Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 16

سورة الأعراف

قَالَ فَبِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاَقۡعُدَنَّ لَہُمۡ صِرَاطَکَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ﴿ۙ۱۶﴾

[Satan] said, "Because You have put me in error, I will surely sit in wait for them on Your straight path.

اس نے کہا بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah said that after He gave respite to Shaytan, إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (till the Day they are raised up (resurrected)) and Iblis was sure that he got what he wanted, he went on in defiance and rebellion. He said, قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ "Because You have `Aghwaytani', surely, I will sit in wait against them (human beings) on Your straight path." meaning, as You have sent me astray. Ibn Abbas said that `Aghwaytani' means, "Misguided me." Others said, "As You caused my ruin, I will sit in wait for Your servants whom You will create from the offspring of the one you expelled me for." He went on, صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (Your straight path), the path of truth and the way of safety. I (Iblis) will misguide them from this path so that they do not worship You Alone, because You sent me astray. Mujahid said that the `straight path', refers to the truth. Imam Ahmad recorded that Saburah bin Abi Al-Fakih said that he heard the Messenger of Allah saying, إِنَّ الشَّيْطَانَ قَعَدَ لاِبْنِ ادَمَ بِطُرُقِهِ فَقَعَدَ لَهُ بِطَرِيقِ الاِْسْلَمِ فَقَالَ أَتُسْلِمُ وَتَذَرُ دِينَكَ وَدِينَ ابَايِكَ قَالَ فَعَصَاهُ وَأَسْلَم Shaytan sat in wait for the Son of Adam in all his paths. He sat in the path of Islam, saying, `Would you embrace Islam and abandon your religion and the religion of your forefathers!' However, the Son of Adam disobeyed Shaytan and embraced Islam. قَعَدَ لَهُ بِطَرِيقِ الْهِجْرَةِ فَقَالَ أَتُهَاجِرُ وَتَدَعُ أَرْضَكَ وَسَمَاءَكَ So Shaytan sat in the path of Hijrah (migration in the cause of Allah), saying, `Would you migrate and leave your land and sky!' وَإِنَّمَا مَثَلُ الْمُهَاجِرِ كَالْفَرَسِ فِي الطِّوَلِ فَعَصَاهُ وَهَاجَرَ But the parable of the Muhajir is that of a horse in his stamina So, he disobeyed Shaytan and migrated. ثُمَّ قَعَدَ لَهُ بِطَرِيقِ الْجِهَادِ وَهُوَ جِهَادُ النَّفْسِ وَالْمَالِ فَقَالَ تُقَاتِلُ فَتُقْتَلُ فَتُنْكَحُ الْمَرْأَةُ وَيُقْسَمُ الْمَالُ So Shaytan sat in the path of Jihad, against one's self and with his wealth, saying, `If you fight, you will be killed, your wife will be married and your wealth divided.' قاَلَ فَعَصَاهُ وَجَاهَد So he disobeyed him and performed Jihad. The Prophet peace be upon him then said; فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُمْ فَمَاتَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ وَإِنْ قُتِلَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ وَإِنْ غَرِقَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ وَقَصَتْهُ دَابَّةٌ كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّة Therefore, whoever among them (Children of Adam) does this and dies, it will be a promise from Allah that He admits him into Paradise. If he is killed, it will be a promise from Allah that He admits him into Paradise. If he drowns, it will be a promise from Allah that He admits him into Paradise. If the animal breaks his neck, it will be a promise from Allah that He admits him into Paradise. ثُمَّ لاتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَأيِلِهِمْ وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ

