Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 154

سورة الأعراف

وَ لَمَّا سَکَتَ عَنۡ مُّوۡسَی الۡغَضَبُ اَخَذَ الۡاَلۡوَاحَ ۚ ۖ وَ فِیۡ نُسۡخَتِہَا ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلَّذِیۡنَ ہُمۡ لِرَبِّہِمۡ یَرۡہَبُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾

And when the anger subsided in Moses, he took up the tablets; and in their inscription was guidance and mercy for those who are fearful of their Lord.

اور جب موسیٰ ( علیہ السلام ) کا غصہ فرو ہوا تو ان تختیوں کو اٹھا لیا اور ان کے مضامین میں ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب سے ڈرتے تھے ہدایت اور رحمت تھی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Musa picked up the Tablets when His Anger subsided Allah said next, وَلَمَّا سَكَتَ ... And when calmed (and subsided), ... عَن مُّوسَى الْغَضَبُ ... the anger of Musa (with his people), ... أَخَذَ الاَلْوَاحَ ... he took up the Tablets, which he had thrown out of jealousy for Allah and anger for His sake, because of his people worshipping the calf, ... وَفِي نُسْخَتِهَا هُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ هُمْ لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُونَ and in their inscription was guidance and mercy for those who fear their Lord. Several scholars of Tafsir said that when Musa threw the Tablets on the ground they were shattered and he collected the pieces afterwards. Musa found in its inscription guidance and mercy, but the specific details of the Law was lost, so they said. They also claimed that the shattered pieces of the Tablets still remained in the treasury safes of some Israelite kings until the Islamic State came into existence. Only Allah knows if these statements are true.

حضرت موسیٰ کو اپنی قوم پر جو غصہ تھا جب وہ جاتا رہا تو سخت غصے کی حالت میں جن تختیوں کو انہوں نے زمین پر ڈال دیا تھا اب اٹھا لیں ۔ یہ غصہ صرف اللہ کی راہ میں تھا کیونکہ آپ کی قوم نے بچھڑے کی پوجا کی تھی ۔ ان تختیوں میں ہدایت و رحمت تھی ۔ کہتے ہیں کہ جب کلیم اللہ نے تختیاں زمین پر ڈال دیں تو وہ ٹوٹ گئیں پھر انہیں جمع کیا ۔ تو ان میں رہبری اور رحم پایا اور تفصیل اٹھا لی گئی تھی ۔ کہتے ہیں کہ ان تختیوں کے ٹکڑے شاہی خزانوں میں بنی اسرائیل کے پاس دولت اسلامیہ کے ابتدائی زمانے تک محفوظ رہے واللہ اعلم ۔ اس کی صحت کا کوئی پتہ نہیں حالانکہ یہ بات مشہور ہے کہ وہ تختیاں جنتی جوہر کی تھیں اور اس آیت میں ہے کہ پھر حضرت موسیٰ نے خود ہی انہیں اٹھا لیا اور ان میں رحمت و ہدایت پائی چونکہ رجت متضمن ہے خشوع و خضوع کو اس لئے اسے لام سے متعدی کیا ۔ قتادہ کہتے ہیں ان میں آپ نے لکھا دیکھا کہ ایک امت تمام امتوں سے بہتر ہوگی جو لوگوں کے لئے قائم کی جائے گی جو بھلی باتوں کا حکم کرے گی اور برائیوں سے روکے گی تو حضرت موسیٰ نے دعا کی کہ اے اللہ میری امت کو یہی امت بنا دے جواب ملا کہ یہ امت امت احمد ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پھر پڑھا کہ ایک امت ہوگی جو دنیا میں سب سے آخر آئے گی اور جنت میں سب سے پہلے جائے گی تو بھی آپ نے یہی درخواست کی اور یہی جواب پایا پھر پڑھا کہ ایک امت ہوگی جن کی کتاب ان کے سینوں میں ہوگی جس کی وہ تلاوت کریں گے یعنی حفظ کریں گے اور دوسرے لوگ دیکھ کر پڑھتے ہیں ۔ اگر ان کی کتابیں اٹھ جائیں تو علم جاتا رہے کیونکہ انہیں حفظ نہیں ۔ اس طرح کا حافظہ اسی امت کیلئے مخصوص ہے کسی اور امت کو نہیں ملا ۔ اس پر بھی آپ نے یہی درخواست کی اور یہی جواب پایا ۔ پھر دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا ہے کہ ایک امت ہوگی جو اگلی پچھلی تمام کتابوں پر ایمان لائے گی اور گمراہوں سے جہاد کرے گی یہاں تک کہ کانے دجال سے جہاد کرے گی ۔ اس پر بھی آپ نے یہی دعا کی اور یہی جواب پایا ۔ پھر ان تختیوں میں آپ نے پڑھا کہ ایک امت ہوگی جو خود بھی شفاعت کرے گی اور ان کی شفاعت دوسرے بھی کریں گے آپ نے پھر یہی دعا کی کہ اے اللہ یہ مرتبہ میری امت کو دے ۔ جواب ملا یہ امت امت احمد ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے اس پر آپ نے تختیاں لے لیں اور کہنے لگے اے اللہ مجھے امت احمد میں کر دے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

