Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 153

سورة الأعراف

وَ الَّذِیۡنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِہَا وَ اٰمَنُوۡۤا ۫ اِنَّ رَبَّکَ مِنۡۢ بَعۡدِہَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۵۳﴾

But those who committed misdeeds and then repented after them and believed - indeed your Lord, thereafter, is Forgiving and Merciful.

اور جن لوگوں نے گناہ کے کام کئے پھروہ ان کے بعد توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں تو تمہارا رب اس توبہ کے بعد گناہ معاف کر دینے والا رحمت کرنے والا ہے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ عَمِلُواْ السَّيِّيَاتِ ثُمَّ تَابُواْ مِن بَعْدِهَا وَامَنُواْ إِنَّ رَبَّكَ ... But those who committed evil deeds and then repented afterwards and believed, verily, your Lord, (O Muhammad, Messenger of Repentance and Prophet of Mercy), ... مِن بَعْدِهَا ... after that, after committing that evil action, ... لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ is indeed Oft-Forgiving, Most Merciful. Ibn Abi Hatim reported that Abdullah bin Mas`ud was asked about a man committing fornication with a woman and then marrying her, and Ibn Mas`ud recited this Ayah, وَالَّذِينَ عَمِلُواْ السَّيِّيَاتِ ثُمَّ تَابُواْ مِن بَعْدِهَا وَامَنُواْ إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ But those who committed evil deeds and then repented afterwards and believed, verily, your Lord after (all) that is indeed Oft-Forgiving, Most Merciful. Abdullah recited this Ayah ten times, neither allowing nor disallowing it.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

153۔ 1 جنہوں نے توبہ کرلی ان کے لئے اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ معلوم ہوا کہ توبہ سے ہر گناہ معاف ہوجاتا ہے بشرطیکہ خالص توبہ ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥٠] بنی اسرائیل کی اس طرح توبہ کے بعد اب انہیں اس جرم کا آخرت میں عذاب نہیں ہوگا۔ بنی اسرائیل کے ان مشرکوں کے لیے توبہ کی یہ اس قدر مشکل شرط اس لیے عائد کی گئی تھی کہ انہوں نے اس جرم کا ارتکاب ایمان لانے کے بعد انبیاء (علیہم السلام) کی موجودگی میں اور ان کے روکنے کے باوجود کیا تھا ورنہ عام حالات میں مشرکوں کے لیے صرف سچے دل سے توبہ ہی کافی ہے اور اگر وہ سچے دل سے توبہ کرلیں تو انہیں اللہ سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ ان کا گناہ معاف فرما دے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ عَمِلُوا السَّيِّاٰتِ ۔۔ : معلوم ہوا خالص توبہ کے بعد ایمان و اصلاح کے ساتھ زندگی گزارنے سے ہر گناہ معاف ہوجاتا ہے، وہ چھوٹا ہو یا بڑا، جس توبہ کے بعد عمل کی اصلاح نہ ہو اس کا اعتبار نہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ ( ١٦٠) ، آل عمران (٨٩) اور سورة نحل ( ١١٩) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The verse 153 speaks of the people who repented to Allah for their sin after the admonitions of their Prophet, and fulfilled the formidable condition of killing each other for their forgiveness. They killed each other as was stipulated in the command of Allah for their forgiveness by Allah. The Prophet Musa (علیہ السلام) called them to him and informed them that Allah had accepted their repentance. The people killed in this combat were awarded martyrdom while those who survived were forgiven by Allah. This implies that those who get themselves involved in sinful acts, if repent to Allah and correct their belief, Allah forgives them in His mercy with no regard to the gravity of the act. It is, therefore wise to turn to Allah in repentance instantly after every sinful act.&