ابلیس کا طریقہ واردات اس کی اپنی زبانی ابلیس نے جب عہد الٰہی لے لیا تو اب بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے لگا کہ جیسے تو نے میری راہ ماری میں بھی اس کی اولاد کی راہ ماروں گا اور حق و نجات کے سیدھے راستے سے انہیں روکوں گا تیری توحید سے بہکا کر تیری عبادت سے سب کو ہٹا دوں گا ۔ بعض نحوی کہتے ہیں کہ فبما میں با قسم کے لئے ہے یعنی مجھے قسم ہے میں اپنی بربادی کے مقابلہ میں اس کی اولاد کو برباد کر کے رہوں گا ۔ عون بن عبداللہ کہتے ہیں میں مکے کے راستے پر بیٹھ جاؤں گا لیکن صحیح یہی ہے کہ نیکی کے ہر راستے پر ۔ چنانچہ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ شیطان ابن آدم کی تمام راہوں میں بیٹھتا ہے وہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بننے کیلئے اسلام لانے والے کے دل میں وسوسے پیدا کرتا ہے کہ تو اپنے اور اپنے باپ دادا کے دین کو کیوں چھوڑتا ہے ۔ اللہ کو اگر بہتری منظور ہوتی ہے تو وہ اس کی باتوں میں نہیں آتا اور اسلام قبول کر لیتا ہے ۔ ہجرت کی راہ سے روکنے کیلئے اڑے آتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ تو اپنے وطن کو کیوں چھوڑتا ہے؟ اپنی زمین و آسمان سے الگ ہوتا ہے؟ غربت و بےکسی کی زندگی اختیار کرتا ہے؟ لیکن مسلمان اس کے بہکاوے میں نہیں آتا اور ہجرت کر گذرتا ہے ۔ پھر جہاد کی روک کے لئے آتا ہے اور جہاد مال سے ہے اور جان سے ۔ اس سے کہتا ہے کہ تو کیوں جہاد میں جاتا ہے؟ وہاں قتل کر دیا جائے گا ، پھر تیری بیوی دوسرے کے نکاح میں چلی جائے گی ، تیرا مال اوروں کے قبضے میں چلا جائے گا لیکن مسلمان اس کی نہیں مانتا اور جہاد میں قدم رکھ دیتا ہے پس ایسے لوگوں کا اللہ پر حق ہے کہ وہ انہیں جنت میں لے جائے گو وہ جانور سے گر کر ہی مر جائیں ۔ اس دوسری آیت کی تفسیر میں ابن عباس کا قول ہے کہ آگے سے آنے کا مطلب آخرت کے معاملہ میں شک و شبہ میں پیدا کرنا ہے ۔ دوسرے جملے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی رغبتیں دلاؤں گا دائیں طرف سے آنا امر دین کو مشکوک کرنا ہے بائیں طرف سے آنا گناہوں کو لذیذ بنانا ہے شیطانوں کا یہی کام ہے ایک اور روایت میں ہے کہ شیطان کہتا ہے میں ان کی دنیا و آخرت ، نیکیاں بھلائیاں سب تباہ کر دینے کی کوشش میں رہوں گا اور برائیوں کی طرف ان کی رہبری کروں گا وہ سامنے سے آ کر کہتا ہے کہ جنت دوزخ قیامت کوئی چیز نہیں ۔ وہ پشت کی جانب سے آ کر کہتا ہے دیکھ دنیا کس قدر زینت دار ہے وہ دائیں سے آ کر کہتا ہے خبردار نیکی کی راہ بہت کٹھن ہے ۔ وہ بائیں سے آ کر کہتا ہے دیکھ گناہ کس قدر لذیذ ہیں پس ہر طرفے آ کر ہر طرح بہکاتا ہے ہاں یہ اللہ کا کرم ہے کہ وہ اوپر کی طرف سے نہیں آسکتا ۔ اللہ کے بندے کے درمیان حائل ہو کر رحمت الٰہی کو روک نہیں بن سکتا ۔ پس سامنے یعنی دنیا اور پیجھے یعنی آخرت اور دائیں یعنی اس طرح کی دیکھیں اور بائیں یعنی اس طرح نہ دیکھ سکیں یہ اقوال سب ٹھیک ہیں ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تمام خیر کے کاموں سے روکتا ہے اور سر کے تمام کام سمجھا جاتا ہے ، اوپر کی سمت کا نام آیت میں نہیں وہ سمت رحمت رب کے آنے کیلئے خالی ہے اور وہاں شیطان کی روک نہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ اکثروں کو تو شاکر نہیں پائے گا یعنی موحد ۔ ابلیس کو یہ وہم ہی وہم تھا لیکن نکلا مطابق واقعہ ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( ولقد صدق علیھم ابلیس ظنہ ) الخ ، یعنی ابلیس نے اپنا گمان پورا کر دکھایا سوائے مومنوں کی پاکباز جماعت کے اور لوگ اس کے مطیع بن گئے حالانکہ شیطان کی کچھ حکومت تو ان پر نہ تھی مگر ہاں ہم صحیح طور سے ایمان رکھنے والوں کو اور شکی لوگوں کو الگ الگ کر دینا چاہتے تھے ۔ تیرا رب ہر حیز کا حافظ ہے ۔ مسند بزار کی ایک حسن حدیث میں ہر طرف سے پناہ مانگنے کی ایک دعا آئی ہے ۔ الفاظ یہ ہیں دعا ( اللھم انی اسأالک العفو والعفتہ فی دینی و دنیای و اھلی و مالی اللھم استر عورانی وامن روعانی واحفظنی من بین یدی ومن خلقی وعن یمینی وعن شمالی و من فوقی و اعوذ بک اللھم ان افتال من تحتی ) مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر صبح شام اس دعا کو پرھتے تھے دعا ( اللھم انی اسألک العافیتہ فی الدین والاخرۃ ) اس کے بعد کی دعا کے کچھ فرق سے تقریباً وہی الفاظ ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 گمراہ تو اللہ کی تکوینی مشیت کے تحت ہوا۔ لیکن اس نے اسے بھی مشرکوں کی طرح الزام بنا لیا، جس طرح وہ کہتے تھے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] ابلیس کا اللہ تعالیٰ پر الزام :۔ ابلیس نے مزید جرم یہ کیا کہ اپنی اس نافرمانی اور گمراہی کا الزام اللہ تعالیٰ پر لگا دیا اور کہا کہ تو نے مجھے ایسی مخلوق کو سجدہ کرنے کا حکم دیا جو مجھ سے فروتر تھی اس سے میرے نفس کی غیرت اور پندار کو ٹھیس پہنچی اور تو نے مجھے ایسی آزمائش میں ڈال دیا کہ میں تیری نافرمانی پر مجبور ہوگیا اور چونکہ میری گمراہی کا ذریعہ آدم (علیہ السلام) بنا ہے لہذا اب میں جس طرح بھی مجھ سے بن پڑا اسے اور اس کی اولاد کو ہر حیلے بہانے گمراہ کر کے چھوڑوں گا اور تجھے معلوم ہوجائے گا کہ میں آدم اور اس کی اولاد کی اکثریت کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گا تھوڑے ہی بندے ایسے رہ جائیں گے جو تیرے فرمانبردار اور شکر گزار ہوں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ فَبِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ : ابلیس کی شیطنت دیکھیے کہ گمراہ ہونے میں سارا قصور اللہ تعالیٰ کے ذمے لگا دیا ہے اور اپنے اختیار کی نفی کر رہا ہے، یہی جبریہ کا عقیدہ ہے اور مشرکین نے بھی اللہ تعالیٰ کے ذمے یہی الزام لگایا کہ اگر وہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔ [ دیکھیے الأنعام : ١٤٨ ] لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ : یعنی میں تو گمراہ ہوں ہی ان کی بھی راہ ماروں گا۔ (موضح) یہاں شیطان جبری کے بجائے قدری بن گیا کہ میں یہ کروں گا اور وہ کروں گا، پہلے کہتا تھا کہ سب تو نے ہی کیا۔ معلوم ہوا شیطان میں جبری اور قدری ( تقدیر کا منکر) ہونے کی دونوں گمراہیاں موجود ہیں، جبکہ ایمان ان دونوں کے درمیان ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ لَاٰتِيَنَّہُمْ مِّنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ اَيْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِہِمْ۝ ٠ ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَہُمْ شٰكِرِيْنَ۝ ١٧ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی خلف ( پیچھے ) خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔ يمین ( دائیں طرف) اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] «1» يختصّ بما بعد هذا الکتاب . ( ی م