154۔ 1 یہاں نسخہ سے مراد یا تو وہ اصل الواح ہیں جن پر تورات لکھی گئی تھی یا اس سے مراد وہ دوسرا نسخہ ہے جو تختیوں کو زور سے پھنکنے کی وجہ سے ٹوٹ جانے کے بعد اس سے نقل کر کے تیار کیا گیا تھا تاہم بات پہلی ہی لگتی ہے۔ کیونکہ آگے چل کر آتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان تختیوں کو اٹھا لیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تختیاں ٹوٹی نہیں تھیں۔ بہرحال اس کا مرادی مفہوم ' مضامین ' ہے جو ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے۔ 154۔ 2 تورات کو بھی قرآن کریم کی طرح، انہیں لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت قرار دیا گیا ہے، جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں، کیونکہ اصل فائدہ آسمانی کتابوں سے ایسے ہی لوگوں کو ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ تو چونکہ اپنے کانوں کو حق کے سننے سے، آنکھوں کو حق کے دیکھنے سے بند کئے ہوئے ہوتے ہیں، اس چشمہ فیض سے وہ بالعموم محروم ہی رہتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥١] تورات کی اشاعت :۔ اپنے اور اپنے بھائی کے حق میں دعائے مغفرت و رحمت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے گؤ سالہ پرستوں کے حق میں اپنا فیصلہ بتلا دیا۔ اتنی دیر میں سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرو ہوچکا تو آپ نے وہ تختیاں زمین سے اٹھائیں۔ پھر ان تختیوں کی مختلف قبائل کے لیے نقول تیار کرائی گئیں۔ ان میں اگرچہ زندگی کے لیے رہنمائی تو موجود تھی اور اس لحاظ سے یہ اللہ کی رحمت بھی تھی مگر یہ رہنمائی تو اسی شخص کو سود مند ہوسکتی ہے جو یہ سمجھتا ہو کہ یہ واقعی اللہ کی طرف سے ہماری رہنمائی کرتی ہے اور اللہ سے ڈرتے ہوئے ان پر عمل بھی کرے مگر جو لوگ خود ہی ہدایت کے طالب نہ ہوں انہیں ان سے ہدایت نہیں ملے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ : ” سَكَتَ “ کا لفظی معنی ” خاموش ہونا “ ہے۔ یہ ایک پر لطف استعارہ ہے، گویا یہاں غصے کو ایسے آدمی سے تشبیہ دی ہے جو مسلسل موسیٰ (علیہ السلام) کو بھڑکا رہا تھا، جب وہ انھیں بھڑکانے سے خاموش ہوگیا تو موسیٰ (علیہ السلام) بھی ٹھنڈے پڑگئے۔ قرآن مجید میں جو لطف یہاں ” سَكَتَ “ کا لفظ دے رہا ہے کوئی دوسرا لفظ، مثلاً ” سَکَنَ “ (ساکن ہوگیا) وغیرہ کبھی یہ لطف نہ دیتا۔ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ : غصہ ٹھنڈا ہونے پر موسیٰ (علیہ السلام) نے وہ تختیاں اٹھائیں جو اگرچہ گرنے کی وجہ سے کچھ ٹوٹ گئی تھیں، جیسا کہ اس سے پہلے آیت (١٥٠) کے حاشیہ (٣) میں صحیح حدیث سے نقل ہوا، مگر اس آیت سے معلوم ہوا کہ وہ ٹوٹنا معمولی تھا، ایسا نہ تھا کہ تختیاں اٹھائی نہ جا سکتیں، یا انھیں پڑھنا اور ان سے فائدہ اٹھانا ممکن نہ ہوتا۔ وَفِيْ نُسْخَتِهَا : ” نُسْخَۃٌ“ ” فُعْلَۃٌ“ کے وزن پر مفعول کے معنی میں ہے۔ ” نَسَخَ یَنْسَخُ (ف) “ کے معنی اگرچہ پہلے حکم کو دوسرے حکم کے ساتھ ختم کرنے کے بھی آتے ہیں، مگر اس کا معنی ” لکھنا “ بھی آتا ہے۔ ” اِسْتَنْسَخَ “ بھی اسی معنی میں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) [ الجاثیۃ : ٢٩ ] ” بیشک ہم لکھواتے جاتے تھے جو تم عمل کرتے تھے۔ “ ” نُسْخَۃٌ“ اس اصل کو بھی کہتے ہیں جس سے نقل کیا جائے اور نقل شدہ کو بھی ” نُسْخَۃٌ“ کہا جاتا ہے۔ لِّلَّذِيْنَ هُمْ لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُوْنَ : آسمانی کتابوں سے فائدہ اور ہدایت انھی کو حاصل ہوتی ہے جو صرف اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The verse 154 describes that the Prophet Musa (علیہ السلام) lifted up the tablets of the Torah which contained guidance and blessing for those who feared Allah. The Arabic word: نُسخَہ &Nuskha& rendered as contents signifies a writing copied from a book or other writings. There are certain reports that inform us that the tablets had broken at the time the Prophet Musa (علیہ السلام) had put them away quickly. This time Allah gave him the Torah written on some other material.

