمالک ان وقعت الالواح من یدہ ؟ اختیارہ ” (روح ج 9 ص 67) ۔ 144: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سمجھا شاید ہارون (علیہ السلام) نے قوم کو شرک سے روکنے میں کوتاہی کی ہے۔ اس لیے انہیں سر کے بالوں سے پکڑ کر کھینچا۔ یہ فعل بےان سے بےاختیار شدت غضب اور حمیت دینی کی وجہ سے سرزد ہوا۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے فرمایا میری ماں کے بیٹے ! میں نے روکنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی میں نے تو اپنا فرض ادا کردیا مگر قوم مجھ پر غالب آگئی اور مجھے بےبس کردیا۔ یہاں تک کہ وہ تو مجھے قتل ہی کرنے لگے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو گوسالہ پرستی سے منع کرنے میں پوری پوری کوشش کی اور ان کو روکنے میں انتہائی مبالغہ کیا تھا حتی کہ قوم قتل کرنے پر اتر آئی۔ “ و دل ھذا علی انه بالغ فی الانکار علیھم ھتی ھموا بقتله ” (بحر ج 4 ص 396) ۔ اللہ کے ایک پیغمبر کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ تبلیغ احکام اور اشاعت توحید میں ہر جانی اور مالی خطرے سے بےنیاز ہو کر اپنا فریضہ سر انجام دے اور مداہنت یا تقیہ کی آڑ میں احکام شریعت کو معطل نہ کر ڈالے۔ شیعہ اماموں کو پیغمبروں کی طرح معصوم، مامور من اللہ اور واجب الاطاعت مانتے ہیں مگر اس کے بباوجود ان بزرگوں پر تقیہ کی آڑ میں اسلام کے نہایت اہم احکام کو چھپانے کا الزام بھی دھرتے ہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

150 اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہایت غصے اور رنج و افسوس کی حالت میں طور سے واپس آئے تو اپنی قوم سے مخاطب ہوکر فرمایا تم نے میرے جائے پیچھے یہ بہت بری اور ناشائستہ حرکت کی ہے اور وہ نمائندگی بہت بری ہے جو تم نے میرے جانے کے بعد میری نمائندگی کی ہے کیا تم لوگ اپنے رب کا حکم آنے سے پہلے ہی جلدی ... کر بٹیھے اسی حالت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جلدی سے وہ تختیاں تو ایک طرف رکھ دیں اور وفور جوش میں اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کے سر کے بال پکڑ کر اپنے بھائی کو اپنی طرف گھسیٹنے لگے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے اس پر کہا اے میری ماں کے بیٹے اور میری ماں جائے ان لوگوں نے مجھ کو کمزور اور بےحقیقت سمجھا اور قریب تھا کہ یہ لوگ مجھ کو مار ڈالتے پس اے موسیٰ (علیہ السلام) تو مجھ پر دشمنوں کو ہنسنے کا موقعہ نہ دے اور مجھ کو ان ظالم اور ناانصاف لوگوں میں شمار نہ کر یعنی میں نے تو ان کو بہت سمجھایا لیکن یہ باغی ہوگئے اور فساد پر آمادہ ہوگئے لہٰذا نہ تو ان کو مجھ پر ہنسوا اور نہ مجھ کو ان جیسا سمجھ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت ہارون (علیہ السلام) اور ان کی اولاد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں امام تھے لیکن جب ان کی جگہ خلیفہ ہوئے تو امت حکم میں نہ رہی خلافت اور کی قسمت میں تھی خلیفہ وہ جو امت کو دین اور دنیا کے بندوبست میں رکھے جس طرح پیغمبر سنوارا گیا تاکہ نصرت حق ان کے ساتھ رہے اور امام وہ کہ پیغمبر کا یادگار ہو جو خدمت اور نیاز پیغمبر سے منظور ہو سو امت ان سے کرے تا قبولیت اور برکت کا درجہ ملے۔ تورات میں امام کے لوازم دیکھئے تو معلوم ہوں۔  Show more