دوسری آیت میں ان لوگوں کا حال مذکور ہے جنہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تنبیہ کے بعد اپنے اس جرم سے توبہ کرلی اور توبہ کے لئے جو کڑی شرط اللہ تعالیٰ کی طرف سے لگائی گئی تھی کہ یہ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں تب ان کی توبہ قبول ہوگئی، یہ لوگ حکم بجا لائے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے بحکم خداوندی ان کو بلایا کہ تم سب کی توبہ قبول ہوگئی، اس قتل عام میں جو لوگ مارے گئے وہ شہید ہوئے جو باقی رہے ان کی مغفرت ہوگئی، اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ جو لوگ برے اعمال کے مرتکب ہوں، خواہ کیسے ہی بڑے گناہ کفر و معصیت کے ہوں اگر وہ اس کے بعد توبہ کرلیں اور ایمان کو درست کرلیں یعنی مقتضائے ایمان کے مطابق اپنے اعمال کی اصلاح کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی رحمت سے معاف فرمادیں گے، اس لئے انسان کو چاہئے کہ جب کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو فورا توبہ کی طرف رجوع کرے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ عَمِلُوا السَّيِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِہَا وَاٰمَنُوْٓا۝ ٠ ۡاِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِہَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ١٥٣ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٣) اور جو لوگ شرک اور دیگرنافرمانیوں کے بعد توبہ کرکے توحید اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئے، اے موسیٰ (علیہ السلام) یا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توبہ و ایمان کے بعد آپ کا پروردگار گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٣ (وَالَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْم بَعْدِہَا وَاٰمَنُوْٓاز اِنَّ رَبَّکَ مِنْم بَعْدِہَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) وہ لوگ جن سے اس غلطی کا ارتکاب تو ہوا مگر انہوں نے اس سے توبہ کر کے اپنے ایمان کی تجدید کرلی ‘ ایسے تمام لوگوں کا معاملہ اس اللہ کے سپرد ہے جو بخشنے والا اور انسانوں پر رحم کرنے والا ہے۔ البتہ جو لوگ اس جرم پر اڑے رہے ان پر آخرت سے پہلے دنیا کی زندگی میں بھی اللہ کا غضب مسلط ہوا۔ اس کی تفصیل سورة البقرۃ کی آیت ٥٤ کے تحت گزر چکی ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے ہر قبیلہ کے مؤمنین مخلصین کو حکم دیا کہ وہ اپنے اپنے قبیلہ کے ان مجرمین کو قتل کردیں جنہوں نے گوسالہ پرستی کا ارتکاب کیا۔ صرف وہ لوگ قتل سے بچے جنہوں نے توبہ کرلی تھی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سورة المائدۃ میں آیات محاربہ (آیات ٣٣ اور ٣٤) میں ہم نے پڑھا کہ اگر ڈاکو ‘ راہزن وغیرہ ملک میں فساد مچا رہے ہوں ‘ لیکن متعلقہ حکام کے قابو میں آنے سے پہلے وہ توبہ کرلیں تو ایسی صورت میں ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ ہوسکتا ہے بلکہ انہیں معاف بھی کیا جاسکتا ہے ‘ لیکن اگر انہیں اسی بغاوت کی کیفیت میں گرفتار کرلیا جائے تو پھر ان کی سزا بہت سخت ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:153) من بعدھا۔ ای من بعد السیئات (من بعد التوبۃ) ھا ضمیر سیئات کے لئے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرمانے والا ہے : (وَ الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ) (الآیۃ) (اور جن لوگوں نے گناہ کے کام کیے (جن میں گؤ سالہ پرستی بھی ہے) پھر ان گناہوں کے بعد توبہ کرلی اور کفر کو چھوڑ کر ایمان لے آئے تو آپ کا رب اس توبہ کے بعد ان کو معاف فرمانے والا اور ان پر رحم فرمانے والا ہے) ۔ واقعی پختہ توبہ کرنے کے بعد ان کی مغفرت ہوگئی۔ کفر و شرک کے بعد اسلام قبول کرنے سے پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔ اِنَّ الْاِسْلَامَ یَھْدِمُ مَاکَانَ قَبْلَہٗ (بےشک اسلام لانا پہلے کے تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے) (رواہ مسلم عن عمرو بن العاص (رض) اوپر گو بنی اسرائیل کا ذکر ہو رہا ہے لیکن آیت کے عمومی الفاظ میں ہمیشہ کے لیے توبہ کی قبولیت کا اعلان فرما دیا اور یہ بتادیا کہ اللہ غفور اور رحیم ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

153 اور جو لوگ برائیوں اور بداعمالیوں کے مرتکب ہوئے اور پھر برائیاں کرنے کے بعد یہ لوگ توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں یعنی اپنے عقائد درست رکھیں تو یقیناً آپ کا پروردگار اس توبہ کے بعد معاف کردینے والا نہایت مہربانی کرنے والا ہے۔ یعنی اگر گئوسالہ پرستی کرنے والے بھی توبہ کرلیں گے تو ان کو بھی معاف کردیا جائے گا تفصیل پہلے پارے میں گزر چکی ہے۔