تیسری آیت میں اس کا بیان ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرو ہوا تو تورات کی تختیاں جو جلدی سے رکھ دی تھیں پھر اٹھالیں، اور اس کے نسخہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت تھی۔ لفظ نسخہ اس تحریر کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی کتاب وغیرہ سے نقل کی جائے، بعض روایات میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تورات کی تختیاں جلدی سے رکھیں تو وہ ٹوٹ گئی تھیں، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو کسی دوسری چیز میں لکھا ہوا عطا فرمایا، اس کو نسخہ کہا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ۝ ٠ ۚ ۖ وَفِيْ نُسْخَتِہَا ہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلَّذِيْنَ ہُمْ لِرَبِّہِمْ يَرْہَبُوْنَ۝ ١٥٤ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ سكت السُّكُوتُ مختصّ بترک الکلام، ورجل سِكِّيتٌ ، وسَاكُوتٌ: كثير السّكوت، والسَّكْتَةُ والسُّكَاتُ : ما يعتري من مرض، والسَّكْتُ يختصّ بسکون النّفس في الغناء، والسَّكتَاتُ في الصلاة : السّكوت في حال الافتتاح، وبعد الفراغ، والسُّكَيْتُ : الذي يجيء آخر الحلبة، ولمّا کان السّكوت ضربا من السّكون استعیر له في قوله : وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُوسَى الْغَضَبُ [ الأعراف/ 154] ( س ک ت ) السکوت ( ن ) اسکے اصل معنی تو ترک کلام یعنی خاموش ہونے کے ہیں ۔ اور بہت زیادہ چپ رہنے والے آدمی کو رجل سکیت و ساکوت کہا جاتا ہے اور سکتہ یا سکات مرض سکتہ کو کہتے ہیں اور موسیقی میں سکت کا لفظ سکون نفس کے ساتھ مخصوص ہے اور افتتاح صلوۃ کی حالت اور قرات سے فارغ ہونے کے بعد سکوت کرنے کو سکتات فی الصلوت کہا جاتا ہے ۔ السکیت دوڑ میں سب سے آخر آنے والا گھوڑا پھر چونکہ سکوت میں ایک گونہ سکون پایا جاتا ہے اس لئے آیت : ۔ وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُوسَى الْغَضَبُ [ الأعراف/ 154] اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرو ہوا ۔ میں بطور استعارہ غصے کے فرو ہوجانے کے لئے سکت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ غضب الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] ، قيل : هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ : الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» . ( غ ض ب ) الغضب انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔ ( نسخة) ، اسم جامد بمعنی الألواح لأنها نسخت من اللوح المحفوظ في نسخة ثانية منه ... أو هو اسم مشتقّ بمعنی المنسوخ أي المکتوب فيها، فهي فعلة بضمّ فسکون بمعنی مفعول . هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) رهب الرَّهْبَةُ والرُّهْبُ : مخافة مع تحرّز و اضطراب، قال : لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] ، وقال : جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص/ 32] ، وقرئ : مِنَ الرَّهْبِ ، أي : الفزع . قال مقاتل : خرجت ألتمس تفسیر الرّهب، فلقیت أعرابيّة وأنا آكل، فقالت : يا عبد الله، تصدّق عليّ ، فملأت كفّي لأدفع إليها، فقالت : هاهنا في رَهْبِي «5» ، أي : كمّي . والأوّل أصحّ. قال تعالی: وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء/ 90] ، وقال : تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] ، أي : حملوهم علی أن يَرْهَبُوا، وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [ البقرة/ 40] ، أي : فخافون، والتَّرَهُّبُ : التّعبّد، وهو استعمال الرّهبة، والرَّهْبَانِيّةُ : غلوّ في تحمّل التّعبّد، من فرط الرّهبة . قال : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید/ 27] ، والرُّهْبَانُ يكون واحدا، وجمعا، فمن جعله واحدا جمعه علی رَهَابِينَ ، ورَهَابِنَةٌ بالجمع أليق . والْإِرْهَابُ : فزع الإبل، وإنما هو من : أَرْهَبْتُ. ومنه : الرَّهْبُ «1» من الإبل، وقالت العرب : رَهَبُوتٌ خير من رحموت «2» . ( ر ھ ب ) الرھب والرھبۃ ایسے خوف کو کہتے ہیں جس میں احتیاط اور اضطراب بھی شامل ہو قرآن میں : ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] تمہاری ہیبت تو ( ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے بڑھکر ہے جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص/ 32] اور دفع ) خوف کے لئے اپنے بازو سکیڑ لو ) ۔ اس میں ایک قرآت رھب بضمہ الراء بھی ہے ۔ جس کے معنی فزع یعنی گھبراہٹ کے ہیں متقاتل کہتے ہیں کہ رھب کی تفسیر معلوم کرنے کی غرض سے نکلا دریں اثنا کہ میں کھانا کھا رہا تھا ایک اعرابی عورت آئی ۔ اور اس نے کہا اسے اللہ کے بندے مجھے کچھ خیرات دیجئے جب میں لپ بھر کر اسے دینے لگا تو کہنے لگے یہاں میری آستین میں ڈال دیجئے ( تو میں سمجھ گیا کہ آیت میں بھی ( ھب بمعنی آستین ہے ) لیکن پہلے معنی یعنی گھبراہٹ کے زیادہ صحیح ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء/ 90] ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے خوف سے ہمیں پکارتے رہتے ہیں ) تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ [ الأنفال/ 60] اس سے تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر دھاک بٹھائے رکھو گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] اور ان کو دہشت میں ڈال دیا ۔ میں استر ھاب کے معنی دہشت زدہ کرنے کے ہیں ۔ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [ البقرة/ 40] اور مجھ سے ہی ڈرو ۔ اور ترھب ( تفعیل کے معنی تعبد یعنی راہب بننے اور عبادت ہیں خوف سے کام لینے کے ہیں اور فرط خوف سے عبادت گذاری میں غلو کرنے رھبانیۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید/ 27] اور رہبانیت ( لذت دنیا کا چوڑ بیٹھنا جو انہوں نے از خود ایجاد کی تھی ۔ اور رھبان ( صومعہ لوگ واحد بھی ہوسکتا ہے اور جمع بھی جو اس کو واحد دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی جمع رھا بین آتی ہے لیکن اس کی جمع رھا بتۃ بنانا زیادہ مناسب ہے الا رھاب ( افعال ) کے اصل معنی اونٹوں کو خوف زدہ کرنے کے ہیں یہ ارھبت ( فعال کا مصدر ہے اور اسی سے زھب ہے جس کے معنی لاغر اونٹنی ( یا شتر نر قوی کلاں جثہ ) کے میں مشہور محاورہ ہے : ۔ کہ رحم سے خوف بہتر ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٤) جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ چلا گیا تو ان بقیہ تختیوں میں یا ان دوتختیوں کی بجائے جو اور تختیاں دی گئیں ان لوگوں کے لیے جو ڈرتے تھے گمراہی سے ہدایت اور عذاب سے رحمت تھی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

جب موسیٰ (علیہ السلام) کا سارا غصہ ٹھنڈا ہوگیا تو الواح توریت جو غصہ کی حالت میں زمین پر پھینک دی تھیں وہ پھر اٹھائیں اکثر مفسرین کے قول کے مطابق جس وقت ہاتھ سے لوحیں ڈال دی تھیں تو ٹوٹ گئی تھیں کچھ حصے اس کے جاتے رہے اور باقی حصہ جو رہ گیا تھا اس میں ہدایت اور رحمت پائی مگر اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ لوح ٹوٹ گئی تھی اور بعضوں کا یہ گمان ہے کہ اس لوح کے ریزے بنی اسرائیل کے بادشاہوں کے خزانہ میں دولت اسلامی تک موجود رہے اس کا ثبوت بھی کوئی پکا نہیں ملتا خدا جانے یہ بات کہاں تک صحیح ہے بہر حال اللہ نے فرمایا کہ لوح جب انہوں نے اٹھائی تو اس میں ہدایت اور خدا کی رحمتیں پائیں جن سے وہی لوگ فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو اپنے خدا سے ڈرتے ہیں قتادہ کا قول ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اے رب میں اس لوح میں دیکھتا ہوں کہ ایک امت ساری امتوں سے بہتر ہوگی وہ تیرے حکم کو بجالاوے گی اور جن باتوں سے تو نے منع کیا اس سے وہ باز رہے گی اے اللہ وہ امت میری ہی امت بنا فرمایا کہ وہ امت امت محمدیہ ہے پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ بات بھی میں لوح میں پاتا ہوں کہ ایک امت آخر میں سابقین ہوگی کہ دنیا میں سب امتوں کے بعد ہوگی اور جب میں ساری امتوں سے پہلے داخل ہوگی یا اللہ وہ میری ہی امت ہو فرمایا کہ یہ امت احمد ہے پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ بھی لوح میں میں دیکھتا ہوں کہ ایک امت وہ ہے جس کی کتاب اس کے سینے میں ہوگی اور وہ زبانی اس کو پڑھا کرے گی اور پہلی امتیں اپنی کتاب دیکھ کر پڑہتی تھیں یہاں تک کہ جب وہ کتاب اٹھائی گئی تو کچھ انہیں یاد تک نہیں تو اے اللہ وہ امت میری امت ہو فرمایا کہ یہ امت احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ یا اللہ میں لوح میں یہ بھی پاتا ہوں کہ ایک وہ امت ہے جو ساری آسمانی کتابوں پر ایمان لائے گی اور گمراہوں سے جنگ کرے گی یہاں تک کہ دجال سے لڑے گی یا اللہ وہ میری ہی امت ہو فرمایا کہ وہ امت احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے پھر سے آپ (علیہ السلام) نے یہ بات کہی کہ یا اللہ ایک امت وہ ہے جو اپنا صدقہ آپ ہی کھا کر ثواب حاصل کرے گی پہلی امتوں میں یہ دستور تھا کہ صدقہ جب قبول ہوتا تھا کہ اللہ پاک ایک آگ بھیج دیتا تھا اور وہ اس کو کھا جاتی تھی اور اگر صدقہ نامقبول ہوتا تھا تو جوں کا توں پڑا رہتا تھا درندے اور پرندے اس کو کھا جاتے تھے اس امت میں قاعدہ ہے کہ مالدار کا صدقہ محتاجوں کو دلوایا جاتا ہے گویا اسی کا خلاصہ ان تختیوں میں لکھا ہوا تھا پھر مو سے (علیہ السلام) نے کہا یا اللہ وہ میری امت کر فرمایا کر یہ امت احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اس کے بعد پھر موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا کہ اے رب میں لوح میں ایک اور امت دیکھتا ہوں کہ اگر وہ فقط نیکی کا ارادہ کرے گی تو اس کے واسطے ایک نیکی لکھ دی جاوے گی اور اگر وہ ارادہ کے بعد عمل میں بھی لادیگی تو دس نیکیاں بلکہ سات سونیکیاں تک لکھی جاویں گی یا اللہ وہ میری ہی امت کر فرمایا کہ وہ امت احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے رب ایک امت اور اس لوح میں پاتا ہوں کہ آخرت میں ان کو کوئی شفیع بھی ہوگا اور ان کی شفاعت قبول بھی ہوگی یا اللہ وہ میری ہی امت ہو فرمایا کہ وہ بھی محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہے قتادہ جو اس قول کے قائل ہیں کہتے ہیں کہ یہ بات ہم سے ذکر کی گئی کہ آخر موسیٰ (علیہ السلام) یہ بات کہی کہ یا اللہ مجھے بھی احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت بنا دے یہ قتادہ بن وعامہ ثقہ تابعی ہیں صحیح بخاری میں ان سے روایت ہے۔ یہ قتادہ قدیم مفسروں میں مشہور ہیں اور ان کا قول تفسیر کے باب میں یہت معتبر ہے آیت کنتم خیر امۃ سے اور ترمذی ابن ماجہ وغیرہ میں بھربن حکیم کی جو حدیث ہے اس سے قتادہ کے اس قول کی پوری تائید ہوتی ہے۔ بھر بن حکیم کی اس حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ امت محمدیہ پچھلی ستر امتوں کے پورا کرنے والی امت ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ امت سب پچھلی امتوں سے بہتر ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے بخاری وغیرہ کی روایتوں کے حوالہ سے سورة بقر میں گذر چکا ہے کہ جب پچھلی امت کے لوگ اپنے انبیاء کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو جھٹلادیں گے اور یہ کہویں گے کہ یا اللہ ہم کو کسی نبی نے تیرا حکم نہیں پہنچایا تو امت محمدیہ کی یہ گواہی اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش ہوگی کہ یا اللہ تو نے ہمارے نبی آخر الزمان پر جو دنیا میں قرآن اتارا تھا اس میں پہلے انبیاء کا اور پہلی امتوں کا سب ذکر ہے اس واسطے ہم تیرے کلام اور تیرے رسولوں کے سچے ہونے کی گواہی ادا کرتے ہیں۔ ان روایتوں سے بھی قتادہ کے قول کی تائید اور امت محمد یہ کی فضیلت نکلتی ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:154) سکت۔ وہ تھم گیا۔ اس نے سکوت (خاموشی) اختیار کیا۔ (باب نصر) سکوت سے ماضی واحد مذکر غائب۔ السکوت۔ سکوت ترک کلام کے ساتھ مخصوص ہے اور چونکہ سکوت۔ سکون کی بھی ایک قسم ہے۔ اس لئے یہاں اس آیۃ میں اس کا استعمال بطور استعارہ سکون ہی کے معنوں میں ہوا ہے۔ نسختھا۔ نسخہ یعنی کتاب۔ لکھی ہوئی تحریر۔ مضامین۔ ان کے مضامین میں (رحمت اور ہدایت تھی) یرھبون۔ وہ ڈرتے ہیں۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ رھب (باب فتح) سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 بعض علما نے تفسری (رح) سے منقول ہے کہ وہ الواح ٹوٹ گئی تھیں مگر ان تختیوں کا ٹوٹنا صحت کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔ قرآن میں القی کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ڈال دینے کے ہیں۔ اس سے ٹوٹنا لازم نہیں آتا بلکہ قرآن کے پیرا یہ بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ مو سیٰ ( علیہ السلام) نے وہ الواح صحیح واسالم حالت میں دوبارہ اٹھالیں۔ ( کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح : آیت نمبر 154 تا 156 صدیوں کی غلامی اور فرعون کے ظلم و ستم سے نجات کے بعد اللہ نے بنی اسرائیل کو خلافت ارضٰ سپرد کی تھی۔ اس خلافت کو چلانے کے لئے جس آئین اور قوانین کی ضرورت تھی وہ اللہ نے توریت کی شکل میں بنی اسرائیل کو عطا کردئیے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ایک امیر مملکت بھی جو ، آئین و قوانین کی تفصیلات سمجھنے کے لئے خصوصی علم و دانش رکھتا ہو اور جس کا مسلسل رابط اللہ تعالیٰ سے ہو چناچہ اس خلافت ارضی کیلئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر بلایا گیا جہاں چالیس دن رات ان کی تعلیم و تربیت فرمائی گئی اس تعلیم و تربتی کے بعد توریت کی تختیاں سپرد ہوئیں جن پر دنیا وآخرت کی فلاح بہبود کے اصول لکھے ہوئے تھے۔ جب حضرت ہارون (علیہ السلام) کی معذرت پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا غم دور ہوا تو وہ اپنی نبوت کے کام میں لگ گئے۔ انہوں نے توریت کی تختیاں اٹھالیں اور ان کی تبلیغ شروع کردی ظاہر ہے کہ تبلیغ دین میں کوئی زبردستی تو ہوتی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت وہی مانیں گے اور اس کے رحمت کے مستحق وہی لوگ ہوں گے جو اللہ کا خوف رکھتے ہیں۔ اللہ کا خوف عام خوف سے مختلف ہے یہ صرف خوف ہی خوف نہیں رحمت و شفقت کی امیدیں بھی ساتھ ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ ایک طرف دوزخ کا خوف ضرور ہے تاکہ انسان گناہ سے رک جائے لیکن دوسری طرف گناہ گار کے ہاتھ میں توبہ کا ہتھیار بھی دے دیا گیا تاکہ وہ جنت سے مایوس نہہو۔ کیونکہ مایوسی گناہ ہے دنیا میں باپ کا خوف اللہ کا خوف کا ایک ادنیٰ سا نمونہ اور مثال ہے اس میں باپ سے ایک ڈر بھی ہے کہ ڈر کے بغیر گھر کا انتظام چل نہیں سکتا مگر بچہ کو پوری امید بھی ہے کہ اگر وہ نیک راہوں پر چلے گا اور کسی خطا پر شرمندہ ہوگا تو باپ کی محبت غالب آجائے گی تقویٰ کا لفظ اسی ملی جلی کیفیت کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مقرر کئے ہوئے وقت اور مقام پر پہنچنے کے لئے بنی اسرائیل کے سترہ افراد کا انتخاب کیا گیا۔ بعض مفسرینکا خیال ہے کہ یہ ان لوگوں میں سے تھے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے انہیں کوہ طور پر لیجانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ قوم کی طرف سے اللہ کی بارگاہ میں اس قصور کی معافی مانگیں گے جو بچھڑے کی پرستش کی صورت میں سر زد ہوا ہے۔ بیض مفسرین کا خیال ہے کہ وہ اللہ کے منکرین میں سے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم مان لیں گے کہ یہ توریت کی تختیاں اللہ کی طرف سے ہیں ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی اجازت سے یہ کہا گیا کہ اس میں جس کو شک ہو وہ کوہ طور پر میرے ساتھ چلے اللہ مجھ سے ہمکلام ہوگا تم بھی سن لینا ان کو چلتے چلتے ایک شرارت سوجھی کہ ہم یہ کیسے مان لیں گے کہ یہ آواز جو تم سنتے ہو اللہ ہی کی آواز ہے ہاں اللہ خود ہمارے سامنے آکر بات کرے تو ہم یقین کرلیں گے۔ اس گستاخی پر اللہ کا قہر نازل ہوا اور شدید زلزلہ سا آگیا یا سورة بقرہ کے الفاظ میں صاعقہ یعنی بجلی کی ایک تیز کڑک تھی جس کو سن کر ستر کے ستر لوگ مرگئے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا۔ الہٰی اگر آپ چاہتے تو ان کو اس سے پہلے بھی ہلاک کرسکتے تھے۔ ان کو زندگی دیدیجئے۔ شاید حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذہن میں خیال ابھرا ہو کہ کہیں بنی اسرائیل ان پر یہ الزام نہ لگادیں کہ دھوکے سے بنی اسرائیل کے ستر سر داروں کو مرادیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے ان سب کو زندہ کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس موقع پر جو دعا کی اس کے دو جزو ہیں 1) اے اللہ ہمارے قصور معاف فرما دے اور ہم پر رحم و کرم فرما۔ 2) ہمیں اس دنیا میں اور آخرت میں اپنی نعمتوں کے لئے چن لے۔ پہلے حصے کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں پر عتاب و عذاب ہوا ہے ان کو معافی دیدی جائے۔ فرمایا کہ رہم ان کو زندہ تو کردیتے ہیں لیکن ان قصوروں کی معافی کیلئے تین شرطیں ہیں (1) تقویٰ یعنی خوف الہٰی (2) زکوٰۃ کی ادائیگی (3) آیات الہٰی پر ایمان دوسرے حصے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی کامیابیاں عطا فرما دیجئے اور اپنی تمام نعمتوں کے لئے ہمارا انتخاب کرلیجئے۔ اللہ نے فرمایا کہ میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بندوں سے اللہ کا سلوک سرا سر رحم و کرم اور شفقت و محبت کی بنیاد پر قائم ہے سزا ان کو دی جاتی ہے جو گناہوں پر گناہ کرتے چلے جاتے ہیں اور اللہ کی طرف نہیں پلٹتے یعنی توبہ نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ موسیٰ کا غضب چونکہ للہ تھا اس کی مثال سکرمن المباح کی سی ہے جس میں مکلف نہیں رہتا اس پر دوسرے شخص کے غصہ کو جو نفس کے واسطے ہو قیاس نہیں کرسکتے بلکہ اس کی حالت سکر من المحرم کی سی ہے جس کو شارع نے عذ نہیں قرار دیا ونیز عادتا ممکن ہے کہ شدت مشغولی میں مشغول ہوگیا ہو کہ میرے ہاتھ میں کیا ہے اور بھائی کو داروگیر کرنے کے لیے ہاتھ خالی کرنا ہواسلے القاء الواح واقع ہوا ہو اور بعض نے لکھا ہے کہ القی کے معنی ہیں جلدی سے رکھ دینا مجازا وتشبیھا القاء سے تعبیر کیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرو ہوا تو انھوں نے تورات کی تختیوں کو سنبھالا جو ہدایت کا منبع اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سرچشمہ تھیں۔ ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے جلوت اور خلوت میں ڈرنے والے ہیں۔ یہاں تورات کے دو اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے جو ہر آسمانی کتاب کا وصف رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو کتاب بھی انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نازل فرمائی وہ اپنے دور میں لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی تھی۔ آسمانی کتاب کا نزول اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہوتا ہے۔ جس میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ذریعے لوگوں کی ہدایت کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارے گا اس پر دنیا و آخرت میں اللہ کی رحمت برسے گی۔ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب اس لیے بھی مجسمۂ رحمت ہوتی ہے کیونکہ اس کی تلاوت سے اجرو ثواب اور قلبی سکون رکھا ہے اور اس پر عمل پیرا ہونے سے آدمی کو مشکلات سے نجات اور آخرت میں عظیم الشان اجر وثواب سے نوازا جائے گا۔ قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ میں بھی یہ اوصاف کا مل اور اکمل انداز میں پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ قرآن مجید لوگوں کی ہدایت کے لیے آخری کتاب ہے اس لیے جو شخص مشکلات سے نجات، آخرت کا اجر وثواب اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حق دار بننا چاہتا ہے۔ اسے قرآن مجید کی تلاوت اور اس پر پوری طرح عمل پیرا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر قدم اور ہر لمحہ اس کی رہنمائی کرتے ہوئے اس پر اپنے فضل و کرم کا نزول فرمائے گا۔ بشرطیکہ اس کا دل اللہ تعالیٰ سے لرزاں و ترساں ہو۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ وَمَا قَعَدَ قَوْمٌ فِی مَسْجِدٍ یَتْلُونَ کِتَاب اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُونَہُ بَیْنَہُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِینَۃُ وَغَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَۃُ ۔۔ )[ رواہ الترمذی : کتاب القرأت عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، باب ماجاء أن القران انزل علی سبعۃ احرف ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔۔ جو لوگ مسجد میں بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کریں اور با ہم درس و تدریس کریں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور رحمت انہیں لپیٹ لیتی ہے۔۔ “ مسائل ١۔ تورات اپنے دور میں لوگوں کے لیے ہدایت و رہنمائی کا مرقع تھی۔ ٢۔ قرآن مجید آخری آسمانی کتاب ہے۔ جو شخص اس پر عمل کرے گا وہ اللہ کی ہدایت اور اس کی رحمت سے سرفراز ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور ہدایت کے حق دار بننے کے لیے جلوت اور خلوت میں اس سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ سے ڈرتے ہیں : ١۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو بیشک اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٩٤) ٢۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو بیشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (البقرۃ : ١٩٦) ٣۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو تم اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے۔ (البقرۃ : ٢٠٣) ٤۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو کہ تم اس سے ملنے والے ہو۔ (البقرۃ : ٢٢٣) ٥۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو کہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔ (البقرۃ : ٢٣١) ٦۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٣٣) ٧۔ اللہ سے ڈر جاؤ جس پر تمہارا ایمان ہے۔ (المائدۃ : ٨٨) ٨۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقلمندو ! تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ : ١٠٠) ٩۔ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈر جاؤ جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ (آل عمران : ١٠٢) ١٠۔ اللہ سے ڈر جاؤ کیونکہ وہ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (المائدۃ : ٧) ١١۔ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈر جاؤ اور سچی بات کہو۔ (الاحزاب : ٧٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

