Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 163

سورة الأعراف

وَ سۡئَلۡہُمۡ عَنِ الۡقَرۡیَۃِ الَّتِیۡ کَانَتۡ حَاضِرَۃَ الۡبَحۡرِ ۘ اِذۡ یَعۡدُوۡنَ فِی السَّبۡتِ اِذۡ تَاۡتِیۡہِمۡ حِیۡتَانُہُمۡ یَوۡمَ سَبۡتِہِمۡ شُرَّعًا وَّ یَوۡمَ لَا یَسۡبِتُوۡنَ ۙ لَا تَاۡتِیۡہِمۡ ۚ ۛ کَذٰلِکَ ۚ ۛ نَبۡلُوۡہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ ﴿۱۶۳﴾ النصف

And ask them about the town that was by the sea - when they transgressed in [the matter of] the sabbath - when their fish came to them openly on their sabbath day, and the day they had no sabbath they did not come to them. Thus did We give them trial because they were defiantly disobedient.

اور آپ ان لوگوں سے اس بستی والوں کا جو کہ دریائے ( شور ) کے قریب آباد تھے اس وقت کا حال پوچھئے! جب کہ وہ ہفتہ کے بارے میں حد سے نکل رہے تھے جب کہ انکے ہفتہ کے روز تو ان کی مچھلیاں ظاہر ہو ہو کر ان کے سامنے آتی تھیں اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں ، ہم ان کی اس طرح پر آزمائش کرتے تھے اس سبب سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Jews transgress the Sanctity of the Sabbath This Ayah explains Allah's statement, وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَواْ مِنكُمْ فِى السَّبْتِ And indeed you knew those among you who transgressed in the matter of the Sabbath... (2:65) Allah says to His Prophet here, واَسْأَلْهُمْ ... And ask them, ask the Jews who are with you, about the story of their fellow Jews who defied Allah's command, so that His punishment overtook them all of a sudden for their evil actions, transgression and defiance by way of deceit. Also, warn the Jews (O Muhammad) against hiding your description that they find in their books, so that they do not suffer what their forefathers suffered. The village mentioned here is Aylah, on the shore of the Qulzum (Red) Sea. Muhammad bin Ishaq recorded from Dawud bin Al-Husayn from Ikrimah that Ibn Abbas commented on Allah's statement, واَسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ... And ask them about the town that was by the sea... "A village called Aylah between Madyan and At-Tur (which is in Sinai). Ikrimah, Mujahid, Qatadah and As-Suddi said similarly. Allah's statement, ... إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ ... when they transgressed in the matter of the Sabbath; means, they transgressed in the Sabbath and defied Allah's command to them to keep it sanctified, ... إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً ... when their fish came to them openly on the Sabbath day, According to Ad-Dahhak who reported it from Ibn Abbas that; it used to be visible on top of the water. ... وَيَوْمَ لاَ يَسْبِتُونَ لاَ تَأْتِيهِمْ كَذَلِكَ نَبْلُوهُم ... and did not come to them on the day they had no Sabbath. Thus We made a trial of them, Ibn Jarir said, means, this is how We tested them by making the fish swim close to the surface of the water, on the day which they were prohibited to fish. The fish would be hidden from them on the day when they were allowed to fish, كَذَلِكَ نَبْلُوهُم (Thus We made a trial for them,) so that We test them, ... بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ for they used to rebel against Allah's command. by defying His obedience and rebelling against it. Therefore, these were a people who used a trick to violate Allah's prohibitions, taking an action that seemed legal on the surface. However, in reality, this action was meant to transgress the prohibition. Imam and scholar Abu Abdullah Ibn Battah reported that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, لاَا تَرْتَكِبوُا مَا ارْتَكَبَتِ الْيَهُودُ فَتَسْتَحِلُّوا مَحَارِمَ اللهِ بِأَدْنَى الْحِيَل Do not repeat what the Jews committed, and violate Allah's prohibitions using deceitful tricks. This Hadith has a reasonable chain.

تصدیق رسالت سے گریزاں یھودی علماء پہلے آیت ( وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِيْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـــِٕيْنَ 65۝ۚ ) 2- البقرة:65 ) گذر چکی ہے اسی واقعہ کا تفصیلی بیان اس آیت میں ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلوات اللہ وسلامہ علیہ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنے زمانے کے یہودیوں سے ان کے پہلے باپ دادوں کی بابت سوال کیجئے جنہوں نے اللہ کے فرمان کی مخالفت کی تھی پس ان کی سرکشی اور حیلہ جوئی کی وجہ سے ہماری اچانک پکڑ ان پر مسلط ہوئی ۔ اس واقعہ کو یاد دلا کہ یہ بھی میری ناگہانی سزا سے ڈر کر اپنی اس ملعون صفت کو بدل دیں اور آپ کے جو اوصاف ان کی کتابوں میں ہیں انہیں نہ چھپائیں ایسا نہ ہو کہ ان کی طرح ان پر بھی ہمارے عذاب ان کی بےخبری میں برس پڑیں ۔ ان لوگوں کی یہ بستی بحر قلزم کے کنارے واقع تھی جس کا نام آئلہ تھا ۔ مدین اور طور کے درمیان یہ شہر تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بستی کا نام مدین تھا ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کا نام متنا تھا ۔ یہ مدین اور عینوں کے درمیان تھا ۔ انہیں حکم ملا کہ یہ ہفتہ کے دن کی حرمت کریں اور اس دن شکار نہ کھیلیں ، مچھلی نہ پکڑیں ۔ ادھر مچھلیوں کی بحکم الٰہی یہ حالت ہوئی کہ ہفتے والے دن تو چڑھی چلی آتیں کھلم کھلا ہاتھ لگتیں تیرتی پھرتیں سب طرف سے سمٹ کر آ جاتیں اور جب ہفتہ نہ ہوتا ایک مچھلی بھی نظر نہ آتی بلکہ تلاش پر بھی ہاتھ نہ لگتی ۔ یہ ہماری آزمائش تھی کہ مچھلیاں ہیں تو شکار منع اور شکار جائز ہے تو مچھلیاں ندارد ۔ چونکہ یہ لوگ فاسق اور بےحکم تھے اس لئے ہم نے بھی ان کو اس طرح آزمایا آخر ان لوگوں نے حیلہ جوئی شروع کی ایسے اسباب جمع کرنے شروع کئے جو باطن میں اس حرام کام کا ذریعہ بن جائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہودیوں کی طرح حیلے کر کے ذرا سی دیر کے لئے اللہ کے حرام کو حلال نہ کر لینا ۔ اس حدیث کو امام ابن بطو لائے ہیں اور اس کی سند نہایت عمدہ ہے اس کے راوی احمد ہیں ۔ محمد بن مسلم کا ذکر امام خطیب رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں کیا ہے اور انہیں ثقہ کہا ہے باقی اور سب راوی بہت مشہور ہیں اور سب کے سب ثقہ ہیں ایسی بہت سی سندوں کو امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے صحیح کہا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

163۔ 1 وسئلہم میں (ھم) ضمیر سے مراد یہود ہیں۔ یعنی ان سے پوچھئے اس میں یہودیوں کو یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ اس واقعے کا علم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی دلیل ہے۔ کیونکہ اللہ کی طرف سے وحی کے بغیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس واقعے کا علم نہیں ہوسکتا تھا۔ (2) اس بستی کی تعیین میں اختلاف ہے کوئی اس کا نام ایلہ کوئی طبریہ کوئی ایلیا اور کوئی شام کی کوئی بستی جو سمندر کے قریب تھی۔ بتلاتا ہے۔ مفسرین کا زیادہ رجحان ایلہ کی طرف ہے جو مدین اور کوہ طور کے درمیان دریائے قلزم کے ساحل پر تھی۔ (3) حیتان حوت (مچھلی کی جمع ہے۔ شرعا شارع کی جمع ہے۔ معنی ہیں پانی کے اوپر ابھر ابھر کر آنے والیاں۔ یہ یہودیوں کے اس واقعے کی طرف اشارہ ہیں جس میں انہیں ہفتے والے دن مچھلیوں کا شکار کرنے سے منع کردیا گیا تھا۔ لیکن بطور آزمائش ہفتے والے دن مچھلیاں کثرت سے آتیں اور پانی کے اوپر ظاہر ہو ہو کر انہیں دعوت شکار دیتیں۔ اور جب یہ دن گزر جاتا تو اس طرح نہ آتیں۔ بالآخر یہودیوں نے ایک حیلہ کر کے حکم الہی سے تجاوز کیا کہ گڑھے کھود لیے تاکہ مچھلیاں اس میں پھنسی رہیں اور جب ہفتے کا دن گزر جاتا تو پھر انہیں پکڑ لیتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦٧] یعنی ذرا یہود مدینہ سے سبت والوں کی بات تو پوچھئے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ قصہ ان میں بڑا مشہور و معروف تھا اور بروایت تواتر چلا آ رہا تھا۔ جس سے یہود انکار نہیں کرسکتے تھے یہ کوئی ایسا حکم نہیں تھا جس کا بجا لانا آپ کے لیے ضروری ہو یا فی الواقع آپ نے یہود سے پوچھا ہو اس واقعہ کی تفصیل بھی پہلے سورة بقرہ کی آیت ٦٥ کے حواشی میں گزر چکی ہے اور اس قصہ کو یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ جتلانا ہے کہ یہ یہود نسلاً بعد نسل سرکش اور نافرمان چلے آ رہے ہیں۔ سرکشی اور نافرمانی ان کی رگ رگ میں رچی ہوئی ہے۔ لہذا ان کی اسلام دشمن سرگرمیاں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے کچھ تعجب نہ ہونا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ ان کی شکلیں فی الواقع بندروں جیسی بن گئی تھیں یا نہیں تو اگرچہ بعض لوگوں نے اس کا انکار کیا تھا تاہم راجح قول یہی ہے کہ وہ فی الواقع بندر بنا دیئے گئے جو ایک دوسرے کو پہچانتے، چیخیں مارتے اور روتے تھے پھر اسی حالت میں تین دن کے بعد مرگئے اور بعض کہتے ہیں کہ ان کے چہروں میں اس قسم کا ورم پیدا ہوا جس سے ان کے چہرے بالکل بندروں جیسے معلوم ہوتے تھے۔ آخر اسی حالت میں تین روز بعد مرگئے اور یہ واقعہ سیدنا داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ میں پیش آیا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ ۔۔ : اس واقعہ کا انداز بیان پچھلی آیات سے ذرا مختلف ہے، فرمایا، ان سے اس بستی کے بارے میں پوچھیے، کیونکہ تورات یا کسی کتاب میں اس کا ذکر نہیں تھا مگر یہودیوں کو یہ واقعہ خوب معلوم تھا اور وہ اپنے دوسرے عیوب کی طرح اسے بھی چھپاتے تھے۔ جب آپ پوچھیں گے تو انھیں ضرور سوچنے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ اس واقعہ کی خبر آپ تک کیسے پہنچی، وحی کے سوا کوئی اور ذریعہ اس کے لیے ممکن نہیں، اس لیے لامحالہ انھیں آپ کے نبی الٰہی ہونے کی ایک اور شہادت مل جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہ بتایا ہے کہ وہ بستی سمندر کے کنارے آباد تھی اور نصیحت کے لیے اتنا بتانا ہی کافی تھا۔ البتہ اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ اس قریہ (شہر) سے مراد ” ایلات “ ہے جو بحر قلزم کے ساحل پر مدین اور طور کے درمیان واقع ہے۔ یہ شہر بحر قلزم کے اندر خلیج عقبہ میں اس جگہ واقع تھا جہاں اب اردن کی بندرگاہ عقبہ پائی جاتی ہے، اس کے قریب خلیج عقبہ ہی میں یہودیوں نے جو نئی بندرگاہ بنائی ہے اس کا نام انھوں نے ” ایلات “ ہی رکھا ہے۔ مگر کسی یقینی دلیل کے بغیر اس شہر کی تعیین ممکن نہیں۔ اِذْ يَعْدُوْنَ فِي السَّبْتِ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہفتے کے دن ان کے لیے شکار جائز نہیں تھا۔ اِذْ تَاْتِيْهِمْ حِيْتَانُهُمْ ۔۔ : ” حِیْتَانٌ“ یہ ” حُوْتٌ“ کی جمع ہے، یعنی بڑی مچھلی۔ دوسری جگہ یونس (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ ) [ الصافات : ١٤٢ ] ” پس مچھلی نے اسے نگل لیا۔ “ (راغب) ” شُرَّعًا “ ” شَارِعٌ“ کی جمع ہے، یعنی پانی سے سر نکالے ہوئے آ جاتیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ انھیں حکم تو یہ تھا کہ اس دن کی تعظیم کریں اور اس میں شکار وغیرہ سے باز رہیں مگر انھوں نے فریب اور حیلہ سازی سے مچھلیاں پکڑنا شروع کردیا، چناچہ انھوں نے سمندر کے کنارے بڑے بڑے حوض کھود لیے، ہفتہ کے دن مچھلیاں پانی کے اوپر آتیں تو ان حوضوں میں داخل ہوجاتیں، وہ سمندر کی طرف سے ان کا راستہ بند کردیتے اور اتوار کے دن ان کو پکڑ لیتے، یا جمعہ کے دن سمندر میں جال نصب کردیتے اور ہفتہ کے دن ان میں پھنسی ہوئی مچھلیوں کو اتوار کے دن پکڑ لیتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی حرام کام کا ارتکاب کرنے کے لیے حیلہ کرنا حرام ہے۔ ہاں جائز کام کے لیے حیلہ بھی جائز ہے۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے امام ابوعبد اللہ بن بطہ (رض) کی سند سے ابوہریرہ (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل فرمایا ہے : ( لَا تَرْتَکِبُوْا مَا ارْتَکَبَتِ الْیَھُوْدُ فَتَسْتَحِلُّوْا مَحَارِمَ اللّٰہِ بِأَدْنَی الْحِیَلِ )” وہ کام مت کرو جو یہود نے کیا، ورنہ تم اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو معمولی حیلوں سے حلال کرلو گے۔ “ اور فرمایا کہ یہ سند جید ہے۔ مگر افسوس کہ بعض مسلمان فقہاء نے اسلام کے فرائض سے جان چھڑانے کے لیے کئی حیلے ایجاد کیے، مثلاً رمضان کے آخر میں دو رکعتوں کا نام قضائے عمری رکھ کر پچھلی نمازیں معاف ہونے کا فتویٰ دے دیا اور صاف لکھ دیا کہ زکوٰۃ اور شفعہ سے جان چھڑانے کے لیے حیلہ حرام تو کجا مکروہ بھی نہیں۔ قتل کے قصاص کو ختم کرنے کے لیے تیز دھار آلے سے قتل کی شرط لگا دی اور کہا کہ اگر کوئی جان بوجھ کر بھاری سے بھاری پتھر یا ہتھوڑے کے ساتھ قتل کر دے، یا ڈبو کر مار دے، یا برف کے بلاک میں رکھ کر، یا کسی چار دیواری میں بھوکا پیاسا رکھ کر مار دے تو اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا، زیادہ سے زیادہ دیت لے سکتے ہیں۔ زنا کو حلال کرنے کے لیے اجرت پر عورت لا کر زنا کرنے سے حد ختم کردی۔ شراب حلال کرنے کے لیے صرف انگور اور کھجور کی شراب کو حرام اور باقی سب کو حلال کہہ دیا۔ چور کی حد چوری کا جرم شہادتوں سے ثابت ہونے کے بعد صرف اتنی بات سے ختم کردی کہ چور مسروقہ مال کا مالک ہونے کا دعویٰ کر دے، خواہ اس کی کوئی دلیل بھی پیش نہ کرے۔ بتائیے بلا دلیل دعویٰ کرنے سے ہاتھ کٹنے سے بچ جائے تو کون سا چور یہ دعویٰ نہیں کرے گا۔ سود کو دار الحرب میں اور بہت سی خود ساختہ صورتوں میں حلال کردیا۔ بعض نے جو شخص نماز پڑھے اور جو نہ پڑھے دونوں کا ایمان برابر قرار دے دیا۔ جب اتنے بڑے گناہ حیلے سے جائز ہوگئے تو ان کے مرتکب بھی صالح اور عادل ٹھہرے اور حکومت اور قضاء کے اہل قرار دیے گئے۔ ایسے حکام، ایسی عدالتوں اور ایسے شاہدوں اور قاضیوں کے فیصلوں کا نتیجہ اہل کتاب ہی کی طرح پہلے شدید بدعملی، پھر انتہائی ذلت کی صورت میں سب کے سامنے ہے، اس کا علاج یہی ہے کہ مسلمان ان ” الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “ کا طریقہ چھوڑ کر کتاب و سنت کو بلاحیل و حجت مضبوطی سے تھام لیں تو اللہ تعالیٰ انھیں پھر وہی عزت و کرامت عطا فرمائے گا جو اس نے پہلے عطا فرمائی تھی۔ كَذٰلِكَ ڔ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو حلال روزی نہ ملے اور حرام آسانی سے ملے تو لازم ہے کہ وہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش سمجھے، اگر حرام کا مرتکب ہوجائے گا تو وہ روزی وبال ہوگی اور اگر صبر کرے گا اور حرام سے بچ کر امتحان میں کامیاب ہوجائے گا تو انعام ملے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The detailed discussion of the events contained in the above verses have been produced in Surah Al-Baqarah (under verses 58-60). Those interested may refer to those verses for details. The Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم has been asked to warn the Israelites present in his time by reminding them the events related in these verses. The events referred to in these verses are clear and require no explanation.

خلاصہ تفسیر اور آپ ان ( اپنے ہمعصر یہودی) لوگوں سے ( بطور تنبیہ کے) اس بستی ( والوں) کا جو کہ دریائے شور کے قریب آباد تھے (اور اس میں یہودی رہتے تھے جن کو ہفتہ کے روز شکار کرنا ممنوع تھا) اس وقت کا حال پوچھئے جب کہ وہ ( وہ ان کے بسنے والے) ہفتہ ( کے متعلق جو حکم تھا اس) کے بارے میں حد (شرعی) سے نکل رہے تھے جب کہ ان کے ہفتہ کے روز تو ان (کے دریا) کی مچھلیاں ( پانی سے سر نکال نکال) ظاہر ہو ہو کر ( سطح دریا پر) ان کے سامنے آتی تھیں اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں ( بلکہ وہاں سے دور کہیں چلی جاتی تھیں اور وجہ اس کی یہ تھی کہ) ہم ان کی اس طرح پر ( شدید) آزمائش کرتے تھے ( کہ کون حکم پر ثابت رہتا ہے کون نہیں رہتا اور یہ آزمائش) اس سبب سے ( تھی) کہ وہ ( پہلے سے) بےحکمی کیا کرتے تھے ( اسی لئے ایسے سخت حکم سے ان کی آزمائش کی اور اہل اطاعت کی آزمائش لطف اور توفیق اور تائید سے مقرون ہوا کرتی ہے) اور ( اس وقت کا حال پوچھئے) جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے ( جو کہ ان کو نصیحت کرتے کرتے اثر و نفع ہونے سے مایوس ہوگئے تھے ایسے لوگوں سے جو اب بھی نصیحت کئے چلے جارہے تھے اور اس قدر مایوس بھی نہ ہوئے تھے جیسا (آیت) لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ سے معلوم ہوتا ہے) یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کئے جاتے ہو جن ( سے قبول کی کچھ امید نہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان) کو اللہ تعالیٰ بالکل ہلاک کرنے والے ہیں یا ( ہلاک نہ ہوئے تو) ان کو ( کوئی اور طرح کی) سخت سزا دینے والے ہیں ( یعنی ایسوں کے ساتھ کیوں دماغ خالی کرتے ہو) انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے ( اور اپنے) رب کے روبرو عذر کرنے کے لئے ( ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ اللہ کے روبرو کہہ سکیں کہ اے اللہ ہم نے تو کہا تھا مگر انہوں نے نہ سنا ہم معذور ہیں) اور ( نیز) اس لئے کہ شاید ڈر جائیں ( اور عمل کرنے لگیں مگر وہ کب عمل کرتے تھے) سو ( آخر) جب وہ اس امر کے تارک ہی رہے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا ( یعنی نہ مانا) تو ہم نے ان لوگوں کو تو ( عذاب سے) بچا لیا جو اس بری بات سے منع کیا کرتے تھے ( خواہ برابر منع کرتے رہے اور خواہ بوجہ عذر یاس کے بیٹھ رہے) اور ان لوگوں کو جو کہ ( حکم مذکور میں) زیادتی کرتے تھے ان کی ( اس عدول حکمی کی وجہ سے) ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا یعنی جب وہ جس کام سے ان کو منع کیا گیا تھا اس میں حد سے نکل گئے ( یہ تو تفسیر ہوئی نسیان مَا ذُكِّرُوْا بِهٖٓ کی تو ہم نے ان کو ( براہ قہر) کہہ دیا کہ تم بندر ذلیل بن جاؤ یہ تفسیر ہوئی عذاب بئیس کی) واقعات مندرجہ آیات مذکورہ بھی معارف القرآن جلد اول سورة بقرہ میں تفصیل و تشریح کے ساتھ آچکے ہیں، اس کے متعلق ضروری باتیں وہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَسْــــَٔـلْہُمْ عَنِ الْقَرْيَۃِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ۝ ٠ ۘ اِذْ يَعْدُوْنَ فِي السَّبْتِ اِذْ تَاْتِيْہِمْ حِيْتَانُہُمْ يَوْمَ سَبْتِہِمْ شُرَّعًا وَّيَوْمَ لَا يَسْبِتُوْنَ۝ ٠ ۙ لَا تَاْتِيْہِمْ۝ ٠ ۚۛ كَذٰلِكَ۝ ٠ ۚۛ نَبْلُوْہُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ۝ ١٦٣ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں حضر الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام/ 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] ( ح ض ر ) الحضر یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ بحر أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر : 39- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره . ( ب ح ر) البحر ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ سبت أصل السَّبْتُ : القطع، ومنه سبت السّير : قطعه، وسَبَتَ شعره : حلقه، وأنفه : اصطلمه، وقیل : سمّي يوم السَّبْت، لأنّ اللہ تعالیٰ ابتدأ بخلق السموات والأرض يوم الأحد، فخلقها في ستّة أيّام کما ذكره، فقطع عمله يوم السّبت فسمّي بذلک، وسَبَتَ فلان : صار في السّبت وقوله : يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف/ 163] ، قيل : يوم قطعهم للعمل، وَيَوْمَ لا يَسْبِتُونَ [ الأعراف/ 163] ، قيل : معناه لا يقطعون العمل، وقیل : يوم لا يکونون في السّبت، وکلاهما إشارة إلى حالة واحدة، وقوله : إِنَّما جُعِلَ السَّبْتُ [ النحل/ 124] ، أي : ترک العمل فيه، وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ/ 9] ، أي : قطعا للعمل، وذلک إشارة إلى ما قال في صفة اللّيل : لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس/ 67] . ( س ب ت ) السبت کے اصل معنی قطع کرنے کے ہیں اور اسی سے کہا جاتا ہے سبت السیر اس نے تسمہ گو قطع کیا سینت شعرۃ اس نے اپنے بال مونڈے سبت انفہ اس کی کاٹ ڈالی ۔ بعض نے کہا ہے کہ ہفتہ کے دن کو یوم السبت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق اتوار کے دن شروع کی تھی اور چھ دن میں تخلیق عالم فرماکر سینچر کے دن اسے ختم کردیا تھا اسی سے سبت فلان ہے جس کے معنی ہیں وہ ہفتہ کے دن میں داخل ہوا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف/ 163] سنیچر کے دن ( مچھلیاں ) سینہ سیر ہوکر ان کے سامنے آجاتیں ۔ میں بعض نے یوم سبتھم سے ان کے کاروں بار کو چھوڑنے کا دن مراد لیا ہے اس اعتبار سے یوم لا یسبتون کے معنی یہ ہوں گے کہ جس روز وہ کاروبار چھوڑ تے اور بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ روز سینچر نہ ہوتا ان ہر دو معنی کا مآل ایک ہی ہے اور آیت : ۔ إِنَّما جُعِلَ السَّبْتُ [ النحل/ 124] میں سبت سے مراد سینچر کے دن عمل کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ سنیچر کے روز کام چھوڑنے کا حکم صرف لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس/ 67] اس لئے دیا گیا تھا اور آیت : ۔ وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ/ 9] اور نیند کو ( موجب ) راحت بنایا ۔ میں سبات کے معنی ہیں حرکت وعمل کو چھوڑ کر آرام کرنا اور یہ رات کی اس صفت کی طرف اشاریہ ہے جو کہ آیت : ۔ تاکہ تم رات میں راحت کرو لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس/ 67] . میں مذکور ہے یعنی رات کو راحت و سکون لے لئے بنایا ہے أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ شرع الشَّرْعُ : نهج الطّريق الواضح . يقال : شَرَعْتُ له طریقا، والشَّرْعُ : مصدر، ثم جعل اسما للطریق النّهج فقیل له : شِرْعٌ ، وشَرْعٌ ، وشَرِيعَةٌ ، واستعیر ذلک للطریقة الإلهيّة . قال تعالی: لِكُلٍّ جَعَلْنا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً [ المائدة/ 48] ، فذلک إشارة إلى أمرین : أحدهما : ما سخّر اللہ تعالیٰ عليه كلّ إنسان من طریق يتحرّاه ممّا يعود إلى مصالح العباد وعمارة البلاد، وذلک المشار إليه بقوله : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً سُخْرِيًّا [ الزخرف/ 32] . الثاني : ما قيّض له من الدّين وأمره به ليتحرّاه اختیارا ممّا تختلف فيه الشّرائع، ويعترضه النّسخ، ودلّ عليه قوله : ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها[ الجاثية/ 18] . قال ابن عباس : الشِّرْعَةُ : ما ورد به القرآن، والمنهاج ما ورد به السّنّة وقوله تعالی: شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً [ الشوری/ 13] ، فإشارة إلى الأصول التي تتساوی فيها الملل، فلا يصحّ عليها النّسخ کمعرفة اللہ تعالی: ونحو ذلک من نحو ما دلّ عليه قوله : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ النساء/ 136] . قال بعضهم : سمّيت الشَّرِيعَةُ شَرِيعَةً تشبيها بشریعة الماء من حيث إنّ من شرع فيها علی الحقیقة المصدوقة روي وتطهّر، قال : وأعني بالرّيّ ما قال بعض الحکماء : كنت أشرب فلا أروی، فلمّا عرفت اللہ تعالیٰ رویت بلا شرب . وبالتّطهّر ما قال تعالی: إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب/ 33] ، وقوله تعالی: إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف/ 163] ، جمع شارع . وشَارِعَةُ الطّريق جمعها : شَوَارِعُ ، وأَشْرَعْتُ الرّمح قبله، وقیل : شَرَعْتُهُ فهو مَشْرُوعٌ ، وشَرَعْتُ السّفينة : جعلت لها شراعا ينقذها، وهم في هذا الأمر شَرْعٌ ، أي : سواء . أي : يَشْرَعُونَ فيه شروعا واحدا . و ( شرعک) من رجل زيد، کقولک : حسبک . أي : هو الذي تشرع في أمره، أو تشرع به في أمرك، والشِّرْعُ خصّ بما يشرع من الأوتار علی العود . ( ش ر ع ) الشرع سیدھا راستہ جو واضح ہو یہ اصل میں شرعت لہ طریقا ( واضح راستہ مقرر کرنا ) کا مصدر ہے اور بطور اسم کے بولا جاتا ہے ۔ چناچہ واضح راستہ کو شرع وشرع وشریعۃ کہا جاتا ہے ۔ پھر استعارہ کے طور پر طریق الہیہ پر یہ الفاظ بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً [ المائدة/ 48] ایک دستور اور طریق اس میں دو قسم کے راستوں کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ ایک وہ راستہ جس پر اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مسخر کر رکھا ہے کہ انسان اسی راستہ پر چلتا ہے جن کا تعلق مصالح عباد اور شہروں کی آبادی سے ہے چناچہ آیت : ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً سُخْرِيًّا [ الزخرف/ 32] اور ہر ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے ۔ میں اسی طرف اشارہ ہے دوسرا راستہ دین کا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے مقرر فرما کر انہیں حکم دیا ہے کہ انسان اپنے اختیار سے اس پر چلے جس کے بیان میں شرائع کا اختلاف پایا جاتا ہے اور اس میں نسخ ہوتا رہا اور جس پر کہ آیت : ۔ ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها[ الجاثية/ 18] پھر ہم نے دین کے کھلے راستہ پر قائم ) کردیا تو اسی راستے پر چلے چلو ۔ دلالت کرتا ہے حضرت ابن عباس (علیہ السلام) کا قول ہے کہ شرعۃ وہ راستہ ہے جسے قرآن نے بیان کردیا ہے اور منھا وہ ہے جسے سنت نے بیان کیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً [ الشوری/ 13] اس نے تمہارے لئے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس کے اختیار کرنے کا حکم دیا تھا ۔ میں دین کے ان اصول کی طرف اشارہ ہے جو تمام ملل میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں اور ان میں نسخ نہیں ہوسکتا۔ جیسے معرفت الہی اور وہ امور جن کا بیان آیت . وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ النساء/ 136] اور جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اسکی کتابوں اور اس کے پیغمبروں سے انکار کرے ۔ میں پایا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ شریعت کا لفظ شریعۃ الماء سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی پانی کے گھاٹ کے ہیں اور شریعت کو شریعت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی صحیح حقیقت پر مطلع ہونے سے سیرابی اور طہارت حاصل ہوجاتی ہے ۔ سیرابی سے مراد معرفت الہی کا حصول ہے جیسا کہ بعض حکماء کا قول ہے کہ میں پیتا رہا لیکن سیرنہ ہوا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوگئی تو بغیر پینے کے سیری حاصل ہوگئی اور طہارت سے مراد وہ طہارت ہے جس کا ذکر کہ آیت ؛ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب/ 33] اے پیغمبر کے اہل خانہ خدا چاہتا ہے کہ تم سے نا پاکی کی میل کچیل صاف کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے میں پایا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف/ 163] ( یعنی ) اس وقت کہ ان کے ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپر آتیں ۔ میں شرعا ، شارع کی جمع ہے ۔ اور شارعۃ الطریق کی جمع شوارع آتی ہے جس کے معنی کھلی سڑک کے ہیں ۔ اشرعت الرمح قبلہ میں نے اس کی جانب نیزہ سیدھا کیا ۔ بعض نے شرعتہ فھو مشروع کہا ہے اور شرعت السفینۃ کے معنی جہاز پر بادبان کھڑا کرنے کے ہیں جو اسے آگے چلاتے ہیں ۔ ھم فی ھذالامر شرع ۔ یعنی وہ سب اس میں برابر ہیں ۔ یعنی انہوں نے اسے ایک ہی وقت میں شروع کیا ہے اور شرعک من رجل زید بمعنی حسبک ہے یعنی زید ہی اس قابل ہے کہ تم اس کا قصد کرویا اسکے ساتھ مک کر اپنا کام شروع کرو ۔ الشرع ۔ بریط کے وہ تار جن سے راگ شروع کیا جاتا ہے بلی يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس/ 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] ، وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة/ 155] ، وقال عزّ وجل : إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وسمي التکليف بلاء من أوجه : - أحدها : أن التکالیف کلها مشاق علی الأبدان، فصارت من هذا الوجه بلاء . - والثاني : أنّها اختبارات، ولهذا قال اللہ عزّ وجل : وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد/ 31] . - والثالث : أنّ اختبار اللہ تعالیٰ للعباد تارة بالمسار ليشکروا، وتارة بالمضار ليصبروا، فصارت المحنة والمنحة جمیعا بلاء، فالمحنة مقتضية للصبر، والمنحة مقتضية للشکر . والقیام بحقوق الصبر أيسر من القیام بحقوق الشکر فصارت المنحة أعظم البلاء ین، وبهذا النظر قال عمر : ( بلینا بالضراء فصبرنا وبلینا بالسراء فلم نشکر) «4» ، ولهذا قال أمير المؤمنین : من وسع عليه دنیاه فلم يعلم أنه قد مکر به فهو مخدوع عن عقله «1» . وقال تعالی: وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء/ 35] ، وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً [ الأنفال/ 17] ، وقوله عزّ وجل : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] ، راجع إلى الأمرین، إلى المحنة التي في قوله عزّ وجل : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة/ 49] ، وإلى المنحة التي أنجاهم، وکذلک قوله تعالی: وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان/ 33] ، راجع إلى الأمرین، كما وصف کتابه بقوله : قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت/ 44] . وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة/ 124] . ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها ( ب ل ی ) بلی الوقب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔ ۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة/ 155] اور ہم کسی قدر خوف سے تمہاری آزمائش کریں گے ۔ إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ اور تکلف کو کئی وجوہ کی بناہ پر بلاء کہا گیا ہے ایک اسلئے کہ تکا لیف بدن پر شاق ہوتی ہیں اس لئے انہیں بلاء سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ دوم یہ کہ تکلیف بھی ایک طرح سے آزمائش ہوتی ہے ۔ جیسے فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد/ 31] اور ہم تو لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں ان کو معلوم کریں ۔ سوم اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کبھی تو بندوں کو خوش حالی سے آزماتے ہیں کہ شکر گزار بنتے ہیں یا نہیں اور کبھی تنگی کے ذریعہ امتحان فرماتے ہیں کہ ان کے صبر کو جانچیں ۔ لہذا مصیبت اور نعمت دونوں آزمائش ہیں محنت صبر کا تقاضا کرتی ہے اور منحتہ یعنی فضل وکرم شکر گزاری چاہتا ہے ۔ اور اس میں شک نہیں کہ کہا حقہ صبر کرنا کہا حقہ شکر گزاری سے زیادہ آسان ہوتا ہے اس لئے نعمت میں یہ نسبت مشقت کے بڑی آزمائش ہے اسی بنا پر حضرت عمر فرماتے ہیں کہ تکا لیف پر تو صابر رہے لیکن لیکن فراخ حالی میں صبر نہ کرسکے اور حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس پر دنیا فراخ کی گئی اور اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ آزامائش کی گرفت میں ہے تو و فریب خوردہ اور عقل وفکر سے مخزوم ہے قرآن میں ہے ۔ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء/ 35] اور ہم تم لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں ۔ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً «2» [ الأنفال/ 17] اس سے غرض یہ تھی کہ مومنوں کو اپنے ( احسانوں ) سے اچھی طرح آزما لے ۔ اور آیت کریمہ : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] اور اس میں تمہاراے پروردگار کی طرف سے بڑی ( سخت ) آزمائش تھی میں بلاء کا لفظ نعمت و مشقت دونوں طرح کی آزمائش کو شامل ہی چناچہ آیت : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة/ 49]( تہمارے بیٹوں کو ) تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ میں مشقت کا بیان ہے اور فرعون سے نجات میں نعمت کا تذکرہ ہے اسی طرح آیت وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان/ 33] اور ان کو نشانیاں دی تھیں جنیہں صریح آزمائش تھی میں دونوں قسم کی آزمائش مراد ہے جیسا کہ کتاب اللہ کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت/ 44] ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة/ 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔ فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٣) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان یہود سے بستی والوں کے متعلق بھی پوچھیے، کہ ہفتہ کے روز مچھلیاں پکڑنے میں شرعی حدود سے تجاوز کرتے تھے، اس دن پانی کی تہہ سے کنارا پر بہت زیادہ مچھلیاں آتی تھیں ان کی نافرمانیوں کے باعث اس طرح ان کی آزمایش کی گئی تھی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٣ (وََسْءَلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ ٧) اب یہ اصحاب سبت کا واقعہ آ رہا ہے۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہ بستی اس مقام پر واقع تھی جہاں آج کل ایلات کی بندر گاہ ہے۔ ١٩٦٦ ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مصر نے اسی بندرگاہ کا گھیراؤ کیا تھا ‘ جس کے خلاف اسرائیل نے شدید ردِّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے مصر ‘ شام اور اردن پر حملہ کر کے ان کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ مصر سے جزیرہ نمائے سینا ‘ شام سے جولان کی پہاڑیاں اور اردن سے پورا مغربی کنارہ ‘ جو فلسطین کا زرخیز ترین علاقہ ہے ‘ ہتھیا لیا تھا۔ بہر حال ایلات کی اس بندرگاہ کے علاقے میں مچھیروں کی وہ بستی آباد تھی جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔ (اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ ) (اِذْ تَاْتِیْہِمْ حِیْتَانُہُمْ یَوْمَ سَبْتِہِمْ شُرَّعًا) شُرَّع کے معنی ہیں سیدھے اٹھائے ہوئے نیزے۔ یہاں یہ لفظ مچھلیوں کے لیے آیا ہے تو اس سے منہ اٹھائے ہوئے مچھلیاں مراد ہیں۔ کسی جگہ مچھلیوں کی بہتات ہو اور وہ بےخوف ہو کر بہت زیادہ تعداد میں پانی کی سطح پر ابھرتی ہیں ‘ چھلانگیں لگاتیں ہیں۔ اس طرح کے منظر کو یہاں شُرَّعًاسے تشبیہہ دی گئی ہے۔ یعنی مچھلیوں کی اس بےخوف اچھل کود کا منظر ایسے تھا جیسے کہ نیزے چل رہے ہوں۔ دراصل تمام حیوانات کو اللہ تعالیٰ نے چھٹی حس سے نواز رکھا ہے۔ ان مچھلیوں کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ ہفتے کے دن خاص طور پر ہمیں کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔ اس لیے اس دن وہ بےخوف ہو کر ہجوم کی صورت میں اٹھکیلیاں کرتی تھیں ‘ جبکہ وہ لوگ جن کا پیشہ ہی مچھلیاں پکڑنا تھا وہ ان مچھلیوں کو بےبسی سے دیکھتے تھے ‘ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ‘ کیونکہ یہود کی شریعت کے مطابق ہفتے کے دن ان کے لیے کاروبار دنیوی کی ممانعت تھی۔ (وَّیَوْمَ لاَ یَسْبِتُوْنَلا لاَ تَاْتِیْہِمْ ج) ہفتے کے باقی چھ دن مچھلیاں ساحل سے دور گہرے پانی میں رہتی تھیں ‘ جہاں سے وہ انہیں پکڑ نہیں سکتے تھے ‘ کیونکہ اس زمانے میں ابھی ایسے جہاز اور آلات وغیرہ ایجاد نہیں ہوئے تھے کہ وہ لوگ گہرے پانی میں جا کر مچھلی کا شکار کرسکتے۔ کَذٰلِکَ ج نَبْلُوْہُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ۔ آئے دن کی نا فرمانیوں کی وجہ سے ان کو اس آزمائش میں ڈالا گیا کہ شریعت کے حکم پر قائم رہتے ہوئے فاقے برداشت کرتے ہیں یا پھر نافرمانی کرتے ہوئے شریعت کے ساتھ تمسخر کی صورت نکال لیتے ہیں۔ چناچہ انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور ان میں سے کچھ لوگوں نے اس قانون میں چور دروازہ نکال لیا۔ وہ ہفتے کے روز ساحل پر جا کر گڑھے کھودتے اور نالیوں کے ذریعے سے انہیں سمندر سے ملادیتے۔ اب وہ سمندر کا پانی ان گڑھوں میں لے کر آتے تو پانی کے ساتھ مچھلیاں گڑھوں میں آ جاتیں اور پھر وہ ان کی واپسی کا راستہ بند کردیتے۔ اگلے روز اتوار کو جا کر ان مچھلیوں کو آسانی سے پکڑ لیتے اور کہتے کہ ہم ہفتے کے روز تو مچھلیوں کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس طرح شریعت کے حکم کے ساتھ انہوں نے یہ مذاق کیا کہ اس حکم کی اصل روح کو مسنح کردیا۔ حکم کی اصل روح تو یہ تھی کہ چھ دن دنیا کے کام کرو اور ساتواں دن اللہ کی عبادت کے لیے وقف رکھو ‘ جبکہ انہوں نے یہ دن بھی گڑھے کھودنے ‘ پانی کھولنے اور بند کرنے میں صرف کرنا شروع کردیا۔ اب اس آبادی کے لوگ اس معاملے میں تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک گروہ تو براہ راست اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث تھا۔ جب کہ دوسرے گروہ میں وہ لوگ شامل تھے جو اس گناہ میں ملوث تو نہیں تھے مگر گناہ کرنے والوں کو منع بھی نہیں کرتے تھے ‘ بلکہ اس معاملے میں یہ لوگ خاموش اور غیر جانبدار رہے۔ تیسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو گناہ سے بچے بھی رہے اور پہلے گروہ کے لوگوں کو ان حرکتوں سے منع کرکے باقاعدہ نہی عن المنکرکا فریضہ بھی ادا کرتے رہے۔ اب اگلی آیت میں دوسرے اور تیسرے گروہ کے افراد کے درمیان مکالمہ نقل ہوا ہے۔ غیر جانبدار رہنے والے لوگ نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والے لوگوں سے کہتے تھے کہ یہ اللہ کے نافرمان لوگ تو تباہی سے دو چار ہونے والے ہیں ‘ انہیں سمجھانے اور نصیحتیں کرنے کا کیا فائدہ ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

122. Most scholars identify this place with Eilat, Eilath or Eloth. (Cf. Encyclopaedia Britannica, XV edition, 'Macropaedia', vol. 3, art. 'Elat' -Ed.) The seaport called Elat which has been built by the present state of Israel (which is close to the Jordanian seaport, Aqaba), stands on the same site. It lies at the end of that long inlet of the Red Sea situated between the eastern part of the Sinai peninsula and the western part of Arabia. It was a major trading centre in the time of Israelite ascendancy. The Prophet Solomon took this city as the chief port for his fleet in the Red Sea. The event referred to in the above verse is not reported in Jewish Scriptures. Nor do historical accounts shed any light on it. Nonetheless, it appears from the way it has been mentioned in the above verse and in al-Baqarah that the Jews of the early days of Islam were quite familiar with the event. (See Towards Understanding the Qur'an, vol. 1, al-Baqarah 2: 65 and n. 83, pp. 81-2 - Ed.) This view is further corroborated by the fact that even the Madinan Jews who spared no opportunity to criticize the Prophet (peace be on him) did not raise any objection against this (Qur'anic account. 123. 'Sabbath', which means Saturday, was declared for the Israelites as the holi day of the week. God declared the Sabbath as a sign of the perpetual covenant between God and Israel. (Exodus 31: 12-16.) The Israelites were required to strictly keep the Sabbath which meant that they may not engage in any worldly activity; they may not cook, nor make their slaves or cattle serve them. Those who violated these rules were to be put to death. The Israelites, however, publicly violated these rules. In the days of the Prophet Jeremiah (between 628 and 586 B.C.), the Israelites carried their merchandise through the gates of Jerusalem on the Sabbath day itself. Jeremiah, therefore, warned them that if they persisted in their flagrant violation of the Law, Jerusalem would be set on fire. (Jererniah 17: 21-7.) The same complaint is voiced in the Book of the Prophet Ezekiel (595-536 B.C.) who referred to their violation of the Sabbath rules as their major sin. (Ezekiel 20: 12-24.) In view of these Scriptural references it seems plausible that the event mentioned in the above Qur'anic verse is related to the same period. 124. Men are tested by God in a variety of ways. When a person or group of people begin to turn away from God and incline themselves towards disobedience, God provides abundant opportunities for them to disobey. This is done in order that the full potential for disobedience, which had remained hidden because of lack of such an opportunity, might come to the surface.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :122 محققین کا غالب میلان اس طرف ہے کہ یہ مقام اَیلہ یا اَیلات یا اَیلوت تھا جہاں اب اسرائیل کی یہودی ریاست نے اسی نام کی ایک بندرگاہ بنائی ہے اور جس کے قریب ہی اُردن کی مشہور بندرگاہ عَقَبہ واقع ہے ۔ اس کی جائے وقوع بحرِ قلزم کی اس شاخ کے انتہائی سرے پر پے جو جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی اور عرب کے مغربی ساحل کے درمیان ایک لمبی خلیج کی صورت میں نظر آتی ہے ۔ بنی اسرائیل کے زمانہ عروج میں یہ بڑا اہم تجارتی مرکز تھا ۔ حضرت سلیمان نے اپنے بحرِ قلزم کے جنگی و تجارتی بیڑے کا صدر مقام اسی شہر کو بنایا تھا ۔ جس واقعہ کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے اس کے متعلق یہودیوں کی کتب مقدسہ میں کوئی ذکر ہمیں نہیں ملتا اور ان کی تاریخیں بھی اس باب میں خاموش ہیں ، مگر قرآن مجید میں جس انداز سے اس واقعہ کو یہاں اور سورہ بقرہ میں بیان کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے دور میں بنی اسرائیل بالعموم اس واقعہ سے خوب واقف تھے ، اور یہ حقیقت ہے کہ مدینہ کے یہودیوں نے ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتے تھے ، قرآن کے اس بیان پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :123 ”سبت“ ہفتہ کے دن کو کہتے ہیں ۔ یہ دن بنی اسرائیل کے لیے مقدس قرار دیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے اور اولادِ اسرائیل کے درمیان پشت در پشت تک دائمی عہد کا نشان قرار دیتے ہوئے تاکید کی تھی کہ اس روز کوئی دنیوی کام نہ کیا جائے ، گھروں میں آگ تک نہ جلائی جائے ، جانوروں اور لونڈی غلاموں تک سے کوئی خدمت نہ لی جائے اور یہ کہ جو شخص اس ضابطہ کی خلاف ورزی کرے اسے قتل کر دیا جائے ۔ لیکن بنی اسرائیل نے آگے چل کر اس قانون کی علانیہ خلاف ورزی شروع کر دی ۔ یرمیاہ نبی کے زمانہ میں ( جو ٦۲۸ اور ۵۸٦ء قبل مسیح کے درمیان گزرے ہیں ) خاص یروشلم کے پھاٹکوں سے لوگ سبت کے دن مال اسباب لے لے کر گزرتے تھے ۔ اس پر نبی موصوف نے خدا کی طرف سے یہودیوں کو دھمکی دی کہ اگر تم لوگ شریعت کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی سے باز نہ آئے تو یردشلم نذر آتش کردیا جائے گا ( یرمیاہ ١۷:۲١ ۔ ۲۷ ) ۔ اسی کی شکایت حزقی ایل نبی بھی کرتے ہیں جن کا دور۵۹۵ء اور۵۳٦ قبل مسیح کے درمیان گزرا ہے ، چنانچہ ان کی کتاب میں سبت کی بے حرمتی کو یہودیوں کے قومی جرائم میں سے ایک بڑا جرم قرار دیا گیا ہے ( حزقی ایل۲۰:١۲ ۔ ۲٤ ) ۔ ان حوالوں سے یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید یہاں جس واقعہ کا ذکر کر رہا ہے وہ بھی غالباً اسی دور کا واقعہ ہوگا ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :124 اللہ تعالیٰ بندوں کی آزمائش کے لیے جو طریقے اختیار فرماتا ہے ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جب کسی شخص یا گروہ کے اندر فرماں برداری سے انحراف اور نافرمانی کی جانب میلان بڑھنے لگتا ہے تو اس کے سامنے نافرمانی کے مواقع کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے تاکہ اس کے وہ میلانات جو اندر چھپے ہوئے ہیں کھل کر پوری طرح نمایاں ہو جائیں اور جن جرائم سے وہ اپنے دامن کو خود داغ دار کرنا چاہتا ہے ان سے وہ صرف اس لیے باز نہ رہ جائے کہ ان کے ارتکاب کے مواقع اسے نہ مل رہے ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

80: یہ واقعہ بھی اختصار کے ساتھ سورۂ بقرہ (٢۔ ٦٥، ٦٦) میں گزرا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ سنیچر کو عربی اور عبرانی زبان میں سبت کہتے ہیں، یہودیوں کے لئے اسے ایک مقدس دن قرار دیا گیا تھا، جس میں ان کے لئے معاشی سرگرمیاں ممنوع تھیں، جن یہودیوں کا یہاں ذکر ہے وہ (غالباً حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں) کسی سمندر کے کنارے رہتے تھے، اور مچھلیاں پکڑا کرتے تھے، سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑ نا ان کے لئے ناجائز تھا، مگر شروع میں انہوں نے کچھ حیلے کرکے اس حکم کی خلاف ورزی کرنی چاہی، اور پھر کھلم کھلا مچھلیاں پکڑنی شروع کردیں، کچھ نیک لوگوں نے انہیں سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے، بالآخر ان پر عذاب آیا اور ان کی صورتیں مسخ کرکے انہیں بندر بنادیا گیا، سورۃ بقرہ میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اگرچہ موجودہ بائبل میں موجود نہیں ہے لیکن عرب کے یہودی اس سے خوب اچھی طرح واقف تھے 81: جب کوئی قوم نافرمانی پر کمر باندھ لیتی ہے تو بعض اوقات اللہ تعالیٰ اسے ڈھیل دیتے ہیں جیسا کہ آگے آیت نمبر 182 میں خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ سنیچر کے دن معاشی سرگرمیوں سے باز رہنا اپنی ذات میں کچھ اتنا نا قابل برداشت نہیں تھا، لیکن جس قوم کی سرشت ہی میں نافرمانی تھی، اس نے جب کسی معقول وجہ کے بغیر احکام کی خلاف ورزی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ ڈھیل دی کہ سنیچر کے دن مچلیاں اتنے افراط کے ساتھ نظر آنے لگیں کہ دوسرے دنوں میں اتنے افراط کے ساتھ نظر نہیں آتی تھیں۔ اس سے ان کو نافرمانی کا اور حوصلہ ہوا، اور وہ یہ نہ سمجھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف ڈھیل اور آزمائش ہے۔ اور انہوں نے ایسے ایسے حیلے کیے کہ سنیچر کے دن مچھلی کی دم میں رسی اٹکا کر اسے زمین کی کسی چیز سے باندھ دیا۔ اور اتوار کے دن اسے پکا کھایا۔ جب ان حیلوں سے نافرمانی کا حوصلہ بڑھا تو کھلم کھلا شکار شروع کردیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر کسی شخص کو گناہ کے وافر مواقع میسر آرہے ہوں تو اسے ڈرنا چاہئے کہ یہ کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل نہ ہو جس کے بعد وہ ایک دم پکڑ لیا جائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

یہ قصہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے وقت کا ہے حضرت صلعم کو اللہ پاک نے حکم دیا کہ یہود سے آپ ہفتہ کے دن شکار کھیلنے والوں کا حال دریافت کریں اور ان کو یہ قصہ سنا کر ڈرائیں کہ کس طرح ان لوگوں پر بہ سبب مخالفت حکم الٰہی کے عذاب نازل ہوا کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی اسی طرح عذاب آوے تم میری صفت کو جو تمہاری کتابوں میں لکھی ہوئی ہے چھپائے ہو۔ وہ لوگ بحر قلزم کے کنارے رہتے تھے ابن عباس (رض) وغیرہ کا قول ہے کہ مدین اور طور کے درمیان میں ایک قریہ ایلہ تھا وہاں یہ لوگ رہتے تھے ان کو ہفتہ کے دن شکار کرنے کو منع کیا گیا تھا لیکن یہ لوگ بےک ہے خدا کے حکم کے خلاف جرأت کے بیٹھے تھے اس لئے ان کی آزمائش کی گئی ہفتہ کے دن جس روز شکار منع تھا کثرت ہے مچھلیاں پانی پر آجایا کرنی تھیں اور روز کہیں پتہ بھی نہیں ملتا تھا یہ لوگ امتحان میں پورے نہیں اترنے لگے حیلہ کرنے دریا کے کنارے کنارے پانی کاٹ لائے اور ایک گڑھے میں جمع کیا کہ ہفتہ کے دن جب مچھلیاں آویں تو اس جگہ آکر جمع ہوجاویں یہاں سے نکل نہ سکیں پھر ان کو دوسرے روز پکڑلیں گے مگر پھر بھی مچھلیاں ہاتھ نہ آئیں ہفتہ کی شام کو نکل جاتیں آخر یہ کہ ان لوگوں نے ہفتہ کے دن مچھلیوں کی راہ بند کی اتورا کے دن ان کو پکڑلیا۔ اللہ نے اس عدول حکمی کا یہ مزہ چکھایا کہ ان کو بندر بنادیا صحیح بخاری وسلم وغیرہ میں جابر (رض) کی حدیث ہے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ یہود کو غارت کرے کہ ان پر جب مردہ جانوروں کی چربی کا استعمال اور اس کی خریدو فروخت منع ہوئی تو انہوں نے یہ حیلہ نکالا کہ چربی پگھلا کر تیل کی طرح اس کی خریدو فروخت جاری کردی اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ یہود نے جس طرح ہفتہ کے دن مچھلیوں کے پکڑنے کا حیلہ نکالا تھا اسی طرح مردہ جانوروں کی چربی کی خرید فروخت کا حیلہ نکال کر اس حیلہ کو حرام چیز کے حلال ٹھہرانے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دیا تھا اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس حیلہ کو حرام چیز کے حلال ٹھہرانے کا وسیلہ قراردیا جاوے وہ حیلہ جائز نہیں ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:163) القریۃ۔ مدین اور کوہ طور کے درمیان سمندر کے ساحل پر ایک بستی۔ حاضرۃ البحر۔ لب دریا۔ سمندر کے کنارے۔ حاضرۃ۔ حضور سے اسم فاعل ہے۔ مضاف البحر مضاف الیہ۔ بحر سے بحیرۂ قلزم مراد ہے۔ یعدون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ عدوان مصدر۔ باب نصر۔ حد شرعی سے تجاوز کر رہے تھے۔ زیادتی کر رہے تھے۔ السبت۔ سنیچر کا دن۔ یوم شنبہ۔ سنیچر کے دن کی تعظیم کرنا۔ کام کاج سے چھٹی کرنا۔ شرعا۔ الشرع۔ سیدھا راستہ جو واضح ہو۔ چناچہ واضح راستہ کو شرع شرع شریعۃ کہا جاتا ہے پھر استعارہ کے طور پر طریق الٰہیہ پر یہ الفاظ بولے جاتے ہیں۔ شرعا شارع کی جمع اسم فاعل ہے۔ شارعۃ الطریق کی جمع شوارع آتی ہے۔ جس کے معنی کھلی سڑک ہے۔ آیہ ہذا میں شرعا کے معنی ہیں کہ (مچھلیاں ان کے سامنے) پانی کے اوپر واضح طور پر آجاتیں۔ لایسبتون۔ جب وہ سنیچر نہیں مناتے تھے۔ یعنی جس دن سنیچر کا دن نہ ہوتا تھا (اور ان کو مچھلیاں پکڑنے کی ممانعت نہ ہوتی تھی) مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ لاتاتیھم۔ وہ ان کے سامنے (بےدھڑک اور نمایاں) نہ آتی تھیں۔ نبلوہم۔ مضارع مجزوم جمع متکلم۔ بلاء سے باب نصر۔ ہم نے ان کو آزمائش میں ڈالا

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3) فریب اور حیلہ سازی سے مچھلیوں کا شکار کرتے تھے انہیں حکم تو یہ تھا کہ اس دن کی تعظیم کریں اور اس میں شکار وغیرہ سے بار رہیں مگر انہوں نے دریا کے کنا رے سے پانی کاٹ کر حوض تعمیر کرلیے جب ہفتہ کے دن ان حوضوں میں مچھلیاں آجاتیں تو ان کا راستہ بند کردیتے اور اتوار کے دن پکڑ لیتے اس سے معلوم ہوا کہ کسی حرام کارتکاب کرنے کے لیے حیلہ سازی بھی حرام ہے حدیث میں ہے لا تر تکبو اما ارتکب الیھود فتسحلوا محارم اللہ باونی الحیل کہ یہود کی طرح شریعت میں حیلے نکال کر اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال مت سمجھو۔ ( ابن کثیر) بائیل کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ سبت کے دن ان کو مکمل طور پر کارو بار بند رکھنے کا حکم تھا مگر وہ اس کی خلاف ورزیاں کرتے رہتے تھے۔4 یا پانی سے سر نکالے ہوئے آجاتیں،5 یعنی ان کے فسق کی وجہ سے ان پر یہ سختی کی گئی تھی،۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 21 ۔ آیات 163 ۔ تا۔ 171 ۔ اسرار و معارف : آپ ذرا ان سے پوچھ کر دیکھیں کہ یہ صرف بات نہیں بلکہ قانون قدرت ہے اور یہ یعنی آپ کے زمانہ کے یہودی بھی اس واقعہ سے پوری طرح باخبر ہیں کہ دریا کنارے یہودیوں کی ہی ایک بستی آباد تھی جن کو یہ حکم دیا گیا کہ ہفتہ کے روز مچھلی کا شکار نہ کیا مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ ہفتہ کے روز تو مچھلیاں پانی کے اوپر سے نظر آنے لگتیں اور دوسرے دنوں میں یہ حال نہ ہوتا بلکہ محنت اور تلاش سے شکار ہاتھ لگتا یا نہ بھی لگتا تو در اصل یہ ان کا امتحان تھا ۔ اس لیے کہ وہ پہلے بھی نافرمانی کیا کرتے تھے اور یہ بھی قانون فطرت ہے کہ نیک لوگوں پہ آزمائش ایایسی ہی آتی ہے جس میں نیکی توفیق نصیب رہتی ہے : نافرمانی پہ خطا کے مواقع بطور امتحان زیادہ کردئیے جاتے ہیںَ یہی کلمات ایران کے بادشاہ نے ایک بار کہے تھے جب اس کے سامنے کسی نے کہا اللہ نے آپ کی حکومت کو بہت خوش حالی بخشی ہے تو کہنے لگا یہ میری منصوبہ بندی ہے اس میں اللہ کہاں سے آگیا پھر جب اللہ کی گرفت آئی تو سب کچھ کھو کر سر چھپانے کی جگہ نہ ملتی تھی ہلاک ہوگیا تو قبر کے لیے ترستا تھا۔ ارشاد ہوتا ہے کہ قارون بھی یہ بات بھول گیا کہ اس سے پہلے بڑے بڑے مالدار اور طاقتور اپنے گناہوں کے سبب برباد ہوگئے اور اللہ کو ان کے گناہ پوچھنے نہ پڑے کہ اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہ تھا۔ ایک روز بڑی ٹھاٹھ سے نکلا اور قوم نے دیکھا تو دنیا کے متوالوں نے کہا کاش ہم بھی قارون کی طرح دولت مند ہوتے دیکھو یہ کس قدر دولت مند انسان ہے جبکہ انہی میں جو اہل علم تھے کہنے لگے ارے نادانو دولت دنیا کوئی شے نہیں ہاں اللہ اگر نیکی کی توفیق عطا کرے تو اس پر جو انعامات اللہ کے پاس ہیں وہ بہت اعلی دولت ہے مگر اسے وہی لوگ پاسکیں گے جنہوں نے نیکی پر استقامت اختیار کی۔ بالآخر قارون کو اللہ نے اس کے محلات اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا اور ساری دنیا میں کوئی اس کی مدد نہ کرسکا نہ وہ اس دولت کر بل بوتے پر اپنے لیے کوئی مدد حاصل کرسکا اور سامان عبرت بن گیا حتی کہ کل تک جو اس جیسا بننے کی آرزو کرتے تھے کہنے لگے کہ یہ سب اللہ کا کام ہے کہ جسے چاہے زیادہ رزق بخش دے اور اپنے بندوں میں جس پہ چاہے رزق کی تنگی کردے اگر ہم پر اسکا احسان نہ ہوتا تو ہم بھی قارون کے ساتھ زمین میں دھنس چکے ہوتے اور حق بات تو یہ ہے کہ کافر کبھی بھلائی نہیں پاسکتے۔ لا اکراہ فی الدین : یہ تو بہت سیدھی سی بات ہے کہ جو لوگ اللہ کریم کی کتاب کو پوری قوت سے پکڑتے ہیں یعنی اس پر عمل کرنے میں پوری محنت صرف کرتے ہیں اور عبادات کو اختیار کرتے ہیں تو ایسے نیک لوگوں کا اجر کبھی ضائع نہیں جاتا بلکہ ان کو تو نیکی پر قائم رکھنے میں بہت کوشش بھی کی گئی یہ بھی اللہ کریم کی رحمت تھی کہ ان پر پہاڑ کو معلق کردیا گیا اور انہیں نظر آرہا تھا کہ ابھی گرا کہ را اور فرمایا کہ اللہ کی کتاب کو پوری محنت سے اختیار کرو جو حکم دے اسے یاد کرکے اس پر عمل اختیار کرو تاکہ تمہارے قلوب میں تقوی کا وصف پیدا ہوسکے بعض لوگ دین پر عمل کرانے کو اکراہ فی الدین سمجھتے ہیں حالانکہ اس کا معنی یہ ہے کہ کسی کو دین قبول کرنے پہ مجبور نہ کیا جائے گا اور یہ کسی بھی دین میں جائز نہ تھا مگر دین قبول کرنے کے بعد عمل میں سستی کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں سے عمل کروائے۔ بلکہ تعزیرات میں ایسے لوگوں کے لیے سزائیں مقرر ہیں۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح آیات نمبر 163 تا 166 بنی اسرائیل کی زندگی کے مختلف پہلوئو کا ذکر فرمایا جار ہا ہے اسی میں سے یہ ایک واقعہ ہے جو انہیں ایلہ کے مقام پر پیش آیا۔۔۔۔ واقعہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل کا قبیلہ جو ایلہ میں آباد تھا اور کا گذر بسر مچھلیوں پر تھا۔ اس قوم کو آزمانے کے لئے کہا گیا کہ تم ہر روز مچھلی کا شکار کرسکتے ہو۔ صرف ہفتہ کے دن تمہیں شکار کرنے کی اجازت نہیں ہے توریت کی بعض آیات سے بھی اس طرف اشارے ملتے ہیں کہ اسی وجہ سے یہودیوں نے ہفتہ کے دن ہر طرح کے کام کاج کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔ ہفتہ کے دن شکار کی ممانعت ان کا محض امتحان تھا ان کو مزید آزمانے کے لیے اللہ نے یہ انتظام فرمایا کہ جب ہفتہ کا دن ہوتا جس دن شکار کرنا منع تھا تو تہہ کی مچھلیاں بھی پانی کے اوپر آجاتیں اور جب اتوار سے جمعہ تک شکار کرنے کی اجازت تھی تو اوپر کی مچھلیاں بھی پانی کی تہہ میں چلی جاتیں۔ بنی اسرائیل نے کچھ دن تو برداشت کیا ۔ پھر اس کے بعد انہوں نے حیلے بہانے کرنے شروع کردیئے۔ طریقہ یہ اختیار کیا کہ اس سمندر کے کنارے انہوں نے چھوٹے چھوٹے تالاب بنا کر انہیں چھوٹی چھوٹی نالیوں سے ملادیا جب ہفتہ کا دن آتا اور تہہ کی مچھلیاں اوپر آجاتیں تو وہ ان نالیوں کو کھول دیتے جن سے سمندر کا پانی مچھلیوں کے ساتھ ان تالابوں میں جمع ہوجاتا۔ اس طرح وہ بظاہر خود تو شکار نہیں کرتے تھے لیکن پانی کے ریلے کے ساتھ جو مچھلیاں ان کے تالابوں میں جمع ہوجاتیں ان کو اتوار کے دن خوب مزے لر لے کر کھاتے اور کہتے کہ ہم نے ہفتہ کے دن شکار نہیں کیا بلکہ یہ مچھلیاں تو پانی مین بہہ کر خود بخود ہمارے تالابوں میں آگئی ہیں۔ یہ بات ایسی تھی کہ وہ قوم اس امتحان میں فیل ہوگئی۔ ان کی چالا کی اللہ کو پسند نہیں آئی اور اللہ نے اس پوری نافرمان قوم کو شرف انسانیت سے محروم کر کے جانور یعنی بندروں کی شکل میں تبدیل کردیا جا چند روز زندہ رہ کر سب کے سب مر گئے۔ مفسرین کا خیال ہے کہ ان کو بندر نہیں بلکہ بندروں جیسی شکلیں دیدی گئی تھیں یعنی ان کے چہرے اس طرح پھول گئے تھے کہ جیسے بندروں کے پھولے ہوئے ہوتے ہیں بہر حال صحیح کیفیت کا علم تو اللہ کو ہے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوم شرف انسانیت سے محروم کردی گئی تھی۔ جب ان کو ان کے نبی یہ بتاتے کہ دیکھو اگر تم اللہ کی نا فرنی نہ چھوڑی اور اسی طرح تاویلیں کر کرکے اللہ کو ناراض کرتے رہے تو تم پر عذاب آجائے گا اور تم اس سزا سے بچ نہ سکو گے۔ وہ کہتے کہ ہمیں ہمارے حال پر چھور دو ۔ جب تمہیں یقین ہے کہ ہم پر عذاب آجائے گا تو نصیحتیں کیوں کرتے ہو۔ ان کا جواب یہی ہوتا کہ ہم محض اس لئے کہہ رہے ہیں کہ کل اللہ کے ہاں جا کر اس کی معذرت تو کرلیں گے کہ اے اللہ ہم نے تو ان کو اچھی طرح سمجھایا تھا مگر یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ لوگ جو نصیحت کا حق ادا کرتے ہیں ان کو نجات ملتی ہے اور جو لوگ نافرمانی کرنے والے ہیں ان کو شدید ترین عذاب دیا جاتا ہے ۔ چنانچہ اللہ نے ہفتہ کے دن نافرمانی کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دی اور جنہوں نے نصیحت کا حق ادا کردیا تھا اللہ نے ان کو نجات عطا فرمادی اور باقی ساری قوم کو بندر بنا کر ہلاک کردیا۔ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے 2) جو لوگ گناہ کرتے ہوئے اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ ہم گناہ گار ہیں تو ان کو کبھی نہ کبھی توبہ کی توفیق مل جاتی ہے لیکن جو اپنے گناہوں کو کرنے میں مختلف تاویلیں کر کرے اپنے آپ کو مطمئن کرلیتے ہیں وہ اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے اور ان کو توبہ کی بھی توفیق نہیں ملتی ۔ 3) وہ لوگ جن کو اللہ نے نصیحت کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے اگر وہ اس فریضہ کو ادا کرتے رہے اور نصیحت کرتے رہے اور سننے والوں نے نصیحت حاصل نہ کی تو کم از کم اللہ کے ہاں وہ لوگ اس بات پر معذرت تو کرسکتے ہیں کہ ہم نے سمجھایا مگر وہ نہ سمجھے۔ 4) جب اللہ کی نافرمانی حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ مختلف شکلوں میں اپنا عذاب مسلط کردیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے فرمانوں کو شرف انسانیت سے محروم کر کرے جانوروں کی شکل اور مزاج میں ڈھال دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نافرمانی سے محفوظ فرمائے اور نیکیاں کرنے اور نیکیوں کو پھیلانے کی توفیق عطا فر مائے اور برے انجام سے محفوظ فرمائے۔ آمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس قریہ کا نام اکثر نے ایلہ لکھا ہے قرب سحر کی وجہ سے یہ لوگ ماہی گیری کے شوقین تھے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں کی دنیا پرستی اور اللہ تعالیٰ کی پرلے درجے کی نافرمانی کا ایک اور واقعہ۔ یہودی اس قدر دنیا پرست اور ناعاقبت اندیش قوم ہے کہ دنیا کے مقابلے میں ان کے نزدیک دین اور اخلاقی قدروں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اصحاب السّبت کا واقعہ یہودیوں کے ہاں ہمیشہ سے معروف رہا ہے۔ اس لیے یہ واقعہ بیان کرنے سے پہلے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ انھی سے استفسار فرمائیں کہ اس بستی کا کیا واقعہ اور معاملہ ہے ؟ جو سمندر کے کنارے واقع تھی جنھیں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ ہفتہ کے دن کاروبار کرنے کی بجائے تمہیں صرف میری ہی عبادت کرنی چاہیے لیکن انھوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی۔ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں اس طرح آزمائش میں ڈالا کہ ہفتہ کے دن مچھلیوں کے بڑے بڑے ریلے پانی کے اوپر تیرتے دکھائی دیتے تھے۔ شُرَّعًا کا معنی ہے ’ ’ نیزے کی انی “ جو نیزے کے سامنے دکھائی دیتی ہے گویا کہ ہفتہ کے دن مچھلیاں اس قدر بہتات کے ساتھ پانی کی سطح پر تیرتی اور اچھلتی تھیں جیسا کہ دیکھنے والوں کے ساتھ آنکھ مچولی کر رہی ہوں۔ جونہی مچھلیوں کے ریلے نظر آئے تو انھوں نے اپنی مجرمانہ ذہنیت سے یہ صورت نکالی کہ بحر قلزم کے کنارے پانی کے بڑے بڑے گھاٹ اور تالاب تیار کیے جائیں تاکہ مچھلیاں ہفتہ کے دن دریا سے پکڑنے کے بجائے اتوار کے دن پکڑی جائیں۔ بظاہر اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی بھی نہ ہو اور لوگوں کی نظروں میں بدنامی سے بھی بچ سکیں۔ لیکن مچھلیاں بھی ہاتھ سے نہ جانے پائیں۔ کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں سازش اور حیلہ سازی کی تھی جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں ذلیل ترین عذاب میں مبتلا کیا اور حکم صادر فرمایا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ کیونکہ ان کے دل و دماغ بندروں کی طرح شرارت سوچتے تھے۔ اس لیے ان کی شکلوں کو بھی بندر بنا دیا گیا۔ ان کی شکلیں اس قدر ذلیل اور حقیر بنا دی گئیں کہ دیکھنے والا ان پر لعنت کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس حالت میں وہ تین دن کے اندر تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ اس صورت حال میں بستی کے لوگ فکری اور عملی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک گروہ وہ تھا جنھوں نے بار بار مجرموں کو اس حرکت سے روکا۔ دوسرے لوگ وہ تھے جو کسی کمزوری یا مصلحت کی خاطر یہ کہہ کر ان سے الگ ہوگئے کہ انھیں سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لہٰذا ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ کیونکہ یہ رب ذوالجلال کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں۔ اگر یہ اسی طرح اللہ کے حکم کے ساتھ مذاق کرتے رہے تو عنقریب شدید ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ لیکن سمجھانے والے لوگ الگ ہونے والوں کو کہتے کہ ہم انھیں اس لیے سمجھا رہے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارا یہ عذر قبول ہو اور ہم اس کے عذاب سے بچ جائیں۔ حضرت ابن عباس (رض) کے شاگرد رشید عکرمہ (رض) بیان کرتے ہیں میں ایک دن حضرت ابن عباس (رض) کے پاس حاضر ہوا تو وہ رو رہے تھے ان کی گود میں قرآن مجید پڑا تھا میں نے عرض کی کہ آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے سورة الاعراف کی ان آیات کی تلاوت کی اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجرمین کو سزاد ی اور ان کو مسخ کرکے بندر بنا دیا اور جو فریق ان کو برائی سے منع کرتا تھا۔ اس کا ذکر فرمایا کہ اس کو نجات دے دی اور تیسرا فریق جو ان کو منع نہیں کرتا تھا اس کا ذکر نہیں فرمایا کہ ان کی نجات ہوئی یا نہیں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم بھی کئی کاموں کو برا سمجھتے ہیں۔ لیکن لوگوں کو منع نہیں کرتے اللہ جانے ہماری نجات ہوگی یا نہیں۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ میں آپ پر قربان ہوں کیا اس فریق نے ان کاموں کو برا نہیں سمجھا تھا ؟ قرآن مجید سے معلوم ہو رہا ہے کہ انھوں نے مچھلیاں پکڑنے والوں سے نفرت کا اظہار کیا اور ان سے الگ ہوگئے۔ ان کے عذاب سے بچنے کی یہ واضح دلیل ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) میرے اس جواب سے خوش ہوئے اور مجھے دو چادریں تحفۃً عنایت فرمائیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں حیلے تلاش کرنا اس کے غضب کو چیلنج کرنا ہے۔ ٢۔ تبلیغ کا فریضہ ہر حال میں ادا کرتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ کسی مجبوری کی وجہ سے تبلیغ کا فریضہ ادا نہ ہو سکے تو مجرموں سے الگ ہوجاتا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن یہودیوں کی سزائیں : ١۔ ہم نے یہودیوں پر ان کی سرکشی کی وجہ سے ناخن والے جانور، گائے اور بھیڑ کی چربی حرام کردی۔ (الانعام : ١٤٧) ٢۔ یہودیوں پر ذلت اور محتاجی مسلط کردی گئی۔ (البقرۃ : ٦١) ٣۔ یہودیوں کو بندر بنا دیا گیا۔ (٦٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب پھر بنی اسرائیل معصیت اور سرکشی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس بار وہ کھلے بندے احکام الٰہی کی خلاف ورزی نہیں کر رہے بلکہ تاویل سے کام لے رہے اور احکام سے گلو خلاصی کر رہے ہیں۔ جب ان کو آزمایا جاتا ہے تو صبر نہیں کرتے کیونکہ ابتلاء اور مشکلات پر وہ لوگ صبر کرتے ہیں جن کی طبیعت سنجیدہ ہو اور جو ذاتی خواہشات اور ہر قسم کی لالچ کے مقابلے میں ضبط رکھتے ہوں۔ ۔۔ یہاں قرآن نے بنی اسرائیل کے احوال ماضی کے بیان کو چھوڑ کر ، اب ان بنی اسرائیل کے بارے میں بیان کرنا شروع کیا ہے جو سابقہ بنی اسرائیل کی اولاد تھے اور حضور کے دور میں موجود تھے۔ یہ لوگ مدینہ میں بھی تھے۔ یہ آیات آیت واذ نتقنا الجبل فوقہم تک مدنی آیات ہیں۔ یہ مدینہ میں یہودیون کے ساتھ مکالمے کے طور پر نازل ہوئیں اور انہیں مضمون کے اعتبار سے اس مکی سورت میں رکھ دیا گیا تاکہ بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کا مضمون مکمل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ان سے اس واقعہ کے بارے میں دریافت کریں جو ان کے ہاں بہت ہی مشہور و معروف ہے اور ان کی تاریخ میں درج ہے۔ قرآن کریم اگلے اور پچھلے بنی اسرائیل کو ایک ہی امت سمجھتا ہے۔ ان کو وہ جرائم بھی یاد دلاتا ہے جو مختلف ادوار میں ان سے سرزد ہوئے اور اس کے بدلے میں اللہ نے انہیں بندر بنا دیا اور ان پر مسخ جیسا عذاب نازل ہوا۔ ان پر ذلت اور اللہ کا غضب مسلط ہوگئے۔ ہاں ان سب عذابوں سے وہ لوگ بہرحال محفوظ رہے ہوں گے جنہوں نے نبی آخر الزمان کی مطابقت اختیار کی اور اس کی وجہ سے ان کے کاندھوں سے بوجھ اتر گئے اور جو بیڑیاں انہیں لگی ہوئی تھیں ، وہ کھل گئیں۔ سمندر کے کنارے والی بستی کون سی تھی۔ قرآن نے اس کا نام نہیں لیا کیونکہ نام لینے کی ضرورت ہی نہ تھی اور گاؤں کا نام مخاطبین کے ذہنوں میں تھا۔ اس واقعہ کے کردار بنی اسرائیل کے سرکردہ لوگ تھے اور یہ کسی ساحلی شہر میں آباد تھے۔ بنی اسرائیل نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ہفتے میں ان کے لیے ایک چھٹی کا دن مقرر کیا جائے جو آرام اور عبادت کا دن ہو۔ اور اس میں ان کے لیے معاشی سرگرمیاں منع ہوں۔ ہفتے کا دن ان کے لیے ایسا دن مقرر کیا گیا۔ اب اللہ نے اس دن کے بارے میں انہیں آزمائش میں ڈال کر یہ سمجھانا چاہا کہ وہ زندگی کی دلکشیوں اور لالچوں سے کس طرح چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ اور بنی اسرائیل کے لیے یہ ضروری بھی تھا اس لیے کہ وہ ایک طویل عرصے تک غلامی کی زندگی بسر کرتے رہے تھے اور غلاموں کے ضمیر بدل جاتے ہیں اور ان کے اندر اخلاقی کمزوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ذلت اور غلامی سے بدنی نجات کے بعد یہ ضروری ہے کہ انسان ذہناً اور اخلاقاً بھی غلامی سے نجات پا جائے تاکہ وہ صحیح اور صالح زندگی بسر کرسکے۔ خصوصاً وہ لوگ جو داعی کے مقام پر فائز ہوں۔ ان کے لیے تو ایسی اخلاقی تربیت فرض عین ہے۔ پھر خصوصاً ان لوگوں کے لیے جن کے ذمے خلافت فی الارض کی ذمہ داری بھی ہے اور وہ مناصب حکمرانی پر فائز ہوں۔ ارادے کی پختگی اور نفس پر ضطب کے معاملے میں پہلی آزمائش آدم و حوا کی ہوئی اور ان سے لغزش ہوگئی اور انہوں نے شیطان کے ورغلانے کی وجہ سے شجرۂ خلد کو چکھ لیا اور یہ لالچ کیا کہ ان کی حکمرانی دائمی ہوجائے اور ان کے بعد بھی ہر وہ جماعت جسے اللہ نے منصب خلافت فی الارض عطا کیا اسے آزمایا گیا۔ مختلف اقوام کو مختلف انداز اور مختلف حالات میں ضرور آزمایا گیا۔ لیکن اس آزمائش میں بنی اسرائیل پورے نہ اترے۔ اس لیے کہ وہ اس سے قبل بار بار وعدہ خلافی کرچکے تھے اور بار بار انہوں نے سرکشی اختیار کی تھی۔ آزمائش یوں ہوئی کہ ہفتے کے روز مچھلیاں ساحل کے قریب آجاتیں۔ ان کا شکار سہل ہوجاتا ، لیکن وہ یہ مچھلیاں اس لیے نہ پکڑ سکتے تھے کہ ہفتے کو شکار کرنا حرام تھا۔ اور اس حرمت میں خود ان کی خواہش شامل تھی۔ جب ہفتہ نہ ہوتا اور وہ شکار کے لیے نکلتے تو مچھلیاں قریب نہ ہوتیں جیسا کہ ہفتے کو وہ دیکھا کرتے تھے۔ یہ وہ بات تھی جسے حضور اکرم کے ذریعے اللہ انہیں یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ذرا یاد کریں کہ انہوں نے اس حرمت کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ۘاِذْ يَعْدُوْنَ فِي السَّبْتِ اِذْ تَاْتِيْهِمْ حِيْتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّيَوْمَ لَا يَسْبِتُوْنَ ۙ لَا تَاْتِيْهِمْ ڔ كَذٰلِكَ ڔ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ۔ اور ذرا ان سے اس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔ انہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور سب کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ مچھلیوں کا یہ واقعہ کیسے پیش آگیا ، تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یہ خارق عادت اور ایک غیر معمولی واقعہ تھا کہ مچھلیاں ساحل کے قریب بڑی تعداد میں دوڑتی پھرتیں اور اگر کوئی پکڑتا تو بسہولت پکڑ سکتا۔ آج کل بعض لوگ خود اللہ کے جاری کیے ہوئے قوانین کونیہ کو قوانین طبعیہ کا نام دے کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی بات نہیں ہوسکتی تو یہ ان کا مجرد دعویٰ ہے۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق بات ایسی نہیں ہے۔ اللہ جل شانہ نے خود اس کائنات کو بنایا ہے اور اس کے اندر جو طبعی قوانین جاری کیے ہیں وہ اس نے یہاں ودیعت کیے ہیں۔ یہ اللہ کی مشیت ہے۔ اللہ کی یہ مشیت خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کی پابند نہیں ہے کہ وہ صرف اپنے بنائے ہوئے قوانین کے خلاف نہ جاسکتی ہو۔ ان قوانین کے بعد بھی مشیت الہیہ آزاد ہے۔ جن لوگوں کو اللہ نے حقیقی علم دیا ہے وہ اس نکتے سے غافل نہیں ہوتے۔ اگر اللہ کی حکمت اور مشیت کا تقاضا یہ تھا کہ انسانوں کی بھلائی اس میں ہے کہ یہ قوانین فطرت درست طور پر کام کرتے رہیں تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ اللہ کی مشیت ان قوانین کے ہاتھ میں قید ہوگئی۔ جس وقت بھی اللہ کی مشیت یہ چاہے کہ کوئی واقعہ ان قوانین کے خلاف وقوع پذیر ہوجائے تو ایسا ہوسکتا ہے۔ خصوصاً ان قوانین کے مطابق جو جزئی واقعہ بھی ہوتا ہے۔ (اگر کوئی پتا بھی گرتا ہے) تو وہ اللہ کے نظام تقدیر کے مطابق واقع ہوتا ہے۔ یوں نہیں ہے کہ یہ اسباب و مسببات اب مشیت الہیہ سے آزاد ہوگئے ہیں۔ ہم کہتے ہیں نظام قوانین طبعی بھی مشیت کا پابند ہے لہذا جو جزئی واقعہ قوانین طبعیہ کے مطابق ہوتا ہے یا خلاف یہ اللہ کے علم و قدر کے مطابق ہوتا ہے۔ لہذا مطابق عادت واقعہ اور خارق عادت واقعہ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ اس نظام کائنات میں خود کاری نہیں ہے جیسا کہ بعض سطح میں لوگوں کو نظر آتا ہے۔ بعض فلاسفہ نے اب اس بات کو سمجھنا شروع کردیا ہے۔ (دیکھئے فی ظلال القرآن ج 7، ص 520، 522) بہرحال بنی اسرائیل کی ایک ساحلی آبادی پر یہ واقعہ پیش آیا۔ چناچہ اس آزمائش میں بعض لوگ گر جاتے ہیں۔ ان کے عزائم شکست کھا جاتے ہیں۔ وہ اپنے رب کے ساتھ کیے ہوئے اپنے پختہ عہد کو بھول جاتے ہیں ، یہ حیلہ سازی شروع کردیتے ہیں اور حیلے بہانے یہودیوں کا پرانا طریقہ ہے۔ جب دلوں میں کجی آجائے اور خدا خوفی ختم ہوجائے تو انسان حیلے بہانے ہی تلاش کرتا ہے۔ پھر لوگ نصوص کی عبادات کے ساتھ کھیلتے ہیں اور مقصد اور معانی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی قانون کی حفاظت اس کے دفعات و عبارات کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔ قانون اور ضابطے کی پابندی دلوں کے ساتھ ہوتی ہے اور دل تب قانون کی پابندی کرتے جب ان کے اندر تقوی اور خشیت ہو۔ ایک متقی اور خدا سے ڈرنے والا دل ہی قانون کی حفاظت کرسکتا ہے۔ اور جب کوئی قوم دل و جان سے کسی قانون کی حفاظت کرنا چاہے تو اس کے بارے میں لوگ حیلے بہانے نہیں کرسکتے۔ لیکن اگر کسی قانون کی حفاظت صرف حکومتی ذرائع سے مغلوب ہو ، محض خوف سزا سے پابندی کرائی جائے تو اس طرح کبھی نہیں ہوسکتا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی حکومت ہر فرد پر ایک نگراں مقرر کردے۔ اور وہ نگراں تنہائی اور مجمع دونوں میں پوری پوری نگرانی کرسکتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام قانونی اسکیمیں فیل ہوجاتی ہیں جن کی قوت نافذہ لوگوں کا دلی تقویٰ اور دلی میلان نہ ہو اور اسی طرح وہ تمام نظامہائے زندگی ناکام رہتے ہیں جو بعض انسانوں نے دوسرے انسانوں کے لیے بنائے ہیں اور جس میں قوت نافذہ خوف خدا پر مبنی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام ادارے ناکام ہوجاتے ہیں جن کے ذمے قوانین کا نفاذ ہوتا ہے۔ پھر ان اداروں پر نگران ادارے بھی ناکام ہوجاتے ہیں (کرپشن میں ترقی ہوتی ہے اور انٹی کرپشن ادارہ کرپٹ ہوتا ہے) اور ان کا کام اول سے آخر تک سطحی ہوجاتا ہے۔ چناچہ اس گاؤں کے باسیوں نے اس قانون کی خلاف ورزی کے سلسلے میں حیلہ سازیاں شروع کردیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ہفتے کے دن مچھلیوں کو گھیرنے کے لیے بند باندھ دیتے اور جب ہفتے کا دن نہ ہوتا تو یہ لوگ جلدی سے آکر مچھلیاں پکڑ لیتے۔ اب دل کو تسلی یوں دیتے کہ انہوں نے ہفتے کے دن بہرحال مچھلیوں کو ہاتھ نہیں لگایا۔ مچھلیاں بہرحال بندوں کے اندر پانی میں ہوتیں۔ اور ان میں سے اچھے لوگوں کا ایک گروہ سامنے آیا۔ اس نے ان لوگوں پر تنقید کی جو یہ حیلہ سازی کرتے تھے ، یہ لوگ انہیں تلقین کرتے تھے ، خدا سے ڈروا اور ایسا نہ کرو ، اور ایک تیسرا گروہ ایسے نیک لوگوں کا بھی سامنے آگیا جو کہتا کہ یہ تنقید کرنے والے لوگ بےفائدہ کام کر رہے ہیں کیونکہ یہ لوگ جس کام میں پڑگئے ہیں ان کے لیے نصیحت و تنقید سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ اللہ نے ان کو سزا دینا اور ہلاک کرنا لکھ دیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سنیچر کے دن یہودیوں کا زیادتی کرنا اور بندر بنایا جانا بنی اسرائیل کی حرکتیں بھی بہت بری تھیں ان کا نافرمانی کا مزاج تھا۔ ان پر آزمائش بھی طرح طرح سے آتی رہتی تھی، حکم تھا کہ سنیچر کے دن کی تعظیم کریں ان دنوں سے متعلق جو احکام تھے ان میں یہ بھی تھا کہ اس دن مچھلیاں نہ پکڑیں۔ لیکن یہ لوگ باز نہ آئے سنیچر کے دن ان کی آزمائش اس طرح ہوتی تھی کہ مچھلیاں خوب ابھر ابھر کر سامنے آجاتی تھیں اور دوسرے دنوں میں اس طرح نہیں آتی تھیں۔ ان لوگوں نے مچھلیوں کے پکڑنے کے حیلے نکالے اور یہ کہا کہ سنیچر کا دن آنے سے پہلے جال اور مچھلی کے کانٹے پہلے سے پانی میں ڈال دیتے تھے۔ چناچہ مچھلیاں ان میں پھنس کر رہ جاتی تھیں۔ جب سنیچر کا دن گزر جاتا تھا تو ان کو پکڑ لیتے تھے اور اپنے نفسوں کو سمجھا لیتے تھے کہ ہم نے سنیچر کے دن ایک مچھلی بھی نہیں پکڑی، وہ تو خود بخود جالوں میں اور کانٹوں میں آگئیں اور جال اور کانٹے تو ہم نے جمعہ کے دن ڈالے تھے لہٰذا ہم سنیچر کے دن پکڑنے والوں کی فہرست میں نہیں آتے، اسی طرح کا ایک حیلہ انہوں نے مردار کی چربی کے ساتھ بھی کیا۔ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ یہودیوں پر اللہ لعنت کرے جب اللہ نے ان پر مردار کی چربی حرام قرار دیدی تو اس کو انہوں نے اچھی شکل دے دی (مثلاً اس کو پگھلا کر اس میں کچھ خوشبو وغیرہ ملا کر کیمیکل طور پر کچھ اور بنا دیا) پھر اس کو بیچ دیا اور اس کی قیمت کھا گئے۔ (رواہ البخاری ص ٢٩٨ ج ١) ان لوگوں میں تین جماعتیں تھیں کچھ لوگ سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑتے تھے اور کچھ لوگ ایسے تھے جو انہیں منع کرتے تھے اور ایک جماعت ایسی تھی جو خاموش تھی، جو لوگ خاموش تھے انہوں نے ان لوگوں سے کہا جو منع کرتے تھے۔ کہ آپ لوگ ان کو کیوں نصیحت کرتے ہیں ان کا بات ماننے کا ارادہ نہیں ہے۔ نافرمانی کے باعث اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی گرفت ہونے والی ہے یا تو اللہ تعالیٰ ان کو بالکل ہی ہلاک فرما دے گا یا سخت عذاب میں مبتلا فرمائے گا۔ جو لوگ منع کیا کرتے تھے انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیشی کے وقت ہم معذرت پیش کرسکیں کہ ہم نے نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا تھا ان لوگوں نے نہ مانا، اور ممکن ہے کہ یہ لوگ مان ہی جائیں اپنے رب سے ڈرنے لگیں اور اپنے گناہوں سے بچنے لگیں، لیکن ان لوگوں نے نہ مانا بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت فرما لی۔ ان پر اس طرح عذاب آیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بندر بنا دیا، جو لوگ سنیچر کے دن میں زیادتی کرتے تھے وہ تو بندر بنا دئیے گئے اور جو لوگ انہیں منع کیا کرتے تھے انہیں نجات دے دی گئی جن کو (اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْھَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ ) میں بیان فرمایا، حضرت ابن عباس (رض) کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ جو لوگ خاموش تھے ان کا کیا ہوا ؟ ان کے شاگرد حضرت عکرمہ نے عرض کیا میری سمجھ میں تو یوں آتا ہے کہ وہ بھی عذاب سے بچا لیے گئے کیونکہ انہیں بھی شکار کرنے والوں کا عمل نا گوار تھا اور اسی نا گواری کو انہوں نے اپنے ان الفاظ میں یوں ظاہر کیا تھا۔ (لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَان اللّٰہُ مُھْلِکُھُمْ اَوْ مُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا) اللہ تعالیٰ نے ان کو نجات دینے کا تذکرہ نہیں فرمایا اور ہلاک کرنے کا ذکر بھی نہیں فرمایا، عکرمہ کی یہ بات حضرت ابن عباس (رض) کو بہت پسند آئی اور بہت خوش ہوئے اور انہیں دو چادریں انعام میں عطا کیں۔ (معالم التنزیل ص ٢٠٩ ج ٢) سنیچر کے دن زیادتی کرنے والوں کو بندر بنا دیا گیا تھا جس کا ذکر یہاں سورة اعراف میں بھی ہے اور سورة بقرہ میں بھی گزر چکا ہے۔ (انوار البیان جلد اول) جس بستی کے رہنے والے حیلہ باز یہودیوں کا قصہ اوپر مذکور ہوا ہے اس کے بارے میں علماء تفسیر نے کئی قول نقل کیے ہیں ١۔ ایلہ ٢۔ طبریہ ٣۔ مقنا، متعین طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ عبرت حاصل کرنے کے لیے تعیین کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ بنی اسرائیل پر دنیا میں عذاب آتا رہے گا : بنی اسرائیل اپنی حرکتوں کی وجہ سے بندر بنا دیئے گئے یہ تو اس وقت ہوا اور اس کے بعد ان پر برابر ایسے لوگوں کا تسلط رہا جو ان کو تکلیفیں دیتے رہے اور یہودی بری بری تکلیفوں میں مبتلا ہوتے رہے اس کو (وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْھِمْ ) (الآیۃ) میں بیان فرمایا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہودیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہاتھ سے پھر بخت نصر کے ذریعہ جو ان کی بربادی ہوئی اور پھر نبی آخر الزمان سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پھر فاروق اعظم حضرت عمر فاروق بن الخطاب (رض) کے ہاتھوں جو ان کی ذلت ہوئی تاریخ دان اس سے ناواقف نہیں ہیں۔ حضرت فاروق اعظم (رض) کے بعد بھی دنیا میں مقہور ہی رہے ذلت اور خواری کے ساتھ ادھر ادھر دنیا میں کبھی آباد اور کبھی برباد ہوتے رہے۔ پچاس سال پہلے نازیوں نے جو ان کا قتل عام کیا تھا تاریخ کا مطالعہ کرنے والے اس سے واقف ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں بھی یہودی مارے جائیں گے۔ وہ دجال کو قتل کریں گے اور اس وقت دجال کے ساتھیوں کی بربادی ہوگی۔ دنیا کی قومیں ظاہری اقتدار دیکھ کر دجال کے ساتھ ہوجائیں گی جن میں یہودی بھی ہوں گے۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اصفہان کے یہودیوں میں سے ستر ہزار یہودی دجال کا اتباع کریں گے جو چادریں اوڑھے ہوئے ہوں گے۔ (صحیح مسلم ص ٤٠٥ ج ٢) چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سر زمین شام میں دجال کو قتل کریں گے اور اس کے ساتھیوں سے وہیں معرکہ ہوگا اس لیے تکوینی طور پر دنیا بھر سے اپنے رہنے کے علاقے کو چھوڑ چھوڑ کر یہودی شام کے علاقے میں جمع ہو رہے ہیں اور ان کی جھوٹی حکومت جو نصاریٰ کے بل بوتے پر قائم ہے وہ ان کے ایک جگہ جمع ہونے کا سبب بن گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ مسلمان یہودیوں سے قتال نہ کرلیں مسلمان ان کو قتل کریں گے یہاں تک کہ کوئی یہودی کسی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپ جائے گا تو درخت یا پتھر کہے گا کہ اے مسلم اے اللہ کے بندے یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے اسے قتل کر دے البتہ غر قد کا درخت ایسا نہ کرے گا کیونکہ وہ یہودیوں کے درختوں میں سے ہے۔ (رواہ مسلم ص ٣٩٦ ج ٢)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

161:“ قِصَصْ ” کے اختتام پر اصحاب سبت کا واقعہ ذکر فرمایا اور اس سے مقصود تخویف دنیوی ہے۔ “ اَلْقَرْیَةَ ” سے “ اَیْلَة ” مراد ہے جو مدین اور طور کے درمیان سمندر کے کنارے پر واقع تھا۔ ہفتہ کا دن دین موسوی میں قابل تعظیم تھا اور اس دن میں مچھلی کا شکار ان کے لیے جائز نہیں تھا۔ لیکن ان کے ابتلاء و امتحان کے لیے اللہ کے حکم سے ہفتہ کے دن مچھلیاں پانی کے اوپر کنارے سے بالکل قریب کثرت سے آجائیں اور باقی ایام میں غائب رہتیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر انہوں نے یوم سبت کی تعظیم کو بالائے طاق رکھ کر مچھلی کا شکار کرنا شروع کردیا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ابلیس نے ان کو یہ حیلہ بتایا کہ وہ سمندر کے کنارے حوض بنا لیں اور جمعہ کے دن مچھلیوں کو ہانک کر حوض میں ڈال دیا کریں اور اتوار کے دن پکڑ لیا کریں۔ چناچہ انہوں نے اس حیلے سے اللہ کے حکم کو توڑا تو اللہ نے ان پر عذاب نازل فرمایا اور وہ سب بندر بن گئے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

163 اے پیغبران بنی اسرائیل سے اس بستی کے لوگوں کا حال تو دریافت کیجئے جو بستی سمندر کے کنارے آباد تھی کہ جب اس بستی کے باشندے ہفتہ کے دن کے احکام میں حد سے آگے بڑھ رہے تھے جب ہفتہ کا دن ہوتا تو ان کے دریا کی مچھلیاں پانی پر نمایاں ہوکر ان کے سامنے آجاتی تھیں اور جس دن ہفتہ نہ ہوتا تو مچھلیاں ان کے سامنے نہ آتی تھیں ہم اسی طرح ان لوگوں کی اس نافرمانی کے باعث جس کے وہ خوگر تھے آزمائش کرتے تھے اور اس طرح ان کو آزماتے تھے۔ یعنی ہفتہ کے روز یہود پر مچھلیاں کا شکار ممنوع تھا یہ مذکورہ بستی غالباً ایلہ تھی اس میں اکثر ماہی گیر رہتے تھے چونکہ یہ بےحکمی اور نافرمانی کے عادی تھی اس لئے ان کو اس آزمائش میں مبتلا کیا کہ ہفتہ کے روز مچھلی سمندر میں خوب اٹھتی اور ہفتہ نہ ہوتا تو مچھلی غائب ہوجاتی مچھلیوں کو روبرو پھر وتا دیکھ کر ان کا دل للچاتا آخر دریا کے کنارے حوض بنائے اور نالیاں بنائیں لیکن جو مچھلیاں آتیں وہ ہفتہ کی شام نکل جاتیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت دائود (علیہ السلام) کے عہد میں یہ قصہ ہوا ہے یہود پر ہفتہ کے دن شکار کرنا منع تھا اللہ نے اس شہر والے بےحکم دیکھنے لگا آزمانے ہفتہ کے دن مچھلیاں اوپر پھریں اور دنوں غائب رہیں ان کا جی نہ رہ سکا آخر ہفتہ کو شکار کیا اپنی دانست میں حیلہ کیا کہ کنارہ دریا کے پانی کاٹ لائے کہ مچھلیاں وہاں بند ہور ہیں تو بھی مچھلیاں ہاتھ نہ آئیں ہفتہ کی شام کو نکل جائیں آخر ہفتہ کے دن راہ بھاگنے کی بند کی اتوار کو پکڑ لیا پھر وہ لوگ بندر ہوگئے اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو حلال روزی نہ ملے اور حرام چاہے تو ملے تو اس کو آزمائش ہے آخر وہ روزی وبال ہوگی اور معلوم ہوا کہ حیلہ اللہ پاس کام نہیں آتا۔