Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 152

سورة الأعراف

اِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوا الۡعِجۡلَ سَیَنَالُہُمۡ غَضَبٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ ذِلَّۃٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُفۡتَرِیۡنَ ﴿۱۵۲﴾

Indeed, those who took the calf [for worship] will obtain anger from their Lord and humiliation in the life of this world, and thus do We recompense the inventors [of falsehood].

بیشک جن لوگوں نے گو سالہ پرستی کی ہے ان پر بہت جلد ان کے رب کی طرف سے غضب اور ذلت اس دنیاوی زندگی ہی میں پڑے گی اور ہم افتر ا پر دازوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells; إِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ الْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَياةِ الدُّنْيَا ... Certainly, those who took the calf (for worship), wrath from their Lord and humiliation will come upon them in the life of this world. The `wrath' mentioned here that struck the Children of Israel because of their worshipping the calf, means, Allah did not accept their repentance until some of them [who did not worship the calf (killed others) who worshipped the calf]. We mentioned this story in Surah Al-Baqarah, فَتُوبُواْ إِلَى بَارِيِكُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِيِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ So turn in repentance to your Creator and kill yourselves (the guilty), that will be better for you before your Creator." Then He accepted your repentance. Truly, He is the One Who accepts repentance, the Most Merciful. (2:54) As for the humiliation mentioned in the Ayah, it pertains to the disgrace and humiliation that the Jews suffered in the life of this world. Allah's statement, ... وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِينَ Thus do We recompense those who invent lies! is for all those who invent an innovation (in religion). Surely, the disgrace resulting from inventing an innovation (in religion) and defying Allah's Message, will be placed in the heart and from there on to the shoulders. Al-Hasan Al-Basri said; "The disgrace of innovation will weigh on their shoulders even if they were to gallop on their mules or trot on their work horses." Ayub As-Sakhtiyani narrated from Abu Qilabah Al-Jarmi that he commented on this Ayah, وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِينَ (Thus do We recompense those who invent lies), "By Allah! This Ayah is for all those who invent a lie, until the Day of Resurrection." Also, Sufyan bin Uyaynah said, "Every person who invents a Bid`ah (innovation in the religion) will taste disgrace." Allah tells His servants that He accepts repentance from His servants for any sin, even Shirk, Kufr, hypocrisy and disobedience. Allah said:

باہم قتل کی سزا ان گو سالہ پر ستوں پر اللہ کا غضب نازل ہوا ۔ جب تک ان لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کر لیا ان کی توبہ قبول نہ ہوئی جیسے کہ سورۃ بقرہ کی تفسیر میں تفصیل وار بیان ہو چکا ہے کہ انہیں حکم ہوا تھا کہ اپنے خالق سے توبہ کرو اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو یہی تمہارے حق میں ٹھیک ہے پھر وہ تمہاری توبہ قبول فرمائے گا وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم والا ہے ۔ اسی طرح دنیا میں بھی ان یہودیوں پر ذلت نازل ہوئی ۔ ہر بدعتی کی جو اللہ کے دین میں جھوٹا طوفان اٹھائے یہی سزا ہے ۔ رسول کی مخالفت اور بدعت کا بوجھ اس کے دل سے نکل کر اس کے کندھوں پر آپڑتا ہے ۔ حسن بصری فرماتے ہیں گو وہ دنیوی ٹھاٹھ رکھتا ہو لیکن ذلت اس کے چہرے پر برستی ہے ۔ قیامت تک یہی سزا ہر جھوٹے افترا باز کی اللہ کی طرف سے مقرر ہے ۔ حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ ہر بدعتی ذلیل ہے ۔ پھر فرماتے ہے کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے خواہ کیسا ہی گناہ ہو لیکن توبہ کے بعد وہ معاف فرما دیتا ہے گو کفر و شرک اور نفاق و شفاق ہی کیوں نہ ہو ۔ فرمان ہے کہ جو لوگ برائیوں کے بعد توبہ کرلیں اور ایمان لائیں تو اے رسول رحمت اور اے نبی نور ( یعنی قرآن ) تیرا رب اس فعل کے بعد بھی غفور و رحیم ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زناکاری کرے پھر اس سے نکاح کر لے تو؟ آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی کوئی دس دس مرتبہ اسے تلاوت کیا اور کوئی حکم یا منع نہیں کیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

152۔ 1 اللہ کا غضب یہ تھا کہ توبہ کے لئے قتل ضروری قرار پایا۔ اور اس سے قبل جب تک جیتے رہے، ذلت اور رسوائی کے مستحق قرار پائے۔ 152۔ 2 اور یہ سزا ان ہی کے لئے خاص نہیں ہے، جو بھی اللہ پر افترا (بہتان) کرتا ہے، اس کو ہم یہی سزا دیتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٩] گؤسالہ پرستوں کا قتل عام :۔ اللہ کا غضب وہی تھا جس کا ذکر سورة بقرہ کی آیت ٥٤ میں گزر چکا ہے کہ ایسے بچھڑا پرست مشرکوں کو قتل کر کے باقی معاشرہ کو شرک سے پاک کردیا جائے۔ گؤ سالہ پرستی کے معاملہ میں بنی اسرائیل کے تین گروہ ہوگئے تھے ایک وہ لوگ تھے جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی دوسرے وہ تھے جنہوں نے خود پرستش تو نہ کی مگر کرنے والوں کو منع بھی نہیں کرتے تھے اور تیسرے وہ تھے جنہوں نے پرستش بھی نہ کی اور پرستش کرنے والوں کو منع بھی کرتے رہے۔ جب ان لوگوں کو اپنے اس جرم عظیم کا احساس ہوا اور اللہ سے توبہ کی درخواست کی تو اللہ نے توبہ کی قبولیت کی شرط یہ قرار دی کہ تمام گؤ سالہ پرست مشرکوں کو قتل کردیا جائے اور انہیں قتل کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو خود اس شرک سے بچتے بھی رہے اور مشرکوں کو اس شرک سے منع بھی کرتے رہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : اللہ تعالیٰ کا ان پر غضب یہ ہوا کہ جب تک ان میں سے بعض نے بعض کو قتل نہیں کیا ان کی توبہ قبول نہیں ہوئی۔ (دیکھیے بقرہ : ٥٤) بنی اسرائیل میں جس طرح قتل عمد کی حد قتل تھی اسی طرح شرک کی حد بھی قتل ہی تھی اور یہ اس ” اِصْرٌ“ یعنی بوجھ میں شامل تھی جو پہلی امتوں پر ڈالے گئے۔ ہماری امت میں یہ تخفیف ہوئی کہ شرک کی حد اب قتل نہیں بلکہ صدق دل سے توبہ ہی سے معافی ہوجاتی ہے۔ البتہ اگر شرک پر اصرار کرے تو وہ مرتد ہے اور اسے قتل کیا جائے گا۔ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِيْن : ابو قلابہ (رض) نے یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا : ” قیامت تک ہر مفتری کی یہی سزا ہے (خواہ دین میں شرکیہ کام ایجاد کرے یا کوئی اور) ۔ “ کیونکہ کوئی بھی نئی چیز دین میں داخل کرنے والا مفتری ہے اور بدعت بدترین جھوٹ ہے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے لگایا جاتا ہے۔ امام مالک اور سفیان بن عیینہ ; نے کہا ہے کہ ” مفترین “ کے معنی ” مبتدعین “ یعنی اہل بدعت کے ہیں اور ہر بدعتی قیامت تک ذلیل و خوار ہوتا رہے گا۔ (قرطبی، بغوی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The first verse (152) has warned those who took to the worship of the calf and persisted in it, of their sad fate in the Hereafter, and of disgraceful life in this world. The worldly life is also affected by the sinful deeds A part of punishment of some sins is also given in this life. This is what happened to Samiri. The Prophet Musa (علیہ السلام) commanded him to live apart from the people not touching any one with his hand nor is he touched by any one of the people. Consequently for the rest of his life he lived a deserted life of seclusion, walking about with animals. No human did come near him. Al-Qurtubi has reported on the authority of the Companion Qatadah (رض) that his punishment from Allah was that whenever he touched someone or was touched by anyone of the people both suffered from fever. The author of Ruh al-Bayan has observed that the symp¬toms of this disease are still inherited by his generations. This verse has ended with this sentence. وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِ‌ينَ |"And this is how we recompense the fabricators.|" The Sheikh Sufyan ibn ` Uyainah has said that those who invent new things in the Shari&ah (take to Bid&ah) also commit the sin of fabrication and deserve such punishment. (Mazhari) Imam Malik (رح) has also inferred from this verse that those who invent new practices in the Shari&ah deserve the same punishment of Allah&s wrath in the Hereafter and disgrace in this life. (Qurtubi)

خلاصہ تفسیر (پھر حق تعالیٰ نے ان گوسالہ پرستوں کے متعلق موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ) جن لوگوں نے گوسالہ پرستی کی ہے ( اگر اب بھی توبہ نہ کریں گے تو) ان پر بہت جلد ان کے رب کی طرف سے غضب اور ذلت اس دنیاوی زندگی ہی میں پڑے گی اور ( کچھ ان ہی کی تخصیص نہیں) (تو) افتراء پردازوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں کہ ( دنیا ہی میں مغضوب اور ذلیل ہوجاتے ہیں گو کسی عارض سے اس ذلت کا گاہے ظہور نہ ہو یا دیر میں ہو، چناچہ سامری نے جو توبہ نہ کی اس پر غضب اور ذلت کا نزول ہوا جس کا قصہ سورة طہ میں ہے، قَالَ فَاذْهَبْ فَاِنَّ لَكَ فِي الْحَيٰوةِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ (الایة) اور جن لوگوں نے گناہ کے کام کئے ( مثلا گوسالہ پرستی ان سے سرزد ہوگئی مگر) پھر وہ ان ( گناہوں) کے ( کرنے کے) بعد توبہ کریں اور ( اس کفر کو چھوڑ کر) ایمان لے آئیں، تمہارا رب اس توبہ کے بعد ( ان کے) گناہ کا معاف کردینے والا ( اور ان کے حال پر) رحمت کرنے والا ہے ( گو تکمیل توبہ کے لئے اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ کا بھی حکم ہوا ہو کیونکہ اصل رحمت آخرت کی ہے۔ چناچہ تائبین کی خطا اسی طرح معاف ہوئی) اور جب ( ہارون (علیہ السلام) کی یہ معذرت سن کر) موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرو ہوا تو ان تختیوں کو اٹھا لیا اور ان ( تختیوں) کے مضامین میں ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب سے ڈرتے تھے ہدیت اور رحمت تھی ( مراد احکام ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے موصوف بہدایت اور موعود برحمت ہوتا ہے) اور ( جب گوسالہ کا قصہ تمام ہوا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اطمینان سے تورات کے احکام سنائے، ان لوگوں کی عادت تھی ہی شبہات نکالنے کی، چناچہ اس میں بھی شبہ نکالا کہ ہم کو کیسے معلوم ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں، ہم سے اللہ تعالیٰ خود کہہ دیں تو یقین کیا جائے، آپ نے حق تعالیٰ سے عرض کیا، وہاں سے حکم ہوا کہ ان میں کے کچھ آدمی جن کو یہ لوگ معتبر سمجھتے ہوں منتخب کر کے ان کو کوہ طور پر لے آؤ ہم خود ان سے کہہ دیں گے کہ یہ ہمارے احکام ہیں اور اس لانے کے لئے ایک وقت معین کیا گیا چنا نچہ) موسیٰ ( علیہ السلام) نے ستر آدمی اپنی قوم میں سے ہمارے وقت معین ( پر لانے) کے لئے منتخب کئے ( چناچہ وہاں پہنچ کر انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا تو اس میں ایک شاخ نکالی اور کہنے لگے کہ خدا جانے کون بول رہا ہوگا ہم تو جب یقین لائیں کہ اللہ تعالیٰ کو کھلم کھلا اپنی آنکھ سے دیکھ لیں، لقولہ تعالیٰ لَنْ نُّؤ ْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً ، اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی کی سزا دی نیچے سے زلزلہ شدید شروع ہوا اوپر سے ایسی کڑک بجلی ہوئی کہ سب وہاں ہی رہ گئے) سو جب ان کو زلزلہ ( وغیرہ) نے آپکڑا تو موسیٰ ( علیہ السلام) ڈرے کہ بنی اسرائیل جاہل اور بدگمان تو ہیں ہی یوں سمجھیں گے کہ کہیں لے جاکر کسی طریق سے ان سب کا کام تمام کردیا ہے گھبرا کر) عرض کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار ( یہ مجھ کو یقین ہے کہ ان لوگوں کو محض سنرا دینا منظور ہے خاص ہلاک کرنا مقصود نہیں کیونکہ) اگر آپ کو یہ منظور ہوتا تو آپ اس کے قبل ہی ان کو اور مجھ کو ہلاک کردیتے ( کیونکہ ان کا اس وقت ہلاک ہونا بنی اسرائیل کے ہاتھوں میرا ہلاک ہونا ہے سو اگر آپ کو یہ مقصود ہوتا تو آپ پہلے بھی ایسا کرسکتے تھے مگر جب ایسا نہیں کیا تو معلوم ہوگیا کہ ان کو بھی ہلاک کرنا مقصود نہیں کیونکہ اس سے میری ہلاکت بھی ہے اور بدنامی کے ساتھ، آپ سے امید ہے کہ مجھ کو بدنام نہ کریں گے اور بھلا) کہیں آپ ہم میں کے چند بیوقوفوں کی حرکت پر سب کو ہلاک کردیں گے ( کہ بےوقوفی تو کریں یہ لوگ کہ ایسی گستاخی کریں اور ساتھ میں بنی اسرائیل کے ہاتھ سے ہلاک ہوں میں بھی، آپ سے امید ہے کہ آپ ایسا نہ کریں گے پس ثابت ہوا کہ) یہ واقعہ ( رجفہ اور صاعقہ کا) محض آپ کی طرف سے ایک امتحان ہے، ایسے امتحانات سے جس کو آپ چاہیں گمراہی میں ڈال دیں ( کہ حق تعالیٰ کی شکایت اور ناشکری کرنے لگے) اور جس کو آپ چاہیں ہدایت پر قائم رکھیں ( کہ اس کی حکمتوں اور مصلحتوں کو سمجھتا ہے سو میں آپ کے فضل و کرم سے آپ کے حکیم ہونے کا علم رکھتا ہوں لہذا اس امتحان میں مطمئن ہوں اور) آپ ہی تو ہمارے خبر گیراں ہیں ہم پر مغفرت اور رحمت فرمایئے اور آپ سب معافی دینے والوں سے زیادہ ہیں ( سو ان کی گستاخی بھی معاف کردیجئے چناچہ وہ لوگ صحیح سالم اٹھ کھڑے ہوئے سورة بقرہ میں تفصیل ملاحظہ ہو) اور ( اس دعا کے ساتھ آپ نے تفصیل رحمت کے لئے یہ بھی دعا کی کہ) ہم لوگوں کے نام دنیا میں بھی نیک حالی لکھ دیجئے اور ( اسی طرح) آ خرت میں بھی ( کیونکہ) ہم آپ کی طرف ( خلوص و اطاعت کے ساتھ) رجوع کرتے ہیں ( اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول کی اور) فرمایا کہ ( اے موسیٰ اول تو مطلقا میری رحمت میرے غضب پر سابق ہے چنانچہ) میں اپنا عذاب ( اور غضب) تو اسی پر واقع کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں ( گو مستحق عذاب ہر نافرمان ہوتا ہے لیکن پھر بھی سب پر واقع نہیں کرتا بلکہ ان میں سے خاص خاص لوگوں پر واقع کرتا ہوں جو غایت درجہ سرکش اور متمرد ہوتے ہیں) اور میری رحمت ( ایسی عام ہے کہ) تمام اشیاء کو محیط ہو رہی ہے ( باوجودیکہ ان میں بہت سی مخلوق مثلا سرکش ومعاند لوگ اس کے مستحق نہیں مگر ان پر بھی ایک گونہ رحمت ہے گو دنیا ہی میں ہی سہی، پس جب مری رحمت غیر مستحقین کے لئے بھی عام ہے) تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام تو ( کامل طور پر) ضرور ہی لکھوں گا جو کہ ( اس کے حسب وعدہ مستحق بھی ہیں بوجہ اس کی کہ وہ اطاعت کرتے ہیں چنانچہ) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ( جو منجملہ اعمال قلب سے ہے) اور زکوة دیتے ہیں ( جو کہ اعمال جوارح سے ہے) اور جو کہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں ( جو کہ عقائد میں سے ہے، تو ایسے لوگ تو پہلے سے مستحق رحمت ہیں گو آپ درخواست بھی نہ کرتے اور اب تو آپ درخواست بھی کرتے ہیں ارحمنا واکتب لنا، پس ہم بشارت قبول دیتے ہیں کیونکہ آپ تو ایسے ہیں ہی اور آپ کی قوم میں بھی جو مورد رحمت بننا چاہے وہ ایسے ہی اوصاف اختیار کرے کہ مستحق ہوجائے ) معارف ومسائل یہ سورة اعراف کا انیسواں رکوع ہے، اس کی پہلی آیت میں گوسالہ پرستی کرنے والے اور اس پر قائم رہنے والے بنی اسرائیل کے انجام بد کا ذکر ہے کہ آخرت میں ان کو رب العالمین کے غضب سے سابقہ پڑے گا جس کے بعد کہیں پناہ کی جگہ نہیں اور دنیا میں اس کو ذلت و خواری نصیب ہوگی۔ بعض گناہوں کی کچھ سزا دنیا میں بھی ملتی ہے : جیسے سامری اس کے ساتھیوں کا حال ہے کہ انہوں نے گوسالہ پرستی سے صحیح توبہ نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا میں ہی خوار و ذلیل کردیا کہ اس کو موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ حکم دے دیا کہ وہ سب لوگوں سے الگ رہے نہ وہ کسی کو ہاتھ لگائے نہ کوئی اس کو ہاتھ لگائے، چناچہ وہ عمر بھر اسی طرح جانوروں کے ساتھ پھرتا رہا کوئی انسان اس کے پاس نہ آتا تھا۔ تفسیر قرطبی میں بروایت قتادہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ عذاب مسلط کردیا تھا کہ جب کوئی اس کو ہاتھ لگائے یا وہ کسی کو ہاتھ لگائے تو فورا دونوں کو بخار چڑھ جاتا تھا (قر طبی) اور تفسیر روح البیان میں ہے کہ یہ خاصیت اس کی نسل میں بھی آج تک باقی ہے، اور آخر آیت میں ارشاد فرمایا وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِيْنَ یعنی جو لوگ اللہ پر افتراء کرتے ہیں ان کو ایسی ہی سزا دی جاتی ہے، سفیان بن عینیہ نے فرمایا کہ جو لوگ دین میں بدعت اختیار کرتے ہیں وہ بھی اس افتراء علی اللہ کے مجرم ہو کر اس سزا کے مستحق ہوتے ہیں (مظہری) امام مالک نے اسی آیت سے استدلال کرکے فرمایا کہ دین میں اپنی طرف سے بدعات ایجاد کرنے والوں کی یہی سزا ہے کہ آخرت میں غضب الہی کے مستحق ہوں گے اور دنیا میں ذلت کے (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوا الْعِـجْلَ سَيَنَالُہُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَذِلَّۃٌ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝ ٠ ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِيْنَ۝ ١٥٢ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ عِجْلُ ( بچهڑا) : ولد البقرة لتصوّر عَجَلَتِهَا التي تعدم منه إذا صار ثورا . قال : عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف/ 148] ، وبقرةٌ مُعْجِلٌ: لها عِجْلٌ. العجلۃ بچھڑے کو کہتے ہیں کیونکہ اس میں پھرتی پائی جاتی ہے جو بیل کی عمر تک پہنچنے پر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف/ 148] ایک بچھڑا ( بنالیا وہ ایک جسم تھا : ۔ اور وہ گائے جس کے ساتھ اس کا بچھڑ ہوا سے معجل کہا جاتا ہے ۔ نيل النَّيْلُ : ما يناله الإنسان بيده، نِلْتُهُ أَنَالُهُ نَيْلًا . قال تعالی: لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران/ 92] ، وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة/ 120] ، لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب/ 25] والنَّوْلُ : التّناول . يقال : نِلْتُ كذا أَنُولُ نَوْلًا، وأَنَلْتُهُ : أولیته، وذلک مثل : عطوت کذا : تناولت، وأعطیته : أنلته . ونِلْتُ : أصله نَوِلْتُ علی فعلت، ثم نقل إلى فلت . ويقال : ما کان نَوْلُكَ أن تفعل کذا . أي : ما فيه نَوَال صلاحک، قال الشاعر : جزعت ولیس ذلک بالنّوال قيل : معناه بصواب . وحقیقة النّوال : ما يناله الإنسان من الصلة، وتحقیقه ليس ذلک مما تنال منه مرادا، وقال تعالی: لَنْ يَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَلا دِماؤُها وَلكِنْ يَنالُهُ التَّقْوى مِنْكُمْ [ الحج/ 37] . ( ن ی ل ) النیل ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسان اپنے ہاتھ سے پکڑلیتا ہے ۔ اور یہ نلتہ الالہ نیلا کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران/ 92] تم کبھی نیکی حاصل نہیں کرسکو گے ۔ وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة/ 120] یا دشمنوں سے کوئی چیز لیتے ۔ لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب/ 25] کچھ بھلائی حاصل نہ کرسکے ۔ غضب الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] ، قيل : هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ : الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» . ( غ ض ب ) الغضب انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔ ذلت يقال : الذُّلُّ والقُلُّ ، والذِّلَّةُ والقِلَّةُ ، قال تعالی: تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج/ 44] ، وقال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، وقال : سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف/ 152] ، وذَلَّتِ الدّابة بعد شماس، ذِلًّا، وهي ذَلُولٌ ، أي : ليست بصعبة، قال تعالی: لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة/ 71] بغیر تاء کے ذل اور تار کے ساتھ ذلتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ قل اور قلتہ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج/ 44] اور ان کے مونہوں پر ذلت چھا جائے گی ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور ( آخری کار ) زلت ( اور رسوائی ) اور محتاجی ( اور بےتوانائی ) ان سے چنٹادی گئی ۔ سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف/ 152] پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور ذلت ( نصیب ہوگی ) منہ زوزی کے بعد سواری کا مطیع ہوجانا اور اس قسم کی مطیع اور مئقاد سواری کا ذلول ( صفت فاعلی ) کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة/ 71] کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ۔ نہ تو زمین جوتتا ہو ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] دنا ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) الفری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٢) جنہوں نے بچھڑے کی پوجا کی اور جن لوگوں نے اس میں ان کی پیروی کی، ان پر بہت جلد غضب اور جزیہ کی ذلت مسلط ہوگئی، جھوٹے کردار کے لوگوں کو ہم ایسے ہی سزا دیتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٢ (اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُہُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَذِلَّۃٌ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ط) ۔ غضب سے آخرت کا غضب بھی مراد ہے اور قتل مرتد کی وہ سزا بھی جس کا ذکر ہم سورة البقرۃ کی آیت ٥٤ میں پڑھ آئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(152 ۔ 153) ۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے ان بنی اسرائیل کا حال بیان فرمایا ہے جنہوں نے بچھڑا بنا کر اس کو پوجا تھا کہ ان پر خدا کا غضب نازل ہوا وہ یہ کہ ان لوگوں نے آپس میں ایک کو ایک نے قتل کیا اور دنیا میں بہت ذلیل ہوئے ملک سے نکالے گئے پھر اللہ پاک نے فرمایا جس طرح ان لوگوں پر غضب نازل ہوا اور ذلت نصیب ہوئی اسی طرح اور جھٹلانے والوں کی بھی یہی حال ہم کرتے ہیں۔ ابن عیینہ نے کہا کہ ہر ایک بدعت نکالنے والے کی یہی سزا قیامت تک ہے الفتراء دروغ بندی کو کہتے ہیں تو جو شخص اللہ پر جھوٹ باندھے گا اس پر اللہ کا غضب نازل ہوگا اس کو ذلت نصیب ہوگی خواہ وہ ویسی نہ ہو جیسا بچھڑا پوجنے والوں کی ہوئی اس کے بعد اللہ پاک نے یہ بھی فرما دیا کہ جن لوگوں نے خواہ کسی قسم کا گناہ کیا ہو چھوٹا بڑا یہاں تک کہ شرک اور کفر بھی اگر ایسے لوگوں نے گناہ کے بعد توبہ کی تو اللہ پاک بڑا مہربان اور بخشنے والا ہے اس کی توبہ قبول کرلے گا یہ آیت بہت بڑی بشارت ہے اس بات کی کہ انسان چاہے جس قسم کا گناہ کر کے تو بہ کرے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے وہ توبہ قبول کرلے گا اور سارے گناہ بخش دیگا مسند امام احمد اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے ابوسعید خدری (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں شیطان نے لوگوں کے بہکانے اور طرح طرح کے گناہ ان سے کرانے پر اللہ تعالیٰ کے روبرو قسم کھائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے جاہ و جلال کی قسم کھا کر اس ملعون کو یہ جواب دیا ہے کہ گناہ کر کے جو کوئی توبہ استغفار کریگا میں بھی اس کے گناہوں کے معاف کرنے میں کبھی دریغ نہ کروں گا یہ حدیث آیت کی بشارت کی گویا تفسیر ہے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:152) سینالہم۔ س۔ مستقبل قریب کے لئے ہے۔ ینال مضارع واحد مذکر غائب۔ ہم ضمیر مفعول۔ جمع مذکر غائب۔ عنقریب ان کو آپہنچے گا۔ عنقریب ان کو آلیگا۔ نیل مصدر۔ نال ینال (باب سمع) ۔ المفترین۔ اسم فاعل۔ جمع مذکر۔ افتراء پرداز۔ بہتان باندھنے والے۔ افتراء (افتعال) مصدر۔ فری مادہ۔ افتراء کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے مستعمل ہوتا ہے لیکن اس کا زیادہ تر استعمال فسادی کے معنوں میں ہوتا ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں جھوٹ ۔ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے۔ ومن یشرک باللہ فقد افتری اثما عظیما (4:48) جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا۔ ان انتم الا مفترون (11:50) تم (شرک کرکے خدا ہر) محض بہتان باندھتے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اللہ تعالیٰ کا ان پر غضب یہ وہوا کہ جب تک ان میں سے بعض نے بعض کو قتل نہیں کیا اس وقت تک ان کی توبہ قبول نہ ہوی، نیز دیکھئے سورة بقرہ آیت 54 ( قرطبی)8 ابو قلا بہ یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا قیامت تک ہر مفتری کی یہی سزا ہے امام مالک اور سفیان بن عینیہ نے کہا کے مفترین کے معنی مبتد عین یعنی اہل بدعت کے ہیں اور ہر بدعتی قیامت تک ذلیل و خوار ہوتا رہے گا۔ ( قر طبی، معالم )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 19 ۔ آیات 152 تا 153 ۔ اسرار و معارف : غیر اللہ سے امید وابستہ کرنیوالا ذلت میں مبتلا ہوتا ہے : ایک قانون ارشاد فرمادیا کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش اختیار کی انہیں دنیا بھی اللہ کا غضب اور ذلت پیش آئے گی یعنی ایسے لوگ جو حالات سے گھبرا کر یا جلد بازی میں اللہ کا دروازہ چھوڑ کر کسی دوسری ذات سے امید وابستہ کرلیتے ہیں ۔ جب آگ لینے کے لیے پہنچے تو وادی کہ اس کنارے سے جہاں پورا تختہ ہی روشن ہورہا تھا اور برکات سے بھرا ہوا تھا کہ جہاں کوئی مبارک کام ہو یا مبارک ہستی مقیم ہو وہ جگہ بھی برکات کی حامل ہوتی ہے۔ چناچہ اسی تختہ میں سے ایک درخت سے جو سارے کا سارا روشن ہورہا تھا آواز آرہی تھی کہ اے موسیٰ میں اللہ ہوں جو سب جہانوں کا پالنے والا ہوں۔ وادی میں ذات باری جلوہ افروز تھی کیا ؟ : یہاں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ وہ روشنی جلوہ ذات باری تھا بلکہ وہ نور تو تجلی صفاتی کا کا تھا کہ کلام باری خود صفت باری ہے ارشاد یہ ہورہا تھا کہ یہ کلام جو آپ سن رہے ہیں اور جس کے انوارات سے وادی بقعہ نور بنی ہوئی ہے کرنے والا میں اللہ ہوں۔ اور حکم ہوا کہ اپنے عصا کو ڈال دیجیے آپ نے پھینکا تو وہ اژدہا بن کر پھنکارنے لگا تو موسیٰ (علیہ السلام) جو فزدہ ہو کر پیچھے کو بھاگے کہ بہت بڑا اژدھا تھا آپ نے جان بچانا چاہی اور پیچھے دیکھا تک نہیں کہ دوبارہ آواز آئی کہ موسیٰ ڈریں نہیں واپس آئیں اور آگے بڑھیں۔ آپ تو اللہ کی طرف سے امن دیے گئے ہیں یہ آپ کا معجزہ ہے آپ کی مدد اور نبوت کا ثبوت ہے اسے ہاتھ میں لیجیے عصا بن جائے گا۔ اب اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالیے جب نکالیں گے تو بہت روشن ہوگا اور گھبرنے کی کوئی بات نہیں جب دوبارہ گریبان میں ڈالیں گے تو درست ہوجائے گا۔ دوسرے معجزات کے ساتھ یہ دو عظیم معجزات آپ کی نبوت کی دلیل ہیں آپ فرعون اور اس کے امراء سے بات کیجیے انہیں راہ راست کی طرف بلائیے کہ وہ بہت سخت نافرمان ہیں۔ آپ نے عرض کیا بارالہا مجھ سے تو ان کا ایک قبطی مارا گیا تھا خطرہ یہ ہے کہ بات سننے سے پہلے ہی وہ میرے قتل کا حکم صادر کردے پھر اگر بات ہو اور سوال جواب کرنے پڑیں تو میری زبان میں لکنت ہے جن کہ میرے بھائی ہارون بڑے فصیح ہیں اور خوب کلام کرسکتے ہیں انہیں آپ میرے سات کردیجیے کہ وہ میری قوت بھی ہوں گے اور میری تصدیق بھی کریں گے فرعونیوں سے تو مجھے ڈر ہے کہ وہ میری تکذیب کریں گے تو کوئی ایسا بھی ہو جو ان کے روبرو تصدیق بھی کرے۔ ارشاد ہوا تمہارے بھائی کو تمہاری قوت بازو بنا دیں گے یعنی انہیں بھی نبوت سے سرفراز کر کے ساتھ کردیا اور تمہیں وہ رعب عطا کریں گے کہ فرعونی ہاتھ ڈالنے کی جرات ہی نہ کرسکیں گے نیز آپ معجزات لے کر جائیں یہ بات طے ہے کہ آپ اور آپ کے اطاعت شعار ہی فاتح اور غالب ہوں گے موسیٰ (علیہ السلام) معجزات کے ساتھ نوید فتح لے کر فرعون کی طرف روانہ ہوئے۔ اور جب فرعون کے دربار میں پہنچے دعوت دی اور معجزات کا اظہار فرمایا تو اہل دربار کہنے لگے یہ سب جادو کا کھیل نظر آتا ہے اور ساری بات ایک تراشیدہ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آج تک ہمارے باپ دادا نے کسی نبی یا دین کا نام تک نہیں سنا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ حق اور باطل کا فیصلہ تو پروردگار ہی کے پاس ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ اس کی بارگاہ سے ہدایت کا پیغام کون لایا ہے اور انجام کار کس کو فتح اور آخرت کی کامرانی نصیب ہوگی لیکن یہ ظاہر ہے کہ ظلم کبھی کامیاب نہ ہوگا اور نہ ہی اللہ ظالموں کا بھلا کرے گا اور تم لوگ ظالم ہو لہذا تمہارا انجام واضح ہے۔ فرعون کہنے لگا کہ اے ہامان میں نہیں سمجھتا کہ میرے علاوہ کوئی دوسری ایسی ہستی ہے جس کی پوجا اور اطاعت کی جائے اگر کوئی آسمانوں پہ ہے تو پھر مٹی کو آگ میں پکا کر اس سے ایک بہت بڑی اور بلند وبالا عمارت بناؤ کہ اس سے جھانک کر آسمانوں تک میں دیکھا جاسکے کہ کہیں موسیٰ کا معبود بھی ہے حالانکہ میں یہ جانتا ہوں کہ وہ غلط کہ رہا ہے۔ فرعون کے حکم سے ہامان نے اینٹ ایجاد کی : یعنی اول اینٹ جو تیار کی گئی وہ ہامان نے ایجاد کی۔ اور ایک بلند وبالا عمارت کھڑی کی گئی اور فرعون کو حسرت ہی رہی فرعون کو اپنے لشکروں پہ اور طاقت پہ بڑا گھمنڈ تھا اس نے تکبر کی راہ اختیار کی اور اس کے لشکر بھی زمین پر ناحق اکڑتے پھرتے تھا جیسے انہوں نے یہ سمجھ لیا ہو کہ انہیں پلٹ کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر نہیں ہونا۔ چنانچہ اللہ کی گرفت میں پکڑے گئے فرعون بھی اور اس کے لاؤ لشکر بھی اور پانی میں غرق کر کے تباہ کردیے گئے اے مخاطب طلم کرنے والوں کا انجام دیکھ لے کہ برائی کرتے کرتے وہ جہنم کی طرف بلانے والے داعی اور امام بن گئے۔ لفظ امام : لفظ امام کوئی شرعی منصب نہیں یہ پہلے بھی گزر چکا یہ محض قیادت اور لیڈر شپ کے معنوں میں کتاب میں استعمال ہوا نیک لوگوں کا رہنما بھی امام کہ لایا اور کفار و بدکار کا راہنما یا لیڈر بھی لہذا شیعہ کا منصب امامت محض ایک گھڑی ہوئی بات ہے ہ شرعی منصب ہی نہیں اور فرعونی ایسے امام بنے جو دوزخ کی طرف دعوت دیتے تھے اور روز حشر جن کی مدد کو بھی کوئی نہیں ہوگا یعنی شفاعت سے بھی محروم ہوں گے اور ان کے اعمال بد کے نتیجے میں اس دنیا میں بھی ان پر لعنت مسلط کردی گئی کہ وہ نہ رہیں تو بھی انہیں پھٹکار پڑتی رہے اور روز حشر ان کا بہت برا حال ہوگا۔ ہر برائی بجائے خود آگ ہے : یہاں ثابت ہے کہ ہر برا عمل بجائے خود ایک آگ ہے اور آخرت میں جس طرح نیکی گل و گلزار بن جائے گی ویسے ہی برائی انگاروں کی صورت اختیار کرلے گی۔ اور جب پہلی امتیں اپنی گمراہی کے سبب ہلاک ہوگئیں تو ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرما کر مبعوث فرمایا جس میں بصائیر یعنی عقل سلیم کی رہنمائی کرنے والی باتیں اور صحیح رہنمائی اور اللہ کی رحمت تھی کہ حق بات عقل سلیم کو اپیل کرتی ہے پھر بندہ ایمان قبول کرتا ہے تو یہ ہدایت ہوگی اور پھر اعمال صالح نصیب ہوتے ہیں جو رحمت ہیں اور یہ اہتمام اس لیے فرمایا کہ لوگ نصیحت حاصل کریں اور جب یہ سب ہورہا تھا یا موسیٰ (علیہ السلام) سے بات ہو رہی تھی تو انہیں کتاب عطا ہوئی تو آپ طور پر تشریف نہ رکھتے تھے کہ آپ نے وہ واقعہ دیکھا ہو پھر بر شمار لوگ گزرے اور زمانے بیت گئے یہ باتیں لوگوں کے علوم سے مٹ گئیں اور نہ ہی آپ اہل مدین کے زمانے میں وہاں تھے کہ آپ یہ واقعات پوری صحت کے ساتھ بیان فرماتے۔ یہ تو ہمارا کرم ہے کہ سلسلہ نبوت کو جاری رکھا اور ہدایت کے لیے انبیاء بھیجتے رہے اور اب آپ مبعوث ہوئے اور یہ حقائق بذریعہ وحی آپ تک پہنچے۔ آپ تو طور پر موجود نہ تھے جب موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف ہمکلامی نصیب ہوا آپ پر تو یہ سارے حقائق اللہ کی رحمت سے بذریعہ وحی نازل ہوئے تاکہ ان لوگوں کے پاس آپ مبعوث ہوں جن کے پاس عرصہ دراز سے کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا اور یہ زمانہ اور اہل زمانہ حقائق سے دور اور ہدایت سے محروم ہوچکے ہیں تو آپ کے ارشادات سے نصیحت حاصل کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب اپنے کرتوتوں کے باعث تباہ ہونے لگیں تو کہنے لگیں کہ اے ہمارے پروردگار آپ نے ہمارے پاس بھی تو رسول بھیجا ہوتا تاکہ ہم آپ کی آیات پر عمل پیرا ہوتے اور ایمان والے بندوں میں شامل ہوسکتے۔ مگر اب جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق پہنچا تو ایک نیا نقطہ نکال لائے کہ قرآن ویسے یکبارگی کیوں نہ عطا ہوا جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک ہی بار تورات عطا ہوئی تھی تو کیا جب موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا ہوئی تھی تو لوگوں نے مان لی تھی اور کفر نہ کیا تھا بلکہ اب قرآن کو بھی سن کر کفار کہتے ہیں وہ بھی اور یہ بھی جادو بھری باتیں ہیں اور ہم ان سب باتوں کے ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ آپ ان سے کہیے کہ غرض تو حق کا اتباع کرنے سے ہے اگر بالفرض قرآن حق نہیں ہے تو حق کیا ہے تم پیش کردو کوئی ایسی کتاب لاؤ جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہو اور ان دونوں سے بہتر رہنمائی کرتی ہو تو میں اس کا اتباع کرلوں گا اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو ایسا کر دکھاؤ اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر یہ اللی کی کتاب ہدایت اپنی حقانیت کے ثبوت کے ساتھ موجود ہے تم مان لو۔ اس پر بھی آپ کی بات نہ مانیں تو جا لیجیے کہ یہ لوگ نہ ہدایت پر چلتے ہیں اور نہ ہدایت کے طالب ہیں بلکہ محض اپنی خواہشات نفس کے غلام ہیں اور جو کوئی بھی اللہ کی ہدایت کے بغیر محض اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہوگا اور یہ پکی بات ہے کہ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نصیب نہیں فرماتے۔ اور پھر قرآن حکیم کے مسلسل اتارے جانے کی حکمت ارشاد ہوئی کہ ہم نے قرآن کریم کو بتدریج نازل فرمایا کہ لوگوں کو بار بار تازہ بتازہ کلام الہی نصیب ہوتا رہے اور مسلسل دعوت الی اللہ دی جاتی رہے نیز ہر آیت کو واقعات اور سوالات کے جواب میں نازل فرما کر یہ سہولت پیدا کردی کہ یاد رکھنے میں بھی آسانی ہو ورنہ اللہ قادر ہے تورات کی طرح ایک ہی دفعہ بھی عطا فرما دیتا۔ اور یہ محض اعتراض ہے ورنہ وہ لوگ جو اہل کتاب میں سے ایمان دار تھے اور اپنی کتاب پر ہی ایمان رکھتے تھے جب ان کے سامنے یہ آیات پڑھی گئیں تو انہوں نے فورا کہا کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں کہ یہ حق ہے اور ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے اور ہم تو اس کے نازل ہونے اور آپ کی بعثت سے پہلے ہی اپنی کتابوں میں پیش گوئیاں پڑھ کر یہ خقیقت تسلیم کیے بیٹھے تھے اب جب آپ کی بعثت کی سعادت سے مشرف ہونے کا موقع نصیب ہوگا تو بھلا کیسے نہ مانیں گے ۔ سنت کا اتباع فرض ہے : اور ایسے لوگ جو اس نور کا یعنی کلام باری کا جو ہر طرح کی ظلمت کے مقابلے میں ایک روشن راستہ ہے اتباع کرتے ہیں ایسے ہی لوگ ہر طرح کی کامیابی اور دو عالم کی فلاح کو پا لیتے ہیں اس لیے کہ سنن میں امور دو طرح سے ہیں۔ مفسرین کرام کے مطابق یہ آیت ابو طالب کے بارہ میں نازل ہوئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بہت خواہش تھی انہیں ایمان نصیب ہو مگر خود وہ آمادہ نہ ہوئے۔ صاھب روح المعانی نے اس موضوع پر بحث سے منع فرمایا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طبعی طور پر دکھ پہنچنے کا احتمال ہے۔ اول اتباع نبوت جو شروع آیت میں مذکور ہے کہ ایمان و عمل اور خود قرآن کو اللہ کی کتاب ماننا بھی آپ کی اطاعت اور اتباع پر منحصر ہے لہذا سنت کا اتباع بھی فرض ہوا دوسرے آپ نے جو عقائد ارشاد فرمائے ہیں بلا کم وکاست قبول کرنا اور آپ سے محبت آپ کا ادب و احترام جو اطاعت پر مجبور کردے اور آپ کی منشا کی تکمیل پہ جان لڑا دینا اور اس نور یعنی قرآن کا اتباع جو آپ کے ساتھ نازل ہوا یہ کلید جنت ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش کی ان کی سزا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب استغفار سے فارغ ہوئے تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مشرکین کی سزا کا یہ فیصلہ کیا کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش کی ہے ان کی سزا یہ ہے کہ ان کے قریبی عزیز ان کی گردنیں اڑا دیں۔ اس کی تفصیل ” سورة البقرہ “ کی آیت ٥٤ میں بیان ہوچکی ہے۔ ان پر دنیا میں اللہ کا یہ غضب ہوا کہ اپنے ہی اعزاء و اقرباء کے ہاتھوں مارے گئے۔ جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں انھیں ایسی ہی سزا ہوتی ہے کیونکہ انھوں نے دین اور ثواب کا جھانسہ دے کر ایک دوسرے کو گمراہ کیا تھا۔ اس مقام پر امام رازی (رض) نے امام مالک بن انس (رح) کا قول نقل کیا ہے کہ جو شخص اپنی طرف سے کوئی مسئلہ گھڑتا ہے یا شریعت سازی کرتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھتا ہے۔ یہاں اس سزا کے مستحق جو لوگ بیان کیے گئے ہیں دو قسم کے ہیں۔ ١۔ جو موسیٰ (علیہ السلام) کی کوہ طور سے واپسی سے پہلے فوت ہوگئے انھیں قیامت کو سزا ملے گی۔ ٢۔ جو زندہ تھے انھیں دنیا میں ہی موحّدین کے ہاتھوں سزا دلوا کر معاف کردیا گیا۔ مشرکین کی سزا بیان کرنے کے بعد توبہ کے لیے عام اصول بیان کیا جا رہا ہے کہ بیشک شرک جیسا عظیم گناہ ہی کیوں نہ ہو۔ جو سچے دل کے ساتھ توبہ کریں اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلیں ان کے گناہ معاف کردیے جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَللّٰہُ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ حِےْنَ ےَتُوْبُ اِلَےْہِ مِنْ اَحَدِکُمْ کَانَتْ رَاحِلَتُہُ بِاَرْضِ فُلَاۃٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْہُ وَعَلَےْھَا طَعَامُہُ وَشَرَابُہُ فَاَےِسَ مِنْھَا فَاَتٰی شَجَرَۃً فَاضْطَجَعَ فِیْ ظِلِّھَا قَدْ اَےِسَ مِنْ رَّاحِلَتِہٖ فَبَےْنَمَا ھُوَ کَذَالِکَ اِذْ ہُوَ بِھَا قَآءِمَۃٌ عِنْدَہُ فَاَخَذَ بِخِطَامِھَا ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ اللّٰھُمَّ اَنْتَ عَبْدِیْ وَاَنَا رَبُّکَ اَخْطَاَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ ۔ )[ مسلم ] ” حضرت انس (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی اللہ کا بندہ جب توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کرنے سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی سواری اس کے کھانے پینے کے سامان کے ساتھ کسی بےآب وگیاہ میدان میں گم ہوگئی ہو۔ وہ اس کی تلاش سے مایوس ہو کر ایک درخت کے سائے تلے لیٹ جائے۔ مایوسی کے بعد اچانک اس سواری کو اپنے سامنے کھڑا پائے۔ اس کی لگام تھامتے ہوئے اور انتہائی خوشی سے پکار اٹھے۔ اے اللہ ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا پروردگار ہوں۔ اس بےپناہ خوشی کی وجہ سے بےساختہ اتنی بری بات کہہ دیتا ہے۔ “ مسائل ١۔ مشرک پر اللہ کا غضب ہوتا ہے اور وہ دنیا میں بھی ذلیل ہوتا ہے۔ ٢۔ مشرک اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ ٣۔ توبہ کرنے والے کے اللہ تعالیٰ گناہ معاف کردیتا ہے کیونکہ اللہ بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن مفتری اور اس کی سزا : ١۔ وہ بہت بڑا ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا یا اس کی آیات کو جھٹلایا۔ (الانعام : ٢١) ٢۔ جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا وہ ناکام ہوا۔ (طٰہٰ : ٦١) ٣۔ وہ بڑا ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا تاکہ بغیر علم کے لوگوں کو گمراہ کرے۔ (الانعام : ١٤٥) ٤۔ وہ بڑا ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا یا نبوت کا دعویٰ کیا۔ (الانعام : ٩٣) ٥۔ وہ بہت بڑا ظالم ہے کہ جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا۔ (الکہف : ١٥) ٦۔ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (ھود : ١٨) ٧۔ اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ (التوبۃ : ١٠٩) ٨۔ اللہ ضرور ظالموں کو ہلاک کرے گا۔ (ابراہیم : ١٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب فیصلہ کن بات سامنے آتی ہے اور آخری فیصلہ بہرحال اللہ سبحانہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی بات کو اپنے بندے حضرت موسیٰ کی بات سے متصلا لاتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کی عزت افزائی کا ایک انداز ہے۔ ۔۔۔ اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا۔ یہ حکم بھی ہے او وعدہ بھی ہے۔ بیشک جن لوگوں نے بچھرے کو الہ بنایا۔ عنقریب ان پر غضب آنے والا ہے اور اس دنیا کی زندگی میں وہ ذلت سے رہیں گے۔ اور یہ اللہ کا ایک دائمی اصول اور اس کی سنت ہے کہ جو لوگ برے کام کرتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں تو اللہ ان کی مغفرت کردیتا ہے ، اللہ کو چونکہ علم تھا کہ بچھڑے کے پجاری توبہ نہ کریں گے۔ اس لیے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا گیا کیونکہ اللہ کو علم تھا کہ وہ اپنی روشن درست نہ کریں گے اور اس اصول سے استفادہ نہ کریں گے اور تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہی ہوا۔ بنی اسرائیل ایک کے بعد ایک نافرمانی کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ انہیں بار بار معاف کرتے رہے یہاں تک کہ وہ دائمی غضب کے مستحق ہوئے۔ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِيْنَ ۔ جھوٹ گھڑنے والوں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ قیامت تک جو بھی افتراء باندھیں گے یہ ایک مسلسل سزا ہے جب بھی جرم ہوگا یہی سزا ہوگی۔ چاہے افتراء بنی اسرائیل کی طرف سے ہو یا غیر بنی اسرائیل کی طرف سے ہو۔ اللہ کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے جن لوگوں نے بچھرے کو الہ بنایا ، ان پر اللہ نے ذلت لکھ دی ہے اور وہ ہمیشہ مغضوب علیہ رہیں گے اور غضب کی شکل یہ ہے کہ قیامت تک ان پر ایسی اقوام کو مسلط کردیا جائے گا جو ان کو بدترین عذاب دیتی رہیں گی۔ جب بھی معلوم ہوا کہ یہ لوگ زمین میں سرکشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور ان پڑھ اور پسماندہ لوگوں پر برتری حاصل کر رہے ہیں اور جیسا کہ تلموذ کی زبان میں ایسے ایسے لوگوں کے لیے " گوئم " کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ لوگ اپنی مالی اور پروپیگنڈے کی قوت سے غلط فائدہ لینے لگے یا انہوں نے ایسے نظامہائے حکومت قائم کیے اور ان کے ذریعے سے اپنے منصوبے جاری کرنا شروع کیے یا انہوں نے اللہ کے بندوں کو اپنے گھروں سے نکالنا شروع کردیا اور ان پر مظالم شروع کردیے اور جب کبھی گمراہ حکومتوں نے ان کے ہمرکاب چلنا شروع کردیا جیسا کہ آج کے دور میں ان کی یہ پوزیشن بظاہر نظر آتی ہے۔ گو یہ تمام امور ان کے خلاف اللہ کے مذکورہ فیصلے کے خلاف یا متضاد نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں کے مذکورہ بالا خود اپنے اقدامات کی وجہ یہ دنیا کے لوگوں کے اندر قابل نفرت ہیں اور اس مواد کو جمع کر رہے ہیں جو آخر کار ان کی ہلاکت کا سبب بنے گا۔ اہل فلسطین ان کے ان مظالم کا شکار اس لیے ہیں کہ اہل فلسطین کا کوئی دین نہیں ہے ، اور اہل فلسطین صحیح مسلمان نہیں ہیں۔ یہ لوگ دین اسلام کے علاوہ بعض دوسرے جھنڈوں کے نیچے لڑتے ہیں ، جمع ہوتے ہیں اور متفرق ہوتے ہی۔ یہ لوگ اسلامی نظریہ حیات کے جھنڈے تلے جمع نہیں ہوئے اور یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ ناکام و نامراد ہیں اور اسرائیل کی چھوٹی سی جمعیت اگرچہ بظاہر ترقی پذیر نظر آتی ہے ، لیکن یہ حالات دائماً نہ رہیں یہ ایک عارضی دور ہے ، اور اس میں مسلمانوں سے وہ قوت اور وہ اسلحہ گم ہوگیا ہے جو ان کا واحد ہتھیار ہے۔ وہ واح دنظام ہے ، واحد جھنڈا ہے ، یعنی اسلامی جھنڈا جس کے تحت انہوں نے ہزار سال تک دنیا پر غلبہ حاصل کیا۔ اسی جھنڈے تلے وہ غالب آئے اور اس کے سوا ہمیشہ مغلوب ہوں گے۔ اس وقت امت مسلمہ سکڑنے اور غائب ہونے کے دور سے گزر رہی ہے۔ اور یہ گمشدگی اس زہر کی وجہ سے ہے جو امت مسلمہ کے اندر عالمی یہودیت اور عالمی صلیبیت نے پھیلائی ہے۔ اور یہ عالمی جمہوریت اور صیہونیت اور صلیبیت نے عالم اسلام پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے کہ یہاں کے حالات درست نہ ہوں لیکن یہ حالات ہمیشہ یونہی نہ رہیں گے اس گمشدگی کے بعد امت مسلمہ کو نمود اور ظہور ضرور نصیب ہوگا۔ آخر کار آنے والے مسلمان اپنے اسلام کے ہتھیار کو پائیں گے۔ کون جانتا ہے کہ کب پوری دنیا ہوش کے ناخن لیتی ہے اور یہودی مظالم کے خلاف اٹھتی ہے تاکہ اللہ کا وعدہ پورا ہو اور وہ دنیا میں دوبارہ ذلت کے اس گڑھے میں جا گریں جو اللہ نے ان پر لکھ دیا ہے۔ اگر پوری انسانیت یہودیوں کے خلاف بیدار نہیں ہوتی تو ہمارا یقین کہ امت مسلمہ ضرور بیدار ہوگی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بچھڑے کی پرستش کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا غصہ اور دنیا میں ان لوگوں کی ذلت جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو چھوڑ دیا اور بار گاہ الٰہی سے اپنے اور اپنے بھائی کے لیے مغفرت کا سوال پیش کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا جنہوں نے بچھڑے کی عبادت کی تھی کہ انہیں عنقریب ان کے رب کی طرف سے غصہ پہنچے گا اور دنیا والی زندگی میں ذلت پہنچے گی اس غضب اور ذلت سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں مفسرین کے کئی قول ہیں۔ حضرت ابو العالیہ نے فرمایا کہ غضب سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ حکم ہے جس میں قبولیت توبہ کے لیے ان لوگوں کے قتل کا حکم ہوا اور ذلت سے مراد ہے ان لوگوں کا یہ اقرار کرلینا کہ واقعی ہم نے گمراہی کا کام کیا اور پھر اپنی جانوں کو قتل کے لیے پیش کردینا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ذلت سے وہ حالت اور کیفیت مراد ہے جو ان لوگوں کو اس وقت پیش آئی جبکہ اس بچھڑے کو جلایا گیا اور سمندر میں پھینک دیا گیا جس کی وجہ سے انہوں نے عبادت کی تھی، اور ایک قول یہ ہے کہ ذلت سے وہ مسکنت مراد ہے جو انہیں اور ان کی اولاد کو دنیا میں پیش آتی رہی اور بحالت سفر برسوں زمین میں گھومتے رہے۔ اور عطیہ عوفی نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جو یہودی تھے آیت کریمہ میں ان کا ذکر ہے۔ غضب اور ذلت سے بنی نضیر کا جلا وطن کردینا اور بنی قریظہ کا قتل کیا جانا یہودیوں پر جزیہ مقرر کرنا مراد ہے اور یہ بات اس بنیاد پر کہی جاسکتی ہے کہ عہد رسالت میں جو یہودی تھے وہ اپنے آباء و اجداد کے اعمال سے بیزاری ظاہر نہیں کرتے تھے (وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ ) (اور ہم اسی طرح افتراء کرنے والوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں) ۔ اس سے افتراء علی اللہ مراد ہے۔ سامری اور اس کے ساتھیوں نے بچھڑے کے بارے میں جو یہ کہا تھا کہ (ھٰذَآ اِلٰھُکُمْ وَ اِلٰہُ مُوْسٰی) (یہ تمہارا معبود ہے اور موسیٰ کا بھی معبود ہے) یہ بہت بڑا افتراء ہے اس کی سزا سامری کو بھی دی گئی اور ان لوگوں کو بھی دی گئی جو اس کے ساتھی تھے۔ حضرت سفیان بن عیینہ نے فرمایا کہ ہر صاحب بد عت ذلیل ہے۔ یہ فرما کر انہوں نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ (مطلب یہ ہے کہ دین خداوندی میں جو شخص بدعت نکالے گا وہ دیر سویر ذلیل ہوگا۔ دنیا میں اس کا ظہور نہ ہوا تو آخرت میں ضرور ہی ذلیل ہوگا۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

146: اس سے پہلے “ قُلْنَا ” محذوف ہے۔ کیونکہ یہ واقعہ گذر چکا ہے اور اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو گوسالہ پرستی پر قائم رہے اور توبہ نہ کی۔ “ وَ الَّذِیْنَ عَمِلُوْا السَّیِّئَاتِ الخ ” اور جو لوگ گناہ کرتے رہے مگر بعد میں توبہ کرلی اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کیا ایسے لوگوں کے اللہ تعالیٰ تمام گذشتہ گناہ معاف فرما دے گا۔ یہ قرینہ ہے کہ پہلی وعید ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے گوسالہ پرستی سے توبہ نہیں کی تھی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

152 بلاشبہ جو لگ گئو سالہ پرستی کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں نیح بچھڑے کو معبود بنایا ہے ان کو ان کے پروردگار کی جانب سے غضب پہنچے گا اور اسی دنیوی زندگی میں ذلت حاصل ہوگی اور ہم اسی طرح افتراء پردازوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔ یعنی اگر ان لوگوں نے توبہ نہ کی تو ان پر ہمارا غضب پڑے گا اور ان پر ذلت و رسوائی نازل ہوگی اور ایسا ہونا کچھ ان کی خصوصیات نہیں بلکہ ہم اسی طرح افترا پردازوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