غرض یہ تو ایک وقفہ اور لمحہ فکریہ تھا تاکہ بچھڑنے کو الہ بنانے والوں کے انجام پر قدرے غور کرایا جائے اب سابقہ منظر ہی اختتام کو یوں پہنچتا ہے۔ وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ ۔ پھر جب موسیٰ کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس نے وہ تختیاں اٹھا لیں قرآن کا ذرا انداز تعبیر ملاحظہ ہو " گویا غضب اور غصہ ایک شخصی چیز ہے ، جس نے حضرت موسیٰ پر تسلط حاصل کرلیا ہے اور اپنی مرضی سے ان کو چلاتا ہے اور حرکت میں لاتا ہے۔ اور جب یہ خاموش ہوگیا اور حضرت موسیٰ کو اس نے آزاد چھوڑ دیتا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی اپنے اختیار میں آگئے۔ غصے کی وجہ سے جو تختیاں انہوں پھینک دی تھیں۔ وہ دوبارہ ہاتھ میں لے لیں۔ اب بتایا جاتا ہے کہ ان تختیوں میں اللہ کی ہدایات تھیں۔ اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرنے والے تھے ان کے لیے یہ رحمت تھیں ان کے دل راہ راست پر آنے کے لیے کھل گئے تھے۔ اور انہوں نے اللہ کی رحمتوں سے دامن بھر لیے تھے۔ اور ایک گمراہ اور بےراہ شخص سے اور کون بدبخت ہوگا جو اپنے سامنے کوئی راہ نہیں پاتا۔ اور اس روح سے اور کوئی بدبخت نہیں ہے جو ماری ماری پھرتی ہے اور جسے نہ کوئی صحیح راہ نظر آتی اور نہ اسے دولت یقین ملتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تقویٰ اور خدا خوفی ہی وہ صفت ہے جس سے دل کھلتے ہیں اور جس سے غفلت دور ہوتی ہے اور انسان راہ راست پر آتا ہے اور حق کو قبول کرتا ہے۔ اللہ ان ربوں کا خالق ہے۔ اور وہی اس حقیقت کا فیصلہ اور اعلان کرنے والا ہے۔ ظاہر ہے کہ دلوں کا حال رب العالمین سے زیادہ اور کوئی نہیں جانتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

توریت شریف ہدایت اور رحمت تھی : پھر فرمایا (وَ لَمَّا سَکَتَ عَنْ مُّوْسَی الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ ) (جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرو ہوگیا تو انہوں نے توریت شریف کی تختیوں کو لے لیا) جنہیں غصہ میں ڈال دیا تھا۔ کیوں کہ مقصود تو انہیں پر عمل کرانا تھا درمیان میں مشرکین کی حالت دیکھ کر جو غصہ آگیا تھا اس کی وجہ سے تختیوں کو ڈال دیا تھا پھر ان کو اٹھا لیا تاکہ تعلیم و تبلیغ کا کام شروع کیا جائے۔ (وَ فِیْ نُسْخَتِھَا ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلَّذِیْنَ ھُمْ لِرَبِّھِمْ یَرْھَبُوْنَ ) (اور اس توریت میں جو لکھا ہوا تھا اس میں ہدایت تھی اور رحمت تھی ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں) ۔ اور ڈرنے والے وہی ہیں جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ و ذلک مثل قولہ تعالیٰ فی التنزیل العزیز (ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بالْغَیْبِ ) (الآیۃ) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

147: جب ہارون (علیہ السلام) نے معذرت کردی اور قوم نے بھی نادم ہو کر توبہ کرلی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جوش غضب ٹھنڈا ہوگیا تو الواح کو اٹھا لیا اس میں خدا سے ڈرنے والوں اور انابت کرنے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت تھی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

154 اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرو ہوا اور ہارون (علیہ السلام) کی معذرت سے غصہ کو سکون ہوا تو انہوں نے توریت کی تختیوں کو اٹھالیا اور ان میں لوح محفوظ سے جو مضامین نقل کئے گئے تھے اور جو مضامین لکھے گئے تھے وہ مضامین ان لوگوں کے لئے سراسر ہدایت و رحمت تھے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ یعنی مضامین ہدایت و رحمت سے ڈرنے والے ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