ن ) الیمین کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا شمل الشِّمَالُ : المقابل للیمین . قال عزّ وجلّ : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] ، ويقال للثّوب الذي يغطّى به : الشِّمَالُ وذلک کتسمية كثير من الثّياب باسم العضو الذي يستره، نحو : تسمية كمّ القمیص يدا، وصدره، وظهره صدرا وظهرا، ورجل السّراویل رجلا، ونحو ذلك . والِاشْتِمَالُ بالثوب : أن يلتفّ به الإنسان فيطرحه علی الشّمال . وفي الحدیث :«نهي عن اشْتِمَالِ الصمّاء» والشَّمْلَةُ والْمِشْمَلُ : کساء يشتمل به مستعار منه، ومنه : شَمَلَهُمُ الأمر، ثم تجوّز بالشّمال، فقیل : شَمَلْتُ الشاة : علّقت عليها شمالا، وقیل : للخلیقة شِمَالٌ لکونه مشتملا علی الإنسان اشتمال الشّمال علی البدن، والشَّمُولُ : الخمر لأنها تشتمل علی العقل فتغطّيه، وتسمیتها بذلک کتسمیتها بالخمر لکونها خامرة له . والشَّمَالُ : الرّيح الهابّة من شمال الکعبة، وقیل في لغة : شَمْأَلٌ ، وشَامَلٌ ، وأَشْمَلَ الرّجل من الشّمال، کقولهم : أجنب من الجنوب، وكنّي بِالْمِشْمَلِ عن السّيف، كما کنّي عنه بالرّداء، وجاء مُشْتَمِلًا بسیفه، نحو : مرتدیا به ومتدرّعا له، وناقة شِمِلَّةٌ وشِمْلَالٌ: سریعة کا لشَّمال، وقول الشاعر : ولتعرفنّ خلائقا مشمولة ... ولتندمنّ ولات ساعة مندم قيل : أراد خلائق طيّبة، كأنّها هبّت عليها شمال فبردت وطابت . ( ش م ل ) الشمال ۔ بایاں ضد یمین ۔ قرآن میں ہے ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] جو دائیں اور بائیں بیٹھے ہیں ۔ نیز چھوٹی چادر جس سے بائیں جانب ڈھانپ لی جائے اسے بھی شمال کہا جاتا ہے جس طرح کہ عربی زبان میں دوسرے اعضار کی مناسبت سے لباس کے مختلف نام رکھے گئے ہیں ۔ مثلا قمیض کی آستین کو ید ( ہاتھ ) اور جو حصہ سینہ اور پشت پر آئے اسے صدر اور ظہر کہا جاتا ہے اور پائجامہ کے پائتہ کو رجل سے موسم کردیتے ہیں وغیرہ ذالک ۔ اور الاشتمال بالثوب کپڑے کو اس طرح لپیٹا کہ اس کا بالائی سرا بائیں جانب ڈالا جائے حدیث میں ہے ۔ ( 101 ) «نهي عن اشْتِمَالِ الصمّاء» کہ اشتمال الصماء ممنوع ہے ۔ اور استعارہ کے طور پر کمبل کو جو جسم پر لپیٹا جاتا ہے ۔ شملۃ ومشمل کہا جاتا ہے اور اسی سے شملھم الامر کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی امر کے سب کو شامل اور عام ہوجانے کے ہیں ۔ پھر شمال کے لفظ سے مجازا کہا جاتا ہے ۔ شملت الشاۃ بکری کے تھنوں پر غلاف چڑھانا اور شمال کے معنی عادت بھی آتے ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی چادر کی طرح انسان پر مشتمل ہوجاتی ہے ۔ الشمول شراب کیونکہ وہ عقل کو ڈھانپ لیتی ہے اور شراب کو شمول کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ عقل کو ڈھانپ لینے کی وجہ سے خمر کہا جاتا ہے ۔ الشمال ( بکسرالشین ) وہ ہوا جو کعبہ کی بائیں جانب سے چلتی ہے اور اس میں ایک لغت شمال ( بفتحہ شین بھی ہے ۔ شامل واشمل کے معنی شمال کی جانب میں جانے کے ہیں جیسے جنوب سے اجنب ۔ ( جنوب کو جانا ) کنایہ کے طور پر تلوار کو مشتمل کہا جاتا ہے جیسا کہ اسے رداع سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اسی سے مرتد بالسیف ومتدرعا لہ کی طرح جاء مشتملا بسیفہ کا محاورہ ہے ۔ : ناقۃ شملۃ و شمال ۔ باد شمالی کی طرح تیز اونٹنی ۔ اور شاعر کے قول ع ( الکامل ) ( 262 ) ولتعرفنّ خلائقا مشمولة ... ولتندمنّ ولات ساعة مندم تم عمدہ اخلاق کو پہچان لو گے اور تم پشیمانی اٹھاؤ گے لیکن وہ وقت پشیمانی کا نہیں ہوگا ۔ میں مشمولۃ سے مراد پاکیزہ اخلاق ہیں گویا باد شمال نے ( شراب کی طرح ) انہیں ٹھنڈا اور خوش گوار بنا دیا ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦۔ ١٧) شیطان نے کہا جیسا کہ آپ نے میری ہدایت کو گمراہی سے بدل دیا، میں بھی اولاد آدم کو سیدھی راہ پر نہیں چلنے دوں گا۔ اور ان کو قیامت کے متعلق گمراہ کروں گا کہ جنت دوزخ بعث بعد الموت، حساب و کتاب کچھ نہیں اور دنیا کبھی فنا نہیں ہوگی اور مال کے جمع کرنے اور بخل و فساد کرنا سکھاؤں گا اور جو ہدایت پر قائم ہوگا اس پر راہ حق کو مشتبہ کروں گا تاکہ وہ اس سے بےراہ ہوجائے۔ اور جو گمراہی پر ہوگا اس کے لیے گمراہی کو اور سجا کے اور آراستہ کرکے پیش کروں گا تاکہ وہ اس پر قائم رہے اور لذتوں وشہوتوں میں ان کو گرفتار کروں گا اور آپ اکثر کو ایمان کی حالت میں پائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ (قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَٖ ) تیری توحید کی شاہراہ پر ڈیرے جما کر ‘ گھات لگا کر ‘ مورچہ بند ہو کر بیٹھوں گا اور تیرے بندوں کو شرک کی پگڈنڈیوں کی طرف موڑتا رہوں گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: شیطان نے اپنی بدعملی کی ذمہ داری خود قبول کرنے کے بجائے (معاذاللہ) اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر ڈالنے کی کوشش کی، حالانکہ تقدیر کی وجہ سے کسی کا اختیار سلب نہیں ہوتا، تقدیر کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ فلاں شخص اپنے اختیار سے فلاں کام کرے گا، نیز اس کے کہنے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک ایسا حکم ہی کیوں دیا جو اس کے لئے قابل قبول نہیں تھا اس لئے بالواسطہ اس کی گمراہی (معاذاللہ) اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی وجہ سے ہوئی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:16) فبما۔ ب اس میں سببیہ ہے۔ اغویتنی۔ اغواء (افعال) سے۔ اغوی یغوی اغواء ۔ غی اور غوی کے معنی ہیں بہک جانا۔ گمراہ ہونا۔ لعنتی ہونا۔ برباد ہونا۔ ناکام و نامراد ہونا۔ خائب و خاسر ہونا ۔ زندگی خراب ہونا۔ باب افعال سے۔ بہکانا ، گمراہ کرنا، برباد کرنا، خائب و حاسر کرنا۔ زندگی خراب کرنا، یا گمراہی کی سزا دینا۔ یعنی سزاء گمراہ کرنا۔ جیسے ان کان اللہ یرید ان یغویکم (11:34) اگر خدا یہ چاہے کہ تمہیں تمہاری گمراہی کی سزا دے۔ اغواء کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کو ایسا حکم دینا کہ جس کی نافرمانی اس کی گمراہی کا باعث بن جائے اس آیت میں یہ آخری دو معنی مراد ہوسکتے ہیں ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے حکم پر سجدہ نہ کرنے کی سزا میں ابلیس کو جنت سے (یادرگاہ سے) نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس کی حکم عدولی اس کی گمراہی کا سبب بن گئی۔ سو فبما اغویتنی کا ترجمہ ہوگا۔ بدیں وجہ کہ میری حکم عدولی پر تو نے سزائً راہ مستقیم سے مجھے دور کردیا ہے۔ لاقعدون۔ مضارع بلام تاکید و نون ثقیلہ ۔ صیغہ واحد متکلم۔ قعد یقعد (نصر) قعود سے میں ضرور بیٹھوں گا۔ میں تاک میں بیٹھوں گا۔ صراطل۔ تیرا راستہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ صراطل ای علی صراطک تیرے راستہ پر۔ لاقعدن لہم صراطک المستقیم۔ تیرے سیدھے راستہ سے ان کو گمراہ کرنے کے لئے میں ان کی تاک میں بیٹھوں گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی میں توگمراہوں ہی ان کی بھی راہ ماروں گا۔ (مو ضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ابلیس کا قسم کھانا کہ بنی آدم کو گمراہ کرتا رہوں گا : جب اللہ تعالیٰ شانہٗ نے لمبی عمر دینے کا وعدہ فرما لیا تو ابلیس نے اپنے کینہ اور دشمنی کا اظہار کیا۔ بنی آدم سے اپنی ملعونیت کا بدلہ لینے کا اعلان کردیا اور اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں عرض کیا کہ میں آپ کی عزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان کو ضرور ضرور گمراہ کروں گا۔ (یہ الفاظ سورة ص میں ہیں) اور یہاں سورة اعراف میں اس کا قول ان الفاظ میں نقل فرمایا ہے۔ (فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ) کہ اس سبب سے کہ آپ نے مجھے گمراہ کیا میں آپ کے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا اور ان کی راہ ماروں گا، اس نے مزید کہا (ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِّنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِھِمْ وَ عَنْ شَمَآءِلِھِمْ وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ ) (ان کے پاس ضرور آؤں گا ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی داہنی جانب سے اور ان کی بائیں جانب سے اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے) ۔ ابلیس نے بنی آدم کو بہکانے کے لیے چار جہات کا ذکر کیا کیونکہ ان چار جہات سے کوئی کسی کے پاس آسکتا ہے مطلب اس کا یہ تھا کہ بقدر امکان جہاں تک ہو سکے گا میں ان کو بہکانے کی کوشش کروں گا۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ جہت فوق (اوپر کی جانب) سے رحمت مانع ہوتی ہے اس لیے ادھر سے شیطان کے آنے کا راستہ نہیں اور نیچے کی جانب سے بھی نہیں آسکتا اس لیے ان دونوں جہتوں کو چھوڑ دیا۔ یہ ابلیس کی دوسری ڈھٹائی ہے کہ گمراہی کی نسبت اب بھی اس نے اپنی طرف نہیں کی بلکہ اس نے یوں کہا کہ اے اللہ ! آپ نے مجھے گمراہ کیا میں ان کی راہ ماروں گا۔ سورة نحل میں ہے کہ اس نے انسانوں کو بہکانے کے لیے قسم کھاتے ہوئے یوں کہا (لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ ) اور سورة بنی اسرائیل میں کہا (اَھٰذَا الَّذِیْ کَرَّمْتَ عَلَیَّ ) (کیا یہ ہے جسے آپ نے میرے مقابلہ میں عزت دیدی) (لَءِنْ اَخَّرْتَنِ الیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَاَ حْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتہٗٓ اِلَّا قَلِیْلًا) (اگر آپ نے مجھے قیامت کے دن تک مہلت دیدی تو بجز قدر قلیل کے میں اس کی ساری ذریت کو اپنے قابو میں کر لونگا۔ ) ابلیس تو اپنی قسم کو نہیں بھولا اپنی ضد اور ہٹ پر قائم ہے۔ بنی آدم کو بہکانے ورغلانے اور گمراہ کرنے میں اس نے اور اس کی ذریت نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی بنی آدم کو کفر پر شرک پر اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کرتا ہی رہتا ہے۔ گمراہ زیادہ ہیں۔ اہل ہدایت کم ہیں۔ صالحین مخلصین بہت کم ہیں اس نے پہلے ہی (اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ) کہہ کر مخلصین کا استثناء کردیا تھا اور جو اس نے (وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شَاکِرِیْنَ ) کہا تھا اس کے قول کو بنی آدم نے اس کا اتباع کر کے سچ کر دکھایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12“ مَا ” مصدریہ اور باء سببیہ ہے۔ اَغْوَیْتَنِیْ ای بما اضللتنی وھو المروی عن ابن عباس (رض) (روح ج 8 ص 94) ۔ یعنی مجھ کو تیرے گمراہ اور بدراہ کردینے کی وجہ سے میں آدم اور اولاد آدم کو گمراہ کرنے کے لیے تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا اور مختلف حیلوں سے ان کو صراط مستقیم سے بھٹکانے کی کوشش کروں گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

16 ابلیس نے کہا جیسا تو نے مجھ کو راہ سے کھویا ہے اور اس سبب سے کہ تو نے مجھ کو گمراہ کیا ہے میں بھی قسم کھاتا ہوں کہ میں تیری سیدھی راہ پر ان کی تاک میں بیٹھ جائوں گا یعنی وہ سیدھی راہ جو تجھ تک پہنچتی ہے اس راہ پر ان کے گمراہ کرنے کو بیٹھ جائوں گا۔